کتنے آرام سے اعتراض لگا دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے اڑھائی سو سال بعد تک صحیح احادیث کا کوئی مجموعہ امت کے پاس موجود نہ تھا اور تدوین حدیث عجمی سازش تھی۔۔۔۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں جو تحریری مجموعے مرتب کیے گئے ان میں صحیفہ صادقہ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص)، صحیفہ عمر رضی اللہ عنہ، صحیفہ علی رضی اللہ عنہ، صحیفہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ، مسند ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، صحیفہ ہمام بن منبہ، صحیفہ بشیر بن نہیک، صحیفہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کی مرویات جو ان کے شاگرد عروہ بن زبیر نے لکھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات جنہیں سعید بن زبیر تابعی نے مرتب کیا، صحیفہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ، رسالہ سمرہ بن جندب، صحیفہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسالہ سعد بن عبادہ انصاری وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ مجموعے تھے جن میں سے بیشتر صحابہ کرام نے خود لکھے یا لکھوائے۔
99 ہجری میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر حدیث کو جمع کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ عمر بن عبد العزیز نے مختلف علاقوں میں فرمان جاری کیے اور بارہ ماہر محدثین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جن کی کمیٹی کے سربراہ ابن شہاب زہری تھے۔ ان بارہ اشخاص نے الگ الگ مجموعے مرتب کیے اور انہیں دارالخلافہ بھیج دیا۔
موطا امام مالک کی تالیف کا دور 130ہجری سے شروع ہو کر 141ہجری پر ختم ہوتا ہے۔ یہی حال دوسری تصانیف کا ہے۔
جامع ابن جریج (وفات150ہجری)
مسند امام ابوحنیفہ (150ہجری)
جامع امام اوزاعی (157ہجری)
جامع سفیان ثوری (161ہجری)
جامع ابن المبارک (181ہجری)
کتاب الخراج امام ابو یوسف (182ہجری)
کتاب الآثار امام محمد بن حسن شیبانی (189ہجری)
مسند امام شافعی (204ہجری)
مسند البزاز حماد بن سلمہ بن دینار بصری (197ہجری)
مسند امام موسٰی بن جعفر کاظم (183ہجری)
مسند ابوسفیان وکیع بن جراح (197ہجری)
ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃ حدیث میں سرِ فہرست ابن شہاب زھری، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز کے نام آتے ہیں۔ یہ سب کے سب نہ صرف عرب تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معزز قبیلے قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد جن محدثین نے حدیث کو اکٹھا کیا ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل شامل ہیں۔ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے حدیث پوری امت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ ان کے بعد کتب ستہ کے مولفین کا دور آتا ہے۔ ان میں امام مسلم، ترمذی اور نسائی عربی النسل تھے۔
ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے پہلی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری کے آخر تک کے مشہور محدثین کا ذکر اپنی کتاب "تذکرۃ المحدثین"میں کیا ہے۔ ان کی تعداد 70ہے جن میں سے 12کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے۔
اس تمام تفصیل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث کو عجمی سازش قرار دینا اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں جو تحریری مجموعے مرتب کیے گئے ان میں صحیفہ صادقہ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص)، صحیفہ عمر رضی اللہ عنہ، صحیفہ علی رضی اللہ عنہ، صحیفہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ، مسند ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ، صحیفہ ہمام بن منبہ، صحیفہ بشیر بن نہیک، صحیفہ جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ، عائشہ رضی اللہ عنہ کی مرویات جو ان کے شاگرد عروہ بن زبیر نے لکھیں، ابن عباس رضی اللہ عنہ کی مرویات جنہیں سعید بن زبیر تابعی نے مرتب کیا، صحیفہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ، رسالہ سمرہ بن جندب، صحیفہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور رسالہ سعد بن عبادہ انصاری وغیرہ شامل تھے۔ یہ وہ مجموعے تھے جن میں سے بیشتر صحابہ کرام نے خود لکھے یا لکھوائے۔
99 ہجری میں عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے سرکاری طور پر حدیث کو جمع کرنے کے احکامات جاری فرمائے تھے۔ عمر بن عبد العزیز نے مختلف علاقوں میں فرمان جاری کیے اور بارہ ماہر محدثین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جن کی کمیٹی کے سربراہ ابن شہاب زہری تھے۔ ان بارہ اشخاص نے الگ الگ مجموعے مرتب کیے اور انہیں دارالخلافہ بھیج دیا۔
موطا امام مالک کی تالیف کا دور 130ہجری سے شروع ہو کر 141ہجری پر ختم ہوتا ہے۔ یہی حال دوسری تصانیف کا ہے۔
جامع ابن جریج (وفات150ہجری)
مسند امام ابوحنیفہ (150ہجری)
جامع امام اوزاعی (157ہجری)
جامع سفیان ثوری (161ہجری)
جامع ابن المبارک (181ہجری)
کتاب الخراج امام ابو یوسف (182ہجری)
کتاب الآثار امام محمد بن حسن شیبانی (189ہجری)
مسند امام شافعی (204ہجری)
مسند البزاز حماد بن سلمہ بن دینار بصری (197ہجری)
مسند امام موسٰی بن جعفر کاظم (183ہجری)
مسند ابوسفیان وکیع بن جراح (197ہجری)
ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃ حدیث میں سرِ فہرست ابن شہاب زھری، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز کے نام آتے ہیں۔ یہ سب کے سب نہ صرف عرب تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معزز قبیلے قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد جن محدثین نے حدیث کو اکٹھا کیا ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل شامل ہیں۔ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے حدیث پوری امت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ ان کے بعد کتب ستہ کے مولفین کا دور آتا ہے۔ ان میں امام مسلم، ترمذی اور نسائی عربی النسل تھے۔
ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے پہلی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری کے آخر تک کے مشہور محدثین کا ذکر اپنی کتاب "تذکرۃ المحدثین"میں کیا ہے۔ ان کی تعداد 70ہے جن میں سے 12کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے۔
اس تمام تفصیل سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث کو عجمی سازش قرار دینا اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔
1 comments:
ماشاءاللہ مجھے لگاتھا صرف الحاد ڈاٹ کام ہی کام پر ہے
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