ارتقائی سائنسدانوں اور ارتقا کے حامیوں کا غیر سائنسی تعصب اور ضد
اقتباس: کتاب ارتقا ایک دھوکہ
مصنف: ترک سکالرہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ سائنسدانوں کے بھی الگ فلسفے اور فکریاتی تعصب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدان دراصل اپنے ذاتی فلسفے اور تعصبات عام لوگوں کے اوپر سائنس کے نام پر مسلط کرتے ہیں۔ مثلاً ان سائنسدانوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ارتقائی حالات بدنظمی اور پریشانی کے علاوہ اور کچھ پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ضد کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود جانداروں کا زبردست نظام، نقشہ اور منصوبہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ارتقائی نوعیت کے ماہرِ حیاتیات کے لئے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی جاندار کی بنیادی نامیاتی اکائیوں میں اس قدر حیران کن نظم ہے کہ ان کے محض اتفاق سے وجود میں آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود یہ سائنسدان پھر بھی ٹھوس دعوے کرتا ہے کہ یہ نامیاتی اکائیاں زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات کے زیر اثر اتفاق سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آئیں۔ یہ مزید کسی شک و شبہ کے یہ بھی دعویٰ کرتاہے کہ یہ اکائیاں پھر حیرت انگیز طور پر آپس میں باہمی تعلق کے ذریعے پہلے خلیئے میں تبدیل ہوگئیں۔ اپنے ان دعوﺅں کی وہ ہٹ دھرمی اور اندھی ضد سے حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک ارتقائی سائنسدان کی مثال ہے جوکہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اپنے ذاتی فلسفے کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔ سائنسدان چونکہ لوگوں پر ایک عقلمند فرقہ ہونے کا تاثر چھوڑتے ہیں اس لئے یہ سائنسدان اپنے پیشے کے اس تاثر کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی سائنسدان سڑک پر تین ایک کے اوپر ایک رکھی ہوئی اینٹوں کو دیکھیں وہ کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ اینٹیں اتفاقاً اس طرح ہوگئیں۔ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا پاگل قراردیا جائے گا۔ اسی لئے یہ صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہی لوگ جو عام حالات میں عام واقعات کے منطق کو تو سمجھ لیتے ہیں پر اپنے وجود کے متعلق ایسی ہی منطق کو سمجھنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ یہ رویہ سائنسی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ سائنس کا قانون ہر واقعہ کے دونوں پہلو پرکھنے پر زوردیتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اگر ایک پہلو کا امکان ۱ فیصد ہو اور دوسرے کا امکان 99 فیصد ہو تو پھر زیادہ امکان والا پہلو ہی نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔
جانداروں کے وجود میں آنے سے متعلق دو نظریئے عام ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو ان کی بے عیب اور پیچیدہ ساخت کے ساتھ تخلیق کیا۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی بے ترتیب اور بے شعور اتفاقات کا نتیجہ ہے ۔یہدوسرا نظریہ ڈارون کے نظریئے یا نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے۔ اگر اکائیوں کی حیاتیات کا سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیر جانبدارانہ معائنہ کیا جائے تو عقل اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتی کہ جانداروں کے جسم کا واحد خلیہ اور اس خلیئے میں موجود لاکھوں نامیات کسی ایسے اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس کا دعویٰ ارتقاءپسندوں کو ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے لئے صرف ایمان کا ہونا ہی لازم نہیں بلکہ یہ حقیقت حکمت، منطق اور سائنسی رو سے بھی اپنے آپ کو منواتی ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ارتقائی سائنسدانوں کو اصولاً اپنے غیر منطقی دعوﺅں سے دست بردار ہوکر اصل حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ ایسا نہ کرنے سے وہ اپنے آپ کو ایسے انسان ثابت کرتے ہیں جو کہ اپنے ذاتی فلسفے، عقیدے اور فکریات کوسائنس کے نام پر فروغ دے رہے ہیں۔ اصل سائنس کا ان کے نظریات سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ جیسے جیسے یہ سائنسدان حقیقت کا سامنا کرتے ہیں ان کا غصہ، ضد اور متعصبات بڑھتے جاتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ صرف اور صرف ان کاعقیدہ ہے جو کہ فقط ایک اندھا اور تہماتی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کو کسی اور لفظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس کے ہاتھوں وہ اپنے ذہن کی ایک غیر منطقی دلیل پر جمے رہنے پر مصر ہیں حالانکہ سائنس اور سارے حقائق ان کو ہر طرح کے مضادثبوت پیش کرتے ہیں۔
