کیا دہلی کی تاریخی جامع مسجد قوت الاسلام کی تعمیر میں 27 مندروں کو توڑ کر ان کا ملبہ استعمال کیا گیا؟ کیا یہ مسجد ایک مندر کی جگہ پہ تعمیر کی گئی تھی؟ کیا دہلی کا قطب مینار ایک ہندو رصد گاہ تھی؟ کیا قطب مینار کسی ہندو بادشاہ کی تعمیر تھی؟
دہلی کی تاریخی جامع مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار کی تعمیر کے بارے میں ہندوؤں اور ملحدین کے اعتراضات اور ان کا جواب
تحریر: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دہلی کی مشہور تاریخی مسجد قوت الاسلام کے بارے میں ہندوؤں کی طرف سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ مسجد ایک قدیم ہندو قلعے" قلعہ رائے پتھورا" کے مرکز میں واقع ایک بہت بڑے ہندو مندر کی جگہ پہ تعمیر کی گئی ہے اور اس کے ستونوں کی تعمیر میں مسمار کیے گئے 27 مندروں کا ملبہ اور ستون استعمال کیے گئے۔اس مسجد کے بارے میں غیر مسلم اعتراضات کا واحد سب سے بہترین جواب کسی مسلم اہل علم نے دیا ہے وہ ڈاکٹر عزیز احمد ورسی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کا آغاز 1193 ء میں ہوا اور 1197ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔آثار سے پتہ چلتا ہے کہ اس مسجد کی تعمیر مرحلہ وار ہوئی، ایبک کے دور میں یہ مسجد صرف ستائیس کھمبوں پر بنائی گئی تھی جو وضع قطع میں جین طرز تراش رکھتے ہیں۔ چونکہ قطب الدین ایبک کے ساتھ مسلم تہذیبی نقوش کو تراشنے والے فنکار نہیں تھے اسی لئے یہ عین ممکن ہے کہ قطب الدین ایبک نے وہاں موجود سنگ تراشوں سے خدمات حاصل کی ہوں، یہ فنکار وہ تھے جن کے دل و دماغ پر ایک خاص طرز کی تعمیری روایات کی تہہ چڑھی ہوئی تھی۔اس کے علاوہ مسجد کے ستونوں کی اس مقام پر موجودگی سے متعلق ایک قیاس یہ بھی ممکن ہے کہ ان سنگ تراشوں نے قطب الدین ایبک کو جین منادر کی سنگ تراشی دکھلائی تاکہ اسی انداز کے ستون تراشے جاسکیں جس کو ایبکؔ نے پسند کیا۔بعض منہدم قلعوں سے سے بطور نمونہ ان سنگ تراشوں نے یہ ستون اٹھوالئے تاکہ ان ستونوں جیسے ستون تراشے جاسکیں،لیکن حالات کے پیش نظر ان ستونوں کو تراشنے کے بجائے ان ہی ستونوں کو مسجد کی تعمیر میں لگوادیا جیسا کہ نیچے حسن نظامی کی تاریخ سے واضح ہے۔
ایک عام سیاح جب ان ستونوں کو دیکھتا ہے تو قطعی یہ محسوس نہیں کرتا کہ اس ایک مسجد کی تعمیر کے لئے 27منادر کو منہدم کیا گیا ہوگا ۔ کیونکہ عام طور پر منادر وسیع رقبے پر سینکڑوں ستونوں کے ساتھ بنائے جاتے ہیں، مسجد میں ستونوں کی تعداد صرف اسی قدر ہے کہ ایک ہی مندر کو توڑا جاتا تو درکارستونوں کی تعداد حاصل کی جاسکتی تھی اور ایک ہی جیسی وضع قطع کے ستون بہ آسانی حاصل کئے جاسکتے تھے لیکن مسجد میں ستونوں کی ہیت جدا گانہ ساخت رکھتی ہے اسی لئے اہل دانش و بینش کو 27منادر کے توڑنے کا ذکر کسی قدر تردد میں ڈال دیتا ہے۔ ہم احمد آباد کی جامع مسجد اور دوسری کئی مساجد میں جینی طرز تراش دیکھ سکتے ہیں ، جینی طرز تعمیر سنگ تراشوں کے ذہن پر چھایا ہوا تھا اس کے باوجود ان معماروں نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی جو اسلامی شریعت کی رو سے قابل گرفت ہوا یا جس کو حرام قرار دیا گیا ہو۔اس کی مثال ہم جامع مسجد شمبر (چمپانیر)اور گجرات وغیرہ کی دوسری مساجد میں دیکھ سکتے ہیں، ان مساجد میں ستون بطور خاص مسجد کے لئے تراشے گئے لیکن یہ ستون وضع قطع کے اعتبار سے مکمل جینی اور ہندو طرز تراش رکھتے ہیں ۔ اس لئے مسجد قوت الاسلام دہلی میں استعمال شدہ ستونوں کے متعلق یہ اظہار خیال کہ یہ ستون 27 جین اور ہندو منادر کو توڑ کر لائے گئے ہیں، نا مناسب ہے۔ہندوستان میں آمد کے بعد کا بالکل ابتدائی زمانہ تھا اور اس دور کے حکمراں ہندوستانی ریت رواج اور تہذیب سے کما حقہ واقف بھی نہیں تھے اسی لئے مقامی افراد پر انحصار کر بیٹھے جس کا اظہار ان دو تعمیرات یعنی قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام کے ذریعہ ہوتا ہے۔جب اپنے منصوبے پر عمل آوری کا مرحلہ آیا تو اس نے اسلامی طرز کی تعمیر کے لئے معماروں اور فنکاروں کی کمی محسوس کی لیکن اس نے اس کمی کو مقامی معماروں اور فنکاروں کی بھرتی کے ذریعہ پورا کیا۔ اس طرح قطب الدین ایبک ؔ نے مقامی معماروں سے مسجد اور قطب مینار بنانے کا بیڑہ اٹھایا۔کیونکہ ان تعمیرات کے لئے آناً فاناً افغانستان اور ایران سے معماروں کو طلب کرنا آسان نہ تھا اور مقامی معماروں کا دل توڑنا مناسب نہ تھا اسی لئے مقامی معماروں کو اس کام کے لئے منتخب کیا گیا جنہوں نے مقامی تعمیری اشیاء کو اپنے ذہن میں منقوش سانچے میں ڈھال کر ایسی چیزیں بناڈالیں جو تعمیری اعتبار سے اسلامی کم اور ہندوستانی زیادہ لگتی تھیں اور اس طرز تعمیر کو ایبک ؔ نے پسند بھی کیا، اس طرح مسجد قوت الاسلام کا وجود عمل میں آیا ۔
