شام میں نصیری سوشلزم اور اشتراکیت اور الحاد کے اہل اسلام پر ظلم
تحریر۔۔
ڈاکٹر نفیس اختر
ملکِ شام۔شجر سے ٹوٹ کرستم رسیدہ ہوئی شاخِ بے آبرو
(28 Dec) ڈاکٹر نفیس اختر شام پر اس وقت جس فوجی ٹولے کی حکومت ہے اس کا تعلق وہاں کے ایک اقلیتی فرقہ نصیریہ سے ہے۔بشار اور اور اس کے باپ حافظ اسد کا تعلق اسی فرقہ سے ہے۔ یہ فرقہ بظاہر تو اسلام کا نام لیوا ہے لیکن درحقیقت اسلامی تاریخ کے طویل دور میں یہ اسلام دشمن طاقتوں سے مل کر اسلام کی بیخ کنی کی ناپاک سازشیں کرتا رہا ہے۔تاتاریوں اور صلیبیوں کی مدد میں بھی یہ فرقہ پیش پیش رہا ہے۔حضرت علیؓ کو خدا کا اوتار ماننے والے اس فرقہ کے عقائد اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ ان کے عقائد اور مسلمانوں کے خلاف ان کے بغض وعداوت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ '' یہ اور قرامطہ باطنیہ کے سارے فرقے یہود ونصاریٰ اور مشرکین سے بڑھ کر کافر ہیں ۔ اور اسلام کے لئے تاتاریوں اور فرنگیوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔یہ ہمیشہ اعدائے اسلام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ تاتاری بلادِ اسلامیہ میں انھیں کی مدد سے گھسے ،اور انھیں کی مدد سے بغداد کے خلیفہ کو قتل کرنے میں کامیاب ہوئے'' ۔ ۱۹۶۷ کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کا وزیرِ دفاع حافظ الاسد نصیری تھا۔ جنگ میں حافظ الاسد نے درپردہ اسرائیل کی مدد کی تھی۔گولان کی پہاڑیوں اور بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ اسرائیل اور نصیریوں کے پیچ طے پانے والے خفیہ منصوبے کا نتیجہ تھا۔حافظ الاسد نے جب فوجی انقلاب کے ذریعہ شام کے اقتدار پر قبضہ کیا توازسرِ نو دستور سازی کرکے شامی دستور سے اسلامی عنصر کا نہ صرف خاتمہ کردیا بلکہ اسلام کو شام کا سرکاری مذہب ماننے سے انکار کردیا۔شامی عوام کے احتجاج اور طاقتور ردِ عمل کے بعد صرف اتنا تسلیم کیا گیا کہ شام کا صدر مسلم ہوگا۔۱۹۷۰ کے فوجی انقلاب کے بعد سے ہی شام پر اشتراکیت پسند نصیری آمریت مسلط ہے جو اسلام اور دینی اقدار کی شدید مخالف ہے۔دینی اداروں ،ملی تنظیموں اور اسلامی تحریکوں کے خلاف پورے ملک میں جاسوسی نیٹ ورک پھیلا دیا گیا تھا۔دینی بیداری کی ہر آہٹ پر فوجی بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی تھی۔ذرائع ابلاغ،تعلیمی نظام اور سرکاری وسائل کے ذریعہ غیر اسلامی ثقافت،مغرب زدگی،دین بیزاری،جنسی اباحیت ،بے پردگی،اخلاقی بے راہ روی اور تہذیبی گمراہی کو بڑھاوا دیا جارہا تھا۔ علماءِ حق،داعیانِ اسلام اور اخلاقی ودینی اقدار کے محافظوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی تھی لیکن اوباشوں، ملحدوں،اشتراکیت پسندوں،اباحیت پسندوں اور لادینی نظریہ رکھنے والوں کو ملک میں اپنے نظریہ و اقدار کو ترویج دینے کی سہولتیں فراہم تھیں۔جمہوری آزادیوں اورہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی ۔صرف بعث پارٹی کو ہی سارے سیاسی حقوق دے دئے گئے تھے۔حکومت پر تنقید،ا ور اس کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ناقابلِ معافی اور قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم تھا۔