Saturday, 4 November 2017

اسلام پر اکتالیس (41) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب 4/1

اسلام پر اکتالیس (41) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب 4/1


مؤلّف : ذاكر نائیک

مراجعہ: شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنی



(حصہ اول)


اسلام کے بارے میں غیر مسلموں کے عام سوالات !

سوال نمبر - 1 - صرف اسلام ہی کی پیروی کیوں ؟
سوال نمبر - 2 - کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟
سوال نمبر - 3 - کیا اسلام بزورِ شمشیر پھیلا ؟
سوال نمبر - 4 - مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد ہیں؟
سوال نمبر - 5 - موت کے بعد زندگی کیوں ؟
سوال نمبر - 6 - ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟
سوال نمبر - 7 - ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟
سوال نمبر - 8 - کیا حجاب عورت کا استحصال نہیں؟
سوال نمبر - 9 - مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟
سوال نمبر - 10 - اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟
سوال نمبر - 11 - شراب کی ممانعت میں کیا حکمت ہے ؟
سوال نمبر - 12 - سؤر کا گوشت حرام کیوں ہے؟
سوال نمبر - 13 - اسلام میں گوشت خوری کی اجازت کیوں؟
سوال نمبر - 14 - مسلمان فرقوں میں کیوں بٹےہوئے ہیں ؟
سوال نمبر - 15 - اسلام اور مسلمانوں کے عمل میں واضح فرق کیوں؟
سوال نمبر - 16 - غیر مسلمانوں کو مکہ جانے کی اجازت کیوں نہیں؟
سوال نمبر - 17 - کیا غیر مسلموں کو کافر کہنا گالی ہے؟
سوال نمبر - 18 - اسلام میں ذبح کرنے کا طریقہ ظالمانہ ہے ؟
سوال نمبر - 19 - گوشت مسلمانوں کو متشدد بناتا ہے ؟


(حصہ دوم)


اسلام سے قدرے واقف غیر مسلموں کے مخصوص سوالات !

سوال نمبر - 20 - کیا موجودہ قرآن اصلی ہے؟
سوال نمبر - 21 - اللہ ایک ہے تو اس کے جمع کا صیغہ کیوں؟
سوال نمبر - 22 - کیا تنسیخ آیات غلطی کی اصلاح ہے؟
سوال نمبر - 23 - کیا حروفِ مقطعات بے فائدہ ہیں؟
سوال نمبر - 24 - کیا یہ زمین چپٹی اور ہموار ہے؟
سوال نمبر - 25 - کیا قرآن، بائبل کی نقل ہے؟
سوال نمبر - 26 - کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟
سوال نمبر - 27 - اللہ معاف کرنے والا ہے یا منتقم مزاج؟
سوال نمبر - 28 - کیا الڑا سونو گرافی قرآنی آیات کی نفی کرتی ہے؟
سوال نمبر - 29 - کیا قرآن میں تضاد ہے؟
سوال نمبر - 30 - تخلیق انسان کس سے؟
سوال نمبر - 31 - افلاک و ارض کی تخلیق چھ یا آٹھ روز میں؟
سوال نمبر - 32 - کیا مشرق و مغرب دو دو ہیں ؟؟
سوال نمبر - 33 - کیا اسلام تشدد اور خونریزی کی دعوت دیتا ہے؟
سوال نمبر - 34 - کیا قرآنی احکامِ وراثت میں ریاضی کی غلطی ہے؟
سوال نمبر - 35 - کفار کے دلون پر مہر لگنے کے بعد وہ قصور وار کیوں؟
سوال نمبر - 36 - فہم و ادراک کا مرکز دل یا دماغ ؟
سوال نمبر - 37 - جنت میں مردوں کو حوریں ملیں گی تو عورتوں کے لیے کیا ؟
سوال نمبر - 38 - ابلیس: فرشتہ یا جن ؟
سوال نمبر - 39 - کیا مریم علیہا السلام ہارون علیہ السلام کی بہن تھیں؟
سوال نمبر - 40 - کیا " روح اللہ " سے الوہیت مسیح کشید کی جاسکتی ہے؟
سوال نمبر - 41 - کیا مسیح علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں؟


سوال نمبر - 1


صرف اسلام ہی کی پیروی کیوں ؟


صرف اسلام ہی کی پیروری کیوں ؟

"تمام مذاہب لوگوں کو اچھے کام کرنے کی تعلیم دیتے ہیں، پھر ایک شخص کو اسلام ہی کی پیروی کیوں کرنی چاہییے؟ کیا وہ کسی دوسرے مذہب کی پیروی نہیں کرسکتا؟ "

تمام مذاہب بنیادی طو رپر انسان کو صحیح راہ پر چلنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ لیکن اسلام ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ ہمیں صحیح راہ پر چلنے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے برائی کو خارج کرنے میں عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام انسانی فطرت اور معاشرے کی پیچیدگیوں کو پیشِ نظر رکھتا ہے۔ اسلام خود خالقِ کائنات کی طرف سے رہنمائی ہے۔ اس لیے اسلام کو دین فطرت ، یعنی انسان کا فطری دین کہا گیا ہے۔ اسلام اور دوسرے مذاہب کا بنیادی فرق درج ذیل امور سے واضح ہوتا ہے۔:

اسلام اور ڈاکہ زنی کا تدارک :

تمام مذاہب کی تعلیم ہے کہ ڈاکہ زنی اور چوری ایک بُرا فعل ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے، پھر اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ اسلام اس کی تلقین کرنے کے ساتھ ساتھ کہ داکہ زنی اور چوری بُرا کام ہے۔ اسیا سماجی ڈھانچہ بھی فراہم کرتا ہے جس میں لوگ ڈاکے نہیں ڈالیں گے۔ اس کے لیے اسلام درج ذیل انسدادی اقدامات تجویز کرتا ہے:


زکوۃ کا حکم :

اسلام زنسانی فلاح کے لیئے زکاۃ کا نظام پیش کرتا ہے۔ اسلامی قانوں کہتا ہے کہ ہر وہ شخص جس کی مالی بچت نصاب، یونی 85 گرام سونے یا اس کی مالیت کو پہنچ جائے تو وہ ہر سال اس میں سے اڑھائی فیصد اللہ کی راہ میں تقسیم کرے۔ اگر ہر امیر شخص ایمانداری سے زکواۃ ادا کرے تو اس دنیا سے غربت ، جو ڈاکہ زنی کی اصل محرک ہے، ختم ہوجائے گی اور کوئی شخص بھی بھوک سے نہیں مرے گا۔

چوری کی سزا :

اسلام چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹنے کی سزا دیتا ہے۔ سورۃ مائدہ میں ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (سورۃ المائدہ 5 آیت 38)

" چوری کرنے والے مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دو، یہ اللہ کی طرف سے ان دونوں کے کیئے ہوئے جرم کی سزا ہے۔ اور اللہ بہت طاقتور اور بہت حکمت والا ہے۔"

اس پر غیر مسلم یہ کہ سکتے ہیں کہ " 20 ویں صدی میں ہاتھ کاٹے جائیں؟ اسلام تو ایک ظالم اور وحشیانہ مذہب ہے " لیکن ان کی یہ سوچ سطحی اور حقیقت سے بعید ہے۔

عملی نفاذ :

امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے وہاں جرائم، چوری، ڈکیتی وغیرہ کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔ فرض کریں کہ امریکہ میں اسلامی شریعت نافذ کی جاتی ہے اور ہر امیر آدمی نصاب کے مطابق ، یونی 85 گرام سونے سے زائد مال پر ہر سال زکواۃ ادا کرتا ہے اور ہر چور کا ہاتھ سزا کے طور کاٹ دیا جاتا ہے تو کیا امریکہ میں چوری اور ڈکیتی کی شرح بڑھ جائے گی، کم ہوجائے گی، یا اتنی ہی رہے گی؟ یقیناً کم ہوگی۔ مزید برآں یہ سخت قانون ممکنہ چوروں کو ارتکابِ جُرم سے روکنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

میں اس بات سے متفق ہوں کہ اس وقت دنیا میں چوری کرنے والوں کی تعدار بہت زیادہ ہے اور اگر قطر ید کی سزا نافذ کی گئی تو لاکھوں کی تعدار میں لوگوں کے ہاتھ کٹیں گے۔ لیکن یہ نکتہ پیشِ نظر رہے کہ جونہی آپ اس قانون کو نافذ کریں گے۔ چوری کی شرح فوری طور پر کم ہوجائے گی، تاہم اس سے پہلے اسلام کا نظامِ زکواۃ کار فرما ہو اور معاشرے میں صدقات و خیرات اور اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے اور غریبوں اور ناداروں کی مدد کا جذبہ فراواں ہو اور پھر سزاؤں کا نظام نافذ ہو تو چوری کرنے والا چوری کرنے سے پہلے سو بار سوچے گا کہ وہ اپنا ہاتھ کٹنے کا خطرہ مول لے رہا ہے۔ عبرتناک سزا کا تصور ہی ڈاکوؤں اور چوروں کی حوصلہ شکنی کرےگا، بہت کم چوری کریں یا ڈاکہ ڈالیں گے۔ پھر چند ہی عادی مجرموں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے اور لاکھوں لوگ چوری اور ڈکیتی کے خوف کے بغیر سکون سے رہ سکیں گے۔ اس طرح اسلامی شریعت کے عملی نفاذ سے خوشگوار نتائج بھی برآمد ہوں گے۔

عورتوں کی عصمت دری کا سدباب :

تمام مذاہب کے نزدیک عورتوں سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری ایک سنگین جرم ہے۔ اسلام کی بھی یہی تعلیم ہے۔ پھر اسلام اور دوسرے مذاہب کی تعلیمات میں فرق کیا ہے؟ فرق اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اسلام محض عورتوں کے احترام کی تلقین ہی نہیں کرتا اور خواتین سے چھیڑ چھاڑ اور ان کی عصمت دری جیسے سنگین جرائم سے نفرت ہی نہیں کرتا بلکہ اس امر کی بھرپور رہنمائی بھی کرتا ہے کہ معاشرے سے ایسے جرائم کا خاتمہ کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے آپ درج ذیل زریں اصول ملاحظہ کیجیئے:

مردوں کے لیے حجاب :

اسلام کے حجاب کا نظام اپنی مثال ہے۔ قرآن مجید پہلے مردوں کو حجاب کا حکم دیتا ہے اور پھر عورتوں کو۔ مردوں کے حجاب ( پردہ ) کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (سورۃ النور 24 آیت 30)

" (اے نبی!) مومن مردوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ ان کے لیے بہت پاکیزگی کی بات ہے۔ اور اللہ اُن تمام باتوں سے بخوبی واقف ہے جو وہ کرتے ہیں۔"

اسلام کہتا ہے کہ جو شخص کسی غیر محرم کو دیکھے تو اسے چاہیئے کہ فوراً نگاہیں نیچی کرلے۔

عورتوں کے لیے حجاب:

عورتوں کے حجاب کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الإرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ (سورۃ النور 24 آیت 31)

"( اے نبی) مؤمن عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگالیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کی نمائش نہ کریں سوائے اس کے جو از خود ظاہرہو۔ اور ان کو چاہیئے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہر پر یا اپنے باپ پر یا اپنے سسر پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی ( مسلمان ) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت ( کنیزوں ) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکروں پر یا عورتوں سے چھپی باتوں سے ناواقف لڑکوں پر، اور وہ ( عورتیں ) اپنے پاؤں زور زور سے زمین پرمارتی نہ چلیں کہ ان کی زینت ظاہر ہو جائے جسے وہ چھپاتی ہیں۔ اور اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔" ( سورۃ النور 24 آیت 31)

حجاب کی حد یہ ہے کہ تمام جسم ڈھکا ہوا ہو۔ صرف چہرہ اور ہاتھ کی کلائیاں کھلی رکھی جاسکتی ہیں اور اگر عورتیں چاہیں تو وہ ان اعضاء کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں۔ تاہم بعض علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ چہرہ ڈھانپنا بھی لازم ہ۔ ( اور یہی مؤقف قرین صواب ہے)۔

حفاظتی حصار :

اللہ تعالی حجاب کا حکم کیوں دیتا ہے؟ اس کی وضاحت سورۃ الاحزاب کی مندرجہ ذیل آیت میں کی گئی ہے۔

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (سورۃ الاحزاب 33 آیت 59)

"اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مؤمنوں کی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں اوڑھ لیا کریں ( جب وہ باہر نکلیں ) یہ ( بات ) ان کے لیے قریب تر ہے کہ وہ ( حیا دار مؤمنات کے طور پر ) پہچانی جائیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے ( کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے ) اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ "

قرآن کے مطابق حجاب کا حکم عورتوں کو اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ باحیا عورتوں کے طو رپر پہچانی جاسکیں اور چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہیں۔

ایک مثال سے وضاحت :

فرض کریں، دو جڑواں بہنیں ہیں۔ دونوں خوبصورت ہیں اور ایک گلی میں جارہی ہیں۔ ان میں سے ایک اسلامی حجاب میں ہے، جبکہ دوسری منی سکرٹ میں ملبوس ہے۔ نکڑ پر کوئی بدمعاش کھڑا کسی لڑکی چھیڑنے کا منتظر ہے۔ وہ کس سے چھیڑ چھاڑ کرے گا؟ اسلامی حجاب میں ملبوس لڑکی سے یا منی سکرٹ میں ملبوس لڑکی سے؟ ایسا لباس جو جسم کو چھپانے کے بجائے نمایاں کردے وہ بالواسطہ طو رپر مخالف جنس کو چھیڑ چھاڑ اور بدکاری کی دعوت دیتا ہے لہذا قرآن صحیح کہتا ہے کہ حجاب، یعنی پردہ کو چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رکھتا ہے۔