ہم سہولت کی خاطر مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کے تین مرحلے مقرر کر سکتے ہیں ، پہلا مرحلہ قطب الدین ایبک ؔ کا ہے اس مرحلے میں مکمل تعمیر پر ہندو تعمیری روایت کا غلبہ رہا۔ دوسرا مرحلہ التمش ؔ کی توسیع کا ہے جس میں ہمیں ہندوروایات کا غلبہ قطعی نہیں ملتا بلکہ ان تعمیرات میں اسلامی طرز کی جانب جھکاؤ کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے حالانکہ ستونوں کی تراش خراش میں ہمیں سنگ تراشی کے بنیادی اصولوں کے مطابق جینی تعمیری فطرت ضرور نظر آتی ہے لیکن اسلامی طرز تعمیر کی جھلکیاں بھی جا بجا نظر آتی ہیں اور تیسرا مرحلہ علاؤالدین خلجی کی تعمیرات جیسے علائی دروازہ وغیرہ جس میں قال قال ہی ہندو تہذیبی روایات کا اظہار ہوتا ہے ۔
ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی کے مطابق یہ مرحلہ یعنی علاؤالدین کے دور تعمیر کا مرحلہ ہندوستانی تعمیری روایات میں ایک اہم موڑ ہے کیونکہ اس کے بعد کے دور میں ہندوستان میں تقریباً تمام بادشاہوں نے اپنی تعمیرات کو بنیادی طور پر اسلامی تعمیری اصولوں کے سانچے میں ڈھال کر بنایا اور اسلامی تعمیری طرز کو اپناتے ہوئے کہیں کہیں ہندو تعمیری تہذیب کے عناصر بھی اس میں شامل کر دیا تاکہ اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوسکے۔اگر ان مسلم بادشاہوں کو صرف منادر ہی توڑنا ہوتا تو نہ ہندوستان میں منادر کی کمی تھی اور نہ مسلم بادشاہوں کی تعمیرات کا سلسلہ کبھی رکا تھا۔اسی لئے جب ہم مسلم تعمیرات کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ جب حملہ آور بادشاہوں نے ہندوستان میں کچھ وقت گزار لیا اور یہاں کی تہذیب اور تعمیری روایات سے واقف ہوگئے تو ہندوستان کو ایسی ایسی تعمیرات دیں جس کا جواب ملنا ساری دنیا میں مشکل ہے،ان بادشاہوں نے اپنی سلطنت کو تقریباً سارے ہندوستان تک وسعت دی تو سونچنے کی بات یہ ہے کہ اس دور میں ان بادشاہوں نے آخر کتنے منادر کو منہدم کیا اور ان منادر کے ستونوں سے کتنی مساجد بنوائیں، حالانکہ اس دور میں ان کے کسی فیصلے کو رد کرنے کی نہ کسی میں طاقت تھی اور نہ ہی کوئی حکومت ان سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتی تھی ۔اس تناظر میں ایک مورخ یہ بتائے کہ آخر مسلمان حکمرانوں کی بنائی کتنی تعمیرات یا مساجد ایسی ہیں جنہیں جین یا ہندو منادر کو توڑکر بنایا گیا ہے،قطب کامپلکس میں ہمیں التمش ؔ کا مقبرہ بھی نظر آتا ہے جس میں ہندو طرز کی جھلکیاں زیادہ دکھائی دیتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ بھی کسی ہندو عبادت گاہ کو مسمار کرکے بنایا گیا ہے ،حقیقت یہ ہے کہ اس دور کے معماروں اور مہندسوں کے دل و دماغ پر ہندوستانی طرز تعمیر سوار تھی اور ان کی سونچ پر محض اسی تعمیری تہذیب کا غلبہ تھا،ا سی لئے اس زمانے کی بیشتر تعمیرات جو ہندوستانی معماروں کے ذریعہ انجام پائیں ہندوستانی تعمیری جھلکیوں کا مسلسل اظہار کرتی رہتی ہیں۔"[1]
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق مسجد کے اندرونی مشرقی دروازے پہ کندہ ایک فارسی تحریر کے مطابق کہ یہ مسجد 27 ان جین مندروں کو توڑ کر تعمیر کی گئی تھی جو طومار راجپوتوں اور پرتھوی چوہان کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے۔[2،3،4]
اس کے لیے ہم نے جب قطب الدین ایبک کے زمانے کے تاریخی ذرائع کی تحقیق کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اس کے ثبوت میں جو سب سے بڑا حوالہ جو دیا جاتا ہے وہ اس کے واقعہ نگار کا ہے جو درج ذیل جملے لکھتا ہے:
فاتح شہر میں داخل ہوا اور اس کے گرد و نواح کو بتوں اور بتوں کی پوجا سے پاک کر دیا گیا اور بتوں کی شبیہوں والی عبادت گاہوں میں ایک خدا کے ماننے والوں کی طرف سے مساجد تعمیر کی گئیں۔[5]
یہ حوالہ مسجد قوت الاسلام کو ایک سابق ہندو مندر ثابت کرنے میں درج ذیل وجوہات کی وجہ سے ناکام ہے:
1:یہ الزامات لگانے والوں نے قطب الدین ایبک کے واقعہ نگار کے حقیقی مسودے کا حوالہ نہیں دیا کہ وہ مسودہ کہاں سے شائع ہوا کس نے لکھا، صرف واقعہ نگار کے حوالے سے اوپر مذکور جملے لکھ دیے گئے ہیں
2: اوپر مذکور جملے یہ لکھ رہے ہیں "فاتح شہر میں داخل ہوا اور اس کے گرد و نواح کو بتوں اور بتوں کی پوجا سے پاک کر دیا گیا اور بتوں کی شبیہوں والی عبادت گاہوں میں ایک خدا کے ماننے والوں کی طرف سے مساجد تعمیر کی گئیں۔" اس میں شہر کے گردو نواح کو بتوں سے پاک کرنے اور مندروں کی جگہ مساجد( ایک خاص مسجد نہیں کئ مسجدیں بنانے کا ذکر ہے)، کیا خاص مسجد قوت الاسلام کی جگہ واقعی وہ 27 مندر آباد تھے جن کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ ان کو توڑ کر ان کا ملبہ مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا گیا، اس کی حوالے میں کوئی تخصیص نہیں۔
