دجالی طاقتوں کا نیا ہتھیار، ہارپ ٹیکنالوجی HAARP
ہارپ کیا ہے؟
ہارپ ہائی فریکونسی ایکٹوارورل ریسرچ پروگرام کا مخفف ہے۔ یہ ایک تحقیقی مرکز ہے جسے گوکونہ (الاسکا) میں 1992 ء میں کھولا گیا تا کہ کرہ ہوائی کے حالات کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں جبکہ امریکی حکومت اسے شمسی دھیوں اور شمسی طوفانوں پر تحقیق کا مرکز قرار دیتی ہے۔
ہارپ طاقتور انٹیناؤں کے ایک نظام پر مشتمل ہے جو زمین کے آئنو سفیئر میں مرضی کی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ یہ کم فریکونسی والی 1.7 گیگا واٹ توانائی کی شعاعیں زمین کے آئنو سفئیر میں منتقل کرتے ہیں جو پھرگرم ہو کر اور پر اٹھتا ہے جس سے ہواؤں کے دباؤ اور رخ میں تبدیلی آتی ہے او رموسم تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت وہ ریڈیو آ پر یٹرز جو ہارپ کے سگنلز کو چیک کرتے رہتے ہیں نے سمندری طوفانوں کترینا اور ریتا سے پہلے ہارپ کے سگنلز میں اضافہ نوٹ کیا لیکن یہ بات تصدیق شدہ نہیں ہے کہ حقیقتاً ہارپ ان کے پیچھے ملوث ہے۔
بعض لوگوں کے مطابق گو کو نہ (الاسکا) میں واقع ہارپ حقیقی پروجیکٹ نہیں ہے ۔ ویوزون ویب سائٹ کے رائیٹر نے کہا ہے کہ 1998 ء میں اس نے فئیر بنکس (الاسکا) کے قریب ہارپ کا خفیہ مرکز دیکھا۔ رائٹر ڈان ایڈن کو نیوی سے فارغ ہونے والے دو آدمیوں ڈیو اور جوناس نے الاسکا مدعو کیا تھا ۔ وہ اسے ایک چھوٹے قصبے فاکس میں لے گئے۔ یہاں سے وہ چتی ناکہ دریا کے ساتھ مشرق کی طرف مڑ گئے۔ جہاں انہیں ممنوعہ فوجی علاقوں کے اشارے نظر آئے۔ ایک بلند سطح پر ایڈن کو ہارپ کے خفیہ انٹیناؤں کا ایک سلسلہ دکھایا گیا جو کہ تقریباً ایک مربع میل کے علاقے میں پھیلا ہوا تھا۔ اس میں انٹینوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اسے بتایا گیا کہ ان سے لیزر کی طرح کے مائیکرو یو سگنل آئنو سفئیر کی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ اس سے کرۂ ہوائی کی ایک تہہ گرم اور موٹی ہو جاتی ہے ۔ ڈیو نے ایڈن کو بتایا۔
" یہاں سے300 میل جنوب میں واقع گو کو نہ کا ہارپ سنٹر ایک ڈرامہ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہوئی ہے۔ یہ صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ ہارپ ایک بے ضرر تحقیقی پروگرام ہے۔"
دونوں نے ایڈن کو بتایا کہ وہ ہارپ کے خفیہ مرکز میں کام کر چکے ہیں ۔ ڈیو ٹرانسمٹر کے ساتھ کام کرتا جبکہ جو ناس فیڈر لائن پر کام کرتا۔ انہوں نے بتایا۔
" جب ہم پاور کو ہزاروں واٹ سے بلین واٹ تک لے جاتے تو زمین کی فضا کا بڑا حصہ منشتر ہو کر خلا میں چلا جاتا۔ اس کے بعد اس فضا سے الڑا وائلٹ ریڈی ایشن( بالا ئے بنفشی شعاعیں) زمین کی طرف لوٹ آتیں "
ایڈن نے سوال کیا کہ کیا کسی کو کبھی ان تجربات سے نقصان بھی ہو اہے؟ جواب نے اسے لرزا دیا۔
" جی ہاں! الاسکا میں کچھ لوگ س سے فرائی ہوگئے۔ لیکن اس نے صرف انسانوں کو قتل نہیں کیا بلکہ جانوروں اور انسانوں کو شعاعوں (ریڈی ایشن) کے مضاثرات کا شکار بھی کیا۔ ان میں مردہ بچوں کی پیدائش او رکینسر کے واقعات ظاہر ہوئے۔ اور اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اب وہ اسے دوبارہ استعمال کرنے والے ہیں۔"
کئی سالوں بعد 1999 ء میں ڈان ایڈن کو سربیا کے ایک لیڈر سے کئی ای میل وصول ہوئے جہاں اقوام متحدہ کی اور خصوصاً امریکہ کی فوجیں میلا زووچ سے لڑ رہی تھیں ۔ اسے بتایا گیا کہ فضائی حملے سے تھوڑی دیر پہلے آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک جاتا جو معرکے کے آخر تک رہتے تا ہم بلغراد میں بارش کی بجائے انڈے کی جسامت کے اولے پڑتے۔ اس دوران آسمان پر عجیب روشنیاں ظاہر ہوتیں جو گھنٹوں رہتیں جنہیں کسی انسان نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ان کے ساتھ کڑک عام کڑک سے کئی سو گنا طاقتور ہوتی اور اس کی آواز بموں کے پھٹنے جیسی ہوتی۔
اس کے علاوہ سائنسدانوں نے رپورٹ پیش کی کہ سربیا کے اوپر برقی مقناطیسی میدان میں ایک سوراخ پیدا ہو گیا ہے جو کہ خود سربیا کے سائز کے برابر تھا۔
2009 ء میں عراق پر امریکا کے حملے سے پہلے بھی عجیب موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہارپ پوری زمین کے موسم کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
تھیر یسابی ہارپ کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے کو یوں بیان کر تی ہیں۔
" اگست1998 ء میں ہارپ کے سالانہ اوپن ہاؤ س کے پہلے دن میں ہارپ کا دورہ کرتے ہوئے اچانک ایک گڑھے میں اتر گئی۔ ایک منٹ تک میں ٹھوس زمین پر چلتی رہی، پھر اچانک میں گھٹنوں تک ایک سوراخ میں پہنچ گئی۔ سٹاف کے ایک آدمی نے مجھے باہر نکالا ، اس پر اسرار سوراخ سے باہر آتے ہوئے میرے جوتے پاؤں سے اتر گئے۔ سٹاف اس بات سے بالکل ناواقف تھا کہ ہارپ کے انٹینا کے سلسلے کے نیچے کوئی سوراخ موجود ہیں۔ میں اس بات پر حیران تھی کہ کتنے ایسے سوراخ موجود تھے اور کس نے اچانک ٹھوس نظر آنے والی ریت کو غیر متوقع داخل ہونے والوں کو پھنسانے کے لیے نرم ریت میں تبدیل کر دیا تھا۔ میں27 سال الاسکا میں رہ چکی ہوں اور میں نے وہاں ایسی کوئی چیزنہیں دیکھی۔ جب میں گھر پہنچی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا کیمرہ ٹوٹ چکا ہے اور یہ ریت سے بھر پور تھا"۔
رچرڈولیمز نے جو کہ پرنسٹن میں ڈیوڈ سارنوف لیبارٹری میں طیبعیات دان ہے ، کہاہے کہ " ہارپ ایک غیر ذمہ دارانہ سر گرمی ہے"
1997 ء میں امریکا کے سیکرٹری آف ڈیفنس ولیم کوہن نے ان سر گرمیوں کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جو الیکٹرومیگنیٹک شعاعوں کے استعمال سے آب و ہوا کو تبدیل کر سکتی ہیں، زلزلے لا سکتی ہیں اور آتش فشانی کا باعث بنتی ہیں۔
(انٹر نیٹ پر موجود آرٹیکل کا نام ہے (Are HAARP and chile Earch Quake connected اگرچہ ہزار ثبوت بیان کئے جائیں یا باتیں کی جائیں کہ ہارپ مصنوعی زلزلے نہیں لا سکتی لیکن درج بالا یوایس سیکرٹری ڈیفنس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ اسے ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ہارپ درج ذیل طریقوں سے یہ تبدیلیاں لا سکتی ہے۔
ای ایل الف یا ایکسٹریم لو فریکونسی آئنو سفئیر کا گرم ہونا اور اوپر اٹھنا اس کے نیچے کم دباؤ کا علاقہ بننا طوفان اور بارش
ای ایل الف غیر قیام پذیر چٹانوں کا بننا اور زیر زمین پانی کا ابلنا انرجی کا خارج ہونا زلزلہ، ہارپ زمین کے مقناطیسی میدان کو بھی متاثر کر کے زلزلوں کا باعث بنتی ہے۔
مشہور سائنسدان ڈاکٹر روسیلی بر ٹل نے کہا ہے کہ امریکی عسکری سائنسدان موسم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں یعنی طوفانوں کو بڑھانا، فضا میں پائے جانے والے آبی بخارات کو کسی علاقے کی فضا میں موڑ دینا (مصنوعی بلاکنگ ایپی سوڈز پیدا کرنا)
میک فلٹر مین نے ، جو سابقہ فرانسیسی فوجی آفیسر ہے، کہا کہ امریکا ور روس دونوں 1980 ء کے عشرے کے اوائل میں ہی اچانک موسمیاتی تبدیلیاں لانے کی ٹیکنالوجی معلوم کر چکے تھے جو کہ ای ایل ایف ( کم فریکونسی والی برقی مقناطیسی موجیں) کے ذریعے لائی جاتی ہیں۔
فروری 1998 ء میں مسز باج برٹ (سویڈیش خاتون او ر امن کی حامی) کی پیش کی گئی رپورٹ کے جواب میں خارجی معاملات کے لیے یورپی پارلیمنٹ کمیٹی نے ایک قرارداد پیش کی جس میں ہارپ کو کرۂ ارض کے لیے خطرہ قرار دیا گیا اور اس کے اخلاقی او رقانونی پہلوؤں کے معائنے کی سفارش کی گئی۔
بعض لوگوں کے مطابق زلزلے قدرتی آفت ہیں ، یہ مصنوعی طور پر نہیں لائے جا سکتے لیکن اس کے جواب کے لیے یو ٹیوب پرویڈیو
How to make an earthquake دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مصنوعی زلزلے ممکن ہیں۔
ہارپ کے بنیادی سائنسدان ایسٹلنڈ نے بھی کہ اتھا کہ ریڈیو فریکونسی شعاعو ں کے استعمال سے گرم ہونے والا آئنو سفئیر موسم کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
یو اس ٹاک ریڈیو کے الیکس جو نز اوروینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے بھی ہارپ کو ٹیکٹو نک ہتھیار (مصنوعی زلزلے لانے والا ہتھیار) قرار دیا ہے۔
ہارپ ٹاورز، گکونا(الاسکا)میں 40 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور مسلسل توانائی کی فراہمی کے لیے انہیں ایک گیس فیلڈ سے منسلک کیاگیا ہے۔ ہارپ 1993 ء کے اوائل میں مکمل کام کرنے کی صلاحیت میں تھی۔یہ 1.7 گیگا واٹ توانائی زمین کے آئنو سفئیر میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 1.7 گیگاواٹ ایک بلین واٹ کے برابر ہے۔ جیون(GWEN) یا گراؤنڈ ویو ایمرجنسی نیٹ ورک بہت بڑے ٹاور ہیں جن سے زیر زمین کاپر کی 100 تاریں نکلتی ہیں۔ امریکی شعبہ دفاع کے مطابق یہ کسی ایٹمی حملے کے دوران موصلات بحال رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے لیکن درحقیقت یہ ہارپ کے ساتھ طوفان لانے اور موسمیاتی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ہارپ کا باوا آدم، نکو لا ٹیسلا