عصمت دری کرنے والے کے لیے موت کی سزا :

اسلامی شریعت عصمت دری کرنے والے کی سزا موت قرار دیتی ہے ( ڈآکٹر ذاکر نائیک نے عصمت دری کرنے والے (Rapist) کی سزا کو " سزائے موت " لکھا ہے جبکہ اسلامی شریعت کے نقطہء نظر سے زانی کی سزا یا حدود دو قسم کی ہے :

رجم (سنگسار) اور کوڑے۔

زانی اگر شادی شدہ ہے تو رجم ( سنگسار ) کیا جائے گا اور اگر غیر شادی شدہ ہے تو سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ( یا قید ) کی سزا دی جائے گی۔ )۔ غیر مسلم خوفزہ ہوں گے کہ اتنی بڑی سزا! بہت سے لوگ اسلام کو وحشی اور ظالمانہ مذہب قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کی یہ سوچ غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ میں نے یہ سوال سینکڑوں گیر مسلموں سے پوچھا ہے کہ فرض کیجیئے خدانخواستہ کوئی آپ کی بیوی ، آپ کی ماں یا آپ کی بہن کی عصمت دری کرے اور آپ کو منصف بنایا جائے اور جرم کرنے والے کو آپ کے سامنے لایا جائے۔ آپ اس کے لیے کیا سزا تجویز کریں گے؟ سب نے کہا: " ہم اسے قتل کردیں گے۔ " اور کچھ اس حد تک گئے کہ " ہم اس کے مرنے تک اسے تشدد سے تڑپاتے رہیں گے۔ " اب اگر کوئی آپ کی بیوی یا بیٹی یا آپ کی ماں کی عصمت دری کرے تو آپ اس مجرم کو قتل کرنا چاہیں گے۔ لیکن جب کسی اور کی بیوی، بیٹی یا ماں کی عصمت دری کی جاتی ہے تو مجھرم کے لیے سزائے موت وحشیا نہ کیوں کہا جاتا ہے؟ آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟

امریکہ میں عصمت دری کے روز افزوں واقعات :

امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتا ہے۔ 1990ء کی ایف بھی آئی کی رپورٹ کے مطابق عصمت دری (Rape) کے 1،02،555 مقدمات درج کئے گئے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ صرف 16 فیصد مقدمات کا اندراج ہوا یا ان کی رپورٹ کی گئی۔ یوں 1990ء میں پیش آمدہ عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد معلوم کرنے کے لیے 100/16 یعنی 6۔25 سے ضرب دی جائے تو وہ 6،40،968 بنتی ہے۔ اور اگر اس مجموعی تعداد کو سال کے 365 دنوں سے تقسیم کیا جائے تو روزانہ اوسط 1،756 نکلتی ہے۔

بعد کی ایک اور رپورٹ کئ مطابق امریکہ میں اس برس عصمت دری کے اوسطاً 1900 واقعات روزانہ پیش آئے، امریکی محکمہ انصاف کے نیشنل کرائم سروے بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق صرف 1996ء میں آبروریزی کے 3،07،000 واقعات کی رپورٹ کی گئی اور یہ اصل تعداد کا صرف 31 فیصد تھی۔ اس طرح عصمت دری کے واقعات کی اصل تعداد 9،90،332 بنتی ہے جو دس لاکھ کے قریب ہے۔ گویا امریکہ میں اس سال ہر س32 سکینڈ کے بعد عصمت دری کا ایک واقعہ پیس آیا۔ ہوسکتا ہے اب امریکہ میں ایسے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کرنے والے اور دلیر ہوگئے ہوں۔ 1990ء کی ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق وہاں عصمت دری کے جنتے بھی واقعات کی رپورٹ کی گئی ان کے مجرموں میں سے صرف 10 فیصد گرفتار کئے گئے جو زانیوں کی کل تعداد کا صرف 1۔6 فیصد تھے۔ اور گرفتار شدگان میں سے بھی 50 فیصد کو مقدمے کی نوبت آنے سے پہلے ہی چھوڑ دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ صرف 0۔8 فیصد مجرموں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے لفظوں میں اگر ایک شخص 125 مرتبہ یہ جرم کرتا ہے تو اسے صرف ایک بار سزا ملنے کا امکان ہے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 50 فیصد لوگ جن کو ان مقدمات کا سامنا کرنا پڑا انہیں ایک سال سے بھی کم قید کی سزا سنائی گئی۔ اگرچہ امریکی قانون کے مطابق ایسے جرم کے مرتکب افراد کی سزا سات سال قید ہے مگر پہلی دفعہ ایسا گھناؤنا جرم کنے والے کے ساتھ جج نرمی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ ایک شخص 125 دفعہ یہ جرم کرتا ہے اور اس کے مجرم ٹھہرائے جانے کا امکان ایک فیصد ہوتا ہے اور اس میں بھی نصف مرتبہ جج کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اسے ایک سال سے بھی کم کی سزا دیتا ہے۔

اسلامی شریعت کی برکت :

فرض کریں امریکہ میں اسلامی شریعت کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ جب کوئی شخص کسی عورت کی طرف دیکھا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے اور ہر عورت اسلامی حجاب، یعنی پردے میں رہتی ہے اور اس کا پورا جسم سوائے ہاتھوں اور چہرے کے ڈھکا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال کے باجود اگر کوئی عصمت دری کرتا ہے اور مجرم کو سزائےموت دی جاتی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس طرح عمصمت دری کی شرح بڑھ جائے گی ، وہی رہے گی یا کم ہو جائے گی؟ یقیناً شرح کم ہوجائے گی اور یہ اسلامی شریعت کے نفاذ کا بابرکت نتیجہ ہوگا۔

اسلام میں تمام مسائل کا عملی حل :

اسلام بہترین طرزِ زندگی ہے کیونکہ اس کی تعلیمات محض نظریاتی ہی نہیں بلکہ وہ انسانیت کو درپیش مسائل کے عملی حل بھی پیش کرتی ہیں۔ لہذا اسلام انفرادی اور اجتماعی سطحون پر بہتر نتائج حاصل کرتا ہے۔ اسلام بہترین طرزِ زندگی کے کیونہ یہ قابل عمل عالمگیر مذہب ہے جو کسی ایک قوم نسل تک محدود نہیں، اسی لیے دوسرے مذاہب کے مقابلے میں صرف اسلام ہی ایسا دین ہے جس کو اپناکر انسان اپنی شاہراہِ حیات بالکل سیدھی بنا کر اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی حاصل کرسکتا ہے۔ اور اخروی کامیابی ہی حقیقی کامیابی ہے۔


سوال نمبر - 2


کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟



کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟

" جب اسلام بتوں کی پوجا سے کے خلاف ہے تو مسلمان اپنی نمازوں میں کعبہ کے آگے کیوں جھکتے ہیں اور اس کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟"

کعبہ ہمارا قبلہ ہے، یعنی وہ سمت جس کی طرف منہ کرکے مسلمان نماز پڑھتے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ مسلمان نمازوں میں کعبہ کی طرف رُخ کرتے ہیں لیکن وہ کعبہ کو پوجتے ہیں نہ اس کی عبادت کرتے ہیں بلکہ مسلمان صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔

اس کا ذکر سورۃ بقرہ میں ہے :

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ()

" (اے نبی!) ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیٰں۔ لہذا ہم ضرور آپ کو اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ سو آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔۔"

(سورۃ البقرہ 2 آیت 144)​

قبلہ اتحاد و اتفاق کا ذریعہ ہے :

اسلام وحدت کا دین ہے، چنانچہ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے لیے اسلام نے ان کا ایک قبلہ متعین کیا ہے اور ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، نماز کے وقت کعبے کے طرف رخ کریں۔ جو مسلمان کعبے کے مغرب کی طرف رہتے ہوں، وہ اپنا رخ مشرف کی طرف کریں گےا ور جو مشرق کی طرف رہتے ہوں، وہ اپنا رخ مغرب کی طرف کریں گے۔

کعبہ نقشہ عالم کے وسط میں ہے :

یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے دنیا کا نقشہ بنایا۔ ان کے نقشوں میں جنوب اوپر کی طرف تھا اور شمال نیچے کی طرف اور کعبہ درمیان میں تھا۔ بعد میں مغربی نقشہ نگاروں نے جو نقشے بنائے، ان میں شمال اوپر کی جانب اور جنوب نیچے کی طرف دکھایا گیا جیسا کہ آج کل دنیا کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔ بہر حال الحمد للہ کعبہ دنیا کے نقشے کے تقریباً وسط میں ہے۔

طوافِ کعبہ :

جب مسلمان مکہ کی مسجد حرام میں جاتے ہیں، وہ کعبے کے گرد چکر لگا کر طواف کرتے ہیں۔ ان کا یہ علم واحد سچے معبود پر ایمان اور اس کی عبادت کی علامت ہے۔ جیسے ہر دائرے کا ایک ہی مرکز ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالی بھی ایک ہے جو عبادت کے لائق ہے۔

حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کی ایک حدیث میں عقیدہ توحید :

جہاں تک سیاہ پتر ، یعنی حجر اسود کی حرمت کا تعلق ہے۔ حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) کی ایک حدیث سے واضح ہے ، حضرت عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ ) نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور کہا :

" انی اعلم انک حجر لا تضر ولا تنفو ولولا انی رایت رسول اللہ (ﷺ) یقبلک ما قبلتک "

" میں یقیناً جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان، اگر میں نے نبی کریم (ﷺ) کو تجھے چومتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔

(صحیح البخاری، الحج، باب ماذکر فی الحجر الأسود حدیث 1597)​

کعبے کی چھت پر اذان :

نبی کریم (ﷺ) کے دور میں کعبہ کی چھت کے اوپر کھڑے ہوکر اذان دیتے تھے (تجلیات نبوت، ص 226۔)

اب لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں تو بھلا کون سا بتوں کو پوجنے والا اس بُت کے اُوپر کھڑا ہوتا ہے جس کی وہ پوجا کرتا ہے؟

( اسلام میں پوجنے اور عبادت کرنے کا تصور صرف ذات باتی تعالی کے لیے ہے۔ حجر، شجر، شخصیات یا استھان کی پُوجا کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام نے ایسی جگہ پر بھی عبادت سے روک دیا ہے جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا شبہ پیدا ہوسکتا ہو۔ مثلاً قبرستان میں نماز ادا کرنا، یا ایسی جگہ عبادت کرنا جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہو، ممنوع ہے، تاریخ شاہد ہے کہ کسی دور میں کوئی ایک مچال بھی نہیں ملتی کہ مسلمانوں نے کسی مکان یا عمارت کی عبادت کی ہو۔)

اسلام میں اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا تصور ہوتا تو محمد (ﷺ) اس لائق تھے کہ آپ کی قبر کو قبلہ بنایا جاتا اوراس کی عبادت کی جاتی۔ لیکن آپ (ﷺ) نے اس سے سختی سے منع کردیا۔

اسی طرح آپ (ﷺ) نے فرمایا اللہ تعالی کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ بتوں کے پجاری تو بت خانے میں جاکر عبادت کرتے ہیں یا ان بتوں کے ماڈل بنا کر سامنے رکھتے ہیں جب کہ مسلمان قبولیت عبادت کے لیے خانہ کعبہ جانے کو شرط قرار دیتے ہیں نہ اس کا ماڈل اپنے سامنے رکھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ تو جہتِ کعبہ کو سامنے رکھ کہ کعبہ کے بجائے رب کعبہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ( عثمان منیب )سوال نمبر - 3


کیا اسلام بزورِ شمشیر پھیلا ؟


کیا اسلام بزورِ شمشیر پھیلا ؟

" اسلام کو امن و سلامتی کا مذہب کیسے کہا جاسکتا ہے جبکہ یہ تلوار کے زور سے پھیلا ؟ "

کچھ غیر مسلم عام طور پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے اتنی زیادہ تعداد میں نہ ہوتے اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے نہ پھیلا ہوتا۔ مندرجہ ذیل نکات یہ حقیقت واضح کریں گے کہ اسلام بزورِ طاقت ہرگز نہیں پھیلا بلکہ اپنی عالمگیر صداقت، عقل پر مبنی تصورات اور سچائی پر مبنی دلائل کی بدولت اسلام کو فروغ ملا ہے۔

اسلام کا مطلب :

اسلام لفظ "سلام " سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے سلامتی اور امن ، اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو اللہ کی رضا کے آگے جھکا دیا جائے۔ پس اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے آگے جھکا دینے کی بدولت نصیب ہوتا ہے۔

طاقت کا استعمال :

دنیا میں ہر انسان امن اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے حق میں نہیں ہوتا یا بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے امن و امان کو خراب کرتے ہیں۔ لہذا بعض اوقات امن قائم رکھنے کے لیئے طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ے کہ جرائم کے سد باب کے لیے پولیس کا نظام قائم کیا گیا ہے جو مجرموں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تاکہ ملک میں امن و امان قائم رہے، اسلام امن کا خواہاں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو ظلم و استحصال کے خلاف لڑنے کا حکم دیتا ہے۔ بعض اوقات ظلم سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں طاقت کا استعمال صرف ظلم کے خاتمے ، امن کے فروغ اور عل کے قیام کے لیے ہے اور اسلام کا یہ پہلو سیرت النبی (ﷺ) خلفائے راشدین (رضی اللہ تعالی عنھم ) کے عہد کے ادوار سے بخوبی آشکار ہوتا ہے۔

