طوفان نوح پہ دو عام سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب
ترجمہ و تدوین: احید حسن
...................................................................................
طوفان نوح کے حوالے سے اکثر یہ سائنسی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس کا سائنس سے کوئی ثبوت نہیں۔دو عام سائنسی سوال یہ ہیں
1:اگر یہ طوفان حقیقت میں آیا تھا اور واقعی انسانی نسل معدوم ہونے کی حد تک کم ہوگئی تھی( جیسا کہ طوفان نوح کے مطابق مذہب کا دعویٰ ہے کہ صرف 82 افراد زندہ بچ سکے تھے) تو ہمیں اس کا ثبوت انسان کے موجودہ وراثتی مادے یعنی ڈی این اے اور جینوم( Genome) میں انسانی آبادی میں کمی( Human population bottleneck) کی صورت میں ملنا چاہیے.
2: دوسرا مشھور سوال یہ ہے کہ مذہب کے دعوے کے مطابق طوفان نوح واقعی آیا تھا اور چالیس دن رات شدید بارش ہوئی اور زمین کے اندر موجود پانی بھی زمین نے باہر پھینک دیا تھا جس سے پوری زمین پانی میں ڈوب گئی تھی لیکن زمین میں اتنا پانی موجود ہی نہیں ہے کہ جس کی مقدار زمین پہ موجود سمندروں سے بھی زیادہ ہو اور وہ نکل کر پوری زمین کو غرق کردے۔
سائنس ترقی کے مراحل میں ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ اگر سائنس کے پاس آج مذہب کی کسی بات کا کوئی جواب یا ثبوت نہیں ہے تو وہ بات غلط ہوگی۔بیشمار ایسے مذہبی حقائق ہے جن کو سائنس نے ماننے سے انکار کیا لیکن پچاس سو اور ڈیڑھ سو سال بعد اب خود سائنس ان کی تصدیق کر رہی ہے۔لہذا مذہبی حقائق کو سائنس پہ نہیں پرکھا جا سکتا۔ان مذہبی حقائق میں سے ایک طوفان نوح بھی ہے جس کو سیکولر سائنسدانوں نے انیسویں صدی کے آخر اور پوری بیسویں صدی میں ماننے سے انکار کیا جب کہ مذہبی سائنسدان ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ یہ طوفان عین ممکن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تحقیقات ان مذہبی سائنسدانوں کی تائید کرتی جارہی ہیں اور اب طوفان نوح کے حوالے سے مذکور دو عام سوالات کا سائنس جواب دے چکی ہے اور وہ جواب درج ذیل ہیں
1:پہلا سوال کہ اگر یہ طوفان حقیقت میں آیا تھا اور واقعی انسانی نسل معدوم ہونے کی حد تک کم ہوگئی تھی( جیسا کہ طوفان نوح کے مطابق مذہب کا دعویٰ ہے کہ صرف 82 افراد زندہ بچ سکے تھے) تو ہمیں اس کا ثبوت انسان کے موجودہ وراثتی مادے یعنی ڈی این اے اور جینوم( Genome) میں انسانی آبادی میں کمی( Human population bottleneck) کی صورت میں ملنا چاہیے.اس کا جواب یہ ہے کہ 2015ء میں کرمین( Karmin) کی انسانی وائے کروموسوم پہ کی گئی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا کہ انسانی تاریخ میں وائے کروموسوم کے جینیاتی تنوع میں حال ہی میں یعنی چند ہزار سال پہلے نہ کہ کئی لاکھ سال پہلے شدید ترین کمی موجود ہے جس کو جینیٹکس Recent Bottleneck Of Y Chromosome Diversity کہتی ہے۔اس کے مطابق انسانی وائے کروموسوم کے جینیاتی تنوع میں آج سے 52-47 ہزار سال پہلے ایک شدید کمی دیکھنے میں آتی یے۔اس طرح کی دوسری ایک شدید کمی آج سے دس ہزار سال پہلے دیکھنے میں آتی ہے۔لہذا یہ ثابت کرتا ہے کہ تاریخ میں دو وقت ایسے گزرے ہیں جب انسانی نسل تقریبا مٹنے کے قریب ہوگئی تھی۔اگرچہ اس کی وجہ سیکولر سائنسدان انسان کی نسلی کامیابی میں ثقافتی کمی کو قرار دیتے ہیں لیکن کئی دیگر سائنسدان کے مطابق یہ زمیں پہ آنے والی قدرتی تباہی یعنی کسی عالمگیر سیلاب کی وجہ سے ہوا ہو تو یہ بات بالکل ممکن ہے۔لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسانی وراثتی مادے یا جینوم میں انسانی نسل کے کسی عالمگیر سیلاب کی وجہ سے مٹنے کے قریب ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