اخوان المسلمون کے سینکڑوں کارکنوں کو ان کی اسلام پسندی کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال کر اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔کئی اخوانیوں کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔اسّی فیصد عوام پر دس فیصد نصیریوں کا دیگر دس فیصد الحاد پسندوں،عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر جبریہ اقتدار فوجی طاقت اور ظلم کے سہارے برقراررکھا گیا تھا۔اس جبر و ظلم کے خلاف عوام کا پیمانۂ صبر کئی مواقع پر لبریز ہوگیاتھا۔لیکن قتلِ عام،گرفتاریوں اور تشدد سے اس عوامی ضمیر کا گلا گھونٹا جاتا رہا۔۱۹۸۲ میں حما شہر میں ایک لاکھ اخوانی ارکان وکارکنان کا قتلِ عام کیا گیا۔نصف صدی سے ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی۔صدر کو اختیار دے دیا گیا کہ جس شہری کوچاہے گرفتار کر کے زنداں کے حوالہ کردے،اس کو شہریت سے محروم کردے،اس کی جائداد بحق قوم ضبط کرلے۔عوام کے تجارتی کاروبار ،کارخانوں اور صنعتوں کو قومیا کر ان پر قبضہ کرلیا گیا۔کاشت کی زمینوں کی حدملکیت گھٹا کر لوگوں سے انکی زمینیں چھین لی گئیں۔۲۰۱۱ میں عرب بہار سے حوصلہ پاکر شامی عوام نے ایک بار پھر سے نصیری آمر سے نجات پانے اور اپنی آزادی کو حقیقت بنانے کے لئے پہلے پرامن اور پھرحکومتی فوج کے تشدد کے جواب میں مسلح جد جہد شروع کردی ہے۔ جس کو کچلنے کے لئے بشار الاسد ایران وروس کی مدد سے کوشاں ہے۔ شام کے اقتدار پر اقلیتی نصیری فرقہ کس طرح قابض ہوا ،یہ ایک طویل داستان ہے۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب مشرقِ وسطیٰ پر صلیبی طاقتوں کا قبضہ ہوگیا تو سائکس پیکو معاہدہ کے تحت عرب خطوں کو فرانس اور برطانیہ کے درمیان تقسیم کردیا گیا ۔فلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا تو شام فرانس کے ۔جمعیتِ اقوام نے برطانیہ اور فرانس کو فلسطین اورشام کا مینڈیٹ دے دیا۔ برطانیہ نے اپنے دورِ انتداب میں فلسطین میں اسلام دشمن یہودی ریاست قائم کیا تو فرانس نے شام میں نصیری ریاست کی بنا ڈالی۔ تاکہ عربوں کے قلب میں دودشمنوں کی موجودگی میں عربوں کو سکون وچین سے ترقی کرنے کا موقع نہ مل سکے،اور بالواسطہ خطہ میں صلیبیوں کا اثرورسوخ قائم رہے۔مارچ ۱۹۲۰ سے قبل شام عثمانی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔عربوں کی بغاوت کی وجہ سے صلیبیوں کے مقابلہ میں عثمانیوں کوشکست ہوئی۔ اس کے بعد ۸مارچ ۱۹۲۰ کو عرب رہنماؤں نے دمشق میں منعقد ایک اجتماع میں شام کی آزادی کا اعلان کرکے شریف حسین کے بیٹے شاہ فیصل کی بادشاہت کا اعلان کردیا۔لیکن فرانس نے فوجی کارروائی کے ذریعہ شام پر قبضہ کرلیا۔شاہ فیصل کو دمشق سے بھاگ کر صحرائے شام میں پناہ لینی پڑی۔ فرانس نے شام پر قبضہ کرتے ہوئے اسے چارریاستوں میں تقسیم کردیا۔دروزی ریاست،علوی ریاست،لبنان اور سوریا۔علویوں یعنی نصیریوں کی صورت میں فرانس کو ایک ایسا گروہ مل گیا جو صلیبی مقاصد کو پورا کرنے،اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور فرانس کے استعمارانہ عزائم کے حصول میں ان کا مددگار بلکہ ہمنوا بن سکتا تھا۔ فرانس نے اسی مقصد سے اس گروہ کو بڑھاوا دینا شروع کیا۔ دروزی بھی نصیریوں کے ساتھ مل گئے۔علوی ودروزی ریاست کے قیام سے ان دونوں گروہوں میں سیاسی عزائم کی پرورش کی گئی۔