Saturday, 4 November 2017

اسلام پر اکتالیس (41) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب 4/3

اسلام پر اکتالیس (41) اعتراضات کے عقلی و نقلی جواب 4/3

سوال نمبر - 21

اللہ ایک ہے تو اس کے جمع کا صیغہ کیوں؟

" قرآن مجید میں جہاں اللہ کلام کرتا ہے وہاں لفظ " نَحنُ " ہم " استعمال کیا گیا ہے ، تو کیا اسلام متعدد دیوتاؤں پر ایمان رکھتا ہے ؟"


اسلام سختی کے ساتھ توحید کا مذہب ہے، یہ توحید پر ایمان رکھتا ہے اور اس بارے میں کوئی مصالحت گوارا نہیں کرتا۔ اسلامی عقیدے کے مطابق اللہ ایک ہے اور اپنی صفات میں بے مثل ہے، قرآن مجید میں اللہ تعالی اکثر اپنے بارے میں لفظ " نَحنُ " ( ہم ) استعمال کرتا ہے ۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمان ایک سےزیادہ معبودوں پر ایمان رکھتے ہیں۔


جمع کے صیغے دو ہیں :


متعدد زبانوں میں جمع کے صیغے کی دو قسمیں ہیں۔ ایک عددی جمع کا صیغہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ زیرِ بحث چیز تعداد میں ایک سے زیادہ ہے، جمع کا دوسرا صیغہ احترام کے لیئے بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ انگریزی زبان میںملکہ انگلستان اپنا ذکر " آئی " (I) کی جگہ " وی " (We) کے لفظ سے کرتی ہے۔ یہ اندازِ تخاطب رائل پلورل (Royal Plural) یعنی " شاہی صیغہء جمع " کے الفاظ کے سے معروف ہے۔


بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی ہندی میں کہا کرتے تھے:


" ہم دیکھنا چاہتے ہیں " گویا ہندی اور اردو میں "ہم " رائل پلورل ہے۔


اسی طرح عربی میں جب اللہ قرآن میں اپنا ذکر کرتا ہے تو وہ اکثر عربی لفظ " نحن " استعمال فرماتا ہے۔ یہ لفظ عدد کی جمع کو نہیں بلکہ احترامی جمع کو ظاہر کرتا ہے۔ توحید اسلام کے ستونوں میں سے ایک ستون ہے، ایک اور صرف ایک معبود حقیقی کا وجود اور اس کا بے مثل ہونا وہ مضامین ہیں جن کا قرآن مجید میں متعدد بار ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہء اخلاص میں ارشاد ہوا:


قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ (١)


" کہ دیجیے: وہ اللہ ایک ہے "


(سورۃ الاخلاص 112 آیت 1)



سوال نمبر - 22



کیا تنسیخ آیات غلطی کی اصلاح ہے؟




کیا تنسیخ آیات غلطی کی اصلاح ہے؟


" مسلمان تنسیخ آیات کے تصور پر ایمان رکھتے ہیں، یعنی ان کا عقیدہ یہ ہے کہ بعض ابتدائی آیات قرآنی کوبعد میں اترنے والی آیات کے ذریعے سے منسوخ کردیا گیا تھا، کیا اس سے یہ مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ( نعوذ باللہ ) اللہ نے ایک غلطی کی اور بعد ازاں اس کی تصحیح کرلی؟"


قرآن مجید اس مسئلے کو حسبِ ذیل آیت میں بیان کرتا ہے:


مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (١٠٦)


" ہم جو کوئی آیت منسوخ کرتے یا اسے بھُلوا دیتے ہیں تو ہم اس سے بہتر یا اس جیسی (آیت ) لے آتے ہیں، کیا آپ نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔"


(سورۃ البقرہ 2 آیت 106)​


سورہء النحل کی آیت نمبر 16 میں بھی اس کی طرف اشادہ کیا گیا ہے ۔


عربی لفظ " آیت " کا لغوی مطلب علامت، مصرع یا جملہ ہے اور اس سے مراد وحی بھی ہے، قرآن کی اس آیت کی تعبیر دو مختلف طریقوں سے کی جاسکتی ہے:


وہ آیات جو منسوخ کردی گئیں ان سے مراد یا تو وہ وحی ہے جو قرآن سے پہلے نازل کی گئی -


مثلاً:


تورار، زبور اور انجیل کی اصل وحی کی شکل میں اور مذکورہ بالا آیت کا مطلب ہوگا کہ وہ سابقہ کلامِ وحی کو فراموش نہیں ہونے دیتا بلکہ اسے بہتر یا یکساں کلام سے تبدیل کردیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تورات، زبور اور انجیل کی جگہ قرآن مجید نے لے لی ہے۔


اگر ہم مذکورہ بالا قرآنی آیت میں عربی لفظ " آیت " سے مراد آیات قرآنی لیں اور سابقہ کتب وحی نہ لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی آیت قرآنی اللہ تعالی کی طرف سے اس وقت تک منسوخ نہیں کی گئی جب تک اسے کسی بہتر یا ویسی ہی آیت سے تبدیل نہیں کردیا گیا۔ میں ان دونوں تعبیرات سے اتفاق کرتا ہوں۔


بعض مسلمان اور اکثر غیر مسلم دوسری تعبیر سے غلط طور پر یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی بعض ابتدائی آیات منسوخ کردی گئی تھیں اور وہ آج ہم پر لاگو نہیں ہوتیں کیونکہ بعد میں نازل ہونے والی آیات یعنی ناسخ آیات نے ان کی جگہ لے لی ۔ یہ گروہ یہ غلط عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ یہ آیت باہم متضاد ہیں، آئیے ایسی چند مثالوں کا جائزہ لیں۔


قرآن کا چیلنج :


بعض مشرکین یہ الزام لگاتے تھے کہ محمد رسول اللہ () نے خود یہ قرآن گھڑ لیا ہے۔


اللہ تعالی نے عربوں کو سورہ بنی اسرائیل کی مندرجہ ذیل آیت میں چیلنج کی:


قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الإنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (٨٨)


" ( اے نبی () !) کہ دیجیئے اگر سب انسان اور جن اس بات پر جمع ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل بنا لائیں تو وہ اس جیسا نہیں لاسکیں گے، اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مدد گار ہی کیوں نہ ہوں۔ "


پھر اس چیلنج کو سورۃ ھود کی حسب ذیل آیت کے ذریعے سے آسان بنا دیا گیا:


أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (١٣)


" کیا وہ کہتے ہیں کہ اس نے ( اپنے پاس سے ) یہ (قرآن) گھڑ لیا ہے؟ ( سو اے نبی! ()) کہ دیجیئے: پھر لے آؤ تم بھی دس سورتیں ویسی ہی گھڑی ہوئی اور ( مدد کیلئے ) بلا لو جسے تم بلا سکو اللہ کے سوا، اگر تم سچے ہو۔ "


( سورۃ ھود 11 آیت 13)​


بعد میں سورۃ یونس کی مندرجہ ذیل آیت میں چیلنج کو آسان تر بنا دیا گیا:


أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِثْلِهِ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٣٨)


" کیا وہ ( کافر ) کہتے ہیں کہ اس ( رسول ) نے اسے گھڑ لیا ہے ؟ ( اے نبی! )کہ دیجیئے: تم تو اس جیسی ایک ہی سورت لے آؤ ( مدد کے لیے ) اللہ کے سوا جن کو بلا سکتے ہو بلا لو، اگر تم سچے ہو۔ "


(سورۃ یونس 10 آیت 38)​


آخر کار سورۃ بقرہ میں اللہ تعالی نے اس چیلنج کو مزید آسان بنا دیا اور یہ کہا:


وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤)


" اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا تو تم اس جیسی ایک سورت ہ یلے آؤ، اور بلا لاؤ اپنے حمایتیوں کو سوائے اللہ کے، اگر تم سچے ہو، پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم کر بھی نہیں سکتے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ( اور جو ) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ "


( سورۃ البقرہ 2 آیات 23 تا 24)​


یوں اللہ تعالی نے اپنے چیلنجوں کو انتہائی آسان بنا دیا۔ یکے بعد دیگرے نازل ہونے والی آیات قرآن کے زریعے سے پہلے مشرکوں کو چیلنج دیا گیا کہ وہ قرآن جیسی کوئی کتاب لاکر دکھائیں، پھر ان سے کہا گیا کہ قران کی سوروں جسی دس سورتیں لاکر دکھا دو اور آخر میں انہیں چیلنج کیا گیا کہ چلو قرآنی سورتوں سے ملتی جلتی کوئی ایک ہی سورت پیش کردو۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سورۃ بقرہ کی آیات نمبر 23 اور 24 ( جو بعد میں نازل ہوئیں ) پہلی تین آیات سے متضاد ہیں، تضاد سے مراد ایسی دو چیزوں کا ذکر ہے جو بیک وقت موجود نہیں ہوسکتیں یا آبیک وقت وجود میں نہیں آسکتیں۔


قران کریم کی پہلی ایات، یعنی منسوخ آیات اب بھی کلام الہٰی ہیں اور ان میں بیان کردہ ہدایت آج بھی عین حق ہے، مثال کے طور پر یہ چیلنج کہ قرآن جیسا کلام لا کر دکھاؤ، آج بھی برقرار ہے، اسی طرح عین قرآن جیسی 10 سورتیں یا ایک سورت پیش کرنے کا چیلنج بھی بدستور قائم ہے اور قرآن کریم سے کسی حد تک ملتی جلتی ایک ہی سورت لانے کا چیلنج بھی برقرار ہے۔ یہ چیلنج سابقہ چیلنجوں کے منافی نہیں لیکن یہ دوسرے چیلنجوں کے مقابلے میں آسان ہے۔ اگر آخری چیلنج کا جواب بھی نہیں دیا جاسکتا تو کسی شخص کیلئے باقی تین مشکل چیلنجوں کا جواب دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


فرض کیجیئے میں کسی شخص کے بارے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ اتنا کند ذہن ہے کہ وہ سکول میں دسویں جماعت پاس کرنے کے قابل بھی نہیں، بعد ازاں میں کہتا ہوں کہ وہ پانچویں جماعت بھی پاس نہیں کرسکے گا۔ آخر میں میں کہتا ہوں کہ وہ اتنا نالائق ہے کہ کے جی بھی پاس نہیں کرسکے گا جبکہ سکول میں داخلے کے لیے کےجی، یعنی کنڈر گارٹن میں کامیابی لازم ہے، گویا بالفعل میں یہ کہ رہا ہوں کہ مذکورہ شخص اتنا کند ذہن ہے کہ وہ کے جی پاس کرنے کے قابل بھی نہیں۔ میرے چاروں بیانات ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتے، لیکن میرا چوتھا بیان اس طالب علم کی ذہنی استعداد کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر کوئی طالب علم کے جی کلاس پاس نہیں کرسکتا تو اس کے لیئے پہلی جماعت، پانچویں جماعت یا دسویں جماعت پاس کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


منشیات کی بتدریج ممانعت :


ایسی آیات کی ایک مثال ان آیات سے دی جاسکتی ہے، جو منشیات کی بتدریج ممانعت سے تعلق رکھتی ہیں۔ منشیات کے بارے میں قرآن میں پہلی وحی سورۃ بقرہ کی اس ایت کی صورت میں نازل ہوئی:


يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا (٢١٩)


