Thursday 24 January 2019

کیا سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے؟ عوام کو سوشلزم اور کمیونزم کے کافرانہ نظام کا ہم خیال بنانے اور اس کے نفاذ کے لیے سوشلسٹوں،کمیونسٹوں کے دھوکا خیز دلائل اور ان کا جواب

کیا سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے؟
عوام کو سوشلزم اور کمیونزم کے کافرانہ نظام کا ہم خیال بنانے اور اس کے  نفاذ کے لیے سوشلسٹوں،کمیونسٹوں کے دھوکا خیز دلائل اور ان کا جواب

تدوین و ترتیب۔۔احید حسن
======================================
سوشلزم ایک نظریہ ہے جس کی بنیاد سیاسی طور پر یہ ہے کہ معاشرہ (ریاست) کو فرد پر فوقیت ہے ، اور اگر ریاست کا انتظام بہتر طور پر چلانا ہے تو تمام طرح کے ملکیتی حقوق ریاست کے پاس ہونے چاہیں اور فرد کو ریاست کے ایک آلہ یا ٹول کے طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ مختلف النوع معاشی وسیاسی خیالات اور تمام وسائل دولت، ذرائع پیداوار اور اشیاء صرف کو بجبر ریاست کی تحویل میں لے لینا وغیرہ کو اس کے مفہوم میں شامل سمجھاجاتا ہے۔
کارل مارکس(Karl Marx)نے، جوایک ٹھیٹھ یہودی خاندان سے تعلق رکھتاتھااورساری عمراحساس محرومی کاشکاررہا،اپنے ساتھی فریڈرک اینجلزکے ساتھ مل کراشتراکیت کے نام سے جوفلسفہ مرتب کیااس میں دوچیزیں نمایاں ہیں:
1... سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نفرت وبغاوت
2... دین ومذہب کی حقارت،بیزاری اورعداوت
سوشلسٹ کمیونسٹ حضرات عوام کو اپنا ہم خیال بنانے کے لیے یہ جھوٹ بولتے ہیں کہ سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے جب کہ سوشلزم الحاد کی پہلی سیڑھی ہے۔
اسلام فرد کی انفرادی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے
سوشلزم کی نظر میں فرد کی انفرادیت کی کوئی حقیقت نہیں اور سب کچھ سوشلسٹ ریاست کی ملکیت قرار پاتا ہے جس میں سے فرد ایک مخصوص حصے سے زیادہ حاصل نہیں کر سکتا۔
اسلام کا بنیادی مآخد قرآن پاک ہے اور اس کے قواعد و ضوابط خود خالق کائنات نے بنائے ہیں
سوشلزم کی بنیاد کتاب سرمایہ ہے اور اس کے اصول کتاب کے مصنف مارکس نے وضع کیے ہیں
اصل کتاب کمیونسٹ مینی فیسٹو ہے۔
اس کے برعکس اسلام نے سرمایہ اداری اور اشتراکیت کے بیچ سے عدل و مساوات کے سیدھے راستہ کو اختیار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ دنیا کی ہر چیز خواہ وہ زمین ہویا کار خانہ روپے ہوں یا سونے چاندی ان سب کا مالک اللہ ہے، اصل ملکیت اسی کی ہے  لله مافی السموات وما فی الارض (القرآن) ہاں وہ اپنی ملکیت اپنے بندوں کو نفع اٹھانے کے لئے اس شرط پر دیتا ہے کہ وہ اس کے استعمال میں اس کی مرضی کے پابند ہوں اور مال و دولت کے نشہ میں مست ہوکر دوسروں کا خون نہ چوسیں بلکہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کریں ارشاد ربانی ہے:
وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ  اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ (قصص : ۷۷)
’’ تجھ کو خدا نے جتنا دے رکھا ہے اس میں عالم آخرت کی بھی جستجو کیا کر اور دنیا سے اپنا حصہ (آخرت میں لے جانا) فراموش مت کر اور جس طرح الله تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی (بندوں کے ساتھ) احسان کیا کر اور دنیا میں فساد کا خواہاں مت ہو ،بے شک الله تعالیٰ اہل فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘
