سورہ الرحمن کی آیت ہے جس کا ترجمہ ہے کہ "وہ رب ہے دونوں مشرقوں اور دونوں مغربوں کا".
یہاں دونوں مشرقوں اور مغربوں سے کیا مراد ہے؟ جبکہ عربی میں چاروں سمتوں کیلئے الگ الگ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
جوابات:
یہاں دونوں مشرقوں اور مغربوں سے کیا مراد ہے؟ جبکہ عربی میں چاروں سمتوں کیلئے الگ الگ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
جوابات:
جواب: 1)
قرآن کریم میں لفظ مشرق اور مغرب، واحد، تثنیہ اور جمع تینوں صیغوں میں استعمال ہوا ہے، واحد کا صیغہ سورہ مزمل میں::رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاتثنیہ کا صیغہ سورہ رحمٰن میں:رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِاور جمع کا صیغہ سورہ معارج میں آیا ہے:فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِچونکہ ہر روز سورج کا مطلع بدلتا رہتا ہے، ہر نئے روز سورج کے نکلنے اور اسی طرح غروب ہونے کی جگہ گزشتہ روز کی جگہ سے مختلف ہوتی ہے، چنانچہ اس آیت میں جمع کے صیغہ سے تعبیر فرمایا۔ اور واحد کے صیغوں میں جنس مشارق اور مغارب مراد ہے۔ اور جس آیت میں تثنیہ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں وہاں مشرقین اور مغربین سے مراد خاص گرمی اور سردی دو موسموں کے مشرق اور مغرب مراد ہیں۔ کذا فی تفسیر ابن کثیر (492/7، ط: دار طیبۃ للنشر و التوزیع)۔تفسیر معارف القرآن میں ہے:" سردی اور گرمی میں آفتاب کا مطلع بدلتا رہتا ہے، اس لیے سردی کے زمانے میں مشرق یعنی آفتاب کے نکلنے کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی کے زمانے میں دوسری، انہی دونوں جگہوں کو آیت میں مشرقین سے تعبیر فرمایا ہے، اسی طرح اس کے بالمقابل مغربین فرمایا، کہ سردی میں غروب آفتاب کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی میں دوسری۔" (ص:247، ج:8، ط:دار الاشاعت)
قرآن کریم میں لفظ مشرق اور مغرب، واحد، تثنیہ اور جمع تینوں صیغوں میں استعمال ہوا ہے، واحد کا صیغہ سورہ مزمل میں::رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لا إِلَهَ إِلا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلاتثنیہ کا صیغہ سورہ رحمٰن میں:رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِاور جمع کا صیغہ سورہ معارج میں آیا ہے:فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشَارِقِ وَالْمَغَارِبِچونکہ ہر روز سورج کا مطلع بدلتا رہتا ہے، ہر نئے روز سورج کے نکلنے اور اسی طرح غروب ہونے کی جگہ گزشتہ روز کی جگہ سے مختلف ہوتی ہے، چنانچہ اس آیت میں جمع کے صیغہ سے تعبیر فرمایا۔ اور واحد کے صیغوں میں جنس مشارق اور مغارب مراد ہے۔ اور جس آیت میں تثنیہ کے صیغے استعمال ہوئے ہیں وہاں مشرقین اور مغربین سے مراد خاص گرمی اور سردی دو موسموں کے مشرق اور مغرب مراد ہیں۔ کذا فی تفسیر ابن کثیر (492/7، ط: دار طیبۃ للنشر و التوزیع)۔تفسیر معارف القرآن میں ہے:" سردی اور گرمی میں آفتاب کا مطلع بدلتا رہتا ہے، اس لیے سردی کے زمانے میں مشرق یعنی آفتاب کے نکلنے کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی کے زمانے میں دوسری، انہی دونوں جگہوں کو آیت میں مشرقین سے تعبیر فرمایا ہے، اسی طرح اس کے بالمقابل مغربین فرمایا، کہ سردی میں غروب آفتاب کی جگہ اور ہوتی ہے اور گرمی میں دوسری۔" (ص:247، ج:8، ط:دار الاشاعت)
جواب: 2) اس سے مراد ایک اس دنیا کا مشرق و مغرب اور ایک آخرت کے دن والی دنیا کا مشرق و مغرب ہے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