مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے مسلمانوں پر عیسائ زار روس اور کمیونسٹ ملحد سوویت یونین کے غاصبانہ قبضے اور ظلم کی تاریخ
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
روس نے 1502 میں منگول نسل کے اسلامی ملک طالائی اردو [Golden Horde] حکومت پر قبضہ کرلیا جس کی مسلم آبادی بالکل ختم ہوگئی۔
2۔ 1552 میں قازان جو تاتارستان کا دارالحکومت تھا، پر اور پھر 1556 میں آسترخان پر اپنا قبضہ جمایا۔
یورپ میں واحد مسلم ریاست البانیہ کی تھی۔ لیکن چونکہ البانیہ میں انتہائی سخت گیر قسم کی سوشلسٹ ملحد حکومت قائم تھی اس لیے اس ریاست کا مسلم تشخص نہ ہونے کے برابر تھا۔اسلام کا نام لینا جرم تھا۔مساجد کو تالے لگا دیے گئے تھے۔اسلام پسندوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد اس ریاست کا مسلم تشخص اب آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے۔
لِتھیواینیا میں ایک وقت تھا جب یہاں ممکنہ طور پر ویلنیس، بیلاروسی دارالحکومت منسک اور پولینڈ کے شہر بیالسٹاک کے درمیان موجود دیہاتوں میں درجنوں، بلکہ ممکنہ طور پر سینکڑوں تاتاری مساجد تھیں۔
سب سے مشکل دور سوویت دور تھا۔ تمام مذہبی رہنما اور کسی بھی علم کے حامل لوگوں کو یا تو ہلاک کر دیا گیا یا پھر سائبیریا میں جلا وطن کر دیا گیا
پہلی جنگِ عظیم کے دور میں بھی لِتھیوینیا میں 25 مساجد موجود تھیں۔ لیکن اب کیٹیوریسڈیسمٹ ٹوٹوریواور ریزے اور نمیزس کے قریبی دیہات میں صرف تین مساجد ہیں۔ چار دیگر مسجدیں پولینڈ کی دو بستیوں اور بیلاروس کے شہروں میں موجود ہیں۔سوویت سوشلسٹ کمیونسٹ ملحدین نے یہاں سے اسلام کا نام و نشان مٹا ڈالا۔
18 ویں صدی کے اوائل دور میں سب سے پہلے تاتاری زبان غائب ہوئی۔
وائیتوتس کے ساتھ یہاں آنے والی کریمیائی نسل کے لِتھیوینیا کے مفتی اعظم رمضان یعقوب کے مطابق: ’سب سے مشکل دور سوویت یعنی سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد تھا۔ تمام مذہبی رہنما اور کسی بھی علم کے حامل لوگوں کو یا تو ہلاک کر دیا گیا یا پھر سائبیریا میں جلا وطن کر دیا گیا۔ کتابیں اور آرکائیوز کو جلا دیا گیا، مساجد کو بند یا نذرِ آتش کر دیا گیا۔ سماجی میل جول روک دیا گیا، اور اسلام کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔
یہی سب کچھ وسط ایشیا کے مسلمان ممالک یعنی ازبکستان،تاجکستان،ترکمانستان،کرغزستان،قازقستان پر قبضے کے بعد کیا گیا۔سوویت کمیونسٹ ملحد انقلاب کے بعد وسط ایشیا کا بیانیہ بالکل تبدیل ہو گیا اور سوشلسٹ کمیونسٹ مذہب کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھنے لگے۔ تمام مساجد پر تالے لگ گئے، قرآن پاک اٹھا کر ٹرکوں میں ڈال کر لے جائے گئے۔ وہ سرزمین جہاں سے امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین پیدا ہوئے تھے وہاں دینی تعلیم ایک شجر ممنوعہ بنادی گئی۔ دین کے مقابلے میں کلچرل سینٹر قائم کیے گئے۔
روسی معاشرے میں ضم کرنے کی خاطر وہاں کے مسلمانوں کو اپنے اسلامی ناموں کو بھی بدلنے کو کہا گیا۔ کریم سے کریموف اور نذیر سے نذیروف ہو گئے۔ وہ تمام اساتذہ جو مدارس میں پڑھاتے تھے فیکٹریوں میں مزدوریاں اور کھیتوں میں کام پر لگا دیے گئے۔اذان ،قرآن،نماز،مساجد،دینی تعلیم،مدارس سب پر تالے لگا دیے گئے۔مسلمان چھپ کر گھروں کے تہہ۔ خانوں میں اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔ مسلمان باہر بازار میں تمام روسی کمیونسٹوں کی زندگی گزارتے لیکن گھر کی چار دیواری ایک مکمل مسلمان گھرانے کا منظر پیش کرتی۔ ایسے کئی گھر تھے جن کے بچوں کی دینی معلومات کسی بھی مدرسے کے استاد کے برابر تھیں۔ عبادات سے لے کر جہاد فی سبیل اللہ تک ہمیں ہر بات کا علم تھا۔ لیکن ریاست کا کنٹرول اسقدر سخت تھا کہ وہ یہ سب بیان نہیں کر سکتے۔