مؤرخ ڈی لیسی اولیری کی رائے :

اس غلط نظریے کا جواب کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلا، ایک انگریز مؤرخ ڈی لیسی اولیری نے اپنی کتاب “Islam at the Cross Road” صفحہ 8 میں بہترین انداز میں دیا ہے:

" تاریخ بہرحال یہ حقیقت واضح کردیتی ہے کہ مسلمانوں کے متعلق روایتی تعصب پر مبنی کہانیاں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا اور اس کے ذریعے سے جنونی مسلمان دنیا پر چھا گئے، سب نامعقول اور فضول افسانے ہیں جنھیں مؤرخین نے بار بار دُوہرایا ہے۔"

سپین میں مسلمانوں کے 800 برس :

مسلمانوں نے سپین میں تقریباً 800 سال حکومت کی اور وہاں لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے کبھی تلوار نہیں اٹھائی، بعد میں صلیبی عیسائی برسر اقتدار آئے تو انہوں نے وہاں سے مسلمانوں کا صفایا کردیا اور پھر سپین مین ایک بھی مسلمان ایسا نہ تھا جو آزادی سے " اذان " دے سکے۔

تقریباً ڈیڑہ کروڑ عرب نسلی عیسائی ہیں :

مسلمان دنیائے عرب پر 1400 سال سے حکمران ہیں۔ اس کے باجود ابھی تک 14 ملین یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب ایسے ہیں جو نسلوں سے عیسئی ہیں۔ جیسے مصر کے قبطی عیسائی ، اگر اسلام تلوار یا طاقت کے زور سے پھیلا ہوتا تو عرب میں ایک بھی عیسائی نہ ہونا۔

بھارت میں غیر مسلم :

ہندوستان میں مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی۔ اگر وہ چاہتے تو بذریعہ طاقت ہندوستان کے ہر غیر مسلم کو مسلمان کر لیتے۔ آج بھارت کی 80 فیصد آبادی غیر مسلموں کی ہے۔ یہ تمام غیر مسلم کیا اس بات کی زندہ شہادت نہیں ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا۔

انڈونیشیا اور ملائشیا میں اسلام :

دُنیا بھر کے ممالک میں سے انڈونیشیا میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اسی طرح ملائشیا میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ کون سی اسلامی فوج انڈونیشیا اور ملائشیا گئی تھی؟

افریقہ کا مشرقی ساحل :

اسی طرح اسلام بہت تیزی سے براعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر پھیلا ۔ مستشرقین سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے پھیلا تو کونسی اسلامی فوج افریقہ کے مشرقی ساحل پر گئی تھی۔

تھامس کار لائل کی دلیل :

مشہور مؤرخ تھامس کار لائل اپنی کتاب " ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ " میں اسلام کے پھیلاؤ کے بارے میں مغربی تصورات کی تردید کرتے ہئے کہتا ہے:

"اسلام کے فروغ میں تلوار استعمال ہوئی لیکن یہ تلوار کیسی تھی؟ ایک نظریہ تھا۔ ہرنیا نظریہ شروع میں فردِ واحد کے نہاں خانہ دماغ میں جنم لیتا ہے۔ وہاں وہ نشونما پاتا رہتا ہے۔ اس پر دنیا بھر کا صرف ایک ہی آدمی یقین رکھتا ہے۔ گویا ایک شخص فکری لحاظ سے تمام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر وہ ہاتھ میں تلوار لے اور اس کے ذریعے سے اپنا نظریہ پھیلانے کی کوشش کرے تو یہ کوشش بے سود رہے گی۔ لیکن اگر آپ اپنے نطریے کی تلوار سے سرگرمِ علم رہیں تو وہ نظریہ دُنیا میں اپنی قوت سے خود بخود پھیلتا چلا جائے گا۔"

دین میں کوئی جبر نہیں :

یہ درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ مسلمان فروغ اسلام کے لیے تلوار استعمال کرنا چاہتے بھی تو استعمال نہیں کرسکتے تھے کیونکہ قرآن مجید مندرجہ ذیل آیت میں کہتا ہے۔

لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ (سورۃ البقرہ 2 آیت 256)

" دین میں کوئی جبر نہیں۔ ہدایت گمراہی سے واضح ہوچکی ہے۔ "

حکمت کی تلوار :

فروغِ اسلام کا باعث دراصل حکمت کی تلوار ہے۔ یہ ایسی تلوار ہے جو دل اور دماغ فتح کرلیتی ہے۔ قرآن کہتا ہے ۔ :

ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (سورۃ النحل 16 آیت 125)

" لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین وعظ کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کریں۔"

نصف صدی میں عالمی مذاہب کے پیروکاروں میں اضافہ :

1986ء میں ریڈرز ڈائجسٹ کے ایک مضمون میں 1934ء سے 1984ء تک نصف صدی میں دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے پیروکاروں کی تعدار میں فیصد اضافے کے اعداد و شمار دئے گئے تھے۔ یہ مضمون " صاف سچ " (The Plain Truth) نامی جریدے میں بھی چھپا۔ ان میں سرفہرست اسلام تھا جس کے پیروکاروں کی تعداد میں 235 فیصد اضافہ ہوا اور عیسائیت میں اضافہ صرف 47 فیصد رہا۔ پوچھا جاسکتا ہے کہ اس صدی میں کون سی مذہبی جنگ لڑی گئی جس نے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کردیا۔

امریکہ اور یورپ میں روز افزوں مذہب اسلام ہے :

آج یورپ اور امریکہ میں سب سے زیادہ بڑھنے والا مذہب اسلام ہے۔ وہ کون سی تلوار ہے جو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہونے پر مجبور کررہی ہے؟ یہ تلوار اسلام کا سچا عقیدہ ہے۔

ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن کا اعلانِ حقیقت :

ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن صحیح کہتے ہیں:

"جو لوگ فکر مند ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ایک دن عرب لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں گے ، وہ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ اسلامی بم تو پہلے ہی گرایا جاچکا ہے۔ یہ اس دن گرا تھا جب محمد (ﷺ) پیدا ہوئے تھے۔ "

سوال نمبر - 4


مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد ہیں؟


مسلمان بنیاد پرست اور دہشت گرد ہیں؟

" مسلمانوں کی اکثریت بنیاد پرست اور دہشت گرد کیوں ہے ؟ "

یہ سوال مذاہب یا عالمی امور کے متعلق کسی بحث میں بالواسطہ یا بلا واسطہ مسلمانوں کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ راسخ العقیدہ اور " بنیاد پرست " مسلمانوں کا ذکر تمام ذرائع ابلاغ میں باربار کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق افترا پردازی کی انتہا کردی جاتی ہے۔ دراصل یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ مسلمانوں کے خلاف امتیاز اور تشدد کا باعث بنتا ہے، اس کی ایک مثال اوکلاہوما میں ہونے والے بم دھماکے کی ہے۔ جس کے بعد امریکی میدیا نے مسلم دشمنی مہم چلائی، اسے مشرقِ وسطٰ کے مسلمانوں کی سازش قار دیا گیا جبکہ مجرم امریکی فوج کا ایک سپاہی تھا۔

آئیے! " دہشت گردی " اور " بنیاد پرستی " کے الزامات کا تجزیہ کریں۔

بنیاد پرست کی تعریف :

بنیاد پرست ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے عقیدے یا نظریے کی مبادیات ، یعنی بنیادی باتوں سے پوری طرح سے وابستہ ہو اور ان پر پوری طرح کاربند ہو۔ اگر ایک شخص اچھا ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے طب کی مبادیات کا علم ہونا اور اُن پر اس کا عمل پیدا ہونا ضروری ہے۔ اور ایک اچھے ریاضی دان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاضی کی مبادیات سے اچھی طرح واقف ہو۔ گویا ایک ڈاکٹر کو طب میں اور ایک ریاضی دان کو ریاضی کے شعبے میں فنڈامنٹلسٹ (Fundamentalist) یا بنیاد پرست ہونا چاہیئے، اسی طرح ایک سائنسدان کو سائنس کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہیئیں۔ دوسرے الفاظ میں اُسے سائنس کے میدان میں بنیاد پرست ہونا چاہیئے، اسی طرح دین کے معاملے میں بھی ایک شخص کا بنیاد پرست ہونا ضروری ہے۔

تمام بنیاد پرست ایک جیسے نہیں :

حقیقت یہ ہے کہ تمام بنیاد پرست ایک جیسے نہیں اور نہ ان کو ایک جیسا کہا جاسکتا ہے۔ تمام بنیاد پرستوں کو اچھے یا برے گروہوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بنیاد پرست گروہ سے وابستگی کا انحصار اُس سے متعلقہ شعبے اور سرگرمی پر ہے۔ جس میں وہ بنیاد پرستی کا مظاہرہ کرے۔ ایک بنیاد پرست ڈاکو یا چور اپنے پیشے میں بنیاد پرست ہوتا ہے جو معاشرے کے لیے تکلیف کا باعث بنتا ہے اور اس لیے نا پسندیدہ ٹھہرتا ہے جبکہ اس کے برعکس ایک بنیاد پرست ڈاکٹر معاشرے کے لیے بہت مفید ہوتا ہے اور بہت معزز بھی۔

مجھے بنیاد پرست ہونے پر فخر ہے :

میں ایک بنیاد پرست مسلمان ہوں اور اللہ تعالی کے فضل سے اسلام کے بنیادی اصولوں کو جانتا ہوں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ایک صحیح مسلمان کو بنیاد پرست ہونے پر شرمندہ نہیں ہونا چاہیئے، میں اپنے بنیاد پرست مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ اسلام کے بنیادی اصول نہ صرف انسانیت بلکہ تمام دنیا کے لیے مفید ہیں۔ اسلام کا ایک بھی بنیادی اصول ایسا نہیں جو تمام بنی نوع انسان کے مفاد میں نہ ہو یا ان کے لیے نقصان دہ ہو۔ بہت سے لوگ اسلام کے بارے میں غلط تصورات رکھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اسلام کی بہت سی تعلیمات ٹھیک نہیں اور ناانصافی پر مبنی ہیں۔ یہ اندازِ فکر اسلام کے بارے میں غلط اور ناکافی معلومات کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی کھلے دل و دماغ سے اسلام کی تعلیمات کا جائزہ لے تو وہ اس حقیقت تک پہچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اسلام انفرادی اور اجتماعی دائروں میں یکساں طور پر فائدہ مند ہے۔

بنیاد پرست کا لغوی مطلب :

ویبسٹرز (Websters) کی انگریزی ڈکشنری کے مطابق Fundamentalism یا بنیاد پرستی ایک تحریک تھی جو بیسیوں صدی کے شروع میں امریکی پروٹسٹنٹوں کے اندر اُٹھی یہ تحریک جدیدیت کے خلاف رد عمل تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ صرف عقائد اور اخلاق بلکہ تاریخی ریکارڈ کے حوالے سے بھی بائبل کے غلطیوں سے پاک ہونے پر زور دیتے تھے۔ وہ اس پر بھی زور دیتے تھے کہ بائبل کا متن ہو بہو خدا کے الفاظ ہیں۔ اس طرح بنیاد پرستی ایک ایسی اصطلاح ہے جو سب سے پہلے عیسائیوں کے ایک گروہ کے لیے استعمال کی گئی جو یقین رکھتے تھے بائبل لفظ بہ لفظ خدا کا کلام ہے اور اس میں کوئی غلطی یا تحریف نہیں ۔

لیکن اب آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق " بنیاد پرست " کا مطلب ہے:

" کسی مذہب خاص طور پر اسلام ، کے قدیم یا بنیادی نظریات پر سختی سے کاربند ہونا۔ "

یُوں مغربی دانشوروں اور میڈیا نے " بنیاد پرستی " کی اصطلاح کو عیسائیت سے الگ کرکے خاص طوراسلام سے وابستہ کردیا ہے۔ آج جب کوئی بنیاد پرست کی اصطلاح استعمال کرتا ہے تو فوراً اس کے ذہن میں ایک مسلمان کا تصور آتا ہے جو اس کے خیال میں میں دہشت گرد ہے۔

ہر مسلمان کو دہشت گرد ہونا چاہئے :

ہر مسلمان کو " دہشت گرد " ہونا چاہیئے۔ دہشت گرد ایسے شخص کو کہتے ہیں جو دہشت پھیلانے کا باعث ہو۔ جب کوئی ڈاکو کسی پولیس والے کو دیکھتا ہے تو وہ دہشت زدہ ہوجاتا ہے۔ گویا ڈاکو کے لیے پولیس والا دہشت گرد ہے، اسی طرح ہر مسلمان کو چور، ڈاکو اور زانی جیسے سماج دشمن عناصر کیلئے گرد ہونا چاہیئے۔ جب ایسا سماج دشمن شخص کسی مسلمان کو دیکھے تو اسے دہشت زدہ ہوجانا چاہیئے۔ یہ ٹھیک ہے کہ لفظ " دہشت گرد " عام طور پر ایسے شخص کیلئے استعمال ہوتا ہے جو عالم لوگوں کیلئے خوف اوردہشت کا باعث ہو لیکن سچے اور صحیح مسلمان کو صرف مخصوص لوگوں کے لیے دہشت گرد ہونا چاہیئے، یعنی سماج دشمن عناصر کے لیے نہ کہ عام بے گناہ لوگوں کیلئے، در حقیقت ایک مسلمان بے گناہ لوگوں کیلئے امن اور سلامتی کا باعث ہوتا ہے۔

