اہل یورپ اسلام سے دوری کے باوجود ترقی پہ کیوں ہیں؟ تمام اخلاقی برائیوں کے باوجود ان کو زوال کیوں نہیں آتا؟
تدوین و ترتیب: ڈاکٹر احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی اقوام عالم چونکہ اس ہدایت پہ نہیں ہیں جو کہ اللٰہ تعالٰی نے آپ صلی اللٰہ علیہ وسلم پہ نازل کی۔ لہٰذا وہ اقوام اپنے مذہب پہ قائم رہیں یا پیچھے ہٹیں، ان کی صحت پہ کوئی اثر نہیں ہونا لیکن یہ لوگ بھی اگر اسلام کے معاشرتی و سماجی قوانین اور انصاف پہ ایمان لائے بغیر بھی عمل کریں گے تو دنیا میں ترقی کریں گے جیسا کہ اہل یورپ کی مثال سے واضح ہے لیکن ایمان کے بغیر آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ مسلمانوں کا معاملہ الگ ہے جو اللٰہ تعالٰی پہ ایمان لاکر اس کے احکامات کی پابندی کا وعدہ کر چکے ہیں۔ لہٰذا جب بھی انھوں نے اس وعدے میں کوتاہی کی،جب کبھی اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو انھیں سخت سزا دی گئی اور جب جب خدا کی فرماں برداری کی روش اختیار کی تو خدا کی رحمت فوراََان کی طرف متوجہ ہوئی جیسا کہ خلفاء راشدین اور ابتدائی اسلامی تاریخ سے واضح ہے، انھیں عزت اقوامِ عالم پر غلبہ و اقتدار کی شکل میں دی گئی اور عذاب باہمی جنگوں اور بیرونی حملہ آوروں کی شکل میں دیا گیا۔آپس کے اختلافات اللٰہ تعالٰی سے دوری پہ اللٰہ تعالٰی کا عذاب اور گناہوں کی نحوست ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی پوری تاریخ جیسا کہ بنو امیہ، بنو عباس، سلطنت عثمانیہ و مغلیہ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی وہ اللٰہ تعالٰی کے احکامات سے دور ہوئے، آپس میں اختلافات کا شکار ہوکر تباہ و برباد ہوگئے۔
ایک سوال اکثر اٹھتا ہے کہ زوال کے تما م اسباب نہ صحیح اکثر تو یورپ اور امریکہ کی ترقی یافتہ اقوام میں بھی پائے جاتے ہیں تو ان پر زوال کیوں نہیں آرہا ، اس شبہ کا ایک حل تو یہ ہے کہ زوال اس طرح نہیں آتا کہ رات کو سوؤ اور صبح زوال آجائے ، قوموں کے عروج و زوال کا دائرہ کا ر برسوں یا اس سے بھی بڑھ کر صدیوں پر محیط ہو تاہے، مسلمانوں کی مشہور سلطنتیں بنو عباس ، اندلس میں بنو امیہ ، ترکوں اور مغلوں وغیرہ میں ابتدائی ڈیڑھ دو سو سال کے بعد زوال کی علامات بہت حد تک پائی جا تی تھیں لیکن ان کے زوال اور دوسروں کے ان پر غلبہ میں مزید کئی صدیا ں گزر گئیں ، دوسرا حل یہ ہے کہ اسوقت تک کوئی ایسی طاقت ورقوم یا جماعت جو ان مغربی قوموں سے عقائد ونظریات کا اختلاف رکھتی ہو ، اور ان کے جاہلی فلسفہ اور مادی نطام زندگی کی مخالف ہو منظر عام پر نہیں ہے ، ایسی قوم یا جماعت اس وقت نہ یورپ میں پائی جاتی ہے ، نہ افریقہ اور ایشیا میں ۔یورپ کے جرمن ہوں ، یا ایشیا کے جاپانی یا ہندوستان کے باشندے سب اس جاہلی فلسفہ اور اس مادہ پرستانہ نظام حیات کے قائل و معتقدہیں ، یا ہوتے جارہے ہیں ،دوسرے لفظوں میں یورپ و امریکہ کی تہذیب سے دنیا بھر کی اقوا م اور مذاہب متاثر ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان سے اقتدار چھن جائے اور ان کو مل جائے ۔ اسی طرح عروج بھی ایک دم نہیں آتا۔ عروج کے اسباب دیکھنے پڑتے ہیں اور اگر یہ اسباب مہیا ہوں تو ایک دن عروج لے آتے ہیں۔ لہٰذا اس بارے میں مایوسی کا شکار ہونے، مایوسی پھیلانے اور اپنی ہی تاریخ کو کونسے کے بجائے اور اپنی قوم کو زلالت، جہالت، انڈ،جنگلی، گنوار کا لقب دینے کی بجائے وہ اسباب مہیا کرنے چاہیے جو کہ بتدریج اقتدار کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جو ہمارے میڈیا، اخبارات، کالم نگاروں اور نام نہاد دانشوروں میں رتی بھر موجود نہیں اور ان کی ساری توجہ مایوسی پیدا کرنے، مایوسی پھیلانے، اپنی ہی تاریخ، ثقافت اور مذہب سے بد ظن کرنے تک محدود ہے۔ ان میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جس نے اس کام کی جگہ مسلمانوں کے عروج کی علمی جدوجہد یا علمی خدمت کی ہو۔
اللٰہ تعالٰی ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
توجہ:اس مضمون کی تیاری پہ میں درج ذیل لنک
http://hamariweb.com/articles/70327
پہ موجود مصنف کا مشکور ہوں جو مختلف ذرائع سے مزید اضافے کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