اس آیت سے ظاہر ہے کہ اسلام نے فرد کو نجی ملکیت کا حق دیا ہے اور شخصی اور معاشی ازادی دی ہے۔
اسلام سودکو حرام قرار دیتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سوشلزم کو ٹھیک کہتا ہے بلکہ سود کی حرمت کے ساتھ ساتھ یہ نجی ملکیت کا حق برقرار رکھتا ہے جب کہ سوشلزم نہیں۔اسلام ہر فرد کو اسکی  صلاحیت اور محنت کے مطابق اسے کمانے اور رکھنے کاحق دیتا ہے۔
یعنی اللہ نے انسان کو اشتراکیت کی طرح انفرادی ملکیت سے محروم نہیں کیا بلکہ سرمایہ داری کی طرح انفرادی ملکیت عطا کی، لیکن سرمایہ داری کی طرح اسے خود مختار نہ بنایا کہ وہ جیسے چاہے کرتا پھرے، بلکہ اپنی مرضی کا پابند بنایا ،ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی تمام خرابیوں کے اسباب و عوامل سود، قمار، سٹہ اور اکتناز کو حرام قرار دیا اور اعلان کردیا:
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا (بقرۃ: ۲۷۵)
’’اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام‘‘
 دوسری جگہ یہ اعلان کردیا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ(المائدۃ: ۹۰)
’’اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو ‘‘
 اور ہر اس چیز سے منع کردیا جس سے معاشرہ کا نقصان ہو اور ایک شخص دھن جمع کرتا ہو چنانچہ ’’بیع جلب ‘‘اور’’ بیع حاضر لباد‘‘ کو اسی خطرہ کے پیش نظر ممنوع قراردیا۔(بخاری: احمد)
اسی معاشرہ کے نقصان کے پیش نظر احتکار کو ناجائز قرار دیا اور اعلان کردیا
الجالب مرزوق و المحتکر ملعون ( ابن ماجہ) ۔
’’دوسرے شہر سے مال لانے والے کو رزق (اور روزی میں برکت و نفع) دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے‘‘
لہذا اسلام نے زاتی تجارت اور کاروبار کی اجازت دی اور یہی وہ قانون تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے زمانے سے لے کر آج تک رائج رہا۔
یہی نہیں بلکہ ناجائز آمدنی پر پابندی لگانے کے علاوہ ’’اکتناز‘‘ سے روکتے ہوئے غریبوں تک دولت پہنچانے کے لئے سرمایہ داروں پر زکوۃ جیسے بہت سے اخراجات اسلام نے واجب کردیئے اور یہ بھی نہیں کہ اسے ان کی طرف سے احسان سمجھا جائے کہ سرمایہ دار غریبوں کو اپنے اس احسان کے ذریعہ دبائیں اور عاردلائیں بلکہ اسے ’’حق واجب‘‘ قرار دیا، جسے بزورقانون وصول کیا جاسکتا ہے۔ نیز اسلام نے غریبوں کی رعایت کرتے ہوئے زکوۃ کے علاوہ عشر، خراج، صدقات، کفارات، نفقات، وصیت اور میراث کے ذریعہ مالداروں کے تالاب سے غریبوں کے کھیتوں کی طرف مختلف نہریں جاری کردیں تاکہ پورا معاشرہ سرسبز و شاداب رہے اور آیت قرآنی (وابتغوامن فضل الله) اور  (کلوامن الطیبات واعملوا صالحا) کے ذریعہ حلال آمدنی کے حصول پر توجہ دلاتے ہوئے اس کو صحیح مصرف اور اللہ کی راہ میں یعنی غریبوں پر خرچ کرنے کی تاکید بھی کردی ،چنانچہ قرآن و حدیث کو دیکھئے ان کی تعلیمات ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ سے بھری پڑی ہیں بلکہ اللہ کی راہ میں ضرورت سے زائد خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے ۔