نکولا ٹیسلا جدید دو رکاعظیم ترین ذہین تھا ۔ اسے بعض اوقات پاگل ذہن (میڈجینئس ) بھی کہا جاتاہے۔ وہ سر بین نژاد امریکی تھا جو 10 جولائی 1856 ء میں پیدا ہوا اور 87 سال کی عمر میں7 جنوری 1943 ء میں فوت ہوا۔ اس نے روزمرہ استعما ل کی کئی ٹیکنالوجیز مثلاً اے سی کرنٹ ، ریڈیو اور ایکس رے ایجاد کئے۔ اس کی ایجادات اور دریا فتوں نے موجودہ دور کی ریڈار اور وائرلیس کمیونیکشن کی بنیاد ڈالی۔ اس نے تاروں کے بغیر بجلی کی ترسیل کا نظام دریافت کی جیسے " موت کی شعاع" (ڈیتھ رے) کا نام دیا گیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی ایجادات اور دریافتوں میں مزید پیشرفت کی گئی۔
اس نے چھ پاؤنڈ کا ایک آلہ ایجا د کیاجس سے اس نے سٹیل کی ایک بڑی عمارت کوہلا دیا او رایک بہت بڑی پل کو ارتعاشات میں ڈال دیا۔ اس کی وائرلیس انرجی پر تحقیات بعد میں بدنام زمانہ ہارپ ٹیکنالوجی کی بنیاد بنیں۔ اگر اسی ہارپ سے وہ شعاعیں بھیجی جائیں جو زمین کی کسی ایک پلیٹ کے قدرتی تعدد (نیچرل فریکونسی) کے مطابق ہوں تو ہارپ شعاعوں کی فریکونسی اور زمین کی خاص فریکونسی کے ملاپ سے زمین میں زبردست ارتعاشات پیدا کیے جا سکتے ہیں اور یہی ہارپ کے ذریعے زلزلے لانے کی بنیاد ہیں۔
ہارپ زمین ، ہوا، سمندر کو گرم کرکے اور کرہ فضائی میں ہوا کے دباؤ کو تبدیل کر کے موسم کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ اس کی انتہائی کم فریکونسی والی شعاعیں کسی علاقے کی تمام زندہ اشیاء کی موت کا سبب بن سکتی ہیں۔
سکتی ہیں۔
ٹیسلا سربیا کے ایک قصبے سملجان (موجودہ کروشیا) میں پیدا ہوا تھا جو اس وقت آسٹریا کے زیر انتظام تھا، بعد میں ٹیسلا نے امریکی شہریت اختیار کر لی۔ 1894 ء میں ریڈیو کے ذریعے وائرلیس کمیونیکشن اور اے سی کرنٹ کی ٹیکنالوجی کی ایجاد نے اسے مریکا کے عظیم ترین الیکٹریکل انجینئروں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اس وقت امریکا میں اس کی شہرت کسی بھی ملک میں کسی بھی کردار کی شہرت سے زیادہ تھی۔ سائنس او ر ٹیکنالوجی کے متعلق اس کے بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین دعوں کی وجہ سے اسے پاگل سائنسدان کا خطاب دیا گیا۔ بعض لوگوں کے مطابق واشنگٹن ہاؤس نے اس کی تمام دریافتوں کو چوری کر لیا اور 1943 ء میں وہ نیویارک میں دو کمروں والے ایک ہوٹل میں مر گیا۔ مقناطیسی میدان کی پیمائش کی اکائی ٹیسلا کا نام نکولا ٹیسلا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ٹیسلا کا والد میلوٹن ٹیسلا سربیا کے آرتھو ڈوکس چرچ کا پادری تھا۔ اس کی والدہ ڈوکا بھی ایک پادری کی بیٹی تھی۔
ٹیسلا نے ایک مشینی ریزو نیٹر بھی ایجا دکیا تھا۔ جس سے زمین کی گہرائی میں واقع معدنیات یا تیل کے ذخائر کا پتہ چلایا جا سکتا تھا ۔ اسے ٹیلی جیو ڈائنا مک سسٹم کا نام دیا گیا ۔ ایک مرتبہ اپنے اسی ریزو نیٹر کو آزماتے ہوئے اس نے حقیقتاً میں ہٹن میں ایک زلزلہ پیدا کیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کو عمار ت کے فولادی ستون پر رکھنے سے عمارت زیادہ فریکونسی والے ارتعاشات میں چلی جاتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ اس کے نیچے کا فرش ایک یا دو سیکنڈ تک اس کے استعمال سے کانپ سکتا ہے۔ نیچے ملبری سٹریٹ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے اہکار اس کی لیبارٹری سے آنے والی عجیب و غریب روشنیوں او رآوازوں سے واقف تھے۔ اس صبح انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے قدموں کے نیچے عمارت کانپ رہی ہے ، کرسیاں خود بخود حرکت کر رہی ہیں۔ میزوں پر رکھی گئی چیزیں اوپر نیچے ہو رہی ہیں۔ یہ عمل بڑھتا گیا ۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ زلزلہ ہے۔ ان میں سے ایک آفیسر چلایا کہ جلدی جاؤ، اس پاگل ٹیسلا کو روکو ۔ وہ شہر کو تباہ کر دے گا۔ دوسری عمارتوں میں سے بھی لوگ اسے زلزلہ سمجھ کر باہر آرہے تھے۔ ٹیسلا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کا آسلیٹر کسی بھی عمارت کو گرا سکتا ہے بلکہ یہ زمین کو بھی دو ٹکڑے کر سکتا ہے۔
اس نے دعویٰ کیا کہ
" میں ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کو تھوڑے سے وقت میں تباہ و برباد کر سکتا ہوں۔ میں اسے یقینی طور پر اور بغیر کسی مشکل کے کر سکتا ہوں۔ میں ریزو نیٹر کو عمارت سے لگاؤں گا۔ جس سے پہلے یہ ہلکے ارتعاشات میں جائے گی او راس کے بعد یہ ارتعاشات طاقتور ہوتے جائیں گے جس سے عمارت تباہ ہو جائے گی۔ اس عمل کے لیے مجھے ریزونیٹر (آسلیٹر ) کو چلانے کے لیے صرف 2.5 ہارس پاور انرجی درکا رہو گی۔" (بحوالہ پروڈیگل جیئیس صفحہ165 )
ٹیسلا نے دریافت کیا کہ زمین12 ہر ٹز کی انتہائی کم فریکونسی پر قدرتی ارتعاشات میں ہوتی ہے۔ ہارپ بھی اسی فریکونسی پر سگنل بھیجتی ہے۔ ہارپ کے یہ ٹرانسمیٹر جو زمین پر خاص دفاعی مقامات میں قائم کیے گئے ہیں، موسم کو تبدیل کرنے او رٹیسلا کی تحقیق کی بنیاد پر زلزلے لانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ٹیسلا کے پاس زمین یا فضاء میں کم انرجی منتقل کرنے والا آلہ تھا جس کے استعمال کے تباہ کن اثرات آپ نے دیکھے۔ آپ اندازہ کریں کہ ہارپ جو زمین کے گرد موجو د آئنوں کے کرے (آئنو سفئیر ) میں 1.7 گیگا واٹ توانائی منتقل کر سکتی ہے، وہ کتنے تباہ کن اثرات لا سکتی ہو گی۔
جان جیکبر نے اپنے مضمون
Tesla Technology and new super weapons میں لکھا ہے۔
" 1985 ء میں کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) نے برقی مقناطیسی ہتھیاروں کے مستقبل پر ایک تبصرہ پیش کیا۔ سی این این ان اولین ذرائع میں سے تھا جنہوں نے دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں کی جانے والی خفیہ تحقیق کو بے نقاب کیا۔ اس تحقیق کی بنیاد آج سے سو سال پہلے کی جانے والی نکولا ٹیسلا کی تحقیق پرہے۔ ان ریڈیو فریکونسی ہتھیاروں کے تصور کی بیسیوں صدی کے آغاز میں ٹیسلا نے پیشین گوئی کی تھی۔
1899 ء میں ٹیسلا نے ایک بہت بڑی کوائل بنائی جس سے100 ملین وولٹ کی مصنوعی آسمانی بجلی پیدا کی گئی۔ اس سے اس نے مہلک شعاعوں کا تصور دیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی کاوشوں کی فائلوں کو بلغراد کے میوزیم میں رکھا گیا جو روسی سائنسدانوں کے لیے اس تحقیق تک رسائی کا سنہری موقع ثابت ہوا۔ خاص مشینیں جنہیں گائرو ٹرانز کہا جاتا ہے، ریڈیو فریکونسی (آر ایف) کی انتہائی طاقتور شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔ یہ خیال کیا جاتاہے روسیوں کو اس ٹیکنالوجی میں تین سے چار سال کی سبقت حاصل ہے۔
نکولا ٹیسلا نے ہی در حقیقت ریڈیو ایجاد کیا تھا اگرچہ مارکونی کو 40 سال تک ریڈیو کا موجد مانا جاتا رہا لیکن 1943 ء میں امریکی سپریم کورٹ نے ٹیسلا کو ریڈیو کا موجد قرار دیا۔ اسے آئن سٹائن کے ساتھ مشتر کہ نوبل پرائز دیاگیا۔ الومینا تیوں نے اس کی ٹیکنالوجی کو خرید کر اسے کروڑوں پتی بنا دیا۔
چار جولائی 1976 ء کو وسیوں نے طاقتور برقی مقناطیسی شعاعیں پیدا کرنی شروع کر دیں یہ ٹیسلاٹرانسمنٹر (اور ہارپ ٹرانسمنٹر)انتہائی کم فریکونسی والی شعاعیں پیدا کرتے ہیں جو کہ موسم کے بہت بڑے بلاکنگ نظام بنا چکے ہیں جس سے بلند فضا ء میں واقع ہواؤں (ہائی ایلٹی چوڈ جیٹ سٹریم) اور موسم کا نارمل راستہ بلا ک ہو جاتے ہیں ۔ یہ کئی ماہ تک رہنے والے خشک موسم یا تباہ کن سیلابوں کا باعث بن جاتے ہیں۔
رسی وڈپیکر کے آغاز کے ٹھیک ایک سال بعد چار جولائی 1978 ء کو امریکہ نے انتہائی کم فریکونسی (ای ایل الف) کے استعمال سے موسم تبدیل کرنے کے اپنے تجربات کیے جس سے شمالی وسکانسن کے چھ ملکوں میں زبردست بارش ہوئی۔ا س سے157 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفان آیا، 3,50,000 ایکٹر پر واقع جنگلا ت تباہ ہو گئے اور 50 ملین ڈالر کا خسارہ ہوا۔
ہارپ اور پاکستان کا سیلاب
یاد رہے کہ زمین پر پانی کی کل مقدار 1500 ملین کیوبک کلو میٹر ہے اور اس پانی سے ایک سیکنڈ میں 180 ملین گیلن پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے جس سے کرۂ فضائی کے ہزاروں میل لمبے آبی بخارات کے دریا وجود میں آتے ہیں۔
ریجی نالڈ ای نیول نے جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز جرنل میں لکھا۔
" زیریں کرۂ ہوائی میں آبی بخارات کے دس دریا کوجود ہیں جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتا ۔ ان کا بہاؤ عظیم دریائے ایمیزن سے بھی زیادہ ہے۔ یہ دریا 420 سے 480 میل چوڑے اور 4800 میل لمبے ہیں۔ یہ زمین سے1.9 میل کی بلندی پر ہیں اور ان میں فی سیکنڈ 165 ملین کلو گرام پانی ہوتا ہے۔ ان میں سے پانچ شمالی نصف کرے اور پانچ جنوبی کرے میں پائے جاتے ہیں۔1993 ء میں بعض لوگوں کے مطابق ہارپ اور جیون ٹاور زکے ذریعے ان بخارات کے بہاؤ کو مڈویسٹ کی فضا میں روک دیا گیا جس سے 40 دن اور 40 راتیں بارش ہوئی ۔ اس سے دریائے میسوری اور دریائے مسسیپی میں سیلاب آگیا جس سے12 سے 15 بلین ڈالر کا زرعی نقصان ہوا ۔ ایک روسی سائنسدان کے مطابق پاکستان کا2010 ء کا سیلاب بھی ایسے ہی لایا گیا ہے۔ جس میں 20 ملین(2 کروڑ) لوگ بے گھر ہوئے۔ یہ یقین رکھنے والے لوگوں کے مطابق
