وہ کیا اسباب تھے جنہوں نے محمد بن قاسم کو حملے پر مجبور کیا ؟
” ہمیں لشکر کشی کا معاملہ اس لیے پیش آیا کہ تم لوگوں نے سرا ندیپ سے آئے ہوئے مال و اسباب کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو قید کیا۔ جب تم لوگوں نے ایسی معیوب چیزوں کو جائز سمجھا تب مجھے دارا لخلافہ سے تم پر چرھائی کا حکم دیا گیا۔میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے تجھے مغلوب کر کے رسوا کروں گا اور تیرا سر عراق کی طرف روانہ کروں گا یا خود جام شہادت نوش کرو ں گا۔ میں نے یہ جہاد اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فرمان و جاہد و ا الکفار وا لمنافقین کے تحت اپنے اوپر واجب سمجھ کر قبول کیا ہے‘‘ ۔(چچہ نامہ)
اس خط سے بھی یہ واضح ہے کہ حملے کی وجہ مظلوموں کی داد رسی تھی نہ کہ املاک کے حصول اور اپنی خلافت کی توسیع پسندی۔
آخر میں ان "وجوہات"کا تذکرہ کرنا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے ملحدین راجہ داہر سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور اس کے مقابل مسلمان ہیرووں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ وجہ یہ ہے کہ راجہ داہر بھی ملحدین کی "انقلابی فکر"کا پاسباں ہے کہ "ہر عورت عورت ہوتی ہے چاہے ماں ہو یا بہن"۔ رشتوں کا تقدس خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ "الحاد کی معراج"انہیں راجہ داہر کی شکل میں نظر آتی ہے جب اس نے اپنی بہن سے شادی کی۔۔۔! اس کے علاوہ چور ڈاکو راجہ داہر تھا نہ کہ مسلمان جنگ جو۔۔۔!
چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا۔چند سالوں میں وہ فوت ہوگیاتو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنااور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر ۔چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے داہر کے پاس بھیج دیاکہ اس کی شادی کردی جائے۔داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا ۔جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا،بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کرکے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔قزاقی ،لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔�(تاریخ سندھ)،
” ہمیں لشکر کشی کا معاملہ اس لیے پیش آیا کہ تم لوگوں نے سرا ندیپ سے آئے ہوئے مال و اسباب کو لوٹا اور مسلمان عورتوں کو قید کیا۔ جب تم لوگوں نے ایسی معیوب چیزوں کو جائز سمجھا تب مجھے دارا لخلافہ سے تم پر چرھائی کا حکم دیا گیا۔میں اﷲ تبارک و تعالیٰ کی مدد سے تجھے مغلوب کر کے رسوا کروں گا اور تیرا سر عراق کی طرف روانہ کروں گا یا خود جام شہادت نوش کرو ں گا۔ میں نے یہ جہاد اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فرمان و جاہد و ا الکفار وا لمنافقین کے تحت اپنے اوپر واجب سمجھ کر قبول کیا ہے‘‘ ۔(چچہ نامہ)
اس خط سے بھی یہ واضح ہے کہ حملے کی وجہ مظلوموں کی داد رسی تھی نہ کہ املاک کے حصول اور اپنی خلافت کی توسیع پسندی۔
آخر میں ان "وجوہات"کا تذکرہ کرنا مناسب ہو گا جن کی وجہ سے ملحدین راجہ داہر سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور اس کے مقابل مسلمان ہیرووں کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ وجہ یہ ہے کہ راجہ داہر بھی ملحدین کی "انقلابی فکر"کا پاسباں ہے کہ "ہر عورت عورت ہوتی ہے چاہے ماں ہو یا بہن"۔ رشتوں کا تقدس خواہ مخواہ کا تکلف ہے۔ یہ "الحاد کی معراج"انہیں راجہ داہر کی شکل میں نظر آتی ہے جب اس نے اپنی بہن سے شادی کی۔۔۔! اس کے علاوہ چور ڈاکو راجہ داہر تھا نہ کہ مسلمان جنگ جو۔۔۔!
چچ کی موت کے بعد اس کا بھائی چندر راجہ بنا۔چند سالوں میں وہ فوت ہوگیاتو شمالی سندھ میں چچ کا بڑا بیٹا دھرسیہ راجہ بنااور جنوبی سندھ میں چھوٹا بیٹا داہر ۔چچ کی ایک بیٹی تھی، دھرسیہ نے اس کے جہیز کا سامان تیار کیا اور اسے داہر کے پاس بھیج دیاکہ اس کی شادی کردی جائے۔داہر نے ہندو جوتشیوں سے زائچہ نکلوایا ۔جوتشیوں نے کہا کہ آپ کی بہن بہت نصیب والی ہے۔یہ جس کے پاس رہے گی اس کے پاس سندھ کی حکومت ہوگی۔داہر نے اس ڈر سے کہ کہیں اس کے ہاتھوں سے حکومت نہ چلی جائے وزیر باتدبیر سے مشورہ کیا، وزیر نے مشورہ دیا کہ آپ اپنی بہن سے شادی کرلیں، بات اچھی ہو یا بری لوگ دو چار دن یاد رکھتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں۔لوگوں نے تو راج پاٹ کے چکر میں بھائیوں اور باپ تک کو قتل کرادیا،بہن سے شادی تو معمولی بات ہے۔گو کہ وزیر کے مشورے پر عمل کرکے داہر نے اپنی بہن سے شادی رچالی، مگر دھرسیہ کو یہ بات ناگوار گزری اور وہ ایک لشکر جرار لے کر برہمن آباد سے روانہ ہوا اور وادی مہران کے جنوبی علاقے نیرون کوٹ (حیدرآباد) پہنچا اور اس نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔اسی دوران چیچک کی وبا پھیلی اور دھرسیہ فوت ہوگیا۔اب راجہ داہر پورے سندھ کا راجہ بن گیا اور اس کی خود سری حد سے بڑھ گئی۔قزاقی ،لوٹ مار اور غنڈہ گردی کرنے والے داہر کے سایہ عافیت میں پناہ لیتے تھے۔�(تاریخ سندھ)،
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