Monday, 5 November 2018

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں عورتوں،بچوں،بوڑھوں کو قتل کرایا؟ کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے بالغ مردوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی قتل کرایا؟کیا بنو قریظہ کے مردوں کے کپڑے اتار کر ان کی بلوغت چیک کی گئ؟جنگ میں درخت اور باغات کٹوائے؟اگر ہاں تو کیوں؟ ا(یک ملحد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے حوالے سے اخلاقیات پر اعتراضات اور ان کے جوابات) حصہ اول

کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں عورتوں،بچوں،بوڑھوں کو قتل کرایا؟ کیا واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے بالغ مردوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی قتل کرایا؟کیا بنو قریظہ کے مردوں کے کپڑے اتار کر ان کی بلوغت چیک کی گئ؟جنگ میں درخت اور باغات کٹوائے؟اگر ہاں تو کیوں؟
ا(یک ملحد کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنگ کے حوالے سے اخلاقیات پر اعتراضات اور ان کے جوابات) حصہ اول
تحریر۔۔ڈاکٹر احید حسن
///////////////////////////////////////////////////////////////////

یہ ایک عمومی تاثر ہے کہ اسلام جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن اس کی حقیقت کیا ہے، اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیں:
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ جن مشرکین سے لڑائی ہے اگر شب خون مارتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے مارے جائیں تو کیسا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: "وہ بھی انہی (کافروں) میں سے ہیں۔"
(صحیح بخاری، کتاب الجہاد و السیر، باب اہل الدار بیتون۔۔۔۔۔، حدیث: 3012)
صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم شبِ خون مارتے ہوئے، مشرکین کے بچوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ بھی انہی (مشرکین) میں سے ہیں۔"
(صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، باب جواز قتل النساء و الصیبان فی البیات من غیر تعمد، حدیث: 4550)
ایک اور روایت میں یہ وضاحت موجود ہے کہ کافروں کے جن عورتوں اور بچوں کو شبِ خون میں مارے جانے کا حکم پوچھا جا رہا تھا، ان میں مسلمانوں کے گھوڑوں تلے روندے گئے "کافر بچے، کافر عورتیں" شامل تھیں۔ دیکھئے جامع ترمذی ( کتاب السیر، باب ما جاء فی النہی عن قتل النساء و الصیبان، حدیث: 1570)، سنن ابوداؤد (کتاب الجہاد، باب فی قتل النساء، حدیث: 2672)
 اکثر موقعوں پر ملتا ہے کہ محمد صلعم اور ان کے ساتھیوں نے اپنے دشمنوں کی بے خبری و غفلت میں ان کی بستیوں پر حملہ کیا، نوجوانوں کو قتل کیا، گھروں میں گھس گھس کر مارا اور ان کے بے قصور عورتوں اور بچوں کو قیدی و غلام بنا لیا۔
دیکھئے صحیح بخاری (کتاب المغازی، باب غزوہ خیبر، حدیث: 4198، 4200)، سنن ابو داؤد (کتاب الجہاد، حدیث: 2633، 2638)
یہ بھی بالکل اسلام پر بہتان ہے کہ کہیں یہ تعلیم دی گئی ہو کہ چاہے دشمن بھی ہوں لیکن بوڑھے اور ضعیف لوگوں کو ان کے بڑھاپے کا خیال کرتے ہوئے چھوڑ دو۔ اس کے مقابلے میں حضرت سمرۃ بن جندب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مشرکین کے بوڑھوں کو قتل کرو اور نوعمر (نابالغوں) کو زندہ رہنے دو۔"
(سنن ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی قتل النساء، حدیث: 2670)
چنانچہ ایک واقعہ میں ایک ضعیف یہودی ابوعفک کہ جس کی عمر سو سال سے بھی زیادہ تھی، کو اس کے سوتے ہوئے قتل کیا گیا۔
(طبقات ابن سعد اردو، ج1 ص265، نفیس اکیڈمی کراچی)
اسی طرح محمد صلعم کے بھیجے مجاہدین نے ایک معرکہ میں گرفتار ضعیف بوڑھی عورت اُم قرفہ فاطمہ کو اس بے دردی سے قتل کیا کہ اس کے دونوں پیروں میں رسی باندھی گئی اور پھر اسے دو اونٹوں کے درمیان باندھ کر ان اونٹوں کو ہانکا گیا، جس سے اس کا جسم دو ٹکڑے ہو گیا۔
(تاریخ طبری اردو، ج2 ص261، نفیس اکیڈمی کراچی)

 حضرت انس سے روایت ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو کھجور کے درخت کاٹ دیے گئے۔"
(صحیح بخاری، کتاب المزارعہ، باب قطع الشجر و النخل)
حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ "آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی کھجوروں (کے درختوں) کو جلانے اور کاٹنے کا حکم دیا۔"