3: اگر مسجد قوت الاسلام کی جگہ حقیقت میں 27 مندر توڑ کر واقعی مسجد تعمیر کی گئی تھی تو اتنے بڑے واقعے پہ اس زمانے کے باقی ہندو مورخ کیوں خاموش رہے۔ اتنے بڑے واقعے کا ذکر اس زمانے کے کسی ہندو کی وقائع نگاری میں کیوں نہیں ملتا۔
یہ سب وہ باتیں ہیں جو اس حوالے کے مسجد قوت الاسلام کو ایک سابق مندر اور ہندو قلعہ ثابت کرنے میں ناکام ہو جاتی ہیں۔
اگرچہ قلعہ رائے پتھورا جو اس جگہ مسجد کی تعمیر سے لگ بھگ دو سال قبل تعمیر کیا گیا تھا پرانے دہلی جسے اس زمانے میں لال کوٹ کہا جاتا تھا کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، اس کے احاطے میں قدیم شہر واقع تھا کی قدیم دیواریں مسجد کے اردگرد واقع ہیں،[6]
لیکن کیا واقعی اس جگہ اور عمارات کے ساتھ وہ مبینہ ایک یا 27 مندر موجود تھے جن کو توڑ کر یہ مسجد تعمیر کی گئی، آج تک اس کا کوئی تاریخی ثبوت میسر نہیں۔ قطب الدین ایبک نے دہلی کی فتح کے بعد قلعہ کی ساخت میں تبدیلی یا توسیع نہیں کی۔[7]
یہی دعوی اجمیر مسجد کے بارے میں بھی کیا جاتا ہے کہ وہ بھی قدیم مندروں کو توڑ کر ایبک کی طرف سے تعمیر کی گئی لیکن اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔
Archaeological Survey of India
کا دعوی ہے کہ چودہویں صدی میں دہلی کی سیر کرنے والے ابن بطوطہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ مسجد کی جگہ پہلے مندر واقع تھا جس کی جگہ مسجد قائم کی گئی۔ لیکن آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے کبھی ابن بطوطہ کے اصل سفر نامے کا حوالہ پیش نہیں کیا اور دوسری بات یہ ہے کہ ابن بطوطہ نے اس جگہ کا سفر چودہویں صدی عیسوی میں کیا جب کہ مسجد اس سے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال پہلے تعمیر ہو چکی تھی۔ آج کے برقی دور اور تیز رفتار مواصلات کے باجود حقیقت کیا سے کیا ہو جاتی ہے اور عوام کئ کئ سال حقیقت نہیں پا سکتی جیسا کہ بینظیر کا قتل اور اسامہ بن لادن کی شہادت تو پھر اس دور کے بارے میں کیا کہا جائے جب ان میں سے کوئی سہولت میسر نہیں تھی۔ بات پھر وہیں پہ آتی ہے کہ ہمیں اب تک قطب الدین ایبک کے زمانے سے کوئی ایسا حوالہ نہیں ملتا جو ثابت کرے کہ پہلے یہاں مندر واقع تھا۔
اب اگر مسجد کی تعمیر کے بارے میں غور کیا جائے تو خود ہندوؤں کے اپنے دعووں میں تضاد ہے۔ کبھی دعوی کیا جاتا ہے کہ مسجد ایک سابقہ ہندو مندر کی جگہ تعمیر کی گئی اور کبھی یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ مسجد کی تعمیر میں 27 مندروں کو توڑ کر ان کا ملبہ استعمال کیا گیا اور مندر کے کچھ حصے خاص مسجد کی حدود کے باہر واقع ہیں۔[9]
یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ مسلم مورخ مولانا سید حکیم عبدالحی کے مطابق بھی قطب الدین ایبک بت شکن تھا لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا مولانا صاحب کے تاریخی ذرائع قطب الدین ایبک کے ہم عصر ذرائع سے ہوتی ہے یا نہیں، اس کا کوئی ثبوت نہیں۔ جب کہ تاریخ میں تو آج تک یہ بھی ثابت نہیں کہ مسجد اور قطب کمپلیکس کی تعمیر قطب الدین ایبک نے کی یا التمش نے۔[10]
پھر یہ کس طرح دعوی کر لیا گیا کہ قطب الدین ایبک بت شکن تھا اور اس نے اس جگہ سارے بت توڑ کر مسجد تعمیر کی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ابن بطوطہ کے مطابق مسجد کے مشرقی دروازے کے پاس تانبے کے دو بڑے بت تھے جو پتھروں سے جڑے ہوۓ تھے اور لوگ ان کو روندتے ہوئے گزر جاتے تھے۔[11]
ایک بار پھر اس بات کے حوالے میں ابن بطوطہ کے اصل متن کا کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ ابن بطوطہ اوپر مذکور بات اپنے دہلی کے سفر کے دوران کے حوالے سے لکھ رہا ہے یا اپنے سے پہلے کا حال بیان کر رہا ہے، حوالے میں اس بات کی کوئی تخصیص نہیں۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مسجد کی تعمیر کی حقیقی تاریخ تو دور کی بات آج تک تاریخ میں اس مسجد کا اصل نام معلوم نہیں کہ تعمیر کے وقت اس کا اصل نام کیا رکھا گیا تھا۔پرانی کتابیں اسے قبۃ اسلام کہتی ہیں جب کہ آر این منشی کہتا ہے کہ اس کا اصل نام قطب الاسلام تھا۔مسجد کے مشرقی دروازے پہ درج ذیل تحریر کنداں ہے:
قطب الدین ایبک، اس پہ اللٰہ تعالٰی کی رحمت ہو، یہ قلعہ 587 ہجری میں فتح کیا گیا اور یہاں مسجد قطب الدولۃ الدین نے تعمیر کی جو کہ سرداروں کا سردار تھا۔ اللٰہ تعالٰی اس کے معاونین کا مرتبہ بلند کرے۔ اس کی تعمیر میں 27 مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا۔ اللٰہ تعالٰی اس کے تعمیر کرانے والے قطب الدین ایبک پہ رحمت فرمائے۔"!آمین