دہشت گرد یا محب وطن کون ؟

آزادی ہند سے پہلے انگریزوں کی حکمرانی کے زمانے میں بعض مجاہدینِ آزادی جو عدم تشدد کے حامی نہیں تھے، انہیں انگریزوں کی حکومت " دہشت گرد " کے نام سے موسوم کرتی تھی لیکن عام ہندوستانیوں کے نزدیک تشدد پر مبنی سرگرمیوں میں مصروف یہ افراد محبِ وطن تھے۔ یوں ان لوگوں کی سرگرمیوں کو فریقین کی طرف سے مختلف نام دیئے گئے۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان پر حکومت کرنا انگریزوں کا حق ہے وہ ان لوگوں کو دہشت گرد کہتے ھتے جبکہ دوسرے لوگوں جن کا خیال تھا کہ انگریزوں کو ہندوستان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں، انہوں نے ان لوگوں کو محبِ وطن اور مجاہد آزادی قرار دیا۔

پس یہ نہایت ضروری ہے کہ کسی شخص کے بارے میں کوئی فیصلہ دینے سے پہلے اس کی بات سنی جائے، دونوں طرف کے دلائل سنے جائیں، صورت حال کا تجزیہ کیا جائے، پھر اس شخس کی دلیک اور مقصد کو پیش نظر رکھ کر اس کے مطابق اُس کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔

اسلام کا مطلب سلامتی ہے :

لفظ اسلام " سلام " سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے سلامتی، یہ امن کا مذہب ہے جس کے بنیادی اصول اس کے پیروکاروں کو تلقین کرتے ہیں کہ وہ دنیا میں امن قائم کریں اور اسے فروغ دیں۔

چنانچہ ہر مسلمان کو بنیاد پرست ہونا چاہیئے۔ اس کو امن کے دین اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا چاہئے اور اسے صرف سماج دشمن عناصر کے لیے دہشت گرد ہونا چاہیے تاکہ معاشرے میں امن اور عدل و انصاف کو فروغ ملے۔

سوال نمبر - 5


موت کے بعد زندگی کیوں ؟


موت کے بعد زندگی کیوں؟

"آپ آخرت، یعنی موت کے بعد زندگی کے وجود کو کیسے ثابت کریں گے ؟ "

کئی لوگ حیران ہوں گے کہ سائنسی اور عقلی دلائل کا حامل ایک شخص اخروی زندگی پر کیسے یقین رکھ سکتا ہے ؟ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص آخرت کی زندگی پر یقین رکھتا ہے وہ صرف اندھے اعتقاد کی بنا پر ایسا کرتا ہے جبکہ اُخروی زندگی پر میرا یقین علی دلائل پر مبنی ہے۔

آخرت کا عقیدہ عقلی بنیاد پر :

قرآن عظیم میں ایک ہزار سے زیادہ آیات ہیں جو سائنسی حقائق پر مبنی نہیں۔

اس کے لیے میری کتاب :

? Quran and Modern Science: Compatible or Incompatible

(قرآن اور جدید سائنس: مطابقت رکھتے ہیں یا عدم مطابقت ؟ )



قرآن میں مذکور بہت سے حقائق گذشتہ چند صدیوں میں سائنسی سطح پر دریافت ہوئے ہیں۔ لیکن سائنس ابھی تک قرآن کے ہر بیان کی تصدیق کی سطح پر نہیں پہنچی۔

فرض کریں کہ قرآن میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سے 80 فیصد بیانات سو فیصد درست ہیں۔ باقی 20 فیصد بیانات کے متعلق سائنس کوئی حتمی بات نہیں کہتی کیونکہ ابھی وہ اس مقام پر نہیں پہنچی جہاں وہ ان بیانات کو ثابت کرسکے یا جھٹلائے، ہم اپنے محدود علم کی روشنی میں یقین سے نہیں کہ سکتے کہ قرآن کے اس 20 فیصد حصے میں ایک فیصد یا ایک آیت بھی غلط ہے۔ اب جبکہ 80 فیصد قرآن 100 فیصد صحیح ہے۔ اور باقی 20 فیصد کو غلط ثابت نہیں کیا گیا تو منطق کہتی ہے کہ باقی 20 فیصد بھی صحیح ہے، موت کے بعد زندگی جس کا قرآن میں ذکر ہے وہ اس 20 فیصد غیر واضح حصے میں ہے جس کے متعلق منطق یہ کہتی ہے کہ صحیح ہے۔

امن اور انسانی اقدار کا تصور :

ڈاکہ زنی اچھائی ہے یا بُرائی؟ ایک عام عاقل آدمی کے نزدیک یہ بُرائی ہے ۔ ایک شخص جو موت کے بعد زندگی پر یقین نہیں رکھتا، کسی طاقتور اور بااثر ملزم کو کیسے قائل کرسکتا ہے کہ ڈاکہ زنی بُرائی ہے ؟

فرض کریں کہ میں دنیا میں سب سے طاقتور اور بااثر مجرم ہون، اس کے ساتھ ساتھ میں ایک ذہین اور منطقی شخص بھی ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ ڈاکہ زنی اچھی بات ہے کیونکہ یہ مجھے پُر تعیش زندگی بسر کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس لیے یہ میرے لیئے ٹجھیک ہے۔ اگر کوئی میرے سامنے منطقی دلیل لا سکے کہ یہ میرے لیئے کیوں بُری ہے تو میں اسے فوراً چھوڑ دوں گا لوگ عام طور پر مندرجہ ذیل دلائل دیتے ہیں:

لٹنے والے کے لیے مشکلات :

کچھ لوگوں کے نزدیک لُٹنے والا شخص مشکلات کا سامنا کرے گا، میں یقیناً متفق ہوں کہ یہ اس کے لیئے بُرا ہے جو لٹ جاتا ہے لیکن میرے لیے اچھا ہے اگر میں ہزاروں ڈالر لوٹتا ہوں میں کسی فائیو سٹار ہوٹل میں اچھے کھانے سے لطف اندوز ہوسکتا ہوں۔

کوئی آپ کو بھی لُوٹ سکتا ہے۔: کچھ لوگ دلیل دیتے ہیں کہ کسی دن میں بھی لُٹ جاؤں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ مجھے کوئی لوٹ نہیں سکتا کیونکہ میں ایک بہت طاقتور مجرم ہوں اور میرے سینکڑوں محافظ ہیں۔ میں کسی کو بھی لوٹ سکتا ہوں لیکن مجھے کوئی نہیں لوٹ سکتا۔ ڈاکہ زنی عام آدمی کیلئے خطرناک ہوسکتی ہے لیکن میرے جیسے بااثر آدمی کیلئے نہیں۔

پولیس تمہیں گرفتار کرسکتی ہے :

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر تم لوگوں کو لوٹو گے تو پولیس تمہیں گرفتار کرلے گی۔ لیکن پولیس مجھے گرفتار نہیں کرسکتی کیونکہ میں پولیس کو حصہ دیتا ہوں اور میرے حصے دار وزیر بھی ہیں۔

میں اس بات سے متفق ہوں کہ اگر عام آدمی ڈاکہ زنی کرے گا تو وہ پکڑا جائے گا اور یہ اس کے لیے اچھا نہ ہوگا لیکن میں غیر معمولی طو رپر با اثر اور طاقتور مجرم ہوں۔

میرے سامنے کوئی منطقی دلیل پیش کریں کہ میرے لیے ڈاکہ زنی کیوں بُری ہے۔ تب میں اس بُرے کام سے رک جاؤں گا۔

پیسہ کمانے کا آسان طریقہ :

کچھ لوگ کہ سکتے ہیں ک ہاس طریقے سے روپیہ کمانا آسان ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ یہ آسان طریقہ ہے اور یہی وجہ سے کہ میں ڈاکہ زنی کرتا ہوں۔ اگر ایک شخص کو یہ اختیار دیا جائے کہ پیسہ کمانے کا آسان طریقہ منتخب کرے یا مشکل تو منطقی شخص آسان راستہ ہی اختیار کرے گا۔

انسانیت کے منافی فعل :

کچھ لوگوں کے نزدیک ڈاکہ زنی انسانیت کے خلاف ہے اور یہ ایک انسان کو دوسروں کا خیال رکھنا چاہیئے، میں دوبارہ دلیل دے کر یہ پوچھنا چاہوں گا کہ جس چیز کو " انسانسیت (Humaity) " کہتے ہیں وہ کس کا قانون ہے اور مجھے کیوں اس پر عمل کرنا چاہیئے ؟

یہ قانون جذباتی اور جوشیلے شخص کے لیے اچھا ہوسکتا ہے مگر میں تو منطقی شخص ہوں مجھے دوسروں کا خیال کرنے میں کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔

خود غرضی سے لطفِ حیات :

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اوروں کو لُوٹنا خود غرضی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ خود غرضانہ فعل ہے لیکن مجھے خود غرض کیوں نہیں ہونا چاہیئے؟ خود غرضی مجھے زندگی سے لطف اندوز ہونے میں مدد دیتی ہے۔

ڈاکہ زنی بہرحال بُرا کام ہے :

یہ ثابت کرے کے نام دلائل کہ ڈاکہ زنی ایک بُرا کام ہے، بے کار ہیں۔ یہ ایک عام آدمی کو تو مطمئن کرسکتے ہیں لیکن میرے جیسے طاقتور اور بااثر مجرم کو نہیں۔ ان دلائل کا منطقی اور عقلی حوالوں سے دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ یہ کوئی حیران کن بات نہیں کہ اس دنیا میں بہت سے مجرم ہیں۔ اسی طرح زنا بالجبر اور دھوکہ دہی وغیرہ کو بھی میرے جیسے شخص کے لیے اچھا ثابت کیا جاسکتا ہے اور کوئی منطقی دلیل موجود نہیں جو مجھے قائل کرسکتے کہ یہ بُرے کام ہیں۔

مسلمان کا مجرم کو قائل کرنا :

آئیے ان کردار بدلتے ہیں۔ فرض کیجیئے کہ آپ بہت طاقتور اور بااثر مجرم ہیں۔ آپ نے پولیس اور وزیروں کو بھی پیسے سے خرید رکھا ہے اور آپ کی حفاظت کے لیے ٹھگوں کی فوج موجود ہے۔ لیکن میں بحیثیت مسلمان آپ کو قائل کرسکتا ہوں کہ ڈاکہ زنی، زنا بالجبر اور دھوکہ دہی وغیرہ بُرے کام ہیں۔ اگر میں بھی دلائل دوں جو پہلے دیے جاچکے ہیں کہ ڈاکہ زنی ایک بُرا کام ہے تو مجرم وہی جواب دے گا جو پہلے دے چکا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ مجرم کے منطقی ہونے کے باوجود اس کے تمام دلائل صرف اس وقت تک ہی صحیح ہیں جب وہ بہت طاقتور اور بااثر ہو۔ لیکن اگر اس کے اوپر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ایک ہستی موجود ہےئ، اور یقیناً ہے، تو صورتِ حال بدل جاتی ہے۔

مجرم بھی انصاف چاہتا ہے :

ہر انسان انصاف کا آرزو مند ہے۔ اگر دوسروں کے لیے نہیں تو کم از کم اپنے لیے ضرور انصاف چاہتا ہے۔ بہت سے لوگ طاقت ور اور اختیارات کے نشے میں دوسروں کو دکھ اور تکلیف پہنچاتے ہیں۔ تاہم وہ لوگ بھی اس وقت یقیناً اعتراض کرتے ہیں جب خود ان سے بے انصافی کی جاتی ہے۔ ایسے لوگ دوسروں کی تکالیف سے بے خبر ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ طاقت اور اختیارات کی پوجا کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ طاقت اور اختیارات انہیں نہ صرف دوسروں سے ناانصافی کرنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کو دوسروں کے ظلم سے بھی بچاتے ہیں۔

سب سے طاقتور اور عادل :

بحیثیت مسلمان میں ایک مجرم کو اللہ تعالی کے وجود کا قائل کروں گا اور کہوں گا کہ اللہ تم سے کہیں زیادہ طاقتور اور انصاف کرنے والا ہے قرآنِ عظیم کہتا ہے:


إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ

بلا شبہ اللہ ( کسی پر ) ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا۔​

(سورہ النساء 4 آیت 40)


اللہ مجھے سزا کیوں نہیں دیتا ؟

ایک مجرم کے روبرو جب وجود باری تعالی کے بارے میں قرآن سے سائنسی حقائق پیش کئے جائیں تو منطقی اور سائنسی نقطہ نظر رکھنے کے باعث وہ اتفاق کرتا ہے کہ اللہ موجود ہے۔ لیکن وہ کہ سکتا ہے کہ اگر اللہ طاقتور اور عادل ہے تو پھر مجھے سزا کیوں نہیں دیتا ؟

بے انصاف لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے :

ہر وہ شخص جس سے بے انصافی ہوئی ہو۔ چاہے اس کا سماجی یا معاشی مرتبہ کچھ بھ ہو۔ وہ چاہے گاکہ بے انصافی کے مرتکب شخص کو سزا ملے۔ ہر معقول شخص چاہے گا کہ ڈاکو یا عصمت دری کے مرتکب کو سبق سکھایا جائے۔ اگرچہ مجرموں کی ایک بڑی تعداد کو سزا دی جاتی ہے۔ اس کے باوجود بہت سے محرم ایسے بھی ہوتے ہیں جو محاسبے سے بچ جاتے ہیں۔ وہ بڑی خوشگوار اور عیش کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر کسی طاقتور اور بااختیار شخص کے ساتھ کوئی ایسا طاقتور اور بااختیار شخص بے انصافی کرے جو اُس سے بڑھ کر طاقتور ہوتو وہ بھی چاہے گا کہ بے انصفای کے مرتکب شخص کو سزا دی جائے۔