(i) ۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات ، امریکی ، برطانوی یا کسی بھی ادارے نے اس سیلاب کی پیشین گوئی نہیں خیبر پختونخواہ میں گزشتہ 100 سالوں میں کوئی سیلاب نہیں آیا۔
(iii) ۔ علاقے کے درجہ حرارت کا ریکارڈ گلیشیئر وں کے پھگلنے کی تصدیق نہیں کرتا جیسا کہ میڈیا پر کہا جاتا رہا۔
(iv)۔ اس سیلاب کی پورے کرۂ ارض سے ، کہیں سے بھی کوئی وارننگ نہیں تھی، کیوں؟
اگست 2010 ء کے روزنامہ امت کے مطابق روس کے سائنسدان اور سٹریٹیجک کلچرل فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ آندرے اریشیف نے بھی ہارپ ٹیکنالوجی کو پاکستان کے سیلاب کی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جس سے بارش کا قدرتی مقام اور ڈیڈ لائن تبدیل کر کے اسے نام نہاد موسمی تبدیلیوں opisode Blocking کا نام دیا ہے۔ یہ سب ماحولیاتی دہشت گدی کے ذیل میں آتا ہے او رخود امریکی ماہرین اور سیاست دان بھی اس حوالے سے خبردار کرتے رہے ہیں۔
بعض خبروں کے مطابق کابل میں واقع بھارتی کمپنی کے زیر کنٹرول دریائے کابل پر واقع سروبی ڈیم سے اضافی پانی چھوڑ کر اس سیلاب کی شدت کو مزید بڑھایا گیا۔ سندھ طاس واٹر کونسل کے چئیرمین پیر ظہور الحسن ڈاہر نے بھی اوائل اکتوبر کے روزنامہ نوائے وقت کے مطابق یہی بات کی ہے۔
اس بات کی سائنسی گواہی موجود ہے کہ ہارپ خشک سالی، زلزے ، سونامی اور مصنوعی سیلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
چین کے زلزلے 2008 ء اور ہیٹی کے زلزلے 12 جنوری 2010 ء سے پہلے آسمان پر بادلوں کے رنگ بدلتے ہوئے دیکھے گئے۔ سائنسدانوں کے مطابق ایسا قدرتی زلزلوں میں نہیں ہوتا۔ یہ ہارپ کے آئنو سفئیر کی طرف بھیجے گئے سگنلز ہوا۔
ہارپ ٹیکنالوجی کے ممکنہ استعمال سے27 سے 30 جولائی2010 ء تک رسالپور میں 415، اسلام آباد میں 394 ، مری میں 373 ، گڑھی دوپٹہ میں346 اور سیدو تشریف میں 388 ملی میٹر کی تباہ کن بارش ہوئی۔ یہ بارش صوبے میں سال بھر ہونے والی اوسط بارش سے10 گنا زیادہ تھی۔ پورے صوبے میں ٹوٹل نو ہزار ملی میٹر بارش ریکارڈ گئی جس نے دریائے سند ھ کے معاون دریاؤں یعنی دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے گلگت میں زبردست طغیانی پیدا کر دی۔ جن سب کا پانی پھر دریائے سندھ میں شامل ہو کر بدترین سیلاب کا سبب بنا۔ سیلا ب میں دو لاکھ اٹھاسی ہزار گھر تباہ ہو گئے۔
ویب سائٹ www.zohaibhisam.com پر پاکستان کے سیلاب کے بارے میں ایک مضمون موجود ہے۔ جس میں مضمون نگار دعویٰ کرتا ہے کہ میں انٹرنیٹ پر ایک مہینے کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کا سیلاب مصنوعی طور پر لایا گیا ہے۔ اس میں اس نے سیلاب کے بارے میں درج ذیل سوالات اٹھائے ہیں۔
1۔ علاقے کے درجہ حرارت کا ریکارڈ گلیشئرز کے پگھلنے کو ثابت نہیں کرتا، بعض لوگوں کے مطابق گلیشئر پگھلنے اور بارشوں سے سیلاب آیا۔
2۔ سیلاب شمال مغربی علاقوں میں شرو ع ہوا جہاں کوئی بڑا دریا نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے معاون دریا موجود ہیں۔ واضح طور پر یہ سیلاب ان چھوٹے دریاؤں میں تباہ کن بارش سے آنے والی طغیانی سے شروع ہوا۔
3۔ اگرچہ اسلام آباد شمالی او رمغربی دونوں سمتوں سے سیلاب میں گھرا ہو اتھا لیکن یہ سیلاب سے متاثر نہیں ہوا جو مزید ثابت کرتا ہے کہ غیر قدرتی بارش سرحد اور اسلام آباد کے جنوب میں واقع پنجاب کے علاقوں میں ہوئی۔ ایک قدرتی بارش کا سیلاب سرحد سے پانی کے بہاؤ کی بنیاد پر براہ راست اسلام آباد کا رخ کرتا نہ کہ خاص مقامات کا۔
4۔ سیلاب کی کرۂ ارض کے کسی بھی حصے سے کوئی پیشین گوئی نہیں تھی جبکہ کراچی میں ہونے والی ہلکی بارش کا بھی ایک ہفتہ پہلے اعلان کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کسی کو دس دن پہلے بھی اتنی تباہ کن بارش کا علم نہیں تھا، کیوں؟ کیونکہ یہ مصنوعی بارش تھی۔
5۔ پاکستان کے سات میں سے ا ردریا سے آتے ہیں۔ سیلاب کا نقشہ ظاہر کرتا ہے کہ غیر متاثر رہے لہذا سیلاب بارشوں کی وجہ سے آیا۔
ہارپ کی سرگرمی کا عسکری دفاعی ریڈیو ویو سکیننگ ٹیکنالوجی سے پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ لہذا مجھے یقین ہے ہماری حکومت اور آئی ایس آئی جولائی 2010 ء میں ہونے والی بارشوں کے دوران ہارپ ریڈیو ویوز میں موجود بے قاعدگیوں سے واقف تھی۔ حکومت کو چاہیے کہ یہ ڈیٹا عوام کے سامنے پیش کرے تا کہ سیلاب میں ہارپ کے ملوٹ ہونے کو ثابت کیا جا سکے۔ امریکہ نے ہارپ استعمال کر کے پاکستان کو وہ نقصان پہنچایا جو چالیس ایٹم بموں سے ہونے ولای تباہی سے بھی زیادہ ہے۔
4۔ہارپ مائنڈ کنٹرول
ویب سائٹ http: //educateyourself.org/mc.mctotalcontrol 12jul02.shtml.
نے نکولس جونز کا لکھا ہوا مندرجہ ذیل مضمون پیش کیا ہے۔
زمین ایک مقناطیسی میدان میں لپٹی ہوئی ہے۔ مقناطیسی میدان کی دائروی لائنیں جنوبی قطب سے مسلسل نکلتی اور شمالی قطب میں داخل ہوتی ہیں۔
قدرتی موجیں (نیچرل ویوز) فضا میں برقیاتی سرگرمیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ یہ آسمانی بجلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر ان موجوں کو شو مین ریزوننس کہا جاتا ہے۔ کیونکہ 1943 ء میں شو مین نے ان پر تحقیق کی تھی یہ انتہائی کم فریکونسی والی( ای ایل ایف) موجیں ہیں جو سطح زمین او رآئنو سفئیر کے درمیان واقع زمین کے مقناطیسی میدان میں واقع ہیں۔ یہ موجیں انسانی طرزِ عمل کو کنٹرول کرنے والی برین ویوز سے فریکونسی میں مشابہہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو اس قابل بنایا کہ وہ قدرتی شو مین ریزوننس ویوز پر کام کر سکے۔ امریکا کے الاسکا میں واقع ہارپ سنٹر سے 1.7 گیگا واٹ توانائی کی انتہائی کم فریکونسی والی موجیں زمین کے آئنی کرے یعنی آئنو سفئیر کی طرف بھیجی جاتی ہیں جو کہ آئنو سفئیر کے خاص حصوں کے موسم کو تبدیل کرنے او رانسانی طرزِ عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
زمین میں پائے جانے والے چونسٹھ عناصر قدرتی طور پر زمین سے آنے والی مقناطیسی موجوں کو جذب کرتے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو انسانی خون کے سرخ خلیوں میں پائے جاتے ہیں۔ انسانی خون اور مقناطیسی موجوں کے درمیان ایک تعلق ہے۔ شو مین ریزوننس اور مقناطیسی موجوں کے درمیان اگرتوازن کا بگاڑ پیدا ہو جائے تو یہ انسانی ذہن کی فریکونسی یا یا بائیو ردم کو متاثر کرتا ہے۔ امریکا کے جیون ٹاور(GWEN) کی مصنوعی پیدا کی گئی کم فریکونسی والی موجیں قدرتی مقناطیسی موجوں کی جگہ لے سکتی ہیں جن کا انسانی ذہین سے تعلق ہے۔ جیون ٹاورز کی موجیں قدرتی مقناطیسی میدان کو تبدیل کر دیتی ہیں۔انکی فریکونسی کی حد 150 سے 175 کلو ہرٹز کے درمیان ہے۔ یہ موجیں زمین میں سفر کرتی ہیں۔ان کا تصور مشہور نوبل انعام یافتہ سائنسدان نکولا ٹیسلا نے پیش کیا تھا جسے Mad Genius کہا جاتا ہے۔ پورا جیون سسٹم 50 سے300 ٹرانسمٹرز پر مشتمل ہے جو امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر ٹاور299 سے500 فٹ بلند ہے۔ امریکا اس مقناطیسی میدان میں ڈوبا ہوا ہے لہذا ہر شخص کے ذہن کو کنڑول کیا جا سکتا ہے۔
جیون ٹرانسمٹرز کے دوسرے کام بھی ہیں مثلاً
1۔ موسم کنٹرول کرنا
2 ذہن کنڑول کرنا
3۔ طرزِ عمل کنڑول کرنا
4۔ اپنے مطلوبہ آدمی کی طرف انفرا ساؤنڈ کے طور پر تیار کردہ ٹیلی پیتھی بھیجنا ۔
جیون ٹاورز ہارپ سے مل کر کام کرتے ہیں۔
روسی اپنے موسمیاتی انجینئرنگ نظام کا ایک حصے جسے ایلیٹ(Elate) کہتے ہیں، اعلانیہ بیچتے ہیں جو 200 میل کے علاقے میں موسمیاتی نمونوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
1963 ء میں ڈاکٹر رابرٹ بک نے انسانی ذہن کی موجوں (برین ویوز) اور بیرونی مقناطیسی موجوں کے درمیان تعلق دریافت کیا۔ اس نے ثابت کیا کہشمسی طوفانوں اور نفسیاتی امراض میں ایک تعلق ہے۔ اس نے انسانوں پر اس کے تجربات بھی کیے۔
ہمارے دماغ کی موجیں کسی بھی ایسی ٹیکنالوجی سے متاثر ہو سکتی ہیں جو انتہائی کم فریکونسی والی موجیں (ای ایل ایف) خارج کرتی ہے۔