ترکی کے ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات کی لکھی ہوئی کچھ باتیں ارتقاءسے متعلق غیر منظم فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سائنسدان زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم۔ سی کے اتفاقاً وجود میں آنے کے بارے میں ممکنہ توجیح پیش کرتا ہے۔
”سائٹو کروم۔ سی کے سلسلے کا اتفاقاً وجود میں آجانے کا امکان صفر ہے۔ اگر زندگی کو کسی ایسے حیاتیاتی سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پوری کائنات میں صرف ایک دفعہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی تخلیق میں کسی ایسے مابعدالطبعیاتی طاقت کا ہاتھ ہے جو کہ ہماری سمجھسے بالا ترہے۔ چونکہ سائنس اس دوسری صورتحال کو قبول نہیں کرتی اس لئے ہمیں پہلے مفروضے کو منظور کرنا پڑتا ہے.“ ۲
اس سائنسدان کے نزدیک اس مفروضے کو منظور کرنا زیادہ مناسب ہے جس کے درست ہونے کے امکان صفر ہے بجائے اس کے کہ وہ تخلیق پر ایمان لائے ہوتے اپنے عقیدوں سے دست بردار ہو۔ سائنس کے اصولوں کے تحت اگر کسی صورتحال کے متعلق دو مخالف بیانات موجود ہوں جن میں ایک کا امکان صفر ہو تو پھر دوسرا مفروضہ ہی درست ہوتا ہے۔ لیکن ارتقاءپسندوں کی مادیت پرستی ان کو تخلیق کی حقیقت سے مکمل طور پر منکر رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ سائنسدان خود تخلیق کو جھٹلاتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ لاکھوں لوگوں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگائے رکھتے ہیں جبکہ ان کا عقیدہ واضح طور پر غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ ہے۔ جو لوگ ان سائنسدانوں پر اعتماد کرتے ہیں وہ مادیت کے اس اسرار اور سحر انگیزی کی دھند میں داخل ہوکر اسی طرح کا بے توجہ اور بے اہمیتی کا رویہ اپنالیتے ہیں جس کی تلقین ان سائنسدانوں کی لکھی ہوئی کتابیں اور مضمون ان کو کرتے ہیں۔
یہ اسی مادہ پرست نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ سائنسی حلقوں کے بڑے بڑے نام دہریہ ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اس اسرار سے آزاد کرلیتے ہیں اور کھلے دماغ سے سوچتے ہیں وہ اپنے خالق کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکن ماہرِ حیاتیاتی کیمیا ڈاکٹر مائیکل بیہی کا نام تخلیق کی حقیقت کے حامیوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر بےہی نے ان مادہ پرست سائنسدانوں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
”پچھلی چار صدیوں میں جدید حیاتیاتی کیمیا کی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے تمام راز آشکار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال اس محنت طلب کام میں وقف کردیئے ہیں۔ لحمیاتی سطح پر زندگی کی تحقیق کا نتیجہ ایک زوردار ’ تخلیق !‘کے نعرے کی صورت میں موصول ہوا ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اہم ہے کہ اس کو سائنس کی تاریخ کی سب سے زبردست کامیابی قرردیا جاسکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سائنسی حلقوں نے اس کامیابی کا جشن ایک غیر معمولی اور شرمندہ خاموشی سے منایا ہے۔ سائنسی حلقے اس حیران کن دریافت کو نویدگی سےکیوں نہیں پرھتے؟ اس عظیم نقشے کو شعور اور عقل و فہم سے کیوں جانچا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اس موضوع کا ایک پہلو دانشمند نقشہ ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو نتیجتاً اور لازماً خدا ہے۔“ ۳
لیکن یہ تمام سائنسدان ان مادی عقیدوں کی تعلیم کو جذب کرنے کی وجہ سے اسقدر بے حس اور اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے انکار پر مستقل قائم ہیں کےونکہ جو لوگ اپنے تخلیق کار کے ثبوت اور شواہد کی نفی کرتے ہیں وہ بے حس ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نامور ارتقاءدان رچرڈ ڈاکنز کی یہ بات ہے جو اس نے عیسائیوں سے کہی کہ اگر بی بی مریم کا بت بھی تمہیں ہاتھ ہلائے تو یہ ہرگز مت سمجھنا کہ تم نے کوئی معجزہ دیکھا ہے۔
لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظر ےئے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔
امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی 2000ء میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ¿ نظر کے خلاف ثبوت بھی اےسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“ ۵
یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ اس کتاب میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس کتاب پر غور کریں تو وہ شفاف سچ کو پالیں گے۔
حوالہ جات:
1. Cliff, Conner, “Evolution vs. Creationism: In Defense of Scientific Thinking”, International Socialist Review (Monthly Magazine Supplement to the Militant), November 1980.