بدترین ریاستی تشدد سائبیریا کی سرد ترین جیلیں، موت، بلکہ بعض دفعہ تو پورے خاندان کی موت مقدر ہو جاتی اگر تھوڑا سا بھی مسلمان ریاستی جبر سے متعلق آواز اٹھاتے یا صرف گفتگو ہی کرتے۔ پورے 75 سال ایسے گزرے اور پھر جب سوویت یونین ٹوٹا،سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد حکومت سے آزادی ملی تو مسلمانوں کو ایک لمحے کے لیے اپنی مساجد دوبارہ آباد کرنے، مدرسے کھولنے اور دین کی تعلیم دینے میں دیر نہ ہوئی جب کہ یہی سب کچھ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی ہوا۔ یہودی تو بھاگ لیے اور عیسائی البتہ کمیونسٹ اقدار میں رچ بس گئے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ملحد رہے، سیکولر اور لبرل ہو گئے۔
بسماچی تحریک(Basmachi Movement) زار اور سوویت عہد میں روس کے خلاف مسلمانوں کی ایک بغاوت تھی جس کا آغاز پہلی جنگ عظیم کے بعد 1916ء میں ہوا۔ سوویت اتحاد نے اس بغاوت کو بد ترین انداز میں کچلا۔
(Basmachi Movement) یہ بغاوت دراصل روس کے جابرانہ طرزِ حکومت، ثقافتی جبر اور سوویت عہد میں اشتراکیوں کی جانب سے زراعت کے حوالے سے مطالبوں کے خلاف ایک مقامی تحریک تھی۔
اس مرتبہ پھر سوویت انتظامیہ نے اپنی پرانی دو طرفہ پالیسی سے کام لیا جس میں ایک جانب سیاسی و اقتصادی مفاہمت کے جھانسے دیے گئے اور پیٹھ پیچھے مسلم دہقانوں پر مشتمل ایک رضاکار فوج تشکیل دی گئی جو سرخ چھڑیاں (Red Sticks) کہلاتی تھی اور باضابطہ افواج میں مسلمان فوجیوں کو شامل کر کے انہیں بسماچیوں کے خلاف لڑایا۔ یہ سوویت حکمت عملی ایک مرتبہ پھر کامیاب رہی اور وسط ایشیا کے مسلمان سوشلسٹ کمیونسٹ ملحدین کے دھوکے میں آکر شکست کھا گئے۔یہی منافقانہ حکمت عملی اج سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد مسلمانوں کو سوشلزم اسلام کے عین مطابق قرار دے کر بیوقوف بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔
یہ وہ خطے ہیں جہاں 75 سال تک ریاست کا بیانیہ مکمل طور پر مذہب کے خلاف تھا کہ سوشلسٹ انقلاب کا بانی اور پاکستانی سوشلسٹ کمیونسٹوں کا شرابی و زانی ہیرو کارل مارکس مذہب کو افیون قرار دیتا تھا۔ اس ریاست کے بیانیے کے ساتھ ساتھ تمام مدارس مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے تا کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی نہ پھلے پھولے جو کوئی تھوڑا بہت ایسا نظر آتا کوئی گروہ منظم ہونے لگتا تو اسے آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا جاتا۔
