کیا اسلام اور سائنس میں تضاد ہے
سائنس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'جاننا '' کے ہیں۔ پروفیسر کے لنگسردکے مطابق سائنس نظام فطرت کے علم کا نام ہے جو مشاہدہ، تجربہ اور عقل سے حاصل ہوتاہے۔ علم کے جس شعبے کو ہم سائنس کہتے ہیں اس کا دوسرا نام علم کائنا ت ہے جس میں انسان کا علم بھی شامل ہے۔سائنس دان کائنات کے مشاہدے سے کچھ نتائج اخذکرتاہے۔ ہر درست سائنسی نتیجے کو ہم مستقل علمی حقیقت یا قانون قدرت سمجھتے ہیں۔ مشاہدے اورتجربے سے دریافت ہونے والے علمی حقائق کو جب مرتب اور منظم کرلیا جاتاہے تو اسے ہم سائنس کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ انسانوں کو دعوت دیتاہے کہ وہ آسمانوں ،زمین ،پہاڑوں ، ستاروں، پودوں ،بیجوں ،جانوروں ،رات اور دن کے ادل بدل ،تخلیق انسانی ،بارشوں اوربہت سی دیگر مخلوقات پر غوروفکر اور تحقیق کریں تاکہ وہ اپنے گردوپیش میں پھیلے ہوئے کمال ہنر مندی کے گوناگوں نمونے دیکھ کر اس احسن الخالقین کو پہچان سکیں جو اس ساری کائنات اور اس کے اندر موجود تمام اشیا ء کو عدم سے وجود میں لایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ)
''آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ''۔
نیز فرمایا:
( اِنَّ فِیْ خَلْقِ السّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِوَالْفُلْکِ الَّتَیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَمَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّةٍ ص وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ)
'' جو لوگ سوچتے سمجھتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اورزمین کی پیدائش میں ،رات اوردن کے ایک دوسرے کے بعد آنے میں ،ان کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لیے سمند ر وں میں چلتی ہیں ،اللہ تعالیٰ کے آسمان سے بارش نازل کرنے میں جس سے وہ مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اور اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق کو پھیلا دیتاہے نیز ہواؤں کی گردش میں اوران بادلوں میں جو زمین وآسمان کے درمیان تابع فرمان ہیں بے شمار نشانیاں ہیں۔
ایک جگہ فرمایا:
( لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ)
''آسمانوں اور زمین کا پیداکرنا انسانوں کوپیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے ،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ''۔
امام ابن کثیر ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
''بنی اسرائیل کے عابدوںمیں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدتِ عبادت پوری کرلی تھی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہو جایاکرتاتھا اس پر نہ ہو اتو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانہ میں کوئی گناہ کر لیاہو گا، اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ کہا پھر کسی گناہ کا پور اقصد کیا ہو گا۔ جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غوروتدبر کے بغیر ہی ہٹا لی ہو۔ عابد نے کہا کہ ایساتو برابر ہوتارہا۔ فرمایا بس یہی سبب ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور بڑی تاکید سے فرمایا کہ علم کا حصول ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے۔
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ نیز علم حاصل کرو اور دوسروں کو سکھاؤ۔
قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(( اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوءُ ا))
'' اللہ تعالیٰ سے ،اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ''( فاطر : 28 )
یہاں ایک اہم واقعہ کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے جس کے راوی علامہ عنایت اللہ مشرقی ہیں ۔ یہ واقعہ ان کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے ۔
1909ء کا ذکر ہے ،اتوار کا دن تھا اورزور کی بارش ہورہی تھی ۔میں کسی کا م سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینس ( James Jeans )بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے ۔میں نے قریب ہو کر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے : کیا چاہتے ہو؟میں نے کہا '' دوباتیں ،اوّل یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے '' ۔سر جیمز اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا ۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لیے جارہا ہے؟میر ے اس سوال پر جیمز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر میر ی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ،'' آج شام میرے ساتھ چائے پیٔو''!
چناچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ٹھیک چار بجے لیڈی جیمزنے باہر آکر کہا : ''سر جیمز تمہارے منتظر ہیں''۔ اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی ،پروفیسر صاحب تصوّرات مین کھوئے ہوئے تھے ۔کہنے لگے ،''تمہارا سوال کیا تھا''؟اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق ،ان کے حیرت انگیز نظام ،بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں ،ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نورپر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی وجبروت پردہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت تھی کہ سر بال سیدھے اُٹھے ہوئے تھے ۔آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں،اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ا ن کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی ۔فرمانے لگے ،''عنائت اللہ خاں، جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلا ل سے لرز نے لگتی ہے اورجب میں کلیسامیں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ''تو بہت بڑا ہے ''تو میری ہستی کا ہر ذرّہ میرا ہم نوا بن جاتاہے ،مجھے بے حد سکون.... .....اورخوشی نصیب ہوتی ہے ۔مجھے دوسروںکی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے ،کہو عنائت اللہ خاں!تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں کیوں گرجے جاتاہوں ''؟
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمز کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا ۔میں نے کہا ''جناب والا! میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی ہے ،اگر اجازت ہو تو پیش کروں'' ؟فرمایا ''ضرور''! چناچہ میں نے یہ آیت پڑھی:
(( ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدام بِیْض وَّ حُمْر مُّخْتَلِف اَلْوَانُھَا وَغَرَابِیْبُ سُوْد ھ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَّآبِ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِف اَلْوَانُہ کَذٰلِکَ ط اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوءُ ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ط ))
'' اور پہاڑوںمیں سفیداور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اوربعض کالے سیاہ ہیں،انسانوں ،جانوروںاور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔اللہ سے تو اس کے بندوںمیں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں''۔ (فاطر : 27-28
یہ سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے:
کیا کہا؟اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں؟حیرت انگیز ،بہت عجیب ۔یہ بات جو مجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ اورمشاہد ہ کے بعد معلوم ہوئی ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتائی ؟کیا قرآن مجید میں واقعی یہ آیت موجود ہے ؟اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ۔محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اَن پڑھ تھے،انہیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہ ہو سکتی تھی ،یقینا اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائی تھی ۔بہت خوب،بہت عجیب! (چنانچہ سائنس ہمیں اس کائنات اور دیگر موجودات کے مطالعے کا ایک طریقہ بتاتی ہے۔ اس سے ہمیں مخلوق کے وجود کی رعنائیوں اور خالق کی حکمت بالغہ کا شعور ملتاہے۔ لہٰذا اسلام سائنس کی حوصلہ افزائی کرتاہے کیونکہ ہم اس کے ذریعے تخلیقاتِ خداوندی کی لطافتوں اور نزاکتوں کا بہتر مطالعہ کرسکتے ہیں۔