2 (۲) Ali Demirsoy, Kalıtım ve Evrim (Inheritance and Evolution), Ankara: Meteksan Publishing Co., 1984, p. 61.
3 (۳) Michael J. Behe, Darwin's Black Box, New York: Free Press, 1996, pp. 232-233.
4 Richard Dawkins, The Blind Watchmaker, London: W. W. Norton, 1986, p. 159.
5 (۵) Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, pp. 235-236
اقتباس: کتاب ارتقا ایک دھوکہ
مصنف: ترک سکالرہارون یحییٰ
•••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
دنیا میں اکثر لوگ سائنسدانوں کی ہر بات کو حرف آخر کا درجہ دیتے ہیں۔ ان کو یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ سائنسدانوں کے بھی الگ فلسفے اور فکریاتی تعصب ہوسکتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ارتقائی سائنسدان دراصل اپنے ذاتی فلسفے اور تعصبات عام لوگوں کے اوپر سائنس کے نام پر مسلط کرتے ہیں۔ مثلاً ان سائنسدانوں کو اچھی طرح سے پتہ ہے کہ ارتقائی حالات بدنظمی اور پریشانی کے علاوہ اور کچھ پیدا کرنے کے اہل نہیں ہیں لیکن پھر بھی وہ ضد کرتے ہیں کہ کائنات اور اس میں موجود جانداروں کا زبردست نظام، نقشہ اور منصوبہ محض اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ارتقائی نوعیت کے ماہرِ حیاتیات کے لئے یہ بات سمجھنا بہت آسان ہے کہ کسی بھی جاندار کی بنیادی نامیاتی اکائیوں میں اس قدر حیران کن نظم ہے کہ ان کے محض اتفاق سے وجود میں آنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود یہ سائنسدان پھر بھی ٹھوس دعوے کرتا ہے کہ یہ نامیاتی اکائیاں زمین کے قدیم ماحولیاتی اثرات کے زیر اثر اتفاق سے کروڑوں سال پہلے وجود میں آئیں۔ یہ مزید کسی شک و شبہ کے یہ بھی دعویٰ کرتاہے کہ یہ اکائیاں پھر حیرت انگیز طور پر آپس میں باہمی تعلق کے ذریعے پہلے خلیئے میں تبدیل ہوگئیں۔ اپنے ان دعوﺅں کی وہ ہٹ دھرمی اور اندھی ضد سے حمایت کرتا ہے۔ یہ ایک ارتقائی سائنسدان کی مثال ہے جوکہ حقیقت کو سمجھنے کے باوجود اپنے ذاتی فلسفے کو لوگوں پر مسلط کرتا ہے۔ سائنسدان چونکہ لوگوں پر ایک عقلمند فرقہ ہونے کا تاثر چھوڑتے ہیں اس لئے یہ سائنسدان اپنے پیشے کے اس تاثر کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر یہی سائنسدان سڑک پر تین ایک کے اوپر ایک رکھی ہوئی اینٹوں کو دیکھیں وہ کبھی بھی اس بات پر یقین نہیں کریں گے کہ یہ اینٹیں اتفاقاً اس طرح ہوگئیں۔ اس طرح کی کوئی بات کہنے والا پاگل قراردیا جائے گا۔ اسی لئے یہ صورتحال اور بھی مضحکہ خیز ہے کہ یہی لوگ جو عام حالات میں عام واقعات کے منطق کو تو سمجھ لیتے ہیں پر اپنے وجود کے متعلق ایسی ہی منطق کو سمجھنے سے صاف انکار کردیتے ہیں۔ یہ رویہ سائنسی ہرگز نہیں ہوسکتا کیونکہ سائنس کا قانون ہر واقعہ کے دونوں پہلو پرکھنے پر زوردیتا ہے اس سے پہلے کہ کوئی حتمی نتیجہ اخذ کیا جائے۔ اگر ایک پہلو کا امکان ۱ فیصد ہو اور دوسرے کا امکان 99 فیصد ہو تو پھر زیادہ امکان والا پہلو ہی نتیجہ قراردیا جاتا ہے۔
