ایک ملحد کا سوال ہے کہ اگر آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان تھے تو سب انسانوں کی رنگت اور زبان مختلف کیوں ہے؟ان کی پیغمبری کا محور کون لوگ تھے جب کہ وہ خود ہی پہلے انسان تھے؟
جواب۔۔۔۔
آدم ع پہلے انسان تھے۔ ان کی تبلیغ ان کی اولاد کی ہی پرورش اور ان کو دین سکھانا اور پھر ان کے بعد آنے والے لوگ یعنی ان کی اولادیں۔
تمام جانداروں کے ڈی این اے کو
ٹریک بیک کیا جاۓ تو ایک جوڑے آدم و حوا سے ملیں گے۔ دوران تولید کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے، سپنڈل فائبر پر ماں اور باپ کی خصوصیات مل کر نئ خصوصیت کا حامل انسان بنتا ہے۔ جس سے فنگر پرنٹ تک مختلف ہو جاتے ہیں۔ کئ نسلوں کے گزرنے کے بعد اوصاف میں تبدیلی ممکن ہے۔ ماحول بھی اثر کرتا ہے۔ تمام جانداروں کے ڈی این کا ٹریک جس ایک جوڑے پر جا کر ملتا ہے سائنس اس کو مائٹوکونڈریل ایِو اور مائٹو کونڈرئیل آدم کہتی ہے۔ مگر سائنس کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کب اس دنیا میں تھے اور وہ اکٹھے تھے یا مختلف ادوار میں۔ بحرحال یہ کوئ بڑا مسلہ نہیں۔
اسی طرح سے اگر مختلف زبانوں کو ٹریک بیک کیا جاۓ تو وہ بھی ایک زبان پر ہی جا کر ملیں گی جس زبان سے تمام زبانوں کا آغاز ہوا۔ جیسے جیسے انسانوں کی آبادیوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے مختلف الفاظ اور لہجے وجود میں آتے ہیں۔ جیسے پنجابی کے کئ لہجے ہیں زبان وہی ہے۔ ایک دم سے زبان نہیں بدل جاتی۔ گوجرانوالہ سے پہاولپور کی طرف سفر شروع کر دیں۔ ہر سو کلو میٹر کے بعد الفاظ کی ادائیگی اور لہجے میں فرق دیکھنے کو ملے گا۔ بہاولپور پہنچتے ہوۓ زبان ہی بدل چکی ہو گی۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایک جگہ پر رہنے والے لوگ ایک جیسی زبان بولتے ہیں اور فاصلہ بڑھنے سے لہجے اور الفاظ کے ساتھ زبان بھی بدل جاتی ہے۔ ان سب زبانوں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے جو ایک زبان پر ملیں گی۔
https://www.google.com.au/amp/s/phys.org/news/2012-09-ancient-language-families.amp
اپریل 2011کی ایک نئ تحقیق کے مطابق دنیا کی تمام زبانیں زمانہ قبل از تاریخ میں بولی جانے والی ایک ہی زبان سے نکلی ہیں جو آج سے ایک لاکھ سال پہلے بولی جاتی تھی۔دنیا کی پانچ سو زبانوں پر تحقیق کے بعد ڈاکٹر کوئنٹن ایٹکنسن ۔۔۔۔Quintine Atkinson...نے دریافت کیا کہ ان سب زبانوں کی ابتدا ایک ایسی زبان میں پائ جا سکتی ہے جو ہمارے پتھر کے زمانے کے اباء و اجداد بولا کرتے تھے۔
حوالہ
http://www.dailymail.co.uk/sciencetech/article-1377150/Every-language-evolved-single-prehistoric-mother-tongue-spoken-Africa.html
اس بارے میں ایک اور سائنسی تحقیق کے مطابق دنیا کی چھ ہزار زبانوں پر تحقیق سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان سب کا ماخذ ایک ہی زبان ہے جو آج سے پچاس سے ستر ہزار سال قبل بولی جاتی تھی۔ یہ تحقیق اپریل 2011ء میں وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہوئ۔اس کا حوالہ یہ ہے
https://www.wsj.com/articles/SB10001424052748704547604576262572791243528
http://www.anonews.co/melanesians-unknown-species/
جو حوالہ پیش کیا گیا ہے مغربی بحر الکاہل کے جزائر کے میلانیشین انسانوں کے لیے کہ ان کے ڈی این اے میں ایک ایسا ڈی این اے پایا گیا ہے جو نہ نینڈر تھال سے تعلق رکھتا ہے نا ڈینیسوونز سے۔اور اس ساری تحقیق سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ جدید انسان تین قسم کے گروہوں سے ارتقاء پذیر ہوا۔جب کہ کئ سائنسی تحقیقات اس کو غلط کہتی ہیں۔