" ( اے نبی ()! ) وہ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں دریافت کرتے ہیں۔ آپ کہ دیجئے: ان دونوں ( کے استعمال ) میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدہ بھی ہے، اور ان کا گناہ فائدے سے بہت زیادہ ہے۔"


(سورۃ البقرہ 2 آیت 219)​


منشیات کے بارے میں نازل ہونے والی اس سے پہلی آیت سورۃ نساء میں شامل ہے جسے یہاں نقل کیا جارہا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَقْرَبُوا الصَّلاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُوا مَا (٤٣)


"اے ایمان والو! تم اس وقت نماز کے قریب بھی نہ جاؤ جب تم نشے میں مست ہو، یہاں تک کہ تم سمجھنے لگو جو کچھ تم کہتے ہو۔ "


( سورۃ النساء 4 آیت 43)​


منشیات کے بارے میں نازل ہونے والی آخری آیت سورۃ مائدہ کی حسب ذیل آیت ہے:


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالأنْصَابُ وَالأزْلامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (٩٠)


" اے ایمان والو! بے شک شراب اور جوا اور آستانے اور فال نکالنے کے تیر ناپاک شیطانی عمل ہیں، سو ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ"


(سورۃ المائدہ 5 آیت 90)​


قرآن کریم ساڑھے بائیں برس کے عرصے میں نازل ہوا اور معاشرے میں کی جانے والی بیشتر اصلاحات بتدریج نافذ کی گئیں، اس کا مقصد نئے قوانین پر عمل درآمد میں لوگوں کے لیئے آسانیاں پیدا کرنا تھا کیونکہ معاشرے میں اچانک تبدیلی ہمیشہ بغاوت اور افراتفری پر منتج ہوتی ہے۔


منشیات کی ممانعت تین مراحل میں کی گئی، اس سلسلے میں پہلی وحی میں صرف یہ ذکر فرمایا گیا کہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں کچھ فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے۔ اس سے اگلی وحی میں نشے کی حالت میں نماز پڑھنا منع فرما دیا گیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ کسی مسلمان کو دن کے اوقات میں کوئی نشہ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس لیے کہ ہرمسلمان پر دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرنا فرض کردیا گیا ہے۔ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ جب رات کو کوئی شخص نماز ادا نہ کررہا ہو تو اسے نشہ کرنے کی اجازت ہے، اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ وچاہے تو نشہ کرے اور چاہے تو نشہ نہ کرے۔ قرآن اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتا۔ اگر اس آیت میں یہ کہا گیا ہوتا کہ جب کوئی شخص نماز نہ پڑھ رہا ہو تو شراب پی سکتا ہے، تب یہ بات بلاشبہ مبنی بر تضاد ہوتی۔ اللہ تعالی نے نہایت موضوں الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آخر مین سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 90 کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے نشہ آور چیزوں کی ممانعت کردی گئی ہے۔


اس سے ظاہر ہوتا کہ تینوں آیات ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں۔ اگر ان میں باہمی تضاد ہوتا تو بیک وقت تینوں آیات پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتا۔ چونکہ ہر مسلمان سے قرآن مجید کی ہر آیت کو مانے کی توقع کی جاتی ہے۔ اس لیے جب وہ سورۃ مائدہ کی آیت نمبر 90 پر، جو آخر میں نازل ہوئی ، عمل کرتا ہے تو سابقہ دو آیات سے بھی خود بخود اتفاق اور ان پر عمل درآمد ہوجاتا ہے۔ فرض کیجئے! میں کہتا ہوں کہ میں لاس اینجلس میں نہیں رہتا۔ بعد ، میں کہتا ہوں کہ میں کیلیفورنا میں نہیں رہتا، اور آخر میں، میں یہ بیان دیتا ہوں کہ میں ریستہائے متحدہ امریکہ میں نہیں رہتا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ یہ تینوں بیانات باہم متضاد ہیں، حالانکہ ہر بیان پہلے بیان کے مقابلے میں زیادہ معلومات فراہم کرتا ہے، لہذا صرف یہ کہ دینے سے کہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں نہیں رہتا، خود بخود واضح ہوجاتا ہے کہ میں کیلیفورنیا یا لاس اینجلس میں بھی نہیں رہتا، اسی طرح جب شاب کی مکمل ممانعت کردیگئی تو ظاہر ہے نشے کی حالت میں نماز ادا کرنا بھی ممنوع ٹھہرا اوریہ بات بھی سچ ثابت ہوئی کہ نشہ آور اشیاء کا استعمال بڑا گناہ ہے اور اس میں انسانوں کے لیے کچھ فائدہ بھی ہے لیکن ان کا گناہ ان کے نفع سے زیادہ ہے۔


قرآن مجید میں تضاد نہیں :


تنسیخ آیات کے نظریئے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اس لیئے بیک وقت قرآن کریم کی تمام آیات پر عمل کرنا ممکن ہے۔ اگر قرآن میں تضاد ہوتا تو یہ کلامِ الہٰی نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:


أَفَلا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلافًا كَثِيرًا (٨٢)


" کیا پھر وہ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کی بجائے کسی اور کی طرف سے آیا ہوتا تو وہ اس میں یقیناً بہت اختلاف پاتے۔ "


( سورہ النساء 4 آیت 82)​


سوال نمبر - 23



کیا حروفِ مقطعات بے فائدہ ہیں؟



کیا حروفِ مقطعات بے فائدہ ہیں؟


"قرآن مجید کی بعض سورتیں الم، حم اور یس وغیرہ سے کیوں شروع ہوتی ہیں؟ ان حروف یا تراکیب کی اہمیت کیا ہے؟"


الم، یٰس، حٰم وغیرہ کو حروف مقطعات کہا جاتا ہے۔ عربی حروف تہجی میں کل 29 حروف شامل ہیں، ( بشرطیکہ ہمزہ اور الف کو دو الگ الگ حروف شمار کیا جائے ) اور قرآن مجید کی کل 29 سورتیں ایسی ہیں جو حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں۔ یہ حروف مقطعات بعض اوقات واحد حرف اور بعض اوقات ایک سے پانچ حروف تک ترکیب کی صورت میں ہوتے ہیں۔


حروفِ مقطعات :


1۔ تین سورتوں کا آغآز صرف ایک حرف سے ہوتا ہے:


٭ سورت ص 38 ویں سورت ہے جو حرف ص سے شروع ہوتی ہے۔


٭ 50 ویں سورت ق سے شروع ہوتی ہے۔


٭ 68 ویں سورت ں یا القلم حرف ن سے شروع ہوتی ہے۔


2۔ دس سورتوں سے قبل دو حروف مقطعات آتے ہیں :


٭ 20 ویں سورت طٰہٰ انھی حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہے۔


٭ 27 ویں سورت النمل کا آغآز طٰس کے حروف سے ہوتا ہے۔


٭ 36 ویں سورت یٰس کا آغاز یٰس کے حروف سے ہوتا ہے۔


3۔ 40 ویں سے 46 ویں تک مسلسل سات سورتیں حٰم ( ح م ) کے حروف مقطعات سے شروع ہوتی ہیں :


٭ 40 ویں سورت سورت الغافر یا سورۃ المؤمن


٭ 41 ویں سورت حٰم السجدہ


٭ 42 ویں سورت الشورٰی


٭ 43 ویں سورت الزخرف


٭ 44 ویں سورت الدخان


٭ 45 ویں سورت الجاثیہ


٭ 46 ویں سورت الاحقاف


4۔ 14 سورتوں کا تین تین حروف مقطعات سے آغاز ہوتا ہے :


حسب ذیل چھ سورتیں الف ل م ( الم ) سے شروع ہوتی ہیں:


٭ دوسری سورت البقرہ


٭ تیسری سورت آل عمران


٭ 14 ویں سورت العنکبوت


٭ 30 ویں سورت الروم


٭ 31 ویں سورت لقمان


٭ 32 ویں سورت السجدۃ


جروف مقطعات ( الر 9 10 ویں سے 15 ویں تک پانچ سورتوں سے قبل آتے ہیں:


٭ 10 ویں سورت یونس


٭ 11 ویں سورت ھود


٭ 12 ویں سورت یوسف


٭ 13 ویں سورت ابراہیم


٭ 14 ویں سورت الحجر


طٰسم ( ط س م ) کے حروف مقطعات دو سورتوں میں آتے ہیں:


٭ 26 ویں سورت الشعراء


٭ 28 ویں سورت القصص


5۔ چار حروف مقطعات کی ترکیب صرف دو دفعہ آئی ہے:


٭ ساتویں سورت الأعراف: المص ( ا ل م ص )


٭ تیرھویں سورت الرعد: المر ( ا ل م ر )


6۔ پانچ حرور مقطعات کی ترکیب بھی دو دفعہ استعمال ہوئی ہے :


٭ 19 ویں سورت مریم کھیعص ( ک ہ ی ع ص ) سے شروع ہوتی ہے۔


٭ 42 ویں سورت الشورٰی کا آغاز حروف مقطعات کی دو ترکیبوں سے ہوتا ہے: دو حروف کی ترکیب حٰم ( ح م ) تین حروف پر مشتمل ترکیب عسق ( ع س ق )


ان حروف کے معانی اور مقاصد کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مختلف ادوار میں مسلم علماء نے ان کی مختلف تو ضیحات پیش کی ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں:


٭ یہ حروف بعض جملوں اور الفاظ میں کی مختصر صورت ہوسکتے ہیں، جیسے الم سے مراد اللہ أعلم ( اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے ) اور ن سے مراد " نور " ہوسکتا ہے۔


٭ یہ حروف اختصار کی صورتیں نہیں بلکہ اللہ تعلی یا کسی اور چیز کی علامتیں اور نام ہیں،


٭ یہ حروف قافیہ بندی کے لیئے استعمال ہوئے ہیں۔


٭ ان حروف کی کوئی عددی اہمیت بھی ہے چونکہ سامی زبانوں کے حروف عددی قدر بھی رکھتے تھے۔


٭ یہ حروف نبی کریم () ( اور بعد میں سامعین ) کی توجہ مبذول کرانے کے لیے استعمال کیے گئے۔


حروف مقطعات کی معنویت و اہمیت پر کئی جلدیں لکھی گئی ہیں۔


حروف مقطعات کی بہترین تعبیر :


مختلف علماء کی طرف سے پیش کردہ تعبیرات میں سے مستند تعبیر حسب ذیل ہے جس کی تائید امام ابن کثیر، زمخشری اور ابن تیمیہ ( رحمۃ اللہ علیہ ) کی طرف سے بھی کی گئی ہے:


