الحاد کے کناروں سے اسلام کی طرف (الحمداللہ)
میری آپ بیتی
سوشلسٹ کمیونسٹ کے پھندے اور الحاد کا تعارف
تحریر۔۔۔۔احید حسن
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہ مئ 2016 کی بات ہے جب میں کراچی میں ایک ہاسپٹل میں اپنی ایف سی پی ایس میڈیسن کی ٹریننگ کر رہا تھا۔پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان یا سی پی ایس پی کا اصول ہے کہ آپ کو سولہ مہینے جنرل۔ میڈیسن کی ٹریننگ کے بعد مختلف سب اسپیشلٹی یعنی کارڈیالوجی،پلمونالوجی،نفرالوجی،یورالوجی،نیورولاجی میں عارضی طور پر دو دو مہنیے کام کرنا ہوتا ہے اور یہ آپ کسی بھی ہاسپٹل میں کر سکتے ہیں۔ اس کو روٹیشن کہا جاتا ہے۔یہ مئ 2016کی بات ہے۔میں اپنی سولہ مہینے جنرل میڈیسن کی ٹریننگ مکمل کر کے عارضی طور پر دومہینے کے لیے کراچی کے ایک اور ہاسپٹل میں پلمونولوجی کی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے گیا۔
اس ہاسپٹل میں پلمونولوجی کی ٹریننگ کے دوران وارڈ میں موجود ایک اسسٹنٹ پروفیسر انتہائی متعصب سوشلسٹ کمیونسٹ اور خفیہ ملحد تھا۔اس کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح وارڈ کے جونیئر ڈاکٹرز کو اپنا ہم خیال بنانے اور سوشلسٹ رکن بنایا جائے۔جب میں وارڈ میں گیا تو پہلے مجھے اس پروفیسر کی طرف سے بہت پروٹوکول دیا گیا۔میں خود اس پر سوچ میں تھا کہ عموما جونیئر ڈاکٹرز کو سینیئرز کی طرف سے اتنا پروٹوکول نہیں ملتا۔لیکن مجھے اتنا پروٹوکول کیوں مل رہا ہے۔پہلے پہل ان صاحب نے اپنی تنقید کا ہدف مولوی طبقے کو بنایا پھر آہستہ ان صاحب نے مجھ سے باتوں باتوں میں مذہب کے بارے میں عجیب عجیب باتیں شروع کر دی۔ان کی طرف سے روزانہ ملک،مذہب،خدا کے بارے میں اشاروں میں کوئی نہ کوئی بات ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات میں پڑنے لگا۔لیکن دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ دوسری طرف کی بات پہلے معلوم کی جائے۔اس کے لیے میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک عالم سے رابطہ کیا جن سے کافی طویل عرصے سے اچھی سلام دعا تھی۔وہ عالم اس اندھیرے میں میرے لیے روشنی بن کر آئے اور مجھے اپنے پروفیسر صاحب کے سارے اعتراضات کے جوابات دینے شروع کر دیے۔میں ان سے جواب لیتا کبھی مل کر کبھی کال کر کے اور اپنے پروفیسر صاحب کو وارڈ راؤنڈ کے بعد دیتا۔پروفیسر صاحب اور ان کے حامی ساتھی مل کر مجھ سے بحث کرتے اور میں اکیلا ہوتا۔کبھی دل میں خیال آتا کہ یہ سارے بندے غلط ہیں اور ایک مولوی ٹھیک ہے لیکن بنوری ٹاون کے اس عالم کے جوابات اور باتوں میں بہت وزن تھا۔اس طرح میں ایک طرف شکوک و شبہات میں مبتلا ہورہا تھا اور دوسری طرف ان کو جواب بھی دے رہا تھا۔ایک دن ایسا آیا کہ میں نے اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔لیکن اس رات اتفاقا اس عالم کی خود بخود کال آگئی اور انہوں نے مجھے اپنے گھر دعوت پہ بلایا۔اب ایک طرف اسلام تھا اور ایک طرف کمیونزم سوشلزم اور الحاد۔لیکن اس عالم کی شفقت اور رہنمائی نے مجھے اپنی الحاد کی طرف جانے والی سوچ پہ نظر ثانی کرنے پہ مجبور کردیا۔یہی وہ عالم تھے جن کے کہنے پہ میں نے دینی تعلیم کے مقابلے میں میڈیکل کا انتخاب کیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ دنیاوی تعلیم گناہ نہیں اوردینی ذہن رکھنے والے ذہین افراد کوہر شعبے میں ہونا چاہئے۔دوسری طرف پروفیسر صاحب جنہوں نے اپنا ہاسپٹل میں سوشلسٹ کمیونسٹ کا ایک نیٹ ورک بنا رکھا تھا مجھے اپنے چنگل میں پھنسانے میں پوری طرح مصروف تھے۔انہوں نے مجھے ملحد بنانے کی کوشش اور تیزکر دی۔مجھے ملحدین جیسا کہ ارشد محمود،سبط حسن،علی عباس جلالپوری کی کتابیں پڑھنے کے لیے دی گئی جن سے میرا ذہن اور بگڑا لیکن ان عالم کی رہنمائی مجھے الحاد سے روکے ہوئی تھی۔اگر وہ نہ ہوتے تو میں ملحد ہوچکا تھا۔
