Sunday 18 February 2018

گلوبلائزیشن اور اسلام


گلوبلائزیشن اور اسلام
مولانا منظر الاسلام ازہری
گلوبلائزیشن کی تعریف میں اسلامی اور مغربی مفکرین کا سخت اختلاف ہے۔ مختلف لوگوں نے مختلف تعریفیں کی ہیں مگر کوئی بھی تعریف ایسی نہیں جس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا ہو
Jan Art Scholt نے اپنی کتاب Globalization a critical introduction میں Internationalization, Liberalization, Universalization, Westernination اور Deterritorialization کی روشنی میں گلوبلائزیشن کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے۔ Jan نے اپنی کتاب میں جن پانچ تعریفات کا ذکر کیا ہے ان سب کا خلاصہ دو جملوں کے اردگرد گھومتا ہے۔
(۱) پوری دنیا میں ایک تجارتی منڈی کا قیام
(۲) پوری دنیا میں صرف ایک تہذیب کاو جود
گویا گلوبلائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں موجود سرحدی رکاوٹوں کوختم کردیا جائے اور ایک تجارتی منڈی کا قیام عمل میں لایا جائے یا پوری دنیا کی تہذیب و ثقافت کو ایک ہی سانچے میں ڈھال دیا جائے۔
دانشوران کا ماننا ہے کہ گلوبلائزیشن یا نظریہ عالمگیر سازی کا بانی امریکہ ہے۔ جبکہ تاریخی تناظر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان نے جب سے شعور کی منزل پر قدم رکھا اسی وقت اسی نظریہ کی بنیاد پڑگئی۔ انسان نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے پیدل چلنا شروع کیا‘ ایک ایسا زمانہ آیا جب جانوروں اور چوپایوں سے کام لیا جانے لگا۔ پھر حمل و نقل کے لئے سمندری راستے اور اسباب و ذرائع استعمال ہونے لگے۔ رفتہ رفتہ انسان کا شعور اتنا پختہ ہوگیا کہ فضا میں کمند ڈالنے لگا۔
انسان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا‘ کسی مخصوص جگہ کو تجارت کی منڈی بنانا‘ فرد سے جماعت‘ جماعت سے قبیلہ اور پھر حکومت وبادشاہت کی منزل طے کرنا‘ پھر علاقائی‘ ضلعی ‘ صوبائی اور ملکی سطح پر تنظیم کا قیام عمل میں لاکر نظام حکومت کے حدود اربعہ میں توسیع کرنا‘ عالمگیر نظام کا ہی تو پیش خیمہ تھا۔ انسان اپنی ان تمام کوششوں کے ساتھ ساتھ مذہب سے بھی خاص تعلق رکھتا تھا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبیات کے شعبہ میں جو عالمگیریت نمودار ہوئی ان میں بعض نے صلح و مصالحت‘ اخلاق وفا کو اپنی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنایا اور کسی نے قوت و بالادستی اور آمرانہ روش کے ذریعہ مذہبی فضا قائم کرنے کی کوشش کی۔ معلوم ہوا کہ گلوبلائزیشن امریکہ کی پیداوار نہیں بلکہ اس کی بنیاد میں دنیا کی دیگر قدیم تہذیبوں کا حصہ مقدم ہے اگرچہ بیسویں صدی میں اس نے اپنے آپ کو امریکنائز کرلیا۔ گلوبلائزیشن ایک ایسی حقیقت ہے جو تاریخ انسانیت کو ابتدائے آفرینش سے لازم ہے اور فنائے دنیا تک اس کی جدوجہد بھی چلتی رہے گی۔ گلوبلائزیشن کا مطلب و معنی مختلف ادوار میں تہذیب و ثقافت اور تصورات کے اعتبار سے متعدد رہا ہے۔