 سوشلسٹ کمیونسٹ لوگ جھوٹ بولتے ہیں کہ اسلام نے کوئی مربوط معاشی نظام دینے سے گریز کیا ہے- کوئی مخصوص وضع قطع بیان نہیں کی- اسلام ہمیں معاشی اخلاقیات و اصول کے ذریعے کسی بھی معاشی نظام ترتیب دینے کی اجازت دیتا ہے- یہ جھوٹ ہے۔اسلام کا اپنا ایک معاشی نظام ہے اور اسلام ہر اس نظام کی مخالفت کرتا ہے جو اسلام سے متصادم ہوغرض ایک طرف سرمایہ داری کی ناجائز آمدنی اور اشتراکیت کے ظلم و جور کو ختم کرکے اور دوسری طرف اس کے اخرجات میں اضافہ کرکے اسلام نے دولت کے بہاؤ کا رخ عام معاشرہ کی طرف پھیر دیا تاکہ خوشحالی ہی خوشحالی نظر آئے، معاشرہ سے غربت دور ہو انسان چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرے نہ امیر غریبوں کا خون چوسیں اور نہ ہی غرباء  ’’بقاء حیات‘‘ اور ’’سدرمق‘‘ کے لئے ’’قوت لایموت‘‘ کو ترسیں۔
اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ادوار کی تاریخ کا تجزیہ کیا جائے تو بالکل واضح ہو جائے گا کہ پیداواری وسائل تمام عوام کی ملکیت تھے، ہر شخص معیشت کے مختلف ذرائع زراعت، تجارت، دستکاری وغیرہ اختیار کرنے میں آزاد تھا، جس کے نتیجے میں ہر شخص مطمئن ہو کر جدوجہد میں لگا ہوا تھا اور معاشرے میں سکون تھا۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ اسلام فرد کی شخصی اور معاشی آزادی برقرار رکھتا ہے اور اسے سوشلزم کی طرح کام کرنے والی غلام مشین یا خردنہیں بناتا۔
  سوشلسٹ کمیونسٹ لوگ کہتے ہیں کہ مارکس  بھی ہر انسان سے اسکی مرضی، خواہش اور اہلیت کے مطابق کام لینے کی بات کرتا ہے اور ہر انسان کی ضروریات کو اسکی دہلیز پہ پہنچانے کا نظام وضع کرتا ہے- اللہ کے مال میں بنیادی طور پر تمام انسانوں کو یکساں حق تصرف حاصل ہے، تمام چیزیں جو زمین سے نکلتی ہیں یا دنیا میں پائی جاتی ہیں، سب کی سب بنی نوع انسان کی نفع رسائی کے لئے پیدا کی گئی ہیں-یہ جھوٹ ہے۔مارکسزم میں نجی ملکیت کا کوئ تصور نہیں اور اس طرح یہ اسلام سے متصادم ہے۔
ایک اور حدیث کے مطابق اس دور کے معروضی ذرائع پیداوار یعنی آگ، پانی اور چراگاہ پہ تمام انسانیت کا حق ہے-جی بالکل۔پوری انسانیت کا حق ہے لیکن اس حدیث میں کہیں بھی نہیں ہے کہ سب کچھ محض ایک سوشلسٹ حکومت کی ملکیت ہے بلکہ عوام کی ملکیت کا مطلب سب کا اپنا اپنا جائز حصہ اور حق ہے اور نجی ملکیت نہ کہ کچھ مخصوص ہاتھوں یعنی سوشلسٹ  حکومت کی ملکیت۔ اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ نے یہودی سرمایہ دار سے میٹھے پانی کا کنووں خرید کر بلا امتیاز سب کے تصرف میں دے دیا- یہ سب کے تصرف میں تھا کا مطلب یہ فلاحی کاموں کے لیے وقف تھا لیکن وقف چیز اور نجی ملکیت میں بہت فرق ہے۔اسلام نے نجی ملکیت کا تصور ختم نہیں کیا۔
جیسے عزت مآب عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ مشرق ومغرب کے جس کونے میں بھی محمد ﷺ کی امت کا کوئی فرد ہو،میں اس تک اس کا حق پہنچادوں،بغیر اس کے کہ وہ مجھ سے اپنا حق مانگنے آئے (ابن اثیر۔ الکامل فی التاریخ: ۲ ۔ ۳۷۱) لیکن پھر وہی بات کہ نجی ملکیت کا تصور ختم نہیں کیا۔