عاقبت کے لیے آزمائش :

انسان کی یہ زندگی موت کے بعد کی زندگی کے لیے امتحان ہے قران مجید کہتا ہے۔


الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

" وہ ( اللہ ) جس نے موت اور زندگی تخلیق کی ہے تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرتا ہے، اور وہ بڑا زبردست اور بخشنے والا ہے۔

(سورۃ الملک 67 آیت 2)


یوم حساب کو آخری انصاف : قرآن عظیم میں ہے:


كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلا مَتَاعُ الْغُرُورِ (١٨٥)

"اور ہر ذی روح موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے اور قیامت کے دن تمہیں تمہارے بدلے پورے پورے دیے جائیں گے۔ پھر جو شخص ( جہنم کی ) آگ سے بچ گیا اور اسے جنت میں داخل کردی گیا تو وہ کامیاب رہا۔ اور یہ دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔

( سورۃ آلعمران 3 آیت 185)


آخری انصاف یوم حساب کو ہوگا۔ جب ایک شخص مرجائے گا تو اس کے بعد قیامت کے دن اُسے دوسرے انسانوں کے ساتھ دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ کسی مجرم کو اس کی سزا کا کچھ حصہ اس دنیا میں مل جائے گا لیکن آخری جزا اور سزا اس کو دوسری زندگی ہی میں ملے گی۔ ممکن ہے اللہ کسی ڈاکو یا زنا بالجبر کے مجرم کو اس دنیا میں سزا نہ دے لیکن وہ قیامت کے دن یقیناً جوابدہ ہوگا اور پُوری پُوری سزا پائے گا۔

ہٹلر کو سزا کیونکر ؟

کہا جاتا ہے کہ جرمن ایڈولف ہٹلر نے اپنے پُر دہشت دورِ حکومت میں لاکھوں یہودیوں کو گیس چیمبروں میں جلاکر خاک کردیا۔ جرمنی کی شکست کے بعد پولیس اس کو گرفتار بھی کرلیتی تو انسانی قوانین کے تحت اس کو کیا سزا دی جاتی جس سے انصاف کا تقاضا پورا ہوتا؟ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتے تھے کہ اس کو بھی گیس چیمبر میں ڈال دیتے لیکن یہ تو صرف ایک یہودی کو مارنےکی سزا ہوتی۔ باقی لاکھوں یہودیوں کے قتل کا بدلہ کیسے لیا جاتا؟ اس کا جوان قرآن دیتا ہے۔

ہٹلر کو دوزخ کی سزا :

قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے:


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا ()

"بلا شبہ جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں، ان کو ہم جلد آگ میں ڈالیں گے جب ان کی کھالیں جل جائیں گی۔ تو پھر ہم ان کو نئی کھالوں میں تبدیل کردیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزہ چکھ سکیں۔ بے شک اللہ سب سے طاقتور اور خوب حکمت والا ہے۔

( سورۃ النساء 4 آیت 56)


لہذا اگر اللہ چاہے گا تو ہٹلر کو دوزخ کی آگ میں تا ابد جلایا جاتا رہے گا۔

اچھائی یا برائی تا تصور :

اس پوری بحث سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ کسی شخص کو آخرت یا موت کے بعد کی زندگی کے تصور کا قائل کیے بغیر انسانی اقدار اور اعمال کے اچھے یا برے ہونے کا تصوور کا قائل نہیں کیا جاسکتا۔ بالخصوص جب وہ بااثر اور طاقتور بھی ہو۔

حاشیہ :

آخرت کے تصور کے لیے قرآن نے جابجا مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔ حیوانات اور نباتات کے دوبارہ زندہ ہونے کی مثالیں جگہ جگہ مذکور ہیں۔ سورۃ بقرہ میں پانچ مقامات پر مُردوں کے زندہ ہونے کا ذکر ہے۔ جبکہ زمین کے مردہ (بنجر) ہونے کے بعد اس کی دوبارہ زندگی ہر انسان کے مشاہدے میں ہے، لہذا قیامت کو دوبارہ زندہ کرکے اٹھائے جانے سے کوئی دانا اور سمجھدار انکار نہیں کرسکتا ( ادارہ ))

وال نمبر - 6


ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟

(Polygamy)


ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کس لیئے؟

(Polygamy)

" اسلام میں ایک آدمی کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ یا اسلام میں مرد کو متعدد شادیوں کی کیوں اجازت ہے؟ "

کثیر ازواجی یا تعددِ ازواج سے مراد شادی کا ایسا نظام ہے جس میں ایک شخص ایک سے زیادہ زندگی رکھ سکتا ہے۔ کثیر ازواجی دو قسم کی ہے۔

(1) کثیر ازواجی زنانہ:

جس میں ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرسکتا ہے۔

(2) کثیر ازواجی مردانہ:

جس میں ایک عورت ایک سے زیادہ شوہر رکھ سکتی ہیں ۔

اسلام میں ایک محدود حد تک زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے جبکہ عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔

کثیر ازواجی مختلف مذاہب میں :

اب اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ اسلام ایک آدمی کو ایک سےز یادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟

قرآن دنیا میں وہ واحد مذہبی کتاب ہے جس میں تحریر ہے :

" صرف ایک سے شادی کرو۔ "


وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُ‌بَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾

اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی (١) یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے نا انصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ (٢)۔

النساء : 3/4


کسی دوسری مذہبی کتاب میں یہ ہدایت نہیں کی گئی کہ صرف ایک بیوی رکھ رکھو ۔ چاہے ہندوؤں کے وید، رامائن، مہا بھارت کا گیتا ہوں، یا یہودیوں کی تالمود یا عیسائیوں کی بائبل ہو، ان کتابوں کےمطابق ایک آدمی جنتی شایداں چاہے کرسکتا ہے، یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ ہندو پنڈتوں اور عیسائی کلیسا نے بیویوں کی تعداد ایک تک محدود کردی۔

بہت سی ہندو مذہبی شخصیات جن کا ان کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے، ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے تھے، رام کے باپ راجہ دسرتھ کی ایک سے زیادہ بیویاں تھیں، اسی طرح کرشن کی بہت سی بیویاں تھیں۔

شروع میں عیسائی مردوں کو بھی اجازت تھی کہ وہ جتنی چاہیں بیویاں رکھ سکتے ہیں کیونکہ بائبل میں بیویوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پابندی نہیں ، یہ تو محض چند صدیوں پہلے ہوا کہ چرچ نے بیویوں کی تعداد محدود کرکے ایک کردی۔

یہودیت میں بھی ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے :

یہودیوں کے تالمودی قانون کے مطابق حضرت ابراہیم (علیہ السلام ) کی تین بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان ( علیہ السلام ) کی سینکڑوں ۔

( حاشیہ: بائبل کی اس تصدیق درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے۔)

حدثنا علي بن عبد الله،‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ عن هشام بن حجير،‏‏‏‏ عن طاوس،‏‏‏‏ سمع أبا هريرة،‏‏‏‏ قال قال سليمان لأطوفن الليلة على تسعين امرأة،‏‏‏‏ كل تلد غلاما يقاتل في سبيل الله‏.‏ فقال له صاحبه ـ قال سفيان يعني الملك ـ قل إن شاء الله‏.‏ فنسي،‏‏‏‏ فطاف بهن،‏‏‏‏ فلم تأت امرأة منهن بولد،‏‏‏‏ إلا واحدة بشق غلام‏.‏ فقال أبو هريرة يرويه قال ‏"‏ لو قال إن شاء الله،‏‏‏‏ لم يحنث وكان دركا في حاجته ‏"‏‏.‏ وقال مرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لو استثنى ‏"‏‏.‏ وحدثنا أبو الزناد عن الأعرج مثل حديث أبي هريرة‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حجیر نے، ان سے طاؤس نے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ سلیمان علیہ السلام نے کہا تھا کہ آج رات میں اپنی نوے بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر بیوی ایک بچہ جنے گی جو اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے۔ ان کے ساتھی سفیان یعنی فرشتے نے ان سے کہا۔ اجی انشاءاللہ تو کہو لیکن آپ بھول گئے اور پھر تمام بیویوں کے پاس گئے لیکن ایک بیوی کے سوا جس کے یہاں ناتمام بچہ ہوا تھا کسی بیوی کے یہاں بھی بچہ نہیں ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اگر انہوں نے انشاءاللہ کہہ دیا ہوتا تو ان کی قسم بے کار نہ جاتی اور اپنی ضرورت کو پالیتے اور ایک مرتبہ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اگر انہوں نے استثناء کر دیا ہوتا۔ اور ہم سے ابوالزناد نے اعرج سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح بیان کیا۔

(صحیح البخاری، الأیمان و النذور، باب کیف کانت یمین النبی (ﷺ) حدیث 6639))


کثیر ازواجی اس وقت تک جاری رہی جب ربی گرشوم بن یہودا ( 960ء تا 1030ء) نے ایک فرمان کے ذریعے سے زیادہ شادیوں پر پابندی لگا دی مگر مسلم ممالک میں رہنے والے سیفارڈی یہودیوں نے 1950ء تک اس پر عمل درآمد جاری رکھا حتی کہ۔

اسرائیل کے دفتر پیشوائے اعلیٰ (Chief Rabbinate) نے ایک سے زیادہ شادیوں پر پابندی کا دائرہ بڑھا دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ 1975ء کی بھارتی مردم شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ ہندوؤں نے مسلمانوں کی نسبت زیادہ شادیاں کی ہیں۔ " کیمٹی برائے اسلام میں عورت کا مقام " کی رپورٹ جو 1975ء میں شائع ہوئی اس کے صفحات 66-67 میں بتایا گیا کہ 1961ء سے ا1991ء تک کے دوران میں ایک سے زیادہ شادیوں کے لیے ہندوؤں کا تناسب 5.06% جبکہ مسلمانوں کا 4.31% تھا۔ بھارت کے قانوں کے مطابق صرف مسلمانوں کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے۔ وہاں کسی غیر مسلم کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھنا غیر قانونی ہے ۔ اس کے باوجود کہ یہ غیر قانونی ہے، مسلمانوں کی نسبت ہندو زیادہ بیویاں رکھتے ہیں۔ پہلے بھارت میں بیویوں کی زیادہ تعداد کے بارے میں پابندی نہ تھی، 1954ء میں جب بھارت میں شادت کا قانون ( میرج ایکٹ ) پاس کیا گیا تو ہندوؤں کے لیے ایک سے زیادہ بیویاں رکھان غیر قانونی قرار پایا ( یہ بات قانون میں ہے لیکن ہندو مذہب کی کسی کتاب میں نہیں )۔

اب ہم جائزہ لیتے ہیں کہ اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت کیوں دیتا ہے؟

قرآن محدود تعداد میں عورتوں سے شادی کی اجازت دیتا ہے ۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ قرآن کرۂ ارض پر واحد کتان ہے جو یہ کہتی ہے کہ " صرف ایک سے شادی کرو۔" قرآن عظیم کی سورۃ النساء میں اس بات کو اس پیرائے میں بیان کیا گیا ہے:

فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً

"چنانچہ تم ان عورتوں سے شادی کرو جو تمہیں اچھی لگیں دو دو ، تین تین یا چار چار (عورتوں ) سے ، لیکن اگر تم کو اس کا خوف ہو کہ تم ( ان کے ساتھ ) انصاف نہ کرسکو گے تو صرف ایک سے ( نکاح کرو )۔

(سورۃ النساء 4 آیت 3)


نزول قرآن سے پہلے شادیوں کی تعداد محدود نہ تھی اور کئ مرد بیسیوں بیویاں رکھتے تھے، اور بعض کی تو سینکڑوں بیویاں تھیں، لیکن اسلام نے بیویوں کی تعداد 4 تک محدود رکھی ہے، اسلام مرد کو دو، تین یا چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دیتا ہے ، بشرطیکہ وہ ان میں انصاف کرسکے۔


اسی سورت ، یعنی سورۃ النساء کی آیت 129 کہتی ہے۔


وَلَنْ تَسْتَطِيعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ ()

" تم عورتوں کے درمیاں انصاف نہ کرسکو گے ۔

(سورۃ النساء 4 آیت 129)


اس لیئے زیادہ شادیاں کرنا کوئی قانون نہیں بلکہ استثناء ہے۔ بہت سے لوگ یہ غلط نظریہ رکھتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ ایک مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھے۔


حلت و حرمت کے اعتبار سے اسلامی احکام کی پانچ اقسام ہیں:

فرض:

یہ لازمی ہے اور اس کا نہ کرنا باعث سزا و عذاب ہے۔

مستحب:

اس کا حضکم دیا گیا ہے اور اس پر عمل کی ترغیب دی گئی ہے۔

مباح:

یہ جائز ہے ، یعنی اس کی اجازت دی گئی ہے ۔ اس کا کرنا یا نہ کرنا برابر ہ۔

مروہ:

یہ اچھا کام نہیں، اس پر عمل کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔

حرام:

اس سے منع کیا گیا ہے، یونی اس پر عمل کرنا حرام ہے اور اس کا چھوڑان باعثِ ثواب ہے۔