انسانی جسم کا مرکب کائنات میں پائے جانے والے مختلف عناصر سے تیار کیا گیا ہے۔ مٹی اور گارا بھی انہی بنیادی عناصر کا آمیزہ ہیں۔ لیکن یہ کہنا غلط ہوتا کہ انسان بالکل مٹی جیسا ہے، ہم سب سے ان عناصر تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں جو انسانی جسم میں پائے جاتے ہیں اور ہم ان میں چند گیلن پانی ڈال سکتے ہیں جس سے انسانی جسم تشکیل پاتا ہے مگر اس سے ہم زندگی تخلیق نہیں کرسکتے۔ ہمیں انسانی جسم میں شامل عناصر کا علم ہے لیکن اس کے باوجود جب ہم سے رازِ زندگی کے بارے میں سوال کیا جائے تو ہمارے پاس اظہار حیرت کے سوا کچھ نہیں ہوتا، اسی طرح قرآن مجید ان لوگوں سے خطاب کرتا ہے جو اس کے اُلُوہی احکام کو نہیں مانتے۔ قرآن ان سے کہتا ہے کہ یہ کتاب تمہاری اپنی زبان میں ہے۔ ( جس پر عرب بہت فخر کرتے تھے ) یہ انہی حروف پر مشتمل ہے جنہیں عرب بڑی فصاحت سے اظہار و بیان کے لیے استعمال کرتے تھے۔ عرب اپنی زبان پر بہت نازاں تھے اور جس زمانے میں قرآن نازل ہوا، عربی زبان اپنے عروج پر تھی، حروف مقطعات: الم، یس، حم وغیرہ کے استعمال سے ( انگریزی میں اے، بی، سی، ڈی کہ سکتے ہیں۔ ) قرآن بنی نوع انسان کو چیلنج کرتا ہے کہ اگر انہیں اس کے مستند ہونے میں شک ہے تو وہ حسن فصاحت میں قرآن سے ملتی جلتی کم از کم ایک سورت ہی لکھ کر لے آئیں۔


ابتداء میں قرآن کریم تمام انسانوں اور جنوں کو چیلنج دیتا ہے کہ تم قرآن جیسا کلام لا کر دکھا دو، پھر مزید کہتا ہے کہ وہ سب ایک دوسرے کی امداد کرکے بھی یہ کام انجام نہیں دے سکتے۔ یہ چیلنج سورۃ الاسراء ( بنی اسرائیل ) کی 88 ویں آیت اور سورۃ طور کی 34 ویں آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہ چیلنج گیارھویں سورت ہود کی 13 ویں آیت میں دہرایا گیا اور فرمایا گیا کہ اس جیسی 10 سورتیں تیار کرکے دکھاؤ، بعد ازاں دسویں سورت یونس کی آیت 38 میں اس جیسی ایک سورت بنا لانے کو کہا گیا اور آخر کار سورۃ البقرہ کی ایات 23 اور 24 میں آسان ترین چیلنج دیا گیا:


وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (٢٣)فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (٢٤)


" اور اگر تم اس ( کلام ) کے بارے میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم اس جیسی ایک سورت ہی لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے حمایتیوں کو بلا لاؤ اگر تم سچے ہو، پھر اگر تم ایسا نہ کرسکو، اور تم کر بھی نہیں سکتے، تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، ( اور جو ) کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے۔


( سورۃ البقرہ 2 آیت 23 تا 24)​


دو ہنر مندوں کی مہارت کا تقابل کے لیے انہیں لازماً ایک ہی خام مال کے نمومے فراہم کئے جانے چاہیئیں اور پھر ایک ہی کام کے ذریعے سے ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانا چاہیئے۔ عربی زبان کا خام مواد یہی حروف الم، یس وغیرہ ( جیسے انگریزی میں اے ، بی ، سی ، ڈی ) ہیں۔ قران کریم کی زبان کی معجزاتی فطرت صرف یہی نہیں کہ یہ کلام الہٰی ہے بلکہ اس کی عظمت اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ اگرچہ یہ انہی حروف سے وجود میں آئی ہے جن پر مشرکین فخر کرتے تھے۔ لیکن اس کے مقابلے کی کوئی عبارت پیش نہیں کی جاسکی۔


قرآن مجید کا معجزاتی وصف :


عرب اپنی خطابت، فصاحت اور قدرت کلام کی وجہ سے معروف ہیں، جیسے ہمیں انسانی جسم کے ترکیبی عناصر معلوم ہیں اور ہم انہیں حاصل کرسکتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کریم کے حروف، جیسے: الم سے بھی ہم خوب واقف ہیں اور انہیں اکثر الفاظ بنانے کے لیے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن انسانی جسم کے ترکیبی عناصر کا علم حاصل ہونے کے باوجود ، زندگی کی تخلیق ہمارے بس میں نہیں ہے۔ اسی طرح جن حروف پر قرآن مشتمل ہے ان کا علم رکھنے کے باوجود ہم قرآن کریم کی فصاحت اور حسن کلام پر گرفت حاصل نہیں کرسکتے، یوں قرآن بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کلامِ الہٰی ہے۔


اسی لیئے سورۃ بقرہ کے حروف مقطعات کے فوراً بعد جو آیت ہے اس میں معجزہ قرآن اور کلام الہی کی ثقاہت کا ذکر کیا گیا ہے۔


ارشاد باری تعالی ہے۔


الم (١)ذَلِكَ الْكِتَابُ لا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (٢)


" یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، یہ پرہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے۔ "


( سورۃ البقرہ آیات 1 تا 2)​



سوال نمبر - 24



کیا یہ زمین چپٹی اور ہموار ہے؟



کیا یہ زمین چپٹی اور ہموار ہے؟


" قرآن یہ کہتا ہے کہ زمین کو تمہارے لیئے بچھونا بنا دیا گیا ہے۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ زمین چپٹی اور ہموار ہے۔ کیا یہ بات مسلمہ جدید سائنسی حقائق کے منافی نہیں؟"


اس سوال میں قرآن کریم کی سورہ نوح کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں فرمایا گیا ہے:


وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ بِسَاطًا (١٩)


"اور اللہ نے تمہارے لیئے زمین کو بچھونا بنایا ہے۔"


(سورۃ نوح 71 آیت 19)​


لیکن مندرجہ بالا آیت کا جمہ مکمل نہیٰں، جمہ اس سے اگلی آیت میں جاری ہے جو پچھلی ایات کی وضاحت کرتا ہے۔ اس میں ارشاد ہے۔:


لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلا فِجَاجًا (٢٠)


" تاکہ تم اس کے کشادہ راستوں پر چل سکو۔"


( سورۃ نوح 71 آیت 20)​


اسی طرح کا ایک پیغام سورۃ طہٰ میں دہرایا گیا ہے:


الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ مَهْدًا وَسَلَكَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلا (٥٣)


"وہ ذات جس نے تمہارے لیے زمین کو بچھونا بنایا اور تمہارے چلنے کے لیئے اس میں راستے بنائے۔ "


( سورۃ طہٰ 20 آیت 53)


زمین کی بالائی تہ یا قِشُر ارض کی موٹائی 30 میل سے بھی کم ہے اور اگر اس کا موازنہ زمین کے نصف قطر سے کیا جائے جس کی لمبائی 3750 میل ہے تو قشر ارض بہت ہی باریک معلوم ہوتا ہے۔ زیادہ گہرائی میں واقع زمین کی تہیں بہت گرم، سیال اور ہر قسم کی زندگی کے لیئے ناسازگار ہیں، قشر ارض کا ٹھوس صورت اختیار کر لینے والا وہ خول ہے جس پر ہم زندہ رہ سکتے ہیں، لہذا قرآن مجید بجا طور پر اس کو ایک بچھونے یا قالین سے مشابہ قرار دیتا ہے تاکہ ہم اس کی شاہراہوں اور راستوں پر سفر کرسکیں۔


قرآن کے مطابق زمین چپٹی نہیں :


قرآن کریم میں کوئی ایسی آیت موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ زمین مستوی یا چپٹی ہے۔ قرآن صرف قشرِ زمین کو قالیین سے تشبیہ دیتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کے نزدیک قالین صرف قطعی ہمواز زمین ہی پر بچھایا جاسکتا ہے، حالانکہ کرہ ارض جیسے بڑے کرے پر بھی قالین بچھانا ممکن ہے اور اس کا مظاہرہ زمین کے گلوب کا ایک بہت بڑا نمونہ لے کر اور اس پر قالین بچھا کر بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ قالین بالعموم ایک ایسی سطح پر بچھایا جاتا ہے جس پر بصورت دیگر سہولت سے نہ چلا جاسکتا ہو۔ قرآن مجید قشر زمین کا ذکر بطور قالین کرتا ہے جس کے نیچے گرم، سیال اور مانع حیات ماحول پایا جاتا ہے۔ قشر زمین کی صورت میں بچھائے گئے قالین کے بغیر بنی نوع انسان کا زندہ رہنا ممکن نہ ہوتا، لہذا قرآن کریم کا بیان نہ صرف عین منطق کے مطابق ہے بلکہ اس میں ایک ایسی حقیقت بھی بیان کردی گئی ہے جسے صدیوں بعد ماہرین ارضیات نے دریافت کیا۔


کشادہ فرشِ ارضی :


قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ فرمایا گیا ہے کہ زمین بچھا دی گئی ہے، حکم ربانی ہے:


وَالأرْضَ فَرَشْنَاهَا فَنِعْمَ الْمَاهِدُونَ (٤٨)


" ہم نے زمین کو ( قالین کی طرح ) بچھا دیا ہے، سو ہم کیسے اچھے بچھانے والے ہیں۔ "


(سورۃ الذاریات 51 آیت 48)​


اسی طرح قرآن کریم کی متعدد دوسری آیات میں زمین کو کشادہ بچھونا یا فرش کہا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے:


أَلَمْ نَجْعَلِ الأرْضَ مِهَادًا (٦)وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا (٧)


" کیا ہم نے زمین کر فرش نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو ( اس میں ) میخیں ( نہیں بنایا ؟)"


( سورۃ النباء 78 آیت 6 تا 7 )​


قرآن کریم کی کسی ایت میں معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا گیا کہ زمین چپٹی اور ہموار ہے۔ آیات سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ زمین وسیع اور کشادہ ہے اور اس وسعت و کشادگی کی وجہ بیان کردی گئی ہے قرآن عظیم میں ارشاد ہے:


يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ أَرْضِي وَاسِعَةٌ فَإِيَّايَ فَاعْبُدُونِ (٥٦)


" اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! بے شک میری زمین بڑی وسیع ہے ، پس میری ہی عبادت کرو۔"


(سورۃ العنکبوت 29 آیت 56) ​


( حاشیہ : لہذا کوئی شخس یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ وہ نیکی نہیں کرسکا اور وہ برائیوں کے ارتکاب پر مجبور تھا کیونکہ اس کے اردگرد کا ماحول اور حالات سازگار نہیں تھے۔ )



سوال نمبر - 25



کیا قرآن، بائبل کی نقل ہے؟



کیا قرآن، بائبل کی نقل ہے؟


" کیا یہ درست نہیں کہ محمد () نے قرآن، بائبل کی نقل کیا ہے؟ "


بہت سے ناقدین یہ الزام لگاتے ہیں کہ محمد () نے یہ قرآن خود تصنیف کیا بلکہ انہوں نے اسے دوسرے انسانی ذرائع یا سابقہ الہامی کتب سے اخذ کیا ہے۔ ان کے اعترافات اس نوع کے ہیں:


رومی لوہار کی حقیقت


بعض مشرکین نے نبی کریم () پر یہ الزام لگایا کہ انہوں نے قرآن کریم مکہ کے نواح میں مقیم ایک رومی لوہار سے سیکھا جو مذہباً عیسائی تھا۔ نبئ کریم () اکثر اسے کام کرتے ہوئے دیکھنے جایا کرتے تھے۔ ایک وحئ قرآن ہی اس الزام کو مسترد کردینے کیلئے کافی تھی۔ سورۃ نحل میں فرمایا گیا۔


وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُبِينٌ (١٠٣)