سوشلسٹ کہتے ہیں کہ عالمگیر انسانی سماج جس میں مساوات بنیادی وصف ہو گا صرف سوشلزم کے تحت ممکن ہے- لیکن اسلام اس میں نجی ملکیت کا خاتمہ نہیں کرتا۔اور امیر غریب کا فرق زکوہ صفات سے ختم کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی معاشی آزادی برقرار رکھتا ہے۔جب کہ سوشلزم نہیں۔
سود اور جوا کی طرح معاشی استحصال سرمایہ دار نظام کے بنیادی نشانیوں میں سے ہے- سوشلزم نجی ملکیت کو ضرورت کے مطابق رہائشی گھر کی ملکیت وغیرہ تک محدود کرتے ہوئے معاشی استحصال کا امکان ہی ختم کر دیتا ہے-یہ جھوٹ ہے۔سب ذرائع چھین کر نجی ملکیت سے محروم کر کے سب چھین کر محض ایک تھوڑا حصہ دیا جاتا ہے۔اس طرح سرمایہ کاری کی طرح سوشلزم بھی استحصال کرتا ہے۔
 سوشلسٹ کہتے ہیں کہ سوشلزم بنیادی طور پر مانگ کا خاتمہ کرتا ہے اور ہر کسی کو باعزت طور پر اسکی ضروریات مہیا کی جاتی ہیں- یہ نہیں کہ کسی کے پاس ذخیرہ اور کہیں پیٹ کے لالے ہوں- اسلام فضول خرچی سے روکتا ہے لیکن اپنی نجی ملکیت اور برے وقت کے لیے سب بچا کے رکھنے کی بھی اجازت ہے۔
یہ ہے اسلام کا اتقصادی نظام کہ جس نے اسے اپنایا ترقی کرتا ہی چلاگیا اور جس نے اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ تلاش کی ابدی تنزلی اسکا مقدر بن گئی۔
قرآنی آیات اور اہل علم کے اجتماع سے سائل اور دوسرے لوگوں پر یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ جو لوگ اشتراکیت یا سوشلزم یا کسی دوسرے باطل نظام کی طرف بلاتے ہیں جو نظام قوانین اسلامیہ کا رد کرتا ہے اور اس کی ممانعت کرتا ہو تو ایسے لوگ کافر ہیں اور بدترین گمراہ ہیں اور یہ لوگ یہود نصاریٰ کے کفر سے بھی بڑھ کر کفر میں ہیں اس لیے کہ یہ ملحد ہیں اور خدا و ویوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور ہر گز جائز نہیں ہے کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کی مساجد میں خطیب یا امام مقرر کیا جائے اور ان کی امامت و اقتداء میں نماز بھی جائز اور درست نہیں۔
اور وہ لوگ جو ان ملحدوں اور کافروں کی مدد تائید کرتے ہیں اور ان کے نظام باطل اور فکر غلط کو صحیح تسلیم کرتے ہیں اور اسلام کی طرف بلائے جانے والوں کی مذمت و اعانت کے مرتکب ہوتے ہیں تو وہ بھی ان ہی جیسے ملحد و کافر ہین۔ جن کے وہ ہمرکاب اور سوئید و مونس ہیں۔ علماء اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف جو بھی کافروں اور ملحدوں کی کسی قسم کو بھی تائید و نصرت کرتا ہے وہ بھی کافر ہے جیسے کہ خداوند قدوس نے اپنی کتاب مجید میں فرمایا ہے۔
(۱) (یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ) (پ۶ آیت ۵۱)
’’اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی بھی اس میں سے کسی کو اپنا دوست بنائے گا تو وہ بھی ان ہی میں شمار ہو گا، یقیناًاللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا جو ظلم کرتے ہیں۔‘‘
(۲) (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآءَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ ) (آیت ۲۴ پ ۱۰)
’’اے ایمان والو! اپنے باپ اور بھائیوں کو اپنا رفیق مت بناؤ، اگر وہ ایمان کے بجائے کفر کو پسند کریں اور اگر تم سے کوئی ان کا رفیق اور مونس ہو گا تو وہ بھی ان ہی میں شمار کیا جائے گا اور ایسے لوگ یقیناًظالموں میں سے ہیں۔‘‘
