مشرقی ترکستان(سنکیانگ)پر چین کے کمیونسٹ الحادی قبضے اور ظلم کی تاریخ
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
مشرقی ترکستان چین میں مسلم اقلیت پر مشتمل خطے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ چین کے مقبوضات میں سے ایک اسلامی مستقل شناخت رکھنے والے وسیع خطے کا نام ہے۔
گویا مشرقی ترکستان قصہ پارینہ ہے۔ مسلم اُمہ کے اذہان میں جگہ نہ پا سکنے والے کاشغر کا خطہ جو چین کے جابرانہ اور الحادی تسلط میں اپنا اسلامی تشخص گم کرتا جا رہا ہے۔ چین گزشتہ کئی سالوں سے مشرقی ترکستان کے اسلامی شناخت پر مبنی تاریخی ورثے کو مٹاتا چلا جا رہا ہے۔ چین نے اس علاقے پر قبضہ جما کر اسے سنکیانگ کے نام سے اپنا ایک صوبہ قرار دے دیا ہے۔
مشرقی ترکستان میں اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے ملحد چین ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کر رہا ہے، اپنے مذموم مقاصد کیلئے چین مخلوط تربیتی پروگرام ترتیب دیتا ہے تاکہ وہاں بداخلاقی اور زناکاری کو فروغ حاصل ہو اور اسلام مردوزن کو جس اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس کا برسرعام تمسخر اڑا سکے۔ مقامی مسلمان قائدین نے جب ایسے تربیتی پروگرام کے خلاف آواز بلند کی تو چین نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا۔ ان قتل ہونے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے قائدین میں چند نامور نام بھی تھے جنہوں نے ترکستان میں قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں جن میں عبدالرحیم عیسٰی، عبدالرحیم سیری اور عبدالعزیز قاری جیسے نام شامل ہیں۔
دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل مشرقی ترکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے اور بالخصوص عقیدہ اسلام کو مسخ کرنے کیلئے چین نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
آپ کو نقشے میں مشرقی ترکستان نامی کوئی ملک نہیں ملے گا۔ مشرقی ترکستان سیاسی لحاظ سے سنکیان ہے جو چین کے نقشے میں آپ کو ملے گا۔
متحدہ ترکستان کو ہتھیانے کیلئے روس اور چین کے مابین بارہا چپقلش رہی ہے بالآخر دونوں نے متحدہ ترکستان کو تقسیم کرلیا اور مغربی ترکستان پر روس کا قبضہ اور مشرقی ترکستان پر چین کا قبضہ بلاکسی بین الاقوامی مداخلت کے قبول کرلیا گیا۔
مشرقی ترکستان رقبہ کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے اس کی آبادی دو کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور مسلمان واضح ترین اکثریت میں ہیں۔ مشرقی ترکستان کا دارالحکومت کاشغر ہے جسے قتیبہ بن مسلم باھلی نے فتح کیا تھا۔
چنگ خاندان(1655-1911ء) کا عروج ’’ہوئی‘‘اور’’ اویغور‘‘ مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔انہیں سرکاری عہدوں سے الگ کردیاگیا اوران کے شہری حقوق سلب کرلیے گئے۔مانچو عہد میں منچوریا ،،منگولیا اور تبت سمیت مشرقی ترکستان پر بزور قوت قبضہ کرلیا گیا۔ 1440001 مربع کلومیٹر(۶۴۰۹۳۰ مربع میل) پر پھیلے ہوئے مشرقی ترکستان کے اس مقبوضہ علاقے کوپہلے چینی ترکستان اور بعدازاں سنگیانگ (نیا صوبہ/نئی سرزمین)کا نام دیا گیا۔
1731ء میں بادشاہ ینگ چنگ (1723-1735ء)نے گانسو کے علاقے میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کو بدترین مظالم کے ذریعے دبادیا اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے سفر حج ،مسلم علاقوں میں مساجد کی تعمیراور گائے کے ذبیحہ پر بھی روک لگا دی گئی مزید یہ کہ چین میں علماء کا داخلہ ممنوع قرار پایا ۔معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ چینی حکومت نے صوبہ شنسی /شان سی ،صوبہ گانسو کے شہر ہوچاؤ اور صوبہ یوننان میں تمام مسلم آبادی کو تہ تیغ کردیا۔