2:دوسرا مشھور سوال یہ ہے کہ مذہب کے دعوے کے مطابق طوفان نوح واقعی آیا تھا اور چالیس دن رات شدید بارش ہوئی اور زمین کے اندر موجود پانی بھی زمین نے باہر پھینک دیا تھا جس سے پوری زمین پانی میں ڈوب گئی تھی لیکن زمین میں اتنا پانی موجود ہی نہیں ہے کہ جس کی مقدار زمین پہ موجود سمندروں سے بھی زیادہ ہو اور وہ نکل کر پوری زمین کو غرق کردے۔اس سوال کا جواب بھی جدید تحقیقات نے دے دیا ہے۔ اس کے مطابق زیر زمین کئی سو کلومیٹر کی گہرائی میں پانی کے سمندر موجود ہیں اور ان میں موجود پانی کی مقدار نہ صرف زمین پہ موجود سمندروں کی مقدار کے برابر بلکہ بعض اندازوں کے مطابق اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔سائنس فکشن اب حقیقت بننے لگا۔ ایک صدی قبل لکھی کہانی حقیقت میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ سائنسدانوں نے زمین کے مرکز میں وسیع سمندر کی موجودگی کا دعویٰ کیا ہے۔ڈیڑھ سو سال قبل فرانسیسی ناول نگار ‘جولس ویرن’ نے اپنے مشہور زمانہ ناول ” جرنی ٹو دی سینٹر آف دی ارتھ” میں خیال ظاہر کیا تھا کہ زمین کی اتاہ گہرائیوں میں ایک گہرا سمندر ہے۔ ناول نے جہاں ایک طرف دھوم مچائی تو دوسری طرف بالی ووڈ نے اس دلچسپ موضوع پر فلم بنائی۔ تاہم اب سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ زمین کی تہہ میں 406کلومیٹر کی گہرائی میں پانی کا بڑا ذخیرہ موجود ہے،جس کی مقدار زمین کی سطح پر موجود تمام سمندروں کے مساوی ہے۔اگرچہ یہ خبر مجھے ایک جگہ پڑھنے کو ملی لیکن میں نے اس کا جدید تحقیقات سے حوالہ ڈھونڈا جو کہ نیچے پیش کر رہا ہوں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ طوفان نوح کے مطابق مذہب کا یہ دعویٰ کہ چالیس دن رات شدید بارش کے ساتھ زمین نے زیر زمین پانی کے سمندروں کی صورت میں اپنا تمام پانی اگل دیا تھا جو کہ ایک عالمگیر سیلاب اور انسانی نسل کی تباہی کا سبب بنا، یہ بات جدید تحقیقات سے ثابت ہے۔
یہ تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ طوفان نوح کا انکار بالکل غیر منطقی اور غیر سائنسی رویے پہ مبنی ہے۔
ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ الحمدللہ
حوالہ جات:
1:Karmin; et al. (2015). "A recent bottleneck of Y chromosome diversity coincides with a global change in culture". Genome Research. 25 (4): 459–66.doi:10.1101/gr.186684.114. PMC 4381518 .PMID 25770088.
2:https://www.newscientist.com/…/mg23231014-700-deepest-wate…/
3:https://www.smithsonianmag.com/…/there-may-be-second-massi…/
4:https://www.livescience.com/46292-hidden-ocean-locked-in-ea…
ترجمہ و تدوین: احید حسن
...................................................................................
