Friday 9 November 2018

عقیدۂ آزادی

عقیدۂ آزادی آپ کو بتاتا ہے کہ ؛
آپ اپنے فطری و جینون فریم ورک سے نہیں نکلو گے تو آپ آزاد نہیں کہلاؤ گے !

آپ کی زندگی کا مقصد آپ کا خالق طے کرے تو آپ آزاد و روشن خیال نہیں کہلاؤ گے ، بلکہ آپ اگر آزاد نہیں جیتے تو آپ اپنے انسان ہونے کا ہی انکار کرتے ہو ۔۔۔۔۔
مغرب صرف اس فرد کو انسان مانتا ہے جس کے ذریعے سرمایہ پیدا ہو اور جو سرمائے کے حصول کیلئے جئیے !!

آزادی یہ ہے کہ تم اپنی زندگی خود اختیار کرو ،
خیر و شر کے خالق آپ خود ہو ، آپ خود ہی خود کے خدا ہو ،

اس کے برعکس عقیدۂ عبدیت بتاتا ہے کہ آپ آزاد نہیں پیدا کئے گئے ،
آپ اللہ کے عبد ہو ۔۔۔۔۔۔ آپ کا فریم ورک وہ ہے جو اللہ تعالی آپ کو متعین کرکے دے !
اسی میں آپ کی ہر بھلائ ہے ، اسی میں ہر خیر ۔۔۔۔
دینِ اسلام سارے کا سارا ہے ہی خیر خواہ ۔۔۔۔۔

لیکن جمائما دراصل اللہ سے آزاد ہوگئ ہے ، اب یہ اپنی زندگی کا مقصد خود طے کرچکی ہے ، لہذا یہ مغرب کی آنکھ کا تارا ہے ،
اس نے عبد بن کر جینے سے انکار کردیا اور اب یہ ھیومن بئینگ بن گئ ہے ، یعنی یہ اللہ کے عطا کردہ بدن کو اللہ کی مرضی کے تابع نہیں کرنا چاہتی ،۔۔۔،

یہ گھر و فیملی و خاندان کو لات مار چکی ہے
کیونکہ جو بھی عقیدۂ آزادی پر ایمان لے آتا ہے وہ سب سے پہلے جس چیز کو پاؤں کی ٹھوکر پہ لاتا ہے ۔۔  وہ ہوتا ہے گھر ، خاندان ، فیملی ۔۔!!

نظامِ سرمایہ داری میں ورک اور کام ؛ وہ کہلاتا ہے جس سے سرمایہ آئے ،
یہی وجہ ہے مغربی ڈکشنری میں گھر اور خاندان چلانے والی خاتون ورکنگ وومین نہیں کہلا سکتی ۔۔۔۔۔
(حالانکہ وہ 24 گھر سنبھالتی ہے ، اللہ نے اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہوئ ہے) ۔۔۔۔
ورکنگ وومین صرف وہ کہلاتی ہے جو سرمایہ داروں کو لاکھوں کما کر دے ۔۔۔!!
ایک وقت بعد آخر نتیجے سامنے آگئے کہ وہاں کی خاتون عزت کو بھی مارکیٹ میں لے آئ ۔۔۔۔۔۔
My Body is my Property کا تصور عام ہوا
خواتین سیکس ورکر کہلانے لگیں ۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے سب حدیں پار ہوگئیں ،

سرمائے کے حصول کیلئے سب کچھ حلال ہوگیا ۔۔۔۔ کیونکہ مغربی علمیت میں انسان کہلاتا ہی وہ ہے جو اپنے لئے حلال و حرام خود تخلیق کرے ۔۔۔۔۔  

پاکستانی مسلم خواتین بھی اب مغربی ڈسکورس پڑھ لکھ گئ ہیں ۔۔۔۔۔ یہ سرمایہ کمانے کیلئے جنت سے باہر نکل آئ ہیں ،
جو اللہ نے ان کے قدموں تلے رکھی تھی ۔۔۔۔
اللہ نے اس کے قدموں تلے جنت جس کام کی وجہ سے رکھی تھی ۔۔۔۔ جب یہ اس فریم ورک سے ہی بھاگ نکلی تو پھر اب اس کا وہ مقام قائم نہیں رہا ۔۔۔۔۔

اس نے اپنی اصل جگہ اور اپنا حقیقی و پرسکون مقصدِ زندگی فنا کردیا ۔۔۔۔

سرمایہ دارانہ نظام جمائما کے ذریعے لاکھوں کمائے گا ،
اس کا لباس ، اس کی فیزیک ، اس کے سونے اٹھنے کا ٹائم ٹیبل ، یہ کیا کھائے گی اور کیا نہیں ، اور کتنا کھائے گی ، کس وقت کھائے گی ، کس وقت نہیں ۔۔۔۔۔ کوئ ایک بھی کام یہ آج کے بعد اپنی مرضی سے نہیں کرپائے گی ۔۔!!
سرمایہ دار اب اس کی زندگی کا خدا ہے ، وہی اب اس کی ایک ایک حرکت ڈیسائیڈ کرے گا ۔۔۔۔۔۔

لیکن یہ پھر بھی آزاد کہلائے گی ،
کیونکہ آزادی کا مطلب صرف یہ ہے کہ ؛
یہ گھر سے نکل کر باہر کی دنیا میں آگئ اور آج کے بعد یہ صرف اسی کام کو ترجیح دے گی ، جس سے پیسہ حاصل ہو ۔۔۔۔۔

اسے آپ کسی ریسٹورانٹ میں لگوا دیں ۔۔ یہ وہاں بھی روٹیاں اور پیزے تیار کر کرکے سارا دن ، ساری رات لوگوں کو کھلا لے گی ۔۔ کیونکہ اس سے سرمایہ حاصل ہوگا ۔۔۔۔۔

یہ ہر ایرے غیرے کے سامنے اپنا بدن لیکر گھومتی پھرے گی ، ساری دنیا اس کے جسم کی اونچ نیچ و سائز سے واقف ہوگی ۔۔۔۔۔۔
بھاگتی دوڑتی ، دن رات ایک کرتی ۔۔۔۔ نہیں تھکے گی ۔۔۔۔
کیونکہ اس بدترین و گھٹیا غلامی کے ذریعے اسے سرمایہ حاصل ہوگا ۔۔۔۔!!

اللہ تعالی ہماری خواتین کو عقل دے ، دین کی سمجھ عطا فرمائے ، وگرنہ عصرِ حاضر کی اِن ماڈرن خواتین کا کوئ ارادہ نہیں ۔۔۔۔۔۔  ''جنتوں کے اوپر قدم جمائے رکھنے کا''

#انس_اسلام

https://bbc.in/2QzW9ZO

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