اب یعنی اپریل 2017ء چینی حکام نے مسلمان اکثریتی مغربی ریاست ’مشرقی ترکستان‘ یعنی سنکیانگ میں انتہا پسندی سے نمٹنے کا ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے اور ریاست بھر میں نوموجود بچوں کےنام ’محمد‘ اور ’جہاد‘ رکھنے پر پابندی عاید کی گئی ہے۔قبل ازیں یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ چینی حکومت نے یغور نسل کے مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے جن میں روزہ رکھنے پر پاپندی اور بسوں میں حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔
چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر داڑھی رکھنے اور پردہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سنکیانگ کے حکام نے اس بارے میں نیا قانون منظور کیا ہے۔ اس قانون کے تحت اب برقعہ پہننے والی خواتین کو پبلک مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح مردوں کو ایک خاص حد سے زیادہ لمبی داڑھی رکھنے سے روکا جائے گا۔ اس طرح کی پابندیوں پر پہلے بھی عمل کروایا جاتا ہے اور اس صوبہ سے چینی حکام کی ذیادتیوں کے بارے میں اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن تازہ قانون کے تحت اب حکام لوگوں کو ان پابندیوں کے لئے مجبور کرسکیں گے اور خلاف ورزی پر سزا دی جا سکے گی۔ اگرچہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات سامنے آتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں انہیں اپنے دینی عقائد کے مطابق عمل کرنے سے روکنے کی ایسی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ یہ اقدامات بنیادی انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کے منافی ہیں۔
قوانین کے مطابق پورے جسم کے پردے بشمول چہرے کا نقاب کرنے والوں کو ملازمین عوامی مقامات جیسا سٹیشنوں اور ہوائی اڈوں میں داخل ہونے سے ’منع کریں‘ گے اور ان کے بارے میں پولیس کو مطلع کریں گے۔
یہ پابندیاں سنکیانگ کے قانون سازوں نے منظور کیا ہے اور علاقے کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہیں۔
اس سے قبل چینی حکام کی جانب سے اویغوروں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی عائد کرنے جیسے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔
یصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ لیکن سرکاری سرپرستی میں ایک طرف مسلمانوں کی ثقافت اور رہن سہن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے ہی علاقے میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے بڑی تعداد میں ہان چینی باشندوں کو اس علاقے میں نقل مکانی پر آمادہ کیا گیا اور انہیں مراعات دے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔ جبکہ مسلمان آبادی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حالات میں ترکستان اسلامی پارٹی کے نام سے چین سے علیحدگی کی تحریک بھی چلائی جارہی ہے جسے چین طاقت کے زور پر دباتا رہا ہے۔ بعض علیحدگی پسند ایغور باشندوں نے عسکری گروہ بھی منظم کئے ہیں جو اپنے وطن کی آزادی کے لئے مسلح جد و جہد پر یقین رکھتے ہیں۔ چین انہیں دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔
باقی دنیا میں ایسے اقدامات پر مسلمانوں کےمذمتی بیانات سامنے آتے دیر نہیں لگتی۔ یورپ اور امریکہ کے اکا دکا واقعات کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان پر مباحث بھی ہوتے ہیں لیکن سنکیانگ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر حکومت یا مذہبی رہنما خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ میڈیا بھی ایسی خبروں کو پھیلانے سے گریز کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا درد محسوس کرنے والے اور یورپ میں برقع و حجاب کے بارے میں مباحث کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے والے سنکیانگ میں زبردستی اسلامی شعائر ختم کروانے کی سرکاری مہم پر مہر بہ لب رہتے ہیں۔