پہلی بات یہ کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ نینڈر تھا ل انسان ہی تھے اور کچھ نہیں۔
دوسری بات ۔۔۔۔ہیں ثابت کر سکتا ہوں کہ ڈینی سوونز بھی انسان ہی تھے اور کچھ نہیں
تیسری بات۔۔۔میرا سوال ہے کہ کیا کرہ ارض پر انسان کی ڈیڑھ سے دو لاکھ سال پر مشتمل تاریخ میں صرف دو انسانی نسلیں ہی آئ ہیں؟صرف ننیڈر تھال اور ڈینی سوونز؟غلط۔۔اس سارے عرصے میں زمین پر انسان کی کئ نسلیں آئ ہیں جن میں سے کچھ کا ریکارڈ ڈھانچوں کی صورت میں ہمیں ملا ہے کچھ کا نہیں۔پھر اگر میلانیشین جیسے کسی انسان کے ڈی این اے میں کسی اور مختلف قسم کے ڈی این اے کا وجود مل جائے تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان ارتقاء پذیر ہوا یا آدم کی نہیں کسی بن مانس یا بندر کی اولاد ہے؟جس ڈی این اے کو دیکھا جارہا ہے اس تحقیق میں وہ ڈی این اے کسی ایسی انسانی نسل کا کچھ حصہ بھی تو ہو سکتا ہے جس سے میلانیشین لوگوں کے جد امجد جنسی ملاپ اور شادیاں کرتے رہے۔کیونکہ ہمارے پاس سب انسانی نسلوں کا ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ کچھ نسلوں کے تو ڈھانچے تو ہمیں آج تک نہیں ملے جن کی بنیاد پر ان کے بارے میں کوئ دعوی کیا جا سکے۔اب جب ہمارے پاس سب انسانی نسلوں کا جو اج تک انسان کی ڈیڑھ لاکھ سال کی تاریخ میں ریکارڈ ہی نہیں ہے تو یہ کہنا کہاں کی سائنسی منطق ہے کہ یہ خاص ڈی این اے ظاہر کر رہا ہے کہ میلانیشین کا ڈی این اے صرف کچھ سلسلوں میں جدید انسان سے مختلف ہے اور وہ آدم علیہ السلام کی اولاد نہیں؟اگر کوئ یہ کہتا،ہے تو یہ ثابت کر کے دے کہ ان میلانیشین کا مائیٹوکونڈریل ڈی این اے حوا سے اورy کروموسوم آدم علیہ السلام سے نہیں ملتا۔یہ کبھی ثابت ہو ہی نہیں سکتا۔جدید سائنسی جینیٹکس کی تحقیقات یہ بات ثابت کر چکی ہیں کہ زمین پر موجود تمام انسان ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں جو آج سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے زمین پر موجود تھے۔جب ان میلانیشین انسانوں کا ڈی این اے بھی آدم و حوا علیہ السلام سے جا ملتا ہے باقی انسانوں کی طرح اور کچھ ڈی این اے سلسلوں کا فرق بھی ان میں ایک معدوم انسانی نسل کا ہے جس سے وہ جنسی ملاپ اور شادیاں کرتے تھے تو پھر اس ساری تحقیق کی بنیاد پر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ آدم و حوا علیہ السلام کی اولاد نہیں بلکہ کسی ایسی سپی شیز کا وجود ثابت کر رہی ہیں جس سے انسان ارتقاء پذیر ہوا۔ظاہر ہے یہ نہیں کہا جاسکتا اس ساری بحث کے مطابق جو ابھی میں نے بیان کی
یہ پڑھیں۔اس سائنسی حوالے کے مطابق ڈینی سوونز قدیم انسان تھے جن کا ڈی این اے 7•99سے سو فیصد تک جدید انسان کے مشابہ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ڈینی سوونز انسان ہی تھے اور کچھ نہیں۔
Nevertheless, we can only work with whatever data are publicly available despite the apparent questions about contamination and accuracy. In a preliminary study, this author downloaded multiple data sets containing millions of individual DNA sequences from both the Neandertal and Denisovan genome projects from one of the lead research centers (Max Planck Institute). On average, the sequences were about 75 bases in length and found to be 99.7 to 100 percent identical to modern human for both Neandertal and Denisovan. If we assume that these data are accurate despite the questionable quality issues, then these DNA sequences clearly represent ancient humans—not some sort of inferior pre-human evolutionary ancestor.
