Tuesday 22 January 2019

روزے کے طبی فوائد پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب

روزے کے طبی فوائد پر ملحدین کے سائنسی اعتراضات اور ان کا جواب

تدوین و ترتیب اور اضافہ:احید حسن
پوسٹ کی طوالت سے نہ گھبرایئں۔ایک تہائی پوسٹ مضمون کے حوالہ جات پر مشتمل ہے۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا روزہ رکھا کرو تندرست رہا کرو گے . (طبرانی )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث جدید سائنس کی تصدیق کر رہی ہے۔
 روزہ رکھنے سے جسمانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جسے دنیا بھر کے طبی ماہرین خصوصا ڈاکٹر مائیکل 'ڈاکٹر جوزف 'ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر'ڈاکٹر ایم کلائیو'ڈاکٹر جیکب 'ڈاکٹر ہنری ایڈورڈ'ڈاکٹر برام جے 'ڈاکٹر ایمرسن' ڈاکٹرخان یمر ٹ' ڈاکٹر ایڈورڈ نکلسن اور جدید سائنس نے ہزاروں کلینیکل ٹرائلز سے تسلیم کیا ہے۔
روزہ رکھنے سے ظاہر و باطن کی غلاظتیں دور ہو جاتی ہیں(ڈاکٹر جوزف)
روزہ روحانی امراض کا علاج ہے، یہ روح کو پاک و صاف رکھتا ہے(ڈاکٹر سیموئیل الیگزینڈر)
ررزہ گناہوں اور بیماریوں کو روکتا ہے۔ جذبات اور خیالات کو خراب ہونے سے روکتا ہے(ڈاکٹر سی فرانڈ)
روزہ دل میں سکون و اطمینان پیدا کرتا ہے، اس سے قوت برداشت بڑھتی ہے اور سختیاں سہنے کی عادت پڑتی ہے(ڈاکٹربرام جے ہنری)
سکون و اطمینان پیدا کرنے کے لیئے روزہ بہترین چیز ہے (ڈاکٹر یمرٹ)
روزہ روح کی غذا ہے(ڈاکٹر جیکب)
مہینے میں ایک دوبار روزہ رکھنا صحت کے لئے نفع بخش ہے(ڈاکٹر ڈی جیکب)
فاقہ کی بہتریں چیز وہ روزہ ہے جو اہل اسلام کے طریقے سے رکھا جائے، ڈاکٹر جس طریقے سے فاقہ کراتے ہیں وہ غلط ہے(ڈاکٹر ایمر سن)
پوپ ایلف گال ہالینڈکے سب سے بڑے پادری گذرے ہیں روزے کے متعلق اپنے تجربات کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے روحانی پیروکاروں کو ہر ماہ تین روزے رکھنے کی تلقین کرتا ہوں میں نے اس طریقہ کار کے ذریعے جسمانی اور وزنی ہم آہنگی محسوس کی میرے مریض مسلسل مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں انہیں کچھ اور طریقہ بتاؤں لیکن میں نے یہ اصول وضع کر لیا ہے کہ ان میں وہ مریض جو لا علاج ہیں ان کو تین روز کے نہیں بلکہ ایک مہینہ تک روزے رکھوائے جائیں ۔میں نے شوگر'دل کے امراض اور معدہ میں مبتلا مریضوں کو مستقل ایک مہینہ تک روزہ رکھوائے ۔شوگرکے مریضوں کی حالت بہتر ہوئی ا ن کی شوگر کنٹرول ہو گئی ۔دل کے مریضوں کی بے چینی اور سانس کا پھولنا کم ہوگیا سب سے زیادہ افاقہ معدہ کے مریضوں کو ہوا ۔
فارما کولوجی کے ماہر ڈاکٹر لوتھر جیم نے روزے دار شخص کے معدے کی رطوبت لی اور پھر اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا اس میں انہوں نے محسوس کیا کہ وہ غذائی متعفن اجزا(food particles septic)جس سے معدہ تیزی سے امراض قبول کرتا ہے بالکل ختم ہو جاتے ہیں ڈاکٹر لوتھر کا کہنا ہے کہ روزہ جسم اور خاص طور معدے کے امراض میں صحت کی ضمانت ہے ۔
مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ فاقہ اور روزے کا قائل تھا اس کا کہنا ہے کہ روزہ سے دماغی اور نفسیاتی امراض کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے روزہ دار آدمی کا جسم مسلسل بیرونی دباؤکو قبول کرنے کی صلاحیت پالیتا ہے روزہ دار کو جسمانی کھینچاؤ اور ذہنی تناؤسے سامنا نہیں پڑتا۔
جرمنی'امریکہ 'انگلینڈ کے ماہر ڈاکٹروںکی ایک ٹیم نے رمضان المبارک میں تمام مسلم ممالک کا دورہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ رمضان المبارک میں چونکہ مسلمان نماز زیادہ پڑھتے ہیں جس سے پہلے وہ وضو کرتے ہیں اس سے ناک'کان'گلے کے امراض بہت کم ہو جاتے ہیں کھانا کم کھاتے ہیں جس سے معدہ وجگر کے امراض کم ہو جاتے ہیں چونکہ مسلمان دن بھر بھوکا رہتا ہے اس لئے وہ اعصاب اور دل کے امراض میں بھی کم مبتلا ہوتا ہے ۔
سکندر اور ارسطو یونانی لیڈر اپنے فیلڈ کے ماہر ہیں ،انہوں نے فاقہ اور پھر مسلسل فاقہ کو جسم کی توانائی کے لئے ضروری قرار دیا ہے.
