مارکسزم(سوشلزم اور کمیونزم) اور ڈارونزم(نظریہ ارتقاء یا تھیوری آف ایوولوشن) کا دنیا میں الحاد کو فروغ دینے اور اس پر الحادی تسلط کے لیے آپس میں اتفاق اور ڈارونزم کی اصل حقیقت
اقتباس:کتاب نظریہ ارتقا ایک دھوکہ(The Evolution Deceit)
مصنف:ہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کچھ لوگوں کےلئے نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون کا مفہوم صرف سائنسی ہے جس سے ان کی زندگی پرکوئی خاص یا براہِ راست اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءصرف ایک حیاتیاتی سائنس کے دائرے میں رہنے والا مسئلہ نہیں بلکہ مادّیت جیسے پر دھوکہ فلسفہ کی بنیاد ہے جو لاکھوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہا ہے۔
نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون اس موقع پر اس پہیلی کو حل کرنے میں کام آتا ہے کیونکہ اس نظریے کے مطابق مادیت ایک سائنسی خیال ہے۔ اسی لئے اشتراکیت اور جدلیاتی مادیت کے بانی کارل مارکس نے اپنے عالمی جائزے کے لئے لکھا ہے کہ نظریہ ڈارون قدرتی تاریخ کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ درحقیقت ایک گلی سڑی بنیاد ہے کیونکہ جدید سائنسی دریافت اور تحقیقات نے بارہا ثابت کردیا ہے کہ ڈارون کے نظریے اور سائنس کے مابین یہ مقبول تعلق سراسر جھوٹ ہے۔
کارل مارکس نے اس بات کو واضح کردیا کہ نظریہ ڈارون مادہ پرستی اور اشتراکیت کی ٹھوس بنیاد ہے- ڈارون سے اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر اس نے اپنی سب سے اہم تصنیف تصور کی جانے والی کتاب ”ڈاسکیپیٹا“ کو بھی ڈارون کے نام وقف کردیا۔ کتاب کی جرمن اشاعت میں اس نے لکھا ہے۔ ”ایک وفادار مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لئے“
سائنسی تحقیق نظریہ ڈارون کو تفصیلاً غلط ثابت کرتی ہے اور بار بار اس حقیقت کو باور کراتی ہے کہ جانداروں کا وجود تدریجی ترقی سے نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے واقع ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات اور اس میں موجود ہر جاندار اور انسان کو پیدا کیاہے۔ اس کتاب کا مقصد اس حقیقت کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت ترکی میں ہوئی اور اس کے بعد سے کئی ممالک میں لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا اور سراہا ہے۔ ترکی زبان کے علاوہ یہ کتاب انگریزی، جرمن، اتالوی، ہسپانوی، روسی، چینی، لوسنین، عربی، آلبینین اردو، ملائے اور انڈونیشین زبانوں میں مترجم ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انٹرنیٹ کے اس پتے سے مفت پرنٹ کیا جاسکتا ہے: www.evolutiondeceit.com کتاب ارتقائی دھوکے کے مخالف نظریات رکھنے والے افراد بھی معترف ہیں۔