" اور ہمیں بخوبی علم ہے کہ وہ کہتے ہیں ( یقیناً) اس نبی کو ایک آمدی سکھاتا ہے۔ اس کی زبان جس کی طرف یہ غلط نسبت کرتے ہیں، عجمی ہے جبکہ یہ ( قرآن ) تو فصیح عربی زبان ہے۔ "


( سورۃ النحل 16 آیت 103)​


ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان غیر ملکی تھی اور جو عربی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بمشکل عربی میں بات کرسکتا تھا۔ قرآن مجید کا ماخذ کیسے بن سکتا تھا جو خالص، فصیح و بلیغ اور شستہ عربی زبان ہے؟ یہ سمجھنا کہ کسی لوہار نے ( نعوذ باللہ ) نبئ اکرم () کو قرآن سکھایا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ چین سے انگلستان نقل مکانی کرنے والے ایک شخص نے جو مناسب انگریزی بھی نہیں جانتا تھا، شیکسپیئر کو پڑھایا لکھایا۔


ورقہ بن نوفل کا کردار :


محمد () نے خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کے رشتے دار ورقہ بن نوفل سے پڑھا، حالانکہ محمد () کے یہودی اور عیسائی علماء سے روابط بہت محدود تھے۔ آپ () جس نمایاں ترین عیسائی سے واقفیت رکھتے تھے وہ ورقہ بن نوفل نامی نابینا شخص تھے جو نبئ کریم () کی پہلی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا) کے ایک رشتے دار تھے، وہ اگرچہ عربی النسل تھے لیکن انہنوں نے عیسائی مذہب اپنا لیا تھا اور وہ عہد نامہ جدید سے اچھے خاصے واقف تھے۔ نبی کریم () کی صرف دوبار ان سے ملاقات ہوئی، پہلی مرتبہ اس وقت جب ووقہ ( اعلان نبوت سے قبل ) کعبۃ اللہ میں عبادت کررہے تھے اور انھوں نے نبئ کریم () کی پیشانی پر وفور محبت سے بوسہ دیا، دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب نبئ کریم () پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل سے ملنے گئے۔ اس واقعے کے تین سال بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا۔ جبکہ نزول کا سلسلہ تقریباً 23 برس جاری رہا۔ یہ مفروضہ کہ قرآن مجید کی وحی کا ذریعہ ورقہ بن نوفل تھے، قطعی مضحکہ خیز مفروضہ ہے۔


اہل کتاب سے مذہبی بحثیں :


یہ بات درست ہے کہ نبئ کریم () کی یہودیوں اور عیسائیوں سے بحثیں ہوئیں لیکن یہ بحثیں نزول وحی کے 13 برس سے زیادہ عرصے کے بعد مدینہ منورہ میں وقوع پذیر ہوئیں۔ یہ الزام کہ یہودی اور عیسائی قرآن کا ماخذ تھے، ایک بیہودہ الزام ہے کیونکہ محمد رسول اللہ () تو ان بحثوں میں ایک معلم اور مبلغ کا کردار ادا کررہے تھے اور انہیں قبول اسلام کی دعوت دیتے ہوئے یہ نشاندہی کررہے تھے کہ وہ توحید کے بارے میں اپنے دین کی حقیقی تعلیمات سے منحرف ہوگئے ہیں۔ ان میں سے متعدد یہودیوں اور عیسائیوں نے بعد میں اسلام قبول کرلیا۔


پیغمبر () کا عجمیوں سے قرآن مجید سیکھنا۔


تمام دستیاب تاریخی شواہد سے یہ ثابت ہے کہ محمد () نے نبوت سے قبل مکہ سے باہر کے صرف تین سفر کیے:


1) 9 برس کی عمر میں آپ اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ یثرب (مدینہ) تشریف لے گئے۔


2) 9 برس اور 12 برس کی عمر کے درمیان آپ اپنے چچا ابو طالب کے ہمراہ تجارتی سفر پر شام گئے۔


3) 25 برس کی عمر میں آپ حضرت خدیجہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کا تجارتی قافلہ لے کر شام تشریف لے گئے۔


یہ فرض کرلینا کہ مذکورہ تین سفروں کے دوران میں عیسائیوں اور یہودیوں سے عمومی گفتگوؤں اور ملاقاتوں کے نتیجے میں قرآن وجود میں آگیا، ایک بے بنیاد اور خیالی بات ہے۔


ماخذِ قرآن :


نبئ مکرم () نے قرآن کریم کو یہودیوں اور عیسائیوں سے ہرگز نہیں سیکھا، نبئ کریم () کی روز مرہ کی زندگی ایک کھلی کتاب کی مانند تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک وحی کے ذریعے سے لوگوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نبی () کو اپنے گھر میں علیحدگی ( پرائیویسی ) کا موقع دیں۔ ارشادباری تعالٰی ہے:


إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِنْ وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لا يَعْقِلُونَ (٤)وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّى تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٥)


" بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں سے اکثر بے عقل ہیں اور اگر بے شک وہ صبر کرتے حتی کہ آپ خود ہی ان کی طرف نکلتے تو ان کے لیئے بہتر ہتوا، اور اللہ بہت بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔


( سورۃ الحجرات 49 آیات 4 تا 5 )​


اگر نبئ کریم () ایسے لوگوں سے مل رہے ہوتے جو کفار کے دعوے کے مطابق انہیں وہ کلمات بتاتے تھے جنہیں وحی کے طور پر پیش کیا گیا تو یہ بات زیادہ دیر تک چھپی نہ رہتی۔


قریش کے انتہائی ممتاز سردار جنہوں نے رسول اللہ () کی پیروی کی اور اسلام قبول کیا، اتنے ذہین اور دانشمند تھے کہ جس ذریعے سے پیغمبر ان کے پاس وحی لے کر آتے تھے اس کے متعلق اگر وہ کوئی بات مشکوک پاتے تو بآسانی بھانپ سکتے تھے، پھر یہ کوئی مختصر وقت کی بات نہیں تھی، نبی () کی دعوت اور تحریک 23 برس تک جاری رہی ، اس دوران میں کبھی کسی کو اس طرح کا شک نہ گذرا۔


رسول کریم () کے دشمن اپنا یہ دعوٰی ثابت کرنے کے لیے مسلسل ٹوہ میں لگے رہتے تھے۔ کہ نبئ کریم (نعوذ باللہ ) جھوٹے ہیں لیکن وہ اس بات کے حق میں ایک بھی مثال پیش نہ کرسکے کہ کبھی آپ نے مخصوص یہودیوں اور عیسائیوں سے کوئی خفیہ ملاقات کی ہو۔


یہ بات بھی ناقابل تصور ہے کہ کوئی شخس ایسی صورت حال قبول کرسکتا ہے کہ وہ قرآن وضع کرے لیکن اس کا کوئی کریڈٹ بھی نہ لے، لہذا تاریخی اور منطقی طور پر یہ دعوٰئ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کا کوئی انسانی ماخذ تھا۔


( حاشیہ: سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے قرآن سیکھا تھا تو پھر انہیں قبول قرآن میں تامل نہیں کرنا چاہیئے تھا جبکہ تایخ شاہد ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے ہی آپ کی مخالفت کی جو آج تک جاری ہے۔ ( عثمان منیب )


محمد () پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے :


یہ دعوٰی کہ محمد () نے خود قران تصنیف کیا یا اسے دوسرے ذرائع سے نقل کیا، محض اس ایک تاریخی حقیقت سے غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ آپ () پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ اللہ تعالی خود قرآن میں اس بات کی تصدیق فرماتا ہے۔ سورۃ عنکبوت میں ارشاد ہوا:


وَمَا كُنْتَ تَتْلُو مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتَابٍ وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ (٤٨)


" اور ( اے نبی!) آپ اس (قرآن ) سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے اور نہ اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے، ( اگر ایسا ہوتا ) تو باطل پرست یقیناً شک کرسکتے تھے۔۔


( سورۃ العنکبوت 29 آیت 48)​


اللہ تعالی کو یہ علم تھا کہ بہت سے لوگ قرآن کے مستند ہونے پر شک کریں گے اور اسے محمد () کی ذات سے منسوب کریں گے۔ لہذا اللہ عالی نے اپنی ابدی حکمت سے ایک "اُمی " کو اپنا آخری نبی بنا کر بھیجا تاکہ باط پرستوں کے پاس نبی () پر شک کرنے کا کوئی معمولی سا جواز بھی باقی نہ رہنے دیا جائے۔ آپ () کے دشمنوں کا یہ الزام کہ آپ نے دوسرے ذرائع سے قرآن اخذ کیا اور پھر اسے خوبصورت عربی زبان میں ڈھال لیا ، شاید کسی وزن کا حامل ہوسکتا تھا لیکن اس کمزور عذر کو بھی کافروں اور شک کرنے والوں پر الٹ دیا گیا۔ اللہ تعالی نے سورۃ الاعراف میں اس کی دوبارہ توثیق کرتے ہوئے فرماتا ہے:


الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الأمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالإنْجِيلِ (١٥٧)


" ( متقی اور مومن ) وہ لوگ ہیں جو اس رسول امی نبی ( محمد () کی پیروی کرتے ہیں، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا پاتے ہیں۔ "


( سورۃ الاعراف 7 آیت 157 )​


اُمی نبی () کی آمد کی پیش گوئی بائبل میں :


اُمی نبی () کی آمد کی پیش گوئی بائبل کی کتاب یسعیاہ باب :29 فقرہ 12 میں بھی موجود ہے:


" پھر وہ کتاب اسے دین جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتا اور کہیں، اسے پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ ( کتاب مقدس ، یسعیاۃ: 29/12)


قرآن کریم کم از کم چار مقامات پر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ نبئ کریم () لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ اس امر کا ذکر سورۃ الاعراف کی آیت: 158 اور سورۃ جمعہ کی آیت:2 میں بھی کیا گیا ہے۔


بائبل کا عربی مسودہ :


نبئ کریم () کے دور مبارک میں بائبل کا عربی زبان میں کوئی مسودہ موجود نہیں تھا۔ عہد نامہ عتیق (Old Testament) کا سب سے پہلا عربی نسخہ وہ ہے جو پادری سعاد یاس گین (R. Saadias Gaon) نے 900 عیسوی میں تیار کیا، یعنی ہمارے پیارے نبی () کی رحلت کے تقریباً 250 برس بعد۔ عہد نامہ جدید (New Testament) کا سب سے قدیم عربی نسخہ ارپینئس (Erpenius) نے ہمارے نبی () کی وفات کے تقریباً ایک ہزار سال بعد 1616 عیسوی میں شائع کیا۔


قرآن اور بائبل کی یکسانیت :


قرآن اور بائبل میں پائی جانے والی یکساں باتوں سے لازمی طور پر یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ اول الذکر مؤخر الذکر سے نقل کیا گیا ہے۔ فی الحقیقت یہ اس بات کی شہادت ہے کہ یہ دونوں کسی تیسرے مشترک ذریعے پر مبنی ہیں۔ تمام صحائف ربانی کا منبع ایک ہی ذات ، یعنی رب کائنات ہے، یہود و نصارٰی کی کتب اور ان سے بھی قدیم آسمانی صحیفوں میں انسانی ہاتھوں سے کی جانے والی تحریفات کے باوجود، ان کے بعض حصے تحریف سے محفوظ رہے ہیں اور اسی لیے کہ وہ کئی مذاہب میں مشترک ہیں۔