1950 ء سے1960 ء کے عشرے میں ڈاکٹر ایندریجا پہارک نے انسانوں پر تجربات کرتے ہوئے ثابت کیا کہ7.83 ہر ٹز کی موجوں نے ایک آدمی میں اچھا محسوس کرنے کی حس پیدا کی اور 6.6 ہرٹز کی موجوں نے ڈپریشن پیدا کی۔ ایندریجا نے اپنی دریافت امریکی عسکری قائدین کے سامنے پیش کی لیکن انہوں نے اس پر یقین نہیں کیا۔ امریکی حکومت نے نیو یارک میں اس کا گھر جلا دیا او روہ میکسیکو (روس) بھاگ گیا۔ روسیوں نے دریافت کر لیا کہ کسی فریکونسی والی موجیں انسانی ذہن کے ساتھ کیا کرتی ہیں۔ ایندریجا روسیوں کی ان سرگرمیوں کا جائزہ لیتارہا۔ وہ سی آئی اے کے رکان سے ملا اور ان کے لیے کام شروع کر دیا۔ وہ اس ٹیکنالوجی سے کتوں کو سلا دیتا اور تجرباتی طور پر بندروں کے کان کے پردے کو تباہ کر کے ان پر پردے کے بغیر آوازیں سننے کے تجربات کرتا رہا۔ اس نے دریافت کیاکہ انسانی زبان کی ایک عصب (نرو) کوسننے کو آسان بنانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس نے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے لیے دانتوں میں لگایا جانے والا آلا بنایا جسے لوگوں کی مرضی کے بغیر خفیہ طور پر ان کے دانتوں میں لگایا گیاویکسین کے ذریعے انسانی بال کی چوڑائی سے بھی چھوٹے ذہن کنٹرول کرنے والے آلات انسانی جسم میں داخل کیے جا سکتے ہیں جہنیں ویکسین امپلانٹس کہا جاتا ہے۔ کئی ملین لوگوں کے ساتھ ان کے علم کے بغیر ایسا ہوا۔ یہ بایؤچپس خون میں گردش کرتی ہوئی دماغ تک پہنچتی ہیں جہاں یہ اپنا کام کرتی ہیں اور اپنے ذریعے آدمی کو آواز سننے کے قابل بناتی ہیں۔
برقی مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) شعاعوں کے ذریعے بیماریاں ایسے ہی پھیلائی جاسکتی ہیں جیسا کہ ان شعاعوں کے ذریعے سگنل۔ کسی بیماری کے ارتعاشات (وائبریشن) کو کا پی کر کے کسی علاقے کی طرف بھیج کربیماری پھیلائی جا سکتی ہے۔ انہی شعاعوں کے ذریعے یہ بیماریاں فضا میں بکھیری جا سکتی ہیں۔
5۔ ہارپ کے ذریعے زلزلے
بعض ذرائع مطابق چین، جاپان اور ہیٹی کے زلزلے میں ہارپ ملوث ہے۔ روسی شمالی بحری بڑے کی ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق ہیٹی کا زلزلہ امریکی نیوی کے زلزلہ لانے والے ہتھیار کی وجہ سے آیا جو کہ ایران کی بجائے غلط سمت میں ہیٹی کی طرف چلا گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق چین کے2008 ء کے زلزلے، ہیٹی کے2010 ء کے زلزلے، 2004 کے سونامی اور2005 ء کے کترینا کے دوران ہارپ سگنل آن تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیٹی کے زلزلے سے پانچ گھنٹے پہلے تک ہارپ کے سگنل آٹھ سے بارہ گھنٹے آن رہے۔ ہیٹی اور چین کے زلزلے سے پہلے آسمان پر بادلوں کے رنگ بدلتے ہوئے دیکھے گئے۔ بعض ماہرین ارضیات کے مطابق یہ قدرتی زلزلوں میں بھی ہوتا ہے او ریہ زلزلے سے پہلے زمین کی چٹانوں کے پسنے اور شعاعوں کے اخراج سے ہوتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ہارپ کے مخالفین کہتے ہیں کہ اگر ہارپ زلزلے نہیں لا رہی تو کم از کم اس کے سائنسدان ان زلزلوں سے پہلے واقع ہونے والی کم فریکونسی (ای ایل ایف) تبدیلیوں کو لازمی جانتے ہیں کیونکہ یہ برقی مقناطیسی (الیکٹرو میگنیٹک ڈیٹا میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نکولاٹیسلا (وہ سائنسدان جس نے پہلے مصنوعی زلزلے کا تجربہ کیا تھا) جو آج سے100 سال پہلے مصنوعی زلزلے کی ٹیکنالوجی سے واقف تھا اور جس کی تحقیق کی بنیاد پر ہارپ بنائی گئی ہے، کیا وہ ہارپ مصنوعی زلزلے کی ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہو سکتی؟
ایک چینی سائنسدان کا کہنا ہے کہ زلزلے سے پہلے بادلوں کا موجود ہونا ایک قدرتی امر ہے اور ان بادلوں کی بنیاد پر زلزلے کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ اس کے مطابق زلزلے سے پہلے چٹانوں میں موجود پانی خارج ہو کر بادلوں کا باعث بنتا ہے اور ان بادلوں کے رنگ سورج کی روشنی سے بنتے ہیں۔ان بادلوںکی خاص شکل ہوتی ہے۔ یہ عدسے یا کسی اور خاص شکل کے ہو سکتے ہیں۔ ان بادلوں کی سٹیلائٹ کے ذریعے تصاویر حاصل کر کے زلزلے کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
جبکہ دیگر ماہرین کے مطابق یہ بادل لازمی طور پر زلزلے سے تعلق نہیں رکھتے اور تمام زلزلوں سے پہلے یہ بادل نظر نہیں آتے۔ ان کے مطابق کئی زلزلوں سے پہلے امریکی ادارے ناسا نے بھی آئنو سفیئر میں خلل معلوم کیے جس کے نیچے والے علاقوں میں پھر زلزلہ آیاوہ کہتے ہیں کہ ہارپ بھی آئنو سفیئر کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ممکن ہے ناسا نے زلزلے سے پہلے وہ خلل معلوم کیے ہوں جو ہارپ نے پیدا کیے ہوں۔ زلزلے سے پہلے واقع ہونے والے آئنو سفئیرکی ان تبدیلیوں کے مطابق منو رفریئنڈ نے بھی بی بی سی نیوز کو بتایا جو کہ کیلیفورنیا میں ناسا کے تحقیقی مرکز میں ایروسپیس کا ڈائریکٹر ہے۔ اس کے مطابق تائیوان میں آنے والے پانچ یا پانچ سے زیادہ کی شدت کے سو زلزلوں پر کئی عشروں کی تحقیق کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ زلزلے سے پہلے آئنو سفئیر میں خلل واقع ہوتے ہیں۔ ایسے ہی خلل 12 مئی2008 ء کو چین میں آنے والے زلزلے سے پہلے معلوم کیے گئے۔ زلزلے کی پیشین گوئی زلزلے کے مرکز سے خارج ہونے والی انفراریڈ (آئی آر) شعاعوں اور مقناطیسی ڈیٹا میں آنے والی تبدیلیوں سے بھی کی جا سکتی ہے۔
بعض لوگوں کے مطابق مندرجہ ذیل وجوہات پریہ شک کیا جاسکتا ہے کہ بیٹی کے زلزلے میں ہارپ ملوث ہے۔
1۔ ہیٹی پور ٹور یکو میں واقع ہارپ سنٹر سے صرف چند سو میل دور ہے۔
2۔ ہیٹی ہارپ کے تجربات کے لیے پسماندہ ، ناپسندیدہ او رکم ترقی یافتہ ملک ہونے کی وجہ سے مناسب مقام تھا۔
3 ۔ زلزلے کے وقت گلی میں لگے ہوئے ایک کیمرے نے واضح طور پر دکھایا کہ زمین اوپر نیچے حرکت کر رہی ہے، ایسا لگتا تھا جیسے یہ ابل رہی ہو۔ ٹیلی فون کے کھمبے بہت کم جھول رہے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قشر ارض کی زلزلے کے دوران دائیں بائیں حرکت کی بجائے یہ ہارپ کے ذریعے گرم کیے گئے زیر زمین پانی سے لایا گیا تھا جس میں زمین اوپر نیچے حرکت کر رہی ہے۔
4۔ زلزلہ زلزے کے عمومی مرکز یعنی شمالی امریکی قشرارض کی پلیٹوں کی بجائے ان کے جنوب میں آیا۔ جہاں عموماً زلزلے نہیں آتے او ریہ ہارپ سے لایا گیا تھا جو زمین کے ہر اس حصے میں زلزلہ لا سکتی ہے جس مین زیر زمین نمی یا پانی ہو۔
5۔ زلزلہ شام کے وقت آیا جس سے شک ہوتا ہے کہ شاید ہارپ کے استعمال سے زلزلے کے دوران بننے والے بادلوں کو چھپایا جا سکے۔
6۔ زلزلے کے بعد غیر معمولی طو رپر پانچ آفٹر شاکس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی مظہر ہے جو ظاہر کر سکتاہے کہ کم فریکونسی والی ہارپ شعاعوں کے استعمال سے گرم ہونے والا پانی اتنی جلدی ٹھنڈ نہیں ہوا۔
7۔ زلزلے کو ریکارڈ کرنے والے کیمرے کے برعکس زلزلے کے دوسرے دن شام کی خبروں میں یہ جھوٹ بالا گیا کہ زمین زلزلے کے وقت افقی حرکت کر رہی تھی جبکہ حقیقتاً زمین کی حرکت اوپر نیچے (عمودی لائن) میں تھی۔
8۔ خبروں میں یہ جھوٹ بھی بولا گیا کہ زلزلہ شمالی امریکی زلزلے کے مرکز کی لائن کے علاقے میں آیا۔ آخر کار وہ یہ جھوٹ بول کر کس چیز پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے؟
9۔ روسی بھی ہارپ کے اس قسم کے استعمالا ت کے متعلق خبردار کرتے رہے ہیں بعض لوگوں کے مطابق اس قسم کی آفتیں لانے کا مقصد ناپسندیدہ ملکوں کی آبادی کو کم کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہیٹی کا سات کی شدت سے آنے والا زلزلہ اس علاقے میں گزشتہ دو سو سالوں میں آنے والے زلزلوں سے بھی زیادہ طاقتور تھا۔ اس سور چہ فال اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں۔
1970" ء کے عشرے کے اواخر میں ہی امریکہ اپنے زلزلے کے ہتھیاروں (ارتھ کوئیک ویپنز) میں بہت ترقی کر چکا تھا جن میں زلزلے لانے کے لیے برقی مقناطیسی شعاعوں (ٹیسلا الیکٹرو میگنیٹک پلس) ، پلازمہ او رسانک ٹیکنالوجی او رشاک ویوز بموں کا استعمال شامل تھے روسیوں نے ہیٹی کے زلزلے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ اسی ٹیسلا ٹیکنالوجی کے استعمال سے لایا گیا جس سے 17 جنوری1995 کا چاپان کے شہرکوب (یا کوبی) کا 6.4 کی شدت کا زلزلہ لایا گیا او رجس کی اوم شنریکیو نے9 دن پہلے ہی تنبیہہ کر دی تھی۔ آٹھ جنوری1995 ء کو شو کو اسہارا نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ1995 ء میں جاپان پر زلزلے سے حملہ کیا جائے گا۔ جس کا ممکنہ ہدف کو ب کا شہر ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سابقہ وزیر ہیدیو مرائی(جواب فوت ہوچکا ہے) نے بھی کوب کے زلزلے کے متعلق سوالات کے جوابات میں کہا تھا کہ اس بات کا کافی امکان ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک پاور کے استعمال سے زلزلہ لایا جا سکتا ہے۔ اوم شنریکیو کے متعلق ایف ایس پی رپورٹس کہتی ہیں کہ انہوں نے زلزلہ لانے والے ہتھیاروں کے منصوبہ شدہ استعمال کا علم ایک امریکی کمپیوٹر ہیکر سے حاصل کیا تھا جس نے امریکی شعبہ دفاع کی انتہائی خفیہ فائلوں تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ اس طرح یہ رپورٹ بھی کافی اہمیت کی حامل ہے جس کے متعلق امریکی نیوی کو ہیٹی پر استعمال کیے گئے زلزلہ لانے والے ہتھیاروں کی تباہ کاری کا مکمل علم تھا او راس نے بحالی کی سرگرمیوں کے جائزے کے لیے اپنی جنوبی کمانڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پی کے کین کو پہلے ہی جزیرے پر تعنیا ت کر دیا تھا۔علاقے میں عموماً زلزلے نہیںآتے۔ ایک جیوفزیشسٹ جو لی ڈٹین نے بھی اسے حیران کن زلزلہ قرار دیا۔