یہاں تک کہ یہ تحریر بھی یہ بات ثابت کرنے میں ناکام ہے کہ مسجد واقعی 27 مندروں کا ملبہ استعمال کرکے تعمیر کی گئی کیوں کہ تحریر اس کے تعمیر کرانے والے قطب الدین ایبک کو رحمۃ اللٰہ علیہ لکھ کے صاف صاف ظاہر کر رہی ہے کہ یہ تحریر مسجد کی تعمیر کے وقت نہیں بلکہ اس کے بعد کنداں کی گئی جب قطب الدین ایبک وفات پا چکے تھے۔ لہذا یہ تحریر قطب الدین ایبک کے زمانے کی صحیح تاریخ بیان نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ ان کی وفات کے بعد کنداں کی گئی اور مسجد کی تعمیر کے کتنے عرصے بعد کب کی گئ یہ بالکل معلوم نہیں کیوں کہ کنداں تحریر پہ تحریر کی تاریخ درج نہیں۔ اور دوسری بات ایک بار پھر وہی کہ کئ قدیم کتابوں کے مطابق مسجد کی تعمیر قطب الدین ایبک نے نہیں بلکہ التمش نے کی۔ تعمیر کا اختلاف اپنی جگہ برقرار ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں اپنے فاتحین کو بت شکن کہنے اور ان کو ہیرو ثابت کرنے کے لیے ان کی بت شکنی کے بڑے بڑے واقعے گھڑ لینے کا شوق تھا جیسا کہ محمود غزنوی کے بارے میں دعوی کیا جاتا رہا کہ اس نے سومنات کا مندر توڑ ڈالا جب کہ اب رومیلا تھاپر جیسے کئ ہندو مورخین خود کہتے ہیں کہ غزنوی کی طرف سے سومنات کا مندر توڑنے کی کہانی حقیقت نہیں بلکہ جذباتی مسلمانوں کی ایجاد ہے جنہوں نے اسے بت شکن ثابت کرنے کے لیے یہ کہانی گھڑ لی۔
اس حوالے سے سب سے اہم اور مضبوط حوالہ حسن نظامی کی تصنیف تاج المعاصر ہے۔ وہ بھی قطب الدین ایبک کی ہم عصر نہیں ہے لیکن ان کے زمانے کے سات سال بعد کی ہے۔ قطب الدین ایبک کی وفات کے سات سال بعد اس مسجد کے حالات بیان کرتے ہوئے حسن نظامی اس تاج المعاصر میں لکھتے ہیں:
قطب الدین ایبک نے دہلی کی یہ جامع مسجد تعمیر کی اور اسے ان مندروں سے حاصل کیے گئے سونے چاندی سے سجایا جو جنگ کے دوران ہاتھیوں کی وجہ سے تباہ ہو گئے تھے اور اسے خدائی احکامات پہ مبنی کنداں تحریروں سے ڈھک دیا۔"
یہاں بڑی دلچسپ اور زبردست صورتحال بن جاتی ہے۔ حسن نظامی جو کہ قطب الدین ایبک کے زمانے کے صرف سات سال بعد اس مسجد کی تاریخ لکھ رہے ہیں وہ بالکل یہ نہیں کہتے کہ یہ مسجد ایک مندر کی جگہ پہ تعمیر کی گئی تھی اور وہ یہ بات بھی بالکل نہیں کہتے کہ مسجد کی تعمیر میں 27 مسمار کیے گئے مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا۔ بلکہ ان کی تحریر تو یہ کہتی ہے کہ یہ مندر قطب الدین ایبک سے جنگ کے دوران جنگی ہاتھیوں کی پامالی سے تباہ ہوئے اور اس میں ان مندروں کی قطب الدین ایبک کی طرف سے تباہی یا توڑ پھوڑ کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ یہ کہانی کہ مسجد ایک مندر کی جگہ تعمیر کی گئی اور مسجد کی تعمیر میں 27 مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا مکمل جھوٹ اور بعد کی ایجاد ہے جس کو بعد کے مورخین نے اپنی کتابوں میں شامل کر دیا۔قطب الدین ایبک کے زمانے کی قریب ترین تاریخی کتابوں میں اور ابن اثیر کی کامل التواریخ،عطا مالک جوانی کی تاریخ جہاں کشا، مولانا نورالدین محمد عوفی کی جامع الحکایت ولوازم الروایت جو کہ التمش کے دور میں دہلی میں مقیم تھے(لہذا قطب الدین ایبک کے زمانے کے بہت قریب اور اسی شہر دہلی میں مقیم) اور منہاج سراج کی طبقات ناصری ہیں۔ ان میں بھی کہیں پہ مذکور نہیں ہے کہ مسجد ایک مندر کی جگہ تعمیر کی گئی اور مسجد کی تعمیر میں 27 مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا جن کو قطب الدین ایبک نے مسمار کر دیا تھا۔ یہ کتابیں یہ بات ثابت کرتی ہیں کہ مسجد کے ساتھ ملحق مینار یعنی قطب مینار جو دنیا کا اینٹوں سے تعمیر کیا گیا سب سے بڑا مینار ہے، التمش نے تعمیر کیا تھا، لیکن مسجد قوت الاسلام کے بارے میں وہ باتیں ثابت بالکل نہیں کرتی جن کو بعد کے مورخین یا ہندو شدت پسند پیش کرتے ہیں۔[12]
ابن بطوطہ کو تو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مینار کس نے تعمیر کیا، تو مسجد قوت الاسلام کی تعمیر کے بارے میں اس کا بیان جو مسجد کی تعمیر کے لگ بھگ ڈیڑھ سو سال بعد کا ہے، کس طرح معتبر کہا جا سکتا ہے۔نہ ہی اوپر مذکور کتابیں یہ کہتی ہیں کہ یہ مینار التمش سے پہلے موجود تھا یا اس مینار کی جگہ پہ پہلے مندر تھا۔ سر سید احمد خان کا آثارالسنادید میں اور ہندو مورخین کا یہ دعوی بالکل غلط ہے کہ قطب مینار پرتھوی راج چوہان نے تعمیر کیا تھا تاکہ اس کی بیٹی دریائے جمنا کا نظارہ کر سکے بالکل غلط ہے کیونکہ اس صورت میں مینار کی تعمیر اسلامی طرز تعمیر سے بالکل جداگانہ ہونی چاہیے جب کہ اس کا طرز تعمیر ہندوستان کے کسی بھی ہندو بادشاہ کے طرز تعمیر کی جگہ وسط ایشیا کی دیگر مسلم تعمیرات جیسا کہ غزنی مینار، Minaret of Gutluk Temir in Konye-Urgench اور افغانستان میں غوریوں کے تعمیر کردہ مینار جام سے ملتا ہے جو کہ اسلامی مورخین کی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اس مینار کی تعمیر التمش نے ہی کی نہ کہ اس سے پہلے دہلی کے کسی ہندو بادشاہ نے۔[12]
