تحریر۔۔۔۔احید حسن
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
25 جولائی011 2سفر خوشگوار چل رہا تھا۔صبح 35•5 کا وقت۔کوچ لاہور سے کراچی کی طرف رواں دواں تھی۔کوچ کے مسافر کچھ سکون کی حالت میں تھے۔کچھ صبح کی رات سے ملاقات کے منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔کچھ حیدر آباد کے قریب کے دیہات کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔راقم یعنی میں آدھی نیند میں تھا۔اگلی نشستوں میں سے ایک نشست پر دائیں طرف غنودگی کی حالت میں تھا یہ کیا ہوا۔اچانک ایک دھماکے کی آواز جو کوچ کے بائیں طرف ڈرائیور کے پاس سے آئ اور پھر ایک بارش شروع ہوگئ۔بارش بارش بارش بارش۔کونسی بارش۔منہ چھلنی کر دینے والے شیشوں کی بارش۔کوچ کے شیشے ٹوٹ ٹوٹ کر مسافروں پر گر رہے تھے۔کوچ میں گردو غبار پھیل گیا۔ بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار تھی۔زبان سے لفظ اللٰہ نکلا اور اس کے بعد کچھ یاد نہ رہا۔بس یقین کر لیا کہ اب کچھ دیر میں خالق کائنات کے سامنے حاضری یقینی ہے اور اس کے بعد آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔جب ہوش بحال ہوا تو کوچ کو سڑک سے چار فٹ نیچے ایک گہرے گڑھے میں پھنسا پایا اور یہی دھنسنا کوچ کے الٹنے سے بچاؤ کا خدائ سبب بن گیا۔مجھے اتنا یاد ہے کہ کوچ کا دروازہ ٹوٹ کر کئ فٹ دور جاگرا تھا اور مجھے سہارا دے کر کوچ سے اتارا گیا۔اور پھر کیا تھا۔ایک اندوہناک چیخ تھی۔میں مر گیا میں مر گیا۔یہ کون تھا۔یہ وہ جوان تھا جو میرے ساتھ ہی لاہور سے روانہ ہوا تھا اور اس کا بازو اس کے جسم سے کٹ کر دور جا گرا تھا۔اس کا گوشت ایسے لٹک رہا تھا جیسے قصاب ذبح شدہ بکری رسی سے لٹکا دیتا ہے۔اور پھر ایک شور تھا۔ڈرائیور مر گیا ڈرائیور مر گیا۔آس پاس کے دیہات کے لوگ بھاگ کر آگئے۔بس کے زخمی مسافروں کو ان کی طرف سے ناشتہ کرایا گیا۔مجھے ایک مسافر لڑکی کی طرف سے ناشتے کی آفر کی گئ جو معذرت کے ساتھ مسترد کر دی۔پھر پتہ چلا کہ کوچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک ٹرالر سے ٹکرا گئ تھی۔اس کے بعد میں اس حادثے کے ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا۔جسے میڈیکل میں Post traumatic stress disorder کہتے ہیں۔کئ دن یہ کیفیت رہی۔
اب دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجیے۔دسمبر 2000کی ایک صبح۔کئ دن سے طبیعت کی خرابی کا شکار۔سخت بخار اور نمونیا۔دروازے پر دستک ہوئی اور جانا پڑا۔واپسی پہ اچانک سر چکرایا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔آخری بات جو یاد ہے وہ یہ تھی کہ اب دم واپسیں برسر راہ ہے۔اب اللٰہ ہی اللٰہ ہے۔اور دنیا خدا حافظ۔جب ہوش آیا تو خود کو بستر پر پڑا پایا۔یہ کون تھا جو موت کے منہ سے نکال کر دوبارہ دنیا میں لایا۔ایک ہی ہستی یاد آئی اور اللٰہ کا نام لیا۔
