Monday 5 November 2018

ایک ملحد کا قرآن مجید پر اعتراض اور اس کا جواب

ایک ملحد کا قرآن مجید پر اعتراض اور اس کا جواب
(سعید احمد،احید حسن)

فری فرام تھنکنگ  گروپ کے جناب،سید امجد حسین،صاحب نےایک کتاب،بعنوان،
"اعجاز القران"
پر،ایک تنقیدی جائزہ،کے نام سے لکھی ہے۔
ہم ان کے اعتراضات پر ایک ایک کرکے جواب دیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موصوف نے اپنی کتاب کے صفحہ نمبر18 پر فرماتے ہیں،
انسان اپنی زبان کا خالق خود ہے،اور اسکا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ،دنیا کی ہر زبان ناقص ہے۔
// //
Answer.............
سوال یہ ہے کہ آپ نے یہ کتابی کاوش کس زبان میں لکھی ہے؟
2- اگر اردو میں ہے ،تو آپکے مطابق ہر زبان، ناقص ہے،تو پھر
  آپکی یہ کتاب،"زبانِ ناقص" ہونے کی وجہ سے،0 ہو جاتی ہے۔
3- یوں،آپکی یہ کاوش، کھوہ کھاتے میں پڑ گئی،آپ نے خوامخواہ ،اپنے،سمع،بصر فؤاد،کو ایک ناکام کوشش میں لاکر،اپنا اور تمام لوگوں کا ٹائم ضائع کیا۔
ملحد کا یہ دعوی کہ انسان اپنی زبان کا خود خالق ہے،یہ بات فرض کرتے ہوئے کیا گیا ہے کہ انسان ارتقا کی پیداوار ہے اور انسان نے وقت کے ساتھ ساتھ باقی جانوروں کے برعکس بولنا شروع کر دیا۔ملحد کا یہ دعوی غلط ہے۔آج جدید جینیٹکس ثابت کر چکی ہے کہ تمام انسان ایک ہی مرد اور عورت یعنی مائیٹوکونڈریل حوا اور وائے کروموسوم آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں جب کہ ارتقا کے پیش کیے جانے والے فوسل غلط ہیں اور جدید جینیٹکس بھی نظریہ ارتقاء کی تردید کرتی ہے۔کوئ ملحد اس پر بات کرنا چاہے تو ہم تیار ہیں ان شاء اللہ۔اب جب انسان ارتقا کی پیداوار ہے ہی نہیں بلکہ وہ پیدا کیا گیا تو یہاں سوال اٹھتا ہے اللہ تعالٰی نے آدم کو بنایا اور اُن سے کلام فرمایا۔ انسان زبان کے ذریعہ بات سمجھتا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو بغیر زبان کے بھی بات پہنچا سکتا ہے ۔ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ لیکن اگر اللہ تعالیٰ نے آدم ؑسے بات کرنے کے لئے زبان اختیار فرمائی ، تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ اور ان کی زوجہ کو جنّت میں رکھا ۔ یہ دو انسانوں کا پہلا جوڑا جنّت میں ایک دوسرے سے باتیں کرتا ہوگا تو وہ کون سی زبان تھی؟
اللہ تعالٰی نے آدم ؑ کو زمین کے تمام اَسْمَاء سکھائے۔ اَسْمَاء اِسم کی جمع ہے اور اِسم زبان ہی کا حصّہ ہوتا ہے۔ تو یہ اسماء جس زبان کا حصّہ تھے وہ کون سی زبان تھی؟
دنیا میں آنے کے بعد مکہ مکرّمہ میں ان دونوں کی ملاقات کروا دی گئی۔ دنیا کی زندگی کے تقاضے کے تحت ، وہ دونوں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہوں گے تو وہ کون سی زبان تھی؟
اِس جوڑے کو اللہ نے اولاد عطا کی اور اِس طرح توالُداور تناسُل کا سلسلہ شروع ہؤا اور نتیجے کے طور پر یہیں پہلا انسانی معاشرہ وجود میں آیا ۔ اسی لئے مکہ مکرّمہ کو امّ القراء (بستیوں کی ماں یا بستیوں کی جڑ) کہا گیا۔ یہ پہلے والدین اور اُن کےبچّے آپس میں ایک دوسرے سے کلام کرتے ہوں گے۔تو وہ کون سی زبان تھی؟
