مشال کے غم میں پاگل ہونے والوں نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں میڈیا حکمرانوں لعنت ہے تمھارے منہ پر شاید یہ مشال انسان نہیں تھا
مشال کے قتل کی سو فیصد سچی کہانی
.
میں نے کبھی کسی کی شان میں گستاخی نہیں کی تھی میں اپنے گھر کا مشال تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا مشال اور مشال کا مطلب تو آپ کو معلوم ہی ہو گا جی یہ چھن چھن کہ آتی روشنی کو کہتے ہیں میں اپنے پچہتر سالہ بوڑھے باپ کا مشال تھا جس کے سامنے میں نے کبھی اونچی آواز میں بات تک نہ کی تھی۔
لیکن اس دن میں ہجوم کی آواز سن کر بھاگنے لگا لیکن میں ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا وہ مذہبی جنونیوں کا ہجوم تھا ان کے جذبات مجروح ہوئے تھے سو انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھ پر تشدد کرنے لگے میں منتیں کرتا رہا ان کو ان کے نبی کے واسطے دیتا رہا لیکن انہوں نے مجھے اتنا مارا اتنا مارا کہ میں مرنے والا ہو گیا۔ ابھی مجھ میں کچھ جان باقی تھی کہ پولیس پہنچ گئی پولیس نے مجھے ان مذہبی جنونیوں سے بچانے کی کوشش کی لیکن ان جنونیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا انہوں نے مجھے پولیس سے چھین لیا اور ایک مذہبی جنونی نے مجھ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ میں بے گناہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
میرے قاتلوں کی تصویریں بھی موجود تھیں اور وڈیوز بھی لیکن عدالتیں خاموش تھیں کوئی سوموٹو ایکشن نہ ہوا نواز شریف کو بھی معلوم پڑا لیکن کسی غم غصہ کا اظہار نہ ہوا معلوم ہے میرا قتل کسی عمران خان کے لیئے جنگل کا قانون نہیں تھا اس قتل پر میڈیا پر کوئی شام غریباں نہیں تھی۔ میں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تھا لیکن معلوم ہے میرا ایک بھی قاتل آج جیل میں نہیں۔ میری بے زبان روح مفتی نعیم کے سامنے دہائیاں دیتی رہی لیکن وہ تو مفتی تھے سوچ سمجھ کے فتویٰ دیتے ہیں سو وہ بھی خاموش رہے میں اخبار کے ایک کونے میں چھپی ہوئی خبر بن کر طاہر القادری کی میز پرپہنچا لیکن شیخ الاسلام کی زبان پر تالے پڑے رہے میں طاہر اشرفی کی بوتل کے سامنے کھڑا منتظر تھا کہ کچھ تو ان کے لب بولیں گے لیکن شاید اس رات انہوں نے زیادہ چڑھا لی۔
میں مشال تھا لیکن گور ظلمت میں جا سویا۔
آج پھر ایک مشال موت کے گھاٹ اترا ہے اس پر نہیں معلوم توہین رسالت کا سچا الزام تھا یا جھوٹا لیکن وہ وہاں موجود تھا جہاں اسے سرکاری طور پر آنے سے منع کیا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے بھی موموٹو نوٹس لے لیا وزیر اعظم کی ہجکیاں نہیں رک رہیں وزیر داخلہ کی دھمکیاں ہی دھمکیاں ہیں میڈیا پر شام غریباں برپاء ہے۔ فیس بک پر ماتم کدہ سجا ہے۔
مجھے بتاؤ تو سہی یہ تضاد کیسا ہے ؟
معلوم ہے میں کون ہوں میں لاہور میں عیسائی ہجوم کے ہاتھوں جلنے والا اپنے گھر کا مشال ہوں میرا نام نعیم ہے لیکن میرا قتل انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تھا۔
۔
از قلم چودھری مبشر
مشال کے قتل کی سو فیصد سچی کہانی
.
میں نے کبھی کسی کی شان میں گستاخی نہیں کی تھی میں اپنے گھر کا مشال تھا اپنے کام سے کام رکھنے والا مشال اور مشال کا مطلب تو آپ کو معلوم ہی ہو گا جی یہ چھن چھن کہ آتی روشنی کو کہتے ہیں میں اپنے پچہتر سالہ بوڑھے باپ کا مشال تھا جس کے سامنے میں نے کبھی اونچی آواز میں بات تک نہ کی تھی۔
لیکن اس دن میں ہجوم کی آواز سن کر بھاگنے لگا لیکن میں ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا وہ مذہبی جنونیوں کا ہجوم تھا ان کے جذبات مجروح ہوئے تھے سو انہوں نے مجھے پکڑ لیا اور مجھ پر تشدد کرنے لگے میں منتیں کرتا رہا ان کو ان کے نبی کے واسطے دیتا رہا لیکن انہوں نے مجھے اتنا مارا اتنا مارا کہ میں مرنے والا ہو گیا۔ ابھی مجھ میں کچھ جان باقی تھی کہ پولیس پہنچ گئی پولیس نے مجھے ان مذہبی جنونیوں سے بچانے کی کوشش کی لیکن ان جنونیوں کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا انہوں نے مجھے پولیس سے چھین لیا اور ایک مذہبی جنونی نے مجھ پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی۔ میں بے گناہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
میرے قاتلوں کی تصویریں بھی موجود تھیں اور وڈیوز بھی لیکن عدالتیں خاموش تھیں کوئی سوموٹو ایکشن نہ ہوا نواز شریف کو بھی معلوم پڑا لیکن کسی غم غصہ کا اظہار نہ ہوا معلوم ہے میرا قتل کسی عمران خان کے لیئے جنگل کا قانون نہیں تھا اس قتل پر میڈیا پر کوئی شام غریباں نہیں تھی۔ میں مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں قتل ہوا تھا لیکن معلوم ہے میرا ایک بھی قاتل آج جیل میں نہیں۔ میری بے زبان روح مفتی نعیم کے سامنے دہائیاں دیتی رہی لیکن وہ تو مفتی تھے سوچ سمجھ کے فتویٰ دیتے ہیں سو وہ بھی خاموش رہے میں اخبار کے ایک کونے میں چھپی ہوئی خبر بن کر طاہر القادری کی میز پرپہنچا لیکن شیخ الاسلام کی زبان پر تالے پڑے رہے میں طاہر اشرفی کی بوتل کے سامنے کھڑا منتظر تھا کہ کچھ تو ان کے لب بولیں گے لیکن شاید اس رات انہوں نے زیادہ چڑھا لی۔
میں مشال تھا لیکن گور ظلمت میں جا سویا۔
آج پھر ایک مشال موت کے گھاٹ اترا ہے اس پر نہیں معلوم توہین رسالت کا سچا الزام تھا یا جھوٹا لیکن وہ وہاں موجود تھا جہاں اسے سرکاری طور پر آنے سے منع کیا گیا تھا۔ لیکن سپریم کورٹ نے بھی موموٹو نوٹس لے لیا وزیر اعظم کی ہجکیاں نہیں رک رہیں وزیر داخلہ کی دھمکیاں ہی دھمکیاں ہیں میڈیا پر شام غریباں برپاء ہے۔ فیس بک پر ماتم کدہ سجا ہے۔
مجھے بتاؤ تو سہی یہ تضاد کیسا ہے ؟
معلوم ہے میں کون ہوں میں لاہور میں عیسائی ہجوم کے ہاتھوں جلنے والا اپنے گھر کا مشال ہوں میرا نام نعیم ہے لیکن میرا قتل انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں تھا۔
۔
از قلم چودھری مبشر
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