ہارپ کیا ہے؟
ہارپ ہائی فریکونسی ایکٹوارورل ریسرچ پروگرام کا مخفف ہے۔ یہ ایک تحقیقی مرکز ہے جسے گوکونہ (الاسکا) میں 1992 ء میں کھولا گیا تا کہ کرہ ہوائی کے حالات کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکیں جبکہ امریکی حکومت اسے شمسی دھیوں اور شمسی طوفانوں پر تحقیق کا مرکز قرار دیتی ہے۔
ہارپ طاقتور انٹیناؤں کے ایک نظام پر مشتمل ہے جو زمین کے آئنو سفیئر میں مرضی کی تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ یہ کم فریکونسی والی 1.7 گیگا واٹ توانائی کی شعاعیں زمین کے آئنو سفئیر میں منتقل کرتے ہیں جو پھرگرم ہو کر اور پر اٹھتا ہے جس سے ہواؤں کے دباؤ اور رخ میں تبدیلی آتی ہے او رموسم تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ درحقیقت وہ ریڈیو آ پر یٹرز جو ہارپ کے سگنلز کو چیک کرتے رہتے ہیں نے سمندری طوفانوں کترینا اور ریتا سے پہلے ہارپ کے سگنلز میں اضافہ نوٹ کیا لیکن یہ بات تصدیق شدہ نہیں ہے کہ حقیقتاً ہارپ ان کے پیچھے ملوث ہے۔
بعض لوگوں کے مطابق گو کو نہ (الاسکا) میں واقع ہارپ حقیقی پروجیکٹ نہیں ہے ۔ ویوزون ویب سائٹ کے رائیٹر نے کہا ہے کہ 1998 ء میں اس نے فئیر بنکس (الاسکا) کے قریب ہارپ کا خفیہ مرکز دیکھا۔ رائٹر ڈان ایڈن کو نیوی سے فارغ ہونے والے دو آدمیوں ڈیو اور جوناس نے الاسکا مدعو کیا تھا ۔ وہ اسے ایک چھوٹے قصبے فاکس میں لے گئے۔ یہاں سے وہ چتی ناکہ دریا کے ساتھ مشرق کی طرف مڑ گئے۔ جہاں انہیں ممنوعہ فوجی علاقوں کے اشارے نظر آئے۔ ایک بلند سطح پر ایڈن کو ہارپ کے خفیہ انٹیناؤں کا ایک سلسلہ دکھایا گیا جو کہ تقریباً ایک مربع میل کے علاقے میں پھیلا ہوا تھا۔ اس میں انٹینوں کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اسے بتایا گیا کہ ان سے لیزر کی طرح کے مائیکرو یو سگنل آئنو سفئیر کی طرف بھیجے جاتے ہیں۔ اس سے کرۂ ہوائی کی ایک تہہ گرم اور موٹی ہو جاتی ہے ۔ ڈیو نے ایڈن کو بتایا۔
" یہاں سے300 میل جنوب میں واقع گو کو نہ کا ہارپ سنٹر ایک ڈرامہ ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے ایک ویب سائٹ بھی بنائی ہوئی ہے۔ یہ صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے ہے کہ ہارپ ایک بے ضرر تحقیقی پروگرام ہے۔"
دونوں نے ایڈن کو بتایا کہ وہ ہارپ کے خفیہ مرکز میں کام کر چکے ہیں ۔ ڈیو ٹرانسمٹر کے ساتھ کام کرتا جبکہ جو ناس فیڈر لائن پر کام کرتا۔ انہوں نے بتایا۔
" جب ہم پاور کو ہزاروں واٹ سے بلین واٹ تک لے جاتے تو زمین کی فضا کا بڑا حصہ منشتر ہو کر خلا میں چلا جاتا۔ اس کے بعد اس فضا سے الڑا وائلٹ ریڈی ایشن( بالا ئے بنفشی شعاعیں) زمین کی طرف لوٹ آتیں "
ایڈن نے سوال کیا کہ کیا کسی کو کبھی ان تجربات سے نقصان بھی ہو اہے؟ جواب نے اسے لرزا دیا۔
" جی ہاں! الاسکا میں کچھ لوگ س سے فرائی ہوگئے۔ لیکن اس نے صرف انسانوں کو قتل نہیں کیا بلکہ جانوروں اور انسانوں کو شعاعوں (ریڈی ایشن) کے مضاثرات کا شکار بھی کیا۔ ان میں مردہ بچوں کی پیدائش او رکینسر کے واقعات ظاہر ہوئے۔ اور اس کا بدترین پہلو یہ ہے کہ اب وہ اسے دوبارہ استعمال کرنے والے ہیں۔"
کئی سالوں بعد 1999 ء میں ڈان ایڈن کو سربیا کے ایک لیڈر سے کئی ای میل وصول ہوئے جہاں اقوام متحدہ کی اور خصوصاً امریکہ کی فوجیں میلا زووچ سے لڑ رہی تھیں ۔ اسے بتایا گیا کہ فضائی حملے سے تھوڑی دیر پہلے آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک جاتا جو معرکے کے آخر تک رہتے تا ہم بلغراد میں بارش کی بجائے انڈے کی جسامت کے اولے پڑتے۔ اس دوران آسمان پر عجیب روشنیاں ظاہر ہوتیں جو گھنٹوں رہتیں جنہیں کسی انسان نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ان کے ساتھ کڑک عام کڑک سے کئی سو گنا طاقتور ہوتی اور اس کی آواز بموں کے پھٹنے جیسی ہوتی۔
اس کے علاوہ سائنسدانوں نے رپورٹ پیش کی کہ سربیا کے اوپر برقی مقناطیسی میدان میں ایک سوراخ پیدا ہو گیا ہے جو کہ خود سربیا کے سائز کے برابر تھا۔
2009 ء میں عراق پر امریکا کے حملے سے پہلے بھی عجیب موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہارپ پوری زمین کے موسم کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
تھیر یسابی ہارپ کے بارے میں اپنے ذاتی تجربے کو یوں بیان کر تی ہیں۔
" اگست1998 ء میں ہارپ کے سالانہ اوپن ہاؤ س کے پہلے دن میں ہارپ کا دورہ کرتے ہوئے اچانک ایک گڑھے میں اتر گئی۔ ایک منٹ تک میں ٹھوس زمین پر چلتی رہی، پھر اچانک میں گھٹنوں تک ایک سوراخ میں پہنچ گئی۔ سٹاف کے ایک آدمی نے مجھے باہر نکالا ، اس پر اسرار سوراخ سے باہر آتے ہوئے میرے جوتے پاؤں سے اتر گئے۔ سٹاف اس بات سے بالکل ناواقف تھا کہ ہارپ کے انٹینا کے سلسلے کے نیچے کوئی سوراخ موجود ہیں۔ میں اس بات پر حیران تھی کہ کتنے ایسے سوراخ موجود تھے اور کس نے اچانک ٹھوس نظر آنے والی ریت کو غیر متوقع داخل ہونے والوں کو پھنسانے کے لیے نرم ریت میں تبدیل کر دیا تھا۔ میں27 سال الاسکا میں رہ چکی ہوں اور میں نے وہاں ایسی کوئی چیزنہیں دیکھی۔ جب میں گھر پہنچی تو مجھے معلوم ہوا کہ میرا کیمرہ ٹوٹ چکا ہے اور یہ ریت سے بھر پور تھا"۔
رچرڈولیمز نے جو کہ پرنسٹن میں ڈیوڈ سارنوف لیبارٹری میں طیبعیات دان ہے ، کہاہے کہ " ہارپ ایک غیر ذمہ دارانہ سر گرمی ہے"
1997 ء میں امریکا کے سیکرٹری آف ڈیفنس ولیم کوہن نے ان سر گرمیوں کے متعلق خدشہ ظاہر کیا جو الیکٹرومیگنیٹک شعاعوں کے استعمال سے آب و ہوا کو تبدیل کر سکتی ہیں، زلزلے لا سکتی ہیں اور آتش فشانی کا باعث بنتی ہیں۔
(انٹر نیٹ پر موجود آرٹیکل کا نام ہے (Are HAARP and chile Earch Quake connected اگرچہ ہزار ثبوت بیان کئے جائیں یا باتیں کی جائیں کہ ہارپ مصنوعی زلزلے نہیں لا سکتی لیکن درج بالا یوایس سیکرٹری ڈیفنس کا بیان ظاہر کرتا ہے کہ اسے ان مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ہارپ درج ذیل طریقوں سے یہ تبدیلیاں لا سکتی ہے۔
ای ایل الف یا ایکسٹریم لو فریکونسی آئنو سفئیر کا گرم ہونا اور اوپر اٹھنا اس کے نیچے کم دباؤ کا علاقہ بننا طوفان اور بارش
ای ایل الف غیر قیام پذیر چٹانوں کا بننا اور زیر زمین پانی کا ابلنا انرجی کا خارج ہونا زلزلہ، ہارپ زمین کے مقناطیسی میدان کو بھی متاثر کر کے زلزلوں کا باعث بنتی ہے۔
مشہور سائنسدان ڈاکٹر روسیلی بر ٹل نے کہا ہے کہ امریکی عسکری سائنسدان موسم کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے تحقیق کر رہے ہیں یعنی طوفانوں کو بڑھانا، فضا میں پائے جانے والے آبی بخارات کو کسی علاقے کی فضا میں موڑ دینا (مصنوعی بلاکنگ ایپی سوڈز پیدا کرنا)
میک فلٹر مین نے ، جو سابقہ فرانسیسی فوجی آفیسر ہے، کہا کہ امریکا ور روس دونوں 1980 ء کے عشرے کے اوائل میں ہی اچانک موسمیاتی تبدیلیاں لانے کی ٹیکنالوجی معلوم کر چکے تھے جو کہ ای ایل ایف ( کم فریکونسی والی برقی مقناطیسی موجیں) کے ذریعے لائی جاتی ہیں۔
فروری 1998 ء میں مسز باج برٹ (سویڈیش خاتون او ر امن کی حامی) کی پیش کی گئی رپورٹ کے جواب میں خارجی معاملات کے لیے یورپی پارلیمنٹ کمیٹی نے ایک قرارداد پیش کی جس میں ہارپ کو کرۂ ارض کے لیے خطرہ قرار دیا گیا اور اس کے اخلاقی او رقانونی پہلوؤں کے معائنے کی سفارش کی گئی۔
بعض لوگوں کے مطابق زلزلے قدرتی آفت ہیں ، یہ مصنوعی طور پر نہیں لائے جا سکتے لیکن اس کے جواب کے لیے یو ٹیوب پرویڈیو
How to make an earthquake دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مصنوعی زلزلے ممکن ہیں۔
ہارپ کے بنیادی سائنسدان ایسٹلنڈ نے بھی کہ اتھا کہ ریڈیو فریکونسی شعاعو ں کے استعمال سے گرم ہونے والا آئنو سفئیر موسم کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
یو اس ٹاک ریڈیو کے الیکس جو نز اوروینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے بھی ہارپ کو ٹیکٹو نک ہتھیار (مصنوعی زلزلے لانے والا ہتھیار) قرار دیا ہے۔
ہارپ ٹاورز، گکونا(الاسکا)میں 40 ایکڑ رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں اور مسلسل توانائی کی فراہمی کے لیے انہیں ایک گیس فیلڈ سے منسلک کیاگیا ہے۔ ہارپ 1993 ء کے اوائل میں مکمل کام کرنے کی صلاحیت میں تھی۔یہ 1.7 گیگا واٹ توانائی زمین کے آئنو سفئیر میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ 1.7 گیگاواٹ ایک بلین واٹ کے برابر ہے۔ جیون(GWEN) یا گراؤنڈ ویو ایمرجنسی نیٹ ورک بہت بڑے ٹاور ہیں جن سے زیر زمین کاپر کی 100 تاریں نکلتی ہیں۔ امریکی شعبہ دفاع کے مطابق یہ کسی ایٹمی حملے کے دوران موصلات بحال رکھنے میں معاون ثابت ہوں گے لیکن درحقیقت یہ ہارپ کے ساتھ طوفان لانے اور موسمیاتی تبدیلیاں پیدا کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ہارپ کا باوا آدم، نکو لا ٹیسلا