یہی حال چیچنیا کا ہے جہاں روسی افواج کو آئے دن عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ سب ظلم انہی سوشلسٹ کمیونسٹوں کی طرف سے ہو رہا تھا جو اپنے آپ کو مذہب دوست کہتے ہیں اور سوشلزم کو اسلام سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ حد درجہ منافق ہوتے ہیں اور جب بھی ان کا بس چلے مذہب کے خلاف جی بھر کر اپنی نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مسلمانوں کو چاہئے کہ کبھی ان پہ یقین نہ کریں خواہ یہ خود کو جتنا بھی مذہب دوست کہیں۔یہ غربت اور مزدور دوست نعرے لگا کے عوامی ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور پھر حکومت میں آکر مذہب کا ایک لفظ سلامت نہیں رہنے دیتے۔اس کا واضح ثبوت ملحدسوشلسٹ کمیونسٹ سوویت یونین اور چین کے وہ ظلم ہیں جو اس نے فتح کے بعد استر خان،کریمیا،تاتارستان،سائبیریا،البانیہ،لتھوانیا،کرغیزستان،ترکمانستان،ازبکستان،تاجکستان،افغانستان اور مشرقی ترکستان میں کیے اور ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔اب یہی مزدور دوست نعرے لگا کر اور سوشلزم کو اسلام کے عین مطابق قرار دینے کے منافقانہ نعرے لگا کر یہ پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب لانا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے لئے ان لوگوں نے آزاد کشمیر،سندھ اور بلوچستان کو اپنا خاص ہدف بنا لیا ہے اور پنجاب کی بھی کئ یونیورسٹیوں میں طلباء کی سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پر الحادی تربیت کی جارہی ہے۔پاکستان کی عوام سے گزارش ہے کہ اس خطرے سے جلد خبردار ہو اور اس دھوکے میں نہ آئے ورنہ ان کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پہ بیوقوف بنا کر مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا اور ان کی نسلیں مٹا دی گئی۔
حوالہ جات:
http://tajziya.pk/story/3772
http://www.bbc.com/urdu/world/2016/01/160101_mosque_in_forest_hk
نیچے وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کا نقشہ،وسط ایشیاء میں سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے خلاف مسلح تحریک کے ہیروز اور وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کی کچھ خوبصورت تصاویر ملاحظہ کیجیے
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
روس نے 1502 میں منگول نسل کے اسلامی ملک طالائی اردو [Golden Horde] حکومت پر قبضہ کرلیا جس کی مسلم آبادی بالکل ختم ہوگئی۔
2۔ 1552 میں قازان جو تاتارستان کا دارالحکومت تھا، پر اور پھر 1556 میں آسترخان پر اپنا قبضہ جمایا۔
یورپ میں واحد مسلم ریاست البانیہ کی تھی۔ لیکن چونکہ البانیہ میں انتہائی سخت گیر قسم کی سوشلسٹ ملحد حکومت قائم تھی اس لیے اس ریاست کا مسلم تشخص نہ ہونے کے برابر تھا۔اسلام کا نام لینا جرم تھا۔مساجد کو تالے لگا دیے گئے تھے۔اسلام پسندوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ سویت یونین کے خاتمے کے بعد اس ریاست کا مسلم تشخص اب آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے۔
لِتھیواینیا میں ایک وقت تھا جب یہاں ممکنہ طور پر ویلنیس، بیلاروسی دارالحکومت منسک اور پولینڈ کے شہر بیالسٹاک کے درمیان موجود دیہاتوں میں درجنوں، بلکہ ممکنہ طور پر سینکڑوں تاتاری مساجد تھیں۔
سب سے مشکل دور سوویت دور تھا۔ تمام مذہبی رہنما اور کسی بھی علم کے حامل لوگوں کو یا تو ہلاک کر دیا گیا یا پھر سائبیریا میں جلا وطن کر دیا گیا
پہلی جنگِ عظیم کے دور میں بھی لِتھیوینیا میں 25 مساجد موجود تھیں۔ لیکن اب کیٹیوریسڈیسمٹ ٹوٹوریواور ریزے اور نمیزس کے قریبی دیہات میں صرف تین مساجد ہیں۔ چار دیگر مسجدیں پولینڈ کی دو بستیوں اور بیلاروس کے شہروں میں موجود ہیں۔سوویت سوشلسٹ کمیونسٹ ملحدین نے یہاں سے اسلام کا نام و نشان مٹا ڈالا۔
