واقعہ معراج سائنس کی روشنی میں
تحریر: محمد شاہ زیب صدیقی
بیسویں صدی بجا طور پر ایک انقلابی دور ہے ۔اس صدی میں ہماری نظروں کے سامنے وہ وہ کائناتی راز عیاں ہوئے جن کا تصور بھی آج سے سو سال پہلے کرنا مُحال تھا لیکن آسمانی مذاہب اُس دور میں بھی سائنس کے کئی دعوؤں کا علی اعلان انکار کرتے دِکھائی دیتے تھے جن کو سائنس میں سند کی حیثیت حاصل تھی۔ کائنات کا پھیلاؤ انہی دعوؤں میں سے ایک دعویٰ تھا جس کی تصدیق آسمانی مذاہب کرتے دِکھائی دیتے تھے مگر سائنسدان ساکن کائنات کے نظریے پر ڈٹے نظر آتے تھے اُس دور میں جب بھی ان کے سامنے کائنات کے پھیلاؤ کے متعلق بات کی جاتی تو اُس شخص کو جاہل قرار دے کر اس پر ہنس دیا جاتا تھا مگر پھر دُنیا نے دیکھا کہ وہی سائنسدان بعد میں کائنات کے پھیلاؤ کے بھی قائل ہوئے ۔ اسی طرح بہت سے دعوے ایسے ہیں جو مذاہب بہت پہلے کر چکے تھے مگر سائنسدان ان پر مہر تصدیق آج ثبت کرنے پر مجبور ہیں ۔ پانی کی زمین پر آمد کاذکرکیا جائے یا پھر بیگ بینگ کی حقیقت یہ سب دعوے اسلام 1400 سال پہلے کرچکا ہے ۔ اسی طرح اسلام سمیت دیگر مذاہب کچھ حیران کن دعوے کرتے بھی دِکھائی دیتے ہیں ٹائم ٹریول انہی دعوؤں میں سے ایک دعویٰ ہے ۔ ٹائم ٹریول سفر کی وہ قسم ہے جس میں مسافر کسی ایسے سفر کا دعویٰ کرے جس کے تحت وہ زمان و مکاں کی حدود و قیود سے آزاد ہوجائے ۔ اس متعلق تاریخ میں کافی واقعات ملتے ہیں ان کی تین اقسام ہیں پہلی قسم وہ ہے جس میں مسافر اپنے وقت سے کئی صدیاں آگے نکل جائے جبکہ دوسری قسم وہ ہے جس میں مسافر کئی صدیاں پیچھے چلا جائے اس کے علاوہ تیسری قسم وہ ہے جس میں مسافر کئی صدیاں کسی اور زمانے میں گزار کر واپس اسی وقت پر آجائےجہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ دینِ اسلام میں اگرچہ ٹائم ٹریول کے کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ٹائم ٹریول سے متعلق سب سے حیران کن سفر حضور اکرم ﷺ کا سفرِ معراج ہے جس پر مُلحدین بے پناہ اعتراضات اٹھاتے دِکھائی دیتے ہیں ۔ بیسویں صدی میں سائنسی انقلاب برپا کرکے دنیا کو بدل دینے والوں میں البرٹ آئن سٹائن کا نام سرِ فہرست ہے ۔ البرٹ آئن سٹائن کو ان کے نظریہ اضافتِ خصوصی اور نظریہ اضافتِ عمومی کے باعث بےپناہ شہرت ملی ۔ نظریہ اضافت کے پہلے حصے میں یہ کہا گیا کہ اگر کوئی شے روشنی کی رفتار کو حاصل کرلیتی ہے تو "اُس چیز" کے لئے وقت تھم جائے گا اور وہ شے جب سفر کرکے واپس آئے گی تو زمین پر کئی سو سال گزر چکے ہونگےاس نظریے کو Twin paradox کہا جاتا ہے۔اسی calculations اور اندازوں کے ذریعے مشہورِ زمانہ سائنسدان کارل ساگان نے بتایا کہ اگر روشنی کی رفتار کا دس فیصد حصہ بھی حاصل کرلیا جائے تو کوئی بھی شخص 21 سال میں ہماری کہکشاں ملکی وے کا چکر لگا کر واپس آسکتا ہے لیکن اس دوران زمین پر ہزاروں سال گزر چکے ہونگے۔ اس ضمن میں ایک تجربہ اکتوبر 1971ء کو کرکے دیکھا گیا جب چار Cesium clocks کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا اور طیارے میں سفر کرایا گیا۔یاد رہے یہ گھڑیاں اس حد تک accurate ہوتی ہیں کہ 14 لاکھ سال بعد جا کر ان میں صرف ایک سیکنڈ کا فرق آسکتا ہے ۔جب سفر کرنے کے بعد طیارے میں موجود گھڑیوں کا موازنہ زمین پر موجود Cesium clock کے ساتھ کیا گیا تو دونوں میں فرق تھا۔ اسی طرح میدانی علاقوں پر رہنے والے افراد کے لئے وقت آہستہ ہوتاہے جبکہ پہاڑوں پر رہنے والے افراد کے لئے وقت کی رفتار تیز ہوتی ہے یہ بھی تجربے سے ثابت کیا جاچکا ہے لیکن یہ فرق اس قدر کم ہے کہ اس کا اندازہ ہمیں عام زندگی میں نہیں ہوپاتا یہی وہ مقام ہے جہاں آکر واقعہ معراج پر سوالات اٹھا دئیے جاتے ہیں کیونکہ ان سائنسی تجربات میں وقت تیز ہوجاتا ہے جبکہ واقعہ معراج یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین پر وقت تھم گیا تھا اور کُنڈی ہِل رہی تھی۔ اسی وجہ سے اکثر مسلمان بھی trap ہوجاتے ہیں اور واقعہ معراج کو ایک خواب مان لیتے ہیں حالانکہ واقعہ معراج ایک حقیقت ہے ۔اگر واقعہ معراج کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حضور اکرم ﷺ نے جب سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے سب سے پہلے حال سے مستقبل کی جانب سفر کیاآپﷺ نے تمام اُن واقعات کا نظارہ کیا جو قیامت تک وقوع پذیر ہونگے بلکہ قیامت کے بعد کے وقوع پذیر ہونے والے واقعات مثلاً جنت اور دوزخ کے حالات اور ان کی سیر بھی کی۔یہاں تک تو جدید سائنس بھی گواہی دیتی دِکھائی دیتی ہے کہ مستقبل میں سفر کرنا ممکن ہے ۔ اس سفر کے دوسرے حصے کا جواب ہمیں نظریہ اضافت کے دوسرے حصے میں ملتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ نظریہ اضافت کا دوسرا حصہ کہتا ہے کہ ہماری کُل کائنات دراصل سپیس ٹائم فیبرک (زمان و مکاں کی چادر) کا مجموعہ ہے اس مثال کو سمجھانے کے لئے کارل ساگان یہ مثال دیتے دِکھائی دیتے ہیں کہ فرض کیجئے کہ ایک صفحے پر زندہ انسان قید ہے چونکہ صفحہ x اور y ایکسز (یعنی لمبائی اور چوڑائی) پر مشتمل ہوتا ہے سو یہ انسان دو جہتی دنیا میں قید ہے ۔ ہم جیسا انسان جو چار جہتی دنیا سے تعلق رکھتا ہے (جس میں لمبائی، چوڑائی ، اونچائی اور وقت موجود ہے) جب صفحے پر قید انسان سے بات کرتا ہے تو چونکہ وہ صفحے والا انسان دو جہتی دنیا سے باہر نہیں دیکھ سکتا تو وہ ڈر جاتا ہے سہم جاتا ہے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے ، جب ہمارے جیسا انسان صفحے کے کسی حصے کو دبائے گا تو صفحے میں قید انسان کے لئے یہ بھی ایک ناقابل یقین چیز ہوگی کیونکہ وہ صفحے سے باہر دیکھ نہیں سکتا ۔