Monday, 5 November 2018

خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر میرے مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب(حصہ دوم)

خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر میرے مضمون پر ملحد عزازی ہاشم کے اعتراضات اور ان کا جواب(حصہ دوم)
************************************************
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
/////اس دلیل میں محترم احید صاحب خدا کے ہونے کی یہ دلیل پیش کر رہے ہیں کہ ایک مفروضہ مستقبل میں درست ثابت ہو گیا سو اسلئے خدا ہے ..... یعنی بیوقوفی کی حد ہی ہو گییی ہے کہ اگر کوئی مفروضہ درست ثابت ہو گیا ہے تو خدا ہے .. میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی مفروضہ جیسا کہ ہوتا ہے درست ثابت نہ ہو تو کیا اس سے یہ دلیل لی جاے کہ خدا نہیں ہے ؟ یعنی اگر میں سائنس کی تاریخ کو کھنگال کر ایسے مفروضات پیش کر دیتا ہوں جو مستقبل میں غلط ثابت ہوے تو کیا احید اپنی ہی بنائی ہوی دلیل کی بنیاد پر تسلیم کر لیں گے کہ خدا نہیں ہے ؟ پھر آنحضرت فرماتے ہیں کہ جیسے ہم بجلی کو نہیں دیکھ سکتے لیکن اسکی خصوصیات پرکھ سکتے ہیں ... شاید انکا کبھی بارش میں بجلی گرتے دیکھنے کا مشاہدہ نہیں ہوا وگرنہ وہ ضرور بجلی کو دیکھ لیتے ... دوسری بجلی وہ ہے جو ہم گھروں میں استعمال کرتے ہیں ، اسکے بارے میں ان سے عرض ہے کہ کسی الیکٹریشن کے پاس تشریف لے جائیں اور اس سے کہیں کہ دو تاروں کو آپس میں ٹچ کر کے دکھائیں ، مجھے قوی یقین ہے کہ وہ اس بجلی کو بھی دیکھ لیں گے - اس سے قطعہ نظر ان سے یہ بھی گزارش ہے کہ اشیاء کی معرفت صرف حس بصارت سے ہی حاصل نہیں کی جاتی بلکہ حس بصارت کے علاوہ دوسری حسیات کی مدد سے بھی اشیاء کی پہچان ہو جاتی ہے جیسا کہ انسان نے مختلف ڈوایسز کی مدد سے الیکٹران ، نیوٹران ، پروٹان کو دریافت کیا یا بیکٹیریا جو ننگی آنکھ سے نظر نہیں آتے انکو خوردبین کی مدد سے دیکھتا ہے - پھر فرماتے ہیں کہ جیسے ہم ذہانت کو نہیں دیکھتے لیک­ن اسے باپ سکتے ہیں . عرض ہے کہ ذہانت کوئی چیز نہیں ہے بلکہ ایک صلاحیت ہے جیسا کہ دیکھنا ایک صلاحیت ہے ، سننا ایک صلاحیت ہے ، سونگھنا ایک صلاحیت ہے وغیرہ وغیرہ ، سو صلاحیت کو اسکے فعل کے ما بعد از وقوع ہونے والے نتائج سے پہچانا جاتا ہے - پھر فرماتے ہیں کہ می­را دعوی ہے اسی طرح ہم­ خدا کے وجود کو مان ک­ے اس کی خصوصیات کو بھ­ی ثابت کر سکتے ہیں - اس سلسلے میں عرض ہے کہ وہ سائنس سائنس کا رونا تو روتے ہیں لیکن کسی چیز کو ثابت کرنے کے سائنسی طریقہ کار سے اتنا ہی ناواقف ہیں جتنا ایک جانور ... سائنسی طریقہ کار یہ نہیں ہوتا کہ پہلے میری بات مان لو پھر میں اسکو خصوصیت سے ثابت کروں گا - سائنسدان اپنے نظریے ، تھیوری کے حق میں شواہد و مشاہدات پیش کرتا ہے ، کیلکولیشن پیش کرتا ہے ، اسکو تجربہ کر کے دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے اور اگر وہ شواہد خلاف عقل نہ ہوں تو دوسرے سائنسدان اسکو تسلیم کرنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے ... اس سلسلے میں انسے عرض ہے کہ بڑھکیں تو وہ سائنس کی لگاتے ہیں تو طریقہ کار بھی سائنسی اختیار کریں .////
