خوارزم
کے تاریخی شہر کے مضافات میں ایک قریہ بیرون واقع ہے۔ جسے دورِ اسلامی کے
جامع صِفات سائنسدان ابو ریحان محمّد بن احمدّ البیرونی کے مولٙد ہونے کا
شرف حاصل ہے۔ اُن کی ولادت ۹۷۳ء کو ہوئ۔ البیرونی آلِ عراق کا پروردہ تھا۔
اِس لیے اُسے انقلابِ حکومت کا بہت صدمہ ہوا۔ چناچہ اُس نے فوراٙٙ ترک وطن
کا فیصلہ کیا اور جرجان کی راہ لی۔اُس کے بعد البیرونی جرجان رہا اور یہاں
اُس نے اپنی پہلی تصنیف "آثار الباقیہ" ک۱۰۰۰ء میں مکمل کیا۔ اُس کے بعد
علی بن مامون کی سفارش پر جرجان سے خوارزم آئے۔
اور یہاں اُس عہد کے اور فاضل زمانہ بو علی سینا سے ملاقات ہوئ۔ بو علی
سینا بلعموم فلسفہ ارسطو کا مقلد تھا۔ لیکن البیرونی پوری آزادی سے ارسطو
کی غلطیاں نکالتا تھا۔ بو علی سینا اور البیرونی کے درمیان اکثر علمٰی بحث و
مباحثے ہوتے رہتے تھے۔
البیرونی کو خوارزم ہی میں اہلِ ہند کے حالات معلوم کرنے اور اُن کی زُبان سنسکرت سیکھنے کا شوق تھا۔ البیرونی نے چند علمی دوستوں سے رابطہ بڑھایا اور سنسکرت زُبان کے ابتدائ درس لینے شروع کیے۔ البیرونی نے اپنی پچاس سالہ تصنیفی زندگی میں جتنی کتابیں اور رسالے لکھے اُن کی تعداد ڈیڑھ سو سے ذائد ہے۔ اور اُن کے صفحوں کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔ یہ کتابیں اور رسالے ہر قسم کے علوم ریاضی، ہئیت، طبیعات، تاریخِ تمدن، علم آپارِ عتیقیہ، مذاہب عالم، ارضیات و کیمیا، حیاتیات اور جغرافیہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی پہلی تصنیف "آثار الباقیہ" ہے، جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اِس کتاب کے اکیس باب ہیں جن میں دنیا کے مختلف اقوام اور مختلف مذاہب پوری تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔
البیرونی کی دوسری تصنیف "کتاب الہند" ہے۔اس کتاب میں ہر قسم کے مذہبی، تاریخی اور تمدنی معلومات کو جوکہ اہلِ ہند سے متعلق تھیں کو قلم بند کیا۔ البیرونی وہ پہلا شخص تھا جس نے دیگر مذہبی کتابوں مثلاٙٙ "بھگوت گیتا" ، "رمائن" ، "مہابھارت" اور "منوشاستر" وغیرہ کے اقتباسات کو عربی زُبان میں ڈھال کر "کتاب الہند" کی شکل میں پیش کیا۔
ہیئت اور ریاضی میں البیرونی کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ ایک کتاب کا نام "تفہیم" ہے۔ یہ کتاب چار سو صفحوں پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی دوسری تصنیف "قانون مسعودی" ہے۔ اِس کتاب کی تیسری جلد علمِ مثلث سے متعلق ہے۔
البیرونی کا ایک حیران کُن کارنامہ زمین کے محیط کی پیمائش ہے۔ البیرونی نے اپنی تصنیف "قانون مسعودی" میں زمین کے محیط کا حوالہ دیا ہے۔ البیرونی کے مطابق زمین کا محیط ۲۵۰۰۹ء میل تھا۔ جدید پیمائش کے مقابلے میں البیرونی کی پیمائش میں محض 3 فیصد غلطی تھی۔ جوکہ حیرت انگیز طور پر کم ہے اور نظرانداز کیے جانے کے قابل ہے۔