(صحیح بخاری، کتاب المزارعہ، باب قطع الشجر و النخل، حدیث: 2326، 3021 / صحیح مسلم، کتاب الجہاد، باب جواز قطع اشجار الکفار و تحریقھا، حدیث: 1746)
مشہور محدث امام نووی نے صحیح مسلم کی حدیث پر باب باندھتے ہوئے اس اسلامی تعلیم کا صاف اقرار کیا ہے کہ "کافروں کے درختوں کو کاٹنا اور جلانا جائز ہے"۔ اسی طرح مشہور فقیہ و محدث امام شافعی کا مذہب بھی یہی ہے کہ "دشمن کے ملک میں آگ لگانے، درخت اور پھل کاٹنے میں کچھ حرج نہیں۔" (سنن ترمذی، کتاب السیر، باب فی التحریق و التخریب) امام اسحاق بن راہوایہ
///////////////////////////////////////////////////////////////////
ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﷺ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ
ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ۔ ﺁﯾﺌﮯ ﺍﯾﮏ ﻧﻈﺮ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﭘﺮ ﮈﺍﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮐﮧ
ﮐﯿﻮﮞ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﻣﺮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ
ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ۔ ﺍﻭﺭ ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﻃﺎﻟﺒﺎﻥ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺯ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﺎ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ۔
ﻏﺰﻭﮦ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ
ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ
ﻧﮯ ﺍﻣﻦ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻏﺰﻭﮦ ﺧﻨﺪﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ
ﭘﯿﭩﮫ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺮﺍ ﮔﮭﻮﻧﭙﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻓﻀﻞ ﺳﮯ ﻧﺎﮐﺎﻡ
ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﺍﺳﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻨﻮﮞ
ﮐﻮ ﮬﻼﮎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ۔ ﻏﺰﻭﮦ ﺧﻨﺪﻕ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺸﺮﮐﯿﻦ ﻭ ﯾﮩﻮﺩ ﻧﮯ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﮐﮯ
ﺍﻧﺪﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺳﮯ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﻗﺘﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﺮﻏﯿﺐ ﺩﯼ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﺎ
ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺑﮯ ﻓﮑﺮﯼ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ
ﺗﮭﯽ۔ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺪﯾﻢ ﻓﻄﺮﺕ ﮐﮯ ﻋﯿﻦ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺩﻏﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮ ﺳﻮ
ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔ ﺟﺐ ﯾﮧ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﭘﮭﯿﻠﯽ ﺗﻮ
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺍﻭﺭ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺎﺩﮦ
ﮐﻮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﺭﺳﺖ ﻧﮑﻠﯽ۔
ﺑﻨﻮ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﻮ ﺷﮏ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻨﯽ ﮐﺮﯾﮟ
ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﺶ ﭘﯿﭩﮫ ﭘﮭﯿﺮ ﮐﺮ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ
ﻗﺮﯾﺶ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺑﻄﻮﺭ ﯾﺮﻏﻤﺎﻝ ﻣﺎﻧﮕﮯ ﺟﺴﮯ ﻗﺮﯾﺶ ﻧﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻮﮨﯿﻦ ﺳﻤﺠﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﯾﮩﻮﺩﯼ ﺳﺎﺯﺵ ﺳﮯ ﺁﮔﺎﮦ ﮨﻮ
ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺎﻧﭻ ﺳﻮ ﺳﻮﺍﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮔﺸﺖ
ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻌﺮﮦ ﺗﮑﺒﯿﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺑﺰﺩﻝ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﮕﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ۔