18 ویں صدی کے اوائل دور میں سب سے پہلے تاتاری زبان غائب ہوئی۔
وائیتوتس کے ساتھ یہاں آنے والی کریمیائی نسل کے لِتھیوینیا کے مفتی اعظم رمضان یعقوب کے مطابق: ’سب سے مشکل دور سوویت یعنی سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد تھا۔ تمام مذہبی رہنما اور کسی بھی علم کے حامل لوگوں کو یا تو ہلاک کر دیا گیا یا پھر سائبیریا میں جلا وطن کر دیا گیا۔ کتابیں اور آرکائیوز کو جلا دیا گیا، مساجد کو بند یا نذرِ آتش کر دیا گیا۔ سماجی میل جول روک دیا گیا، اور اسلام کو ممنوعہ قرار دے دیا گیا۔
یہی سب کچھ وسط ایشیا کے مسلمان ممالک یعنی ازبکستان،تاجکستان،ترکمانستان،کرغزستان،قازقستان پر قبضے کے بعد کیا گیا۔سوویت کمیونسٹ ملحد انقلاب کے بعد وسط ایشیا کا بیانیہ بالکل تبدیل ہو گیا اور سوشلسٹ کمیونسٹ مذہب کو اپنے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھنے لگے۔ تمام مساجد پر تالے لگ گئے، قرآن پاک اٹھا کر ٹرکوں میں ڈال کر لے جائے گئے۔ وہ سرزمین جہاں سے امام بخاری اور امام مسلم جیسے محدثین پیدا ہوئے تھے وہاں دینی تعلیم ایک شجر ممنوعہ بنادی گئی۔ دین کے مقابلے میں کلچرل سینٹر قائم کیے گئے۔
روسی معاشرے میں ضم کرنے کی خاطر وہاں کے مسلمانوں کو اپنے اسلامی ناموں کو بھی بدلنے کو کہا گیا۔ کریم سے کریموف اور نذیر سے نذیروف ہو گئے۔ وہ تمام اساتذہ جو مدارس میں پڑھاتے تھے فیکٹریوں میں مزدوریاں اور کھیتوں میں کام پر لگا دیے گئے۔اذان ،قرآن،نماز،مساجد،دینی تعلیم،مدارس سب پر تالے لگا دیے گئے۔مسلمان چھپ کر گھروں کے تہہ۔ خانوں میں اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے ۔ مسلمان باہر بازار میں تمام روسی کمیونسٹوں کی زندگی گزارتے لیکن گھر کی چار دیواری ایک مکمل مسلمان گھرانے کا منظر پیش کرتی۔ ایسے کئی گھر تھے جن کے بچوں کی دینی معلومات کسی بھی مدرسے کے استاد کے برابر تھیں۔ عبادات سے لے کر جہاد فی سبیل اللہ تک ہمیں ہر بات کا علم تھا۔ لیکن ریاست کا کنٹرول اسقدر سخت تھا کہ وہ یہ سب بیان نہیں کر سکتے۔
بدترین ریاستی تشدد سائبیریا کی سرد ترین جیلیں، موت، بلکہ بعض دفعہ تو پورے خاندان کی موت مقدر ہو جاتی اگر تھوڑا سا بھی مسلمان ریاستی جبر سے متعلق آواز اٹھاتے یا صرف گفتگو ہی کرتے۔ پورے 75 سال ایسے گزرے اور پھر جب سوویت یونین ٹوٹا،سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد حکومت سے آزادی ملی تو مسلمانوں کو ایک لمحے کے لیے اپنی مساجد دوبارہ آباد کرنے، مدرسے کھولنے اور دین کی تعلیم دینے میں دیر نہ ہوئی جب کہ یہی سب کچھ عیسائیوں اور یہودیوں کے ساتھ بھی ہوا۔ یہودی تو بھاگ لیے اور عیسائی البتہ کمیونسٹ اقدار میں رچ بس گئے کہ ان کے جانے کے بعد بھی ملحد رہے، سیکولر اور لبرل ہو گئے۔
بسماچی تحریک(Basmachi Movement) زار اور سوویت عہد میں روس کے خلاف مسلمانوں کی ایک بغاوت تھی جس کا آغاز پہلی جنگ عظیم کے بعد 1916ء میں ہوا۔ سوویت اتحاد نے اس بغاوت کو بد ترین انداز میں کچلا۔
(Basmachi Movement) یہ بغاوت دراصل روس کے جابرانہ طرزِ حکومت، ثقافتی جبر اور سوویت عہد میں اشتراکیوں کی جانب سے زراعت کے حوالے سے مطالبوں کے خلاف ایک مقامی تحریک تھی۔