گلوبلائزیشن کے لئے عربی میں لفظ ’’عولمتہ‘‘ استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس اعتبار سے جب اسلامی تاریخ‘ اسلامی اصول و ضوابط کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام نے ’’عولمتہ‘‘ (عالمگیر سازی) نہیں بلکہ عالمیت کا تصور دیا ہے۔ عالمیت کا تصور کسی نہ کسی مرحلہ میں عولمہ سے ضرور ملتا ہے مگر اسلامی ’’عالمیت‘‘ اورجدید عالمگیر سازی میں بڑا فرق ہے۔ اسلامی عالمیت کی بنیاد انسانی تکریم‘ مساوات‘ تقویٰ‘ عفت اور پاکبازی پر ہے۔ جبکہ جدید عالمگیر سازی نظام کا مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کا نظام حکومت فرد واحد یا چند مخصوص لوگوںکے ہاتھ میں رہے۔ دنیا کے تمام تر اسباب و وسائل‘ مال و دولت پر ایک یا چند خاص لوگوں کا قبضہ ہو۔ امریکی سابق صدر سینئر بش نے اپنے ایک بیان میں اس عالمگیر نظام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس نظام حکومت کی باگ ڈور ایک ہی شخص یا جماعت کے ہاتھ میں ہوگی جو زندگی کے تمام پہلو تہذیب و ثقافت سے لے کر سیاست و معیشت اور معاشرت ہر ایک پر حاوی رہے گا۔ مغرب اس کے نفاذ کے لئے اس لئے کوشاں ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو حقوق انسانی کی کھلی توہین ہوگی۔ بالخصوص اقلیات کا تحفظ ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائے گا۔
اسلامی عالمیت کو نبی اکرمﷺ کے وجود مسعود سے جلاملی۔ قدیم منہج توحید جس پر بداخلاقی‘ بیہودگی اور بے حیائی کا دبیز پردہ پڑچکا تھا‘ آپ نے الہامی علم کے ذریعہ اس کے منفی اثرات سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ پیغام ربانی سناتے ہوئے اعلان کیا کہ ’’لوگو! میں جس دین اور جس منہج کی بات کررہا ہوں یہ کوئی نیا دین یا کوئی نیا منہاج نہیں۔ آدم سے لے کر ابراہیم ‘ موسیٰ‘ عیسٰی تک سب ہی اس کے داعی تھے‘‘ کان الناس امتہ واحدۃ فبعث اﷲ النبین مبشرین و منذرین وانزل معھم الکتاب بالحق لیحکم بین الناس فیما اختلفوافیہ (البقرہ ۲۱۳)
لوگ ابتدا سے ہی ایک منہج پر قائم تھے‘ پھر اﷲ نے نبیوں کو بھیجا‘ انہوں نے لوگوں کو خوشخبری اور ڈر کی باتیں سنائیں‘ اور انہیں سچی کتاب عطا کی تاکہ وہ ان کے درمیان ہونے والے اختلافی مسائل کو اس کی روشنی میں حل کرسکیں۔
حافظ ابن اثیر نے اس آیت کے تحت ابن عباس کی ایک روایت نقل کی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :نوح اور آدم کے مابین دس قرن کا فاصلہ ہے اس پورے دور میں تمام لوگ شریعت حقہ (اسلام) پر گامزن تھے۔ پھر ان میں اختلاف پیدا ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے انبیائے کرام کو اصلاح کے لئے بھیجا۔