سکندر اعظم کہتا ہے کہ میری زندگی مسلسل تجربات اور حوادث میں گزری ہے جو آدمی صبح وشام کھانے پر اکتفا کرتا ہے وہی ایسی زندگی گزارسکتا ہے جس میں کسی قسم کی لچک نہ ہو.
 لیکن کوئ یہ نہیں کہ سکتا کہ اسلام کا روزے کا تصور یونان سے لیا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سکندر اعظم کا کوئ تعلق ثابت نہیں اور نہ ہی یونانی تصانیف عرب میں میسر تھیں۔
گاندھی جی کے فاقے مشہور ہیں . فیروز راز نے گاندھی جی کی زندگی کے حالات میں یہ بات لکھی ہے کہ گاندھی جی روزے کے قائل تھے .
"کہا کرتے تھے کہ انسان کھا کھا کر اپنے جسم کو سست کر لیتا ہے اور کاہل ،کسل مند نہ دنیا کا اور نہ ہی مہاراج کا .
اگر تم جسم کو گرم اور متحرک رکھنا چاہتے ہو تو جسم کو کم ازکم خوراک دو، اور روزے رکھو سارا دن جاپ الاپو اور پھر شام کو بکری کے دودھ سے روزہ کھولو.
( داستان گاندھی .خاص نمبر رسالہ دہلی)
روسی ماہر الابدان  پروفیسر این  نکٹین  اپنی طبوی   عمر کے راز سے متعلق کہتے ہیں  : “تین اصؤل   زندگی میں اپنا لیے جائیں  تو بدن  کے زہریلے   مواد خارج   ہو کر بڑھاپا روک  دیتے ہیں ،اول  خوب محنت  کیا کرو۔۔۔ دوم کافی  ورزش کیا کرو بالخصوص زیادہ   چلنا پھرنا چاہیے ،سوم   غذا جو تم  پسند کرتے  ہو کھایا کرو لیکن ہر مہینہ  میں کم از کم  ایک مرتبہ   فاقہ ضرور  کیا کرو ۔”
امریکہ میں ڈاکٹر ہربرٹ ایم شلٹن نے ایک کتاب تحریر کی ہے جس کا موضوع ہے " روزہ تمہاری زندگی کو نجات دے سکتا ہے " اس امریکی ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ روزوں کے ذریعے موٹاپے ، میگرین ، الرجی ، بلڈ پریشر اور جوڑوں کے دردوغیرہ نیز جلد کی بہت سی بیماریوں کا علاج کیا جاسکتا ہے ۔ اس کتاب میں روزے کو ایسا آپریشن قرار دیا گیا ہے جو چیرنے پھاڑنے والے آلات استعمال کۓ بغیر ہی کیا جاتا ہے۔
 فرانس کے محقق اور فیزیالوجسٹ ڈاکٹر الکسیس کارل کا کہنا ہے کہ روزے کی حالت میں اپنے نفس پر قابو پانے کی کوشش کے ذریعے بدن کے اعمال میں توازن قائم کیا جاسکتا ہے۔ سب لوگ فطری طور پر اپنے غرائز کو پورا کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ان خواہشات کی مکمل طور پر تکمیل نہ ہو تو انسان زوال و انحطاط کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لۓ انسان کو اپنے نفس پر تسلط حاصل کرنا چاہۓ۔ اس میں شک نہیں کہ ضرورت سے زیادہ سونا اور کھانا کم کھانے کی نسبت زیادہ نقصان دہ ہے اور ان امور سے اپنے آپ کو بچا کر بدن اور روح کے اعمال کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جاسکتی ہے۔
العربیہ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے جلدی امور کے ماہر ڈاکٹر الصقیر نے کہا کہ انسانی جسم کو کولاجین [بے رنگ پروٹین جس میں زیادہ تر گلائی سین ، ہائیڈ راکسی پروٹین اور پرولین پائی جاتی ہے ۔ جسم کی تمام اتصالی بافتوں یا Comnective Tissues میں خصوصاً جلد ، کری ہڈی یا Cartilage اور جوڑ بندھن یعنی Tendons میں ہوتی ہے] اور الاسٹن کے پھیلاؤ کی ضرورت ہوتی ہے اور روزہ اس میں مدد دیتا ہے۔
پروفیسر مور پالڈ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پہچان ہے۔انہوں نے اپنا واقعہ بیان کیا کہ میں نے اسلامی علوم کا مطالعہ کیا اور جب روزے کے باب پر پہنچا تو میں چونک پڑا کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو اتنا عظیم فارمولا دیا ہے ۔ اگر اسلام اپنے ماننے والوں کو اور کچھ نہ دیتا صرف یہی روزے کا فارمولا ہی دیتا تو پھر بھی اس سے بڑھ کر ان کے پاس اور کوئی نعمت نہ ہوتی۔
میں نے سوچا کہ اس کو آزمانا چاہئے پھر میں نے روزے مسلمانوں کی طرز پر رکھنا شروع کردیے ، میں عرصہ دراز سے معدے کے ورم (stomach inflammation)میں مبتلا تھا ۔کچھ دنوں کے بعد ہی میں نے محسوس کیا کہ اس میں کمی واقع ہوگئی ہے۔میں نے روزوں کی مشق جاری رکھی پھر میں نے جسم میں کچھ اور اور تبدیلی بھی محسوس کی اور کچھ ہی عرصے بعد میں نے اپنے جسم کو نارمل پایا۔حتی کہ میں نے ایک ماہ کے بعد اپنے اندر انقلابی تبدیلی محسوس کی۔
ڈاکٹر شاہد اطہر (Shahid Athar)جو کہ امریکہ کی ایک یونیورسٹی''انڈیانا یونیورسٹی سکول آف میڈیسن'' کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں وہ فوائد رمضان کے متعلق اپنے ایک آرٹیکل :"The Spiritual and Health Benefits of Ramadan Fasting"میں لکھتے ہیں کہ