اب اگر صفحے میں قید انسان کو تھوڑی سے دیر کے لئے صفحے سے اُٹھا کر باہر لایا جائے تو وہ حیرانگی سے مشاہدہ کرے گا کہ اونچائی بھی کوئی چیز ہے جب وہ واپس صفحے میں واپس جائے گا تو اپنی دُنیا کے لوگوں کو یہ نہیں بتا پائے گا کہ وہ کس دنیا کا نظارہ کرکے آیا ہے کیونکہ وہ صفحے میں رہتے ہوئے لمبائی اور چوڑائی کو تو explain کرسکتا ہے مگر اُونچائی کو explain نہیں کرسکتا ۔بالکل اسی طرح ہماری کائنات کی چادر سپیس ٹائم سے بنی ہے اس چادر میں لمبائی ، چوڑائی ، اونچائی اور وقت موجود ہے ۔ البرٹ آئن سٹائن کے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ مستقبل میں سفر ممکن ہے مگر ماضی میں نہیں مگر مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے بتایا کہ اگر آپ اس کائناتی چادر پر قابو پالیں اور اس کو موڑ لیں تو آپ ورم ہول بنا کر ماضی کے دریچوں میں بھی گھُس سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سپیس ٹائم فیبرک لچکدار بھی ہے اور اس کو موڑا بھی جاسکتا ہے ۔لہٰذا اب آپ اگر اس کاغذی انسان والی مثال سامنے لیجئے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ حضور اکرمﷺ اپنا سفر معراج مکمل کرکے جب واپس ہماری کائنات میں پہنچے تو آپ ﷺ کو کائناتی چادر میں بالکل اسی پوائنٹ پر واپس پہنچا دیا گیا جہاں سے آپﷺ معراج کے لئے تشریف لے گئے تھے کیونکہ وقت اس کائناتی چادر کی ہی چوتھی جہت ہے ۔ اسی خاطر آپﷺ جب واپس آئے تو کُنڈی ہل رہی تھی اور بستر گرم تھا ۔ واقعہ معراج کو اُس وقت کے لوگوں کے لئے سمجھنا انتہائی مشکل تھا اور اُن کو سمجھانا بھی ناممکن تھا بالکل ایسے ہی جیسے کاغذ میں قید انسان اپنےدوستوں کو اونچائی جیسی چیز کے متعلق نہیں سمجھا سکتا ۔ لیکن آج کے دور میں جہاں بے پناہ کائناتی راز عیاں ہورہے ہیں جدید سائنس ورم ہول اور سپیس ٹائم ایلیویٹر بنانے پر اپنی توانائیاں سرف کررہی ہے ،ناسا الکُوبیرے نامی جہاز پر پیسہ لگا رہی ہے جس کے ذریعے سپیس ٹائم میں بھونچال پیدا کرکے روشنی کی رفتار سے سفر ممکن کیا جاسکے ۔ ایسے سائنسی دور میں سفر معراج کو سمجھے بغیر اس پر اعتراضات اٹھا دینا کوئی عقلی دلیل نہیں ۔ ٹائم ٹریول کا ذکر مختلف مذاہب میں دیکھنے کو ملتا ہے مگر واقعہ معراج کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ٹائم ٹریول کے لئے سواری کا ذکر کیا گیا جس کا نام براق بتایا گیا، جو کہ برق یعنی بجلی سے نکلتا ہے ، بجلی کی رفتار بالکل روشنی جتنی ہی ہے، براق کا مطلب بجلی سے گئی گنا زیادہ رفتار والی چیز، سائنس آج اس مفروضے پر بھی عقل کے گھوڑے دوڑا رہی ہے کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے پر انسان اگر مستقبل میں قدم رکھ سکتا ہے تو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر کرنے پر ماضی میں بھی جایا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ آج سے ہزار سال پہلے جب دینِ اسلام یہ کہتا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ، پانی باہر کسی کائنات کے حصے سے آیا ، بیگ بینگ کے واقعے کے باعث کائنات بنی،اُس وقت ملحدین اپنے ہی ایک سائنسی ببل میں قید تھے لیکن وقت نے سائنس کو سب ماننے پر مجبور کردیا ۔ واقعہ معراج بھی ویسی ہی حقیقت ہے جس کا ادراک وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو ہوتا جارہا ہے ۔ واقعہ معراج کی تصدیق کے لئے اسلام نہ سائنس کا پہلے کبھی محتاج تھا نہ کبھی ہوگا ، ماننے والوں نے اُس دور میں جب سائنس کا وجود تک نہیں تھا تب بھی اس واقعے پر مکمل ایمان لایا اور نہ ماننے والے آج کے سائنسی دور میں اس واقعے کی سچائی کے شواہدات دیکھ کر بھی اس کے انکاری ہیں ۔ یہ ایک کائنات سے دوسری کائنات کا سفر تھا جہاں لامتناہی جہتیں تھیں ۔ چارجہتوں میں قید رہنے والا انسان اس واقعہ کو اتنی آسانی سے اِسی خاطر ہضم نہیں کرپاتا کیونکہ وہ دراصل کائناتی صفحے میں قید ہے اور اس کی عقل صفحے سے باہر موجود جہتوں کا گمان بھی نہیں کرسکتی۔ اسی خاطر تو کسی نے کیا خوب کہا:
؎ پھیلا کر گوشہ ء دامنِ تجسس اپنا
سائنس محمد ﷺ کا پتہ پوچھ رہی ہے
#زیب_نامہ
#واقعہ_معراج #isra #Miraj #Meraj #اسراء
تحریر: محمد شاہ زیب صدیقی
بیسویں صدی بجا طور پر ایک انقلابی دور ہے ۔اس صدی میں ہماری نظروں کے سامنے وہ وہ کائناتی راز عیاں ہوئے جن کا تصور بھی آج سے سو سال پہلے کرنا مُحال تھا لیکن آسمانی مذاہب اُس دور میں بھی سائنس کے کئی دعوؤں کا علی اعلان انکار کرتے دِکھائی دیتے تھے جن کو سائنس میں سند کی حیثیت حاصل تھی۔ کائنات کا پھیلاؤ انہی دعوؤں میں سے ایک دعویٰ تھا جس کی تصدیق آسمانی مذاہب کرتے دِکھائی دیتے تھے مگر سائنسدان ساکن کائنات کے نظریے پر ڈٹے نظر آتے تھے اُس دور میں جب بھی ان کے سامنے کائنات کے پھیلاؤ کے متعلق بات کی جاتی تو اُس شخص کو جاہل قرار دے کر اس پر ہنس دیا جاتا تھا مگر پھر دُنیا نے دیکھا کہ وہی سائنسدان بعد میں کائنات کے پھیلاؤ کے بھی قائل ہوئے ۔ اسی طرح بہت سے دعوے ایسے ہیں جو مذاہب بہت پہلے کر چکے تھے مگر سائنسدان ان پر مہر تصدیق آج ثبت کرنے پر مجبور ہیں ۔ پانی کی زمین پر آمد کاذکرکیا جائے یا پھر بیگ بینگ کی حقیقت یہ سب دعوے اسلام 1400 سال پہلے کرچکا ہے ۔ اسی طرح اسلام سمیت دیگر مذاہب کچھ حیران کن دعوے کرتے بھی دِکھائی دیتے ہیں ٹائم ٹریول انہی دعوؤں میں سے ایک دعویٰ ہے ۔ ٹائم ٹریول سفر کی وہ قسم ہے جس میں مسافر کسی ایسے سفر کا دعویٰ کرے جس کے تحت وہ زمان و مکاں کی حدود و قیود سے آزاد ہوجائے ۔ اس متعلق تاریخ میں کافی واقعات ملتے ہیں ان کی تین اقسام ہیں پہلی قسم وہ ہے جس میں مسافر اپنے وقت سے کئی صدیاں آگے نکل جائے جبکہ دوسری قسم وہ ہے جس میں مسافر کئی صدیاں پیچھے چلا جائے اس کے علاوہ تیسری قسم وہ ہے جس میں مسافر کئی صدیاں کسی اور زمانے میں گزار کر واپس اسی وقت پر آجائےجہاں سے سفر شروع کیا تھا۔ دینِ اسلام میں اگرچہ ٹائم ٹریول کے کئی واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں مگر ٹائم ٹریول سے متعلق سب سے حیران کن سفر حضور اکرم ﷺ کا سفرِ معراج ہے جس پر مُلحدین بے پناہ اعتراضات اٹھاتے دِکھائی دیتے ہیں ۔ بیسویں صدی میں سائنسی انقلاب برپا کرکے دنیا کو بدل دینے والوں میں البرٹ آئن سٹائن کا نام سرِ فہرست ہے ۔ البرٹ آئن سٹائن کو ان کے نظریہ اضافتِ خصوصی اور نظریہ اضافتِ عمومی کے باعث بےپناہ شہرت ملی ۔ نظریہ اضافت کے پہلے حصے میں یہ کہا گیا کہ اگر کوئی شے روشنی کی رفتار کو حاصل کرلیتی ہے تو "اُس چیز" کے لئے وقت تھم جائے گا اور وہ شے جب سفر کرکے واپس آئے گی تو زمین پر کئی سو سال گزر چکے ہونگےاس نظریے کو Twin paradox کہا جاتا ہے۔اسی calculations اور اندازوں کے ذریعے مشہورِ زمانہ سائنسدان کارل ساگان نے بتایا کہ اگر روشنی کی رفتار کا دس فیصد حصہ بھی حاصل کرلیا جائے تو کوئی بھی شخص 21 سال میں ہماری کہکشاں ملکی وے کا چکر لگا کر واپس آسکتا ہے لیکن اس دوران زمین پر ہزاروں سال گزر چکے ہونگے۔ اس ضمن میں ایک تجربہ اکتوبر 1971ء کو کرکے دیکھا گیا جب چار Cesium clocks کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا گیا اور طیارے میں سفر کرایا گیا۔یاد رہے یہ گھڑیاں اس حد تک accurate ہوتی ہیں کہ 14 لاکھ سال بعد جا کر ان میں صرف ایک سیکنڈ کا فرق آسکتا ہے ۔جب سفر کرنے کے بعد طیارے میں موجود گھڑیوں کا موازنہ زمین پر موجود Cesium clock کے ساتھ کیا گیا تو دونوں میں فرق تھا۔ اسی طرح میدانی علاقوں پر رہنے والے افراد کے لئے وقت آہستہ ہوتاہے جبکہ پہاڑوں پر رہنے والے افراد کے لئے وقت کی رفتار تیز ہوتی ہے یہ بھی تجربے سے ثابت کیا جاچکا ہے لیکن یہ فرق اس قدر کم ہے کہ اس کا اندازہ ہمیں عام زندگی میں نہیں ہوپاتا یہی وہ مقام ہے جہاں آکر واقعہ معراج پر سوالات اٹھا دئیے جاتے ہیں کیونکہ ان سائنسی تجربات میں وقت تیز ہوجاتا ہے جبکہ واقعہ معراج یہ دعویٰ کرتا ہے کہ زمین پر وقت تھم گیا تھا اور کُنڈی ہِل رہی تھی۔ اسی وجہ سے اکثر مسلمان بھی trap ہوجاتے ہیں اور واقعہ معراج کو ایک خواب مان لیتے ہیں حالانکہ واقعہ معراج ایک حقیقت ہے ۔