ایک سے زیادہ شادیاں کرنا مذکورہ احکام کے درمیانے درجے میں ہے۔ اس کی اجازت ہے لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک مسلمان جسن کی دو، تین یا چار بیویاں ہیں، اس سے بہتر ہے جس کی صرف ایک بیوی ہے۔

عورتوں کی اوسط عمر :

قدرتی طور پر لڑکے اور لڑکیاں تقریباً برابر پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن ایک بچی میں ایک بچے کی نسبت قوت مدافعت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک بچی بیماریوں کا ایک بچے کی نسبت بہتر مقابلہ کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی عمر میں لڑکوں کی شرح اموات لڑکیوں ک نسبت زیادہ ہے۔

اسی طرح جنگوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہلاک ہوتے ہیں۔ حادثات اور امراض کے باعث بھی عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں۔ عورتوں کی اوسط عمر بھی مردوں کی نسبت زیادہ ہے۔ اور دنیا میں رنڈوے مردوں کی نسبت بیوہ عورتیں زیادہ ہوتی ہیں۔

بھارت میں نسوانی جنین اور لڑکیوں کا قتل :

بھارت اور اس کئے ہمسایہ ممالک ان چند ممالک میں شامل ہیں جہاں عورتوں کی آبادی مردوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں بچپن میں ہی لرکیوں کو ہلاک کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حیقیت یہ ہے کہ وہاں لاکھوں عورتیں حمل کے طبی معاینے میں لڑکی کا علم ہونے پر اسقاط کروا دیتی ہیں۔ اس طرح ہر سال 10 لاکھ سے زیادہ بچیاں قبل از ولادت ہی موت کے گھاٹ اُتار دی جاتی ہیں۔ اگر اس سفاکی کو روک دیا جائ ےتو بھارت میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ ہوگی۔

عالمی سطح پر عورتوں کی آبادی مردوں کی نسبت زیادہ ہے :

امریکہ میں عورتوں کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً 78 لاکھ زیادہ ہے۔ صرف نیویارک میں عورتیں مردوں سے 10 لاکھ زیادہ ہیں۔ نیز مردوں کی ایک تہائی تعداد ہم جنس پرست ہے۔ مجموعی طور پر امریکہ میں ہم جسن پرستوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کو عورتوں سے شادی کی خواہش نہیں ، اسی طرح برطانیہ میں عورتوں کی تعداد مردوں سے 40 لاکھ زیادہ ہے۔ جرمنی میں مردوں کی نسبت عورتیں 50 لاکھ زیادہ ہیں۔ اسی طرح روس میں بھی مردوں کے مقابلے میں عورتیں 90 لاکھ زیادہ ہیں۔ فی الجملہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ دنیا میں مجموعی طور پر خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت کتنی زیادہ ہے۔

ہر مرد کو صرف ایک شادی تک محدود رکھنا ناقابل عمل ہے :

اگر ایک مرد ایک عورت سے شادی کرے تب بھی امریکہ میں تین کروڑ عورتیں بے شوہر رہیں گی۔ ( یہ بات پیشِ نظر رہے کہ اڑھائی کروڑ امریکی مرد ہم جنس پرست ہیں ) اسی طرح 40 لاکھ برطانیہ میں ، 50 لاکھ جرمنی میں اور 90 لاکھ روس میں ایسی عورتیں ہوں گی جنہں خاوند نہیں مل سکے گا۔

فرض کریں کہ میری بہن امریکہ میں رہنے والی غیرشادی شدہ خواتین میں سے ہے۔ یا فرض کریں آپ کی بہن وہاں اس حالت میں رہ رہی ہے۔ اس مسئلے کے صرف دو حل ہیں کہ یا تو وہ کسی شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا پھر " پبلک پراپرٹی" ( اجتماعی ملکیت ) بنے، اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ جو عورتیں نیک ہیں وہ یقیناً پہلی صورت کو ترجیح دیں گی۔ بہت سی خواتین دوسری عورتوں کے ساتھ اپنے شوہر کی شراکت پسند نہیں کرتیں۔ لیکن اسلامی معاشرے میں جب گھمبیر اور پیچیدہ ہو تو ایک صاحبِ ایمان عورت اپنا معلومی ذاتی نقصان برداشت کرسکتی ہے مگر اس بڑے نقصان کو برداشت نہیں کرسکتی کہ اس کی دوسری مسلمان بہنیں " پبلک پراپرٹی " یعنی اجتماعی ملکیت بن کر رہیں۔

شادی شدہ مرد سے شادی اجتماعی ملکیت بننے سے بہتر ہے۔ مغربی معاشرے میں عام طور پر ایک شادہ شدہ مرد اپن بیوی کے علاوہ دوسری عورتوں سے بھی جنسی تعلقات رکھتاہے۔ ایسی صورت میں عورت ہتک آمیز زندگی بسر کرتی اور عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے۔ دوسری طرف یہی معاشرہ ایسے مرد کو جس کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوتی ہیں قبول نہیں کرتا۔ حالانکہ اس تعددِ ازواج کی صورت میں عورت پوری عزت اور حفاظت کے ساتھ نہایت باوقات زندگی بسر کرسکتی ہے۔

اس طرح عورت کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں: یا تو وہ شادی شدہ مرد سے شادی کرے یا " اجتماعی ملکیت " بن جائے، اسلام پہلی صورت کو ترجیح دیتے ہوئے اسے باعزت مقام دلاتا ہے۔ اور دوسری صورت کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی اسباب ہیں جن کے پیش نظر اسلام مرد کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دیتا ہے۔ ان اسباب میں اصل اہمیت کی چیز عورت کی عزت و ناموس ہے جس کی حفاظت اسلام کے نزدیک فرض اور لازم ہے۔

سوال نمبر - 7


ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟

(Polyandry)


ایک سے زیادہ شوہروں کی ممانعت کیوں؟

(Polyandry)

" اگر اسلام ایک سے زیادہ بیویوں کی اجازت دیتا ہے تو وہ ایک عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے کی اجازت کیوں نہیں دیتا؟"

بہت سے لوگ جن میں بعض مسلمان بھی شامل ہیں اس امر کی دلیل مانگتے ہیں کہ جب ایک مسلمان مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازرت ہے تو یہی "حق" عورت کو کیوں نہیں دیا گیا ؟

سب سے پہلے میں یہ کہوں گا کہ اسلامی معاشرے کی بنیاد عدل اور مساوات ہے۔ اللہ نے مرد اور عورت کو برابر پیدا کیا لیکن مختلف صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ ، مرد اور عورت جسمانی اور نفسیاتی طور پر ایکد وسرے سے مختلف ہیں۔ اس لیے کہ ان کے کردار اور ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں۔ مرد اور عورت اسلام میں برابر ہیں لیکن ہو بہو ایک جیسے نہیں۔

سورۃ النساء کی آیات 22 تا 24 میں ان عورتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن سے مسلمان مرد شادیاں نہیں کرسکتے۔ مزید برآں آخری آیت 24 کے مطابق ان عورتوں سے بھی شادی ممنوع ہے جو " شادی شدہ " ہوں -

مندرجہ ذیل نکات یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو ایک سے زیادہ مرد رکھنے سے کیوں روکتا ہے:

1) اگر ایک آدمی کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو ان سے پیدا ہونے والے بچوں کے ماں باپ کی آسانی سے شناخت ممکن ہے۔ اس صورت میں بچے کی ماں اور باپ کی پہچان ہوسکتی ہے۔ ایک سے زیادہ شوہر ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے بچوں کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر باپ کا پتہ نہیں چل سکتا۔ اسلام ماں اور باپ دونوں کی پہچان کو بہت اہمیت دیتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک جو بچے اپنے والدین کو نہیں جانتے، خاس طور پر اپنے باپ کو، وہ بہت زیادہ ذہنی تکلیف، بے چینی اور کشمکش کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اکثر ایسے بچوں کا بچپن ناخوشگوار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طوائفوں کے بچوں کا بچپن صحت مند اور خوشگوار نہیں ہوتا۔ ایسے تعلق سے پیدا ہونے والے بچے کو جب اسکول میں داخل کرایا جاتا ہے اور اس وقت ماں سے اس کے باپ کا نام پوچھا جاتا ہے تو اُسے دو یا اس سے زیادہ ناموں کا حوالہ دینا پڑتا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ موجودہ سائنسی ترقی کی بدولت جین ٹیسٹ کے ذریعے سے ماں اور باپ کی شناخت ہوسکتی ہے۔ اس لیئے یہ نکتہ جو ماضی میں مؤثر تھا ممکن ہے کہ اب نہ ہو لیکن بچوں کے ناخوشگوار بچپن اور ان کی ذہنی تکلیف کا مسئلہ بدستور برقرار رہتا ہے اور یہ وراثت، یعنی باُ کی جائیداد وگیرہ کی تقسیم کے مسئلے میں بھی پیچیدگی کا باعث بنتا ہے۔

2) مرد فطری طورپر عورتوں کی نسبت متعدد شادیوں کا زیادہ خواہشمند ہوتا ہے۔

3) جسمانی یا حیاتیاتی طور پر ایک مرد کے لیئے کئی بیویاں رکھنے کے باوجود اپنے فرائض انجام دینا آسان ہوتا ہے۔ جبکہ ایک عورت کے لیئے جو ایک سے زیادہ شوہر رکھتی ہو بحیثیت بیوی اپنی ذمہ داریاں نبھانا ہرگز ممکن نہیں۔ ایک عورت ہر ماہواری کے دوران میں بہت سی نفسیاتی اور مزاج کی تبدیلیوں سے گزرتی ہے۔

4) ایک عورت جس کے ایک سے زیادہ شوہر ہوں۔ اسے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے پڑیں گے تو اس کو بہت سی جنسی بیماریاں لگ سکتی ہیں۔ جو وہ اپنے کسی شوہر کو منتقل کرسکتی ہے، چاہے اس کے تمام شوہروں کے دوسری خواتین سے غیر ازدواجی تعلقات نہ بھی ہوں لیکن یہ صورت حال مرد کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں پیش نہیں آتی۔

یہ تمام وہ ظاہری وجوہ جن کا آسانی سے علم ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اور بھی بہت سی وجوہ ہوں جن کا علم دانائے راز، اللہ تعالی علیم و خبیر کو ہی بہتر طور پر ہو کہ اس نے عورت کو ایک سے زیادہ شوہر رکھنے سے کیوں منع کیا ہے۔

حاشیہ:

اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور نگران بنایا ہے، وہ خاندان کی اولاد اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے، اور یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ ایک سے زیادہ گھروں کی دیکھ بھال کرسکے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے اندر ایک غیر فطری غیرت ہے، جو ہر سلیم الفطرت شخص کے اندر پائی جاتی ہے، کہ بیوی کے معاملے میں وہ کسی کی شراکت کو برداشت نہیں کرتا۔ یہ غیرت نہ صرف انسانوں میں ہے بلکہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ وہ بھی اس معاملے میں شراکت برداشت نہیں کرتے۔

جیسا کہ امام بخاری ( رحمۃ اللہ علیہ) نے عمر بن میمون کے حوالے سے بندروں کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے، حافظ ابن حجر ( رحمت اللہ علیہ ) نے فتح الباری میں اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے :

عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ میں یمن میں ایک ٹیلے پر اپنے خاندان کی بکریاں چرا رہا تھا ایک بندر اور بندریا وہاں آئے، بندر نے بندریا کا بازو اپنے سر کے نیچے رکھا اور سوگیا۔ اس دوران ایک اور بندر آیا اور اس نے بندریا کو بہکایا اور وہ اس کے ساتھ چلی گئی اور تھوڑا دور جاکر انہوں نے بدکاری کی ، پھر بندریا واپس آئی اور اپنا ہاتھ بندر کے سر کے نیچے داخل کرناچاہا تو وہ جاگ اُٹھا، اس نے اسے سونگھا اور چلانے لگا۔ کئی بندر اکھٹے ہوگئے وہ مسلسل چلائے جارہا تھا اور اس بندریا کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ بندر ادھر اُدھر گئے اور اس بندر کو لے آئے جس نے بدکاری کی تھی، انہوں نے ان دونوں کے لیئے ایک گڑھا کھودا اور انہیں رجم کردیا۔

( فتح الباری 7/202، حدیث : 3859) ​

اس طرح خنزیر کے علاوہ تمام جانوروں میں یہ غیرت کی حس موجود ہے ، جب حیوان برداشت نہیں کرسکتے کہ ان کی مؤنث کو کوئی اور نر جفتی کرے تو انسان اپنی شریک حیات میں شراکت کیسے برداشت کرسکتا ہے؟ ( عثمان منیب ))

سوال نمبر - 8


کیا حجاب عورت کا استحصال نہیں؟


کیا حجاب عورت کا استحصال نہیں؟

"اسلام عورت کو پردے میں رکھ کر اس کی حیثیت کیوں گھٹاتا ہے؟ "

سیکولر میڈیا میں اسلام میں عورت کی حیثیت کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حجاب یا اسلامی لباس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ عورت اسلامی شریعت کی محکوم اور باندی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسلام کے حجاب کے حکم کا تجزیہ کریں، ہمیں اسلام سے پہلے کے معاشروں میں عورت کی حیثیت کا مطالعہ کرنا ہوگا۔

زمانہ قدیم میں عورت کی حیثیت :