اس کے مصنف ہارون یحییٰ نیوسائنٹسٹ رسالے کے مضمون برننگ ڈارون، یا ڈارون کاجل جانا کا موضوع تھے۔ اس مشہور رسالے کی 22 اپریل 2000ء کی اشاعت نے ہارون یحییٰ کو ایک عالمی ہیرو کا خطاب دیتے ہوئے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ ان کی کتابیں اسلامی دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئی ہیں۔ سائنسی دائروں کے مشہور جرےدے سائنس نے ہارون یحییٰ کی کتابوں کے نمایاں اثرات اور تصنع کو خاص طور پر سراہا ہے۔ اس جریدے کے 18مئی 2001ء کے مضمون یورپ اور ایشیاءکے ملاپ پر تخلیق کی جس کے مطابق ترکی میں ہارون یحییٰ کی کچھ کتابیں مثلاََ ’ ارتقائی دھوکہ اور نظریہ ڈارون کاسیاہ چہرہ‘ ملک کے کچھ حصوں میں نصابی کتابوں سے زیادہ مقبول ہوگئی ہیں۔ اس مضمون کا مصنف مزید یہ بھی کہتا ہے کہ ہارون یحییٰ کی کتابوں نے شمالی امریکہ سے باہر دنیا کی مضبوط ترین خلافِ ارتقاءتحریکوں کی بنیاد ڈالی ہے۔اگرچہ یہ تمام سائنسی جریدے ارتقائی دھوکے کے اثرات کے معترف ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کتابوں میں موجود بحث کا کوئی سائنسی جواب دینے سے قاصر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کےلئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ نظریہ ارتقاءایک مکمل تعطل کا شکار ہے اور اس کا ثبوت اس کتاب میں واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پڑھنے والے خود اندازہ کرلیں گے کہ نظریہ ڈارون ایک سائنسی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسا نیم سائنسی عقیدہ ہے جو کہ اختلافی تردید اور کھلی تردید کے باوجود فقط مادیت کے سہارے کھڑا ہے۔ ہماری امید ہے کہ یہ کتاب لمبے عرصے تک ان تمام مادیت پسند نظریہ ڈارون کے عقیدوں کی تردید کا کام انجام دیتی رہے گی جو کہ انیسویں صدی سے اب تک انسانیت کو گمراہ کررہے ہیں۔ان عقیدوں کی تردید کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کو ان کے خالق کی پہچان کروانے کے علاوہ اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کی اہم ذمہ داری بھی باور کروائے گی۔
زمین پر رہنے والی لاکھوں جاندار نسلیں معجزاتی اوصاف، بے نظیر عادات اور بے عیب طبعیاتی ساخت کی حامل ہیں۔ ہر نسل اپنی مخصوص تفصیلا ت اور خوبصورتی کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے۔ نباتات، حیوانات اور سب سے بڑھ کر انسان ایک زبردست تخلیق کار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہےں۔ ہر عضو اور خلیہ بہترین اور مکمل ہے۔ کئی سائنسدان جانداروں کی تخلیق سے متعلق معجزات پر تحقیق سے سخت حیرانی کا شکار ہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس تمام تخلیق کے پیچھے اس لامحدود دانشمندی اور فہم و فراست کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں جس نے یہ سب معجزات مکمل بنائے۔
لیکن ارتقائ پروفیسران کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ سادہ کیمیائی اجزاءکے ملنے سے نامیات وجود میں آئے۔ یہ بات اسی طرح ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ الفاظ خود بہ خود کہیں سے جمع ہوکر ایک نظم کی شکل اختیار کرگئے۔ پھر پے در پے دوسرے اتفاقات سے دوسرے نامیات وجود میں آئے۔ یہ تمام نامیات اس طرح منظم طریقے سے ملتے گئے کہ انہوں نے کروموسوم، رائیبونیوکلیک ایسڈ، خامرہ، ہارمون اور خلیوں جیسی پیچیدہ اشکال اختےار کر لےں۔ ان پیچیدہ اشکال نے مزید اندھے اور معجزاتی اتفاقات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خلیئے کو تشکیل کردیا۔ یہ اندھا اتفاق یہاں پر نہیں رکا بلکہ یہ خلیئے پھر خود بہ خود ہی ضرب ہوتے ہوتے پہلے جاندار کی شکل اختیار کرگئے۔ اس ایک جاندار کی صرف ایک آنکھ کے وجو میں آنے کے لئے کروڑوں ناممکن واقعات کا پیش آنا لازمی تھا۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہاں پر بھی اندھے اتفاقات کا پورا پورا ہاتھ ہے مثلاََ اس ایک آنکھ کا سر کے چوکھٹے میں مناسب جگہ پر فٹ ہونا اور پھر کھوپڑی میں دو صحیح پیمائش کے سوراخوں کی موجودگی جس میں آنکھیں بہترین طریقے سماجائیں وغیرہ وغیرہ۔