ﺍﻧﮩﯽ ﻭﺟﻮﮦ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﻋﻤﻠﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ ﻧﮧ ﮐﺮ ﺳﮑﮯ۔
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﻨﮓ ﺧﻨﺪﻕ ﺳﮯ ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ
ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺍﺑﮭﯽ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ
ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﻧﺎﮔﮩﺎﮞ ﺣﻀﺮﺕ ﺟﺒﺮﯾﻞ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺴﻼﻡ
ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ! ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ
ﺁﭖ ﻧﮯ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺍﺗﺎﺭ ﺩﯾﺌﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﻓﺮﺷﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ
ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺗﺎﺭﮮﮨﯿﮟ ۔ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺣﮑﻢ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻠﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ
ﺗﻮﮌ ﮐﺮ ﻋﻼﻧﯿﮧ ﺟﻨﮓ ﺧﻨﺪﻕ ﻣﯿﮟ ﮐﻔﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﻣﺪﯾﻨﮧ ﭘﺮ ﺣﻤﻠﮧ
ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔( ﻣﺴﻠﻢ ﺑﺎﺏ ﺟﻮﺍﺯ ﻗﺘﺎﻝ ﻣﻦ ﻧﻘﺾ ﺍﻟﻌﻬﺪ ﺝ ۲ ﺹ۹۵ )
ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﻟﻮﮒ
ﺍﺑﮭﯽ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺍﺗﺎﺭﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ، ﺣﻀﻮﺭ
ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﮨﺘﮭﯿﺎﺭ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ، ﺍﭘﻨﮯ
ﮔﮭﻮﮌﮮ ﭘﺮ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ” ﻟﺤﯿﻒ ” ﺗﮭﺎ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ
ﭘﮍﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﻮﯾﮟ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﻧﺰﻭﻝ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔
( ﺯﺭﻗﺎﻧﯽ ﺝ۲ ﺹ۱۲۸ )
ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﺑﮭﯽ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﺗﯿﺎﺭ ﺗﮭﮯ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﺐ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ
ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﻌﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻇﺎﻟﻢ ﺍﻭﺭ
ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻦ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭِ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ
( ﻣﻌﺎﺫ ﺍﷲ ) ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮔﺴﺘﺎﺧﯿﺎﮞ ﮐﯿﮟ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ
ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﻠﻌﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً
ﺍﯾﮏ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﺗﮏ ﯾﮧ ﻣﺤﺎﺻﺮﮦ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻨﮓ ﺁﮐﺮ ﯾﮧ
ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﮐﮧ ” ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﮟ ﻣﻨﻈﻮﺭ ﮨﮯ۔ “
ﺣﻀﺮﺕ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﺭﺿﯽ ﺍﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺟﻨﮓ ﺧﻨﺪﻕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺗﯿﺮ
ﮐﮭﺎ ﮐﺮ ﺷﺪﯾﺪ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺯﺧﻤﯽ ﺗﮭﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﮔﺪﮬﮯ ﭘﺮ
ﺳﻮﺍﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ
“ ﻟﮍﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻓﻮﺟﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ، ﻋﻮﺭﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮯ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎ
ﻟﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺍﺳﺒﺎﺏ ﻣﺎﻝ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﻣﺠﺎﮨﺪﻭﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ “
ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﺳﮯ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻦ
ﮐﺮ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﻘﯿﻨﺎ ﺑﻼ ﺷﺒﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﻥ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﯾﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﮯ۔ ( ﻣﺴﻠﻢ ﺟﻠﺪ۲ ﺹ۹۵ )
ﺩﻭﺳﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﺗﻮﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﻗﺴﻢ
ﮐﯽ ﻋﮩﺪ ﺷﮑﻨﯽ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﺴﺮﺍ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ
ﺍﻭﺭ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺷﻖ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺩﻏﺎ
ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﺍﻭﺭ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺳﯿﺮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﺎﻝ ﺿﺒﻂ
ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭ ﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﺍﺱ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺑﻨﯽ ﻗﺮﯾﻈﮧ ﮐﯽ ﻟﮍﺍﮐﺎ ﻓﻮﺟﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮐﯽ ﮔﺌﯿﮟ ﺍﻭﺭ
ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﺎﻝ ﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﻮ
ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﻣﺎﻝ ﻏﻨﯿﻤﺖ ﺑﻨﺎ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ 700 ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﮐﻮ
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺍﻭﺭ ﻗﺒﯿﻠﮧ
ﺍﻭﺱ ﮐﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﻭﺍﺻﻞ ﺟﮩﻨﻢ ﮐﯿﺎ۔ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﮯ ﻣﺎﻝِ ﻏﻨﯿﻤﺖ
ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺷﺮﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯽ ﺟﺴﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ﺍﻭﺭ
ﺍﺱ ﺷﺮﯾﺮ ﻭ ﺑﺪﻋﮩﺪ ﻗﺒﯿﻠﮧ ﮐﮯ ﺷﺮ ﻭ ﻓﺴﺎﺩ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ
ﭘﺮﺍﻣﻦ ﻭ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
اس ساری بحث سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ بنو قریظہ کے بچے قتل نہیں کیے گئے تھے۔ان کی یہ سزا یعنی ان کے مردوں کا قتل اور عورتوں اور بچوں کا قیدی بنایا جانا خود ان کی بد عہدی کی سزا تھی اور یہ سزا ان کی اپنی مذہبی کتاب تورات کے مطابق حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ نے تجویز کی جن کو ان یہودیوں نے اپنا فیصلہ کرنے کے لیے تجویز کیا تھا۔جب یہ تھی ہی ان یہود کی اپنی بدعہدی،بد امنی کی  کی سزا اور یہ فیصلہ تھا بھی خود ہی ان کی اپنی مذہبی کتاب تورات کے مطابق اور اس کا اختیار بھی خود یہود نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کو خود دیا تھا اور اس میں بچوں اور عورتوں کا قتل نہیں کیا گیا تو پھر اسلام پر اعتراض کیسا۔
قریظہ کے یہودیوں کا قتل ایک استثنائی حکم تھا (جس سے کسی اصول کو وضع کرنا انتہائی غلط ہے) جس کا تعلق رسول کے اتمام حجت کے بعد اسکی قوم پر اللہ کے عذاب کے آنے سے ہے۔ اب ہم درایت کی روشنی میں ان زیر ناف والی روایات کا جائزہ لیں گے جن کو نام نہاد مذہبی گروہ اپنے مکروہ فعل کو صحیح ثابت کرنے کیلیئے استعمال کررہے ہیں۔

ہم ان روایات کو ایک جدول (ٹیبل) کی شکل میں لکھ رہے ہیں تاکہ ایک نظر میں آسانی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکے۔

روایت ہے کہ ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے قریظ کے ہنگامے والے دن لائے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس لڑکے کو احتلام ہو یا اس کی پیشاب کی جگہ یعنی زیر ناف بال اگ آئے ہوں اس کو قتل کر دو۔ اگر ان دو نشانات میں سے کوئی نشان یا علامت نہ پاؤ تو اس کو چھوڑ دو (یعنی بالغ کو قتل کر دو اور نابالغ کو چھوڑ دو.