فوج میں نصیریوں اور دروزیوں کی تعداد میں لگاتار اضافہ کیا جاتا رہا۔حتیٰ کہ شامی فوج کی اکثریت نصیریوں اور دروزیوں پر مشتمل ہوگئی۔ان کے علاوہ فوج میں جو سنی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے وہ زیادہ تر سوشلسٹ ،لادین اور خدا بیزار تھے۔فوج کے اہم عہدوں پر نصیریوں کو رکھا گیا۔ مستقبل میں اسی فوج کو شامی عوام پر مسلط کرنے کا ارادہ تھا۔شامی عوام کے احتجاج اور کامیاب ہڑتالوں کے بعد ۱۹۳۶میں دورزی اور علوی ریاستوں کو سوریا کے ساتھ ضم کر کے ایک متحدہ ملک بنا دیا گیا۔ لبنان بدستور علاحدہ ریاست کے طور پر قائم رہا۔ لیکن نصیریوں،دروزیوں اور لادینوں کی سرپرستی جاری رہی۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ کو جب فرانس کے تسلط سے شام کو آزادی ملی اور ۱۵ اپریل ۱۹۴۶ کو آخری فرانسیسی فوج نے ملک چھوڑا تو نصیریوں کی قیادت واکثریت والی شامی فوج اس قدر طاقتور ہوچکی تھی کہ وہ ملک پر عوامی رجحان کے برخلاف اپنی مرضی مسلط کر سکے۔ دوسری طرف ۱۹۴۷ میں دمشق کے اندر مائیکل عفلق،صلاح الدین بیطار اور ذکی ارسوزی کے پیروکاروں نے مل کر عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ مائیکل عفلق ایک مسیحی تھا۔ جس نے فرانس میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۲ میں دمشق کے مدرسہ تجہیز الاولیٰ کے تاریخِ اسلامی کا مدرس مقرر ہونے کے بعداس نے اپنے اشتراکی اور اسلام مخالف اور عربی قوم پرستی پر مشتمل اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی۔ طلبہ،تعلیم گاہوں،علمی حلقوں اور فوج میں فرانسیسی تعاون کے ذریعہ اس کے نظریات فروغ پانے لگے۔ صلاح الدین بیطار ایک سنی عرب تھا۔ لیکن اسلام کی بجائے اشتراکیت وقوم پرستانہ نظریات کا حامل تھا۔ ذکی ارسوزی اور اس کے پیروکار خدا کے منکر تھے۔اور الٰہی ہدایت ورہنمائی کے مخالف تھے۔ بعد میں شام کا ایک اور اشتراکی اکرم حورانی بھی اس پارٹی میں شامل ہوگیا۔بعث پارٹی کا نظریہ تمام عرب علاقوں پر مشتمل ایک واحد عظیم ترین عربی قوم پرستانہ اشتراکی ریاست کا قیام تھا۔بعث کی یہ دعوت شام سے نکل کر عراق،لبنان،اردن اور مصر وغیرہ میں پھیلنے لگی۔رفتہ رفتہ بعث نصیریوں،دوزیوں،ملحدوں ،قوم پرستوں اور اشتراکیت پسندوں کا متحدہ پلیٹ فارم بن گیا۔۱۹۵۴ کے انتخابات میں بعث دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ ابھی مصر کو آزاد ہوئے تین برس بھی نہ ہوئے تھے کہ جمہوری سویلین حکومت کو برطرف کرکے کرنل حسنی زعیم نے ۳۰ مارچ ۱۹۴۹ کو حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اور ۲۳ جون کو خود صدر بن گئے۔ یہ عرب میں فوجی آمریت کا نقطۂ آغاز تھا۔دوماہ بعد ہی ۱۴ اگست کو ایک اور فوجی افسر سامی الحِنّاوی نے کرنل زعیم کو قتل کردیا اور خود آمرِ مطلق بن گئے۔ہاشم اتاسی کو کٹھ پتلی صدر منتخب کیا گیا۔لیکن ۱۹دسمبر ۱۹۴۹ کوایک ہی سال میں تیسرے انقلاب میں کرنل ادیب ششکلی نے حناوی کو قتل کردیا۔اور ۱۹۵۴ تک استبدادی انداز میں حکومت کی۔کرنل ششکلی کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد ششکلی کو بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لینا پڑا،جس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۴ مین شام میں ایک بار پھر آئینی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔۔ملک میں عام انتخابات کے نتیجہ میں اگست ۱۹۵۵ میں تیسری بار ملک کے مقبول رہنما اسلام پسندشکری القوتلی کو صدر اور مسیحی رہنما فارس الخوری کو وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا۔ فروری ۱۹۵۸ کوشام اور مصر میں اتحاد کے ذریعہ متحدہ عرب جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا ۔شام اور مصر جس کے شمالی وجنوبی صوبے قرار پائے۔لیکن ۲۸ ستمبر ۱۹۶۳کو ایک شامی فوجی افسر حیدار الکزیری نے شامی اقتدار پر قبضہ کرکے شام کا مصر کے ساتھ الحاق ختم کردیا۔ متحدہ عرب جمہوریہ کے دور میں بعث پارٹی نے شامی فوج میں مختلف خفیہ حلقے بنا لئے تھے۔ اوراسی دوران بعث پارٹی کی فوجی کمیٹی تشکیل پائی۔جس کے روحِ رواں ،صلاح جدید،محمد عمران اور حافظ الاسد نصیری تھے۔بعث پارٹی نے ۸ مارچ ۱۹۶۳ کو ایک کامیاب فوجی تختہ پلٹ کے ذریعہ شام کی حکومت پر قبضہ کیا۔ بعثی رہنما جنرل امین الحافظ کو صدر بنایا گیا۔ جلد ہی بعث پارٹی کے شہری اور فوجی دھڑوں میں اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ پھر بعث کے فوجی دھڑے نے ۲۳ فروری ۱۹۶۶ میں شہری دھڑے کو حکومت سے بے دخل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ نورالدین اتاشی شام کے صدر بنے لیکن اصل اختیارات صلاح جدید کے ہاتھ میں تھے۔امین الحافظ اور عفلق کو شام سے جلا وطن کردیا گیا۔افلق،بیطار اور امین الحافظ کے ہم نواؤں کو پارٹی اور حکومت سے بے دخل کرنے کے بعد دروزی گروپ کو بھی بے دخل کردیا گیا۔ اب اقتدار میں صرف نصیری رہ گئے۔ اور شام کا مستقبل یہیں سے نصیریوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ شام کے عام مسلمان اور ان کے رہنماہمیشہ ہی بعث سے لاتعلق رہے ہیں۔ ملک میں دس فیصد آبادی پر مشتمل نصیری اقلیت کا عوام کو دشمن بناکر اقتدار پر قابض رہنا مشکل تھا ۔اس لئے شام غیر مشروط روس کی گود میں چلا گیا۔نئی بعثی حکومت نے حافظ لاسد کو شام کا وزیرِ دفاع مقرر کیا۔ جس نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ گٹھ جوڑ کرکے ۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرئیل کی فتح کو آسان بنایا ۔پھر جنگ کے بعد حالات کا بہانہ بنا کر حافظ الاسد نے ۱۳ نومبر ۱۹۷۰ کو تیسرے بعثی فوجی انقلاب کے ذریعہ ملک کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اور استبدادی انداز میں ۲۰۰۰ تک حکومت کرتا رہا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد فوجی جبر کے ذریعہ حکمرانی کررہا ہے۔ جس کے خلاف وہاں کی عوام مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ اور ایران وروس اس فوجی جابر وآمر کی حکومت کے بچانے کے لئے میدان میں کود پڑے ہیں۔
https://www.google.com.pk/amp/m.dailyhunt.in/news/india/urdu/asia-times-epaper-astimes/%25D9%2585%25D9%2584%25DA%25A9%25D9%2590-%25D8%25B4%25D8%25A7%25D9%2585%25DB%2594%25D8%25B4%25D8%25AC%25D8%25B1-%25D8%25B3%25DB%2592-%25D9%25B9%25D9%2588%25D9%25B9-%25DA%25A9%25D8%25B1%25D8%25B3%25D8%25AA%25D9%2585-%25D8%25B1%25D8%25B3%25DB%258C%25D8%25AF%25DB%2581-%25DB%2581%25D9%2588%25D8%25A6%25DB%258C-%25D8%25B4%25D8%25A7%25D8%25AE%25D9%2590-%25D8%25A8%25DB%2592-%25D8%25A2%25D8%25A8%25D8%25B1%25D9%2588-newsid-47820827/amp