http://www.icr.org/article/7905/
اور ڈینی سوونز کا کچھ ڈی این اے رکھتے ہیں جن کی نسل بعد میں مٹ گئ ۔یہ ڈی این اے کا حصہ آپس کی شادیوں اور جنسی ملاپ کی وجہ سے تھا کہ ان کا باقی ڈی این اے آج کے جدید انسان جیسا،ہے۔جب کہ جینیٹکس کے مطابق نینڈر تھال اور ڈینی سوونز بھی ننانوے فیصد سے زائد جدید انسان کے مشابہ تھے۔
آپ نے بوہیلنڈر کی جس سائنسی تحقیق کا حوالہ دیا خود اس تحقیق سے انسان کو کسی اور جاندار کی نسل ظاہر کرنا غلط ہے کیونکہ اس کے کوئ شواہد نہیں اور خود میلانیشین کا ڈی این اے کا سلسلہ آج کے باقی انسانوں کی طرح آدم و حوا علیہ السلام سے جاکر ملتا ہے جسے جینیٹکس میں مائیٹوکونڈریل حوا اورy کروموسوم آدم کہا جاتا ہے۔جو ڈی این اے کے کچھ سلسلوں کا فرق ہے وہ نینڈر تھال اور ڈینی سوونز کی طرح ایک معدوم انسانی نسل سے واضح کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات بالکل ثابت نہیں کی جا سکتی اور نہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ میلانیشین کا ڈی این اے مائیٹوکونڈریل حوا اورy chromosome آدم سے نہیں ملتا۔یہ اب تک نہیں کہا گیا۔
اور جو تحقیق بوہیلنڈر کی پیش کی گئ ہے اس پر بھی سائنسدان اختلاف رکھتے ہیں۔اب وہ معدوم انسانی نسل جس کے ڈی این اے کے کچھ سلسلے میلانیشین انسانوں میں موجود ہیں،اس کے بارے میں یہ دعوی کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ نینڈر تھال اور ڈینی سوونز کی طرح انسانی نسل نہیں بلکہ انسان کے بن مانس سے ارتقا میں ایک درمیانی سلسلہ یاHominin تھی جب کہ سوا ان چند ڈی این اے کے سلسلوں کے جن کی وضاحت ایک معدوم انسانی نسل کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے،ارتقا والوں کے پاس کوئ ثبوت نہیں۔اس طرح ارتقاء والوں کا انسان کے آدم و حوا علیہ السلام سے پیدا ہونے کی بجائے کسی بن مانس جیسے جانور سے ارتقا پذیر ہونے کا یہ ثبوت بھی سائنسی طور پر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے
یہ تھی اب تک کی ساری بحث جس سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ میلانیشین لوگ آدم و حوا علیہ السلام کی اولاد نہیں
جواب۔۔۔۔
آدم ع پہلے انسان تھے۔ ان کی تبلیغ ان کی اولاد کی ہی پرورش اور ان کو دین سکھانا اور پھر ان کے بعد آنے والے لوگ یعنی ان کی اولادیں۔
تمام جانداروں کے ڈی این اے کو
ٹریک بیک کیا جاۓ تو ایک جوڑے آدم و حوا سے ملیں گے۔ دوران تولید کروموسومز کا تبادلہ ہوتا ہے، سپنڈل فائبر پر ماں اور باپ کی خصوصیات مل کر نئ خصوصیت کا حامل انسان بنتا ہے۔ جس سے فنگر پرنٹ تک مختلف ہو جاتے ہیں۔ کئ نسلوں کے گزرنے کے بعد اوصاف میں تبدیلی ممکن ہے۔ ماحول بھی اثر کرتا ہے۔ تمام جانداروں کے ڈی این کا ٹریک جس ایک جوڑے پر جا کر ملتا ہے سائنس اس کو مائٹوکونڈریل ایِو اور مائٹو کونڈرئیل آدم کہتی ہے۔ مگر سائنس کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ وہ کب اس دنیا میں تھے اور وہ اکٹھے تھے یا مختلف ادوار میں۔ بحرحال یہ کوئ بڑا مسلہ نہیں۔