گلوبلائزیشن کے فائدے سے انکار نہیں کیا جاسکتا تاہم اس کے منفی اثرات سے بھی چشم پوشی کرنا دیانت کے خلاف ہے جبکہ اسلام جس عالمیت کی بات کررہا ہے اس کے تمام پہلو مثبت ہیں۔ مغربی گلوبلائزیشن کی بنیاد الحاد و بے دینی پر استوار کی جارہی ہے اور مذہب کا اگر ذکر ہے بھی تو اس میں جبر کے تصورات موجود ہیں یعنی تمام دنیا میں صرف ایک مذہب ہو۔ مغربی گلوبلائزیشن میں حسب ونسب کی رعایت کہیں سے کہیں تک نہیں‘ اس کا نظام اخلاط فحاشی‘ اباحیت اور ضیاع نسب پر ہے۔ مال و دولت سے متعلق اس گلوبلائزیشن کا نظریہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں سرمایہ درانہ نظام نافذ کیا جائے اور اس کی باگ ڈور مخصوص لوگوں کے ہاتھ میں ہی رہے۔ یورپی گلوبلائزیشن میں انسانی جان کے حفاظت کی ضمانت بھی دور تک نظر نہیں آتی بلکہ اپنے تسلط کو برقرار رکھنے کے لئے ہر طرح کی مار دھاڑ اور قتل و غارت گری کو روا سمجھا گیا ہے۔ یونہی عقل انسانی کی آزادی کی بات تو کی گئی ہے مگر اس کو آزادی سے نکال کر بے لگامی کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ جبکہ اسلام جس عالمیت کے نفاذ کا حامی ہے اس میں ان تمام بنیادی ضرورتوں کی بھرپور رعایت موجود ہے۔ ان ضرورتوں کو اسلام میں ’’ضرورت خمس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ذیل میں چند کا تقابلی جائزہ ملاحظہ کیجئے۔
۱۔ مذہب
دین اسلام کی فطری ضرورت ہے‘ اس کے سائے میں انسان اپنے اخلاق‘ سلوک کی حفاظت باآسانی کرسکتا ہے۔ انسانی زندگی کی بنیاد آزمائش پر ہے کبھی مال و دولت سے انسان کو آزمایا جاتا ہے تو کبھی فقر و فاقہ سے‘ کبھی قوت و بالادستی عطا کرکے انسان کا امتحان لیا جاتا ہے تو کبھی ضعف و کمزوری کے ذریعہ۔ کبھی انسان کو اولاد کی آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے تو کبھی اولاد کی دولت سے محروم کرکے۔ ان امتحانات میں جو کامیاب و کامراں ہے اس کے لئے خوشخبری اور جو ناکام ہوتا ہے اس کے لئے عذاب الٰہی کا پیغام۔
انسانی زندگی کو ایک نہ ایک دن موت کی تلخ حقیقت کا سامنا کرنا ہے۔ مسلمان زندگی کے اس مرحلہ کو شک و برائی کی نگاہ سے دیکھا‘ اسے اپنی دائمی زندگی کا سبب سمجھتا ہے کیونکہ انسان کی منزل فنا نہیں ہمیشہ کی بقاء ہے۔ اس بقاء کے رحم مادر سے لے کر قیامت تک متعدد مراحل ہیں۔ زندگی کے ان مراحل کے لئے ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جو انسان کی رہنمائی کرتا رہے اس لئے اسلام نے انسان کا مذہب سے متصف رہنا بنیادی ضرورت اور نہ یہ کہ اس ضرورت سے متصف رہنا بلکہ اس کی حمایت و حفاظت پر بھی زور دیا ہے۔ تیرہ سال تک مکہ میں رہ کر نبی اکرمﷺ نے اسے بنیادی ضرورت کی طرف لوگوں کو دعوت دی اور اس کی حمایت کے لئے منہاج حسن کا استعمال بھی کیا۔ اس بنیادی ضرورت کے اختیار میں کوئی ظلم و جبر نہیں‘ ہر ایک اپنے عقیدہ اور اپنے دین پر قائم رہ سکتا ہے (لااکرام فی الدین قد تبین الرشد من الغی (البقرہ: ۲۵۶)
جبکہ مغرب جس گلوبلائزیشن کا علم بلند کررہا ہے وہاں اس بنیادی ضرورت کا فقدان ہے اور اگر ہے بھی تو منہج اول یعنی توحید سے انحراف اور شرک کے لبادہ میں ملبوس…!!