اسلام مطالعہ اورسائنس کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتاہے بلکہ اس امر کی بھی اجازت دیتاہے کہ اگرہم چاہیں تو اپنے تحقیقی کام کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے دین کے بیان کردہ حقائق سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس سے ٹھوس نتائج برآمد ہونے کے ساتھ ساتھ منز ل بھی جلد قریب آجائے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو زندگی اورکائنات کے ظہورمیں آنے سے متعلق سوالات کا صحیح اور متعین جواب فراہم کرتاہے۔ اگر تحقیق صحیح بنیادوں پر استوار ہو تو وہ کائنات کی ابتداء ، مقصدزندگی اور نظام زندگی کے بارے میں مختصر ترین وقت میں کم سے کم قوت کو بروئے کار لا تے ہوئے بڑے حقائق تک پہنچا دے گی۔
آج سائنسی علم نے جو ترقی کی ہے اس نے انسان پر حیرت کے دروازے کھول دیے ہیں، جس چیز کے متعلق آج سے 50یا 100سال پہلے سوچنا بھی محال تھاوہ ممکن ہو چکی ہے۔ انسان زندگی کے ہر شعبہ میں سائنسی علم پر بھروسہ اوراس کو اپناتاچلاجا رہا ہے مگر سائنس کاایک نقصان دہ پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ بعض مسلمان بھی دین کے معاملے میں سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں تضاد ہے'دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ کہ اسلام ایک قدیم مذہب ہے جو موجودہ زمانے کی ضروریات کو پور ا نہیں کر سکتا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔۔مولانا مودودی بھی جدید سائنس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
'' قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان وزمین کے رتق وفتق اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیداکیے جانے اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ' موجودہ زمانے میں طبیعیاتPhysics)،حیاتیات (Biology)،اور علم ہیئت (Astronomy) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیاہے اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی''۔
فزکس کے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنس دان ''البرٹ آئن سٹائن '' کے بقول سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھاہے '' ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ سائنس کو اگر مذہب کی روشنی اور رہنمائی حاصل نہ ہوتو وہ صحیح طورپر آگے کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی۔ ایسا نہ کرنے سے یقینی نتائج کے حصول میں نہ صرف بہت سا وقت ضائع ہو جائے گا بلکہ ا س سے بڑھ کر یہ امکان بھی غالب ہے کہ تحقیق بالکل بے نتیجہ اور ناقص رہے گی اورماضی گواہ ہے کہ اکثر ایسا ہی ہوتارہا ہے۔ مادہ پرست سائنس دانوں نے ماضی میں جو طریقہ اختیار کیا بالخصوص پچھلے 200سال میں، وہ جو مساعی بروئے کار لاتے رہے اس میں بہت سا وقت ضائع ہوا۔ بہت سی تحقیق اکارت گئی او را س پر صرف ہونے والا لاکھوں کروڑوں ڈالرز کا سرمایہ ضائع ہو گیا۔ اس سے انسانیت کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ ان کی تحقیق کی بنیاد غلط راستوں پر استوار تھی۔یہی چیز مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بنی اوراہل مذہب سائنس سے متنفرہوئے۔
اس سے یہ بات واضح طو رپر سمجھ لینی چاہیے کہ سائنس صرف اسی صورت میں قابل اعتما د نتائج حاصل کرسکتی ہے جب اس کی تحقیق وتفتیش کا مدعا ومقصد کائنات کے رازوں اور اشاروں کو سمجھنا ہو۔اگر اس نے اپنے وقت اور وسائل کو ضائع ہونے سے بچاناہے تو اسے صحیح ہدایت کی روشنی میں صحیح راستے کا انتخاب کرناہو گا۔