''روزہ ان لوگوں کے لیے بہت مفید ہے جو نرم مزاج 'اعتدال پسند اور مثالی بننا چاہتے ہیں ۔1994ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ''رمضان اور صحت ''جو کہ' کاسابلانکہ 'میں منعقد ہوئی ۔اس میں طبی حوالے سے روزے کی وسعت و پھیلاؤ کے بارے میں 50اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ۔جس سے نظام طب کے حوالے سے بہت سے اچھے اثرات سامنے آئے حتی کہ یہ چیز بھی سامنے آئی ہے کہ روزہ مریضوں کے لیے کسی بھی طریقے سے نقصان دہ نہیں ہے ۔جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ اس میں سکون اور صبر وتحمل کا درس لیتے ہیں ۔روزہ کی حالت میں انسان کی نفسانی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں اور انسان کئی اور دوسرے جرموں سے بچ جاتا ہے ۔''
جدید ترین تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ تین دن روزہ رکھنے سے مدافعتی نظام مکمل بحال ہوجاتا ہے
تین دن تک روزے رکھنے سے جسم کو جس قدر فائدہ پہنچتا ہے وہ جسم کو پہنچنے والے نقصان سے بہت کم ہے۔  ایک بڑی مثبت تبدیلی یہ ہے کہ اسٹیم سیلز ایک ایسا عمل شروع کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جسم میں خون کے سفید خلیے بننے کا عمل تیز ہوجاتا ہے۔ واضح رہے کہ خون میں سفید خلیے انفیکشن سے لڑنے میں خاصی مدد دیتے ہیں۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے سے متعلق تازہ ترین تحقیق سے اُن افراد کو خاص طور پر فائدہ پہنچ سکتا ہے جن کا مدافعتی نظام شدید متاثر ہوچکا ہے۔ بالخصوص کینسر کے وہ مریض اِس تحقیق سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں کیمو تھیراپی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلی فورنیا میں جیرونٹولوجی اور بایولوجیکل ریسرچ کے پروفیسر والٹر لونگو کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص روزہ رکھتا ہے یعنی دن بھر بھوکا رہتا ہے تو جسم میں اسٹیم سیلز اپنا کام شروع کرتے ہیں یعنی مدافعتی نظام کی بحالی شروع ہوجاتی ہے۔ مدافعتی نظام کے جو حصے ناکارہ ہوکر جسم پر بوجھ بن چکے ہوتے ہیں، وہ روزے کے دوران جسم سے خارج ہوتے جاتے ہیں۔ گویا روزہ رکھنا جسم کو نئی زندگی دینے جیسا ہے۔ بڑھاپے یا کیمو تھیراپی کے باعث جسم کے جو خلیے ناکارہ ہوچکے ہوتے ہیں، وہ روزے کے دوران جسم سے یوں نکلتے ہیں کہ پورا مدافعتی نظام بحال ہوتا جاتا ہے۔ طویل مدت تک روزے رکھنے سے جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس دوران خون میں سفید خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ بھی شروع ہو جاتی ہے مگر خیر دوسری طرف اسٹیم سیلز مدافعتی نظام کو بھرپور تحرک فراہم کرتے ہیں جس کے نتیجے میں جسم کا مدافعتی نظام بحالی کی طرف آتا جاتا ہے۔
رضا کاروں کو چھ ماہ کے دوران وقفے وقفے سے دو سے چار دن کے روزے رکھنے کو کہا گیا۔ اس دوران اُن کے جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھی باقاعدگی سے جائزہ لیا گیا تاکہ اندازہ لگایا جاسکے کہ بھوکا رہنے سے جسم میں کون سی اہم تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ ماہرین نے دیکھا کہ طویل روزے رکھنے سے جسم میں پی کے اے انزائم کے بننے کا عمل رک جاتا ہے۔ یہ انزائم بڑھاپے کے عمل کو تیز کرنے کے ساتھ کینسر اور رسولی کے حوالے سے بھی نقصان دہ ہے۔ لونگو کہتے ہیں کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ طویل روزے رکھنے سے جسم کو کس حد تک فائدہ پہنچ سکتا ہے، بالخصوص اسٹیم سیلز کے حوالے سے۔ حقیقت یہ ہے کہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں ایسی مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو توانائی برقرار رکھنے اور بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جب ہم بھوکے رہتے ہیں تو جسم توانائی کو ذخیرہ کرتا ہے اور مدافعتی نظام کے اُن تمام خلیوں کو ری سائیکل کرتا ہے جو ناکارہ ہوکر جسم پر بوجھ بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ پروفیسر لونگو کہتے ہیں کہ اس بات کے معمولی سے بھی شواہد نہیں ملے کہ روزے کی حالت میں جسم کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے جبکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ جسم کو فائدہ ضرور پہنچتا ہے۔ تحقیق اور تجزیے سے معلوم ہوا کہ طویل روزے رکھنے سے جسم میں خون کے سفید خلیوں کی تعداد گھٹ گئی اور جب دوبارہ کھانا شروع کیا گیا تو یہ تعداد بڑھتی چلی گئی۔ کینسر کے مریض بھی طویل روزے رکھ کر کیمو تھیراپی کے شدید منفی اثرات سے بہت حد تک محفوظ رہ سکتے ہیں۔