کئ ہندو یہ دعوی کرتے ہیں کہ چونکہ مسجد قوت الاسلام 27 مندروں کے ملبے اور ستونوں سے تعمیر کی گئی اور اس کی بنیاد میں 27 کونے ہیں لہذا یہ بات ثابت کرتی ہے کہ مسجد 27 مندروں کے ملبے سے تعمیر کی گئی اور یہ فلکیاتی مشاہدات کی ایک ہندو رصد گاہ بھی تھی کیوں کہ ہندو 27 Nakshatras پہ ہونی رکھتے ہیں۔ ہندو اس مسجد کو قدیم ہندو سرمایہ ثابت کرنے میں اس قدر گردان ہیں کہ کبھی وہ اس کو سابقہ مندر قرار دیتے ہیں تو کبھی ہندو رصد گاہ۔ ہندوؤں کو خود معلوم نہیں کہ اس کی اصل حقیقت کیا تھی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسجد کے بارے میں ان کے سب الزامات محض جھوٹ پہ مبنی ہیں صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ یہ ایک قدیم ہندو جگہ تھی جس پہ مسلمانوں نے مسجد تعمیر کردی جب کہ خود ہندو مورخ وکرام جیت سنگھ روپاڑی کے مطابق یہ جگہ ہندو رصد گاہ نہیں تھی کیونکہ:
1: اگر مسجد 27 ہندو اور جین مندروں کے ملبے سے تعمیر کی گئی تو یہ ملبہ مختلف ستونوں مجموعہ تھا جو کہ مسجد کی موجودہ تعمیر کی وضاحت نہیں کرتا۔
2: یہ مبینہ مندر کئ عشروں کے وقفے سے تعمیر کئے گئے اور ان میں سے کسی کا بھی مناسب ریکارڈ موجود نہیں۔
3:یہ مبینہ مندر ایک ہی کمپلیکس میں واقع نہیں تھے، ان میں سے بعض تو قلعہ کی حدود سے باہر واقع تھے
4:بنیاد میں 27 مضبوطی اور 27 دائروی کنارے ہیں۔
یہ سب باتیں ثابت کرتی ہیں کہ مسجد کی تعمیر میں قطب الدین ایبک کی طرف سے مسمار کیے گئے 27 مندروں کا ملبہ استعمال ہونے کی بات یا اس جگہ کے قدیم ہندو رصد گاہ ہونے کی بات دونوں غلط ہیں اور اس بارے میں ہندو اعتراضات تاریخی طور پہ جھوٹ ہیں۔
اور اگر یہ ثابت بھی ہو جائے جو کہ ثابت نہیں ہے کہ مسجد کی تعمیر میں 27 مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا پھر بھی الزام ثابت نہیں ہوتا کیونکہ خود ہندوؤں میں رواج تھا کہ مندروں اور دیگر قدیم عمارتوں کے ملبے کو نئ تعمیرات میں استعمال لایا جاتا۔ خود ہندو بادشاہوں نے جین مذہب کے کئ مندر گرا کر وہاں اپنے ہندو مندر تعمیر کئے۔
تقریبا ٹاور کے ارد گرد ہندوستانی آرٹ کے بہت عمدہ نمونہ ہیں، جن میں سے اکثر 1193 یا اس سے پہلے کے دوران تعمیر کیے گئے تھے. اس پیچیدگی سے متعلق یونیسکو کی حیثیت سے ورلڈ ورثہ کی طرف سے منظوری دی گئی ہے.
قطب مینار دہلی کے تاریخی مہرالی علاقے میں واقع ہے جہاں وکرامدتیا کے دربار کا معروف ماہر فلکیات وہارا مہیرا اپنے معاونین، ریاضی دانوں اور تکنیک کاروں کے ساتھ رہتا تھا۔
اس کے بارے میں ہندوؤں کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ قطب مینار کی جگہ اس ماہر فلکیات کی وہ مبینہ رصد گاہ واقع تھی جس پہ قطب الدین ایبک نے قطب مینار تعمیر کر دیا۔
علاوہ ازیں یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ قطب مینار کمپلیکس کے قریب جین مذہبی کتب میں مذکور وہ یوگمایا مندر واقع ہےجس کو پندواوس نے تعمیر کیا تھا۔
یوگمایا یا جوگمایا ہندو مندر شکتی پیتھا مندر ہے جو ہندو دیوتا کرشنا کی بہن سے وابستہ اور قطب مینار کے قریب واقع ہے۔ مقامی ہندو پنڈتوں کے مطابق یہ ان 27 مندروں میں سے ہے جن کو محمود غزنوی اور بعد ازاں مملوک مسلم بادشاہوں نے تباہ کر دیا تھا۔ اب اس بات پہ غور کیجئے۔ پہلے ہندوؤں کی طرف یہ دعوی کیا گیا تھا کہ 27 مندروں کو جن میں یہ مندر بھی شامل تھا سلطان قطب الدین ایبک نے تباہ کر دیا تھا، اب بیان بالکل بدل چکا ہے کہ نہیں یہ 27 مندر پہلے سلطان محمود غزنوی اور بعد ازاں باقی مملوک مسلم بادشاہوں نے تباہ کر دیے تھے۔ اب الزام بدل کر صرف قطب الدین ایبک پہ نہیں بلکہ محمود غزنوی اور سارے مملوک مسلم بادشاہوں پہ عائد کر دیا گیا ہے۔ ہر وقت بدلتے بیان، بدلتے الزامات، کبھی ان مندروں کی تباہی کا الزام قطب الدین ایبک پہ اور کبھی محمود غزنوی سمیت مملوک مسلم بادشاہوں پہ اور ساتھ ہی اس وقت کے ہندو مورخین کے ہاں ان 27 مندروں کی تباہی کے اتنے بڑے واقعے کا کوئی ثبوت نہ ہونا، یہ سب باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام کی جگہ پہلے موجود مندر اور اس کی تعمیر کے لیے 27 مندروں کی تباہی ایک مکمل جھوٹ کہانی ہے۔ اس بات کو مزید جھوٹ جو چیز ظاہر کر رہی ہے وہ ہندو بادشاہ وکرامدتیا ہیمو کے ہم عصر تاریخی ذرائع میں اس مندر کی دوبارہ تعمیر کے اس دعوے کا غیر موجود ہونا ہے جس کا دعوی ہندوؤں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔
یہ جھوٹ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ اورنگزیب کے دور میں مسلمانوں نے اس کو مسجد میں تبدیل کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، یہ دعوی انتہائی کمزور اور جھوٹ ہے۔ اورنگزیب کے دور میں مسلم مغل سب سے طاقتور تھے۔ ان کے مقابلے کی کوئی طاقت ہندوستان میں نہیں تھی۔ بنگال سے کابل اور ٹھٹھہ تک ان کا پرچم لہرا رہا تھا۔ جو مغل دہلی سے اتنی دور بنگال اور کابل تک مضبوط حکومت کر رہے تھے، ان کے لیے صرف ایک عام مندر کو ایک مسجد میں طاقت کے زور پہ تبدیل کرنا کونسا مشکل تھا اور اورنگزیب کے ہم عصر کسی تاریخی حوالے میں اس بات کا ثبوت موجود نہیں کہ مسلمانوں نے اورنگزیب کے دور میں اس مندر کو مسجد میں تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کی۔