ترکستان کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا قطعاً خلاف ضابطہ نہیں ہے اور نہ ایسا سمجھنا چاہیے، مشرقی ترکستان ایک اختلافی مسئلہ ہے جس پر چین کا قبضہ چلا آرہا ہے مشرقی ترکستان چین کا صوبہ نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی ملک پر چین نے قبضہ کیا ہے اور یہاں کی مسلم آبادی کو کسی صورت میں چین کی اقلیت قرار نہیں دیا جا جا سکتا۔
ترکستان کے مسلمان کبھی اس قبضے سے مطمئن نہیں ہوئے اور برسوں سے اپنے اسلامی تشخص کے احیاءکیلئے جہاد کر رہے ہیں اور قربانیوں کی داستان لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس طویل جہاد میں اب تک دس لاکھ نفوس قربانی دے چکے ہیں، جہاں مغربی ترکستان روس کے تسلط سے چھٹکارا پاکر آزاد ہو چکا ہے وہاں مشرقی ترکستان بھی پیچھے رہنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ہی خطہ ہے جسے روس اور چین نے اپنے درمیان تقسیم کر رکھا تھا۔
اس مسئلے کو سیاسی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر فراموش کر دینے کا نتیجہ اس طرح نکلا ہے کہ مسلمانوں کا ایک وسیع قطعہ اراضی چین نے ہتھیا کر وہاں کے مسلمانوں کو باقی اُمت سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کی سرزمین اور وہاں کے باشندے ہرگز اس لائق نہیں کہ اُن کی اسلامی شناخت آہستہ آہستہ چین کے الحاد میں تحلیل ہونے کیلئے چھوڑ دی جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ مشرقی ترکستان میں اسلامی شناخت کو ختم کرنے کیلئے چین ایک طرف تو وہاں چین کے غیر مسلم اقوام کو لا کر بسا رہا ہے تاکہ مسلم آبادی غالب ترین اکثریت نہ رہ سکے یا کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ایک معتدبہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی دکھلائی جا سکے اور دوسری طرف اسلامی عقیدے کو مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کے ذہن سے محو کرنے کیلئے مختلف حربے بھی استعمال کر رہا ہے اور تیسری طرف روس کی طرح چین بھی یہاں کی معدنی اور زرعی پیداوار کو نچوڑ کر دوسرے صوبوں میں لے جاتا ہے۔
مشرقی ترکستان کے معدنی وسائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں 121 اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ کم وبیش 56 کانیں سونے کی دھات حاصل کرنے کیلئے چین کی سرپرستی میں شبانہ روز کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں معدنی تیل، یورینیم، لوہا اور سیسہ بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ خوردنی نمک اس کثرت سے پیدا ہوتا ہے کہ کل عالم کو ایک ہزار سال تک مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حلال جانوروں کی 44 انواع پائی جاتی ہیں۔مشرقی ترکستان کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ تنہا یہ ملک چین کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے۔اس کا اپنا رقبہ فرانس کے رقبے سے پانچ گنا زیا دہ ہے، جو کہ یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ رقبہ والا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا میں اس کا نمبر انیسواں ہے۔اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ترکستان نہ ہوتا تو چین معاشی اعتبار سے رو بہ زوال ہو گیا ہوتا۔
یہ درست ہے کہ اُمت مسلمہ گوناگوں مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن اگر یہ اُمت ایک جسم کی مانند ہے تو پھر ہر زخم اپنا زخم ہے اور ہر زخم مرہم کا متقاضی ہے۔
حوالہ جات:
http://forum.mohaddis.com/threads/مشرقی-ترکستان.10843/
https://www.abushamil.com/life-of-yakub-beg-ataliq-ghazi/
http://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2017/04/28/انتہا-پسندی-سے-نمٹے-کے-لیے-چین-میں-محمد-نام-پر-پابندی.html
http://www.humsub.com.pk/58357/syed-mujahid-ali-475/