جانداروں کے وجود میں آنے سے متعلق دو نظریئے عام ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام جانداروں کو ان کی بے عیب اور پیچیدہ ساخت کے ساتھ تخلیق کیا۔دوسرا نظریہ یہ ہے کہ زندگی بے ترتیب اور بے شعور اتفاقات کا نتیجہ ہے ۔یہدوسرا نظریہ ڈارون کے نظریئے یا نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے۔ اگر اکائیوں کی حیاتیات کا سائنسی تحقیق کی روشنی میں غیر جانبدارانہ معائنہ کیا جائے تو عقل اس بات کو تسلیم کرہی نہیں سکتی کہ جانداروں کے جسم کا واحد خلیہ اور اس خلیئے میں موجود لاکھوں نامیات کسی ایسے اتفاق کا نتیجہ ہوسکتے ہیں جس کا دعویٰ ارتقاءپسندوں کو ہے۔ اس حقیقت کو ماننے کے لئے صرف ایمان کا ہونا ہی لازم نہیں بلکہ یہ حقیقت حکمت، منطق اور سائنسی رو سے بھی اپنے آپ کو منواتی ہے۔
ان تمام حالات کے پیش نظر ارتقائی سائنسدانوں کو اصولاً اپنے غیر منطقی دعوﺅں سے دست بردار ہوکر اصل حقیقت کو تسلیم کرلینا چاہئے۔ ایسا نہ کرنے سے وہ اپنے آپ کو ایسے انسان ثابت کرتے ہیں جو کہ اپنے ذاتی فلسفے، عقیدے اور فکریات کوسائنس کے نام پر فروغ دے رہے ہیں۔ اصل سائنس کا ان کے نظریات سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ جیسے جیسے یہ سائنسدان حقیقت کا سامنا کرتے ہیں ان کا غصہ، ضد اور متعصبات بڑھتے جاتے ہیں۔ ان کے اس طرزِ عمل کی وجہ صرف اور صرف ان کاعقیدہ ہے جو کہ فقط ایک اندھا اور تہماتی عقیدہ ہے۔ اس عقیدے کو کسی اور لفظ میں بیان نہیں کیاجاسکتا کیونکہ اس کے ہاتھوں وہ اپنے ذہن کی ایک غیر منطقی دلیل پر جمے رہنے پر مصر ہیں حالانکہ سائنس اور سارے حقائق ان کو ہر طرح کے مضادثبوت پیش کرتے ہیں۔
ترکی کے ایک نامور ارتقائی ماہرِ حیاتیات کی لکھی ہوئی کچھ باتیں ارتقاءسے متعلق غیر منظم فیصلوں اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے حالات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ یہ سائنسدان زندگی کے اہم ترین لحمیہ سائٹوکروم۔ سی کے اتفاقاً وجود میں آنے کے بارے میں ممکنہ توجیح پیش کرتا ہے۔
”سائٹو کروم۔ سی کے سلسلے کا اتفاقاً وجود میں آجانے کا امکان صفر ہے۔ اگر زندگی کو کسی ایسے حیاتیاتی سلسلے کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ سلسلہ پوری کائنات میں صرف ایک دفعہ ہی وجود میں آسکتا ہے۔ اس کی تخلیق میں کسی ایسے مابعدالطبعیاتی طاقت کا ہاتھ ہے جو کہ ہماری سمجھسے بالا ترہے۔ چونکہ سائنس اس دوسری صورتحال کو قبول نہیں کرتی اس لئے ہمیں پہلے مفروضے کو منظور کرنا پڑتا ہے.“ ۲
اس سائنسدان کے نزدیک اس مفروضے کو منظور کرنا زیادہ مناسب ہے جس کے درست ہونے کے امکان صفر ہے بجائے اس کے کہ وہ تخلیق پر ایمان لائے ہوتے اپنے عقیدوں سے دست بردار ہو۔ سائنس کے اصولوں کے تحت اگر کسی صورتحال کے متعلق دو مخالف بیانات موجود ہوں جن میں ایک کا امکان صفر ہو تو پھر دوسرا مفروضہ ہی درست ہوتا ہے۔ لیکن ارتقاءپسندوں کی مادیت پرستی ان کو تخلیق کی حقیقت سے مکمل طور پر منکر رکھتی ہے۔ نہ صرف یہ سائنسدان خود تخلیق کو جھٹلاتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ لاکھوں لوگوں کو بھی گمراہی کے راستے پر لگائے رکھتے ہیں جبکہ ان کا عقیدہ واضح طور پر غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ ہے۔ جو لوگ ان سائنسدانوں پر اعتماد کرتے ہیں وہ مادیت کے اس اسرار اور سحر انگیزی کی دھند میں داخل ہوکر اسی طرح کا بے توجہ اور بے اہمیتی کا رویہ اپنالیتے ہیں جس کی تلقین ان سائنسدانوں کی لکھی ہوئی کتابیں اور مضمون ان کو کرتے ہیں۔