نکولا ٹیسلا جدید دو رکاعظیم ترین ذہین تھا ۔ اسے بعض اوقات پاگل ذہن (میڈجینئس ) بھی کہا جاتاہے۔ وہ سر بین نژاد امریکی تھا جو 10 جولائی 1856 ء میں پیدا ہوا اور 87 سال کی عمر میں7 جنوری 1943 ء میں فوت ہوا۔ اس نے روزمرہ استعما ل کی کئی ٹیکنالوجیز مثلاً اے سی کرنٹ ، ریڈیو اور ایکس رے ایجاد کئے۔ اس کی ایجادات اور دریا فتوں نے موجودہ دور کی ریڈار اور وائرلیس کمیونیکشن کی بنیاد ڈالی۔ اس نے تاروں کے بغیر بجلی کی ترسیل کا نظام دریافت کی جیسے " موت کی شعاع" (ڈیتھ رے) کا نام دیا گیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی ایجادات اور دریافتوں میں مزید پیشرفت کی گئی۔
اس نے چھ پاؤنڈ کا ایک آلہ ایجا د کیاجس سے اس نے سٹیل کی ایک بڑی عمارت کوہلا دیا او رایک بہت بڑی پل کو ارتعاشات میں ڈال دیا۔ اس کی وائرلیس انرجی پر تحقیات بعد میں بدنام زمانہ ہارپ ٹیکنالوجی کی بنیاد بنیں۔ اگر اسی ہارپ سے وہ شعاعیں بھیجی جائیں جو زمین کی کسی ایک پلیٹ کے قدرتی تعدد (نیچرل فریکونسی) کے مطابق ہوں تو ہارپ شعاعوں کی فریکونسی اور زمین کی خاص فریکونسی کے ملاپ سے زمین میں زبردست ارتعاشات پیدا کیے جا سکتے ہیں اور یہی ہارپ کے ذریعے زلزلے لانے کی بنیاد ہیں۔
ہارپ زمین ، ہوا، سمندر کو گرم کرکے اور کرہ فضائی میں ہوا کے دباؤ کو تبدیل کر کے موسم کو کنٹرول کر سکتی ہے۔ اس کی انتہائی کم فریکونسی والی شعاعیں کسی علاقے کی تمام زندہ اشیاء کی موت کا سبب بن سکتی ہیں۔
سکتی ہیں۔
ٹیسلا سربیا کے ایک قصبے سملجان (موجودہ کروشیا) میں پیدا ہوا تھا جو اس وقت آسٹریا کے زیر انتظام تھا، بعد میں ٹیسلا نے امریکی شہریت اختیار کر لی۔ 1894 ء میں ریڈیو کے ذریعے وائرلیس کمیونیکشن اور اے سی کرنٹ کی ٹیکنالوجی کی ایجاد نے اسے مریکا کے عظیم ترین الیکٹریکل انجینئروں کی فہرست میں شامل کر دیا۔ اس وقت امریکا میں اس کی شہرت کسی بھی ملک میں کسی بھی کردار کی شہرت سے زیادہ تھی۔ سائنس او ر ٹیکنالوجی کے متعلق اس کے بعض لوگوں کے لیے ناقابل یقین دعوں کی وجہ سے اسے پاگل سائنسدان کا خطاب دیا گیا۔ بعض لوگوں کے مطابق واشنگٹن ہاؤس نے اس کی تمام دریافتوں کو چوری کر لیا اور 1943 ء میں وہ نیویارک میں دو کمروں والے ایک ہوٹل میں مر گیا۔ مقناطیسی میدان کی پیمائش کی اکائی ٹیسلا کا نام نکولا ٹیسلا کے نام پر رکھا گیا ہے۔
ٹیسلا کا والد میلوٹن ٹیسلا سربیا کے آرتھو ڈوکس چرچ کا پادری تھا۔ اس کی والدہ ڈوکا بھی ایک پادری کی بیٹی تھی۔
ٹیسلا نے ایک مشینی ریزو نیٹر بھی ایجا دکیا تھا۔ جس سے زمین کی گہرائی میں واقع معدنیات یا تیل کے ذخائر کا پتہ چلایا جا سکتا تھا ۔ اسے ٹیلی جیو ڈائنا مک سسٹم کا نام دیا گیا ۔ ایک مرتبہ اپنے اسی ریزو نیٹر کو آزماتے ہوئے اس نے حقیقتاً میں ہٹن میں ایک زلزلہ پیدا کیا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کو عمار ت کے فولادی ستون پر رکھنے سے عمارت زیادہ فریکونسی والے ارتعاشات میں چلی جاتی ہے۔ اس نے دیکھا کہ اس کے نیچے کا فرش ایک یا دو سیکنڈ تک اس کے استعمال سے کانپ سکتا ہے۔ نیچے ملبری سٹریٹ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے اہکار اس کی لیبارٹری سے آنے والی عجیب و غریب روشنیوں او رآوازوں سے واقف تھے۔ اس صبح انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے قدموں کے نیچے عمارت کانپ رہی ہے ، کرسیاں خود بخود حرکت کر رہی ہیں۔ میزوں پر رکھی گئی چیزیں اوپر نیچے ہو رہی ہیں۔ یہ عمل بڑھتا گیا ۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ زلزلہ ہے۔ ان میں سے ایک آفیسر چلایا کہ جلدی جاؤ، اس پاگل ٹیسلا کو روکو ۔ وہ شہر کو تباہ کر دے گا۔ دوسری عمارتوں میں سے بھی لوگ اسے زلزلہ سمجھ کر باہر آرہے تھے۔ ٹیسلا نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس کا آسلیٹر کسی بھی عمارت کو گرا سکتا ہے بلکہ یہ زمین کو بھی دو ٹکڑے کر سکتا ہے۔
اس نے دعویٰ کیا کہ
" میں ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ کو تھوڑے سے وقت میں تباہ و برباد کر سکتا ہوں۔ میں اسے یقینی طور پر اور بغیر کسی مشکل کے کر سکتا ہوں۔ میں ریزو نیٹر کو عمارت سے لگاؤں گا۔ جس سے پہلے یہ ہلکے ارتعاشات میں جائے گی او راس کے بعد یہ ارتعاشات طاقتور ہوتے جائیں گے جس سے عمارت تباہ ہو جائے گی۔ اس عمل کے لیے مجھے ریزونیٹر (آسلیٹر ) کو چلانے کے لیے صرف 2.5 ہارس پاور انرجی درکا رہو گی۔" (بحوالہ پروڈیگل جیئیس صفحہ165 )
ٹیسلا نے دریافت کیا کہ زمین12 ہر ٹز کی انتہائی کم فریکونسی پر قدرتی ارتعاشات میں ہوتی ہے۔ ہارپ بھی اسی فریکونسی پر سگنل بھیجتی ہے۔ ہارپ کے یہ ٹرانسمیٹر جو زمین پر خاص دفاعی مقامات میں قائم کیے گئے ہیں، موسم کو تبدیل کرنے او رٹیسلا کی تحقیق کی بنیاد پر زلزلے لانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ٹیسلا کے پاس زمین یا فضاء میں کم انرجی منتقل کرنے والا آلہ تھا جس کے استعمال کے تباہ کن اثرات آپ نے دیکھے۔ آپ اندازہ کریں کہ ہارپ جو زمین کے گرد موجو د آئنوں کے کرے (آئنو سفئیر ) میں 1.7 گیگا واٹ توانائی منتقل کر سکتی ہے، وہ کتنے تباہ کن اثرات لا سکتی ہو گی۔
جان جیکبر نے اپنے مضمون
Tesla Technology and new super weapons میں لکھا ہے۔
" 1985 ء میں کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) نے برقی مقناطیسی ہتھیاروں کے مستقبل پر ایک تبصرہ پیش کیا۔ سی این این ان اولین ذرائع میں سے تھا جنہوں نے دنیا بھر کی تجربہ گاہوں میں کی جانے والی خفیہ تحقیق کو بے نقاب کیا۔ اس تحقیق کی بنیاد آج سے سو سال پہلے کی جانے والی نکولا ٹیسلا کی تحقیق پرہے۔ ان ریڈیو فریکونسی ہتھیاروں کے تصور کی بیسیوں صدی کے آغاز میں ٹیسلا نے پیشین گوئی کی تھی۔
1899 ء میں ٹیسلا نے ایک بہت بڑی کوائل بنائی جس سے100 ملین وولٹ کی مصنوعی آسمانی بجلی پیدا کی گئی۔ اس سے اس نے مہلک شعاعوں کا تصور دیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کی کاوشوں کی فائلوں کو بلغراد کے میوزیم میں رکھا گیا جو روسی سائنسدانوں کے لیے اس تحقیق تک رسائی کا سنہری موقع ثابت ہوا۔ خاص مشینیں جنہیں گائرو ٹرانز کہا جاتا ہے، ریڈیو فریکونسی (آر ایف) کی انتہائی طاقتور شعاعیں پیدا کرتی ہیں۔ یہ خیال کیا جاتاہے روسیوں کو اس ٹیکنالوجی میں تین سے چار سال کی سبقت حاصل ہے۔
نکولا ٹیسلا نے ہی در حقیقت ریڈیو ایجاد کیا تھا اگرچہ مارکونی کو 40 سال تک ریڈیو کا موجد مانا جاتا رہا لیکن 1943 ء میں امریکی سپریم کورٹ نے ٹیسلا کو ریڈیو کا موجد قرار دیا۔ اسے آئن سٹائن کے ساتھ مشتر کہ نوبل پرائز دیاگیا۔ الومینا تیوں نے اس کی ٹیکنالوجی کو خرید کر اسے کروڑوں پتی بنا دیا۔
چار جولائی 1976 ء کو وسیوں نے طاقتور برقی مقناطیسی شعاعیں پیدا کرنی شروع کر دیں یہ ٹیسلاٹرانسمنٹر (اور ہارپ ٹرانسمنٹر)انتہائی کم فریکونسی والی شعاعیں پیدا کرتے ہیں جو کہ موسم کے بہت بڑے بلاکنگ نظام بنا چکے ہیں جس سے بلند فضا ء میں واقع ہواؤں (ہائی ایلٹی چوڈ جیٹ سٹریم) اور موسم کا نارمل راستہ بلا ک ہو جاتے ہیں ۔ یہ کئی ماہ تک رہنے والے خشک موسم یا تباہ کن سیلابوں کا باعث بن جاتے ہیں۔
رسی وڈپیکر کے آغاز کے ٹھیک ایک سال بعد چار جولائی 1978 ء کو امریکہ نے انتہائی کم فریکونسی (ای ایل الف) کے استعمال سے موسم تبدیل کرنے کے اپنے تجربات کیے جس سے شمالی وسکانسن کے چھ ملکوں میں زبردست بارش ہوئی۔ا س سے157 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفان آیا، 3,50,000 ایکٹر پر واقع جنگلا ت تباہ ہو گئے اور 50 ملین ڈالر کا خسارہ ہوا۔
ہارپ اور پاکستان کا سیلاب
یاد رہے کہ زمین پر پانی کی کل مقدار 1500 ملین کیوبک کلو میٹر ہے اور اس پانی سے ایک سیکنڈ میں 180 ملین گیلن پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے جس سے کرۂ فضائی کے ہزاروں میل لمبے آبی بخارات کے دریا وجود میں آتے ہیں۔
ریجی نالڈ ای نیول نے جیوفزیکل ریسرچ لیٹرز جرنل میں لکھا۔
" زیریں کرۂ ہوائی میں آبی بخارات کے دس دریا کوجود ہیں جنہیں انسان نہیں دیکھ سکتا ۔ ان کا بہاؤ عظیم دریائے ایمیزن سے بھی زیادہ ہے۔ یہ دریا 420 سے 480 میل چوڑے اور 4800 میل لمبے ہیں۔ یہ زمین سے1.9 میل کی بلندی پر ہیں اور ان میں فی سیکنڈ 165 ملین کلو گرام پانی ہوتا ہے۔ ان میں سے پانچ شمالی نصف کرے اور پانچ جنوبی کرے میں پائے جاتے ہیں۔1993 ء میں بعض لوگوں کے مطابق ہارپ اور جیون ٹاور زکے ذریعے ان بخارات کے بہاؤ کو مڈویسٹ کی فضا میں روک دیا گیا جس سے 40 دن اور 40 راتیں بارش ہوئی ۔ اس سے دریائے میسوری اور دریائے مسسیپی میں سیلاب آگیا جس سے12 سے 15 بلین ڈالر کا زرعی نقصان ہوا ۔ ایک روسی سائنسدان کے مطابق پاکستان کا2010 ء کا سیلاب بھی ایسے ہی لایا گیا ہے۔ جس میں 20 ملین(2 کروڑ) لوگ بے گھر ہوئے۔ یہ یقین رکھنے والے لوگوں کے مطابق