اتفاقات صرف ان چیزوں کو بنانے میں پیش آسکتے ہیں جن کے بارے میں وہ جواب دہ ہوں۔ اتفاق کو کیسے پتہ تھا کہ دیکھنا، سننا، سونگھنا اور سانس لینا کیا ہوتا ہے جب کہ اس وقت زمین پر کوئی جاندار ان حرکات کے عملی ثبوت کے طور پر موجود ہی نہیں تھا؟لیکن اتفاق نے روئے زمین پر کسی جاندار کے نہ ہونے کے باوجودزندگی کے بارے میں مکمل علم اور دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور جانداروں کے متعلق ہر عمل اور قدم کو نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھایا۔ یہ ساری دلیلیں اور جانداروں کے متعلق منظر کشی مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے۔ اس منظر کشی میں نامور اساتذہ، سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کے ناموں کا شامل ہونا ان کی عزت کو گھٹادیتا ہے جوکہ ایک بچکانہ ضد کی طرح ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ان کی رام کہانیوں پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں اور الٹا ان ہی لوگوں پر غیر سائنسی اور متعصب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے درمیان اور ان کٹر، شدت پسند اور جاہل قرونِ وسطیٰ ذہنیت رکھنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو اپنے دور میں لوگوں کو صرف اس لئے سزا کا مستحق ٹھہراتے تھے کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرنے سے انکار کرتے تھے کہ دنیا چپٹی ہے۔ مزید افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظریہ ارتقاءپر یقین رکھنے والے لاتعداد لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ پر یقین کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک ’ اﷲ نے تمام زندگی تخلیق کی ہے۔
اگر انہی لوگوں کے سامنے ایک لکڑی کا بت رکھ دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس بت نے کمرے میں موجود ہر چیز کو تخلیق کیا ہے تو وہ اس بات کو صریحاً فضول قراردیتے ہوئے اس پر یقین کرنے سے مطلق انکار کردیں گے ۔لیکن افسوس کہ یہ لوگ اس دعوے کو ایک زبردست سائنسی جواز سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں جاندار نسلیں جو کہ شاندار اور غیر معمولی نقشوں کا نشان دیتی ہیں وہ دراصل اتفاق جیسے بے شعور عمل کا نتیجہ ہیں۔
یہ لوگ اتفاق کو خد اکا درجہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشمند ‘ باشعور اور اتنا طاقتور واقعہ ہے کہ یہ کائنات کے نازک توازن اور اس میں موجود ہر جاندار کو وجود میں لانے کا اہل ہے۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ دراصل اﷲ نے اپنی وسعت ِعلم و فراست، طاقت اور مرضی سے تمام کائنات اور اس میں موجود جانداروں کو پیدا کیا ہے تو یہ ارتقائی پروفیسران اس حقیقت کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ بے شعور، بے عقل اور بے جان اتفاقات ہی اس کائنات اور جانداروں کے پےچھے تخلیقی طاقت ہیں۔ نظریہ ڈارون ایک عظیم دھوکہ ہے جو کہ کسی بھی قسم کی منطق اور جواز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو اپنے تمام ہٹ دھرم حمایتیوں کو بے عزت کردیتا ہے۔