روایت ہے کہ میں قبیلہ بنی قریظ کے قیدیوں میں سے تھا لوگ ان کو دیکھا کرتے تھے اگر ان کے ناف کے نیچے بال نکلے ہوئے ہوتے تو ان کو قتل کر ڈالتے اور جس کے بال (زیر ناف) نہ نکلے ہوئے ہوتے تو اس کو چھوڑ دیتے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے
عبدالملک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن منصور
حدیث موقوف
دوم:
سنن نسائی:
روایت ہے کہ میں اس وقت لڑکا تھا کہ جس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بنی قریظ کے قتل کے واسطے حکم فرمایا پھر مجھ کو دیکھا اور میرے قتل کرنے میں انہوں نے شک کیا۔ جس وقت انہوں نے مجھ کو زیر ناف کے بالوں والا نہیں پایا (بالغ محسوس نہیں کیا تو چھوڑ دیا) میں وہ ہی ہوں جو کہ تم لوگوں کے سامنے موجود ہوں۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
عبدالمالک بن عمیر،
سفیان،
محمد بن کثیر،
حدیث مقطوع
سوم:
سنن ابوداؤد
فرماتے ہیں کہ میں بنوقریظہ کے قیدیوں میں سے تھا تو وہ لوگ دیکھتے کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے تو اس کو قتل کردیتے اور جن کے زیر ناف بال نہیں اگے ہوتے تھے ان کو چھوڑ دیتے میں بھی ان میں سے تھا جن کے زیر ناف بال نہیں اگے تھے۔
متن حدیث
حضرت عطیہ قرظی
حدیث مقطوع
سوم:
سنن ابوداؤد
ایک اعتراض:
لڑکوں کی اوسطاً عمر 11 سے 12 سال ہوتی ہے جب بال نکلنا شروع ہوتے ہیں۔ بعض بچوں کے زیر ناف بال جلدی بھی نکل آتے ہیں۔ اب یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ کچھ 11 سے 12 سال کے بچے بھی اس سزا کی زد میں آگئے ہونگے۔
روایات کا جائزہ:
ا - مندرجہ بالا روایات میں سے 4 احادیث مرفوع ہیں جبکہ 2 موقوف اور 2 مقطوع۔
مرفوع ایسی حدیث کو کہا جاتا ہے جس میں کسی قول، عمل، صفت یا تقریر (یعنی خاموش رہ کر اجازت دینے) کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے کی گئی ہو۔ یہ نسبت کسی صحابی نے بیان کی ہو یا کسی اور نے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حدیث کی سند خواہ متصل ہو یا منقطع، وہ مرفوع ہی کہلائے گی۔ اس تعریف کے اعتبار سے مرفوع میں موصول، مرسل، متصل، منقطع ہر قسم کی روایت شامل ہو جاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadi...502-Hadith.htm)
موقوف حدیث وہ ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند صحابی پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے اور اسے ایک یا ایک سے زائد صحابہ سے منسوب کیا گیا ہوتا ہے۔ سند خواہ متصل ہو یا منقطع، یہ حدیث موقوف ہی کہلاتی ہے۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadi...503-Hadith.htm)
مقطوع وہ حدیث ہوتی ہے جس کا سلسلہ سند تابعی یا تبع تابعی یا کسی اور کے قول و فعل پر پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ مقطوع اور منقطع حدیث ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ منقطع حدیث کا تعلق حدیث کی سند سے اور مقطوع کا تعلق متن سے ہوتا ہے۔ مقطوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں تابعی کا قول و فعل بیان کیا جائے اگرچہ اس کی سند اس تابعی تک متصل ہو۔ اس کے برعکس منقطع حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند کا سلسلہ کٹا ہوا ہو۔ اس کا متن سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