اسی طرح سے اگر مختلف زبانوں کو ٹریک بیک کیا جاۓ تو وہ بھی ایک زبان پر ہی جا کر ملیں گی جس زبان سے تمام زبانوں کا آغاز ہوا۔ جیسے جیسے انسانوں کی آبادیوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہے مختلف الفاظ اور لہجے وجود میں آتے ہیں۔ جیسے پنجابی کے کئ لہجے ہیں زبان وہی ہے۔ ایک دم سے زبان نہیں بدل جاتی۔ گوجرانوالہ سے پہاولپور کی طرف سفر شروع کر دیں۔ ہر سو کلو میٹر کے بعد الفاظ کی ادائیگی اور لہجے میں فرق دیکھنے کو ملے گا۔ بہاولپور پہنچتے ہوۓ زبان ہی بدل چکی ہو گی۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ایک جگہ پر رہنے والے لوگ ایک جیسی زبان بولتے ہیں اور فاصلہ بڑھنے سے لہجے اور الفاظ کے ساتھ زبان بھی بدل جاتی ہے۔ ان سب زبانوں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے جو ایک زبان پر ملیں گی۔
https://www.google.com.au/amp/s/phys.org/news/2012-09-ancient-language-families.amp
اپریل 2011کی ایک نئ تحقیق کے مطابق دنیا کی تمام زبانیں زمانہ قبل از تاریخ میں بولی جانے والی ایک ہی زبان سے نکلی ہیں جو آج سے ایک لاکھ سال پہلے بولی جاتی تھی۔دنیا کی پانچ سو زبانوں پر تحقیق کے بعد ڈاکٹر کوئنٹن ایٹکنسن ۔۔۔۔Quintine Atkinson...نے دریافت کیا کہ ان سب زبانوں کی ابتدا ایک ایسی زبان میں پائ جا سکتی ہے جو ہمارے پتھر کے زمانے کے اباء و اجداد بولا کرتے تھے۔
حوالہ
http://www.dailymail.co.uk/sciencetech/article-1377150/Every-language-evolved-single-prehistoric-mother-tongue-spoken-Africa.html
اس بارے میں ایک اور سائنسی تحقیق کے مطابق دنیا کی چھ ہزار زبانوں پر تحقیق سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان سب کا ماخذ ایک ہی زبان ہے جو آج سے پچاس سے ستر ہزار سال قبل بولی جاتی تھی۔ یہ تحقیق اپریل 2011ء میں وال سٹریٹ جرنل میں شائع ہوئ۔اس کا حوالہ یہ ہے
https://www.wsj.com/articles/SB10001424052748704547604576262572791243528
http://www.anonews.co/melanesians-unknown-species/
جو حوالہ پیش کیا گیا ہے مغربی بحر الکاہل کے جزائر کے میلانیشین انسانوں کے لیے کہ ان کے ڈی این اے میں ایک ایسا ڈی این اے پایا گیا ہے جو نہ نینڈر تھال سے تعلق رکھتا ہے نا ڈینیسوونز سے۔اور اس ساری تحقیق سے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئ ہے کہ جدید انسان تین قسم کے گروہوں سے ارتقاء پذیر ہوا۔جب کہ کئ سائنسی تحقیقات اس کو غلط کہتی ہیں۔
پہلی بات یہ کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ نینڈر تھا ل انسان ہی تھے اور کچھ نہیں۔
دوسری بات ۔۔۔۔ہیں ثابت کر سکتا ہوں کہ ڈینی سوونز بھی انسان ہی تھے اور کچھ نہیں
