Monday, 27 November 2017

خود کش حملے. ایک مغربی ریسرچ

خود کش حملے: ایک مغربی ریسرچ

سہراب نصیر

ہمارے ملک میں اس وقت روایتی بیانیہ اور متبادل بیانیہ کے نام پر سرد جنگ جاری ہے۔ اہل علم دو طبقات میں منقسم ہیں۔ متبادل بیانیہ کی حمایت والوں کا موقف ہے کہ روایتی بیانیہ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کی اصل جڑ ہے اور اس کو بدلے بنا مسلم معاشروں سے شدت پسند نظریات کا خاتمہ ممکن نہیں۔
روایتی بیانیہ کی حمایت والوں کا یہ ماننا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کا روایتی بیانیہ سے منسلک ہونے کے باوجود اِن میں شدت پسند عناصر کی موجودگی پانچ فیصد کے قریب بھی نہیں اور اِن شدت پسند عناصر کے رویہ کی اصل وجہ معروضی حالات ہیں نہ کہ روایتی بیانیہ۔ شدت پسندوں کی یہ اقلیت اپنے مقاصد کے حصول لیے مذہب کو بطور ڈھال استعمال کر رہے ہیں بلکل اسی طرح جیسے لبرل امریکہ عالمی امن کے نام پر اپنے استعماری مقاصد کو حاصل کر رہا ہے۔
بدقسمتی سے مسلم معاشروں میں شدت پسندی اور معروضی حالات کے درمیان تعلق پر کوئی جامع تحقیق سامنے نہ آ سکی۔
اس اہم نقطہ پر سب سے پہلے کام کا آغازRobert Pepe نے کیا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹرRobert Pape شکاگو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں اور عالمی حفاظتی امور کے ماہر ہونے کے ساتھChicago project on security and terrorism کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔
آپ چار کتابوں کے مصنف ہیں اور عالمی حفاظتی امور پر آپ کے مضامین نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، سی این این، فاکس نیوز اور دیگر اہم بین الاقوامی اخبارات و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔
دو ہزار پانچ میں اپنی کتابDying to win میں خودکش حملہ آوروں کی نفسیات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بسا اوقات یہ لوگ(خودکش حملہ آور) کسی سماج پر فوجی قبضہ کے جواب میں ایسا کر رہے ہوتے ہیں جس سے ان کی گہری( جذباتی) وابستگی ہوتی ہے۔
میں نے 9/11کے بعد خودکش حملوں پر پہلا جامع جدول تربیت دیا۔ ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ بہت سے لوگوں کی طرح جنھیں خودکش دھماکوں سے پالا پڑا تھا، میں نے سوچا کہ میں اس حقیقت سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو جاؤں گا کہ کیسے ایک بنیاد پرست مسلمان خودکشی کی حد تک شدت پسند ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے متعلق کوئی مواد میسر نہ تھا اس لیے میں نے 1980سے لے کر 2003تک دنیا بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کے واقعات کی معلومات کو یکجا کیا۔ میں یہ جان کر بہت حیران ہوا خودکش حملہ آوروں کی نصف تعداد سیکولر تھی۔ میں نے واقعات ( خودکش دھماکوں)، ان کے وقت اور علاقوں کے درمیان ربط تلاش کرنا شروع کیا تو ان سب کو ایک دوسرے سے جڑا پایا اور پچانوے فیصد خودکش دھماکے فوجی قبضوں کے جواب میں کیے گئے تھے۔
اور فوجی مقبوضات بہت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ یہ زمین پر غیر ملکی افواج کی تعداد کو ظاہر نہیں کرتی بلکہ یہ وہاں کی مقامی حکومتوں، ان کے معاشی اور سماجی نظام کو کنڑول کرنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ امریکہ اور نیٹو کا فوجی قبضہ ہی ہے جس نے ہمیں افغانستان میں خواتین کے حقوق کو متعارف کروانے اور انھیں نافذ کرنے کے قابل بنایا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا کرنا درست نہیں بلکہ میرا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جب ہم بندوق کی نوک پر خواتین کے حقوق نافذ کروائیں گے تو یہ عمل مقامی سماج میں یہ احساس پیدا کرتا ہے کہ انھوں نے اپنا حق خود ارادیت کھو دیا ہے۔ جو آپ دیکھ رہے ہیں ( شدت پسندی و دہشتگردی) اس میں سے سب نہیں لیکن اکثریت خودکش حملہ مقامی سماج کے حق خودارادیت سلب کر لینے کے ردعمل میں ہو رہے ہیں"

میں نے 1980سے لے کر 2003تک دنیا بھر میں ہونے والے خودکش حملوں کے واقعات کی معلومات کو یکجا کیا۔ میں یہ جان کر بہت حیران ہوا خودکش حملہ آوروں کی نصف تعداد سیکولر تھی۔

دنیا میں اس وقت تک کوئی نظریہ ایسا نہیں جس کا غلط استعمال نہ کیا گیا ہو۔ انسان جب خود غرض ہو جاتا ہے تو اپنی اولاد تک کو دنیاوی اور ذاتی فائدہ کے لیے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ لیکن چند افراد کا کسی نظریہ کو غلط استعمال کرنا اس نظریہ یا موقف کے باطل ہونے کی دلیل ہرگز نہیں بن سکتا ۔ مسلمانوں کی اکثریت اسلام کو ضابطہ حیات سمجھتی ہے اور اسے دنیا و آخرت میں اپنی کامیابی کا ذریعہ مانتی رہی ہے اور مانتی رہے گی۔ ایسے میں کچھ مسلمان اگر معروضی حالات سے تنگ آ کر اسلام کی من مانی تشریح کرتے ہوئے اِس کا غلط استعمال کرتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس بنیادی محرک کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو ایسے افراد کو دین کی غلط تشریح کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت پر ریاستی جبر کے تحت متبادل بیانیہ نافذ کرنے کی کوشش شدت پسند عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ شدت پسند اور اسلام مخالف لوگ بظاہر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ اسلام شدت پسندی کا دین ہے اور یہ بے گناہ انسانوں کے قتل عام کو جائز سمجھتا ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت عملی و نظریاتی طور پر اس موقف کی تردید کرتی ہے اور پر امن طریقے سے اسلام کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں نافذ کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
مسلمانوں کی پر امن اکثریت روایتی بیانیہ کی نمائندہ ہے نہ کہ چند شدت پسند تنظیمیں جن کا وجود غیر ملکی افواج کے مقبوضات کا مرہونِ منت ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