اب ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ملاحظہ کیجیے۔19 اپریل بدھ بوقت صبح دس بجے۔کلفٹن کے قریب گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے۔یہ کیا ہوا۔بس اتنا یاد ہے کہ ایک ڈمپر نے اوورٹیک کرتے ہوئے دائیں طرف سے شدید ٹکر ماری۔پھر بس اتنا یاد ہے کہ شیشے ٹوٹ کے مجھ پہ گرے اور سر پر جیسے کوئی ہتھوڑا لگا ہو۔اس کے بعد کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا۔ڈیڑھ سے دو دن بعد ہوش آیا تو خود کو اسپتال میں بیڈ پہ پایا۔سر پر بندھی ہوئ پٹی پائی اور نیورو سرجن کو پاس کھڑے مسکراتے دیکھا کہ احید حسن کیسے ہو۔ساتھ میں پاس کھڑے بھائی اور والدہ کی مسکراہٹ نے ایسے استقبال کیا حیسے کسی نئے پیدا ہونے والے بچے کی آمد پہ ہوتا ہے۔مجھے بتایا گیا کہ مجھے حادثے کی وجہ سے Extradural Hematoma ہوا تھا جس میں دماغ کی جھلی اور کھوپڑی کے درمیان خون جمع ہوجاتا ہے۔میں الحمداللہ خوش قسمت تھا کہ خون زیادہ جمع نہیں ہوا اور مجھے بروقت ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ورنہ اس بیماری کی شرح موت 50سے 74% ہے۔اور میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت تھا کہ اس کے مابعد ذہنی اثرات کا خطرہ میری حالت کے حوالے سے بہت کم ہے۔
ان سب واقعات سے اندازہ کیجیے کہ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔جب تک اس کا وقت نہیں آتا یی خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے اور ایسا ہر واقعہ ہمیں اللٰہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنے اور اپنے اعمال سنوارنے کی ترغیب دیتا ہے۔
یہ تھی میری کچھ مختصر آپ بیتی اس واقعے کے حوالے سے۔فی الحال اتنا ہی۔طبیعت مزید بہتر ہونے پہ آپ حضرات سے بات ہوگی ان شاء اللہ۔آج غالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔اس نے ٹھیک کہا تھا۔
دم واپسیں برسرراہ ہے
عزیزو اب اللٰہ ہی اللٰہ ہے
اور۔۔۔۔۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اور۔۔۔۔۔
فنا فی اللٰہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
25 جولائی011 2سفر خوشگوار چل رہا تھا۔صبح 35•5 کا وقت۔کوچ لاہور سے کراچی کی طرف رواں دواں تھی۔کوچ کے مسافر کچھ سکون کی حالت میں تھے۔کچھ صبح کی رات سے ملاقات کے منظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔کچھ حیدر آباد کے قریب کے دیہات کے خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہورہے تھے۔راقم یعنی میں آدھی نیند میں تھا۔اگلی نشستوں میں سے ایک نشست پر دائیں طرف غنودگی کی حالت میں تھا یہ کیا ہوا۔اچانک ایک دھماکے کی آواز جو کوچ کے بائیں طرف ڈرائیور کے پاس سے آئ اور پھر ایک بارش شروع ہوگئ۔بارش بارش بارش بارش۔کونسی بارش۔منہ چھلنی کر دینے والے شیشوں کی بارش۔کوچ کے شیشے ٹوٹ ٹوٹ کر مسافروں پر گر رہے تھے۔کوچ میں گردو غبار پھیل گیا۔ بچوں اور عورتوں کی چیخ و پکار تھی۔زبان سے لفظ اللٰہ نکلا اور اس کے بعد کچھ یاد نہ رہا۔بس یقین کر لیا کہ اب کچھ دیر میں خالق کائنات کے سامنے حاضری یقینی ہے اور اس کے بعد آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔جب ہوش بحال ہوا تو کوچ کو سڑک سے چار فٹ نیچے ایک گہرے گڑھے میں پھنسا پایا اور یہی دھنسنا کوچ کے الٹنے سے بچاؤ کا خدائ سبب بن گیا۔مجھے اتنا یاد ہے کہ کوچ کا دروازہ ٹوٹ کر کئ فٹ دور جاگرا تھا اور مجھے سہارا دے کر کوچ سے اتارا گیا۔اور پھر کیا تھا۔ایک اندوہناک چیخ تھی۔میں مر گیا میں مر گیا۔یہ کون تھا۔