اس مرتبہ پھر سوویت انتظامیہ نے اپنی پرانی دو طرفہ پالیسی سے کام لیا جس میں ایک جانب سیاسی و اقتصادی مفاہمت کے جھانسے دیے گئے اور پیٹھ پیچھے مسلم دہقانوں پر مشتمل ایک رضاکار فوج تشکیل دی گئی جو سرخ چھڑیاں (Red Sticks) کہلاتی تھی اور باضابطہ افواج میں مسلمان فوجیوں کو شامل کر کے انہیں بسماچیوں کے خلاف لڑایا۔ یہ سوویت حکمت عملی ایک مرتبہ پھر کامیاب رہی اور وسط ایشیا کے مسلمان سوشلسٹ کمیونسٹ ملحدین کے دھوکے میں آکر شکست کھا گئے۔یہی منافقانہ حکمت عملی اج سوشلسٹ کمیونسٹ ملحد مسلمانوں کو سوشلزم اسلام کے عین مطابق قرار دے کر بیوقوف بنا کر استعمال کر رہے ہیں۔
یہ وہ خطے ہیں جہاں 75 سال تک ریاست کا بیانیہ مکمل طور پر مذہب کے خلاف تھا کہ سوشلسٹ انقلاب کا بانی اور پاکستانی سوشلسٹ کمیونسٹوں کا شرابی و زانی ہیرو کارل مارکس مذہب کو افیون قرار دیتا تھا۔ اس ریاست کے بیانیے کے ساتھ ساتھ تمام مدارس مکمل طور پر بند کر دیے گئے تھے تا کہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی نہ پھلے پھولے جو کوئی تھوڑا بہت ایسا نظر آتا کوئی گروہ منظم ہونے لگتا تو اسے آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا جاتا۔
یہی حال چیچنیا کا ہے جہاں روسی افواج کو آئے دن عسکریت پسندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ سب ظلم انہی سوشلسٹ کمیونسٹوں کی طرف سے ہو رہا تھا جو اپنے آپ کو مذہب دوست کہتے ہیں اور سوشلزم کو اسلام سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ حد درجہ منافق ہوتے ہیں اور جب بھی ان کا بس چلے مذہب کے خلاف جی بھر کر اپنی نفرت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مسلمانوں کو چاہئے کہ کبھی ان پہ یقین نہ کریں خواہ یہ خود کو جتنا بھی مذہب دوست کہیں۔یہ غربت اور مزدور دوست نعرے لگا کے عوامی ہمدردی حاصل کرتے ہیں اور پھر حکومت میں آکر مذہب کا ایک لفظ سلامت نہیں رہنے دیتے۔اس کا واضح ثبوت ملحدسوشلسٹ کمیونسٹ سوویت یونین اور چین کے وہ ظلم ہیں جو اس نے فتح کے بعد استر خان،کریمیا،تاتارستان،سائبیریا،البانیہ،لتھوانیا،کرغیزستان،ترکمانستان،ازبکستان،تاجکستان،افغانستان اور مشرقی ترکستان میں کیے اور ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کو قتل کر ڈالا۔اب یہی مزدور دوست نعرے لگا کر اور سوشلزم کو اسلام کے عین مطابق قرار دینے کے منافقانہ نعرے لگا کر یہ پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب لانا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے لئے ان لوگوں نے آزاد کشمیر،سندھ اور بلوچستان کو اپنا خاص ہدف بنا لیا ہے اور پنجاب کی بھی کئ یونیورسٹیوں میں طلباء کی سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پر الحادی تربیت کی جارہی ہے۔پاکستان کی عوام سے گزارش ہے کہ اس خطرے سے جلد خبردار ہو اور اس دھوکے میں نہ آئے ورنہ ان کے ساتھ بھی وہی نہ ہو جو سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے نام پہ بیوقوف بنا کر مشرقی یورپ اور وسط ایشیا کے مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا اور ان کی نسلیں مٹا دی گئی۔
حوالہ جات:
http://tajziya.pk/story/3772
http://www.bbc.com/urdu/world/2016/01/160101_mosque_in_forest_hk
نیچے وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کا نقشہ،وسط ایشیاء میں سوشلسٹ کمیونسٹ انقلاب کے خلاف مسلح تحریک کے ہیروز اور وسط ایشیا اور مشرقی یورپ کی کچھ خوبصورت تصاویر ملاحظہ کیجیے
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