اسلام ذاتی ملکیّت کی نفی نہیں کرتا اور نہ ہی اسے ناجائز ٹھہراتا ہے، البتہ دولت کے حصول اور خرچ کرنے کی راہیں ضرور متعین کرتا ہے ۔ اس کے برعکس سرمایہ دارانہ نظام دولت کے حصول کے لیے ہر طریقے اور ہر راستے کو جائز قرار دیتا ہے۔ جوا، شراب، جنس فروشی، ذخیرہ اندوزی، مصنوعی مہنگائی، سرمایہ دارانہ نظام میں جائز ٹھہرتی ہے، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ ریاست کو اس کا ٹیکس ادا کر دیا جائے، اس ظالمانہ نظام معیشت کے مقابلے میں میں سوشلزم (اشتراکی نظام) وجود میں آیا، جس میں تمام ملکی پیداوار کی مالک حکومت ہوتی ہے اور عوام الناس کو ضروریات زندگی حکومت مہیا کرتی ہے، ان کی ذاتی ملکیت میں کچھ نہیں ہوتا ہے، کچھ لوگ اس نظام معیشت سے متاثر ہو کر اسے اسلامی نظام معیشت کا نام دینے لگے اور اسے مشرف بہ اسلام کرنے کے لیے قرآن واحادیث کا سہارا لینے لگے۔ چناں چہ منکرین حدیث کا  باپ غلام احمد، جو اس تحریک کے علم بردار رہا﴿قُلِ العَفْو﴾ کی تفسیر میں ذاتی ملکیت کی تردید کرتے ہوئے لکھتا ہے
”سوشلزم کا معاشی نظام تو قرآن کے معاشی نظام کے مماثل ہے۔ ( طلوع اسلام اگست1967، ص:27)
پرویز  اوران کے ہم نوا اشتراکیوں کا یہ دعوی باطل اور قرآن کریم کی معنوی تحریف ہے ۔ اس دعوے کا بطلان جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ ؟
حضورکریم صلی الله علیہ وسلم او ران سے قرآنی تعلیمات سمجھنے والے صحابہ کرام میں سے کسی سے ”قُلِ العَفْو“ کی یہ انوکھی تفسیر منقول نہیں ہے۔
نیز اس آیت میں صحابہ کرام نے استفسار کیا کہ کس قدر خرچ کریں؟ یہ سوال اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ کرام   رضي الله عنهم کے پاس فاضل دولت موجود تھی اور فاضل دولت رکھنا کوئی عیب نہ تھا اور ان کی ذاتی ملک پر کوئی اعتراض نہ تھا ،راہ الہٰی میں دولت خرچ کرنے کی ترغیب اس لیے ہی دی گئی تھی کہ وہ اس کے مالک تھے، اگر فاضل دولت کا مالک ہونا جرم ہوتا، تو اہل اقتدار کو حکم ہوتا کہ ان سے فاضل دولت وصول کر لو، نہ یہ کہ مال دار کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دو۔
زکوٰة ، فطرانہ، زائد از ضرورت مال کا ہی دیا جاتا ہے، اگر کوئی زائد از ضرورت مال کا مالک ہی نہ ہو نجی ملکیت کچھ نہ ہو  تو زکوٰة وفطرانہ کے احکام کیوں؟ اور کس پر لاگو ہوں گے ۔
اگر زائد از ضرورت مال کی ملکیّت کا تصور ہی نہ ہوتا تو بیع وشراء، مال غنیمت، دین وقرض، مہر، دیت (خون بہا) کے قرآن وسنت کے احکام (نعوذ بالله) لغو ٹھہریں گے یا قابل عمل ہوں گے؟ اگر قابل عمل ہیں تو ذاتی ملکیت کے بغیر کیسے ؟
میراث میں ملنے والا مال اگر زائد از ضرورت ہو تو وارث اس کا مالک ہو گا یا نہیں ؟ قرآن کریم نے وراثت پانے کے لیے فقر کی کوئی شرط بیان نہیں کی ۔وارث امیر ہو یا فقیر وہ اپنا حصہ لے سکتا ہے ۔
پرویز  نے ان دلائل واحکام سے جن سے ذاتی ملکیت کا ثبوت ملتا تھا، ایک ہی دعوی کر دیا کہ یہ سب احکام منسوخ ہیں ۔ لیکن اس بھونڈے دعوی پر بھی کوئی دلیل نہ دے سکا۔
