گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا پر اعتراضات اور ان کا جواب
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
(۱) اعتراض:
قرآن مجید میں پیغمبروں کے ساتھ استہزاء کا جرم کاذکر بار بار آیا ہے لیکن مجرم کیلئے سزائے موت کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔
جواب:
اصل گفتگو اسلامی شریعت کے دائرے میں ہورہی ہے۔ اور احادیث کے نصوص سے قتل کی سزا ثابت ہے۔اور اگر صرف احادیث سے قتل کی سزا ثابت ہے تو کیا منکرین حدیث کی طرح سے احادیث کا انکار کیا جاے گا۔ شراب نوشی کے حد کے بارے میں قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے ، تو اعتراض کرنے والے اسکے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
…………………………………………………………………………………
(۲) اعتراض:
رسول اللہ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم دعوت و تبلیغ کیلئے طائف گئے تھے اور وہاں کے لوگوں نے آپکو سخت تکلیف پہنچائی تھی لیکن اسکے باوجود جب فرشتہ ملک الجبال آپ کے پاس آیا اور ان طائف والوں کی ہلاکت کی اجازت مانگی تو نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے اسکی اجازت نہیں دی۔
جواب:
یہ واقعہ مکی زندگی کے دوران ہوا اور یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ، اور اس وقت تک شاتم رسول کے لئے سزا موت کا حکم نہیں ملا تھا۔
نیز اس وقت تک شریعت محمدی نافظ نہیں ہوا تھا ۔لھذا طائف والوں کو عذاب نہیں ملا۔ظاہر ہے اکثر احکامات ہجرت کے بعد لاگو ہوے ہیں۔اور چونکہ انہوں نے نبی کی عزت کو مجروح کیا تھا ، لھذا نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ان لوگوں سے حکمت کی بناء پر بدلہ لینا گورا نہیں کیا۔
……………………………………………………………………………..
(۳)اعتراض:
سہل بن عمرو ، عکرمہ بن ابوجھل اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے بھی آپ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی شان میں گستاخیاں کی تھی لیکن انکو کچھ نہیں کہا گیا ۔بلکہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ بھی حضور نے بذات خود پڑھایا، تو انکو کیوں قتل نہیں کیا گیا؟
جواب:
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ایک مشہور قاعدہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردیا۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن مقتول کےوارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ،
اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔
بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزاے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزاے موت نہیں ہوگی۔
اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے۔
ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کوحاصل ہوگا۔
اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزاے موت دی جاے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔
نیز نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزاے موت کو نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھااور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل کو معاف کیا۔اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔
رہا یہ سوال کہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے خود پڑھایا تھا ، تو یہ بات درست ہے اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کی منافقت کا علم نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو بھی ہوا تھا۔لیکن عبد اللہ ابن ابی ابن سلول مدینہ میں ایک قبیلہ کا سردار تھا اور مدینہ میں اگر نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تشریف نہ لاتے تو اسکی سرداری یقینی تھی۔لیکن نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی تشریف آوری سے اسکو سرداری نہ مل سکی، اور حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس کوشش میں ہوتے تھے کہ کسی طرح عبد اللہ ابن ابی ابن سلول سچے دل سے مسلمان ہوجاے، اور منافقت کی چادر اتار پھینکے۔
اور اسکی گستاخیوں کو بھی صرف اسلئے معاف کیا کہ معافی کا اختیار نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو حاصل تھا۔
نیز حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم امت پر مہربان تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں ،لھذا اسی لئےنبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو منافقین کے جنازے پڑھنے سے منع کردیا۔اور یہ حکم نازل ہوا کہ نہ تو ان منافقین کیلئے مغفرت کی دعاء کی جاے اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھا جاے۔اور یہ حکم آج تک قائم ودائم ہے۔
…………………………………………………………………………………..