تاریخ سے لی گئی درج ذیل مثالیں واضح کرتی ہیں کہ قدیم تہذیبوں میں عورت کی حیثیت نہایت بے وقعت تھی اور اسے محض شہوانیی جذبات کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا حتی کہ اسے بنیادی انسانی شرف و عزت سے بھی محروم کردیا گیا تھا۔

بابل کی تہذیب:

اس تہذہب میں عورتوں کو گھٹیا سمجھا جاتا اور بابلی قوانین کے تحت وہ تمام حقوق سے محروم تھیں۔ اگر ایک آدمی قتل کا مرتکب ہوتا تو بجائے اس کے کہ اُسی کو سزا ملے، اس کی بیوی کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تھا۔

یونانی تہذیب:

یونانی کو قدیم تہذیبوں میں بہترین اور شاندار تہذیب سمجھا جاتا ہے۔ اس "شاندار" تہذہب میں عورت تمام حقوق سے محروم تھی اور اسے حقیر سمجھا جاتا تھا۔ یونانی دیومالائی کہانیوں میں ایک خیالی عورت جسے " پنڈورا" کہا جاتا تھا، اُسے انسانوں کی بدقسمتی کی بنیادی وجہ خیال کیا جاتا تھا۔ یونانی لوگ عورت کو مرد سے بہت کمتر سمجھتے تھے۔ اگرچہ عورت کی دوشیزگی کو قیمتی سمجھا جاتا اور عورتوں کو اس حوالے سے خاصی اہمیت دی جاتی تھی لیکن بعد میں یونانی تہذیب پر بھی انانیت اور جنسی بے راہ روی چھا گئی اور اس تہذیب میں ذوقِ طوائفیت عالم ہوگیا۔

رومی تہذیب:

جب رومی تہذیب اپنی "عظمت" کی بلندیوں پر تھی، ایک مرد کو یہ اختیار بھی حاصل تھا کہ وہ اپنی بیوری کی جان لے سکتا تھا، طوائف بازی اور عریانیت اس معاشرے میں عام تھی۔

مصری تہذیب:

یہ تہذیب عورت کو مجسم برائی سمجھتی اور اُسے شیطنت کو علامت گردانتی تھی۔

اسلام سے پہلے عرب کی تہذیب:

عرب میں اسلام آنے سے پہلے عورت کو بہت حقیر سمجھا جاتا تھا اور جب لڑکی پیدا ہوتی تو اُسے بالعموم زندہ دفن کردیا جاتا۔

اسلام نے عورت کو مساوی درجہ دیا :

اسلام نے عورت کو برابری کا درجہد یا۔ اس کے حقوق کا تیون 1400 سال پہلے کردیا اوروہ توقع کرتا ہے کہ عورت اپنا یہ درجہ برقرار رکھے۔

مردوں کا حجاب :

لوگ عام طور پر "حجاب " کو عورتوں کو تناظر میں زیر بحث لاتے ہیں لیکن قرآن عظیم میں اللہ تعالی مردوں کے حجاب کو عورتوں کے حجاب سے پہلے بیان کرتا ہے۔ سورۃ نور میں بیان کیا گیا ہے:

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ (٣٠)

" اور ایمان والوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہوں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کیلئے پاکیزگی کی بات ہے، اور اللہ اس کی خوب خبر رکھتا ہے۔ جو کام تم کرتے ہو۔

( سورۃ النور 24 آیت 30)​

لہذا جب ایک مرد کی نگاہ کسی غیر محرم خاتون پر پڑے تو اسے اپنی نظر جھکا لینی چاہیئے۔

سورۃ النور کی اگلی آیت میں ہے:

وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الإرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَاتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٣١)

" اور ایمان والی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ سوائے اس ککے جو ( از خود ) ظاہرہو۔ اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں ڈالے رکھیں اور اپنے سنگھار کی نمائش نہ کریں۔ مگر اپنے شوہروں پر یا اپنے باپ دادا پر یا اپنے شوروں کے باپ دادا پر یا اپنے بیٹیوں پر یا اپنے شوہروں کے ( سوتیلے ) بیٹیوں پر، اپنے بھائیروں پر یا اپنے بھتیجوں پر یا اپنے بھانجوں پر یا اپنی ( مسلمان ) عورتوں پر یا اپنے دائیں ہاتھ کی ملکیت ( کنیزوں ) پر یا عورتوں سے رغبت نہ رکھنے والے نوکر چاکر مردوں پر یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی چھپی باتوں سے واقف نہ ہوں۔

( سورۃ النور 24 آیت 31)​


حجاب کا معیار :

قرآن و سنت کے مطابق پردے کے لیے چھ بنیادی معیار ہیں :-

پہلا معیار یہ ہے کہ جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا چاہیئے۔ یہ عورتوں اور مردوں کے لیئے مختلف ہے۔ مرد کے لیئے یہ معیار ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے جبکہ عورتوں کے لیئے تما جسم کا ڈھانپنا لازم ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے، اور اگر ان کی خواہش ہو تو جسم کے ان حصوں کو بھی ڈھانپ سکتی ہیں۔بعض علمائے کرام کے نززیک ہاتھ اور چہرہ بھی لازمی پردے میں شامل ہیں۔ ( اوریہی بات راجح )۔

علاوہ ازیں مردوں اور عورتوں کے لیئے حجاب کےک پانچ یکساں معیار ہیں :-

1) کپڑے جو پہنے جائیں وہ ڈھیلے ڈھالے ہوں جو جسمانی اعضاء کو نمایاں نہ کریں۔

2) کپڑے اتنے باریک نہ ہوں کہ ان میں سے سب کچھ نظر آئے یا آسانی سے دیکھا جا سکے۔

3) لباس اتنا شوخ نہ ہو جو جنسِ مخالت کے مشابہ ہو ( یعنی عورتیں مردوں جیسے کپڑے نہ پہنیں اور مردوں کو چاہیئے کہ عورتوں جیسا لباس نہ پہنیں )۔

4) لباس غیر مسلموں کے لباس سے مشابہ نہ ہو، یعنی ایسا لباس نہ پہنیں جو غیر مسلموں کی مذہبی شناخت اور مخصوس علامت ہو۔

5) حجاب میں اخلاق اور شخصی طرز عمل بھی شامل ہیں۔

مکمل حجاب میں ان چھ بینادی معیاروں کے علاوہ اخلاقی کردار، سماجی رویے، وضع قطع اور شخصی ارادے کا بھی دخل ہے۔ حجاب کو صرف لباس کے معیار کی حد تک سمجھنا محدود سوچ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں، دِل، سوچ اور ارادے اور نیت کا حجاب بھی ضروری ہے۔ اس میں انسان کے چلنے کا طریقہ، گفتگو کا سلیقہ اور رویے کا اظہار بھی شامل ہے۔

حفاظتی حصار :

حجاب چھیڑ چھاڑ سے بچاتا ہے، آخر عورت کے لیئے پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اس کی وجہ سورۃ الاحزاب میں بیان کی گئی ہے۔ اِرشاد باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لأزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَنْ يُعْرَفْنَ فَلا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (٥٩)

" اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہ دیجیئے کہ وہ ( گھر سے باہر ) اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو گرا لیا کریں۔ یہ ( بات ) ان کے لیئے قریب تر ہے کہ وہ ( حیا دار مومنات کے طور پر ) پہچانی جاسکیں اور انہیں ایذا نہ دی جائے ( کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرسکے ) اور اللہ بہت معاف کرنے والا اور نہایت مہربان ہے"

( سورۃ الاحزاب 33 آیت 59)​

قرآن سے واضح ہے کہ عورتوں کو پردے کا حکم اس لیئے دیا گیا ہے کہ وہ باحیا عورتوں کی حیثیت سے پہچانی جائیں اور مردوں کی شرارتوں اور چھیڑ خانیوں سے محفوظ رہیں۔

مغرب میں عورت کا استحصال :

مغربی تہذیب عورت کی جس آزادی اور آزاد خیالی کی بلند آہنگ وکالت کرتی ہے وہ اس کے جسمانی استحصال، اس کی روحانی تحقیر اور اس کی عزت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں، مغربی تہذیب عورت کا درجہ بلند کرنے کا بڑا چرچا کرتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، واقعہ یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے عورت کی عزت کو پامال کردیا ہے۔ اُسے عورت کے شرف و منزلت سے گرا دیا ہے ، اُسے داشتہ اور محبوبہ بنا دیا ہے۔ مغربی تہذیب میں عورت، عورت نہیں ہے۔ رنگین تتلی ہے، حصول لذت کا کھلونا ہے، مغرب نے عورت کو نیلام کا مال بنا دیا ہے، نام نہاد " فن" اور " ثقافت " کی آر میں عورت کا شرمناک استحصال کیا جارہا ہے۔

امریکہ میں ریپ :

امریکہ کو دنیا میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں عورتوں کی سب سے زیادہ آبروریزی بھی وہیں ہوتی ہے۔ ایف بی آئی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں صرف 1990ء میں روزانہ عصمت دری کے اوسطاً 1756 مقدمات درج ہوئے۔ بعد کی ایک اور رپورٹ کے مطابق امریکہ میں روزانہ تقریباً 1900 کی اوسط سے عصمت دری کے واقعات پیش آئے۔ سال نہیں بتایا گیا۔ ہوسکتا ہے 1992ء یا 1993ء ہو، مزید برآں ہوسکتا ہے اس کے بعد امریکی جبری بدکاریوں میں اور زیادہ نڈر ہوگئے ہوں۔ ذرا چشم تصور سے دیکھیئے:

میں آپ کے سامنے امریکہ کا ایک منظر پیش کرتا ہوں جہاں مسلم خاندانوں میں پردہ کیا جاتا ہے۔ جب بھی کوئی آدمی کسی عورت کو پردے میں یا اسلامی حجاب میں بُری نگاۃ سے دیکھتا ہے یا کوئی شرمناک خیال اُس کے ذہن میں آتا ہے تو وہ اپنی نگاہ نیچی کرلیتا ہے۔ ہر عورت اسلامی حجاب پہنتی ہے جس میں اس کا تمام جسم ڈھکا ہوا ہے سوائے چہرے اور کلائی تک ہاتھوں کے ، اس کے بعد اگر کوئی زنا بالجبر کرتا ہے تو اُسے سزائے موت دی جاتی ہے۔

میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا اس پس منظر میں امریکہ میں عصمت دری کے واقعات بڑھیں گے ، اسی طرح رہیں گے، یا کم ہوجائیں گے۔

اسلامی شریعت کا نفاذ :

فطری طور پر اسلامی شریعت کا نفاذ ہوتے ہی مثبت نتائج ناگزیر ہوں گے۔ اگر دنیا کے کسی بھی ملک میں چاہے وہ امریکہ ہو یا یورپ، اسلامی قوانین کا نفاذ کیا جائے تو معاشرہ سکون کا سانس لے گا۔ اسلامی حجاب عورت کا مرتبہ کم نہیں کرتا بلکہ اونچا کرتا ہے اور اس کی حیاداری اور پاکدامنی کی حفاظت کا ضامن ہے۔

سوال نمبر - 9


مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟


مرد اور عورت کی گواہی میں مساوات کیوں نہیں؟

"دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟ "

دو عورتوں کی گواہ ہمیشہ ایک مرد کی گواہی کے برابر نہیں۔ قرآن مجید میں تین آیات ہیں جن میں مرد اور عورت کی تفریق کے بغیر گواہی کے احکام آئے ہیں:

وراثت کے متعلق وصیت کرتے وقت دو دال اشخاص کی گواہی کی ضرورت ہوتی ہے :

سورۃ مائدہ میں قرآن عظیم کہتا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الأرْضِ فَأَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةُ(سورۃ المائدہ 5 آیت 106)

" اے ایمان والو! جب تم میں سے کسی کو موت آنے لگے تو تمہارے درمیان گواہی ہونی چاہیئے۔ ترکے کی وصیت کے وقت دو انصاف والے اپنے ( مسلمانوں ) میں سے گواہ بنا لو اگر تم زمین میں سفر پر نکلو اور ( راستے میں ) موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیر قوم کے دو ( گواہ بھی کافی ہوں گے )۔

( سورۃ المائدہ 5 آیت 106)


طلاق کے معاملے میں دو عادل اشخاص کو گواہ بنانے کا حکم ہے :

وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ وَأَقِيمُوا الشَّهَادَةَ لِلَّهِ ( سورۃ الطلاق 65 آیت 2)

" اور تم اپنے میں سے دو اشخاص کو گواہ بنالو جو عادل ہوں اور اللہ کے لیئے گواہی دو۔ "

( سورۃ الطلاق 65 آیت 2)


پاکباز عورت کے خلاف گواہی کیلئے چار شہادتیں درکار ہیں:


وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا وَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (٤) ( سورۃ النور 24 آیت 4)

" اور جو لوگ پاکباز عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر وہ چار گواہ پیش نہ کرسکیں ( اپنے الزام کی تصدیق میں ) تو ان کو 80 کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو۔ اور یہی لوگ نافرمان ہیں۔"

( سورۃ النور 24 آیت 4)


مالی لین دین میں عورت کی گواہی :

یہ صحیح نہیں کہ ہمیشہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہوگی۔ یہ صرف چند معاملات کے لیے ہے۔ قرآن میں 5 آیات ہیں جن میں گواہی کے بارے میں مرد اور عورت کی تخصیص کے بغیر حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ صرف ایک آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔ یہ سورۃ بقرہ کی آیت 282 ہے۔ مالی معاملات کے متعلق یہ قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے۔:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَلْيَكْتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ وَلا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى (سورۃ البقرہ 2 آیت 282)