لیکن یہ دعوی پھر بھی نہیں کیا جا سکتا کہ قطب مینار یا مسجد قوت الاسلام اسی یوگمایا مندر کی جگہ تعمیر کئے گئے کیونکہ مذکورہ مندر اس جگہ سے 260 یارڈ اور لگ بھگ ایک کلومیٹر دور ہے۔
مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار دونوں کی تعمیر کا ماہر تعمیرات فضل ابوالمالی تھا۔ دونوں تعمیرات پہ کندہ تحریروں پہ اس کا نام موجود ہے اور اسے ان عمارات کے نمونے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔یہ عمارتیں غلام محمد عامر کوہ کی زیر نگرانی تعمیر کی گئیں۔دوسری کنداں تحریروں میں دوسرے ماہرین اور فنکاروں کا بھی ذکر ہے جنہوں نے پندرھویں صدی عیسوی میں اس کی بحالی میں حصہ لیا۔ ان کی تعمیر میں ماہرین تعمیرات نانا اور سلحہ، ایک بڑھئی دھرما یونانی اور دو دستکاروں لولا اور لشمن نے 1328ء میں حصہ لیا۔[13]
یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ کنداں تحریریں کئ زمانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ان میں سے کونسی پہلی تعمیر کے وقت کی ہے، یہ کہنا مشکل ہے۔ چونکہ صدیوں کے دوران تعمیر اور بحالی میں ہندو اور مسلم دونوں طرح کے ماہرین نے حصہ لیا لہذا طرز تعمیر میں ہندو اور مسلم دونوں طرز تعمیر واضح ہیں۔کنول کے پھول یا گل نیلوفر والے کنارے،کندہ گجرے اور گلدستے اور دائروی گھنٹیوں میں مقامی ہندو حس تعمیر جھلکتا ہے۔[14]
اور اسی وجہ سے عمارات میں جھلکنے والا مسلم طرز تعمیر کے ساتھ ہندو طرز تعمیر اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ دونوں عمارات شروع میں ہندو مندر یا ہندو عمارتیں تھیں جن کو مسلمانوں نے مسجد اور مینار میں تبدیل کر دیا۔
قطب مینار کی دیواروں پہ کنداں تحریریں فارسی عربی اور نگاری ہندو طرز تحریر میں ہیں جو اس کی تعمیر اور بحالی کو 1381_1517ء کے درمیان سکندر لودھی اور تغلق کی طرف سے ظاہر کرتی ہیں-[15]
اور یہ ہندی کنداں تحریریں اس بات کا ثبوت نہیں ہیں کہ یہ پہلے ایک ہندو عمارت تھی یا اس کا ہندو عمارات کے ملبے سے تعمیر کیا گیا۔
قطب مینار اور مسجد جس قطب احاطے یا قطب کمپلیکس میں واقع ہیں اس احاطے میں دہلی کے فولادی ستون یا iron pillars of Delhi بھی ہے۔ ہندوؤں کے مطابق یہ بادشاہ چندرا گپتا نے چوتھی صدی عیسوی میں وشنا دیوتا کی طرف نسبت کرتے ہوئے ایستادہ کیا تھا لیکن آج تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ یہ شروع سے اس جگہ موجود تھا یا بعد میں کسی ہندو یا مسلم حکمران نے اسے اس جگہ لاکر ایستادہ کیا۔[16،17]
اس پہ کندہ تحریر کے مطابق اسے بادشاہ چندرا نے اسے وشنو پدرا میں ایستادہ کیا تھا جو کہ جے ایف فلیٹ کے مطابق دہلی کے قریب واقع مقام میتھورا ہے جب کہ دیگر ماہرین کے مطابق یہ ستون ادیگیری میں ایستادہ کیا گیا تھا۔[18،19]
لہذا یہ فولادی ستون پہلے سے اس جگہ موجود تھے اور نہ ہی یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ جگہ پہلے ایک ہندو مندر تھی یا اس کی تعمیر میں 27 مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کو کسی اور مقام سے لا کر قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام کے احاطے میں کس نے ایستادہ کیا؟؟ کسی ہندو بادشاہ نے قطب الدین کی طرف سے دہلی پہ قبضے کے بعد یا اس سے پہلے کسی ہندو بادشاہ نے تو اس بارے میں دو تصورات موجود ہیں۔
1: ایک تصور یہ ہے کہ اس کو قطب الدین ایبک یا التمش کی طرف سے مینار کی تعمیر کے بعد قطب الدین ایبک یا التمش یہاں اس کو ودیشا یا کسی اور مقام سے لائے اور یہاں ایستادہ کر دیا۔[8]
فنبار بیری فلڈ کے مطابق اس کو موجودہ مقام پہ ایستادہ قطب الدین ایبک نے نہیں بلکہ اس کے جانشین مسلم حکمران التمش نے کیا-
کیونکہ التمش ودیشا پہ حملہ کر چکا تھا۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ پہلے یہاں کوئی ہندو مندر یا رصد گاہ واقع نہیں تھی اور یہ ستون بعد میں اس جگہ ایستادہ کیا گیا۔ اس بارے میں دوسرا تصور الیگزینڈر کننگھام کا ہے جس کے مطابق اس کو موجودہ جگہ ایستادہ طومارہ بادشاہ اننگ پال نے کیا جو کہ ستون پہ کنداں تحریر سے واضح ہے۔[21]
لہذا اس جگہ پہ کسی مسلم یا ہندو بادشاہ کی طرف سے اس فولادی ستون کے ایستادہ کئے جانے کی بحث تو تاریخ میں موجود ہے لیکن اس جگہ پہلے کسی مندر یا ہندو رصد گاہ کا ثبوت نہیں۔ لہذا یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ موجودہ قطب مینار یا مسجد قوت الاسلام کسی ہندو مندر یا رصد گاہ کی جگہ تعمیر کئے گئے اور اس کے ثبوت میں پیش کیا جانے والا فولادی ستون اس کا ثبوت نہیں کیونکہ یہ یہاں بعد میں ایستادہ کیا گیا اور آج تک اس کا ثبوت نہیں کہ اس کو کس نے ایستادہ کیا، کسی مسلم حکمران نے یا اس سے پہلے کسی ہندو بادشاہ نے۔ لہذا ہندوؤں کا اعتراض بالکل ثابت نہیں ہوتا۔