تیسری بات۔۔۔میرا سوال ہے کہ کیا کرہ ارض پر انسان کی ڈیڑھ سے دو لاکھ سال پر مشتمل تاریخ میں صرف دو انسانی نسلیں ہی آئ ہیں؟صرف ننیڈر تھال اور ڈینی سوونز؟غلط۔۔اس سارے عرصے میں زمین پر انسان کی کئ نسلیں آئ ہیں جن میں سے کچھ کا ریکارڈ ڈھانچوں کی صورت میں ہمیں ملا ہے کچھ کا نہیں۔پھر اگر میلانیشین جیسے کسی انسان کے ڈی این اے میں کسی اور مختلف قسم کے ڈی این اے کا وجود مل جائے تو یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ انسان ارتقاء پذیر ہوا یا آدم کی نہیں کسی بن مانس یا بندر کی اولاد ہے؟جس ڈی این اے کو دیکھا جارہا ہے اس تحقیق میں وہ ڈی این اے کسی ایسی انسانی نسل کا کچھ حصہ بھی تو ہو سکتا ہے جس سے میلانیشین لوگوں کے جد امجد جنسی ملاپ اور شادیاں کرتے رہے۔کیونکہ ہمارے پاس سب انسانی نسلوں کا ریکارڈ نہیں ہے کیونکہ کچھ نسلوں کے تو ڈھانچے تو ہمیں آج تک نہیں ملے جن کی بنیاد پر ان کے بارے میں کوئ دعوی کیا جا سکے۔اب جب ہمارے پاس سب انسانی نسلوں کا جو اج تک انسان کی ڈیڑھ لاکھ سال کی تاریخ میں ریکارڈ ہی نہیں ہے تو یہ کہنا کہاں کی سائنسی منطق ہے کہ یہ خاص ڈی این اے ظاہر کر رہا ہے کہ میلانیشین کا ڈی این اے صرف کچھ سلسلوں میں جدید انسان سے مختلف ہے اور وہ آدم علیہ السلام کی اولاد نہیں؟اگر کوئ یہ کہتا،ہے تو یہ ثابت کر کے دے کہ ان میلانیشین کا مائیٹوکونڈریل ڈی این اے حوا سے اورy کروموسوم آدم علیہ السلام سے نہیں ملتا۔یہ کبھی ثابت ہو ہی نہیں سکتا۔جدید سائنسی جینیٹکس کی تحقیقات یہ بات ثابت کر چکی ہیں کہ زمین پر موجود تمام انسان ایک ہی مرد اور عورت کی اولاد ہیں جو آج سے ایک سے ڈیڑھ لاکھ سال پہلے زمین پر موجود تھے۔جب ان میلانیشین انسانوں کا ڈی این اے بھی آدم و حوا علیہ السلام سے جا ملتا ہے باقی انسانوں کی طرح اور کچھ ڈی این اے سلسلوں کا فرق بھی ان میں ایک معدوم انسانی نسل کا ہے جس سے وہ جنسی ملاپ اور شادیاں کرتے تھے تو پھر اس ساری تحقیق کی بنیاد پر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ آدم و حوا علیہ السلام کی اولاد نہیں بلکہ کسی ایسی سپی شیز کا وجود ثابت کر رہی ہیں جس سے انسان ارتقاء پذیر ہوا۔ظاہر ہے یہ نہیں کہا جاسکتا اس ساری بحث کے مطابق جو ابھی میں نے بیان کی
یہ پڑھیں۔اس سائنسی حوالے کے مطابق ڈینی سوونز قدیم انسان تھے جن کا ڈی این اے 7•99سے سو فیصد تک جدید انسان کے مشابہ ہے جو ثابت کرتا ہے کہ ڈینی سوونز انسان ہی تھے اور کچھ نہیں۔
Nevertheless, we can only work with whatever data are publicly available despite the apparent questions about contamination and accuracy. In a preliminary study, this author downloaded multiple data sets containing millions of individual DNA sequences from both the Neandertal and Denisovan genome projects from one of the lead research centers (Max Planck Institute). On average, the sequences were about 75 bases in length and found to be 99.7 to 100 percent identical to modern human for both Neandertal and Denisovan. If we assume that these data are accurate despite the questionable quality issues, then these DNA sequences clearly represent ancient humans—not some sort of inferior pre-human evolutionary ancestor.