تحریر۔۔
ڈاکٹر نفیس اختر
ملکِ شام۔شجر سے ٹوٹ کرستم رسیدہ ہوئی شاخِ بے آبرو
(28 Dec) ڈاکٹر نفیس اختر شام پر اس وقت جس فوجی ٹولے کی حکومت ہے اس کا تعلق وہاں کے ایک اقلیتی فرقہ نصیریہ سے ہے۔بشار اور اور اس کے باپ حافظ اسد کا تعلق اسی فرقہ سے ہے۔ یہ فرقہ بظاہر تو اسلام کا نام لیوا ہے لیکن درحقیقت اسلامی تاریخ کے طویل دور میں یہ اسلام دشمن طاقتوں سے مل کر اسلام کی بیخ کنی کی ناپاک سازشیں کرتا رہا ہے۔تاتاریوں اور صلیبیوں کی مدد میں بھی یہ فرقہ پیش پیش رہا ہے۔حضرت علیؓ کو خدا کا اوتار ماننے والے اس فرقہ کے عقائد اسلام کے بنیادی عقائد سے متصادم ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ ان کے عقائد اور مسلمانوں کے خلاف ان کے بغض وعداوت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ '' یہ اور قرامطہ باطنیہ کے سارے فرقے یہود ونصاریٰ اور مشرکین سے بڑھ کر کافر ہیں ۔ اور اسلام کے لئے تاتاریوں اور فرنگیوں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔یہ ہمیشہ اعدائے اسلام کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ تاتاری بلادِ اسلامیہ میں انھیں کی مدد سے گھسے ،اور انھیں کی مدد سے بغداد کے خلیفہ کو قتل کرنے میں کامیاب ہوئے'' ۔ ۱۹۶۷ کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کا وزیرِ دفاع حافظ الاسد نصیری تھا۔ جنگ میں حافظ الاسد نے درپردہ اسرائیل کی مدد کی تھی۔گولان کی پہاڑیوں اور بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ اسرائیل اور نصیریوں کے پیچ طے پانے والے خفیہ منصوبے کا نتیجہ تھا۔حافظ الاسد نے جب فوجی انقلاب کے ذریعہ شام کے اقتدار پر قبضہ کیا توازسرِ نو دستور سازی کرکے شامی دستور سے اسلامی عنصر کا نہ صرف خاتمہ کردیا بلکہ اسلام کو شام کا سرکاری مذہب ماننے سے انکار کردیا۔شامی عوام کے احتجاج اور طاقتور ردِ عمل کے بعد صرف اتنا تسلیم کیا گیا کہ شام کا صدر مسلم ہوگا۔۱۹۷۰ کے فوجی انقلاب کے بعد سے ہی شام پر اشتراکیت پسند نصیری آمریت مسلط ہے جو اسلام اور دینی اقدار کی شدید مخالف ہے۔دینی اداروں ،ملی تنظیموں اور اسلامی تحریکوں کے خلاف پورے ملک میں جاسوسی نیٹ ورک پھیلا دیا گیا تھا۔دینی بیداری کی ہر آہٹ پر فوجی بوٹوں کی دھمک سنائی دیتی تھی۔ذرائع ابلاغ،تعلیمی نظام اور سرکاری وسائل کے ذریعہ غیر اسلامی ثقافت،مغرب زدگی،دین بیزاری،جنسی اباحیت ،بے پردگی،اخلاقی بے راہ روی اور تہذیبی گمراہی کو بڑھاوا دیا جارہا تھا۔ علماءِ حق،داعیانِ اسلام اور اخلاقی ودینی اقدار کے محافظوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی تھی لیکن اوباشوں، ملحدوں،اشتراکیت پسندوں،اباحیت پسندوں اور لادینی نظریہ رکھنے والوں کو ملک میں اپنے نظریہ و اقدار کو ترویج دینے کی سہولتیں فراہم تھیں۔جمہوری آزادیوں اورہر طرح کی سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد تھی ۔صرف بعث پارٹی کو ہی سارے سیاسی حقوق دے دئے گئے تھے۔حکومت پر تنقید،ا ور اس کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنا ناقابلِ معافی اور قابلِ دست اندازیِ پولیس جرم تھا۔