۲۔جان
اسلام میں جان کی اس حد تک قدر ہے کہ موت کی آرزو تک منع کردیا گیا ہے۔ ارشاد نبوی ہے کوئی شخص کسی پریشانی کی وجہ سے موت کی آرزو نہ کرے۔ اگر وہ اپنی زندگی سے عاجز ہی آچکا ہے تو اس طرح کہے پروردگار مجھے ایسی زندگی عطا فرما جو میرے لئے بہتر ہو اور اگر موت میرے لئے مفید ہے تو مجھے اس دنیا سے اٹھا۔ جب موت کی آرزو تک کو ناجائز قرار دیا گیا تو پھر خودکشی‘ بے وجہ کسی قتل‘ اپنی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے لاکھوں انسان کا قتل کیسے روا ہوسکتا ہے۔ انسانی جان کی اہمیت قرآن نے یوں بیان کی ہے: اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرض کردیا کہ جس نے کسی شخص کو بغیر سبب قتل کیا یا فساد کی غرض سے کسی کی جان لی گویا اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے کسی ایک جان کو زندگی عطا کی گویا اس نے پوری انسانیت کو حیات بخشا (المائدہ: ۳۲)
فرمان نبوی ہے: جس نے پہاڑ سے چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ہلاک کردیا وہ دائمی جہنمی ہے۔ جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو ہلاک کیا وہ دائمی جہنمی ہے۔ جس نے لوہا کے ذریعہ اپنے آپ کو ہلاک کیا وہ دائمی جہنمی ہے
انسان نے انسانیت کا احترام تو اس حد تک کیا ہے کہ رحم مادر میں جان پڑجانے کے بغیر ضرورت ملجۂ کے وضع حمل تک کو حرام قرار دیا: امام غزالی فرماتے ہیں: انسانی وجود کا پہلا مرحلہ نطفہ کا رحم میں مستقر ہوکر عورت کے بویضہ سے مل کر حیات کے لئے تیار ہونا ہے اس کو ختم کرنا ظلم ہے‘ اس کے بعد اگر علقہ اور پھر مضغہ میں تبدیل ہوجائے پھر اسے ساقط کیا جائے تو پہلے سے بڑا ظلم ہے۔ جب اس میں روح پڑجائے اور شکل اختیار کرلے ایسے میں اس کا ساقط کرنا اور بھی بڑا ظلم ہے (احیاء علوم الدین ۲/۵۳ حلبی)
اسلام نے جنگ کی حالت میں بھی انسانیت کا پورا لحاظ کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ فوجیوں کو آنکھیں موند کر دشمن کے مقابلہ میں کود جانے کو کہا ہے۔ کسی بھی جنگ میں جانے سے پہلے نبی اکرمﷺ فوج کے سربراہ کو خاص طور پر یہ تعلیم دیتے تھے کہ بوڑھوں کو قتل نہ کرنا‘ بچوں اور عورتوں پر بھی تلواریں نہ اٹھانا‘ خلفائے راشدین کا بھی طریقہ بعد میں یہی رہا کہ جب فوج کو کہیں جنگ کے لئے بھیجتے تو ان باتوں کی خاص طورپر نصیحت کرتے۔ حضرت ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک فوجی قائد کو وصیت کی‘ خیانت‘ بدعہدی‘ بے وفائی نہیں کرنا۔ دشمنوں کا مثلہ نہ بنانا‘ بچوں‘ بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا۔ کھجور کے درختوں کو برباد مت کرنا اور نہ ہی اسے جلانا‘ پھل دار درختوں کو مت کاٹنا‘ گائے‘ بکریوں اور اونٹوں کو بلاضرورت ذبح نہیں کرنا۔ تم ایسی قوم سے ملوگے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجا گھروں میں بند کررکھا ہوگا۔ انہیں اسلام کی دعوت دینا اور چھیڑ چھاڑ نہ کرنا۔ یہی طریقہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا بھی تھا۔
جانوں کے حفاظت کی تعلق صرف انسان تک ہی محدود نہیں بلکہ جانوروں کی جان بچانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق ایک شخص کو صرف اس لئے جنتی بنایا گیا کہ اس نے پیاس سے پریشان کتے کو پانی پلادیا اور ایک عورت جہنم کا ایندھن صرف اس لئے بن گئی کہ اس نے بلی کو باندھ کر اس پر ظلم و زیادتی کی۔