البیرونی کی کتاب "آثار الباقیہ" کا انگریزی ترجمہ لندن سے ۱۸۷۹ء میں ہوا۔ اور دوسری کتاب "آثار الہند" کا ترجمہ لندن سے ۱۸۸۸ء کو ہوا۔ بدقسمتی سے البیرونی کی کتاب "قانونِ مسعودی" کا کسی بھی یورپی زُبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔
تحریر
تالیف کردہ:مہر واصف الرحمنٰ
تحریر کردہ: محّمد ہارُون کانجو
البیرونی کو خوارزم ہی میں اہلِ ہند کے حالات معلوم کرنے اور اُن کی زُبان سنسکرت سیکھنے کا شوق تھا۔ البیرونی نے چند علمی دوستوں سے رابطہ بڑھایا اور سنسکرت زُبان کے ابتدائ درس لینے شروع کیے۔ البیرونی نے اپنی پچاس سالہ تصنیفی زندگی میں جتنی کتابیں اور رسالے لکھے اُن کی تعداد ڈیڑھ سو سے ذائد ہے۔ اور اُن کے صفحوں کی تعداد بیس ہزار سے زائد ہے۔ یہ کتابیں اور رسالے ہر قسم کے علوم ریاضی، ہئیت، طبیعات، تاریخِ تمدن، علم آپارِ عتیقیہ، مذاہب عالم، ارضیات و کیمیا، حیاتیات اور جغرافیہ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی پہلی تصنیف "آثار الباقیہ" ہے، جس کا ذکر ہم پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اِس کتاب کے اکیس باب ہیں جن میں دنیا کے مختلف اقوام اور مختلف مذاہب پوری تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔
البیرونی کی دوسری تصنیف "کتاب الہند" ہے۔اس کتاب میں ہر قسم کے مذہبی، تاریخی اور تمدنی معلومات کو جوکہ اہلِ ہند سے متعلق تھیں کو قلم بند کیا۔ البیرونی وہ پہلا شخص تھا جس نے دیگر مذہبی کتابوں مثلاٙٙ "بھگوت گیتا" ، "رمائن" ، "مہابھارت" اور "منوشاستر" وغیرہ کے اقتباسات کو عربی زُبان میں ڈھال کر "کتاب الہند" کی شکل میں پیش کیا۔
ہیئت اور ریاضی میں البیرونی کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ ایک کتاب کا نام "تفہیم" ہے۔ یہ کتاب چار سو صفحوں پر مشتمل ہے۔ البیرونی کی دوسری تصنیف "قانون مسعودی" ہے۔ اِس کتاب کی تیسری جلد علمِ مثلث سے متعلق ہے۔
البیرونی کا ایک حیران کُن کارنامہ زمین کے محیط کی پیمائش ہے۔ البیرونی نے اپنی تصنیف "قانون مسعودی" میں زمین کے محیط کا حوالہ دیا ہے۔ البیرونی کے مطابق زمین کا محیط ۲۵۰۰۹ء میل تھا۔ جدید پیمائش کے مقابلے میں البیرونی کی پیمائش میں محض 3 فیصد غلطی تھی۔ جوکہ حیرت انگیز طور پر کم ہے اور نظرانداز کیے جانے کے قابل ہے۔
البیرونی کی کتاب "آثار الباقیہ" کا انگریزی ترجمہ لندن سے ۱۸۷۹ء میں ہوا۔ اور دوسری کتاب "آثار الہند" کا ترجمہ لندن سے ۱۸۸۸ء کو ہوا۔ بدقسمتی سے البیرونی کی کتاب "قانونِ مسعودی" کا کسی بھی یورپی زُبان میں ترجمہ نہیں ہوا۔
تحریر
تالیف کردہ:مہر واصف الرحمنٰ
تحریر کردہ: محّمد ہارُون کانجو
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