http://www.jahan-e-urdu.com/islam-and-muslim-in-china-by-tanweer-afaqui/
https://www.google.com.pk/amp/www.bbc.com/urdu/amp/regional-39462012
نیچے مشرقی ترکستان کا نقشہ اور اس کی کچھ خوبصورت تصاویر ملاحظہ کیجیے۔
تدوین و ترتیب۔۔۔احید حسن
°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°°
مشرقی ترکستان چین میں مسلم اقلیت پر مشتمل خطے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ چین کے مقبوضات میں سے ایک اسلامی مستقل شناخت رکھنے والے وسیع خطے کا نام ہے۔
گویا مشرقی ترکستان قصہ پارینہ ہے۔ مسلم اُمہ کے اذہان میں جگہ نہ پا سکنے والے کاشغر کا خطہ جو چین کے جابرانہ اور الحادی تسلط میں اپنا اسلامی تشخص گم کرتا جا رہا ہے۔ چین گزشتہ کئی سالوں سے مشرقی ترکستان کے اسلامی شناخت پر مبنی تاریخی ورثے کو مٹاتا چلا جا رہا ہے۔ چین نے اس علاقے پر قبضہ جما کر اسے سنکیانگ کے نام سے اپنا ایک صوبہ قرار دے دیا ہے۔
مشرقی ترکستان میں اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے ملحد چین ہر غیر انسانی اور غیر اخلاقی اقدام کر رہا ہے، اپنے مذموم مقاصد کیلئے چین مخلوط تربیتی پروگرام ترتیب دیتا ہے تاکہ وہاں بداخلاقی اور زناکاری کو فروغ حاصل ہو اور اسلام مردوزن کو جس اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اس کا برسرعام تمسخر اڑا سکے۔ مقامی مسلمان قائدین نے جب ایسے تربیتی پروگرام کے خلاف آواز بلند کی تو چین نے ساڑھے تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کو قتل کردیا۔ ان قتل ہونے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے قائدین میں چند نامور نام بھی تھے جنہوں نے ترکستان میں قربانی کی داستانیں رقم کی ہیں جن میں عبدالرحیم عیسٰی، عبدالرحیم سیری اور عبدالعزیز قاری جیسے نام شامل ہیں۔
دو کروڑ کی آبادی پر مشتمل مشرقی ترکستان کے اسلامی تشخص کو مٹانے کیلئے اور بالخصوص عقیدہ اسلام کو مسخ کرنے کیلئے چین نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
آپ کو نقشے میں مشرقی ترکستان نامی کوئی ملک نہیں ملے گا۔ مشرقی ترکستان سیاسی لحاظ سے سنکیان ہے جو چین کے نقشے میں آپ کو ملے گا۔
متحدہ ترکستان کو ہتھیانے کیلئے روس اور چین کے مابین بارہا چپقلش رہی ہے بالآخر دونوں نے متحدہ ترکستان کو تقسیم کرلیا اور مغربی ترکستان پر روس کا قبضہ اور مشرقی ترکستان پر چین کا قبضہ بلاکسی بین الاقوامی مداخلت کے قبول کرلیا گیا۔
مشرقی ترکستان رقبہ کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے اس کی آبادی دو کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور مسلمان واضح ترین اکثریت میں ہیں۔ مشرقی ترکستان کا دارالحکومت کاشغر ہے جسے قتیبہ بن مسلم باھلی نے فتح کیا تھا۔
چنگ خاندان(1655-1911ء) کا عروج ’’ہوئی‘‘اور’’ اویغور‘‘ مسلمانوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا۔انہیں سرکاری عہدوں سے الگ کردیاگیا اوران کے شہری حقوق سلب کرلیے گئے۔مانچو عہد میں منچوریا ،،منگولیا اور تبت سمیت مشرقی ترکستان پر بزور قوت قبضہ کرلیا گیا۔ 1440001 مربع کلومیٹر(۶۴۰۹۳۰ مربع میل) پر پھیلے ہوئے مشرقی ترکستان کے اس مقبوضہ علاقے کوپہلے چینی ترکستان اور بعدازاں سنگیانگ (نیا صوبہ/نئی سرزمین)کا نام دیا گیا۔
1731ء میں بادشاہ ینگ چنگ (1723-1735ء)نے گانسو کے علاقے میں مسلمانوں کی تحریک آزادی کو بدترین مظالم کے ذریعے دبادیا اور اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے سفر حج ،مسلم علاقوں میں مساجد کی تعمیراور گائے کے ذبیحہ پر بھی روک لگا دی گئی مزید یہ کہ چین میں علماء کا داخلہ ممنوع قرار پایا ۔معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ چینی حکومت نے صوبہ شنسی /شان سی ،صوبہ گانسو کے شہر ہوچاؤ اور صوبہ یوننان میں تمام مسلم آبادی کو تہ تیغ کردیا۔