(http://www.mubashirnazir.org/ER/Hadi...504-Hadith.htm)

ب - حدیث نمبر 2 سے لیکر حدیث نمبر 8 تک ساری روایتیں عبدالمالک بن عمیر سے ہوتی ہوئی عطیہ قرظی تک پہنچ کر رک جاتی ہیں۔
ہمیں یہ معلوم ہے کہ غزوہء بنو قریظہ میں کافی سارے کبار صحابہ نے شرکت کی مگر یہ زیر ناف والی روایات کسی اور صحابی سے ذخیرہء کتب میں موجود نہیں۔
ت - حضرت علی رضہ اور حضرت زبیر رضہ تو یہودیوں کو جہنم واصل کرنے کے کام پر مامور تھے پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں؟
ث - جو لوگ زیر ناف بال دیکھنے کے کام پر مامور تھے وہ کون تھے اور پھر ان سے کوئی روایت کیوں نہیں آئی؟
ج - ان روایات کو تواتر کا درجہ بھی نہیں حاصل اور نا ہی یہ "خبر مشہور" کے درجہ میں ہیں۔ ان کو البتہ اخبار آحاد میں ضرور شامل کیا جاسکتا ہے۔
بخاری و مسلم نے جہاں بنو قریظہ کے واقعات قلمبند کیے ہیں وہاں کہیں بھی زیر ناف والی روایت کو پیش نہیں کیا۔
د - امام مالک مدینے کے رہنے والے ہیں مگر اپنی موطا میں زیر ناف والے بنو قریظہ کے واقعہ کو کوئی جگہ نہ دی۔
ذ - حضرت سعد رضہ نے بحیثیت حَکم یہ فیصلہ سنایا کہ وہ لوگ جو لڑائی کے قابل ہوں قتل کردیئے جائیں۔ یہاں پر بھی طبری نے کوئی زیر ناف والا واقعہ بیان نہیں کیا۔ دیکھیئے تاریخ طبری جلد اول صفحہ 299 مطبوعہ نفیس اکیڈمی 1970۔
ر- بعض روایتیں ایک دوسرے سے متعارض بھی نظر آتی ہیں۔
حدیث نمبر 3 میں عطیہ قرظی زیر ناف والی بات کو حضرت سعد رضہ سے جوڑ رہے ہیں اور حدیث نمبر 6 میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوڑ رہے ہیں۔ ان دونوں روایتوں میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی ایک جیسے ہیں۔ جب راوی ایک ہی ہیں تو اتنا تضاد کیوں
ز- حدیث نمبر 7 میں راوی سفیان، عبدالمالک بن عمیر اور عطیہ قرظی زیر ناف بالوں کا کوئی تذکرہ نہیں کررہے، آخر کیوں؟ حالانکہ یہی تین اشخاص دوسری جگہ زیر ناف بالوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔
س-حدیث نمبر 1 میں وہ دو لڑکے کون تھے ان کے نام کیوں نہیں لیئے گئے؟ حضرت کثیر رضہ نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کیوں نہیں سنا؟ اگر کسی وجہ سے نہیں بھی سنا تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تصدیق کیوں نا کی؟
ش-حدیث نمبر 1 میں لفظ احتلام بھی استعمال ہوا ہے۔ اس بات کو عقل عام (کامن سینس) قبول نہیں کرتی اور اسکی صحت کی گواہی نہیں دیتی۔ آخر کس طرح احتلام کا پتہ چلایا گیا ہوگا؟ اس بات کو نبی اکرم صلی علیہ و سلم سے منسوب کرنا انتہائی نامناسب ہے۔
ص-ستر کھول کھول کر دیکھنا مناسب عمل معلوم نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اسکا حکم دیں۔
نتائج و خلاصۂ مبحث:
* مندرجہ بالا زیر ناف والی روایات میں بہت زیادہ اضطراب ہے اور بعض ایک دوسرے سے متعارض ہیں۔
* ان روایات کو تواتر و خبر مشہور کا درجہ حاصل نہیں۔
* ہماری رائے میں بچوں کے ستر نہیں کھولے گئے اور صرف ظاہری ہئیت (داڑھی مونچھیں، قد کاٹھ، ڈیل ڈول) دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہوگا کہ یہ لڑکا لڑائی کے قابل ہے اسلیئے اس کو بھی سزا دی جائیگی۔
اس بات کو یوں سمجھ لیجیئے کہ ایک میٹرک کا بچہ جنگی مہم کے قابل نہیں مگر ایک یونیورسٹی کے پہلے سال والا طالب علم اس قابل سمجھا جاسکتا ہے۔