تحقیقی مقالے کی شریک مصنفہ ٹانیہ ڈورف کہتی ہیں: ’’تحقیق سے معلوم ہوا کہ طویل دورانیے کا روزہ رکھنے سے کیمو تھیراپی کے اثرات کو انتہائی محدود کرنے میں مدد ملتی ہے‘‘۔ ٹانیہ ڈورف یو ایس سی نارس کمپری ہینسو کینسر سینٹر اینڈ ہاسپٹل میں کلینیکل میڈیسن کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
72 گھنٹے کا روزہ رکھنے سے متعلق یونیورسٹی کالج لندن میں ریجنریٹیو میڈیسن کے پروفیسر کرس میسن کہتے ہیں: ’’محض تین دن کا روزہ رکھنے سے جسم کو کچھ خاص نقصان نہیں پہنچ سکتا اور سچ تو یہ ہے کہ اِس مدت کے دوران جسم کو کینسر کے اثرات سے بہت حد تک دور کرنے میں خاصی مدد ملتی ہے۔ کم کھاکر یا بھوکا رہ کر بھی انسان اپنے جسم کو بہتر حالت میں رکھ سکتا ہے مگر یہ طریقہ سب کے لیے مناسب نہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر سے مشاورت لازم ہے تاکہ غیر ضروری طور پر بھوکا رہنے سے جسم کو زیادہ نقصان نہ پہنچے۔ کینسر کے مریض کے لیے بہتر نہیں کہ اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرے بلکہ اُسے ادویہ پر زیادہ منحصر رہنا چاہیے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ بھوکا رہنے سے جسم میں بہت سے مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں مگر اِس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ عمل سب کے لیے موزوں اور مفید ہو‘‘۔
(“Fasting for three days renews entire immune system, ‘remarkable’ new study finds”. (“nationalpost.com”. June 5, 2014)
1994ء میں Health and Ramadan کے عنوان سے پہلی انٹرنیشنل کانگریس کیسابلانکا میں منعقد ہوئی جس میں اس موضوع پر ۵۰تحقیقی مقالات پیش کیے گئے۔ (ملاحظہ کیجیے: www.islam.usa.com)
جس میں روزہ رکھنے والوں کی صحت پرناقابل یقین بہتری ریکارڈکی گئی۔
کانفرنس میں پیش کیے گئے مقالوں کے مطابق ان لوگوں کی صحت پر منفی اثرات ریکارڈ کیے گئے جنہوں نے افطارکے وقت ضرورت سے زیادہ کھاناکھایااور ٹھیک سے نیند پوری نہیں کی۔
اردن کے یونیورسٹی ہسپتال کے ڈاکٹر سلیمان نے مردوں اور خواتین کامشاہدہ کیا۔ رمضان کے دوران ان کا اوسطاً دو کلو گرام وزن کم ہوگیا۔ تہران یونیورسٹی کے ڈاکٹر عزیز کی تحقیق کے مطابق رمضان کے دوران عام افراد میں چار کلو گرام تک وزن میں کمی نوٹ کی گئی۔سلمنگ سنٹر میں جانے والوں میں عام مشاہدہ کیا گیا ہے کہ فاقوں کے بعد ان کا وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے بلکہ بعض لوگوں کا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے دماغ کا حصہ انسان کا وزن کنٹرول کرتا ہے اگر کوئی شخص فاقے کرتا ہے تو فاقوں کے بعد یہ حصہ تیزی سے عمل کرتا ہے اور وزن دوبارہ بڑھ جاتا ہے۔ روزے کے دوران حیرت انگیز طور پر یہ حصہ تیزی سے کام نہیں کرتا۔
ایلن کاٹ (Allan Cott) نے 1975ء میں اپنی تحقیق کے بعد یہ نتیجہ نکالا: روزے سے نظامِ ہضم اور مرکزی عصبی نظام کو مکمل طور پر نفسیاتی سکون ملتا ہے اور یہ میٹابولزم کے نظام کو نارمل کردیتا ہے۔ (Islamic Medicine، شاہد اختر،ص 148)
سائنس دانوں کے بقول روزہ مدافعتی نظام کی ازسرنو تخلیق کا ایک بٹن ہے جس کے دبانے سے اسٹیم خلیات کو سفید خون کے خلیات بنانے کا اشارہ ملتا ہے جن کی بدولت انسان بیماریوں اور انفیکشن کے خلاف مزاحمت کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ان کی دریافت کینسر کے مریضوں اور غیر موثر مدافعتی نظام میں مبتلا افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے اور خاص طور پر معمر افراد جن کا مدافعتی نظام زیادہ عمر کی وجہ سے غیر موثر ہو جاتا ہے اور ان میں معمولی بیماریوں سے لڑنے کی طاقت بھی نہیں رہتی ہے، یہ مشق ان کے لیے بے حد مفید ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سرطان میں مبتلا افراد یا معمر ہونے کی وجہ سے غیر موثر مدافعتی نظام کو روزہ ایک نئے مدافعتی نظام میں تبدیل کر سکتا ہے ۔