یہ تصور کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،یہودیت اورعیسائیت کے زیر اثر ممالک میں بھی اسی طرح پھیلاہواہے جیساکہ اسلامی دنیامیں ہے ،خصوصیت سے سائنسی حلقوں میں اگر اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کی جائے تو طویل مباحث کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔مذہب اور سائنس کے مابین تعلق کسی ایک جگہ یا ایک وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہا ہے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ کسی توحید پرست مذہب میں کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جو سائنس کو ردّ کرتی ہو۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں چرچ کے حکم کے مطابق سائنسی علوم کا حصول اور اس کی جستجو گناہ قرار پائی تھی۔ پادریوں نے عہد نامہ قدیم سے ایسی شہادتیں حاصل کیں جن میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت جس سے حضرت آدم نے پھل کھایا تھا وہ شجر علم تھا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور اپنی رحمت سے محروم کردیا۔جب کہ اسلام کے مطابق ایسا بالکل نہیں ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B6%D8%A7%D8%AF-%DB%81%DB%92.31782/
سائنس لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی 'جاننا '' کے ہیں۔ پروفیسر کے لنگسردکے مطابق سائنس نظام فطرت کے علم کا نام ہے جو مشاہدہ، تجربہ اور عقل سے حاصل ہوتاہے۔ علم کے جس شعبے کو ہم سائنس کہتے ہیں اس کا دوسرا نام علم کائنا ت ہے جس میں انسان کا علم بھی شامل ہے۔سائنس دان کائنات کے مشاہدے سے کچھ نتائج اخذکرتاہے۔ ہر درست سائنسی نتیجے کو ہم مستقل علمی حقیقت یا قانون قدرت سمجھتے ہیں۔ مشاہدے اورتجربے سے دریافت ہونے والے علمی حقائق کو جب مرتب اور منظم کرلیا جاتاہے تو اسے ہم سائنس کہتے ہیں۔
قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ انسانوں کو دعوت دیتاہے کہ وہ آسمانوں ،زمین ،پہاڑوں ، ستاروں، پودوں ،بیجوں ،جانوروں ،رات اور دن کے ادل بدل ،تخلیق انسانی ،بارشوں اوربہت سی دیگر مخلوقات پر غوروفکر اور تحقیق کریں تاکہ وہ اپنے گردوپیش میں پھیلے ہوئے کمال ہنر مندی کے گوناگوں نمونے دیکھ کر اس احسن الخالقین کو پہچان سکیں جو اس ساری کائنات اور اس کے اندر موجود تمام اشیا ء کو عدم سے وجود میں لایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَکَاَیِّنْ مِّنْ اٰیَةٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَمُرُّوْنَ عَلَیْھَا وَھُمْ عَنْھَا مُعْرِضُوْنَ)
''آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے ''۔
نیز فرمایا:
( اِنَّ فِیْ خَلْقِ السّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّہَارِوَالْفُلْکِ الَّتَیْ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَمَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّةٍ ص وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ)
'' جو لوگ سوچتے سمجھتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اورزمین کی پیدائش میں ،رات اوردن کے ایک دوسرے کے بعد آنے میں ،ان کشتیوں میں جو لوگوں کو نفع دینے والی چیزیں لیے سمند ر وں میں چلتی ہیں ،اللہ تعالیٰ کے آسمان سے بارش نازل کرنے میں جس سے وہ مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے اور اس میں ہر طرح کی جاندار مخلوق کو پھیلا دیتاہے نیز ہواؤں کی گردش میں اوران بادلوں میں جو زمین وآسمان کے درمیان تابع فرمان ہیں بے شمار نشانیاں ہیں۔
ایک جگہ فرمایا:
( لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ)
''آسمانوں اور زمین کا پیداکرنا انسانوں کوپیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے ،مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں ''۔
امام ابن کثیر ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
''بنی اسرائیل کے عابدوںمیں سے ایک نے اپنی تیس سال کی مدتِ عبادت پوری کرلی تھی مگر جس طرح اور عابدوں پر تیس سال کی عبادت کے بعد ابر کا سایہ ہو جایاکرتاتھا اس پر نہ ہو اتو اس نے اپنی والدہ سے یہ حال بیان کیا۔ اس نے کہا بیٹے تم نے اپنی اس عبادت کے زمانہ میں کوئی گناہ کر لیاہو گا، اس نے کہا اماں ایک بھی نہیں۔ کہا پھر کسی گناہ کا پور اقصد کیا ہو گا۔ جواب دیا کہ ایسا بھی مطلقاً نہیں ہوا۔ ماں نے کہا بہت ممکن ہے کہ تم نے آسمان کی طرف نظر کی ہو اور غوروتدبر کے بغیر ہی ہٹا لی ہو۔ عابد نے کہا کہ ایساتو برابر ہوتارہا۔ فرمایا بس یہی سبب ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لوگوں کو علم حاصل کرنے کا حکم دیا اور بڑی تاکید سے فرمایا کہ علم کا حصول ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے۔
علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ نیز علم حاصل کرو اور دوسروں کو سکھاؤ۔
قرآن مجید میں ایک مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(( اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوءُ ا))
'' اللہ تعالیٰ سے ،اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ''( فاطر : 28 )
یہاں ایک اہم واقعہ کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتاہے جس کے راوی علامہ عنایت اللہ مشرقی ہیں ۔ یہ واقعہ ان کے ساتھ اس وقت پیش آیا جب وہ برطانیہ میں زیر تعلیم تھے ۔
1909ء کا ذکر ہے ،اتوار کا دن تھا اورزور کی بارش ہورہی تھی ۔میں کسی کا م سے باہر نکلا تو جامعہ کیمبرج کے مشہور ماہر فلکیات سر جیمز جینس ( James Jeans )بغل میں انجیل دبائے چرچ کی طرف جارہے تھے ۔میں نے قریب ہو کر سلام کیا تو وہ متوجہ ہوئے اورکہنے لگے : کیا چاہتے ہو؟میں نے کہا '' دوباتیں ،اوّل یہ کہ زور سے بارش ہو رہی ہے اور آپ نے چھاتہ بغل میں داب رکھا ہے '' ۔سر جیمز اپنی بد حواسی پر مسکرائے اور چھاتہ تان لیا ۔ دوم یہ کہ آپ جیسا شہرہ آفاق آدمی گرجا میں عبادت کے لیے جارہا ہے؟میر ے اس سوال پر جیمز لمحہ بھر کے لیے رک گئے اور پھر میر ی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ،'' آج شام میرے ساتھ چائے پیٔو''!
چناچہ میں شام کو ان کی رہائش گاہ پر پہنچا ۔ٹھیک چار بجے لیڈی جیمزنے باہر آکر کہا : ''سر جیمز تمہارے منتظر ہیں''۔ اندر گیا تو ایک چھوٹی سی میز پر چائے لگی ہوئی تھی ،پروفیسر صاحب تصوّرات مین کھوئے ہوئے تھے ۔کہنے لگے ،''تمہارا سوال کیا تھا''؟اور میرے جواب کا انتظار کئے بغیراجرام آسمانی کی تخلیق ،ان کے حیرت انگیز نظام ،بے انتہا پہنائیوں اور فاصلوں ،ان کی پیچیدہ راہوں اور مداروں نیز باہمی روابط اور طوفان ہائے نورپر وہ ایمان افروز تفصیلات پیش کیں کہ میرا دل اللہ کی اس کبریائی وجبروت پردہلنے لگا اور ان کی اپنی کیفیت تھی کہ سر بال سیدھے اُٹھے ہوئے تھے ۔آنکھوں سے حیرت وخشیت کی دوگونہ کیفیتیں عیاں تھیں،اللہ کی حکمت و دانش کی ہیبت سے ا ن کے ہاتھ قدرے کانپ رہے تھے اور آواز لرز رہی تھی ۔فرمانے لگے ،''عنائت اللہ خاں، جب میں اللہ کے تخلیقی کارناموں پر نظر ڈالتا ہوں تو میری تمام ہستی اللہ کے جلا ل سے لرز نے لگتی ہے اورجب میں کلیسامیں اللہ کے سامنے سرنگوں ہوکر کہتا ہوں ''تو بہت بڑا ہے ''تو میری ہستی کا ہر ذرّہ میرا ہم نوا بن جاتاہے ،مجھے بے حد سکون.... .....اورخوشی نصیب ہوتی ہے ۔مجھے دوسروںکی نسبت عبادت میں ہزار گنا زیادہ کیف ملتا ہے ،کہو عنائت اللہ خاں!تمہاری سمجھ میں آیا کہ میں کیوں گرجے جاتاہوں ''؟