اقتباس:کتاب نظریہ ارتقا ایک دھوکہ(The Evolution Deceit)
مصنف:ہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
کچھ لوگوں کےلئے نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون کا مفہوم صرف سائنسی ہے جس سے ان کی زندگی پرکوئی خاص یا براہِ راست اثر نہیں پڑتا۔ یہ ایک عام غلط فہمی ہے۔ نظریہ¿ ارتقاءصرف ایک حیاتیاتی سائنس کے دائرے میں رہنے والا مسئلہ نہیں بلکہ مادّیت جیسے پر دھوکہ فلسفہ کی بنیاد ہے جو لاکھوں لوگوں کے دلوں پر حکومت کررہا ہے۔
نظریہ ارتقاءیا نظریہ ڈارون اس موقع پر اس پہیلی کو حل کرنے میں کام آتا ہے کیونکہ اس نظریے کے مطابق مادیت ایک سائنسی خیال ہے۔ اسی لئے اشتراکیت اور جدلیاتی مادیت کے بانی کارل مارکس نے اپنے عالمی جائزے کے لئے لکھا ہے کہ نظریہ ڈارون قدرتی تاریخ کی بنیاد ہے۔ لیکن یہ درحقیقت ایک گلی سڑی بنیاد ہے کیونکہ جدید سائنسی دریافت اور تحقیقات نے بارہا ثابت کردیا ہے کہ ڈارون کے نظریے اور سائنس کے مابین یہ مقبول تعلق سراسر جھوٹ ہے۔
کارل مارکس نے اس بات کو واضح کردیا کہ نظریہ ڈارون مادہ پرستی اور اشتراکیت کی ٹھوس بنیاد ہے- ڈارون سے اپنی ہمدردی کے اظہار کے طور پر اس نے اپنی سب سے اہم تصنیف تصور کی جانے والی کتاب ”ڈاسکیپیٹا“ کو بھی ڈارون کے نام وقف کردیا۔ کتاب کی جرمن اشاعت میں اس نے لکھا ہے۔ ”ایک وفادار مداح کی طرف سے چارلس ڈارون کے لئے“
سائنسی تحقیق نظریہ ڈارون کو تفصیلاً غلط ثابت کرتی ہے اور بار بار اس حقیقت کو باور کراتی ہے کہ جانداروں کا وجود تدریجی ترقی سے نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے واقع ہواہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تمام کائنات اور اس میں موجود ہر جاندار اور انسان کو پیدا کیاہے۔ اس کتاب کا مقصد اس حقیقت کو لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اس کتاب کی پہلی اشاعت ترکی میں ہوئی اور اس کے بعد سے کئی ممالک میں لاکھوں لوگوں نے اس کتاب کو پڑھا اور سراہا ہے۔ ترکی زبان کے علاوہ یہ کتاب انگریزی، جرمن، اتالوی، ہسپانوی، روسی، چینی، لوسنین، عربی، آلبینین اردو، ملائے اور انڈونیشین زبانوں میں مترجم ہوچکی ہے۔ اس کتاب کو انٹرنیٹ کے اس پتے سے مفت پرنٹ کیا جاسکتا ہے: www.evolutiondeceit.com کتاب ارتقائی دھوکے کے مخالف نظریات رکھنے والے افراد بھی معترف ہیں۔