انھوں نے کہا کہ جب آپ بھوکے ہوتے ہیں تو یہ نظام توانائی بچانے کی کوشش کرتا ہے اور روزے دارکا بھوکا جسم ذخیرہ شدہ گلوکوز اور چربی کو استعمال کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام کے خلیات کا بھی استعمال کرتا ہے جس سے سفید خلیات کا ایک بڑا حصہ بھی ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ جیروئنٹولوجی ایند بائیولوجیکل سائنسز سے منسلک پروفیسر والٹر لونگو نے کہا کہ طویل روزوں کی حالت میں جسم میں ایک اینزائم پی کے اے (PKA) کی کمی واقع ہوتی ہے جس کا تعلق بزرگی یا سرطان کے ٹیومر کی افزائش کا سبب بننے والے ہارمون سے ہے۔ جبکہ اسٹیم سیلز تخلیق نو کا مرحلہ تبھی شروع کر سکتا ہے جب پی کے اے جین کا بٹن سوئچڈ آف ہو۔ بنیادی طور پر روزہ اسٹیم سیلز کو OK کا سگنل بھجتا ہے کہ وہ ری سائیکلنگ کا عمل شروع کرے اور پورے مدافعتی نظام کی مرمت کر کے اسے پھر سے نیا بنادے۔اچھی خبر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں جسم کو مدافعتی نظام کے نقصان دہ، ناکارہ اور غیر فعال حصوں سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ محققین نے ایک تجربے کے دوران لوگوں سے چھ ماہ کے دوران دو سے چار بار فاسٹنگ (روزے) کے لیے کہا۔ پروفیسر لونگو کے مطابق ہم نے انسانوں اور جانوروں پر کئے جانے والے تجربات میں یہ دیکھا کہ طویل روزوں سے جسم میں سفید خون کے خلیات کی تعداد میں کمی ہونی شروع ہو گئی مگر جب روزہ کھولا گیا تو یہ خلیات پھر سے واپس آگئے اور تبھی سائنسدانوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ آخر یہ واپس کہاں سے آتے ہیں ۔ بقول پروفیسر لونگو طویل روزوں کی حالت کے دوران جسم میں سفید خون کے خلیات کی کمی سے پیدا ہونے والی حوصلہ افزا تبدیلیاں اسٹیم سیلز کے تخلیق نو کے خلیہ کو متحرک بناتی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ جب انسان روزے کے بعد کھانا کھاتا ہے تو اس کا جسم پورے نظام کی تعمیر کے لیے اسٹیم خلیات کو سگنل بھجتا ہے اور توانائی محفوظ کرنے کے لیے مدافعتی نظام خلیات کے ایک بڑے حصے کو ری سائیکل کرتا ہے جن کی یا تو ضرورت نہیں ہوتی ہے یا جو ناکارہ ہو چکے ہوتے ہیں۔  تحقیق کے معاون مصنف پروفیسر تانیا ڈورف نے کہا کہ اگرچہ کمیو تھراپی کا عمل زندگی بچانے کے کام آتا ہے  لیکن 72 گھنٹوں کا روزہ کمیو تھراپی کے زہریلے اثرات کے خلاف کینسر کے مریضوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ لیکن اس بات کی ضرورت ہے کہ کسی طبی معالج کے زیر نگرانی اس نوعیت کی غذائی پابندیاں کی جانی چاہئیں۔ تحقیق کے نتیجے کے حوالے سے پروفیسر لونگو نے کہا کہ ایسے شواہد نہیں ملے جن کی وجہ سے فاسٹنگ کو خطرناک قرار دیا جائے بلکہ اس کے فائدہ مند ہونے کے حوالے سے ٹھوس شواہد سامنے آئے ہیں۔ محققین نے کہا کہ وہ ان امکانات کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا روزے کے مفید اثرات صرف مدافعتی نظام کی بہتری کے لیے ہیں یا پھر اس کے اثرات دیگر نظاموں اور اعضاء پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ یہ تحقیق ‘سیل پریس جرنل’ کے جون کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔
انٹرماونٹین میڈیکل سینٹر یوٹاہ سے وابستہ تحقیق کاروں نے کہا ہےکہ روزوں کے فوائد پر کی جانے والی تحقیق کے نتیجے میں جسم کے اس حیاتیاتی عمل کی شناخت کی گئی ہے جو چربی کے خلیات میں سےخراب کولیسٹرول کو جلا کر توانائی میں تحلیل کرتا ہے، اس طرح فاقہ کی ڈائیٹ ذیا بیطس کے خطرے کے عوامل کے خلاف لڑنے میں مدد کر سکتی ہے۔
محقیقین نے دیکھا کہ جب خوراک دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے 10 سے 12 گھنٹے کے روزے کے بعد جسم اپنی توانائی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے جسمانی نظام کے اندر موجود توانائی کے دیگر ذرائع کی صفائی کا عمل شروع کر دیتا ہے اور جسمانی چربی (چربی کے خلیات) میں موجود ایل ڈی ایل کولیسٹرول جسے خراب کولیسٹرول کہا جاتا ہے اسے جلا کر توانائی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