یہ بات بھی درست ہے کہ قرآن اور بائبل میں بعض یکساں چیزیں موجود ہیں لیکن اس کی بنا پر محمد () پر یہ الزام لگانے کا کوئی جواز نہیں کہ انہوں نے بائبل سے کوئی چیز نقل کی یا اس سے اخذ کرکے قران مرتب کیا۔ اگر یہ منطق درست ہےتو یہ مسیحیت اور یہودیت پر بھی لاگو ہوگی اور غلط طور پر یہ دعوٰی بھی کیا جاسکے گا کہ یسوع مسیح (علیہ السلام ) نعوذ باللہ ) سچے نبی نہیں تھے اور انہوں نے محض عہد نامہ عتیق کی نقل کرنے پر اکتفا کیا۔


قرآن اور بائبل کے درمیان یکساں باتیں در حقیقت اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ان کا منبع مشترک، یعنی ذات حق تعالٰی ہے۔ یہ توحید کے بنیادی پیغام کا تسلسل ہے اور یہ مفروضہ غلط ہے کہ بعد میں آنے والے انبیاء نے گزشتہ انبیاء کی باتیں ان سے مستعار لے لی ہیں۔


اگر کوئی امتحان میں نقل کررہا ہوں تو وہ یقیناً اپنے پرچے میں یہ نہیں لکھے گا کہ میں نے انے پاس بیٹھے طالب علم زید بن بکر سے نقل کی ہے۔ جبکہ محمد رسول اللہ () گزشتہ انبیائے کرام کا احترام کرتے اور ان کی عظمت بیان کرتے اور قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مختلف انبیاء و رسل پر اللہ قادر مطلق کی طرف سے صحیفے نازل کئے گئے تھے۔


تمام آسمانی کتابوں پر ایمان :


اللہ تعالی کی چار کتابوں کا قرآن میں نام لے کر ذکر کیا گیا ہے۔ اور مسلمان ان سب پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ ہیں: تورات، زبور، انجیل اور قرآن


٭ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام (Moses) پر بصورت الواح ( تختیاں ) نازل کی گئی۔


٭ زبور حضرت داؤد علیہ السلام (David) پر اتری


٭ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام (Jesus) پر نازل ہوئی۔


٭ قرآن مجید وہ آخری کتاب ہے جس کا نزول اللہ کے آخری نبی اور خاتم النیین حضرت محمد () پر ہوا۔


تمام نبیوں اور تمام الہامی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے، تاہم موجودہ بائبل کے عہد نامہ عتیق کی پہلی پانچ کتابیں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے منسوب ہیں، اور مزامیر (Psalms) حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب کیئے جاتے ہیں، مزید برآں عہد نامہ عتیق کی یہ کتابیں اور عہد نامہ جدید یا اس کی چار انجیلیں وہ تورات، زبور یا انجیل نہیں ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ موجودہ بائبل میں جزوی طور پر کلامِ خداوندی موجود ہوسکتا ہے لیکن یہ کتابیں یقیناً اپنی اصل حالت میں نہیں ہیں۔ نہ وہ پوری طرح صحیح ہیں اور نہ ان میں پیغمبروں پر نازل شدہ مکمل کلامِ وحی موجود ہے۔ ( حاشیہ : چار انجیلوں (Gospels) یعنی انجیل متی، انجیل لوقا، انجیل یوحنا، انجیل مرقس کی موجودگی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کی تصنیف کی ہوئی ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل کا اب اپنی اصل صورت میں کوئی وجود نہیں۔ یاد رہے متی (St. Mathew)، لوقا (St. Luke) یوحنا (St. John) اور مرقس (St. Mark) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے۔ ( محسن فارانی ))


قرآن مجید تمام انبیاء ورُسل کو ایک ہی سلسلے سے متعلق قرار دیتا ہے اور ہمیں بتاتا ہے کہ ان س کی نبوت کا یک ہی نسب العین تھا اور ان کا بنیادی پیغام بھی ایک ہی تھا۔ اسی بنا پر قرآن کریم وضاحت کرتا ہے کہ بڑے برے مذاہب کی بنیادی تعلیمات باہم متضاد نہیں ہوسکتیں، باوجود اس کے کہ مختلف نبوتوں کے مابین قابل ذکر بُعدِ زمانی موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب نبوتوں کا منبع صرف ایک تھا، یعنی اللہ جو قادر مطلق ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ مختلف ادیان کے درمیان جو اختلاف پائے جاتے ہیں ان کی ذمہ داری انبیاء پر نہیں بلکہ ان کے پیروکاروں پر عائد ہوتی ہے۔ جو سکھائے ہوئے علم کا ایک حصہ بھول گئے، مزید برآں انہوں نے الہامی کتابوں کی غلط تعبیر کی اور ان میں تحریف بھی کر ڈالی، لہذا قرآن کریم کو ایک ایسی کتاب تصور نہیں کیا جاسکتا، جو موسیٰ ، عیسیٰ اور دیگر انبیاء کی تعلیمات کے مقابلے میں اتاری گئی ہے۔ اس کے برعکس یہ کتاب گزشتہ انبیاء کی طرف سے ان کی امتوں کی طرف لائے گئے پیغامات کی توثیق و تصدیق اور ان کی تکمیل کرتی اور انہیں نقطہء کام تک پہنچاتی ہے۔


قرآن کا ایک نام فرقان بھی ہے ہے جس کا مطلب حق و باطل میں امتیاز کرنے کی کسوٹی یا معیات ہے اور قرآن ہی کی بنیاد پر ہم یہ دریافت کرسکتے ہیں کہ سابقہ الہامی کتابوں کے کون سے حسے کو کلامِ الہی تصور کیا جاسکتا ہے۔


قرآن اور بائبل کے درمیان سائنسی بنیاد پر تقابل :


قرآن مجید اور بائبل کے سرسری مطالعے میں آپ کو متعدد ایسے نکات نظر آئیں گے جو دنوں میں قطعی یکساں معلوم ہوتے ہیں لیکن جب آپ بغور ان کا جائزہ لیں گے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سراسر اختلاف پایا جاتا ہے۔ صرف تاریخی تفصیلات کی بنیاد پر کسی ایسے شخص کے لے جو مسیحیت یا اسلام میں سے اکیس کی تعلیمات پر عبور نہ رکھتا ہوں، یپہ فیصلہ کرنا سخت مشکل ہوگا کہ دونوں الہامی کتب میں سے صحیح کون سی ہے؟ تاہم اگر آپ دونوں کتابوں کے متعلقہ اقتباسات کو سائنسی علوم کے معیار پر پرکھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ سچ کیا ہے۔ ذیل میں دی گئی چند مثالوں سے آپ حقیقت حال سے آگاہ ہوسکتے ہیں۔


٭ بائبل اور کائنات کیی تخلیق: بائبل کی پہلی کتاب پیدائش (Genesis) کے باب اول میں لکھا ہے کہ کائنات چھ دنوں میں پیدا کی گئی اور ہر دن سے مراد 24 گھنٹے کا دورانیہ ہے۔ اگرچہ قرآن مجید میں بھی یہ ذکر کیا گیا ہے کہ یہ کائنات چھ "ایام" میں پیدا کی گئی لیکن قرآن کے مطابق یہ " ایام " سالہا سال طویل ہیں۔ اس لفظ " یوم " کے دو معنی ہیں ، اول یہ کہ دن سے مراد معمول کے 24 گھنٹے کا دن ہے اور دوم اس سے مراد ایک مرحلہ، یا ایک دور یا ایک ایسا عہد جو بہت طویل زمانے پر مشتمل ہو۔


جب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ کائنات چھ دنوں میں پیدا کی گئی تو اس سے مراد یہ ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ طویل ادوار یا زمانوں میں پیدا کیا گیا۔ سائنسدانوں کو اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں، کائنات کی تخلیق میں اربوں سال صرف ہوئے اور یہ بات بائبل کے اس تصور کے منافی ہے جس میں کہا گیا ہے کائنات صرف چھ دنوں میں پیدا کی گئی جبکہ ہر دن چوبیس گھنٹے کا تھا۔


بائبل اور سورج کی تخلیق:


بائبل کی کتاب " پیدائش" میں کہا گیا ہے کہ روشنی ، دن اور رات کو اللہ نے کائنات کی تخلیق کے پہلے روز پیدا کیا، چنانچہ اس میں لکھا ہے:


" اللہ نے ابتداء میں زمین اور آسمان کو پیدا کیا، اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراؤ کے اوپر اندھیا تھا اور خدا کی روح پانی کی سطح پر جنبش کرتی تھی۔ اور خدا نے کہا کہ روشنی ہوجا اور روشنی ہوگئی۔ اور خدا نے دکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جدا کیا۔ اور خدا نے روشنی کو تو دن کہا اور تاریکی کو رات، اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، سو پہلا دن ہوا۔"


(کتاب مقدس، پیدائش: 1 /3-5)​


جدید سائنس کے مطابق کائنات میں گردش کرتی ہوئی روشنہ درحقیقت ستاروں میں ایک پیچیدہ عمل کا نتیجہ ہے جبکہ بائبل کے مطابق سورج، چاند اور ستارے چوتھے روز پیدا کیے گئے، کتاب " پیدائش " میں لکھا ہے:


" سو اللہ نے دو بڑے نیر بنائے، ایک نیرا اکبر کہ دن پر حکم کرے اور ایک نیر اصغر کہ رات پر حکم کرے اور اس نے ستاروں کو بھی بنایا۔ اور کدا نے ان کو فلک پر رکھا کہ زمین پر روشنی ڈالیں، دن اور رات پر حکم کریں اور اجالے کو اندھیرے سے جدا کریں، اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے، اور شام ہوئی اور صبح ہوئی، سوچو تھا دن ہوا۔ "

(کتاب مقدس، پیدائش: 1/16-19)​


یہ بات خلاف منطق ہے کہ روشنی کا منبع نیرا اکبر ( سورج ) تو تین دن بعد پیدا کیا گیا لیکن سلسلہء روز و شب جو سورج کی روشنی کا نتیجہ ہے پہلے دن ہی پیدا کردیا گیا۔ مزید براں ایک دن کے عناصر، یعنی صبح و شام کے وجود کا ادراک تو سورج کے سامنے زمین کی گردش محوری کے بعد ہی ہوسکتا ہے مگر بائبل کے مطابق صبح اور شام کی تخلیق سورج کی تخلیق سے تین دن پہلے ہی عمل میں آگئی۔


اس کے برعکس قرآن مجید میں اس موضوع پر تخلیق کائنات کی کوئی غیر سائنسی ترتیب زمانی نہیں دی گئی، لہذا یہ کہنا سراسر غلط اور مضحکہ خیز ہے کہ حضرت محمد () نے تخلیق کائنات کے موضوع پر بائبل کے اقتباسات تو نقل کرلیئے مگر بائبل کے خلاف منطق اور عجیب و غیرب باتیں چھوڑ دیں۔


سورج روشنی خارج کرتا ہے چاند نہیں:


بائبل کے مطابق سورج اور چاند دونوں روشنی خارج کرتے ہیں۔ جیسا کہ کتاب پیدائش میں انہیں بالترتیب " نیرا اکبر" اور نیرا اصغر " قرار دیا گیا ہے لیکن جدید سائنس کے مطابق چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں اور وہ محض شمسی روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ اس سے قرآن مجید کے اس نطریئے کی تائید ہوتی ہے کہ چاند " منیر " یعنی روشنی کو منعکس کرنے والا ہے اور اس سے آنے والی روشنی منعکس شدہ ہے، اب یہ سوچنا دُور ازکار بات ہے کہ نبی () نے بائبل کی ان سائنسی غلطیوں کی اصلاح کی اور پھر ایسی اصلاح شدہ عبارات قرآن میں شامل کرلیں۔