اس کے مصنف ہارون یحییٰ نیوسائنٹسٹ رسالے کے مضمون برننگ ڈارون، یا ڈارون کاجل جانا کا موضوع تھے۔ اس مشہور رسالے کی 22 اپریل 2000ء کی اشاعت نے ہارون یحییٰ کو ایک عالمی ہیرو کا خطاب دیتے ہوئے اس بات پر پریشانی کا اظہار کیا کہ ان کی کتابیں اسلامی دنیا کے ہر کونے میں پھیل گئی ہیں۔ سائنسی دائروں کے مشہور جرےدے سائنس نے ہارون یحییٰ کی کتابوں کے نمایاں اثرات اور تصنع کو خاص طور پر سراہا ہے۔ اس جریدے کے 18مئی 2001ء کے مضمون یورپ اور ایشیاءکے ملاپ پر تخلیق کی جس کے مطابق ترکی میں ہارون یحییٰ کی کچھ کتابیں مثلاََ ’ ارتقائی دھوکہ اور نظریہ ڈارون کاسیاہ چہرہ‘ ملک کے کچھ حصوں میں نصابی کتابوں سے زیادہ مقبول ہوگئی ہیں۔ اس مضمون کا مصنف مزید یہ بھی کہتا ہے کہ ہارون یحییٰ کی کتابوں نے شمالی امریکہ سے باہر دنیا کی مضبوط ترین خلافِ ارتقاءتحریکوں کی بنیاد ڈالی ہے۔اگرچہ یہ تمام سائنسی جریدے ارتقائی دھوکے کے اثرات کے معترف ہیں لیکن پھر بھی یہ ان کتابوں میں موجود بحث کا کوئی سائنسی جواب دینے سے قاصر ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ان کےلئے ایسا کرنا ممکن ہی نہیں۔ نظریہ ارتقاءایک مکمل تعطل کا شکار ہے اور اس کا ثبوت اس کتاب میں واضح طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پڑھنے والے خود اندازہ کرلیں گے کہ نظریہ ڈارون ایک سائنسی نظریہ نہیں بلکہ ایک ایسا نیم سائنسی عقیدہ ہے جو کہ اختلافی تردید اور کھلی تردید کے باوجود فقط مادیت کے سہارے کھڑا ہے۔ ہماری امید ہے کہ یہ کتاب لمبے عرصے تک ان تمام مادیت پسند نظریہ ڈارون کے عقیدوں کی تردید کا کام انجام دیتی رہے گی جو کہ انیسویں صدی سے اب تک انسانیت کو گمراہ کررہے ہیں۔ان عقیدوں کی تردید کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کو ان کے خالق کی پہچان کروانے کے علاوہ اس کی خوشنودی اور قرب حاصل کرنے کی اہم ذمہ داری بھی باور کروائے گی۔
زمین پر رہنے والی لاکھوں جاندار نسلیں معجزاتی اوصاف، بے نظیر عادات اور بے عیب طبعیاتی ساخت کی حامل ہیں۔ ہر نسل اپنی مخصوص تفصیلا ت اور خوبصورتی کے ساتھ تخلیق کی گئی ہے۔ نباتات، حیوانات اور سب سے بڑھ کر انسان ایک زبردست تخلیق کار کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہےں۔ ہر عضو اور خلیہ بہترین اور مکمل ہے۔ کئی سائنسدان جانداروں کی تخلیق سے متعلق معجزات پر تحقیق سے سخت حیرانی کا شکار ہیں۔ خاص طور پر جب وہ اس تمام تخلیق کے پیچھے اس لامحدود دانشمندی اور فہم و فراست کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں جس نے یہ سب معجزات مکمل بنائے۔
لیکن ارتقائ پروفیسران کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ سادہ کیمیائی اجزاءکے ملنے سے نامیات وجود میں آئے۔ یہ بات اسی طرح ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ الفاظ خود بہ خود کہیں سے جمع ہوکر ایک نظم کی شکل اختیار کرگئے۔ پھر پے در پے دوسرے اتفاقات سے دوسرے نامیات وجود میں آئے۔ یہ تمام نامیات اس طرح منظم طریقے سے ملتے گئے کہ انہوں نے کروموسوم، رائیبونیوکلیک ایسڈ، خامرہ، ہارمون اور خلیوں جیسی پیچیدہ اشکال اختےار کر لےں۔ ان پیچیدہ اشکال نے مزید اندھے اور معجزاتی اتفاقات کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے خلیئے کو تشکیل کردیا۔ یہ اندھا اتفاق یہاں پر نہیں رکا بلکہ یہ خلیئے پھر خود بہ خود ہی ضرب ہوتے ہوتے پہلے جاندار کی شکل اختیار کرگئے۔ اس ایک جاندار کی صرف ایک آنکھ کے وجو میں آنے کے لئے کروڑوں ناممکن واقعات کا پیش آنا لازمی تھا۔ ارتقاءپسندوں کے مطابق یہاں پر بھی اندھے اتفاقات کا پورا پورا ہاتھ ہے مثلاََ اس ایک آنکھ کا سر کے چوکھٹے میں مناسب جگہ پر فٹ ہونا اور پھر کھوپڑی میں دو صحیح پیمائش کے سوراخوں کی موجودگی جس میں آنکھیں بہترین طریقے سماجائیں وغیرہ وغیرہ۔