نگراں محقیق ڈاکٹر بینجمن نے کہا کہ روزے میں ذیا بیطس کی روک تھام کی اہم صلاحیت موجود ہے اگرچہ روزے کے فوائد پر ہم برسوں سے تحقیق میں مصروف ہیں۔ لیکن، اب تک یہ نہیں جان سکے کہ , روزے سے کیوں صحت کے لیے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن، نئی تحقیق میں ذیا بیطس سے متعلقہ خطرات کے لیے روزے کے فوائد کا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ یہاں پری ذیا بیطس سے ہماری مراد خون میں موجود گلوکوز کی بلند سطح سے ہے جسے شوگر بھی کہا جاتا ہے لیکن یہ سطح اتنی زیادہ بھی نہیں ہوتی ہے کہ اسے ذیا بیطس کا مرض کہا جا سکے۔
ڈاکٹر بنجمن ہورن نے کہا ہے کہ اگرچہ روزے کے دوران شرکاء کے کولیسٹرول میں اضافہ دیکھا گیا لیکن چھ ہفتوں میں وزن کی کمی کے ساتھ کولیسٹرول کی سطح میں بھی 12فیصد کمی ہوئی۔
ہمارا اندازا تھا کہ خراب کولیسٹرول روزے کی حالت میں توانائی کے لیے استعمال کیا گیا جو کہ چربی کے خلیات سے حاصل ہوا تھا اس سے ہمیں اس بات کا ثبوت ملا کہ روزہ ذیا بیطس کے لیے ایک موثر مداخلت ثابت ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر ہورن کے مطابق، چربی کے خلیات سے ایل ڈی ایل کولیسٹرول کو جلا کر توانائی حاصل کرنے کا عمل انسولین سے مزاحمت کو روکنے میں مدد کرسکتا ہے،کیونکہ جسم میں انسولین کے خلاف مزاحمت پیدا ہونے کی وجہ سے لبلبہ جسم کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ انسولین بناتا ہے اور حتیٰ کہ یہ جسم کی ضرورت کے مطابق، مطلوبہ انسولین بنانے کے قابل نہیں رہتا ہے اور نتیجتاً خون میں شوگر کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ صحت کے لیے فوائد حاصل کرنے کے لیےلوگوں کو کتنا طویل اور کتنے عرصے تک روزہ رکھنا چاہیئے یہ ایک اضافی سوال ہے فی الحال ہمارا تجزیہ ابتدائی مراحل میں ہے۔
یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے ماہرین نے معلوم کیا ہے کہ اگر ایک ماہ میں پانچ دفعہ فاقے کی کیفیت سے گزرا جائے یا خوراک میں موجود کیلریز کی مقدار آدھی کردی جائے تو اس سے کینسر، ذیابیطس اور دیگر موذی امراض کا خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ روزہ رکھنے سے دل کے امراض اور کینسر سے بچا جا سکتاہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کم از کم چھ گھنٹے تک پانی پر اکتفا کرنے سے بھی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنے سے جسم میں انسولین کی مقدار بہتر ہوتی ہے، نظام ہضم درست ہوتا ہے اور میٹابولزم کے عمل میں بھی بہتری آتی ہے۔
ماہرین کا مذید کہنا تھا کہ روزہ رکھنے سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزہ رکھنے والے ممالک اور افراد پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کم کھانے سے نظام ہضم پر زور نہیں پڑتا اور خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل سست ہو جاتا ہے جبکہ دماغی صلاحیت میں بھی بہتری آتی ہے۔
تحقیقی ماہرین کا کہنا تھا کہ ہر ماہ میں کم از کم پانچ روزے رکھنا انسانی صحت اور زندگی کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ریجنگ بالٹی مور میں ریسرچرز نے کہا کہ ایسے شواہد ملے ہیں کہ ہفتے میں ایک، دو روز کسی قسم کی خوراک نہ لینے کے دورانیے میں دماغ الزائمر اور پارکنسن کے شدید اثرات سے تحفظ دیتا ہے۔ روزہ سیلز پر اچھے اثرات ڈاتا ہے۔ جب لوگ روزہ رکھتے ہیں تو اس سے ایڈایٹیو سٹریس رسپانسز میں اضافہ ہوجاتا ہے اور دماغی صحت و کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جب خوراک دستیاب نہ ہو تو پھر جگر Ketones کیٹونیس نامی کیمیکلز جسمانی چربی کو استعمال کرتے ہوئے بنانا شروع کردیتا ہے جو ہیومن برین کے لیے انتہائی موثر ایندھن کا کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے ڈی ٹاکسیفیکشن بڑھ جاتی ہے اور برین پرو ایکٹیو اینٹی آکسیڈنٹس کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کیٹونز آپ کو زیادہ مستعد اور چالاک بناتے ہیں۔ رمضان میں دنیا بھر میں تمام مسلمان روزے رکھتے ہیں۔  عظیم فلاسفر پلیٹو یعنی افلاطون کا کہنا تھا کہ میں جسمانی اور دماغی استعداد میں اضافہ کے لیے روزہ رکھتا ہوں۔
اس بات کے بھی وافر ثبوت موجود ہیں کہ بندروں کے معاملے میں بھی یہ بات درست ثابت ہوئی۔
اس تحقیق کے مطابق’چوہوں کی عمر میں چالیس فی صد تک کا اضافہ دیکھا گیا۔ اگر انسان کی عمر میں بھی یہ اضافہ ہوتا ہے تو ان کی اوسط عمر ایک سو بیس سال ہوسکتی ہے۔‘