محترم یہاں آپ ایک سائنسی مفروضے کو خدا کی ذات پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔جناب آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ خدا ہماری نظر میں تو کبھی مفروضہ تھا ہی نہیں۔صرف سائنس کی نظر میں تھا۔لیکن اب سائنس نے مشاہدات سے ثابت کر دیا۔عظیم سائنسدان میکو کاکو نے بھی مان لیا اور اوپر خدا کی ذات کے سائنسی طور پر ثابت ہونے کا سائنسی حوالہ بھی دے دیا تو اب یہ بات ایک سائنسی مفروضے سے بڑھ کر ایک حقیقت بن چکی ہے۔جسے دنیا کے عظیم سائنسدان جیسا کہ میچیو کاکو اور ہاکنگ نے بھی مان لیا۔اب آپ بھی مان لیجئے۔اب تو یہ بات مفروضے سے آگے بڑھ گئ جس کے مزید سائنسی دلائل سامنے آرہے ہیں تو اب انکار کیسا محترم۔محترم آپ نے مان لیا کہ اشیاء کی حقیقت حواس خمسہ سے حاصل ہوتی ہے۔اب اسی حواس خمسہ سے ملنے والا علم یعنی سائنس خدا کے وجود کا ثبوت دے رہا ہے۔لہذا اب انکار نہ کیجئے بلکہ مان لیجئے۔آپ نے سائنسی طریقۂ کار اختیار کرنے کی بات کی۔میں نے آپ کی پسند کا طریقہ اختیار کر کے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل کے پکے حوالے دے دیے تو اب انکار کیسا۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
/////یقینا احید صاحب جانتے ہونگے کہ سائندان جب بھی کوئی دعوی کرتے ہیں تو اسکے پیچھے برسوں کی تحقیق و تجربات اور ان سے حاصل شدہ نتائج ہوتے ہیں . کوئی سائنسدان اس وقت تک کوئی تھیوری پیش نہیں کرتا جب تک وہ اسکو ثابت کرنے کے حوالے سے مواد اکٹھا نہیں کر لیتا .... یقینا اگر جرمینیم کے متعلق دعوی کیا گیا تو اسکے پیچھے ایک تحقیقی کام پر مشتمل کافی مواد ہوگا تبھی وہ سچ ثابت ہوا ... آپ جرمینیم کے دعوے کے سچا ثابت ہونے سے خدا کو ثابت کرنے کی دلیل پیش کر رہے ہیں ، ویسے اگر کوئی سائنسدان کوئی دعوی کر دے اور وہ بعد میں غلط ثابت ہو جاے تو کیا آپ اس کو بطور دلیل قبول کریں گے کہ خدا نہیں ہے ؟ تاکہ میں سائندانوں کے ایسے دعوے آپ کے سامنے پیش کر سکوں جو غلط ثابت ہوے ////
محترم جن برسوں کی سائنسی تحقیق کی آپ بات کر رہے ہیں،صرف برسوں کی نہیں بلکہ صدیوں کی سائنسی تحقیق بلکہ سائنس کی تین ہزار سالہ تاریخ میں پہلی بار سائنس نے خدا کی ذات کے سائنسی ثبوت پیش کر دیے۔اب سائنسی مواد بھی اکٹھا ہوگیا وجود بھی مان لیا گیا۔چند نہ ماننے والوں کی ضد سے سائنسی دلائل غلط نہیں ہوجائیں گے محترم۔اب غلط ثابت ہونے والی بات ہی گئ۔دوسو سال سے سائنسدان خدا کا انکار کرتے چلے آرہے تھے۔اب دوسو سال بعد پھر سائنس آہستہ آہستہ ملحد سے مومن ہورہی ہے۔جس کے سائنسی ثبوت میں نے اوپر پیش کیے۔اب سائنس ریورس گیر لگارہی ہے۔ڈارون مردہ ہوچکا۔اب سائنس اسی طرف واپس جارہی ہے کہ اس کائنات میں ایک عالمگیر ذہانت اور حتمی حقیقت موجود ہے جس نے اس کائنات کو تخلیق کیا۔محترم اب آپ بھی مان لیجئے
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں
/////میں دو دن مسلسل ورنر ہیزنبرگ کا Uncertainty Principle سٹڈی کرتا رہا ہوں - پہلے دن پوری تفصیل سے نیٹ کو چھانا لیکن مجھے کہیں نہیں ملا کہ اس نے کہا ہو کہ تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں ، پھر دوسرے دن نیٹ کو کھنگالا کہ ہو سکتا ہے مجھ سے چوک ہو گیی ہو لیکن ورنر ہیزنبرگ کے حوالے سے کہیں ایسا لکھا ہوا نہیں ملا کہ تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں جیسا کہ احید حسن صاحب فرماتے ہیں - حوالے کے طور پر Uncertainty Principle کا لنک اور اسکی ہسٹری درج ہے
https://en.wikipedia.org/wiki/Uncertainty_principle
میری محترم احید صاحب سے درج ذیل گزارشات ہیں :
اے : ہو سکتا ہے مجھ سے تلاش کرنے میں چوک ہو گییی ہو اسلئے مجھے وہ لنک فراہم کر دیں جہاں ورنر ہیزنبرگ نے کہا ہے کہ تمام الیکٹران ایک نامعلوم قوت سے متاثر ہوتے ہیں -
بی : چونکہ احید صاحب اس نامعلوم قوت کو خدا کہتے ہیں اسلئے مجھے وہ لنک فراہم کر دیں جہاں ورنر ہیزنبرگ نے اس نامعلوم قوت کو خدا مانا ہو
سی : احید صاحب اس نامعلوم قوت اور الیکٹران کے حوالے سے اپنے موقف کی وضاحت فرما دیں کہ کیا وہ اس نامعلوم قوت کو اور الیکٹران کو علیحدہ علیحدہ وجود مانتے ہیں ؟////
محترم اگر آپ کو پتہ ہو تو وارن ہیزنبرگ نے اس نظریے کے دو بنیادی نکات پیش کیے تھے۔یعنی ایک ہی وقت میں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا ٹھیک طرح سے تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس نے unobservable quantities پر کوئ بات نہیں کی بلکہ سائنسدانوں سے گزارش کی کہ وہ اس کے نظریے کو وسعت دیں اور حرکت کے Fourier components پر اس نظریے کے مطابق مزید بات کریں اور اس کے اس نظریے کو وسعت دیں۔اس نے Δx and Δp یعنی الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کی تبدیلی کی بھی مکمل تعریف نہیں بیان کی۔اس نے صرف Gaussian states کا تعلق بیان کیا۔اس کے اس نظریے کو Kennard نامی ایک سائنسدان نے ثابت کیا اور اس کے نظریے کی مساوات پیش کی۔اس طرح اس نے اس نظریے کے بنیادی نکات پیش کیے اور وقت کے ساتھ اس پر مزید تحقیق کی گئ کہ آخر کیوں الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا ایک ہی وقت میں تعین نہیں کیا جاسکتا۔اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ ایک نامعلوم قوت الیکٹران پر ہمہ وقت اثر انداز ہوتی ہے اور الیکٹران کے مقام اور ولاسٹی کا تعین ٹھیک طرح سے نہیں کرنے دیتی اور یہ بات نکولس گیسن کے تجربات نے ثابت کردی کہ ایک غیر پیدا شدہ طویل فاصلوں پر مبنی پر اسرار قوت کوانٹم ایونٹس میں موجود ہوتی ہے۔یہ پڑھیں
The twin-photon experiment by Dr. Nicolas Gisin of the University of Geneva and his colleagues last month was the most spectacular demonstration yet of the mysterious long-range connections that exist between quantum events, connections created from nothing at all, which in theory can reach instantaneously from one end of the universe to the other.