اگر واقعہ معراج کو دیکھا جائے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ حضور اکرم ﷺ نے جب سفر کا آغاز کیا تو انہوں نے سب سے پہلے حال سے مستقبل کی جانب سفر کیاآپﷺ نے تمام اُن واقعات کا نظارہ کیا جو قیامت تک وقوع پذیر ہونگے بلکہ قیامت کے بعد کے وقوع پذیر ہونے والے واقعات مثلاً جنت اور دوزخ کے حالات اور ان کی سیر بھی کی۔یہاں تک تو جدید سائنس بھی گواہی دیتی دِکھائی دیتی ہے کہ مستقبل میں سفر کرنا ممکن ہے ۔ اس سفر کے دوسرے حصے کا جواب ہمیں نظریہ اضافت کے دوسرے حصے میں ملتا ہے ۔ ہمیں معلوم ہے کہ نظریہ اضافت کا دوسرا حصہ کہتا ہے کہ ہماری کُل کائنات دراصل سپیس ٹائم فیبرک (زمان و مکاں کی چادر) کا مجموعہ ہے اس مثال کو سمجھانے کے لئے کارل ساگان یہ مثال دیتے دِکھائی دیتے ہیں کہ فرض کیجئے کہ ایک صفحے پر زندہ انسان قید ہے چونکہ صفحہ x اور y ایکسز (یعنی لمبائی اور چوڑائی) پر مشتمل ہوتا ہے سو یہ انسان دو جہتی دنیا میں قید ہے ۔ ہم جیسا انسان جو چار جہتی دنیا سے تعلق رکھتا ہے (جس میں لمبائی، چوڑائی ، اونچائی اور وقت موجود ہے) جب صفحے پر قید انسان سے بات کرتا ہے تو چونکہ وہ صفحے والا انسان دو جہتی دنیا سے باہر نہیں دیکھ سکتا تو وہ ڈر جاتا ہے سہم جاتا ہے کہ آواز کہاں سے آرہی ہے ، جب ہمارے جیسا انسان صفحے کے کسی حصے کو دبائے گا تو صفحے میں قید انسان کے لئے یہ بھی ایک ناقابل یقین چیز ہوگی کیونکہ وہ صفحے سے باہر دیکھ نہیں سکتا ۔اب اگر صفحے میں قید انسان کو تھوڑی سے دیر کے لئے صفحے سے اُٹھا کر باہر لایا جائے تو وہ حیرانگی سے مشاہدہ کرے گا کہ اونچائی بھی کوئی چیز ہے جب وہ واپس صفحے میں واپس جائے گا تو اپنی دُنیا کے لوگوں کو یہ نہیں بتا پائے گا کہ وہ کس دنیا کا نظارہ کرکے آیا ہے کیونکہ وہ صفحے میں رہتے ہوئے لمبائی اور چوڑائی کو تو explain کرسکتا ہے مگر اُونچائی کو explain نہیں کرسکتا ۔بالکل اسی طرح ہماری کائنات کی چادر سپیس ٹائم سے بنی ہے اس چادر میں لمبائی ، چوڑائی ، اونچائی اور وقت موجود ہے ۔ البرٹ آئن سٹائن کے دور میں یہ کہا جاتا تھا کہ مستقبل میں سفر ممکن ہے مگر ماضی میں نہیں مگر مشہور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے بتایا کہ اگر آپ اس کائناتی چادر پر قابو پالیں اور اس کو موڑ لیں تو آپ ورم ہول بنا کر ماضی کے دریچوں میں بھی گھُس سکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سپیس ٹائم فیبرک لچکدار بھی ہے اور اس کو موڑا بھی جاسکتا ہے ۔لہٰذا اب آپ اگر اس کاغذی انسان والی مثال سامنے لیجئے اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ حضور اکرمﷺ اپنا سفر معراج مکمل کرکے جب واپس ہماری کائنات میں پہنچے تو آپ ﷺ کو کائناتی چادر میں بالکل اسی پوائنٹ پر واپس پہنچا دیا گیا جہاں سے آپﷺ معراج کے لئے تشریف لے گئے تھے کیونکہ وقت اس کائناتی چادر کی ہی چوتھی جہت ہے ۔ اسی خاطر آپﷺ جب واپس آئے تو کُنڈی ہل رہی تھی اور بستر گرم تھا ۔ واقعہ معراج کو اُس وقت کے لوگوں کے لئے سمجھنا انتہائی مشکل تھا اور اُن کو سمجھانا بھی ناممکن تھا بالکل ایسے ہی جیسے کاغذ میں قید انسان اپنےدوستوں کو اونچائی جیسی چیز کے متعلق نہیں سمجھا سکتا ۔ لیکن آج کے دور میں جہاں بے پناہ کائناتی راز عیاں ہورہے ہیں جدید سائنس ورم ہول اور سپیس ٹائم ایلیویٹر بنانے پر اپنی توانائیاں سرف کررہی ہے ،ناسا الکُوبیرے نامی جہاز پر پیسہ لگا رہی ہے جس کے ذریعے سپیس ٹائم میں بھونچال پیدا کرکے روشنی کی رفتار سے سفر ممکن کیا جاسکے ۔ ایسے سائنسی دور میں سفر معراج کو سمجھے بغیر اس پر اعتراضات اٹھا دینا کوئی عقلی دلیل نہیں ۔ ٹائم ٹریول کا ذکر مختلف مذاہب میں دیکھنے کو ملتا ہے مگر واقعہ معراج کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ٹائم ٹریول کے لئے سواری کا ذکر کیا گیا جس کا نام براق بتایا گیا، جو کہ برق یعنی بجلی سے نکلتا ہے ، بجلی کی رفتار بالکل روشنی جتنی ہی ہے، براق کا مطلب بجلی سے گئی گنا زیادہ رفتار والی چیز، سائنس آج اس مفروضے پر بھی عقل کے گھوڑے دوڑا رہی ہے کہ روشنی کی رفتار سے سفر کرنے پر انسان اگر مستقبل میں قدم رکھ سکتا ہے تو روشنی کی رفتار سے زیادہ تیز سفر کرنے پر ماضی میں بھی جایا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ آج سے ہزار سال پہلے جب دینِ اسلام یہ کہتا تھا کہ کائنات پھیل رہی ہے ، پانی باہر کسی کائنات کے حصے سے آیا ، بیگ بینگ کے واقعے کے باعث کائنات بنی،اُس وقت ملحدین اپنے ہی ایک سائنسی ببل میں قید تھے لیکن وقت نے سائنس کو سب ماننے پر مجبور کردیا ۔ واقعہ معراج بھی ویسی ہی حقیقت ہے جس کا ادراک وقت کے ساتھ ساتھ انسان کو ہوتا جارہا ہے ۔ واقعہ معراج کی تصدیق کے لئے اسلام نہ سائنس کا پہلے کبھی محتاج تھا نہ کبھی ہوگا ، ماننے والوں نے اُس دور میں جب سائنس کا وجود تک نہیں تھا تب بھی اس واقعے پر مکمل ایمان لایا اور نہ ماننے والے آج کے سائنسی دور میں اس واقعے کی سچائی کے شواہدات دیکھ کر بھی اس کے انکاری ہیں ۔ یہ ایک کائنات سے دوسری کائنات کا سفر تھا جہاں لامتناہی جہتیں تھیں ۔ چارجہتوں میں قید رہنے والا انسان اس واقعہ کو اتنی آسانی سے اِسی خاطر ہضم نہیں کرپاتا کیونکہ وہ دراصل کائناتی صفحے میں قید ہے اور اس کی عقل صفحے سے باہر موجود جہتوں کا گمان بھی نہیں کرسکتی۔ اسی خاطر تو کسی نے کیا خوب کہا:
؎ پھیلا کر گوشہ ء دامنِ تجسس اپنا
سائنس محمد ﷺ کا پتہ پوچھ رہی ہے
#زیب_نامہ
#واقعہ_معراج #isra #Miraj #Meraj #اسراء
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