قطب مینار کی نچلی منزل جنگ میں تباہ شدہ ہندو قلعے لال کوٹ کے ملبے پہ تعمیر کی گئی۔[22]
لہذا اس جگہ جنگ میں تباہ ہونے والے ایک عام ہندو قلعے کی جگہ کو تو تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن کسی ہندو مندر یا رصد گاہ کا کوئی ثبوت نہیں جس کو توڑ کر مسلمانوں نے یہاں اپنی مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار تعمیر کر دیا ہو۔
نہ ہی اس جگہ پہ آج تک وشنو دیوتا کے کسی مندر کے ثبوت ملے ہیں جس کا دعوی کیا جاتا ہے۔
لہذا مسجد قوت الاسلام اور قطب مینار کے احاطے اور دیوراوں پہ کندہ گل نیلوفر یا کنول کے پھول( جو کہ پرانی وید علامت ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ برہمہ وشنو کے پیٹ سے نکلنے والے کنول کے پھول سے پیدا ہوا) یہ بالکل ثابت نہیں کرتے کہ یہ پہلے Dhruv Sthambh یا وشنو دھواج تھا جس کو بعد ازاں قرآنی آیات کندہ کرکے قطب الدین ایبک یا التمش نے مسجد میں تبدیل کر دیا تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مینار کا محراب جس میں کئ کنول کے پھول بنے ہوئے ہیں یہ محراب ہندوستان میں مسلمانوں نے متعارف کرائے لیکن ان کی سجاوٹ میں ہندو طرز تعمیر جس میں کنول کے پھول کندہ کرنا بھی شامل تھا، شامل کر دیا
ہندو کہتے ہیں کہ قطب مینار اور مسجد قوت الاسلام کے احاطے سے نکلنے والے پتھروں پہ ایک طرف قرآنی آیات اور عربی تحریر کندہ ہے تو دوسری طرف ہندی دیوتاؤں یا دیگر ہندی تصویریں اور سنسکرت تحریریں کنداں ہیں جن کے چہرے بگاڑ دیے گئے ہیں۔ اس کی وضاحت ہم پہلے ہی کر چکے ہیں کہ قطب الدین ایبک کی وفات کے سات سال بعد حسن نظامی نے لکھا تھا کہ مسجد کی تعمیر میں ان قلعوں کا ملبہ استعمال کیا گیا تھا جو جنگ کے دوران جنگی ہاتھیوں سے تباہ ہوئے لیکن اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ ملبہ 27 مندروں کو توڑ کر حاصل کیا گیا یا یہاں پہلے کوئی ہندو مندر واقع تھا۔ لہذا یہ سنسکرت تحریریں اور تصویریں جنگی ہاتھیوں سے تباہ شدہ ہندو قلعے سے حاصل کردہ ملبے کا ثبوت تو ہو سکتی ہیں جن کی جنگ میں تباہی کو قطب الدین ایبک کے سات سال بعد حسن نظامی نے لکھا ہے لیکن ان 27 مندروں کے توڑے جانے کا نہیں جس کا الزام ہندو مسلمانوں پہ عائد کرتے ہیں۔
قطب مینار کے اوپری حصے میں سانپ کی شکل کے نمونے بھی جن کو ‘Makar Torana کہا جاتا ہے، اس جگہ پہ ہندو مندر کا ثبوت نہیں کیونکہ مینار اور مسجد کی تعمیر میں ہندو اور مسلم دونوں ماہرین نے حصہ لیا اور اس سے ہندو مسلم دونوں طرز تعمیر واضح ہیں۔
لہذا مینار کا قطبی شمالی ستارے دھروو کی طرف اشارہ کرنا بھی اس طرف اشارہ نہیں کرتا۔ ہندو دعوی کرتے ہیں کہ مینار کی ساتویں منزل میں چار چہروں والے برہمہ کا مجسمہ تھا جس کے ہاتھ میں ویدا تھے لیکن اس بات کی مزید تصدیق کوئی غیر جانبدار ذریعہ نہیں کرتا۔نیز مینار پہ کنداں مقدس چکرا اناہتا مسلم فن قطب مینار میں پہلے ہی استعمال کر چکے تھے۔ اس سے ملتا جلتا ستارہ داؤدی کو یہودیوں نے اپنی مذہبی علامت بعد میں قرار دیا جب کہ مسلمان اس سے پہلے اسے تعمیرات کی تزئین کے لیے بناتے تھے، لہذا یہ نشان مسلمانوں نے یہودیوں سے نقل نہیں کیا بلکہ بعد ازاں یہودیوں نے اختیار کیا۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مینار کی چھٹی منزل بھی نہیں بنائی گئی تھی، ساتویں تو دور کی بات ہے۔ چھٹی منزل بنانے کی کوشش ناکام ہوگئی تھی۔[23]
تاریخ اور آرکیالوجی دونوں آج تک اس بات کا ایک بھی مستند ثبوت فراہم نہیں کر سکے کہ اس کو وکرامدتیا نے تعمیر کیا تھا۔
فتح کے وقت قطب الدین ایبک کے ساتھ یا اس کے بعد التمش کے دربار میں اتنے مسلم ماہرین تعمیرات یا دستکار اکٹھے نہیں ہوئے تھے لہذا تعمیر میں ہندوؤں نے بڑی تعداد میں حصہ لیا جس کا اظہار تعمیر میں مکمل قوسوں کی جگہ باہر کو نکلی قوسوں یا Corbeled arches سے ہوتا ہے۔
مینار کی تمام بنیادی طرز تعمیر مختلف ہے۔چتور میں واقع ہندو برج اس مینار سے بالکل مختلف ہے۔پہلی بار کسی عمارت میں گھوڑے کی سم جیسی قوس تعمیر کی گئی جس سے ہندو بالکل ناواقف تھے۔یہ سب باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ قطب مینار کسی ہندو بادشاہ نے نہیں بلکہ مملوک حکمرانوں کی تعمیر تھی جس کو قطب الدین ایبک یا التمش نے تعمیر کیا
لارڈ گنیشا کے بگڑے ہوئے چہرے والی تصویریں بھی ثبوت نہیں
خود برٹش لائبریری 1860ء کی قطب مینار کی ایک تصویر کے مطابق لکھتی ہے:[24]
Carved Hindu motifs on salvaged and recyled masonry are found throughout the mosque in combination with later Islamic arabesque patterns and Quranic insciptions.