تخلیق نباتات اور سورج:


بائبل کی کتاب " پیدائش " باب اول، فقرہ: 11 تا 13 کے مطابق نباتات ، گھاس، بیج دار پودوں اور پھل دار درختوں کو تیسرے روز پیدا کیا گیا جبکہ اسی باب کے فقرہ: 14 تا 19 کے مطابق سورج کی تخلیق چوتھے روز عمل میں آئی، سائنسی اعتبار سے یہ کیسے ممکن ہے کہ نباتات سورج کی حرارت کے بغیر ہی وجود میں آجائیں؟ جیسا کہ بائبل میں بیان کیا گیا ہے۔


اگر غیر مسلم معترضین کے بقول نبی کریم () نعوذ باللہ )) فی الواقع قرآن کے مصنف تھے اور انہوں نے بائبل کے مواد سے کچھ نقل کیا تو آخر یہ کیسے ممکن ہوا کہ انہوں نے بائبل میں شامل وہ بیانات چھوڑ دیئے جو سائنسی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتے اور قرآن میں ایسا کوئی بیان نہیں ملتا جو سائنسی حقائق کے خلاف ہو؟


تخلیقِ آدم اور بائبل:


بائبل میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام ) سے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) اور کرہ ارض پر پہلے انسان ، یعنی حضرت آدم ( علیہ السلام ) تک بیان کردہ سلسلہ نسب کے مطابق حضرت آدام ( علیہ السلام ) کے درمیان تقریباً 1948 برس کا بُعد ہے اور ابراہیم ( علیہ السلام ) اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے درمیان تقریباً 1800 برس کا فاصلہ ہے جبکہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) سے آج تک 2000 برس گزر چکے ہیں۔ رائج الوقت یہودی کیلنڈر بھی تقریباً 5800 سال پرانا ہے جو کہ تخلیق کائنات سے شروع ہوتا ہے۔


آثار قدیمہ اور بشریات () کے مآخذ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر قدم رکھنے والا پہلا انسان آج سے دسیوں ہزار سال پہلے پیدا ہوا تھا۔ قرآن نے بھی آدم ( علیہ السلام ) کا ذکر زمین سے پہلے انسان کے طور پر کیا ہے لیکن بائبل کے برعکس اس نے نہ تو ان کی کوئی تاریخ بیان کی ہے اور نہ یہ بتایا کہ وہ زمین پر کتنا عرصہ رہے، ادھر بائبل نے اس کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے وہ سائنسی حقائق کے بالکل برعکس ہے۔


طوفانِ نوح اور بائبل:


بائبل کی کتاب پیدائش کے ابواب: 6،7 اور 8 سے ظاہر ہوتا ہے کہ طوفان نوح عالم گیر طوفان تھا جس نے روئے زمین پر ہر زندہ چیز کو تباہ کردیا سوائے ان کے جو نوح ( علیہ السلام ) کے ہمراہ کشتی میں سوار تھے۔


"کیا انسان، کیا حیوان، کیا رینگنے والا جاندار، کیا ہوا کیا پرندہ یہ سب کے سب زمین پر مرمٹے، فقط ایک نوح باقی بچا یا وہ جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے۔ "


( کتاب پیدائش: 7/23)​


بائبل کے بیان سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ یہ واقعہ آدم ( علیہ السلام ) کی پیدائش کے 1656 سال بعد یا ابراہیم ( علیہ السلام ) کی پیدائش سے 292 برس قبل اس وقت پیش آیا جب نوح ( علیہ السلام ) کی عمر 600 برس ہوچکی تھی، گویا یہ طوفان 21 ویں یا 22 ویں صدی قبل مسیح میں آیا ہوگا۔


بائبل میں طوفان کی جو کہانی بیان کی گئی ہے۔ وہ آثار قدیمہ کے مآخذ سے ملنے والی سائنسی شہادتوں سے متضاد ہے جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مذکورہ صدیوں میں مصر کے گیارھویں حکمران خاندان اور بابل کے تیسرے خانوادے کی سلطنتیں کسی تہذیبی بحران کے بگیر مسلسل قائم تھیں اور کسی بڑے طوفان سے متاءثر نہیں ہوئی تھیں جو اکیسویں بائیسویں صدی قبل مسیح میں آیا ہو۔ یہ بات بائبل کے اس قصے کی تردید کرتی ہے کہ طوفان کے پانیوں میں ساری دنیا ڈوب گئی تھی اس کے برعکس قرآن مجید میں نوح ( علیہ السلام ) کے بارے میں جو قصہ بیان کیا گیا ہے وہ کسی سائنسی شہادت یا آثار قدیمہ کے کوائف سے متصادم نہیں۔ اول تو قرآن اس واقعے کی کسی متعین تاریخ یا سال کی نشاندہی ہی نہیں کرتا۔ دوم ، قرآن کے مطابق بظاہر یہ سیلاب ایک عالمگیر واقعہ نہیں تھا جس سے زمیں پر موجود زندگی کو مکمل طور پر تباہ کردیا ہو۔


لہذا یہ فرض کرنا غیر منطقی بات ہے کہ نبی کریم () نے طوفان نوح کا قصہ بائبل سے مستعار لیا اور اس کا ذکر قرآن میں کرنے سے پہلے غلطیوں کی تصحیح کردی۔


موسی ( علیہ السلام ) اور فرعون:


قرآن کریم اوربائبل میں حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) اور فرعون ( جس کے دور میں یہود کا مصر سے خروج عمل میں آیا ) کے جو قصے بیان کیے گئے ہیں ، وہ ایک دوسرے سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ دونوں الہامی کتب کا اس امر پر اتفاق ہے کہ فرعون نے جب موسیٰ ( علیہ السلام ) کا تعاقب کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کھاڑی کو عبور کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈوب گیا جسے موسی ( علیہ السلام ) اسرائیلیوں کے ہمراہ پار کرگئے تھے۔ قرآن کریم کی سورۃ یونس میں ایک مزید خبر دی گئی ہے:


فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ (٩٢)


" آج ہم تیرا جسم بچا کر ( سمندر سے ) باہر نکال پھینکیں گے تاکہ وہ اپنے بعد والوں کے لیے نشان ( عبرت) ہو، اور بے شک بہت لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ "


( سورۃ یونس 10 آیت 92)​


ڈاکٹر موریس بکائے نے مکمل تحقیقات کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اگرچہ فرعون رعمسیس ثانی اس بات کے لیئے معروف ہے کہ اس نے بائبل کے بیان کے مطابق اسرائیلیوں پر ظلم ڈھائے لیکن فی الحقیقت وہ اس وقت ہلاک ہوگیا تھا جب موسیٰ ( علیہ السلام ) مدین میں پناہ لیئے ہوئے تھے۔ رعمسیس ثانی کا بیٹا منفتاح اس کا جانشین ہوا اور وہی یہود کے مصر سے خروج کے دوران میں بحیرہ قلزم کی کھاڑی میں ڈوب کر مرگیا۔ 1898ء میں مصر کی وادئ ملوک میں منفتاح کی مومیائی ہوئی لاشیں پائی گئی۔ 1975ء میں ڈاکٹر موریس بکائے نے دوسرے فضلاء کے ساتھ مل کر منفتاح کی مومیا کا معاینہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اس کے معاینے سے انہوں نے جو نتائج اخذ کیے۔ ان سے ثابت ہوتا ہے کہ منفتاح غالباً ڈوبنے سے یا اس شدید صدمے کی وجہ جو ڈوبنے سے عین پہلے اسے پیش آیا، ہلاک ہوا، لہذا قرآنی آیت کی صداقت کہ " ہم اس کی لاش کو عبرت کے طور پر محفوظ رکھیں گے۔ " فرعون کی لاش ملنے سے ظاہر ہوگئی جو اب مصری عجائب گھر ( متحف مصری ) واقع قاہرہ میں پڑی ہے۔


اس آیت قرآنی نے ڈاکٹر موریس بکائے کو، جو اس وقت تک عیسائی تھا، مطالعہ قرآن پر مجبور کردیا۔ بعد میں اس نے " بائبل، قرآن اور سائنس " کے عنوان سے کتاب لکھی اور اس بات کا اعتراض کیا کہ قرآن کا مصنف اللہ کے سوا کوئی اور نہیں ہوسکتا، ڈاکٹر بکائے نے آخر کار اسلام قبول کرلیا۔


قرآن اللہ کی کتاب ہے :


یہ شواہد اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ قرآن مجید، بائبل سے نقل نہیں کیا گیا بلکہ قرآن تو فرقان ہے، یعنی وہ کسوٹی جس کے ذریعے سے حق اور باطل میں امتیاز کیا جاسکتا ہے اور اس سے استفادہ کرکے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ بائبل کا کون سا حصہ کلامِ الہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید خود اس کی شہادت دیتا ہے۔ سورۃ السجدہ میں ارشاد باری تعالی ہے:


الم (١)تَنْزِيلُ الْكِتَابِ لا رَيْبَ فِيهِ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (٢)أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ (٣)


"الم ۔ بے شک اس کتاب کا نزول رب العالمین کی طرف سے ہے۔ کیا وہ کہتے ہیں کہ نبی نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ ( نہیں !) بلکہ یہ آپ کے رب کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ لوگوں کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا، شاید کہ وہ ہدایت پائیں۔


(سورۃ السجدہ 32 آیات 1 تا 3 )​


سوال نمبر - 26



کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟




کیا قرآن اللہ کا کلام ہے؟


" قرآن اللہ کا کلام نہیں بلکہ اس کے برعکس یہ شیطان کا کارنامہ ہے؟ "


متعصب مغربی مصنفین اور پادری یہ بے سروپا الزام دہراتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کا الزام مکہ کے کافروں نے بھی لگایا تھا کہ محمد () کو شیطان کی طرف سے الہام ہوتا ہے۔


جندب بن سفیان (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے روایت ہے:


" اِشتکٰی رسول اللہ () فلم یقم لیلتین او ثلاثاً، فجاءت امراۃ، فقالت: یا محمد! انی لارجو ان یکون شیطانک قد ترکک، لم ارہۃ قربک منذ لیلتین او ثلاثاً، فأنزل اللہ عزو جل: (وَالضُّحَى (١)وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى (٢)مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى (٣)


" ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ () بیمار ہوگئے تو آپ نے دویا تین راتیں قیام الیل نہ کیا۔ اس دوران میں ایک عورت آئی اور کہنے لگی: اے محمد! میرے خیال ہے کہ تمہارے شیطان نے تمہارے پاس آنا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے دو تین راتوں سے اسے تمہارے پاس آتے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ عزو جل نے یہ آیات نازل فرمائیں:


" دن چڑھے کی قسم! اور رات کی جب وہ چھا جائے ( اے نبی!) آپ کے رب نے آپ کو نہ چھوڑا اور نہ وہ ناراض ہوا۔


(صحیح البخاری، التفسیر، سورۃ ( و الضحی ) بات: 1 حدیث 4950)


پھر سورۃ واقعہ کی درج ذیل آیات نازل ہوئیں:


إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ (٧٧)فِي كِتَابٍ مَكْنُونٍ (٧٨)لا يَمَسُّهُ إِلا الْمُطَهَّرُونَ (٧٩)تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ (٨٠)


" بے شک یہ قرآن نہایت قابل احترام ہے ایک محفوظ کتاب میں۔ اسے بس پاک ( فرشتے ) ہی ہاتھ لگاتے ہیں۔ یہ رب العالمین کی طرف سے نازل کیا ہوا ہے۔


( سورۃ الواقعہ 50 آیات 77 تا 80)


"کتاب مکنون " سے مراد ایسی کتاب جو خوب محفوظ ہ مصئون ہو۔ اور اس میں آسمان پر موجود لوحِ محفوظ کی طرف اشارہ ہے ۔ اس کتاب قرآن مجید کو مطہرین کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا اور مطہرین کے معنی ہیں " جو ہر قسم کی ناپاکی، آلودگی یا گناہوں جیسی بُرائیوں سے پاک ہیں۔ " یہ فرشتوں کی طرف اشارہ ہے اور شیطان قرآن کو ہرگز نہیں چھو سکتا۔


اب چونکہ شیطان کے لیے قرآن پاک کو چھونا ممنوع ہے اور وہ اس کے قریب نہیں پھٹک سکتا، اس لیے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے قرآن مجید کی آیات لکھی ہوں۔


مزید برآں سورۃ الشعراء میں کہا گیا ہے:


وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ (٢١٠)وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ (٢١١)إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ (٢١٢)


" اور شیطاطین اس ( قرآن ) کو لے کر نازل نہیں ہوئے اور نہ یہ ان کے لائق ہے اور نہ وہ اس کی استطاعت ہی رکھتے ہیں بے شک وہ تو اس کے سُننے سے بھی دوور رکھے گئے ہیں۔


( سورۃ الشعراء 26 آیات 210-212)


شیطان کے متعلق غلط تصور :


بہت سے لوگ شیطان کا غلط تصور رکھتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان غالباً ہر کام کرسکتا ہے، سوائے چند کاموں کے جو اللہ انجام دے سکتا ہے۔ ان کے نزدیک شیطان اقتدار و اختیار میں اللہ سے قدرے نیچے ہے۔ چونکہ یہ لوگ تسلیم کرنا نہیں چاہتے کہ قرآن معجز نما وحی ہے، لہذا وہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ شیطان کا کارنامہ ہے، لیکن غور کیجیئے! اگر شیطان نے قرآن لکھنا ہوتا تو وہ اس قرآن کی سورۃ نحل میں یہ ذکر نہ کرتا:


فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ (٩٨)


"پھر جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگیں۔


( سورۃ النحل 16 آیت 98)


کیا خیال ہے شیطان ایسی کتاب تصنیف کرسکتا تھا؟ کیا وہ انسانوں سے یہ کہ سکتا تھا کہ " میری کتاب پڑھنے سے پہلے اللہ سے دعا مانگ لیا کرو وہ تمہیں اپنی پناہ رکھے " مزید برآں قرآن مجید کی کئی آیات ہیں جو اس امر کی کافی شہادت دیتی ہیں کہ شیطان قرآن کا مصنف نہیں۔


سورۃ الاعراف میں ہے:


وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ إِنَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (٢٠٠)


" اور اگر آپ کو شیطان کا کوئی وسوسہ اُبھارے تو اللہ کی پناہ مانگیئے، بے شک وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔


( سورۃ الاعراف 7 آیت 200)


اب شیطان بھلا اپنے پیروکاروں کو کیوں بتاتا کہ جب وہ ان کے ذہن میں کوئی وسوسہ ڈالے تو وہ اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں جس کا وہ کھلا دشمن ہے۔


سورۃ یس میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:


أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (٦٠)


" اے بنی آدم ! کیا میں نے تمہیں یہ تاکید نہیں کی تھی کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا۔ بلاشبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"


( سورۃ یس 36 آیت 60)


کفار کو شیطان نے پٹی پڑھائی :


شیطان ذہین ہے۔ لہذا یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس نے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال ڈال دیا کہ شیطان ہی نے قران تصنیف کیا۔ اللہ قادرِ مطلق کے مقابلے میں شیطان کی کوئی اہمیت نہیں اور اللہ کہیں زیادہ علیم و حکیم ہے۔ وہ شیطان کے گھناؤنے ارادوں کو جانتا ہے، اسی لیئے اس نے قرآن کے قاری کو کئی شواہد فراہیم کیے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کلام الہٰی ہے اور یہ شیطان کی تصنیف ہرگز نہیں۔


انجیل مرقس میں لکھا ہے۔


" اگر کسی سلطنت میں پھوٹ پڑ جائے تو وہ سلطنت قائم نہیں رہ سکتی۔ اور اگر کسی گھر میں پھوٹ پڑجائے تو وہ گھر قائم نہ رھ سکے گا۔ اور اگر شیطان اپنا ہی مخالف ہرکر اپنے میں پھوٹ ڈالے تو وہ قائم نہیں رہ سکتا بلکہ اُس کا خاتمہ ہو جائے گا۔"


( مُرقس، باب 3، فقرہ 24 تا 26)


یہ کسی طور ممکن نہیں تھا کہ شیطان اپنا ہی مخالف ہو کر ایک ایسی کتاب تصنیف کرتا جو شیطنت کی جڑ کاٹتی ہے۔ لہذا قرآن مجید کے بارے میں کفار مکہ اور یہود نصارٰی کا مذکورہ بالا الزام بے سروپا اور سراسر خلاف حقیقت ہے!




سوال نمبر - 27



اللہ معاف کرنے والا ہے یا منتقم مزاج؟




اللہ معاف کرنے والا ہے یا منتقم مزاج؟


"قرآن کئی مقامات پر یہ کہتا ہے کہ اللہ نہایت رحم کرنے والا اور معاف فرمانے والا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ وہ سخت سزا دینے والا ہے۔ تو کیا فی الحقیقت وہ معاف فرمانے والا ہے یا منتقم مزاج ہے ؟ "


قرآن کریم میں متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ اللہ نہایت رحم کرنے والا ہے۔ فی الواقع قرآن کریم کی نویں سورت، سورۃ توبہ کے سوا تما سورتیں ( بسم اللہ الرحمن الرحیم ) کے خوبصورت الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہیں۔ جن کے معانی ہیں: " اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔ "


اللہ تعالی کی معافی :


قرآن مجید میں سورۃ النساء کی 25 ویں آیات اور سورۃ المائدہ کی آیت: 75 سمیت متعدد مقامات پر فرمایا گیا ہے۔


وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ (٢٥)


" اور اللہ بہت معاف فرمانے اور انتہائی رحم کرنے والا ہے۔ " ( سورۃ النساء 4 آیت 25)


اللہ کی پکڑ :


اللہ تعالی غفور الرحیم ہونے کے ساتھ بہت سخت بھی ہے اور سزا کے مستحق لوگوں کو عذاب بھی دیتا ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالی ملحدوں اور کافروں کو سخت سزا دے گا۔ وہ ان سب کو عذاب میں مبتلاء کرے گا جو اس کی نافرمانی کے مرتکب ہیں۔ کئی آیات میں مختلف قسم کی شدید سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو جہنم میں نافرمانی کرنے والوں کو دی جائیں گی ۔ ارشاد باری تعالی ہے۔:


إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا (٥٦)


" بے شک جن لوگوں نے ہماری آیتوں کا اناکر کیا، ہم جلد انہیں آگ میں ڈالیں گے ، جب ان کی کھالیں جل جائیں گی تو ہم ان کی جگہ دوسری کھالیں چڑھا دیں گے تاکہ وہ عذاب چکھیں۔ بے شک اللہ بہت زبردست ، بڑی حکمت والا ہے۔ "


(سورۃ النساء 4 آیت 56)


اللہ کا عدل :


سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالی معاف فرمانے والا ہے یا منتقم ہے؟ اس سلسلے میں یہ نکتہ قابل توجہ ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہونے کے علاوہ سزا کے مستحق بد اعمال اور برے لوگوں کو سخت سزا بھی دیتا ہے کیونکہ وہ عادل بھی ہے۔ سورۃ النساء میں ارشاد ہوتا ہے۔:


إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ (٤٠)


"بے شک اللہ ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ " (سورۃ النساء 4 آیت 40)


سورۃ الانبیاء میں یہ حقیقت یوں بیان کی گئی ہے:


وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ (٤٧)


" اور ہم قیامت کے دن انصآف کے ترازو رکھیں گے، پھر کسی شخص پر ظلم نہ ہوگا، اور اگر رائی کے دانے کے برابر بھی ( کسی کا ) عمل ہوگا تو ہم اسے ( تولنے کے لیئے وہاں ) لے آئیں گے ، اور ہم حساب کرنے والے کافی ہیں۔ " ( سورۃ الانبیاء 21 آیت 47)


عدل کی ایک مثال :


کیا استاد اس طالب علم کو معاف کردیتا ہے جو امتحان میں نقل کرتا ہے؟ اگر امتحان کے دوران میں ایک طالب علم نقل کرتا پایا جائے اور امتحان میں نگرانی کرنے والا استاد اس کو رنگے ہاتھوں پکڑ لے تو کیا استاد یہ کہتا ہے کہ وہ بہت قابل رحم ہے اور پھر اسے نقل جاری رکھنے کی اجازت دے دیتا ہے؟ یقیناً وہ طالب علم جنہوں نے امتحانات کے لیے محنت کی ہوگی، استاد کو قطعاً رحم دل اور مہربان نہیں کہیں گے بلکہ اسے غیر عادل قرار دیں گے۔ استاد کا یہ رحم دلانہ فعل دوسرے طالب علموں کے لیے بھی نقل کی ترغیب کا باعث ہوگا۔ اگر تمام اساتذہ اسی طرح رحم دل اور مہربان ہوجائیں اور طالب علموں کو نقل کرنے کی اجازت دینے لگیں تو کوئی طالب علم کبھی امتحانات کے لیے مطالعہ نہیں کرے گا جبکہ نقل کرکے وہ اعلٰی درجے میں امتحان پاس کرلے گا۔ نظری طور پر امتحانات کے نتائج بڑے شاندار ہوں گے جن میں تمام طلبہ اول درجے میں اور امتیازی نمبروں کے ساتھ کامیاب قرار پائیں گے لیکن عملی طور پر وہ زندگی میں ناکام ہوجائیں گے اور امتحانات کا سارا مقصد ہی غارت ہوجائے گا۔


دنیا کی زندگی آخر کیلئے آزمائش ہے :


دنیا کی زندگی آخرت کی زندگی کے لیے ایک امتحان ہے، قرآن کریم کی سورہ الملک میں اشارہ ہوتا ہے:


الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (٢)


" وہ ( اللہ ) جس نے موت اور زندگی کو پیدا یا تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں زیادہ اچھا ہے۔ اور وہ زبردست اور بہت بخشنے والا ہے۔ "


( سورۃ الملک 67 آیت 2 )


جزا و سزا کی حکمتِ ربانی :