علامہ مشرقی کہتے ہیں کہ پروفیسر جیمز کی اس تقریر نے میرے دماغ میں عجیب کہرام پیدا کر دیا ۔میں نے کہا ''جناب والا! میں آپ کی روح پرور تفصیلات سے بے حد متاثر ہوا ہوں۔ اس سلسلہ میں قرآن مجید کی ایک آیت یاد آگئی ہے ،اگر اجازت ہو تو پیش کروں'' ؟فرمایا ''ضرور''! چناچہ میں نے یہ آیت پڑھی:
(( ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدام بِیْض وَّ حُمْر مُّخْتَلِف اَلْوَانُھَا وَغَرَابِیْبُ سُوْد ھ وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَّآبِ وَالْاَنْعَامِ مُخْتَلِف اَلْوَانُہ کَذٰلِکَ ط اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰوءُ ا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ط ))
'' اور پہاڑوںمیں سفیداور سرخ رنگوں کے قطعات ہیں اوربعض کالے سیاہ ہیں،انسانوں ،جانوروںاور چارپایوں کے بھی کئی طرح کے رنگ ہیں۔اللہ سے تو اس کے بندوںمیں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں''۔ (فاطر : 27-28
یہ سنتے ہی پروفیسر جیمز بولے:
کیا کہا؟اللہ سے صرف اہل علم ڈرتے ہیں؟حیرت انگیز ،بہت عجیب ۔یہ بات جو مجھے پچاس برس مسلسل مطالعہ اورمشاہد ہ کے بعد معلوم ہوئی ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بتائی ؟کیا قرآن مجید میں واقعی یہ آیت موجود ہے ؟اگر ہے تو میری شہادت لکھ لو کہ قرآن ایک الہامی کتاب ہے ۔محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)اَن پڑھ تھے،انہیں یہ عظیم حقیقت خود بخود معلوم نہ ہو سکتی تھی ،یقینا اللہ تعالیٰ نے انہیں بتائی تھی ۔بہت خوب،بہت عجیب! (چنانچہ سائنس ہمیں اس کائنات اور دیگر موجودات کے مطالعے کا ایک طریقہ بتاتی ہے۔ اس سے ہمیں مخلوق کے وجود کی رعنائیوں اور خالق کی حکمت بالغہ کا شعور ملتاہے۔ لہٰذا اسلام سائنس کی حوصلہ افزائی کرتاہے کیونکہ ہم اس کے ذریعے تخلیقاتِ خداوندی کی لطافتوں اور نزاکتوں کا بہتر مطالعہ کرسکتے ہیں۔
اسلام مطالعہ اورسائنس کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتاہے بلکہ اس امر کی بھی اجازت دیتاہے کہ اگرہم چاہیں تو اپنے تحقیقی کام کو نتیجہ خیزبنانے کے لیے دین کے بیان کردہ حقائق سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ اس سے ٹھوس نتائج برآمد ہونے کے ساتھ ساتھ منز ل بھی جلد قریب آجائے گی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ دین وہ واحد ذریعہ ہے جو زندگی اورکائنات کے ظہورمیں آنے سے متعلق سوالات کا صحیح اور متعین جواب فراہم کرتاہے۔ اگر تحقیق صحیح بنیادوں پر استوار ہو تو وہ کائنات کی ابتداء ، مقصدزندگی اور نظام زندگی کے بارے میں مختصر ترین وقت میں کم سے کم قوت کو بروئے کار لا تے ہوئے بڑے حقائق تک پہنچا دے گی۔
آج سائنسی علم نے جو ترقی کی ہے اس نے انسان پر حیرت کے دروازے کھول دیے ہیں، جس چیز کے متعلق آج سے 50یا 100سال پہلے سوچنا بھی محال تھاوہ ممکن ہو چکی ہے۔ انسان زندگی کے ہر شعبہ میں سائنسی علم پر بھروسہ اوراس کو اپناتاچلاجا رہا ہے مگر سائنس کاایک نقصان دہ پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ بعض مسلمان بھی دین کے معاملے میں سائنس کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں تضاد ہے'دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور یہ کہ اسلام ایک قدیم مذہب ہے جو موجودہ زمانے کی ضروریات کو پور ا نہیں کر سکتا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔۔مولانا مودودی بھی جدید سائنس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ :
'' قدیم زمانے میں لوگوں کے لیے آسمان وزمین کے رتق وفتق اور پانی سے ہر زندہ چیز کے پیداکیے جانے اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا مفہوم کچھ اور تھا ' موجودہ زمانے میں طبیعیاتPhysics)،حیاتیات (Biology)،اور علم ہیئت (Astronomy) کی جدید معلومات نے ہمارے لیے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیاہے اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات حاصل ہونی ہیں وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی''۔
فزکس کے مشہور نوبل انعام یافتہ سائنس دان ''البرٹ آئن سٹائن '' کے بقول سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھاہے '' ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ سائنس کو اگر مذہب کی روشنی اور رہنمائی حاصل نہ ہوتو وہ صحیح طورپر آگے کی طرف قدم نہیں بڑھا سکتی۔ ایسا نہ کرنے سے یقینی نتائج کے حصول میں نہ صرف بہت سا وقت ضائع ہو جائے گا بلکہ ا س سے بڑھ کر یہ امکان بھی غالب ہے کہ تحقیق بالکل بے نتیجہ اور ناقص رہے گی اورماضی گواہ ہے کہ اکثر ایسا ہی ہوتارہا ہے۔ مادہ پرست سائنس دانوں نے ماضی میں جو طریقہ اختیار کیا بالخصوص پچھلے 200سال میں، وہ جو مساعی بروئے کار لاتے رہے اس میں بہت سا وقت ضائع ہوا۔ بہت سی تحقیق اکارت گئی او را س پر صرف ہونے والا لاکھوں کروڑوں ڈالرز کا سرمایہ ضائع ہو گیا۔ اس سے انسانیت کو کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ ان کی تحقیق کی بنیاد غلط راستوں پر استوار تھی۔یہی چیز مذہب اور سائنس کے درمیان ٹکراؤ کا باعث بنی اوراہل مذہب سائنس سے متنفرہوئے۔
اس سے یہ بات واضح طو رپر سمجھ لینی چاہیے کہ سائنس صرف اسی صورت میں قابل اعتما د نتائج حاصل کرسکتی ہے جب اس کی تحقیق وتفتیش کا مدعا ومقصد کائنات کے رازوں اور اشاروں کو سمجھنا ہو۔اگر اس نے اپنے وقت اور وسائل کو ضائع ہونے سے بچاناہے تو اسے صحیح ہدایت کی روشنی میں صحیح راستے کا انتخاب کرناہو گا۔
یہ تصور کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،یہودیت اورعیسائیت کے زیر اثر ممالک میں بھی اسی طرح پھیلاہواہے جیساکہ اسلامی دنیامیں ہے ،خصوصیت سے سائنسی حلقوں میں اگر اس مسئلہ پر تفصیل سے بحث کی جائے تو طویل مباحث کا ایک سلسلہ شروع ہو جائے گا۔مذہب اور سائنس کے مابین تعلق کسی ایک جگہ یا ایک وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہا ہے۔ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ کسی توحید پرست مذہب میں کوئی ایسی تحریر نہیں ہے جو سائنس کو ردّ کرتی ہو۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں چرچ کے حکم کے مطابق سائنسی علوم کا حصول اور اس کی جستجو گناہ قرار پائی تھی۔ پادریوں نے عہد نامہ قدیم سے ایسی شہادتیں حاصل کیں جن میں لکھا ہوا تھا کہ وہ ممنوعہ درخت جس سے حضرت آدم نے پھل کھایا تھا وہ شجر علم تھا، اس وجہ سے اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہوا اور اپنی رحمت سے محروم کردیا۔جب کہ اسلام کے مطابق ایسا بالکل نہیں ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/%DA%A9%DB%8C%D8%A7-%D8%A7%D8%B3%D9%84%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B3%D8%A7%D8%A6%D9%86%D8%B3-%D9%85%DB%8C%DA%BA-%D8%AA%D8%B6%D8%A7%D8%AF-%DB%81%DB%92.31782/
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