اس مینار کی تعمیر میں ہندوستان کی دیگر عمارتوں سے حاصل کیا گیا مواد اور معماری کا مواد بھی استعمال کیا گیا تھا جس پہ ہندؤانہ تصورات کنداں تھے۔
یہاں بھی کہیں نہیں لکھا گیا کہ اس جگہ پہلے ہی کوئی ہندو مینار موجود تھا جس کو مسلمانوں نے تبدیل کرکے اپنا مینار بنا دیا اور نہ ہی یہ لکھا گیا ہے کہ اس جگہ پہلے کوئی ہندو مندر یا رصد گاہ آباد تھی جس کو تباہ کرکے یہاں قطب مینار تعمیر کیا گیا اور اس کی تعمیر میں تباہ شدہ ہندو مندروں کا ملبہ استعمال کیا گیا۔اور ہم اوہر کہ چکے ہیں کہ مینار میں ہندو اثرات دو وجہ سے ہیں۔ ایک تباہ شدہ ہندو قلعے سے مواد کا مینار کی تعمیر میں استعمال کیا جانا جیسا کہ یہ ہندوستان کا معمول تھا اور اس کی تعمیر میں ہندو اور مسلم دونوں ماہرین تعمیرات کا حصہ لینا جس کی وجہ سے مسجد اور مینار میں مسلم اور ہندو طرز تعمیر دونوں جھلکتے ہیں لیکن آج تک اس بات کا ایک بھی تاریخی یا آرکیالوجیکل مستند ثبوت نہیں کہ اس جگہ پہلے ہندو مندر یا رصد گاہ یا ہندو مینار تھا جس کو مسلمانوں نے تبدیل کرکے اس کی دوبارہ تعمیر میں 27 مندروں کو تباہ کرکے ان کا ملبہ استعمال کیا۔یہ بات مکمل جھوٹ، بہتان اور الزام ہے جس کو ہندوستان کے تاریخی،ادبی،علمی اور عوامی حلقوں میں توجہ حاصل کرنے اور اسلام کے عظیم ماضی سے حسد اور تعصب کی وجہ سے استعمال کیا جا رہا ہے جب کہ اصل حقیقت کیا تھی آپ ہمارے اس تحقیقی مضمون سے امید ہے جان چکے ہوں گے۔
ذرا سی بات تھی اندیشہ عجم نے اسے
بڑھا دیا ہے فقط زیب داستاں کے لیے
ھذا ما عندی۔ و اللٰہ اعلم بالصواب۔ الحمد للٰہ
حوالہ جات:
1:مسجد قوت الاسلام، دہلی – – -ڈاکٹرعزیزاحمد عرسی- ورنگل
2:Qutub MinarQutub Minar Govt. of India website.
3:Ali Javid; ʻAlī Jāvīd; Tabassum Javed. "World Heritage Monuments and Related Edifices in India". Page.14,263. Google Books. Retrieved 26 May 2009.
4:Epigraphia Indo Moslemica, 1911–12, p. 13.
5:Qutab Minar & Adjoining Monuments. Archaeological Survey of India. 2002. p. 31. ISBN 9788187780076.
6:"Lal Kot or Quila Rai Pithora". Delhi Tourism. Retrieved 25 July 2013
7:James D. Tracy (25 September 2000). City Walls: The Urban Enceinte in Global Perspective. Cambridge University Press. ISBN 978-0-521-65221-6. Retrieved 7 August 2013.p.53
9:Maulana Hakim Saiyid Abdul Hai "Hindustan Islami Ahad Mein" (Hindustan under Islamic rule), Eng Trans by Maulana Abdul Hasan Nadwi
10:Vikramjit Singh Rooprai. "Untold story of the Qutub Minar". Retrieved 18 May 2015.
11:Rizvi. Tughlaq Kalin Bharat. I. p. 175.
12:https://vikramjits.wordpress.com/2012/11/14/untold-story-of-the-qutub-minar/
13:https://web.archive.org/web/20150622134800/http://qutubminardelhi.com/
14:https://www.yatra.com/indian-monuments/new-delhi/qutb-complex
15:https://www.yatra.com/indian-monuments/new-delhi/qutb-complex
16:M.C. Joshi, S. K. Gupta and Shankar Goyal, eds., King Chandra and the Mehrauli Pillar (Meerut, 1989).
17:Javid, Ali; Javeed, Tabassum (2007). World Heritage Monuments and Related Edifices in India Vol 1. Pg.107. Algora Publishing. ISBN 978-0-87586-482-2. Retrieved 29 October 2012.
18:Identity of Chandra and Vishnupadagiri of the Delhi Iron Pillar Inscription: Numismatic, Archaeological and Literary Evidence, R Balasubramaniam, Bulletin of Metals Museum, 32 (2000) 42–64.
19:Michael D. Willis, The Archaeology of Hindu Ritual (Cambridge, 2009). Partly available online, see http://www.cambridge.org/gb/knowledge/isbn/item2427416/?site_locale=en_GB
8:Cynthia Talbot (2015). The Last Hindu Emperor: Prithviraj Cauhan and the Indian Past, 1200–2000. Cambridge University Press. ISBN 9781107118560.pp.77,78
[20]Cynthia Talbot (2015). The Last Hindu Emperor: Prithviraj Cauhan and the Indian Past, 1200–2000. Cambridge University Press. ISBN 9781107118560.pp.79
21:Cynthia Talbot (2015). The Last Hindu Emperor: Prithviraj Cauhan and the Indian Past, 1200–2000. Cambridge University Press. ISBN 9781107118560.p.79
22:Ali Javid; ʻAlī Jāvīd; Tabassum Javeed (2008). World Heritage Monuments and Related Edifices in India. Google Books. pp. 14, 105, 10T7, 130. ISBN 9780875864822. Retrieved 26 May 2009.
23:https://www.travelogyindia.com/delhi/qutub-minar-delhi.html
24:http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/r/019pho0000096s1u00006000.html
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