(۴) اعتراض:
نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تو امت کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے ۔نا کہ قاتل عالم۔لھذا گستاخ رسول کی سزاے موت درست نہیں ہے۔
جواب:
یہ درست ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس دنیا کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے۔لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے
کہ مجرموں کو کچھ نہ کہا جاے اور ان کو کھلے عام چھوڑدیا جاے۔ مجرموں کو پکڑ کر انکو انکے جرم کے مطابق سزا دینا ہی عین رحمت اور انصاف ہے۔ورنہ تو قاتل اور چور قتل اور چوریاں کرتے ،اور قانون انکو کچھ نہ کہتی ، تو یہ تو انصاف نہیں بلکہ مجرموں کو اپنے کئے کی سزا دینا ہی رحمت اور انصاف ہے ۔ اور اسی لئے نبی کو رحمت عالم بنا کر بھیجا گیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ (ولکم فی القصاص حیاۃ)
ترجمہ:۔۔ اورتمہارےلئے قصاص میں زندگی ہے۔
تو قصاص کو حیات اسلئے کہا گیا کہ اس سے کشت وخون کی بدامنی سے انسانیت کو نجات ملتی ہے۔شاتم رسول پیغمبر کے کردار کی قتل کی کوشش کرتا ہے ، اور اس گستاخ کا قتل ہی پیغمبرکے کردار کے قتل کا بدلہ ہے۔
آج اگر ایک ملک کی سفیر کی بے حرمتی ہوتی ہے تو پورے ملک کی بے حرمتی سمجھی جاتی ہے۔ تو انبیاء بھی اللہ تعالیٰ کے سفیر ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کے سفیر کی بے حرمتی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے اور عذاب سے پورا علاقہ تباہ ہوتا ہے ، تو پورے علاقے کی تباہی کے بجاے کیوں نہ اس گستاخ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
(۱) اعتراض:
قرآن مجید میں پیغمبروں کے ساتھ استہزاء کا جرم کاذکر بار بار آیا ہے لیکن مجرم کیلئے سزائے موت کا کہیں ذکر نہیں آیا ہے۔
جواب:
اصل گفتگو اسلامی شریعت کے دائرے میں ہورہی ہے۔ اور احادیث کے نصوص سے قتل کی سزا ثابت ہے۔اور اگر صرف احادیث سے قتل کی سزا ثابت ہے تو کیا منکرین حدیث کی طرح سے احادیث کا انکار کیا جاے گا۔ شراب نوشی کے حد کے بارے میں قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے بلکہ احادیث سے ثابت ہے ، تو اعتراض کرنے والے اسکے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
…………………………………………………………………………………
(۲) اعتراض:
رسول اللہ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم دعوت و تبلیغ کیلئے طائف گئے تھے اور وہاں کے لوگوں نے آپکو سخت تکلیف پہنچائی تھی لیکن اسکے باوجود جب فرشتہ ملک الجبال آپ کے پاس آیا اور ان طائف والوں کی ہلاکت کی اجازت مانگی تو نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے اسکی اجازت نہیں دی۔
جواب:
یہ واقعہ مکی زندگی کے دوران ہوا اور یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا ، اور اس وقت تک شاتم رسول کے لئے سزا موت کا حکم نہیں ملا تھا۔
نیز اس وقت تک شریعت محمدی نافظ نہیں ہوا تھا ۔لھذا طائف والوں کو عذاب نہیں ملا۔ظاہر ہے اکثر احکامات ہجرت کے بعد لاگو ہوے ہیں۔اور چونکہ انہوں نے نبی کی عزت کو مجروح کیا تھا ، لھذا نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے ان لوگوں سے حکمت کی بناء پر بدلہ لینا گورا نہیں کیا۔
……………………………………………………………………………..
(۳)اعتراض:
سہل بن عمرو ، عکرمہ بن ابوجھل اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے بھی آپ صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی شان میں گستاخیاں کی تھی لیکن انکو کچھ نہیں کہا گیا ۔بلکہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ بھی حضور نے بذات خود پڑھایا، تو انکو کیوں قتل نہیں کیا گیا؟
جواب:
اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے ایک مشہور قاعدہ بیان کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی دوسرے آدمی کو بے گناہ قتل کردیا۔ اب قاتل کیلئے سزائے موت ہے، اور اسکا خون مباح ہے۔ قتل ثابت ہونے پر اسکو ضرور قتل کیا جائے گا۔ لیکن مقتول کےوارث کے پاس یہ حق ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف کردے ،
اور مقتول کے وارث کے معاف کرنے کے بعد اس قاتل کو سزائے موت دینا جائز نہیں ہے۔ لیکن یہ حق صرف مقتول کے وارث کے پاس ہے ، کسی اور کے پاس نہیں۔لھذا اگر مقتول کے وارث موجود نہ ہوں تو کوئی دوسرا آدمی اس قاتل کے سزاے موت کو نہیں بدل سکتا۔
بالکل ایسے ہی چونکہ شاتم رسول نے نبی کی توہین کی ہوتی ہے تو یہ گستاخ سزاے موت کا حقدار بن گیا ہے۔لیکن اگر نبی کسی حکمت کے سبب اس گستاخ کی اس گستاخی کو معاف کردے تو ظاہر ہے کہ اس شاتم رسول کو سزاے موت نہیں ہوگی۔