طوفان نوح کے حوالے سے اکثر یہ سائنسی سوال اٹھایا جاتا ہے کہ اس کا سائنس سے کوئی ثبوت نہیں۔دو عام سائنسی سوال یہ ہیں
1:اگر یہ طوفان حقیقت میں آیا تھا اور واقعی انسانی نسل معدوم ہونے کی حد تک کم ہوگئی تھی( جیسا کہ طوفان نوح کے مطابق مذہب کا دعویٰ ہے کہ صرف 82 افراد زندہ بچ سکے تھے) تو ہمیں اس کا ثبوت انسان کے موجودہ وراثتی مادے یعنی ڈی این اے اور جینوم( Genome) میں انسانی آبادی میں کمی( Human population bottleneck) کی صورت میں ملنا چاہیے.
2: دوسرا مشھور سوال یہ ہے کہ مذہب کے دعوے کے مطابق طوفان نوح واقعی آیا تھا اور چالیس دن رات شدید بارش ہوئی اور زمین کے اندر موجود پانی بھی زمین نے باہر پھینک دیا تھا جس سے پوری زمین پانی میں ڈوب گئی تھی لیکن زمین میں اتنا پانی موجود ہی نہیں ہے کہ جس کی مقدار زمین پہ موجود سمندروں سے بھی زیادہ ہو اور وہ نکل کر پوری زمین کو غرق کردے۔
سائنس ترقی کے مراحل میں ہے۔ لازمی نہیں ہے کہ اگر سائنس کے پاس آج مذہب کی کسی بات کا کوئی جواب یا ثبوت نہیں ہے تو وہ بات غلط ہوگی۔بیشمار ایسے مذہبی حقائق ہے جن کو سائنس نے ماننے سے انکار کیا لیکن پچاس سو اور ڈیڑھ سو سال بعد اب خود سائنس ان کی تصدیق کر رہی ہے۔لہذا مذہبی حقائق کو سائنس پہ نہیں پرکھا جا سکتا۔ان مذہبی حقائق میں سے ایک طوفان نوح بھی ہے جس کو سیکولر سائنسدانوں نے انیسویں صدی کے آخر اور پوری بیسویں صدی میں ماننے سے انکار کیا جب کہ مذہبی سائنسدان ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ یہ طوفان عین ممکن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی تحقیقات ان مذہبی سائنسدانوں کی تائید کرتی جارہی ہیں اور اب طوفان نوح کے حوالے سے مذکور دو عام سوالات کا سائنس جواب دے چکی ہے اور وہ جواب درج ذیل ہیں
1:پہلا سوال کہ اگر یہ طوفان حقیقت میں آیا تھا اور واقعی انسانی نسل معدوم ہونے کی حد تک کم ہوگئی تھی( جیسا کہ طوفان نوح کے مطابق مذہب کا دعویٰ ہے کہ صرف 82 افراد زندہ بچ سکے تھے) تو ہمیں اس کا ثبوت انسان کے موجودہ وراثتی مادے یعنی ڈی این اے اور جینوم( Genome) میں انسانی آبادی میں کمی( Human population bottleneck) کی صورت میں ملنا چاہیے.اس کا جواب یہ ہے کہ 2015ء میں کرمین( Karmin) کی انسانی وائے کروموسوم پہ کی گئی تحقیقات نے یہ ثابت کردیا کہ انسانی تاریخ میں وائے کروموسوم کے جینیاتی تنوع میں حال ہی میں یعنی چند ہزار سال پہلے نہ کہ کئی لاکھ سال پہلے شدید ترین کمی موجود ہے جس کو جینیٹکس Recent Bottleneck Of Y Chromosome Diversity کہتی ہے۔اس کے مطابق انسانی وائے کروموسوم کے جینیاتی تنوع میں آج سے 52-47 ہزار سال پہلے ایک شدید کمی دیکھنے میں آتی یے۔اس طرح کی دوسری ایک شدید کمی آج سے دس ہزار سال پہلے دیکھنے میں آتی ہے۔لہذا یہ ثابت کرتا ہے کہ تاریخ میں دو وقت ایسے گزرے ہیں جب انسانی نسل تقریبا مٹنے کے قریب ہوگئی تھی۔اگرچہ اس کی وجہ سیکولر سائنسدان انسان کی نسلی کامیابی میں ثقافتی کمی کو قرار دیتے ہیں لیکن کئی دیگر سائنسدان کے مطابق یہ زمیں پہ آنے والی قدرتی تباہی یعنی کسی عالمگیر سیلاب کی وجہ سے ہوا ہو تو یہ بات بالکل ممکن ہے۔لہذا یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسانی وراثتی مادے یا جینوم میں انسانی نسل کے کسی عالمگیر سیلاب کی وجہ سے مٹنے کے قریب ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