یہ اسی مادہ پرست نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ سائنسی حلقوں کے بڑے بڑے نام دہریہ ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو اس اسرار سے آزاد کرلیتے ہیں اور کھلے دماغ سے سوچتے ہیں وہ اپنے خالق کا اعتراف کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ امریکن ماہرِ حیاتیاتی کیمیا ڈاکٹر مائیکل بیہی کا نام تخلیق کی حقیقت کے حامیوں میں سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر بےہی نے ان مادہ پرست سائنسدانوں کے متعلق اپنی رائے کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
”پچھلی چار صدیوں میں جدید حیاتیاتی کیمیا کی تحقیق کے ذریعے خلیوں کے تمام راز آشکار ہوچکے ہیں۔ لاکھوں لوگوں نے اپنی زندگیوں کے بہترین سال اس محنت طلب کام میں وقف کردیئے ہیں۔ لحمیاتی سطح پر زندگی کی تحقیق کا نتیجہ ایک زوردار ’ تخلیق !‘کے نعرے کی صورت میں موصول ہوا ہے۔ یہ نتیجہ اس قدر غیر مبہم اور اہم ہے کہ اس کو سائنس کی تاریخ کی سب سے زبردست کامیابی قرردیا جاسکتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر سائنسی حلقوں نے اس کامیابی کا جشن ایک غیر معمولی اور شرمندہ خاموشی سے منایا ہے۔ سائنسی حلقے اس حیران کن دریافت کو نویدگی سےکیوں نہیں پرھتے؟ اس عظیم نقشے کو شعور اور عقل و فہم سے کیوں جانچا جارہا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اس موضوع کا ایک پہلو دانشمند نقشہ ہے وہیں اس کا دوسرا پہلو نتیجتاً اور لازماً خدا ہے۔“ ۳
لیکن یہ تمام سائنسدان ان مادی عقیدوں کی تعلیم کو جذب کرنے کی وجہ سے اسقدر بے حس اور اندھے ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے انکار پر مستقل قائم ہیں کےونکہ جو لوگ اپنے تخلیق کار کے ثبوت اور شواہد کی نفی کرتے ہیں وہ بے حس ہوجاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال نامور ارتقاءدان رچرڈ ڈاکنز کی یہ بات ہے جو اس نے عیسائیوں سے کہی کہ اگر بی بی مریم کا بت بھی تمہیں ہاتھ ہلائے تو یہ ہرگز مت سمجھنا کہ تم نے کوئی معجزہ دیکھا ہے۔
لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظر ےئے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔
امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی 2000ء میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ¿ نظر کے خلاف ثبوت بھی اےسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“ ۵
یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ اس کتاب میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس کتاب پر غور کریں تو وہ شفاف سچ کو پالیں گے۔
حوالہ جات:
1. Cliff, Conner, “Evolution vs. Creationism: In Defense of Scientific Thinking”, International Socialist Review (Monthly Magazine Supplement to the Militant), November 1980.
2 (۲) Ali Demirsoy, Kalıtım ve Evrim (Inheritance and Evolution), Ankara: Meteksan Publishing Co., 1984, p. 61.
3 (۳) Michael J. Behe, Darwin's Black Box, New York: Free Press, 1996, pp. 232-233.
4 Richard Dawkins, The Blind Watchmaker, London: W. W. Norton, 1986, p. 159.
5 (۵) Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, pp. 235-236
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