اخوان المسلمون کے سینکڑوں کارکنوں کو ان کی اسلام پسندی کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ڈال کر اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا۔کئی اخوانیوں کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا۔اسّی فیصد عوام پر دس فیصد نصیریوں کا دیگر دس فیصد الحاد پسندوں،عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ مل کر جبریہ اقتدار فوجی طاقت اور ظلم کے سہارے برقراررکھا گیا تھا۔اس جبر و ظلم کے خلاف عوام کا پیمانۂ صبر کئی مواقع پر لبریز ہوگیاتھا۔لیکن قتلِ عام،گرفتاریوں اور تشدد سے اس عوامی ضمیر کا گلا گھونٹا جاتا رہا۔۱۹۸۲ میں حما شہر میں ایک لاکھ اخوانی ارکان وکارکنان کا قتلِ عام کیا گیا۔نصف صدی سے ملک میں ایمرجنسی نافذ تھی۔صدر کو اختیار دے دیا گیا کہ جس شہری کوچاہے گرفتار کر کے زنداں کے حوالہ کردے،اس کو شہریت سے محروم کردے،اس کی جائداد بحق قوم ضبط کرلے۔عوام کے تجارتی کاروبار ،کارخانوں اور صنعتوں کو قومیا کر ان پر قبضہ کرلیا گیا۔کاشت کی زمینوں کی حدملکیت گھٹا کر لوگوں سے انکی زمینیں چھین لی گئیں۔۲۰۱۱ میں عرب بہار سے حوصلہ پاکر شامی عوام نے ایک بار پھر سے نصیری آمر سے نجات پانے اور اپنی آزادی کو حقیقت بنانے کے لئے پہلے پرامن اور پھرحکومتی فوج کے تشدد کے جواب میں مسلح جد جہد شروع کردی ہے۔ جس کو کچلنے کے لئے بشار الاسد ایران وروس کی مدد سے کوشاں ہے۔ شام کے اقتدار پر اقلیتی نصیری فرقہ کس طرح قابض ہوا ،یہ ایک طویل داستان ہے۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد جب مشرقِ وسطیٰ پر صلیبی طاقتوں کا قبضہ ہوگیا تو سائکس پیکو معاہدہ کے تحت عرب خطوں کو فرانس اور برطانیہ کے درمیان تقسیم کردیا گیا ۔فلسطین برطانیہ کے حصہ میں آیا تو شام فرانس کے ۔جمعیتِ اقوام نے برطانیہ اور فرانس کو فلسطین اورشام کا مینڈیٹ دے دیا۔ برطانیہ نے اپنے دورِ انتداب میں فلسطین میں اسلام دشمن یہودی ریاست قائم کیا تو فرانس نے شام میں نصیری ریاست کی بنا ڈالی۔ تاکہ عربوں کے قلب میں دودشمنوں کی موجودگی میں عربوں کو سکون وچین سے ترقی کرنے کا موقع نہ مل سکے،اور بالواسطہ خطہ میں صلیبیوں کا اثرورسوخ قائم رہے۔مارچ ۱۹۲۰ سے قبل شام عثمانی سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔عربوں کی بغاوت کی وجہ سے صلیبیوں کے مقابلہ میں عثمانیوں کوشکست ہوئی۔ اس کے بعد ۸مارچ ۱۹۲۰ کو عرب رہنماؤں نے دمشق میں منعقد ایک اجتماع میں شام کی آزادی کا اعلان کرکے شریف حسین کے بیٹے شاہ فیصل کی بادشاہت کا اعلان کردیا۔لیکن فرانس نے فوجی کارروائی کے ذریعہ شام پر قبضہ کرلیا۔شاہ فیصل کو دمشق سے بھاگ کر صحرائے شام میں پناہ لینی پڑی۔ فرانس نے شام پر قبضہ کرتے ہوئے اسے چارریاستوں میں تقسیم کردیا۔دروزی ریاست،علوی ریاست،لبنان اور سوریا۔علویوں یعنی نصیریوں کی صورت میں فرانس کو ایک ایسا گروہ مل گیا جو صلیبی مقاصد کو پورا کرنے،اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے اور فرانس کے استعمارانہ عزائم کے حصول میں ان کا مددگار بلکہ ہمنوا بن سکتا تھا۔ فرانس نے اسی مقصد سے اس گروہ کو بڑھاوا دینا شروع کیا۔ دروزی بھی نصیریوں کے ساتھ مل گئے۔