2:دوسرا مشھور سوال یہ ہے کہ مذہب کے دعوے کے مطابق طوفان نوح واقعی آیا تھا اور چالیس دن رات شدید بارش ہوئی اور زمین کے اندر موجود پانی بھی زمین نے باہر پھینک دیا تھا جس سے پوری زمین پانی میں ڈوب گئی تھی لیکن زمین میں اتنا پانی موجود ہی نہیں ہے کہ جس کی مقدار زمین پہ موجود سمندروں سے بھی زیادہ ہو اور وہ نکل کر پوری زمین کو غرق کردے۔اس سوال کا جواب بھی جدید تحقیقات نے دے دیا ہے۔ اس کے مطابق زیر زمین کئی سو کلومیٹر کی گہرائی میں پانی کے سمندر موجود ہیں اور ان میں موجود پانی کی مقدار نہ صرف زمین پہ موجود سمندروں کی مقدار کے برابر بلکہ بعض اندازوں کے مطابق اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔سائنس فکشن اب حقیقت بننے لگا۔ ایک صدی قبل لکھی کہانی حقیقت میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔ سائنسدانوں نے زمین کے مرکز میں وسیع سمندر کی موجودگی کا دعویٰ کیا ہے۔ڈیڑھ سو سال قبل فرانسیسی ناول نگار ‘جولس ویرن’ نے اپنے مشہور زمانہ ناول ” جرنی ٹو دی سینٹر آف دی ارتھ” میں خیال ظاہر کیا تھا کہ زمین کی اتاہ گہرائیوں میں ایک گہرا سمندر ہے۔ ناول نے جہاں ایک طرف دھوم مچائی تو دوسری طرف بالی ووڈ نے اس دلچسپ موضوع پر فلم بنائی۔ تاہم اب سائنسدانوں نے انکشاف کیا ہے کہ زمین کی تہہ میں 406کلومیٹر کی گہرائی میں پانی کا بڑا ذخیرہ موجود ہے،جس کی مقدار زمین کی سطح پر موجود تمام سمندروں کے مساوی ہے۔اگرچہ یہ خبر مجھے ایک جگہ پڑھنے کو ملی لیکن میں نے اس کا جدید تحقیقات سے حوالہ ڈھونڈا جو کہ نیچے پیش کر رہا ہوں۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ طوفان نوح کے مطابق مذہب کا یہ دعویٰ کہ چالیس دن رات شدید بارش کے ساتھ زمین نے زیر زمین پانی کے سمندروں کی صورت میں اپنا تمام پانی اگل دیا تھا جو کہ ایک عالمگیر سیلاب اور انسانی نسل کی تباہی کا سبب بنا، یہ بات جدید تحقیقات سے ثابت ہے۔
یہ تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ طوفان نوح کا انکار بالکل غیر منطقی اور غیر سائنسی رویے پہ مبنی ہے۔
ھذا ما عندی۔ واللہ اعلم باالصواب۔ الحمدللہ
حوالہ جات:
1:Karmin; et al. (2015). "A recent bottleneck of Y chromosome diversity coincides with a global change in culture". Genome Research. 25 (4): 459–66.doi:10.1101/gr.186684.114. PMC 4381518 .PMID 25770088.
2:https://www.newscientist.com/…/mg23231014-700-deepest-wate…/
3:https://www.smithsonianmag.com/…/there-may-be-second-massi…/
4:https://www.livescience.com/46292-hidden-ocean-locked-in-ea…
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