* درایت کی روشنی میں یہ روایات انتہائی ضعیف ہیں۔لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ملحدین کا اعتراض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کے لیے بنو قریظہ کے لڑکوں کا ستر کھول کرکر بلوغت چیک کرائ تھی،غلط ہے۔
https://www.siasat.pk/forum/showthread.php?313759-%26%231576%3B%26%231606%3B%26%231608%3B-%26%231602%3B%26%231585%3B%26%231740%3B%26%231592%3B%26%231729%3B-%26%231705%3B%26%231746%3B-%26%231576%3B%26%231670%3B%26%231608%3B%26%231722%3B-%26%231705%3B%26%231575%3B-%26%231602%3B%26%231578%3B%26%231604%3B-%26%231575%3B%26%231608%3B%26%231585%3B-%26%231575%3B%26%231587%3B-%26%231705%3B%26%231740%3B-%26%231581%3B%26%231602%3B%26%231740%3B%26%231602%3B%26%231578%3B
************************************************
عَنْ سَعْدٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا اُمَامَة قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ص يَقُولُ نَزَلَ أَهلُ قُرَيْظَة عَلَی حُکْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ إِلَی سَعْدٍ فَأَتَی عَلَی حِمَارٍ فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْمَسْجِدِ قَالَ لِلْأَنْصَارِ قُومُوا إِلَی سَيِّدِکُمْ أَوْ خَيْرِکُمْ فَقَالَ هؤُلَائِ نَزَلُوا عَلَی حُکْمِکَ فَقَالَ تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهمْ وَتَسْبِي ذَرَارِيَهمْ قَالَ قَضَيْتَ بِحُکْمِ اﷲِ وَرُبَّمَا قَالَ بِحُکْمِ الْمَلِکِ.
حضرت ابوسعید خدری ص فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن معاذ کے حکم پر بنی قریظہ قلعہ کے نیچے اتر آئے تھے۔ تو نبی کریمصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سعد ص کو بلا بھیجا۔ پس وہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہونے کے لئے گدھے پر سوار ہوکر چل پڑے اور جب مسجد نبوی کے قریب آگئے تو آپ نے انصار سے فرمایا کہ اپنے سردار یا اپنے بہترین فرد کے لئے تعظیمی قیام کرو۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ تمہارے حکم پر قلعہ سے اتر آئے ہیں اب ان کا فیصلہ کردو۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کے جو افراد لڑنے کے قابل ہیں وہ قتل کردیئے جائیں اور ان کے اہل و عیال کو قیدی بنا لیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے حکم الٰہی کے مطابق فیصلہ کیا ہے اور کبھی آپ یہ فرماتے کہ حکم فرشتہ کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔
بخاري، الصحيح، 4: 1511، رقم: 3895
مسلم، الصحيح، 3: 1388، رقم: 1768
بالفرض ان غدار لوگوں کو (جو پوری ریاست مدینہ کے لئے خطرہ تھے) قتل کرتے ہوئے، رات کے اندھیرے میں لڑائی کے دوران عورتیں اور بچے ہلاک ہو جاتے یا انہی کی طرح کے خطرناک کوئی اور لوگ ہوتے یا پھر آج بھی کوئی ایسا گروہ ہو تو ان کے بارے میں درج ذیل حدیث مبارک ہے:
عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَة قَالَ مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ وَسُئِلَ عَنْ أَهلِ الدَّارِ يُبَيَتُونَ مِنْ الْمُشْرِکِينَ فَيُصَابُ مِنْ نِسَائِهمْ وَذَرَارِيِّهمْ قَالَ: همْ مِنْهمْ وَسَمِعْتُه يَقُولُ لَا حِمَی إِلَّا ِﷲِ وَلِرَسُولِه.