اتفاقات صرف ان چیزوں کو بنانے میں پیش آسکتے ہیں جن کے بارے میں وہ جواب دہ ہوں۔ اتفاق کو کیسے پتہ تھا کہ دیکھنا، سننا، سونگھنا اور سانس لینا کیا ہوتا ہے جب کہ اس وقت زمین پر کوئی جاندار ان حرکات کے عملی ثبوت کے طور پر موجود ہی نہیں تھا؟لیکن اتفاق نے روئے زمین پر کسی جاندار کے نہ ہونے کے باوجودزندگی کے بارے میں مکمل علم اور دانشمندی کا بھرپور مظاہرہ کیا اور جانداروں کے متعلق ہر عمل اور قدم کو نہایت سوچ بچار کے بعد اٹھایا۔ یہ ساری دلیلیں اور جانداروں کے متعلق منظر کشی مضحکہ خیز نہیں تو اور کیا ہے۔ اس منظر کشی میں نامور اساتذہ، سائنسدانوں اور تحقیق کاروں کے ناموں کا شامل ہونا ان کی عزت کو گھٹادیتا ہے جوکہ ایک بچکانہ ضد کی طرح ان لوگوں سے اختلاف کرتے ہیں جو ان کی رام کہانیوں پر یقین کرنے سے انکار کرتے ہیں اور الٹا ان ہی لوگوں پر غیر سائنسی اور متعصب ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ ایسے ہٹ دھرم لوگوں کے درمیان اور ان کٹر، شدت پسند اور جاہل قرونِ وسطیٰ ذہنیت رکھنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے جو اپنے دور میں لوگوں کو صرف اس لئے سزا کا مستحق ٹھہراتے تھے کیونکہ وہ اس بات پر یقین کرنے سے انکار کرتے تھے کہ دنیا چپٹی ہے۔ مزید افسوس کی بات تو یہ ہے کہ نظریہ ارتقاءپر یقین رکھنے والے لاتعداد لوگ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اﷲ پر یقین کا دعویٰ بھی کرتے ہیں ان لوگوں کے نزدیک ’ اﷲ نے تمام زندگی تخلیق کی ہے۔
اگر انہی لوگوں کے سامنے ایک لکڑی کا بت رکھ دیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ اس بت نے کمرے میں موجود ہر چیز کو تخلیق کیا ہے تو وہ اس بات کو صریحاً فضول قراردیتے ہوئے اس پر یقین کرنے سے مطلق انکار کردیں گے ۔لیکن افسوس کہ یہ لوگ اس دعوے کو ایک زبردست سائنسی جواز سمجھتے ہیں کہ دنیا میں کروڑوں جاندار نسلیں جو کہ شاندار اور غیر معمولی نقشوں کا نشان دیتی ہیں وہ دراصل اتفاق جیسے بے شعور عمل کا نتیجہ ہیں۔
یہ لوگ اتفاق کو خد اکا درجہ دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ایک ہوشمند ‘ باشعور اور اتنا طاقتور واقعہ ہے کہ یہ کائنات کے نازک توازن اور اس میں موجود ہر جاندار کو وجود میں لانے کا اہل ہے۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ دراصل اﷲ نے اپنی وسعت ِعلم و فراست، طاقت اور مرضی سے تمام کائنات اور اس میں موجود جانداروں کو پیدا کیا ہے تو یہ ارتقائی پروفیسران اس حقیقت کو ماننے سے صاف انکار کردیتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ بے شعور، بے عقل اور بے جان اتفاقات ہی اس کائنات اور جانداروں کے پےچھے تخلیقی طاقت ہیں۔ نظریہ ڈارون ایک عظیم دھوکہ ہے جو کہ کسی بھی قسم کی منطق اور جواز سے مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ وہ نظریہ ہے جو اپنے تمام ہٹ دھرم حمایتیوں کو بے عزت کردیتا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