(i) ۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات ، امریکی ، برطانوی یا کسی بھی ادارے نے اس سیلاب کی پیشین گوئی نہیں خیبر پختونخواہ میں گزشتہ 100 سالوں میں کوئی سیلاب نہیں آیا۔
(iii) ۔ علاقے کے درجہ حرارت کا ریکارڈ گلیشیئر وں کے پھگلنے کی تصدیق نہیں کرتا جیسا کہ میڈیا پر کہا جاتا رہا۔
(iv)۔ اس سیلاب کی پورے کرۂ ارض سے ، کہیں سے بھی کوئی وارننگ نہیں تھی، کیوں؟
اگست 2010 ء کے روزنامہ امت کے مطابق روس کے سائنسدان اور سٹریٹیجک کلچرل فاؤنڈیشن کے نائب سربراہ آندرے اریشیف نے بھی ہارپ ٹیکنالوجی کو پاکستان کے سیلاب کی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ جس سے بارش کا قدرتی مقام اور ڈیڈ لائن تبدیل کر کے اسے نام نہاد موسمی تبدیلیوں opisode Blocking کا نام دیا ہے۔ یہ سب ماحولیاتی دہشت گدی کے ذیل میں آتا ہے او رخود امریکی ماہرین اور سیاست دان بھی اس حوالے سے خبردار کرتے رہے ہیں۔
بعض خبروں کے مطابق کابل میں واقع بھارتی کمپنی کے زیر کنٹرول دریائے کابل پر واقع سروبی ڈیم سے اضافی پانی چھوڑ کر اس سیلاب کی شدت کو مزید بڑھایا گیا۔ سندھ طاس واٹر کونسل کے چئیرمین پیر ظہور الحسن ڈاہر نے بھی اوائل اکتوبر کے روزنامہ نوائے وقت کے مطابق یہی بات کی ہے۔
اس بات کی سائنسی گواہی موجود ہے کہ ہارپ خشک سالی، زلزے ، سونامی اور مصنوعی سیلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
چین کے زلزلے 2008 ء اور ہیٹی کے زلزلے 12 جنوری 2010 ء سے پہلے آسمان پر بادلوں کے رنگ بدلتے ہوئے دیکھے گئے۔ سائنسدانوں کے مطابق ایسا قدرتی زلزلوں میں نہیں ہوتا۔ یہ ہارپ کے آئنو سفئیر کی طرف بھیجے گئے سگنلز ہوا۔
ہارپ ٹیکنالوجی کے ممکنہ استعمال سے27 سے 30 جولائی2010 ء تک رسالپور میں 415، اسلام آباد میں 394 ، مری میں 373 ، گڑھی دوپٹہ میں346 اور سیدو تشریف میں 388 ملی میٹر کی تباہ کن بارش ہوئی۔ یہ بارش صوبے میں سال بھر ہونے والی اوسط بارش سے10 گنا زیادہ تھی۔ پورے صوبے میں ٹوٹل نو ہزار ملی میٹر بارش ریکارڈ گئی جس نے دریائے سند ھ کے معاون دریاؤں یعنی دریائے کابل، دریائے سوات، دریائے گلگت میں زبردست طغیانی پیدا کر دی۔ جن سب کا پانی پھر دریائے سندھ میں شامل ہو کر بدترین سیلاب کا سبب بنا۔ سیلا ب میں دو لاکھ اٹھاسی ہزار گھر تباہ ہو گئے۔
ویب سائٹ www.zohaibhisam.com پر پاکستان کے سیلاب کے بارے میں ایک مضمون موجود ہے۔ جس میں مضمون نگار دعویٰ کرتا ہے کہ میں انٹرنیٹ پر ایک مہینے کی تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کا سیلاب مصنوعی طور پر لایا گیا ہے۔ اس میں اس نے سیلاب کے بارے میں درج ذیل سوالات اٹھائے ہیں۔
1۔ علاقے کے درجہ حرارت کا ریکارڈ گلیشئرز کے پگھلنے کو ثابت نہیں کرتا، بعض لوگوں کے مطابق گلیشئر پگھلنے اور بارشوں سے سیلاب آیا۔
2۔ سیلاب شمال مغربی علاقوں میں شرو ع ہوا جہاں کوئی بڑا دریا نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے معاون دریا موجود ہیں۔ واضح طور پر یہ سیلاب ان چھوٹے دریاؤں میں تباہ کن بارش سے آنے والی طغیانی سے شروع ہوا۔
3۔ اگرچہ اسلام آباد شمالی او رمغربی دونوں سمتوں سے سیلاب میں گھرا ہو اتھا لیکن یہ سیلاب سے متاثر نہیں ہوا جو مزید ثابت کرتا ہے کہ غیر قدرتی بارش سرحد اور اسلام آباد کے جنوب میں واقع پنجاب کے علاقوں میں ہوئی۔ ایک قدرتی بارش کا سیلاب سرحد سے پانی کے بہاؤ کی بنیاد پر براہ راست اسلام آباد کا رخ کرتا نہ کہ خاص مقامات کا۔
4۔ سیلاب کی کرۂ ارض کے کسی بھی حصے سے کوئی پیشین گوئی نہیں تھی جبکہ کراچی میں ہونے والی ہلکی بارش کا بھی ایک ہفتہ پہلے اعلان کر دیا جاتا ہے۔ یہاں کسی کو دس دن پہلے بھی اتنی تباہ کن بارش کا علم نہیں تھا، کیوں؟ کیونکہ یہ مصنوعی بارش تھی۔
5۔ پاکستان کے سات میں سے ا ردریا سے آتے ہیں۔ سیلاب کا نقشہ ظاہر کرتا ہے کہ غیر متاثر رہے لہذا سیلاب بارشوں کی وجہ سے آیا۔
ہارپ کی سرگرمی کا عسکری دفاعی ریڈیو ویو سکیننگ ٹیکنالوجی سے پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ لہذا مجھے یقین ہے ہماری حکومت اور آئی ایس آئی جولائی 2010 ء میں ہونے والی بارشوں کے دوران ہارپ ریڈیو ویوز میں موجود بے قاعدگیوں سے واقف تھی۔ حکومت کو چاہیے کہ یہ ڈیٹا عوام کے سامنے پیش کرے تا کہ سیلاب میں ہارپ کے ملوٹ ہونے کو ثابت کیا جا سکے۔ امریکہ نے ہارپ استعمال کر کے پاکستان کو وہ نقصان پہنچایا جو چالیس ایٹم بموں سے ہونے ولای تباہی سے بھی زیادہ ہے۔
4۔ہارپ مائنڈ کنٹرول
ویب سائٹ http: //educateyourself.org/mc.mctotalcontrol 12jul02.shtml.
نے نکولس جونز کا لکھا ہوا مندرجہ ذیل مضمون پیش کیا ہے۔
زمین ایک مقناطیسی میدان میں لپٹی ہوئی ہے۔ مقناطیسی میدان کی دائروی لائنیں جنوبی قطب سے مسلسل نکلتی اور شمالی قطب میں داخل ہوتی ہیں۔
قدرتی موجیں (نیچرل ویوز) فضا میں برقیاتی سرگرمیوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جاتاہے کہ یہ آسمانی بجلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ مجموعی طور پر ان موجوں کو شو مین ریزوننس کہا جاتا ہے۔ کیونکہ 1943 ء میں شو مین نے ان پر تحقیق کی تھی یہ انتہائی کم فریکونسی والی( ای ایل ایف) موجیں ہیں جو سطح زمین او رآئنو سفئیر کے درمیان واقع زمین کے مقناطیسی میدان میں واقع ہیں۔ یہ موجیں انسانی طرزِ عمل کو کنٹرول کرنے والی برین ویوز سے فریکونسی میں مشابہہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ذہن کو اس قابل بنایا کہ وہ قدرتی شو مین ریزوننس ویوز پر کام کر سکے۔ امریکا کے الاسکا میں واقع ہارپ سنٹر سے 1.7 گیگا واٹ توانائی کی انتہائی کم فریکونسی والی موجیں زمین کے آئنی کرے یعنی آئنو سفئیر کی طرف بھیجی جاتی ہیں جو کہ آئنو سفئیر کے خاص حصوں کے موسم کو تبدیل کرنے او رانسانی طرزِ عمل کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
زمین میں پائے جانے والے چونسٹھ عناصر قدرتی طور پر زمین سے آنے والی مقناطیسی موجوں کو جذب کرتے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جو انسانی خون کے سرخ خلیوں میں پائے جاتے ہیں۔ انسانی خون اور مقناطیسی موجوں کے درمیان ایک تعلق ہے۔ شو مین ریزوننس اور مقناطیسی موجوں کے درمیان اگرتوازن کا بگاڑ پیدا ہو جائے تو یہ انسانی ذہن کی فریکونسی یا یا بائیو ردم کو متاثر کرتا ہے۔ امریکا کے جیون ٹاور(GWEN) کی مصنوعی پیدا کی گئی کم فریکونسی والی موجیں قدرتی مقناطیسی موجوں کی جگہ لے سکتی ہیں جن کا انسانی ذہین سے تعلق ہے۔ جیون ٹاورز کی موجیں قدرتی مقناطیسی میدان کو تبدیل کر دیتی ہیں۔انکی فریکونسی کی حد 150 سے 175 کلو ہرٹز کے درمیان ہے۔ یہ موجیں زمین میں سفر کرتی ہیں۔ان کا تصور مشہور نوبل انعام یافتہ سائنسدان نکولا ٹیسلا نے پیش کیا تھا جسے Mad Genius کہا جاتا ہے۔ پورا جیون سسٹم 50 سے300 ٹرانسمٹرز پر مشتمل ہے جو امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر ٹاور299 سے500 فٹ بلند ہے۔ امریکا اس مقناطیسی میدان میں ڈوبا ہوا ہے لہذا ہر شخص کے ذہن کو کنڑول کیا جا سکتا ہے۔
جیون ٹرانسمٹرز کے دوسرے کام بھی ہیں مثلاً
1۔ موسم کنٹرول کرنا
2 ذہن کنڑول کرنا
3۔ طرزِ عمل کنڑول کرنا
4۔ اپنے مطلوبہ آدمی کی طرف انفرا ساؤنڈ کے طور پر تیار کردہ ٹیلی پیتھی بھیجنا ۔
جیون ٹاورز ہارپ سے مل کر کام کرتے ہیں۔
روسی اپنے موسمیاتی انجینئرنگ نظام کا ایک حصے جسے ایلیٹ(Elate) کہتے ہیں، اعلانیہ بیچتے ہیں جو 200 میل کے علاقے میں موسمیاتی نمونوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
1963 ء میں ڈاکٹر رابرٹ بک نے انسانی ذہن کی موجوں (برین ویوز) اور بیرونی مقناطیسی موجوں کے درمیان تعلق دریافت کیا۔ اس نے ثابت کیا کہشمسی طوفانوں اور نفسیاتی امراض میں ایک تعلق ہے۔ اس نے انسانوں پر اس کے تجربات بھی کیے۔
ہمارے دماغ کی موجیں کسی بھی ایسی ٹیکنالوجی سے متاثر ہو سکتی ہیں جو انتہائی کم فریکونسی والی موجیں (ای ایل ایف) خارج کرتی ہے۔