 روزہ شوگر کو کم ہونے دیتا ہے نہ بلند۔ اس لیے دنیا کے بہت سے ممالک میں جن مریضوں کی شوگر کنٹرول نہیں ہوتی ان کو روزے رکھوائے جاتے ہیں۔ ان کا کھانا پینا جبراً بند کرا دیا جاتا ہے، جس سے ان کی شوگر کنٹرول میںآ جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثردرست نہیں کہ روزہ انسان کو کمزورکردیتا ہے کیوں کہ روزے کی حالت میں انسانی جسم میں موجود ایسے ہارمونز حرکت میں آجاتے ہیں جو بڑھاپے کے خلاف مزاحمت کرتے ہیں۔
روزے سے انسانی جلد مضبوط ہوتی اور اس میں جھریاں کم ہوتی ہیں ۔
روزہ اسٹریس اور ذہنی تناؤ ختم کرتا ہے۔سائنسی تحقیقات نے روزے کا ایک اور فائدہ یہ ثابت کیا ہے کہ روزے سے بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے۔ جب
انسانی جسم میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے تو بلڈ پریشر بھی کم ہو جاتا ہے۔ پھر ایسے ہارمون جسم کے اندر خارج ہوتے ہیں جو بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور اس کو قابو میں رکھتے ہیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے کنٹرول، اور جسم کے اندر پانی کی مقدار کے کنٹرول کے نتیجے میں دل کی بیماریاں کم ہو جاتی ہیں۔ روزہ رکھنے والوں کو دل کے دورے کا امکان کم ہو جاتا ہے، ان کا ہارٹ فیل کم ہوتا ہے۔ اگر ان کو اس کا خطرہ ہو تو ان کی طبیعت روزہ رکھنے سے بہتر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دل کے مریضوں کو عام طور پر بھی تھوڑا بہت فاقہ کرایا جاتا اور روزہ رکھوایا جاتا ہے۔ مغربی ممالک بالخصوص امریکا اور یورپ میں اب یہ ایک طریقہ علاج بن چکا ہے۔ جن مریضوں کے ہارٹ فیل ہونے کا خدشہ ہو ان کو جبراً فاقہ کرایا جاتا ہے، اور 82سے 92گھنٹے بھوکا پیاسا رکھا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ان کی صحت بھی بہتر ہو جاتی ہے۔
رمضان المبارک میں موٹاپے کے شکار افراد کا نارمل سحری اور افطاری کرنے کی صورت میں آٹھ سے دس پاؤنڈ وزن کم ہوسکتا ہے جبکہ روزہ رکھنے سے اضافی چربی بھی ختم ہوجاتی ہے ۔دراصل انسانی دماغ کے ہائیپوتھیلمس (hypothalamus) میں ایک سنٹر ہوتا ہے جسے لپوسٹیٹ (lipostat) کہتے ہیں۔ یہ انسان کی جسامت کو کنٹرول کرتا ہے۔ جب بھی خوراک کی انتہائی کمی سے وزن تیزی سے کم کیا جاتا ہے تو یہ سنٹر اس تبدیلی کو قبول نہیں کرتا اور جسم کے وزن کو دوبارہ معمول کی خوراک لینے سے پہلے والی سطح پر واپس لے آتاہے (Islamic Medicine، شاہد اختر، ص ۱۴۹)۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ موٹاپا دُور کرنے کے لیے وزن آہستہ آہستہ کم کیا جائے تاکہ لپوسٹیٹ اسے قبول کرلے اور ایسا ماہِ رمضان کے دوران ایک ماہ کے روزے رکھنے سے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ وہ خواتین جواولاد کی نعمت سے محروم ہیں اور موٹاپے کا شکار ہیں وہ ضرور روزے رکھیں تاکہ ان کا وزن کم ہوسکے۔یا د رہے کہ جدید میڈیکل سائنس کے مطابق وزن کم ہونے سے بے اولاد خواتین کو اولاد ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔
روزے سے معدے کی رطوبتوں میں توازن آتا ہے ۔نظامِ ہضم کی رطوبت خارج کرنے کا عمل دماغ کے ساتھ وابستہ ہے۔عام حالت میں بھوک کے دوران یہ رطوبتیںزیادہ مقدار میں خارج ہوتی ہیں جس سے معدے میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔
 روزہ دماغ کے اندر سیروٹونین (serotonin) ہارمون (جو نیورو ٹرانسمیٹر ہے) کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے ڈپریشن سے نجات ملتی ہے۔
روزے کے جہاں بہت سے طبی فوائد ہیں وہاں ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو کسی قسم کے نشے کی بیماری ہوتی ہے۔ روزہ ان کے جسم کے اندر ایسے ہارمونز خارج کرتا ہے جن سے نشے کو قابو میں رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ پینے کے عادی افراد رمضان کے مہینے میں بڑی آسانی کے ساتھ اس عادت کو ترک کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ انسان میں ذہنی طور پر یہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ نشے کی طلب کو کنٹرول کر سکے اور اس عادت سے نجات حاصل کر سکے۔ روزے کے اس عمل کو نشے پر قابو پانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