اب یعنی اپریل 2017ء چینی حکام نے مسلمان اکثریتی مغربی ریاست ’مشرقی ترکستان‘ یعنی سنکیانگ میں انتہا پسندی سے نمٹنے کا ایک انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے اور ریاست بھر میں نوموجود بچوں کےنام ’محمد‘ اور ’جہاد‘ رکھنے پر پابندی عاید کی گئی ہے۔قبل ازیں یہ اطلاعات بھی آئی تھیں کہ چینی حکومت نے یغور نسل کے مسلمانوں کے خلاف سخت اقدامات کیے تھے جن میں روزہ رکھنے پر پاپندی اور بسوں میں حجاب اوڑھنے پر پابندی عاید کر دی گئی تھی۔
چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر داڑھی رکھنے اور پردہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سنکیانگ کے حکام نے اس بارے میں نیا قانون منظور کیا ہے۔ اس قانون کے تحت اب برقعہ پہننے والی خواتین کو پبلک مقامات پر جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اسی طرح مردوں کو ایک خاص حد سے زیادہ لمبی داڑھی رکھنے سے روکا جائے گا۔ اس طرح کی پابندیوں پر پہلے بھی عمل کروایا جاتا ہے اور اس صوبہ سے چینی حکام کی ذیادتیوں کے بارے میں اطلاعات سامنے آتی رہتی ہیں۔ لیکن تازہ قانون کے تحت اب حکام لوگوں کو ان پابندیوں کے لئے مجبور کرسکیں گے اور خلاف ورزی پر سزا دی جا سکے گی۔ اگرچہ دنیا کے بیشتر ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات سامنے آتے ہیں لیکن کسی بھی ملک میں انہیں اپنے دینی عقائد کے مطابق عمل کرنے سے روکنے کی ایسی کوشش کبھی نہیں کی گئی۔ یہ اقدامات بنیادی انسانی حقوق اور عالمی معاہدوں کے منافی ہیں۔
قوانین کے مطابق پورے جسم کے پردے بشمول چہرے کا نقاب کرنے والوں کو ملازمین عوامی مقامات جیسا سٹیشنوں اور ہوائی اڈوں میں داخل ہونے سے ’منع کریں‘ گے اور ان کے بارے میں پولیس کو مطلع کریں گے۔
یہ پابندیاں سنکیانگ کے قانون سازوں نے منظور کیا ہے اور علاقے کی سرکاری ویب سائٹ پر جاری کی گئی ہیں۔
اس سے قبل چینی حکام کی جانب سے اویغوروں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر پابندی عائد کرنے جیسے اقدامات اٹھا چکے ہیں۔
یصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ لیکن سرکاری سرپرستی میں ایک طرف مسلمانوں کی ثقافت اور رہن سہن کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف مسلمانوں کو اپنے ہی علاقے میں اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے بڑی تعداد میں ہان چینی باشندوں کو اس علاقے میں نقل مکانی پر آمادہ کیا گیا اور انہیں مراعات دے کر اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز کیا گیا۔ جبکہ مسلمان آبادی کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حالات میں ترکستان اسلامی پارٹی کے نام سے چین سے علیحدگی کی تحریک بھی چلائی جارہی ہے جسے چین طاقت کے زور پر دباتا رہا ہے۔ بعض علیحدگی پسند ایغور باشندوں نے عسکری گروہ بھی منظم کئے ہیں جو اپنے وطن کی آزادی کے لئے مسلح جد و جہد پر یقین رکھتے ہیں۔ چین انہیں دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔
باقی دنیا میں ایسے اقدامات پر مسلمانوں کےمذمتی بیانات سامنے آتے دیر نہیں لگتی۔ یورپ اور امریکہ کے اکا دکا واقعات کو میڈیا میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور ان پر مباحث بھی ہوتے ہیں لیکن سنکیانگ کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر حکومت یا مذہبی رہنما خاموشی اختیار کرنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ میڈیا بھی ایسی خبروں کو پھیلانے سے گریز کرتا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا درد محسوس کرنے والے اور یورپ میں برقع و حجاب کے بارے میں مباحث کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دینے والے سنکیانگ میں زبردستی اسلامی شعائر ختم کروانے کی سرکاری مہم پر مہر بہ لب رہتے ہیں۔