حضرت صعب بن جثامہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ابواء یا ودّان کے مقام پر میرے پاس سے گزر ہوا تو آپ سے ان مشرکوں کے بچوں اور عورتوں کے بارے میں دریافت کیا گیا جو رات کو اپنے گھروں میں سوئے ہوتے ہیں اور (بوقتِ شب خون) قتل کردیئے جاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ بھی تو ان ہی میں سے ہیں۔ نیز آپ کو یہ بھی فرماتے سنا گیا کہ چراگاہیں صرف اللہ اور اس کے رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت ہیں۔
بخاري، الصحيح، 3: 1097، رقم: 2850
مسلم، الصحيح، 3: 1364، رقم: 1745
معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو عوام الناس کے جان و مال، عزت و آبرو اور ملکی سلامی کے لیے خطرہ ہوں انہیں کسی صورت چھوڑنا نہیں چاہیے۔ اگر وہ عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر چھپنے کی کوشش کریں تو بھی انہیں قتل کیا جائے۔ کیونکہ وہ پورے معاشرے کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں اس لیے ان کا قلعہ قمہ کرنا ہر صورت لازم ہے۔ درج بالا حدیثِ مبارکہ درست مفہوم یہی ہے۔
پس اگر بچے بوڑھے عورتیں جنگ اہل قتال نہیں ہوں گے یعنی جنگ میں شریک نہیں ہوں گے تو ان کا قتل ناجائز ورنہ جائز ہوگا۔بیان کردہ احادیث کا یہی مطلب ہے۔اب اس طرح وہ بیگناہ مسلم اور کافر دونوں طرح کے مرد،عورتیں،بچے اور بوڑھے جو اپنے کام کاج میں مصروف ہیں،ان کو ان کی عبادت گاہوں،بازاروں ،چوکوں ،سڑکوں پر حملے کر کے قتل کرنا جرم ہے۔
 اگر کفار عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا کر استعمال کرتے ہیں اور اس صورت میں کچھ بچے یا عورتیں قتل ہوجائیں تو ان کا گناہ بھی اسلامی فوج پر نہیں ہوگا۔علماء کی اس تشریح کی گواہ وہ احادیث بھی ہیں جن میں خواتین اور بچوں کے قتل سے روکا گیا ہے
 چراگاہوں سے متعلق عربوں کا دستور یہ تھا کہ جب کسی آباد اور سرسبز جنگل میں پہنچتے تو کتے کو اشارہ کرتے،وہ بھونکتا اور جہاں تک کتے کی بھونکنے کی آواز جاتی وہاں تک کا علاقہ ان کی تحویل میں سمجھا جاتا اور کوئ بھی دوسرا اس میں جانور نہ چرا سکتا۔یہ طریقہ جو کہ ظلم پر مبنی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم فرما دیا اور حکم دیا کہ محفوظ یعنی تحویل شدہ چراگاہ اللٰہ تعالٰی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں خود تصرف کی بجائے ان کو لوگوں میں انصاف کے مطابق تقسیم کیا۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب خود جمع کرتے تو یہ نہ ہوتا کہ وفات کے وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں چراغ جلانے کے لیے تیل نہیں تھا۔اس طرح اسلام نے ذاتی طور پر کوئ چراگاہ قبضے میں کرنے کا تصور ختم کر کے اسے حق داروں میں تقسیم کیا۔کچھ سوشلسٹ و کامریڈ خیالات رکھنے والے لوگ اس حدیث سے اپنا کمیونسٹ نظام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کہ اس سے کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ایک سوشلسٹ اور کمیونسٹ نظام حکومت شریعت کے مطابق ہے۔
(جاری ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