1950 ء سے1960 ء کے عشرے میں ڈاکٹر ایندریجا پہارک نے انسانوں پر تجربات کرتے ہوئے ثابت کیا کہ7.83 ہر ٹز کی موجوں نے ایک آدمی میں اچھا محسوس کرنے کی حس پیدا کی اور 6.6 ہرٹز کی موجوں نے ڈپریشن پیدا کی۔ ایندریجا نے اپنی دریافت امریکی عسکری قائدین کے سامنے پیش کی لیکن انہوں نے اس پر یقین نہیں کیا۔ امریکی حکومت نے نیو یارک میں اس کا گھر جلا دیا او روہ میکسیکو (روس) بھاگ گیا۔ روسیوں نے دریافت کر لیا کہ کسی فریکونسی والی موجیں انسانی ذہن کے ساتھ کیا کرتی ہیں۔ ایندریجا روسیوں کی ان سرگرمیوں کا جائزہ لیتارہا۔ وہ سی آئی اے کے رکان سے ملا اور ان کے لیے کام شروع کر دیا۔ وہ اس ٹیکنالوجی سے کتوں کو سلا دیتا اور تجرباتی طور پر بندروں کے کان کے پردے کو تباہ کر کے ان پر پردے کے بغیر آوازیں سننے کے تجربات کرتا رہا۔ اس نے دریافت کیاکہ انسانی زبان کی ایک عصب (نرو) کوسننے کو آسان بنانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اس نے ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے لیے دانتوں میں لگایا جانے والا آلا بنایا جسے لوگوں کی مرضی کے بغیر خفیہ طور پر ان کے دانتوں میں لگایا گیاویکسین کے ذریعے انسانی بال کی چوڑائی سے بھی چھوٹے ذہن کنٹرول کرنے والے آلات انسانی جسم میں داخل کیے جا سکتے ہیں جہنیں ویکسین امپلانٹس کہا جاتا ہے۔ کئی ملین لوگوں کے ساتھ ان کے علم کے بغیر ایسا ہوا۔ یہ بایؤچپس خون میں گردش کرتی ہوئی دماغ تک پہنچتی ہیں جہاں یہ اپنا کام کرتی ہیں اور اپنے ذریعے آدمی کو آواز سننے کے قابل بناتی ہیں۔
برقی مقناطیسی (الیکٹرومیگنیٹک) شعاعوں کے ذریعے بیماریاں ایسے ہی پھیلائی جاسکتی ہیں جیسا کہ ان شعاعوں کے ذریعے سگنل۔ کسی بیماری کے ارتعاشات (وائبریشن) کو کا پی کر کے کسی علاقے کی طرف بھیج کربیماری پھیلائی جا سکتی ہے۔ انہی شعاعوں کے ذریعے یہ بیماریاں فضا میں بکھیری جا سکتی ہیں۔
5۔ ہارپ کے ذریعے زلزلے
بعض ذرائع مطابق چین، جاپان اور ہیٹی کے زلزلے میں ہارپ ملوث ہے۔ روسی شمالی بحری بڑے کی ایک غیر مصدقہ خبر کے مطابق ہیٹی کا زلزلہ امریکی نیوی کے زلزلہ لانے والے ہتھیار کی وجہ سے آیا جو کہ ایران کی بجائے غلط سمت میں ہیٹی کی طرف چلا گیا۔ بعض ذرائع کے مطابق چین کے2008 ء کے زلزلے، ہیٹی کے2010 ء کے زلزلے، 2004 کے سونامی اور2005 ء کے کترینا کے دوران ہارپ سگنل آن تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیٹی کے زلزلے سے پانچ گھنٹے پہلے تک ہارپ کے سگنل آٹھ سے بارہ گھنٹے آن رہے۔ ہیٹی اور چین کے زلزلے سے پہلے آسمان پر بادلوں کے رنگ بدلتے ہوئے دیکھے گئے۔ بعض ماہرین ارضیات کے مطابق یہ قدرتی زلزلوں میں بھی ہوتا ہے او ریہ زلزلے سے پہلے زمین کی چٹانوں کے پسنے اور شعاعوں کے اخراج سے ہوتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں ہارپ کے مخالفین کہتے ہیں کہ اگر ہارپ زلزلے نہیں لا رہی تو کم از کم اس کے سائنسدان ان زلزلوں سے پہلے واقع ہونے والی کم فریکونسی (ای ایل ایف) تبدیلیوں کو لازمی جانتے ہیں کیونکہ یہ برقی مقناطیسی (الیکٹرو میگنیٹک ڈیٹا میں ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نکولاٹیسلا (وہ سائنسدان جس نے پہلے مصنوعی زلزلے کا تجربہ کیا تھا) جو آج سے100 سال پہلے مصنوعی زلزلے کی ٹیکنالوجی سے واقف تھا اور جس کی تحقیق کی بنیاد پر ہارپ بنائی گئی ہے، کیا وہ ہارپ مصنوعی زلزلے کی ٹیکنالوجی سے واقف نہیں ہو سکتی؟
ایک چینی سائنسدان کا کہنا ہے کہ زلزلے سے پہلے بادلوں کا موجود ہونا ایک قدرتی امر ہے اور ان بادلوں کی بنیاد پر زلزلے کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔ اس کے مطابق زلزلے سے پہلے چٹانوں میں موجود پانی خارج ہو کر بادلوں کا باعث بنتا ہے اور ان بادلوں کے رنگ سورج کی روشنی سے بنتے ہیں۔ان بادلوںکی خاص شکل ہوتی ہے۔ یہ عدسے یا کسی اور خاص شکل کے ہو سکتے ہیں۔ ان بادلوں کی سٹیلائٹ کے ذریعے تصاویر حاصل کر کے زلزلے کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے۔
جبکہ دیگر ماہرین کے مطابق یہ بادل لازمی طور پر زلزلے سے تعلق نہیں رکھتے اور تمام زلزلوں سے پہلے یہ بادل نظر نہیں آتے۔ ان کے مطابق کئی زلزلوں سے پہلے امریکی ادارے ناسا نے بھی آئنو سفیئر میں خلل معلوم کیے جس کے نیچے والے علاقوں میں پھر زلزلہ آیاوہ کہتے ہیں کہ ہارپ بھی آئنو سفیئر کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ممکن ہے ناسا نے زلزلے سے پہلے وہ خلل معلوم کیے ہوں جو ہارپ نے پیدا کیے ہوں۔ زلزلے سے پہلے واقع ہونے والے آئنو سفئیرکی ان تبدیلیوں کے مطابق منو رفریئنڈ نے بھی بی بی سی نیوز کو بتایا جو کہ کیلیفورنیا میں ناسا کے تحقیقی مرکز میں ایروسپیس کا ڈائریکٹر ہے۔ اس کے مطابق تائیوان میں آنے والے پانچ یا پانچ سے زیادہ کی شدت کے سو زلزلوں پر کئی عشروں کی تحقیق کے بعد یہ سامنے آیا ہے کہ زلزلے سے پہلے آئنو سفئیر میں خلل واقع ہوتے ہیں۔ ایسے ہی خلل 12 مئی2008 ء کو چین میں آنے والے زلزلے سے پہلے معلوم کیے گئے۔ زلزلے کی پیشین گوئی زلزلے کے مرکز سے خارج ہونے والی انفراریڈ (آئی آر) شعاعوں اور مقناطیسی ڈیٹا میں آنے والی تبدیلیوں سے بھی کی جا سکتی ہے۔
بعض لوگوں کے مطابق مندرجہ ذیل وجوہات پریہ شک کیا جاسکتا ہے کہ بیٹی کے زلزلے میں ہارپ ملوث ہے۔
1۔ ہیٹی پور ٹور یکو میں واقع ہارپ سنٹر سے صرف چند سو میل دور ہے۔
2۔ ہیٹی ہارپ کے تجربات کے لیے پسماندہ ، ناپسندیدہ او رکم ترقی یافتہ ملک ہونے کی وجہ سے مناسب مقام تھا۔
3 ۔ زلزلے کے وقت گلی میں لگے ہوئے ایک کیمرے نے واضح طور پر دکھایا کہ زمین اوپر نیچے حرکت کر رہی ہے، ایسا لگتا تھا جیسے یہ ابل رہی ہو۔ ٹیلی فون کے کھمبے بہت کم جھول رہے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قشر ارض کی زلزلے کے دوران دائیں بائیں حرکت کی بجائے یہ ہارپ کے ذریعے گرم کیے گئے زیر زمین پانی سے لایا گیا تھا جس میں زمین اوپر نیچے حرکت کر رہی ہے۔
4۔ زلزلہ زلزے کے عمومی مرکز یعنی شمالی امریکی قشرارض کی پلیٹوں کی بجائے ان کے جنوب میں آیا۔ جہاں عموماً زلزلے نہیں آتے او ریہ ہارپ سے لایا گیا تھا جو زمین کے ہر اس حصے میں زلزلہ لا سکتی ہے جس مین زیر زمین نمی یا پانی ہو۔
5۔ زلزلہ شام کے وقت آیا جس سے شک ہوتا ہے کہ شاید ہارپ کے استعمال سے زلزلے کے دوران بننے والے بادلوں کو چھپایا جا سکے۔
6۔ زلزلے کے بعد غیر معمولی طو رپر پانچ آفٹر شاکس آئے۔ یہ ایک غیر معمولی مظہر ہے جو ظاہر کر سکتاہے کہ کم فریکونسی والی ہارپ شعاعوں کے استعمال سے گرم ہونے والا پانی اتنی جلدی ٹھنڈ نہیں ہوا۔
7۔ زلزلے کو ریکارڈ کرنے والے کیمرے کے برعکس زلزلے کے دوسرے دن شام کی خبروں میں یہ جھوٹ بالا گیا کہ زمین زلزلے کے وقت افقی حرکت کر رہی تھی جبکہ حقیقتاً زمین کی حرکت اوپر نیچے (عمودی لائن) میں تھی۔
8۔ خبروں میں یہ جھوٹ بھی بولا گیا کہ زلزلہ شمالی امریکی زلزلے کے مرکز کی لائن کے علاقے میں آیا۔ آخر کار وہ یہ جھوٹ بول کر کس چیز پر پردہ ڈالنا چاہتے تھے؟
9۔ روسی بھی ہارپ کے اس قسم کے استعمالا ت کے متعلق خبردار کرتے رہے ہیں بعض لوگوں کے مطابق اس قسم کی آفتیں لانے کا مقصد ناپسندیدہ ملکوں کی آبادی کو کم کرنا ہے۔ ماہرین کے مطابق ہیٹی کا سات کی شدت سے آنے والا زلزلہ اس علاقے میں گزشتہ دو سو سالوں میں آنے والے زلزلوں سے بھی زیادہ طاقتور تھا۔ اس سور چہ فال اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں۔
1970" ء کے عشرے کے اواخر میں ہی امریکہ اپنے زلزلے کے ہتھیاروں (ارتھ کوئیک ویپنز) میں بہت ترقی کر چکا تھا جن میں زلزلے لانے کے لیے برقی مقناطیسی شعاعوں (ٹیسلا الیکٹرو میگنیٹک پلس) ، پلازمہ او رسانک ٹیکنالوجی او رشاک ویوز بموں کا استعمال شامل تھے روسیوں نے ہیٹی کے زلزلے کے بارے میں اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ یہ اسی ٹیسلا ٹیکنالوجی کے استعمال سے لایا گیا جس سے 17 جنوری1995 کا چاپان کے شہرکوب (یا کوبی) کا 6.4 کی شدت کا زلزلہ لایا گیا او رجس کی اوم شنریکیو نے9 دن پہلے ہی تنبیہہ کر دی تھی۔ آٹھ جنوری1995 ء کو شو کو اسہارا نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ1995 ء میں جاپان پر زلزلے سے حملہ کیا جائے گا۔ جس کا ممکنہ ہدف کو ب کا شہر ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سابقہ وزیر ہیدیو مرائی(جواب فوت ہوچکا ہے) نے بھی کوب کے زلزلے کے متعلق سوالات کے جوابات میں کہا تھا کہ اس بات کا کافی امکان ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک پاور کے استعمال سے زلزلہ لایا جا سکتا ہے۔ اوم شنریکیو کے متعلق ایف ایس پی رپورٹس کہتی ہیں کہ انہوں نے زلزلہ لانے والے ہتھیاروں کے منصوبہ شدہ استعمال کا علم ایک امریکی کمپیوٹر ہیکر سے حاصل کیا تھا جس نے امریکی شعبہ دفاع کی انتہائی خفیہ فائلوں تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ اس طرح یہ رپورٹ بھی کافی اہمیت کی حامل ہے جس کے متعلق امریکی نیوی کو ہیٹی پر استعمال کیے گئے زلزلہ لانے والے ہتھیاروں کی تباہ کاری کا مکمل علم تھا او راس نے بحالی کی سرگرمیوں کے جائزے کے لیے اپنی جنوبی کمانڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل پی کے کین کو پہلے ہی جزیرے پر تعنیا ت کر دیا تھا۔علاقے میں عموماً زلزلے نہیںآتے۔ ایک جیوفزیشسٹ جو لی ڈٹین نے بھی اسے حیران کن زلزلہ قرار دیا۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