https://mobile.nytimes.com/1997/07/22/science/far-apart-2-particles-respond-faster-than-light.html
اب وہ کونسی نامعلوم قوت ہے جو مخلتف مقامات پر موجود تمام کوانٹم اجسام یعنی فوٹان الیکٹران اور دیگر پر پوری کائنات میں اثر انداز ہورہی ہے جو نامعلوم،دائمی اور وقت کی پابندی سے آزاد ہے۔یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کائنات میں موجود ایک نامعلوم قوت مختلف مقامات پر موجود اجسام پر ایک ہی وقت میں اثر انداز ہورہی ہے جو کہ خدا کی قدرت اور اس کے کائنات پر کنٹرول کی نشانی ہے۔خواہ خدا کا نام نہ ماننے والے لوگ اسے خدا کی قدرت کہیں خواہ نہ کہیں لیکن یہ سائنسی تصور براہ راست ایک عالمگیر قوت کے وجود کا ثبوت دے رہا ہے۔جو کہ تمام کوانٹم اجسام پر اثر انداز ہورہی ہے۔اس کا مطلب یہ کہ خدا اپنی قدرت کے ذریعے اپنی تخلیق یعنی تمام کوانٹم اجسام کو کنٹرول کر رہا ہے۔اور یہی وہ کوانٹم اجسام ہیں جن سے ہمارے وجود اور کائنات تخلیق کی گئ ہے۔
آگے عزازی صاحب لکھتے ہیں کہ
/////احید صاحب کے دعوے کے مطابق جو کچھ انہوں نے مالکوم براون اور اسکی تھیوری میں اوپر بیان فرمایا ہے جب میں نے مالکوم براون اور اسکی بیان کردہ تھیوری کی جانچ پڑتال کے حوالے سے نیٹ کو کھنگالا تو جو کچھ مجھے مالکوم براون کے بارے میں معلوم ہوا اس نے مجھے ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیا - احید صاحب ... سائنس کی مانو ، سائنس کی مانو ... کی رٹ لگاے ہوے ہیں لیکن مالکوم براون کون تھا آپ بھی اس کے بارے میں پڑھیے جو معلوم ہوا ہے - اسکا حوالہ بھی نیچے دیا ہوا ہے -
Malcolm Wilde Browne (April 17, 1931 – August 27, 2012) was an American journalist and photographer. His best known work was the award-winning photograph of the self-immolation of Buddhist monk Thích Quảng Đức in 1963.
https://en.wikipedia.org/wiki/Malcolm_Browne
مجھے اندازہ ہے کہ اوپر مالکوم براون کے بارے میں پڑھ کر ملحد حضرات احید حسن صاحب کی دماغی کیفیت کے بارے میں کیا راے قائم کریں گے لیکن میں معصوم ذہن مومنین سے بھی گزارش کرتا ہوں کہ وہ احید حسن صاحب کی تحقیقی کاوش کے بارے میں ایماندارانہ راے قائم کریں جو ایک امیریکن جرنلسٹ اور فوٹوگرافر کو ایک سائنسدان کے طور پر پیش کر کے علمی بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں ....
بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ آپ کو حیرانی ہو گی کہ مالکوم براون نے کبھی بھی ایسا کچھ نہیں کہا جو احید حسن صاحب نے اسکا نام استعمال کر کے اوپر بیان کیا ہے ....
گو کہ احید حسن صاحب یہ کلیم کرتے ہیں کہ یہ سب آرٹیکلز انکی اپنی تحقیقی کاوش ہیں لیکن میں گمان کرتا ہوں کہ کسی دوسرے کا مواد کاپی پیسٹ کرتے ہوے انہوں نے کوئی تحقیق نہیں کی کہ کیا وہ سب کچھ درست ہے جو ایک جرنلسٹ اور فوٹوگرافر سے منسوب کر کے بیان کیا جا رہا ہے ...