اگر اللہ تعالی ہر شخص کو معاف فرما دے اور سکی کو سزا نہ دے تو انسان اللہ تعالی کی اطاعت کیونکہ کریں گے؟ مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ اس صورت میں کوئی شخص جہنم میں نہیں جائے گا لیکن اس کے نتیجے میں اس دنیا کی زندگی ضرور جہنم بن جائے گی۔ اگر یہ طے ہوجائے کہ تمام انسانوں کو جنت ہی میں جانا ہے تو انسانوں کے اس دنیا میں آنے کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟ اس صورت میں دنیاوی زندگی کو اخروی زندگی کے لیے ہرگز امتحان قرار نہیں دیا جاسکتا۔


معافی صرف تائبین کیلئے :


اللہ صرف توبہ کرنے والے کو معاف کرتا ہے۔ اور اس شخص کو معاف فرماتا ہے جو اپنے کئے پر پشیمان ہو اور توبہ کرے۔ قرآن کریم کی سورۃ الزُمر میں ارشاد باری تعالی ہے:


قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (٥٣)وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لا تُنْصَرُونَ (٥٤)وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ (٥٥)


" کہ دیجیئے: ( اللہ فرماتا ہے: ) اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے! تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک اللہ سب گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقیناً وہ بڑا بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے ، اور تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اس کے فرماں بردار بن جاؤ، اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آئے، پھر تمہاری مدد نہ کی جاے گی۔ اور تم اس بہترین چیز کی پیروی کرو جو تمہارے رب کی طرف سے تمہاری طرف نازل کی گئی ہے۔ اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے جبکہ تمہیں اس کی خبر تک ہو۔


( سورۃ الزمر 39 آیات 53 تا 55)


پچھتاوے اور توبہ کی چار شرائط ہیں:


٭ اس امر سے اتفاق کرنا کہ ایک برے فعل ( گناہ ) کا ارتکاب کیا گیا۔


٭ اس سے فوری طور پر باز آجانا


٭ مستقبل میں دوبارہ کبھی اس کا ارتکاب نہ کرنا۔


٭ آخری بات یہ کہ اگر اس فعل کی وجہ سے کسی فرد کو نقصان پہنچا ہوتو اس کی تلافی کرنا۔


سوال نمبر - 28



کیا الڑا سونو گرافی قرآنی آیات کی نفی کرتی ہے؟




کیا الڑا سونو گرافی قرآنی آیات کی نفی کرتی ہے؟


" قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی ماں کے رحم میں موجود بچے کی جنس صرف اللہ ہی کو معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اب سائنس ترقی کرچکی ہے اور ہم بآسانی الٹرا سونو گرافی کے ذریعے سے جنین کی جنس کا تعین کرسکتے ہیں۔ کیا یہ آیت قرآنی میڈیکل سائنس سے متصادم نہیں؟ "


علم غیب صرف اللہ جانتا ہے :


بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کریم کا یہ دعوٰی ہے کہ صرف اللہ ہی رحم مادر میں جنین کی جنس کو جانتا ہے، اس سلسلے میں قرآن مجید کہتا ہے:


إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأرْحَامِ و (٣٤)


"بے شک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل کرتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہے۔ "


( سورۃ لقمان 31 آیات 34)


اس طرح کا ایک پیغام مندرجہ ذیل آیات میں دیا گیا ہے:


اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الأرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ (٨)


" اللہ ہی جانتا ہے جو کچھ ہر مادہ پیٹ میں اٹھائے پھرتی ہے۔ اور ارحام کی کمی بیشی بھی، اور اس کے ہاں ہر چیز کی مقدار ( مقرر ) ہے۔


( سورۃ الرعد 13 آیت 8)


الٹرا سونو گرافی سے جنس کا تعین :


موجودہ سائنس ترقی کرچکی ہے اور ہم الٹرا سونو گرافی (Ultrasonography) کی مدد سے حاملہ خاتون کے رحم میں بچے کی جنس کا تعین بآسانی کرسکتے ہیں۔


قرآن اور جنین کی جنس :


یہ درست ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت کے متعدد تراجم اور تشریحات میں یہ کہا گیا ہے کہ صڑف اللہ ہی یہ جانتا ہے کہ رحم مادر میں موجود بچے کی جنس کیا ہے۔ لیکن اگر آپ اس آیت کا عربی متین پڑھیں تو آپ دیکھیں گے کہ انگریزی کے لفظ جنس (Sex) کا کوئی متبادل عربی لفظ استعمال نہیں ہوا۔ درحقیقت قرآن کریم جو کچھ کہتا ہے ، وہ یہ ہے کہ ارحام میں کیا ہے، اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ بہت سے مفسرین کو غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے اس سے یہ مطلب لیا کہ اللہ ہی رحم مادر میں بچے کی جنس سے واقف ہے۔ یہ درست نہیں،


    یہ آیت جنین کی جنس کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ رحم مادر میں موجود بچے کی فطرت کیسی ہوگی۔ کیا وہ اپنے ماں باپ کیلئے بابرکت اور با سعادت ہوگا یا باعث زحمت ہوگا؟


    کیا وہ معاشرے کے لیے باعث رحمت ہوگا یا باعث عذاب؟ کیا وہ نیک ہوگا یا بد؟


    کیا وہ جنت میں جائے گا یا جہنم میں ؟


ان تمام باتوں کا مکمل علم صرف اللہ ہی کے پاس ہے، دنیا کا کائی سائنس دان، خواہ اس کے پاس کیسے ہی ترقی کے آلات کیوں نہ ہوں، رحم مادر میں موجود بچے کے بارے میں کبھی ان باتوں کا صحیح جواب نہیں دے سکے گا۔۔


( حاشیہ:


ابتدائی مراحل میں جب نطفہ اور علقہ رحم مادر میں ہوتا ہے تو کوئی سائنسدان بھی اس کا تعین نہیں کرسکتا کہ اس کی جنس کیا ہے۔ پھر آلات کے ذریعے سے معلوم کرنا تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی آپریشن کرکے کہے کہ مجھے اس کی جنس معلوم ہوگئی ہے، حالانہ یہ اسباب کے بغیر معلوم کنے کی نفی ہے۔ اور ایسے واقعات بھی سننے میں آئے ہیں کہ ڈاکٹر کی رپورٹ کے خلاف نتیجہ نکلا ہے، یعنی ڈاکٹری رپورٹ حتمی اور یقینی نہیں۔

(( عثمان منیب ))



سوال نمبر - 29



کیا قرآن میں تضاد ہے؟




کیا قرآن میں تضاد ہے؟


" قرآن کریم میں ذکر ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کے برابر ہے، ایک دوسری آیت قرآنی کہتی ہے کہ ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہے، تو کیا قرآن اپنی ہی بات کی نفی نہیں کررہا؟ "


قرآن کریم کی سورۃ السجدہ اور سورۃ الحج میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ کی نظر میں جو دن ہے، وہ ہماری دانست کے مطابق ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے ۔ :


يُدَبِّرُ الأمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (٥)


" وہی ( اللہ ) آسمان سے زمین تک ( سارے ) معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر ایک دن میں، جس کی مقدار تمہارے شمار کے مطابق ایک ہزار سال ہے، وہ معاملات اوپر اس کے پاس جاتے ہیں۔" ( سورۃ السجدہ 32 ایت 5)


ایک اور آیت میں ارشاد ہوا کہ اللہ کے نزدیک ایک دن تمہارے پچاس ہزار سال کے برابر ہے، ارشاد باری تعالی ہے ۔ :


تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ (٤)


" فرشتے اور روح القدس ( جبرائیل ) اوپر اس کی طرف چڑھیں گے ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ " ( سورۃ المعارج 70 آیت 4 )


ان آیات کا عمومی مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وقت کا موازنہ زمینی وقت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثالیں زمین کے ایک ہزار سال اور پچاس ہزار سال سے دی گئی ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ کے نزدیک جو ایک دن ہے وہ زمین کے ہزاروں سال یا اس سے بھی بہت زیادہ عرصے کے برابر ہے۔


" یوم " کے معنی :


ان تینوں آیات میں عربی لفظ " یوم " استعمال کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب " ایک دن " کے علاوہ " طویل عرصہ " یا " ایک دور " بھی ہے، اگر آپ یوم کا ترجمہ عرصہ (Period) کریں تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔


سورۃ حج میں فرمایا گیا ہے:


وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (٤٧)


" یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں، اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں ایک دن تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس کے برابر ہے۔ " ( سورۃ الحج 22 آیت 47)


جب کافروں نے یہ کہا کہ سزا میں دیر کیوں ہے اور اس کا مرحلہ جلد کیوں نہیں آتا تو قرآن میں ارشاد ہوا کہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام نہیں رہے گا، تمہاری نظر میں جو عرصہ ایک ہزار سال کو محیط ہے، وہ اللہ کے نزدیک ایک دن ہے۔


50 ہزار اور ایک ہزار سال کی حقیقت :


سورۃ سجدی کی مذکورہ بالا آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تک تمام امور کو پہنچنے میں ہمارے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ لگتا ہے،


جبکہ سورۃ المعارج کی آیت: 4 کا مفہوم یہ ہے کہ فرشتوں اور رُوح القدس یا ارواح کو اللہ تعالی تک پہنچنے میں پچاس ہزار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔


حاشیہ :


قرآن کے بیان کئے گئے وقت کا پیمانہ عام انسانوں کے لحاظ سے ہے، فرشتون خاص طور پر حضرت جبریل ( علیہ السلام ) اور ان کے ساتھ والے فرشتوں کے لیے یہ وقت ایک دن یا اس سے بھی کم ہے جبکہ انسانوں کو اتنا فاصلہ طے کرنے میں ایک ہزار سال لگ سکتے ہیں۔


باقی رہا پچاس ہزار سال کا دن تو فرشتے خصوصاً جبریل ( علیہ السلام ) زمین سے سدرہ المنتہٰی تک کا فاصلہ ایک دن یا اس سے بھی کم مدت میں طے کر لیتے جبکہ عام انسانی پیمانے سے یہ فاصلہ پچاس ہزار سال میں طے کیا جاسکتا ہے۔


ایک قول یہ بھی ہے کہ زمین سے عرش تک جو امور پہنچائے جاتے ہیں وہ ایسے وقت میں پہنچتے ہیں کہ عام لوگوں کو اس میں پچاس ہزار سال لگ جائیں، مفسرین کے ایک قول کے مطابق قیامت کا دن کفار اور نافرمانوں پر ایک ہزار سال یا پچاس ہزار سال جتنا بھاری ہوگا۔ البتہ مومنوں کے لیے وہ ایک دن یا اس سے کم تکلیف کا باعث ہوگا -


جیسے حدیث میں ہے کہ وقت ظہر سے عصر تک کا ہوگا صرف اس قدر ہوگا جس قدر کوئی نماز میں وقت لگاتا ہے۔


( مسند أحمد: 3/75 و ابن حبان: 7334) تفصیل کے لیے دیکھیئے تفسیر فتح البیان، تفسیر الخازن اور تفسیر روح المعانی وغیرہ۔ )


ضروری نہیں کہ دو مختلف افعال کے انجام پانے کے لیے یکساں مدت درکار ہو، مثال کے طور پر مجھے ایک مقام تک پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا ہے جبکہ دوسرے مقام تک سفر کے لیے 50 گھنٹے درکار ہیں تو اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ میں دو متضاد باتیں کررہا ہوں۔


یوں قرآن کی آیات نہ صرف ایک دوسرے کے متضاد نہیں بلکہ وہ مسلمہ جدید سائنسی حقائق سے بھی ہم آہنگ ہیں۔



0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