علوی ودروزی ریاست کے قیام سے ان دونوں گروہوں میں سیاسی عزائم کی پرورش کی گئی۔فوج میں نصیریوں اور دروزیوں کی تعداد میں لگاتار اضافہ کیا جاتا رہا۔حتیٰ کہ شامی فوج کی اکثریت نصیریوں اور دروزیوں پر مشتمل ہوگئی۔ان کے علاوہ فوج میں جو سنی گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے وہ زیادہ تر سوشلسٹ ،لادین اور خدا بیزار تھے۔فوج کے اہم عہدوں پر نصیریوں کو رکھا گیا۔ مستقبل میں اسی فوج کو شامی عوام پر مسلط کرنے کا ارادہ تھا۔شامی عوام کے احتجاج اور کامیاب ہڑتالوں کے بعد ۱۹۳۶میں دورزی اور علوی ریاستوں کو سوریا کے ساتھ ضم کر کے ایک متحدہ ملک بنا دیا گیا۔ لبنان بدستور علاحدہ ریاست کے طور پر قائم رہا۔ لیکن نصیریوں،دروزیوں اور لادینوں کی سرپرستی جاری رہی۔ ۲۴ اکتوبر ۱۹۴۵ کو جب فرانس کے تسلط سے شام کو آزادی ملی اور ۱۵ اپریل ۱۹۴۶ کو آخری فرانسیسی فوج نے ملک چھوڑا تو نصیریوں کی قیادت واکثریت والی شامی فوج اس قدر طاقتور ہوچکی تھی کہ وہ ملک پر عوامی رجحان کے برخلاف اپنی مرضی مسلط کر سکے۔ دوسری طرف ۱۹۴۷ میں دمشق کے اندر مائیکل عفلق،صلاح الدین بیطار اور ذکی ارسوزی کے پیروکاروں نے مل کر عرب سوشلسٹ بعث پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ مائیکل عفلق ایک مسیحی تھا۔ جس نے فرانس میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۹۳۲ میں دمشق کے مدرسہ تجہیز الاولیٰ کے تاریخِ اسلامی کا مدرس مقرر ہونے کے بعداس نے اپنے اشتراکی اور اسلام مخالف اور عربی قوم پرستی پر مشتمل اپنے نظریات کی تبلیغ شروع کی۔ طلبہ،تعلیم گاہوں،علمی حلقوں اور فوج میں فرانسیسی تعاون کے ذریعہ اس کے نظریات فروغ پانے لگے۔ صلاح الدین بیطار ایک سنی عرب تھا۔ لیکن اسلام کی بجائے اشتراکیت وقوم پرستانہ نظریات کا حامل تھا۔ ذکی ارسوزی اور اس کے پیروکار خدا کے منکر تھے۔اور الٰہی ہدایت ورہنمائی کے مخالف تھے۔ بعد میں شام کا ایک اور اشتراکی اکرم حورانی بھی اس پارٹی میں شامل ہوگیا۔بعث پارٹی کا نظریہ تمام عرب علاقوں پر مشتمل ایک واحد عظیم ترین عربی قوم پرستانہ اشتراکی ریاست کا قیام تھا۔بعث کی یہ دعوت شام سے نکل کر عراق،لبنان،اردن اور مصر وغیرہ میں پھیلنے لگی۔رفتہ رفتہ بعث نصیریوں،دوزیوں،ملحدوں ،قوم پرستوں اور اشتراکیت پسندوں کا متحدہ پلیٹ فارم بن گیا۔۱۹۵۴ کے انتخابات میں بعث دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ ابھی مصر کو آزاد ہوئے تین برس بھی نہ ہوئے تھے کہ جمہوری سویلین حکومت کو برطرف کرکے کرنل حسنی زعیم نے ۳۰ مارچ ۱۹۴۹ کو حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اور ۲۳ جون کو خود صدر بن گئے۔ یہ عرب میں فوجی آمریت کا نقطۂ آغاز تھا۔دوماہ بعد ہی ۱۴ اگست کو ایک اور فوجی افسر سامی الحِنّاوی نے کرنل زعیم کو قتل کردیا اور خود آمرِ مطلق بن گئے۔ہاشم اتاسی کو کٹھ پتلی صدر منتخب کیا گیا۔لیکن ۱۹دسمبر ۱۹۴۹ کوایک ہی سال میں تیسرے انقلاب میں کرنل ادیب ششکلی نے حناوی کو قتل کردیا۔اور ۱۹۵۴ تک استبدادی انداز میں حکومت کی۔کرنل ششکلی کے خلاف عوامی بغاوت کے بعد ششکلی کو بھاگ کر سعودی عرب میں پناہ لینا پڑا،جس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۴ مین شام میں ایک بار پھر آئینی جمہوری حکومت قائم ہوئی۔۔