اور جس طرح صرف مقتول کے وارث کے پاس قاتل کو معاف کرنے کا حق ہوتا ہے۔بالکل ایسے ہی گستاخ رسول کو معافی کا حق صرف رسول کو ہی ہوتا ہے۔نبی کے علاوہ کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اہانت رسول کے مرتکب شخص کو معاف کردے۔
ظاہر ہے نبی کی عزت کو اس نے مجروح کیا ہوتا ہے تو معافی کا اختیار بھی صرف نبی کوحاصل ہوگا۔
اور یہی امت مسلمہ کا معمول ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کے وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم سے لے کر آج کے دور تک امت کا اس مسئلے پر اجماع ہے کہ گستاخ رسول کو سزاے موت دی جاے گی۔ اور اسی قاعدے کی بنیاد پر ان علماء کا فیصلہ ہے جو کہ گستاخ رسول کی سزاے موت کو توبہ کے بعد بھی بحال رکھتے ہیں۔
نیز نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم صاحب شریعت تھے اور صاحب حکمت تھے۔ انکو معلوم تھا کہ کس کے قتل کرنے میں حکمت ہے اور کس کے قتل نہ کرنے میں۔ لھذا ابن خطل اور اور حویرث کے سزاے موت کو نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے بحال رکھااور سہل بن عمرو اور عکرمہ بن ابی جھل کو معاف کیا۔اور بعد میں یہ دونوں سچے دل سے اسلام لائے تھے۔
رہا یہ سوال کہ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے خود پڑھایا تھا ، تو یہ بات درست ہے اور عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کی منافقت کا علم نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو بھی ہوا تھا۔لیکن عبد اللہ ابن ابی ابن سلول مدینہ میں ایک قبیلہ کا سردار تھا اور مدینہ میں اگر نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تشریف نہ لاتے تو اسکی سرداری یقینی تھی۔لیکن نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کی تشریف آوری سے اسکو سرداری نہ مل سکی، اور حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس کوشش میں ہوتے تھے کہ کسی طرح عبد اللہ ابن ابی ابن سلول سچے دل سے مسلمان ہوجاے، اور منافقت کی چادر اتار پھینکے۔
اور اسکی گستاخیوں کو بھی صرف اسلئے معاف کیا کہ معافی کا اختیار نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو حاصل تھا۔
نیز حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم امت پر مہربان تھے اور چاہتے تھے کہ یہ لوگ جہنم کی آگ سے بچ جائیں ،لھذا اسی لئےنبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم نے عبد اللہ ابن ابی ابن سلول کا جنازہ پڑھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم کو منافقین کے جنازے پڑھنے سے منع کردیا۔اور یہ حکم نازل ہوا کہ نہ تو ان منافقین کیلئے مغفرت کی دعاء کی جاے اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھا جاے۔اور یہ حکم آج تک قائم ودائم ہے۔
…………………………………………………………………………………..
(۴) اعتراض:
نبی صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم تو امت کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے ۔نا کہ قاتل عالم۔لھذا گستاخ رسول کی سزاے موت درست نہیں ہے۔
جواب:
یہ درست ہے کہ نبی پاک صل اللہ علیہ و علی اٰلہ و صحبہ و سلم اس دنیا کیلئے رحمت عالم بنا کر بھیجے گئے تھے۔لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے
کہ مجرموں کو کچھ نہ کہا جاے اور ان کو کھلے عام چھوڑدیا جاے۔ مجرموں کو پکڑ کر انکو انکے جرم کے مطابق سزا دینا ہی عین رحمت اور انصاف ہے۔ورنہ تو قاتل اور چور قتل اور چوریاں کرتے ،اور قانون انکو کچھ نہ کہتی ، تو یہ تو انصاف نہیں بلکہ مجرموں کو اپنے کئے کی سزا دینا ہی رحمت اور انصاف ہے ۔ اور اسی لئے نبی کو رحمت عالم بنا کر بھیجا گیا تھا۔
قرآن مجید میں ہے کہ (ولکم فی القصاص حیاۃ)
ترجمہ:۔۔ اورتمہارےلئے قصاص میں زندگی ہے۔
تو قصاص کو حیات اسلئے کہا گیا کہ اس سے کشت وخون کی بدامنی سے انسانیت کو نجات ملتی ہے۔شاتم رسول پیغمبر کے کردار کی قتل کی کوشش کرتا ہے ، اور اس گستاخ کا قتل ہی پیغمبرکے کردار کے قتل کا بدلہ ہے۔
آج اگر ایک ملک کی سفیر کی بے حرمتی ہوتی ہے تو پورے ملک کی بے حرمتی سمجھی جاتی ہے۔ تو انبیاء بھی اللہ تعالیٰ کے سفیر ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کے سفیر کی بے حرمتی عذاب الہی کو دعوت دیتی ہے اور عذاب سے پورا علاقہ تباہ ہوتا ہے ، تو پورے علاقے کی تباہی کے بجاے کیوں نہ اس گستاخ کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