دوسری طرف آپ مغربی گلوبلائزیشن پر ایک اجمالی نظر دوڑایئے اور ایشیا ء و افریقہ کے مسلم یا مسلم اکثریتی ملکوں کا جائزہ لیجئے تو اس کی حقیقت خود واضح ہوجاتی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ گلوبلائزیشن کے دعویدار فلسطین کے بے گناہ بچوں کو کچلنے کے لئے کیا کچھ نہیں کررہے ہیں۔ سوڈان‘ صومالیہ‘ اریتیریا‘ چیچنیا‘ بوسنیا اور روسی اسٹیٹ کے مسلمانوں کے حال زار پر کون سنگدل ہے جو آنسو نہیں بہارہا ہے۔ افغانستان اور عراق کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی گھنائونی مثال کس کی آنکھوں کے سامنے موجود نہیں۔ یہ ہے گلوبلائزیشن کی چند مثالیں جس کی افادیت گلا پھاڑ پھاڑ کر بیان کی جارہی ہے۔
۳۔ مال
انسانی زندگی کو بقا بخشنے کے لئے اسلام نے انسان پر مال و دولت کا حصول ضروری قرار دیا۔ جائز طریقہ سے مال حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی۔ یونہی بیٹھے رہنے کو عیب قرار دیا۔ جب مال حاصل کرلے تو اس کے جائز استعمال کی تشریح بھی کی۔ اس پر چلو پھرو‘ اپنے رب کا رزق کھائو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے(ملک ۱۵)
نبی اکرمﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی پیٹھ پر لکڑیاں چن کر لائے‘ اس سے جو مال حاصل ہو‘ کچھ صدقہ کرے اور لوگوں سے بے نیاز رہے۔ یہ اس کے لئے اس کام سے بہتر ہے کہ کسی کے سامنے دست سوال دراز کرے‘ وہ چاہے تو اسے دے یا نہ دے‘ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔
شوہر پر اپنی بیوی کے اخراجات ضروری ہیں۔ انسانی معاشرہ کی آسودگی کے لئے قرآن کریم نے وراثت‘ وصیت ‘ ہبہ‘ زکواۃ‘ صدقہ‘ کفارہ کا نظام متعارف کرایا۔ ان میں سے ہر ایک کی تفصیل قرآن کریم میں موجود ہے۔ میراث اسلام کا ایسا زبردست نظام ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور قانون میں نہیں ملتی۔ ہبہ و وصیت کا ایسا نظام دیا جو انسانی تعلقات کو استوار کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ معاشرہ کی فاقہ کشی اور امیر وغریب کا فرق مٹانے کے لئے صدقہ و زکواۃ کا رہنما اصول دیا۔
مال و دولت جب زیادہ ہوجائے تو انسان حد سے تجاوز کرجاتا ہے پھر یہی مال اس کے لئے وبال جان بن جاتا ہے۔ ضرورت کے اعتبار سے اس کے خرچ کی ترغیب دی گئی اور اسراف سے منع کیا گیا اور فضول خرچ کرنے والوں کوشیطان کو ہم نشین قرار دیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تنبیبہ کردی گئی کہ مال ودولت پر کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری نہیں۔ ذخیرہ اندوزی حرام ہے۔
دوسری طرف گلوبلائزیشن کا ایک بڑا مقصد دنیا کے تمام گوشہ میں سرمایہ دارانہ نظام کو متعارف کرانا اور مال و دولت کے تمام اقسام پر یورپ اور امریکہ کے خاص لوگوں کا دسترس جمانا ہے‘ جس کے ذریعہ دیگر ممالک بالخصوص عالم اسلام پر فقروفاقہ کو مسلط کرکے مسلمانوں کو دربدر بھٹکنے پر مجبور کردینا ہے۔ اس گلوبل تحریک کے سائے تلے بڑھنے والی دنیا میں ایک جائزہ کے مطابق بیس کروڑ تین سو تعداد مسلمانوں کی ہے۔ ستر کروڑ ہندوستان میں‘ بارہ کروڑ چین میں‘ پانچ کروڑ جنوب ایشیا میں‘ چھبیس کروڑ افریقہ میں اور ایک کروڑ پانچ سو مشرقی وسطی میں لوگ فقر کی زندگی سے دوچار ہیں (ڈاکٹر سیارالجمیل‘ العولمہ والمستقبل استراتیجیتہ تفکیر من اجل العرب فی القرن الحادی والعشرین‘ عمان ص ۱۲۴)
یہ ہے یورپ کا گلوبل معاشی نظام…!!