ترکستان کے مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانا قطعاً خلاف ضابطہ نہیں ہے اور نہ ایسا سمجھنا چاہیے، مشرقی ترکستان ایک اختلافی مسئلہ ہے جس پر چین کا قبضہ چلا آرہا ہے مشرقی ترکستان چین کا صوبہ نہیں ہے بلکہ ایک اسلامی ملک پر چین نے قبضہ کیا ہے اور یہاں کی مسلم آبادی کو کسی صورت میں چین کی اقلیت قرار نہیں دیا جا جا سکتا۔
ترکستان کے مسلمان کبھی اس قبضے سے مطمئن نہیں ہوئے اور برسوں سے اپنے اسلامی تشخص کے احیاءکیلئے جہاد کر رہے ہیں اور قربانیوں کی داستان لکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اس طویل جہاد میں اب تک دس لاکھ نفوس قربانی دے چکے ہیں، جہاں مغربی ترکستان روس کے تسلط سے چھٹکارا پاکر آزاد ہو چکا ہے وہاں مشرقی ترکستان بھی پیچھے رہنے والا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک ہی خطہ ہے جسے روس اور چین نے اپنے درمیان تقسیم کر رکھا تھا۔
اس مسئلے کو سیاسی اور ابلاغ عامہ کی سطح پر فراموش کر دینے کا نتیجہ اس طرح نکلا ہے کہ مسلمانوں کا ایک وسیع قطعہ اراضی چین نے ہتھیا کر وہاں کے مسلمانوں کو باقی اُمت سے کاٹ کر رکھ دیا ہے۔ مسلمانوں کی سرزمین اور وہاں کے باشندے ہرگز اس لائق نہیں کہ اُن کی اسلامی شناخت آہستہ آہستہ چین کے الحاد میں تحلیل ہونے کیلئے چھوڑ دی جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ مشرقی ترکستان میں اسلامی شناخت کو ختم کرنے کیلئے چین ایک طرف تو وہاں چین کے غیر مسلم اقوام کو لا کر بسا رہا ہے تاکہ مسلم آبادی غالب ترین اکثریت نہ رہ سکے یا کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ایک معتدبہ تعداد غیر مسلم باشندوں کی دکھلائی جا سکے اور دوسری طرف اسلامی عقیدے کو مشرقی ترکستان کے مسلمانوں کے ذہن سے محو کرنے کیلئے مختلف حربے بھی استعمال کر رہا ہے اور تیسری طرف روس کی طرح چین بھی یہاں کی معدنی اور زرعی پیداوار کو نچوڑ کر دوسرے صوبوں میں لے جاتا ہے۔
مشرقی ترکستان کے معدنی وسائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں 121 اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ کم وبیش 56 کانیں سونے کی دھات حاصل کرنے کیلئے چین کی سرپرستی میں شبانہ روز کام کرتی ہیں۔ علاوہ ازیں معدنی تیل، یورینیم، لوہا اور سیسہ بھی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ خوردنی نمک اس کثرت سے پیدا ہوتا ہے کہ کل عالم کو ایک ہزار سال تک مہیا کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حلال جانوروں کی 44 انواع پائی جاتی ہیں۔مشرقی ترکستان کا رقبہ اتنا بڑا ہے کہ تنہا یہ ملک چین کے پانچویں حصے پر مشتمل ہے۔اس کا اپنا رقبہ فرانس کے رقبے سے پانچ گنا زیا دہ ہے، جو کہ یوروپی ممالک میں سب سے زیادہ رقبہ والا ملک ہے۔ رقبے کے اعتبار سے دنیا میں اس کا نمبر انیسواں ہے۔اس کی آبادی تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ہے جس کی اکثریت مسلمان ہے۔اسی لیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اگر ترکستان نہ ہوتا تو چین معاشی اعتبار سے رو بہ زوال ہو گیا ہوتا۔
یہ درست ہے کہ اُمت مسلمہ گوناگوں مسائل میں گھری ہوئی ہے لیکن اگر یہ اُمت ایک جسم کی مانند ہے تو پھر ہر زخم اپنا زخم ہے اور ہر زخم مرہم کا متقاضی ہے۔
حوالہ جات:
http://forum.mohaddis.com/threads/مشرقی-ترکستان.10843/
https://www.abushamil.com/life-of-yakub-beg-ataliq-ghazi/
http://urdu.alarabiya.net/ur/editor-selection/2017/04/28/انتہا-پسندی-سے-نمٹے-کے-لیے-چین-میں-محمد-نام-پر-پابندی.html
http://www.humsub.com.pk/58357/syed-mujahid-ali-475/
http://www.jahan-e-urdu.com/islam-and-muslim-in-china-by-tanweer-afaqui/
https://www.google.com.pk/amp/www.bbc.com/urdu/amp/regional-39462012
نیچے مشرقی ترکستان کا نقشہ اور اس کی کچھ خوبصورت تصاویر ملاحظہ کیجیے۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