روزہ حسِ ذائقہ کو بہتر کرتا ہے۔ بعض اوقات لوگ شکایت کرتے ہیں کہ زبان میں ذائقہ باقی نہیں رہا، کھانے کا مزا محسوس نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ زبان کے اندر taste budsہوتے ہیں جو غیر فعّال ہو جاتے ہیں یا ان کے اندر ایسی تبدیلیاں رْونما ہو جاتی ہیں کہ غذا کا ذائقہ محسوس نہیں ہو پاتا۔ تاہم مسلسل بھوکا پیاسا رہنے سے ذائقے کی حس دوبارہ فعّال ہو جاتی ہے۔
روزے کے دوران جب نظامِ ہضم خالی رہتا ہے تو اس کے حصّے میں آنے والی عمومی توانائی یعنی انرجی جسم کے دیگر Reactions میں مصروف ہوجاتی ہے۔جیسا کہ قوت مدافعت کے نظام اور کیمیائی اعمال کے لئے انرجی زیادہ مقدار میں دستیاب ہوتی ہے۔
روزہ ڈائٹنگ یا بھوکا رہنے سے مختلف ہے کیونکہ روزے میں سحری اور افطاری میں پیٹ بھر کر کھانے سے کمزوری اور فاقہ نہیں ہوتا۔نہ ہی جسمانی ضرورت کی کیلوریز مکمل کم ہوجاتی ہیں۔
ڈاکٹر Razeen Mahrof :۔۔
جو آکسفورڈمیں Anesthetistہیں‘کہتے ہیں کہ غذا اور صحت کا تعلق بہت مضبوط ہے۔ گو کہ رمضان وزن کم کرنے والوں کے لئے ایک زبردست Opportunity ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اس کے روحانی فائدے ہیں۔ بیک وقت ہم جسمانی اور روحانی فائدے حاصل کر سکتے ہیں۔
۔ سویڈن کے ریسرچ اسکالرز :۔
کہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے ایسے افراد کی جماعت جو تھوڑے فربہی مائل ہوں، کم ہونے لگتی ہیں، جب کہ جو افراد دبلے پتلے ہوں ان کی صحت میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
ملحدین کہتے ہیں کہ روزے کے دوران پانی کی کمی سے گردے فیل ہوسکتے ہیں جب کہ جدید سائنسی تحقیق یہ بات غلط ثابت کر چکی ہے۔انسانی جسم کو ایک دن میں دو سے تین لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور روزہ دار سحری افطاری میں اور افطاری کے بعد وافر پانی پی کر یہ ضرورت آسانی سے پوری کر سکتا ہے۔سائنس چابت کر چکی ہے کہ روزے سے انسانیا جسم میں پانیکیل کی کمی اس خوفناک حد تک نہیں ہوتی جس سے گردوں کوکے خطرہ ہو ہو اور اگر ایسی صورت بن جا ئے تو شریعت نے روزہ توڑنے تک کی اجازت دی ہے۔
ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات روزے پر ملحدین کے سب اعتراضات کو جھوٹ اور بے بنیاد ثابت کر چکی ہیں۔مزید تفصیل کے لیے نیچے دی گئ ncbi کی سائٹ پر موجود سائنسی تحقیقات کا مطالعہ کیجیے۔
الحمداللہ۔
ھذا ماعندی۔و اللہ اعلم بالصواب

حوالہ جات:
https://www.express.pk/story/528466/http://www.urduweb.org/mehfil/threads/روزہ-جسمانی-صحت-اور-جدید-طبی-تحقیقات.31045/
http://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2016/06/06/روزے-کے-حیرت-انگیز-طبی-فوائد-جن-سے-آپ-لاعلم-تھے-.html
http://urduold.ws.irib.ir/رمضان/item/39142-روزوں-کے-بے-شمار-فوائد
http://irak.pk/fasting-for-three-days-renews-entire-immune-system/
http://www.suffahpk.com/rozy-key-rohani-or-tabi-fawaid-or-jaded-sains/
http://www.almisbah14.com/2013-10-15-15-41-27/54-روزہ-اور-اس-کے-طبی-فوائد.html
https://www.arynews.tv/ud/fast-helath-benefits-on-human-body/
http://www.bbc.com/urdu/science/2012/08/120805_fasting_feasting_mb.shtml
سوفوریں ، الکسی ، روزہ بیماریوں کا جدید علاج ، ص 69 ، مترجم ذوالفقار علی زیدی ، ناشر ، الحرمین پبلیشرز ، پاکستان کراچی ، دسمبر /2003
سنت نبوی اور جدید سائنس
اسلامی نیا دنیا ، ( محمود چغتائی محمد طارق ، سنت نبوی اور جدید سائنس ) ، ج۱ ، ص ۱۶۵
 https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3680567/#!po=26.4706
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4257368/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/14681711
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pubmed/16761684
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC3289216/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4274578/
http://www.avensonline.org/fulltextarticles/jemcc-2469-4045-02-0007.html
http://www.livestrong.com/article/463230-what-can-i-drink-when-doing-intermittent-fasting/
https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC4500815/
http://www.healthcrowonline.com/the-ignored-health-benefits-of-fasting/

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