۴۔نسب
نسل انسانی کو شفاف‘ اولاد آدم کو امتیازی خصوصیت کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے اسلام نے نکاح کا قانون مرتب کیا۔ جس کی بنیاد عفت‘ پاکی اور طہارت پر ہے۔ پیغام نکاح‘ عقد‘ زفاف وغیرہ کو اس تک پہنچنے کا ذریعہ قرار دیا۔ بدخلقی‘ انحراف اور برائی سے بچنے کے لئے نکاح کرنے کی پوری تاکید کی گئی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا اے نوجوانو! جو تم میں نکاح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ نکاح کرلے۔ یہ نگاہ اور شرم نگاہ کی حفاظت کا ضامن ہے اور جو اس کی صلاحیت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھ لے‘ روزہ شہوت کو ختم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
نکاح کا ایک بڑا مقصد عورتوں کی تکریم اور اس کے حقوق کی حفاظت ہے۔ نبی اکرمﷺ نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا:عورتوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا اور معاشرہ کو برائی سے محفوظ رکھنا ہے۔ اجنبی عورت کے ساتھ خلوت نشینی کو حرام قرار دیا۔ زنا اور لواطت کی سخت مذمت کی اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے سخت سزا مقرر کیں۔ مسلمانوں نے اس پر خود بھی عمل کیا اور دوسروں کو عمل کی دعوت بھی دی۔ دیگر نظام کی طرح یہ بھی اسلام کا عالمگیر نظام ہے جس کا اعتراف ان لوگوں نے بھی کیا جن کا دل ابھی نور اسلام سے خالی تھا۔ دور رسول کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے۔
اسلام مکہ و مدینہ سے نکل کر دور تک پھیلنے لگا۔ نبی اکرمﷺ نے امراء و ملوک کو اسلام کی عالمی دعوت کو قبول کرنے کے لئے خطوط بھیجا۔ قیصر روم ہر قل کو بھی خط ملا۔ اس نے اس خبر کی تصدیق و پیغام کی صداقت اور اس پیمبر کے اوصاف کو جاننے کی خواہش کی اتفاق سے انہیں دنوں ابوسفیان بغرض تجارت وہاں موجود تھے۔ دربار میں بلائے گئے۔ بادشاہ نے ہنر مندانہ سوال کیا۔ یہ مکمل سوال و جواب حدیث اور سیرت کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے‘ اس کا صرف یہ اقتباس پڑھیئے‘ ہر قل نے پوچھا وہ تمہیں کن باتوں کا حکم دیتے ہیں؟ ابو سفیان نے کہا : ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک خدا کی عبادت کی جائے‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے۔ ہمارے آبائو اجداد باطل معبودوں کی پرستش کررہے تھے۔ لہذا ان کی پرستش نہ کی جائے۔ ہمیں نماز کا حکم دیتے ہیں۔ سچ بولنے کی ترغیب کرتے ہیں۔ عفت و پاکی کو اپنانے پر زور دیتے ہیں۔ وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ امانت کی ادائیگی کی تلقین کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا : اس داعی حق کے جو اوصاف یہ بیان کررہے ہیں اگر یہ سچ ہے تو عنقریب اس کی حکومت ہمارے تخت شاہی تک پہنچ جائے گی (بخاری‘ باب کیف کان بد ء الوحی الی رسول اﷲﷺ) ٹھیک یہی بات حضرت جعفر بن ابی طالب نے بھی شاہ جیش کے سامنے اپنے ایک طویل مکالمہ میں بیان کیا تھا۔
دوسری طرف یورپ جس گلوبلائزیشن کی بات کررہا ہے‘ وہاں سراسر عورتوں کے حقوق کی پامالی ہے‘ نسب کا اختلاط‘ اور ناجائز بچوں کی کثرت ہے۔
اس لئے کسی حد تک ڈاکٹر حسن حنفی مصری کی اس رائے سے مجھے اتفاق ہے کہ اسلام کا موازنہ آج کے گلوبلائزیشن سے نہ کیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ صرف تہذیب اور تعلیم کا نام نہیں بلکہ آبادکاری‘ ملکوں کے قیام‘ جنگوں اور فتوحات کی ایک تاریخی حقیقت ہے اور گلوبلائزیشن دیگر وقتی تحریک اور خوف کی طرح ایک تحریک ہے۔ آج نہیں تو کل سہی اس کا خاتمہ یقینی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