" اے ایمان والو! جب تم ایک مقررہ مدت کے لیے ایک دوسرے سے ادھار کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارے دریمان انصاف سے لکھے اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسے اللہ نے اسے سکھایا ہے اسے لکھنا چاہیئے، اور وہ شخص لکھوائے جس کے ذمے قرض ہو اور اسے اپنے رب، اللہ سے ڈرنا چاہیئے اور ( لکھواتے وقت ) وہ ( مقروض ) اس میں سے کوئی چیز کم نہ کرے ۔ لیکن اگر وہ فرد جس کے ذمے قرض ہو، نادان یا ضعیف ہو یا لکھوا نہ سکتا ہو تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ لکھوائے، اور تم اپنے مسلمان مردوں میں سے دو گواہ بنا لو، پھر اگر دو مرد میسر نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں کے طور پر پسند کرو ( یہ اس لیے ) کہ ایک عورت بھول جائے تو ان میں سے دوسرے اُسے یاد دِلا دے۔ "

( سورۃ البقرہ 2 آیت 282)​

قرآن کی یہ آیت صرف مالی معاملات اور لین دین کیلئے ہے۔ اس قسم کے معاملات میں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ معاہدے کو دونوں فریقوں کے مابین لکھا جائے اور دو گواہ بنائے جائیں اور یہ کوشش کی جائے کہ وہ صرف مرد ہوں۔ اگر دو مرد نہ مل سکیں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں کافی ہیں۔

اسلامی شریعت مین مالی معاملات میں دو مردوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اسلام مرد سے خاندان کی کفالت کی توقع کرتا ہے۔ چونکہ اقتصادی ذمہ داری مردوں پر ہے۔ اس لیے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ لین دین میں عورتوں کی نسبت زیادہ علم و آگہی رکھتے ہیں۔ دوسری صورت میں ایک مرد اور دو عورتیں گواہ ہوں گی کہ اگر ایک غلطی پر ہو تو دوسری اُسے یاد دِلا دے ۔ قرآن میں عربی لفظ "تَضِل" یا " بھول جاتا "، یوں صرف مالی معاملات میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر رکھی گئی ہے۔

قتل کے مقدمات میں نسوانی گواہی :

اس کے برعکس کچھ لوگوں کی رائے میں کہ عورتوں کی شہادت قتل کے معاملے میں بھی دوہری ہے، یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔ اس قسم کے معاملات میں عورت ، مرد کی نسبت زیادہ خوفزدہ ہوتی ہے۔ وہ اپنی جذباتی حالت کی وجہ سے پریشان ہوسکتی ہے۔ اس لیے کچھ لوگوں کے نزدیک قتل کے مقدمات میں بھی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہے۔

کچھ علماء کے نزدیک دو عورتوں اور ایک مرد کی گواہی کی برابری تمام معاملات کے لیے ہے۔ اس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سورۃ نور میں ایک مرد اور ایک عورت کی گواہی کے بارے میں واضح طور پر بتایا گیا ہے:

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُمْ شُهَدَاءُ إِلا أَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ أَحَدِهِمْ أَرْبَعُ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ (٦)وَالْخَامِسَةُ أَنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِنْ كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ (٧)وَيَدْرَأُ عَنْهَا الْعَذَابَ أَنْ تَشْهَدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ بِاللَّهِ إِنَّهُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ (٨)وَالْخَامِسَةَ أَنَّ غَضَبَ اللَّهِ عَلَيْهَا إِنْ كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ (٩) ( سورۃ النور 24 آیات 6 تا 9)

" اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس کوئی گواہ نہ ہو سوائے ان کی اپنی ذات کے ، تو ان مین سے اہر ایک کی شھادت اس طرح ہوگی کہ چار بار اللہ قسم کھا کر کہے کہ بے شک وہ سچوں میں سے ہے۔ اور پانچویں بار یہ کہے۔ اگر وہ جھوٹوں میں سے ہوتو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ اور اس عورت سے سزا تب ٹلتی ہے کہ وہ چار بار اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ وہ بلا شبہ وہ ( اس کا شوہر ) جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر وہ ( شوہر ) سچوں میں سے ہوتو اس ( عورت ) پر اللہ کا غضب ہو۔

( سورۃ النور 24 آیات 6 تا 9)


حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) کی گواہی :

حضرت عائشہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے ، جو ہمارے نبی (ﷺ) کی بیوی تھیں، کم و بیش 2220 کے قریب احادیث مروی ہیں۔ جو صرف ان کی واحد شہادت کی بدولت مستند ہیں، یہ امر اس کا واضح ثبوت ہے کہ صرف ایک عورت کی گواہی بھی قبول کی جاسکتی ہے۔

بہت سے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ایک عورت کی گواہی پہلی رات کا چاند دیکھنے کے لیے بھی کافی ہے۔ اندازہ کریں کہ روزہ رکھنے کے لیئے جو اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ ایک عورت کی گواہی کافی ہے اور اسکی گواہی پر تمام مسلمان مرد و عورتیں روزی رکھتے ہیں۔ کچھ فقہاء کے نزدیک آغازِ رمضان کے سلسلے میں ایک گواہی درکار ہے جبکہ اس کے ختم ہونے کے لیئے دو گواہیاں ضروری ہوں گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ گواہی دینے والے مرد ہوں یا عورتیں۔

بعض معاملات میں عورتوں ہی کی گواہی کو ترجیح حاصل ہے :

بعض معاملات میں صرف خاتون گواہ درکار ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر عورتوں کے مسائل عورت کی تدفین کے وقت غسل کے معاملات میں صرف عورت ہی کی گواہی مستند ہوگی۔ ایسے معاملات میں مرد کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔

مالی معاملات میں مرد اور عورت کی گواہیوں میں نظر آنے والی عدم مساوات اسلام کے نزدیک کسی صنفی عدم مساوات کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ صرف معاشرے میں عورتوں اور مردوں کی مختلف نوعیت اور مختلف کردادوں کی بناء پر ہے جو اسلام نے اُن کے لیئے متعین کیئے ہیں۔

سوال نمبر - 10


اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟


اسلام کا نظامِ وراثت غیر منصفانہ کیوں؟

" اسلامی قوانینِ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کی نسبت آدھا کیوں ہے؟ "

قرآن عظیم میں بہت سی آیات ہیں جن میں ورثے کی جائز تقسیم سے متعلق احکام بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً:

1) سورۃ بقرہ آیات: 180 اور 240

2) سورۃ النساء آیات: 7-9 اور آیات 19 اور 33

3) سورۃ مائدہ آیات: 106 تا 108

رشتہ داروں کا وراثت میں مخصوص حصہ :

قرآن مجید میں 3 آیات ہیں جو واضح طور پر قریبی رشتہ داروں کے وراثت میں مقررہ حصے بیان کرتی ہیں، جن میں سے دو درج زیل ہیں:

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ فَإِنْ كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ وَإِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ وَلأبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِنْ كَانَ لَهُ وَلَدٌ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلأمِّهِ الثُّلُثُ فَإِنْ كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلأمِّهِ السُّدُسُ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (١١)وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ (١٢)

" اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق وصیت کرتا ہے: مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔ پھر اگر ( دو یا ) دو سے زیادہ عورتیں ہی ہوں تو ان کے لیئے ترکے میں دو تہائی حصہ ہے۔ اور اگر ایک ہی بیٹی ہو تو اس کے لیئے آدھا حصہ، اور اس ( مرنے والے ٰ) کے والدین میں سے ایک کے لیئے ترکے میں چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد ہو ، لیکن اگر اس کی اولاد نہیں اور والدین ہی اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کے لیئے تیسرا حصہ ہے اور اس کے ( ایک سے زیادہ بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ تم نہیں جانتے کہ تہمارے والدین یا اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تمہارے زیادہ قریب ہے۔ یہ ( اللہ ) کی طرف سے مقرر ہے۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے۔ اور جو کچھ تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں اس میں تمہارا نصف حصہ ہے اگر ان کی کوئی اولاد نہ ہو، لیکن اگر ان کی کوئی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں تمہارا چوتھا حصہ ےہ۔ ( یہ تقسیم ) ان کی وصیت پر عمل یا قرض کی ادائیگی کے بعد ہوگی۔ اور اگر تمہاری اولاد نہ ہوتو تہمارے ترکے میں تمہاری بیویوں کا چوتھا حصہ ہے، لیکن اگر تمہاری اولاد ہو تو تمہارے ترکے میں ان کا آٹھواں حصہ ہے۔ ( یہ تقسیم ) تہماری وصیت پر عمل یا ادائیگی قرض کے بعد ہوگی۔ اور اگر وہ آدمی جس کا ورثہ تقسیم کیا جارہا ہے۔ اُس کا بیٹا نہ ہو باپ، یا ایسی ہی عورت ہو اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیئے چھٹا حصہ ہے۔ لیکن اگر ان کی تعداد اس سے زیادہ ہو تو وہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے۔ ( یہ تقسیم ) اس کی وصیت پر عمل یا قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی جبکہ وہ کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو۔ یہ اللہ کی طرف سے تاکید ہے اور اللہ خوب جاننے والا بڑے حوصلے والا ہے۔

( سورۃ النساء ، ایات 11 و 12 )​

مزید فرمایا:

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (١٧٦)

" اے نبی (ﷺ) ! لوگ آپ سے فتوٰی مانگتے ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ (خود) تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے اور وہ بھائی اس بہن کا وارث ہو گا اگر اس کے اولاد نہ ہو پس اگر بہن دو ہوں تو انہیں کل چھوڑے ہوئے کا دو تہائی ملے گا اور کئی شخص اس ناطے کے ہیں مرد بھی عورتیں بھی تو مرد کے لئے حصہ ہے مثل دو عورتوں کے اللہ تعالیٰ تمہارے لئے بیان فرما رہا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم بہک جاؤ اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔

( سورۃ النساء 4 آیت 176)​

عورت کا حصہ برابر بلکہ " دوگنا " بھی ہوسکتا ہے :

وراثت کلی اکثر صورتوں میں عورتوں کو مردوں کا نصف ملتا ہے ، تاہم یہ ہمیشہ نہیں ہوتا۔ اگر مرنے والے کے ماں باُ یا کوئی بیٹا بیٹی نہ ہوں لیکن اخیافی ( ماں کی طرف سے سگے ) بائی اور بہن ہوں تو دونوں میں سے اہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور اگر مرنے والے نے بچے چھوڑے ہوں تو ماں اور باپ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔

بعض صورتوں میں ایک عورت کو مرد کی نسبت دوگنا حصہ بھی مل سکتا ہے۔ اگر مرنے والی عورت ہو اور اس کے بچے اور بھائی بہن نہ ہوں۔ اور اس کا شوہر اور ماں باپ وارث ہوں تو شوہر کو آدھی جائیداد جبکہ ماں ماں کو تیسرا حصہ اور باپ کو باقی چھٹا حصہ ملے گا۔

اس معاملے میں بھی ماں کا حصہ باپ سے دوگنا ہے -

مردوں کی نسبت خواتین کا حصہ نصف کب ہے ؟

یہ ٹھیک ہے کہ عام قاعدے کے مطابق عورتیں مرد کی نسبت وراثت میں آدھا حصہ لیتی ہیں ، مثلاً درج ذیل صورتوں میں:

    بیٹی کو وراثت میں بیٹے سے نصف ملے گا۔

    عورت کو آٹھواں حصہ ملے گا اور شوہر کو چوتھا، اگر مرنے والے / والی اولاد ہو۔

    عورت کو چوتھا حصہ اور شوہر کو آدھا ملے گا اگر مرحوم / مرحومہ کی اولاد نہ ہو۔

    اگر مرنے والے کے ماں باپ یا اولاد نہ ہو تو بہن کو بھائی کے کل ترکے کا نصف ملے گا۔

مرد کا حصہ دوگنا کیوں؟

اسلام میں خاندان کی کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہے۔ شادی سے پہلے باپ یا بھائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورت کی رہائش، لباس اور دوسری مالی ضروریات پوری کرے اور شادی کے بعد یہ ذمہ داری شوہر یا بیٹے کی ہے۔ اسلام مرد کو پابند کرتا ہے کہ وہ خادنان کی مالی ضروریات کا ذمہ دار ہے۔ اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیئے اس وراثت میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص ڈیڈھ لاکھ روپیہ چھوڑ کر مرجائے جس کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہو تو بیٹے کو ایک لاکھ اور بیٹی کو 50 ہزار ملیں گے۔ ایک لاکھ روپے جو بیٹے کو ورثے میں ملیں گے وہ ان میں خاندان کی کفالت کا زمہ دار ہے۔ اور ہوسکتا ہے وہ خادنان پر تمام رقم یا یوں کہیئے 80 ہزار روپے خرچ کردے۔ یوں درحقیقت اسے ورثے میں سے بہت کم حصہ ملے گا، یعنی 20 ہزار روپے، دوسری طرف بیٹی جس کو 50 ہزار ملیں گے وہ کسی پر ایک روپیہ بھی خرچ کرنے کی پابند نہیں۔ وہ تمام رقم خود رکھ سکتی ہے، کیا آپ وہ ایک لاکھ روپے لینے کو ترجیح دیں گے جن میں سے آپ کو 80 ہزار روپے یا زائد رقم اوروں پر خرچ کرنی پڑے یا وہ 50 ہزار روپے لیں گے جو مکمل طور پر آپ ہی کے ہوں؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