http://www.icr.org/article/7905/
اور ڈینی سوونز کا کچھ ڈی این اے رکھتے ہیں جن کی نسل بعد میں مٹ گئ ۔یہ ڈی این اے کا حصہ آپس کی شادیوں اور جنسی ملاپ کی وجہ سے تھا کہ ان کا باقی ڈی این اے آج کے جدید انسان جیسا،ہے۔جب کہ جینیٹکس کے مطابق نینڈر تھال اور ڈینی سوونز بھی ننانوے فیصد سے زائد جدید انسان کے مشابہ تھے۔
آپ نے بوہیلنڈر کی جس سائنسی تحقیق کا حوالہ دیا خود اس تحقیق سے انسان کو کسی اور جاندار کی نسل ظاہر کرنا غلط ہے کیونکہ اس کے کوئ شواہد نہیں اور خود میلانیشین کا ڈی این اے کا سلسلہ آج کے باقی انسانوں کی طرح آدم و حوا علیہ السلام سے جاکر ملتا ہے جسے جینیٹکس میں مائیٹوکونڈریل حوا اورy کروموسوم آدم کہا جاتا ہے۔جو ڈی این اے کے کچھ سلسلوں کا فرق ہے وہ نینڈر تھال اور ڈینی سوونز کی طرح ایک معدوم انسانی نسل سے واضح کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بات بالکل ثابت نہیں کی جا سکتی اور نہ یہ دعوی کیا گیا ہے کہ میلانیشین کا ڈی این اے مائیٹوکونڈریل حوا اورy chromosome آدم سے نہیں ملتا۔یہ اب تک نہیں کہا گیا۔
اور جو تحقیق بوہیلنڈر کی پیش کی گئ ہے اس پر بھی سائنسدان اختلاف رکھتے ہیں۔اب وہ معدوم انسانی نسل جس کے ڈی این اے کے کچھ سلسلے میلانیشین انسانوں میں موجود ہیں،اس کے بارے میں یہ دعوی کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ نینڈر تھال اور ڈینی سوونز کی طرح انسانی نسل نہیں بلکہ انسان کے بن مانس سے ارتقا میں ایک درمیانی سلسلہ یاHominin تھی جب کہ سوا ان چند ڈی این اے کے سلسلوں کے جن کی وضاحت ایک معدوم انسانی نسل کی بنیاد پر کی جا سکتی ہے،ارتقا والوں کے پاس کوئ ثبوت نہیں۔اس طرح ارتقاء والوں کا انسان کے آدم و حوا علیہ السلام سے پیدا ہونے کی بجائے کسی بن مانس جیسے جانور سے ارتقا پذیر ہونے کا یہ ثبوت بھی سائنسی طور پر غلط اور جھوٹ پر مبنی ہے
یہ تھی اب تک کی ساری بحث جس سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ میلانیشین لوگ آدم و حوا علیہ السلام کی اولاد نہیں
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