سوشلسٹ کمیونسٹ لوگ یہ دھوکا دیتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے نجی ملکیت ختم کر کے سب کچھ حکومتی تحویل میں لے لیا۔جب کہ سچ یہ ہے کہ  آپ نے بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد منادی کروادی کہ لوگ اپنے مال و جائداد کے بارے میں اپنی شکایتیں پیش کردیں جس کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ اسے زبردستی ہتھیالیا گیا ہے۔چنانچہ آپ نےنے زبردستی ہتھیا گیاکے مال لے کر عوام کے حوالے کردیا اور نجی ملکیت کا تصور ختم نہیں کیا۔ان کے اس عمل سے کسی طرح بھی سوشلسٹ نظام اسلام کے عین مطابق قرار نہیں پاتا۔
 سوشلسٹ کہتے ہیں کہ مارکس اور اینگلز کا لکھا ہوا “کیمیونسٹ مینی فیسٹو” راہ انقلاب کی بنیادی دستاویز ہے، جس میں کسی بھی مذہب کے خلاف ایک سطر بھی نہیں۔یہ فراڈ اور جھوٹ ہے۔مارکس خدا کا منکر تھا اور مذہب کو ہیروئن قرار دیتا تھا۔مارکسزم میں کہیں بھی مذہب کا نام نہیں البتہ مذہب کی مخالفت ہمیں بہت ملتی ہے۔اس کا تفصیلی ذکر میں ان شاء اللہ اپنے اگلے مضمون میں کروں گا۔
      سوشلسٹ کمیونسٹ  یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے غلامی کا خاتمہ کیا اور اس کو یہ لوگ سوشلسٹ نظام کو اسلام کے عین مطابق قرار دینے کے لیے پیش کرتے ہیں
لیکن یہ سب بیان کرتے ہوئے سوشلسٹ اسکمیونسٹ معاشی آزادی اور انفرادی ترقی کا تصور بھول جاتے ہیں جسکہ کی اجازت اسلام نے فرد کو دی ہے۔
سوشلسٹ کہتے ہیں کہ  سوشلزم میں گداگری کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے- سوشلزم کی منصوبہ بند معیشت کے تحت کوئی انسان خیرات کا حقدار ہی نہیں رہتا جیسے حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہد کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بندہ خود کو خیرات لینے کا حقدار نہیں سمجھتا ہے اور جو لوگ خیرات کرنا چاہتے تھے انکو لینے والا نہ ملتا تھا-یہاں بھی سوشلسٹ کمیونسٹ دھوکا دہی سے کام لے رہے ہیں۔اسلام نے انفرادی اور معاشی آزادی برقرار رکھتے ہوئے یہ سب حاصل کیا جب کہ سوشلزم فرد کو معاشی غلام بنا کر یہ سب کیا اور وینزویلا جیسے ممالک  میں جب یہ ختم ہوا توتھا عوام کے پاس ذاتی جاگیر تو تھی نہیں اور ان کی ذاتی جاگیر سوشلسٹ حکومت چھین چکی تھی اور وہ سوشکست حکومت جب ختم ہوگئ تو عوام فاقوں سے مری اور ملک میں قحط،قتل و غارت اور بھوک ٹوٹ پڑی۔یہی وجہ ہے کہ اسلام برے وقت کے لیے عوام کی نجی ملکیت کا حق برقرارسے رکھتا ہے تاکہ فرد اپنی ذاتی پریشانی اور ملک پر برے وقتوں میں فاقوں سے نہ مرے۔
غرض یہ کہنا کہ  سوشلسٹ نظام اور اسلامی معاشی اخلاقیات و اصول کا آپس میں کوئی تصادم نہیں
یہ سب جھوٹ،فراڈ،دھوکا اور دغا بازی ہے جس کو سوشلسٹ کمیونسٹ لوگ عوام کو اپنا ہم خیال بنانے اور ایک اس ملحد بے دین انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے کرتے ہین جس نے جب بھی عروج حاصل کیا مذہب کی جڑیں کاٹنے کا کام کیا۔اس کی مثال سابق سوویت یونین،چین ،کمبوڈیا میں آپ دیکھ سکتے ہیں  اس کاتتفصیلی ذکر میں اپنے سابقہ مضامین میں کر چکا ہوں۔

حوالہ جات:
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اسلام-اور-سوشلزم-کا-موازنہ.59998/
http://www.farooqia.com
http://muftiarifbillah.blogspot.com/2014/02/blog-post.html?m=1
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/3882/53/
http://www.farooqia.com/ur/lib/1436/12/p5.php

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