سوشلزم اور کمیونزم نظام کی بدترین ناکامی
کارل مارکس کا دو سواں یوم پیدائش۔ کارل مارکس کانظریہ روبہ زوال ہے۔ جن ممالک میں سوشلزم اور کیمونزم نافذ تھا وہ بھی بتدریج سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کسی دور میں تقریباً آدھی دنیا پر راج کرنے والا سوشلزم آج چند چھوٹے ممالک تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ کبھی روس‛ چین‛ مشرقی جرمنی ‛کیوبا‛ شمالی کوریا‛ لیبیا اوریوگو سلاویہ میں سوشلزم کا راج تھا۔ اسکے علاوہ ہندوستان‛ عراق اور شام میں نیم سوشلزم تھا۔ جہاں بڑی بڑی صنعتیں نیشنلائزڈ تھیں۔ پاکستان میں بھی بھٹو دور میں سوشلزم کی سمت کچھ اقدامات کیے گئے تھے۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ مکمل سوشلزم شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں رہ گیا ہو۔ شمالی کوریا ‛ کیوبا اور وینزویلا میں کچھ حد تک۔ جن ممالک نے سوشلزم سے سرمایہ داری کی سمت سفر کیا انھوں نے حیرت انگیز طور پر تیز رفتاری سے ترقی کی۔ مثلاً چین نے جب سے سوشلزم کو ترک کرتے ہوئے سرمایہ داری کی طرف رخت سفر باندھا تو اسکی معیشت کو گویا سرخاب کے پر لگ گئے۔ اسکے جی ڈی پی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ بلند ہو گئی اور اب اس کی معیشت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے جو جلد ہی پہلے نمبر پر آجائے گی۔ اسی طرح 90 کی دہائی میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد بھارت جو سوشلزم کی طرف جھکاو رکھتا تھا‛ نے تیزی سے نجکاری شروع کی اور اسکی معیشت بھی تیزی سے ترقی کرنے لگی۔
روس جسکی معیشت کو سوشلزم نے مکمل طور پر برباد کر دیا تھا دوبارہ پاوں پر کھڑا ہو گیا اور اب پھر سے صف اول کے ممالک میں شامل ہے۔ ان حالات میں جو لوگ آج بھی سوشلزم کی راگنی الاپ رہے ہیں انھیں سوچنا چاہیئے کہ جو نظام آدھی دنیا پر راج کرتا تھا وہ کیوں آج سکڑ کر دو تین چھوٹے چھوٹے ممالک تک محدود ہو گیا ہے۔ جس طرح لوگوں کو اس نظام کے بارے میں حسین خواب دکھائے جاتے ہیں اور اس نظام کو سپنوں کی جنت مان کر لوگ اس کے فضائل بیان کر رہے ہیں‛ عملی طور پر آدھی دنیا پر نافذ رہنے کے باوجود یہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا کیوں نہ کر سکا؟ وہ حسین خواب جنھیں سجا کر غریبوں‛ مزدوروں اور کسانوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں وہ خواب تشنہ تکمیل کیوں رہے؟ جو نظام آدھی دنیا پر نافذ رہ کر بھی کچھ دے نہ سکا وہ پوری دنیا پر بھی نافذ ہو جائے تو کیا دے سکے گا؟ اس نظام کے داعی ایک مرتبہ اسکی ناکامی کے بعد کہ رہے ہیں کہ سوشلزم نہیں بلکہ سٹالنزم ناکام ہوا ‛ اب ہم سچے سوشلزم کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ اولاً تو یہ سچا سوشلزم ایسا سراب ہے جسکا حصول ناقابل عمل ہے اور اگر سوئی کے نکے سے یہ اونٹ داخل بھی ہو گیا تو اسکی کیا ضمانت ہے کہ اسکی ناکامی پر پھر اسکے لواحقین اسکی لاش اٹھانے سے انکار نہ کردیں کے یہ آدم پال ازم یا لعل خانزم ناکام ہوا سوشلزم تو تھا ہی نہیں۔ کیوں سراب کے پیچھے لگے ہو جوانو؟
خیالات صغیر خان
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