ملک میں عام انتخابات کے نتیجہ میں اگست ۱۹۵۵ میں تیسری بار ملک کے مقبول رہنما اسلام پسندشکری القوتلی کو صدر اور مسیحی رہنما فارس الخوری کو وزیرِ اعظم منتخب کیا گیا۔ فروری ۱۹۵۸ کوشام اور مصر میں اتحاد کے ذریعہ متحدہ عرب جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا ۔شام اور مصر جس کے شمالی وجنوبی صوبے قرار پائے۔لیکن ۲۸ ستمبر ۱۹۶۳کو ایک شامی فوجی افسر حیدار الکزیری نے شامی اقتدار پر قبضہ کرکے شام کا مصر کے ساتھ الحاق ختم کردیا۔ متحدہ عرب جمہوریہ کے دور میں بعث پارٹی نے شامی فوج میں مختلف خفیہ حلقے بنا لئے تھے۔ اوراسی دوران بعث پارٹی کی فوجی کمیٹی تشکیل پائی۔جس کے روحِ رواں ،صلاح جدید،محمد عمران اور حافظ الاسد نصیری تھے۔بعث پارٹی نے ۸ مارچ ۱۹۶۳ کو ایک کامیاب فوجی تختہ پلٹ کے ذریعہ شام کی حکومت پر قبضہ کیا۔ بعثی رہنما جنرل امین الحافظ کو صدر بنایا گیا۔ جلد ہی بعث پارٹی کے شہری اور فوجی دھڑوں میں اختلافات نمایاں ہونے لگے۔ پھر بعث کے فوجی دھڑے نے ۲۳ فروری ۱۹۶۶ میں شہری دھڑے کو حکومت سے بے دخل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ نورالدین اتاشی شام کے صدر بنے لیکن اصل اختیارات صلاح جدید کے ہاتھ میں تھے۔امین الحافظ اور عفلق کو شام سے جلا وطن کردیا گیا۔افلق،بیطار اور امین الحافظ کے ہم نواؤں کو پارٹی اور حکومت سے بے دخل کرنے کے بعد دروزی گروپ کو بھی بے دخل کردیا گیا۔ اب اقتدار میں صرف نصیری رہ گئے۔ اور شام کا مستقبل یہیں سے نصیریوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ شام کے عام مسلمان اور ان کے رہنماہمیشہ ہی بعث سے لاتعلق رہے ہیں۔ ملک میں دس فیصد آبادی پر مشتمل نصیری اقلیت کا عوام کو دشمن بناکر اقتدار پر قابض رہنا مشکل تھا ۔اس لئے شام غیر مشروط روس کی گود میں چلا گیا۔نئی بعثی حکومت نے حافظ لاسد کو شام کا وزیرِ دفاع مقرر کیا۔ جس نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ گٹھ جوڑ کرکے ۱۹۶۷ کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اسرئیل کی فتح کو آسان بنایا ۔پھر جنگ کے بعد حالات کا بہانہ بنا کر حافظ الاسد نے ۱۳ نومبر ۱۹۷۰ کو تیسرے بعثی فوجی انقلاب کے ذریعہ ملک کی حکومت پر قبضہ کرلیا۔ اور استبدادی انداز میں ۲۰۰۰ تک حکومت کرتا رہا۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا بشار الاسد فوجی جبر کے ذریعہ حکمرانی کررہا ہے۔ جس کے خلاف وہاں کی عوام مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ اور ایران وروس اس فوجی جابر وآمر کی حکومت کے بچانے کے لئے میدان میں کود پڑے ہیں۔
https://www.google.com.pk/amp/m.dailyhunt.in/news/india/urdu/asia-times-epaper-astimes/%25D9%2585%25D9%2584%25DA%25A9%25D9%2590-%25D8%25B4%25D8%25A7%25D9%2585%25DB%2594%25D8%25B4%25D8%25AC%25D8%25B1-%25D8%25B3%25DB%2592-%25D9%25B9%25D9%2588%25D9%25B9-%25DA%25A9%25D8%25B1%25D8%25B3%25D8%25AA%25D9%2585-%25D8%25B1%25D8%25B3%25DB%258C%25D8%25AF%25DB%2581-%25DB%2581%25D9%2588%25D8%25A6%25DB%258C-%25D8%25B4%25D8%25A7%25D8%25AE%25D9%2590-%25D8%25A8%25DB%2592-%25D8%25A2%25D8%25A8%25D8%25B1%25D9%2588-newsid-47820827/amp
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