یہی وہ زبان تھی جو تمام زبانوں کی ماں (اُمُّ الْالْسِنَہ) کہی جا سکتی ہے۔
مکہ مکرّمہ اور اس کے قریب کا علاقہ رہائش کے لئے دشوار بھی تھا اور سیلاب وغیرہ کی وجہ سے آبادی اور وسائل کو نقصان بھی پہنچ جاتا تھا۔ لِہٰذا یہ علاقے متعدد بار آباد بھی ہوئے اور یہ آبادیاں یہاں سے منتقل بھی ہوتی رہیں یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے تو خانہ بدوشی ہی کو اپنا طرزِ زندگی بنا لیا۔ اولادِ آدمؑ آس پاس کے علاقوں میں پھیل گئی جہاں آج شام ،یمن، فلسطین اور عراق وغیرہ واقع ہیں۔ ان علاقوں میں بس جانے والے لوگ اپنے ساتھ وہی زبان ، اُمُّ الْالْسِنَہ لائے تھے۔ وقت کے ساتھ اِس زبان میں کچھ تَنَوُّع بھی پیدا ہؤا۔ پھر ایک طرف یہ ہؤا کہ اللہ تعالٰی نے اِبراہیم ؑ کے بیٹے اِسماعیل ؑ سے اور یمن سے آنےوالے قبیلے جُرْھُم سے اِس خطّے کو پھر سے آباد فرما دیا اور جو زبان ان کے پاس تھی، وہ اُمُّ الْالْسِنَہ ہی کی ایک شکل تھی، وہی زبان پھر سے اِس علاقے کی زبان ہو گئی اور عربی زبان کے نام سےجانی جانے لگی ۔
دوسری طرف اِرْتِقَاء کے مراحل طے کرتے ہوئےفونیقی قوم (PHOENICIANS) نے جو حجاز کے شمال میں واقع تھی زبان کو لکھنا شروع کیا جس طرح وہ آج لکھی جاتی ہے اور آس پاس کی اقوام نے ان سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ اب لکھی اور پڑھی جانے لگی۔
وقت گزرنے سے اُمُّ الْالْسِنَہ کی مختلف شکلیں حجاز کے قرب و جوار میں وجود میں آئیں مگر دینِ محمّدﷺ کے فروغ کے ساتھ ان علاقوں میں بھی حجاز کی زبان ہی کو قبولِ عام حاصل ہو گیا ۔ آج اُمُّ الْالْسِنَہ کی اُن تمام قدیم شکلوں میں سے کوئی بھی موجود نہیں ہے سوائے عربی زبان کے۔ اس طرح اُمُّ الْالْسِنَہ کی جو شکل آج موجود ہے وہ صرف عربی زبان ہی ہے اور کوئی نہیں۔ لہٰذا آج ہم عربی ہی کو اُمُّ الْالْسِنَہ کہہ سکتے ہیں۔
اب ہم عربی زبان کی چند اور خصوصیات کا بہت ہی اختصار سے ذکر کریں گے:
قدیم: یہ بہت قدیم ہے کہ اس سے زیادہ قدیم زبان آج کہیں موجود نہیں ہے۔
قوی: یہ بہت قوی ہے کہ ہزارہا سال سے قائم ہے۔
خوبصورت: یہ بہت خوبصورت ہے کہ اس کو نہ جاننے والے گونگے شمار ہوتے رہے۔
آسان: یہ بہت آسان ہے کہ اس کے قواعد کی تعداد بہت کم ہے۔
منظم: یہ بہت منظم ہے کہ اس میں لغت و بیان کے مستقل نظام موجود ہیں۔
محفوظ: یہ بہت محفوظ ہے کہ اللہ کی محفوظ کتاب اسی زبان میں ہے۔
حوالہ۔۔۔۔۔
عربی زبان کی خصوصیات اورہمارے لئے اس کو سیکھنے کی ضرورت و اہمیت
(محمد طارق انصاری اِٹاوی)
عربی زبان  و ادب عرب قوم سامی اقوام کی ایک شاخ ہے۔  ان قوموں میں بابلی، سریانی فینیقی، آرمینی، حبشی، سبئی اور عربوں کو شامل کیا جاتا ہے۔  مؤرخین نے عرب اقوام کو مندرجہ ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔

 (۱) عرب بائدہ: یہ وہ عربی اقوام ہیں جن کے حالات کا نہ تو تاریخ سے پتہ چلتا ہے اور نہ ہی آثار قدیمہ سے البتہ ان کی زبان کا نمونہ ان کتبوں اور تحریروں میں ہے جو حال کی کھدائیوں میں ملے ہیں۔لہذا عربی زبان کی تاریخ انسان کی معلوم تاریخ سے بھی پرانی ہے۔جب اس زبان کی تاریخ ہی معلوم تاریخ سے بھی زیادہ پرانی ہے تو بغیر کسی مستند دلیل کے یہ ملحد کیسے دعوی کر سکتا ہے کہ قرآن کی زبان یعنی عربی کا خالق بھی انسان خود ہے۔تاریخ سے پہلے کے واقعات اس کو اس کا ابا ڈارون آکر بتاتا ہے کیا؟

(۲) عرب عاربہ یا قحطانی عرب: یہ یمن کے وہ باشندے ہیں جو نسلاً یعرب بن قحطان کی اولاد میں سے ہیں۔  عربی زبان کے اصلی بانی یمن کے یہی باشندے تھے۔

(۳) عرب مستعربہ یا عدنانی عرب: یہ حجاج کے وہ عرب ہیں جو عدنان کی نسل سے تھے یہ لوگ انیسویں صدی قبل مسیح حجاز میں آ کر ٹھہرے اور یہی بس گئے۔

             مذکورہ بالا تمام اقوام عربی زبان بولتی تھیں۔  عربی زبان کی ابتدا اور اس کی نشوونما ماہرین لسانیات کا اتفاق ہے کہ سامی اقوام اپنی بستیوں میں جو زبانیں بولتی تھیں ان ہی ایک شاخ عربی زبان بھی ہے۔  اور اس طرح عربی زبان کو آریائی یا حامی زبان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  عربی زبان دنیا کی ان وسیع ترین سلیس اور خوبصورت زبانوں میں سے ہے جن کی مثال مشکل سے ملے گی۔  یہ زبان دائیں سے بائیں طرف کو لکھی جاتی ہے۔  اس میں ۲۸ حروف تہجی ہیں۔  اس زبان میں بعض حروف جیسے (ض) ایسے ہیں جو دوسری زبانوں میں نہیں ملتے اور نہ دوسری قومیں ان کا صحیح تلفظ کرسکتی ہیں اسی لیے عرب فخریہ کہتے ہیں کہ ’’نحن الناطقون بالضاد‘‘ یعنی دنیا میں صرف ہم ہی ضاد کا صحیح تلفظ کرسکتے ہیں۔  اس زبان میں الفاظ کی آخر آواز کو مخصوص نشانوں (اِعراب) کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔  حروف کے ذریعہ لکھ کر نہیں ، جیسا کہ آریائی زبانوں میں ہوتا ہے۔  اسی زبان میں مسلمانوں کی مقدس مذہبی کتاب قرآن شریف نازل ہوئی ہے اور اسی زبان میں اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی باتیں کہی ہیں اور مذہبی تعلیم دی ہے۔  ۱۹۶۰ء کی مردم شماری کے مطابق اس زبان کو جزیرہ نمائے عرب کے علاوہ ہلال حصیب شمالی افریقہ اور دوسرے ملکوں کے ایک کروڑ سے زائد اشخاص بولتے ہیں۔  اور چوں کہ اس زبان میں قرآن اور حدیث کے علاوہ تمام اسلام علوم و فنون بھی لکھے گئے ہیں اس لیے ساری دنیا کے مسلمان اسے اپنی مقدس مذہبی زبان مانتے ہیں۔  انجمن اقوام متحدہ نے دوسری چار زبانوں کے ساتھ اسے بھی اپنی کارروائیوں کے لئے تسلیم کر کے اس کی بین الاقوامی حیثیت کو سندِ اعتبار عطا کی ہے۔
حوالہ۔۔۔
عربی زبان و ادب
نا معلوم

ماخذ:

۱۔اردو انسائکلو پیڈیا، کاؤنسل برائے فروغ اردو زبان، حکومتِ ہند
۲۔ویب پر ’اردو پیڈیا‘
http://urdupedia.in
لہذا ملحد نے قرآن کی زبان عربی کے نعوذ بااللہ ناقص ہونے کا جو دعوی پیش کیا معلوم انسانی تاریخ اس کی تائید نہیں کرتی۔لہذا جب عربی زبان کا انسان کی تخلیق ہونا غلط ثابت ہوا تو اس کے انسانی تخلیق  ہونے کے لیے اس کے ناقص ہونے کی دلیل بھی کمزور پڑ گئ۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