میری انسے گزارش ہے کہ انہوں نے جو اوپر مالکوم براون کے حوالے سے بیان کیا ہے اسکا لنک فراہم کریں ...////
اس میں جملہ استعمال کیا گیا ہے کہمالکوم ڈبلیو براؤن کے­ in signal travel an­d faster than speed o­f light کی تحقیقات کے­ مطابق۔جس سے میرا مقصود یہ تھا کہ مالکوم ڈبلیو براؤن کے مضمون in signal travel an­d faster than speed o­f lightکی تحقیق کے مطابق لیکن عزازی صاحب بحث سائنس پر کرنے آئے ہیں اور انہوں نے اس بحث کی تحقیق اور اس مضمون کو نیٹ پر سرچ کرنے کی زحمت نہیں کی ورنہ یہ سوال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔عزازی صاحب نے پڑھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔مالکوم ڈبلیو براؤن محض ایک امریکی صحافی اور فوٹو گرافر نہیں تھا بلکہ ایک سائنسی بندہ بھی تھا جو کہ ایک کیمیا دان یا کیمسٹ اور ایک سائنسی مصنف بھی تھا اور یہ بات اسی لنک میں موجود ہے جس کو پیش کر کے عزازی صاحب لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں اور مجھ پر طنز کر رہے ہیں اور مومنین و ملحدین کو بھی مجھ پر طنز کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں۔عزازی صاحب کا ہی پیش کردہ لنک مالکوم ڈبلیو براؤن کے بارے میں کیا لکھ رہا ہے یہ پڑھیے۔
Before becoming a journalist Browne worked as a chemist and in 1977, he became a science writer, serving as a senior editor for Discover.

https://en.m.wikipedia.org/wiki/Malcolm_Browne
یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ مالکوم ڈبلیو براؤن محض ایک صحافی اور فوٹو گرافر ہی نہیں تھا بلکہ ایک کیمسٹ اور سائنسی مصنف تھا جس نے signal travel an­d faster than speed o­f light نامی وہ مضمون لکھا جس سے میں نے ایک ایسی قوت کا حوالہ دیا جو کہ تمام کوانٹم اجسام یعنی وہ تمام اجسام جن سے کائنات اور ہم بنے ہیں،پر اثر انداز ہورہی ہے۔لیکن عزازی صاحب نے صرف اس مضمون کا پہلا پیرا گراف پڑھا اور اتنے خوش ہوئے کہ آگے پڑھنا ہی بھول گئے۔اب سادہ ذہن ملحدین اور پختہ ذہن مومنین عزازی صاحب کی سادگی اور سائنسی کم علمی پر بھرپور ہنسیں۔اب جس ریسرچ پر مالکوم نے یہ مضمون لکھا اس کا اصل حوالہ بھی پڑھ لیجئے
In 2012, with colleagues, he proved that any possible explanation of quantum correlation based on some hidden influences possibly propagating at superluminal-but-finite speeds (in a preferred reference frame) would activate signaling.
https://en.m.wikipedia.org/wiki/Nicolas_Gisin
Quantum non-locality based on finite-speed causal influences leads to superluminal signalling, J-D. Bancal, S. Pironio, A. Acín, Y-C. Liang, V. Scarani and N. Gisin, Nature Physics 8, 867-870 (2012).
^ Quantum correlations in Newtonian space and time: arbitrarily fast communication or nonlocality, N. Gisin, in Quantum Theory: a two-time success story, Yakir Aharonov Festschrift, pp 185-204, Springer 2014
تاکہ ثابت ہوجائے کہ مالکوم ڈبلیو براؤن ایک فیس بکی دانشور نہیں تھا بلکہ ایک کیمیادان اور سائنسی مصنف تھا جو discover نامی ایک سائنسی تصنیفی معاملے کا سینئر ایڈیٹر تھا۔عزازی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے خدا کی ذات کے سائنسی دلائل پر مضمون کاپی پیسٹ کر کے لکھا۔میرا خیال ہے اب تک میری کی جانے والی گفتگو سے اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں نے مضمون لکھا ہی نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اس کا دفاع بھی کر رہا ہوں الحمداللہ۔

جاری ہے

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