یہ وہ جوان تھا جو میرے ساتھ ہی لاہور سے روانہ ہوا تھا اور اس کا بازو اس کے جسم سے کٹ کر دور جا گرا تھا۔اس کا گوشت ایسے لٹک رہا تھا جیسے قصاب ذبح شدہ بکری رسی سے لٹکا دیتا ہے۔اور پھر ایک شور تھا۔ڈرائیور مر گیا ڈرائیور مر گیا۔آس پاس کے دیہات کے لوگ بھاگ کر آگئے۔بس کے زخمی مسافروں کو ان کی طرف سے ناشتہ کرایا گیا۔مجھے ایک مسافر لڑکی کی طرف سے ناشتے کی آفر کی گئ جو معذرت کے ساتھ مسترد کر دی۔پھر پتہ چلا کہ کوچ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک ٹرالر سے ٹکرا گئ تھی۔اس کے بعد میں اس حادثے کے ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا۔جسے میڈیکل میں Post traumatic stress disorder کہتے ہیں۔کئ دن یہ کیفیت رہی۔
اب دوسرا واقعہ ملاحظہ کیجیے۔دسمبر 2000کی ایک صبح۔کئ دن سے طبیعت کی خرابی کا شکار۔سخت بخار اور نمونیا۔دروازے پر دستک ہوئی اور جانا پڑا۔واپسی پہ اچانک سر چکرایا اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔آخری بات جو یاد ہے وہ یہ تھی کہ اب دم واپسیں برسر راہ ہے۔اب اللٰہ ہی اللٰہ ہے۔اور دنیا خدا حافظ۔جب ہوش آیا تو خود کو بستر پر پڑا پایا۔یہ کون تھا جو موت کے منہ سے نکال کر دوبارہ دنیا میں لایا۔ایک ہی ہستی یاد آئی اور اللٰہ کا نام لیا۔
اب ایک ہفتہ پہلے کا واقعہ ملاحظہ کیجیے۔19 اپریل بدھ بوقت صبح دس بجے۔کلفٹن کے قریب گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے۔یہ کیا ہوا۔بس اتنا یاد ہے کہ ایک ڈمپر نے اوورٹیک کرتے ہوئے دائیں طرف سے شدید ٹکر ماری۔پھر بس اتنا یاد ہے کہ شیشے ٹوٹ کے مجھ پہ گرے اور سر پر جیسے کوئی ہتھوڑا لگا ہو۔اس کے بعد کچھ یاد نہیں کہ کیا ہوا۔ڈیڑھ سے دو دن بعد ہوش آیا تو خود کو اسپتال میں بیڈ پہ پایا۔سر پر بندھی ہوئ پٹی پائی اور نیورو سرجن کو پاس کھڑے مسکراتے دیکھا کہ احید حسن کیسے ہو۔ساتھ میں پاس کھڑے بھائی اور والدہ کی مسکراہٹ نے ایسے استقبال کیا حیسے کسی نئے پیدا ہونے والے بچے کی آمد پہ ہوتا ہے۔مجھے بتایا گیا کہ مجھے حادثے کی وجہ سے Extradural Hematoma ہوا تھا جس میں دماغ کی جھلی اور کھوپڑی کے درمیان خون جمع ہوجاتا ہے۔میں الحمداللہ خوش قسمت تھا کہ خون زیادہ جمع نہیں ہوا اور مجھے بروقت ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ورنہ اس بیماری کی شرح موت 50سے 74% ہے۔اور میں اس حوالے سے بھی خوش قسمت تھا کہ اس کے مابعد ذہنی اثرات کا خطرہ میری حالت کے حوالے سے بہت کم ہے۔
ان سب واقعات سے اندازہ کیجیے کہ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔جب تک اس کا وقت نہیں آتا یی خود زندگی کی حفاظت کرتی ہے اور ایسا ہر واقعہ ہمیں اللٰہ تعالٰی کی طرف رجوع کرنے اور اپنے اعمال سنوارنے کی ترغیب دیتا ہے۔
یہ تھی میری کچھ مختصر آپ بیتی اس واقعے کے حوالے سے۔فی الحال اتنا ہی۔طبیعت مزید بہتر ہونے پہ آپ حضرات سے بات ہوگی ان شاء اللہ۔آج غالب کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔اس نے ٹھیک کہا تھا۔
دم واپسیں برسرراہ ہے
عزیزو اب اللٰہ ہی اللٰہ ہے
اور۔۔۔۔۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اور۔۔۔۔۔
فنا فی اللٰہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