ملحدین کی کتابوں کے مقابلے میں ان عالم نے مجھے مولانا وحید الدین خان اور ہارون یحیی کی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی اور میں نے دونوں طرف کی کتابین پڑھنے کے بعد اسلام پر سختی سے قائم رہنے کا فیصلہ کیا الحمداللہ۔اب میں نے سوچ لیا کہ اس پروفیسر کو بھرپور جواب دوں گا۔میں نے ان کے ساتھ فری وقت میں الحاد پر بحث و مباحثہ شروع کر دیا جس میں وہ اور ان کے ساتھی میرے جواب دینے میں ناکام رہتے تھے۔اس پر میرے پروسفسر صاحب اور دوسرے افراد کی میرے خلاف ذاتی دشمنی تیزسے تیز ہوتی گئی اور انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر تم بازنہ آئے تو تم کو وارڈ سے نکال دوں گا۔میں نے بھی کہ دیا سر جو کرنا ہے کر لیں۔میں اپنا دین کبھی نہیں چھوڑوں گا ان شاء اللہ۔آخرکار انہوں نے مجھے ایڈمنسٹریشن کا بہانہ بنا کر وارڈ سے نکال دیا لیکن تب تک میں ہاسپٹل میں اپنے چالیس مسلم دوستوں پر مشتمل رد الحاد کا ایک گروپ تشکیل دے چکا تھا۔
میں روزانہ سائنسی سائٹس اور دینی کتابوں کا فری وقت میں مطالعہ کرتا اور وہاں کے ملحدین سے بحث جاری رکھتا۔اس دوران ایک دن انٹرنیٹ پر میری نظر کے سامنے مذہب،سائنس اور فلسفہ فیس بک پیج کی سائٹ گزری جو کہ مجھے رد الحاد کے لیے بہت پسند آئی۔میں نے سائٹ سے ان کے فیس بک پیج کا لنک نکالا اور فوری وہ گروپ جوائن کر لیا اور ساتھ ہی ان کو مسیج کر دیا کہ میری رہنمائی کریں۔اسکے لئے انہوں نے مجھے آپریشن ارتقائے فہم و دانش گروپ میں شامل ہونے کا کیا جو کہ میں نے فوری اسی دن جوائن کر لیا۔
وارڈ سے نکالے جانے کے بعد میں واپس اپنے ہاسپٹل چلا گیا اور انگلینڈ کے امتحان دے کر پاکستان سے چلا گیا لیکن پروفیسر کی زیادتی اور وہاں موجود ملحدین کی مقدس شخصیات پر اعتراض اور میرے خلاف انتقامی کاروائی نے میرے دل میں سوشلسٹ کمیونسٹ نظام اور الحاد کے خلاف نفرت،بغاوت اور انتقام کی ایک ایسی آگ بھڑکائی جو آج تک میرے دل میں اسی شدت سے جل رہی ہے اور ان شاء اللہ یہ آگ میری زندگی کے آخری سانس تک جلتی رہے گی۔
دعا ہے کہ اللٰہ تعالٰی ہم سب کو ہمیشہ اسلام پہ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین
میری آپ بیتی
سوشلسٹ کمیونسٹ کے پھندے اور الحاد کا تعارف
تحریر۔۔۔۔احید حسن
••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••••
یہ مئ 2016 کی بات ہے جب میں کراچی میں ایک ہاسپٹل میں اپنی ایف سی پی ایس میڈیسن کی ٹریننگ کر رہا تھا۔پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز آف پاکستان یا سی پی ایس پی کا اصول ہے کہ آپ کو سولہ مہینے جنرل۔ میڈیسن کی ٹریننگ کے بعد مختلف سب اسپیشلٹی یعنی کارڈیالوجی،پلمونالوجی،نفرالوجی،یورالوجی،نیورولاجی میں عارضی طور پر دو دو مہنیے کام کرنا ہوتا ہے اور یہ آپ کسی بھی ہاسپٹل میں کر سکتے ہیں۔ اس کو روٹیشن کہا جاتا ہے۔یہ مئ 2016کی بات ہے۔میں اپنی سولہ مہینے جنرل میڈیسن کی ٹریننگ مکمل کر کے عارضی طور پر دومہینے کے لیے کراچی کے ایک اور ہاسپٹل میں پلمونولوجی کی ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے گیا۔
اس ہاسپٹل میں پلمونولوجی کی ٹریننگ کے دوران وارڈ میں موجود ایک اسسٹنٹ پروفیسر انتہائی متعصب سوشلسٹ کمیونسٹ اور خفیہ ملحد تھا۔اس کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح وارڈ کے جونیئر ڈاکٹرز کو اپنا ہم خیال بنانے اور سوشلسٹ رکن بنایا جائے۔جب میں وارڈ میں گیا تو پہلے مجھے اس پروفیسر کی طرف سے بہت پروٹوکول دیا گیا۔میں خود اس پر سوچ میں تھا کہ عموما جونیئر ڈاکٹرز کو سینیئرز کی طرف سے اتنا پروٹوکول نہیں ملتا۔لیکن مجھے اتنا پروٹوکول کیوں مل رہا ہے۔پہلے پہل ان صاحب نے اپنی تنقید کا ہدف مولوی طبقے کو بنایا پھر آہستہ ان صاحب نے مجھ سے باتوں باتوں میں مذہب کے بارے میں عجیب عجیب باتیں شروع کر دی۔ان کی طرف سے روزانہ ملک،مذہب،خدا کے بارے میں اشاروں میں کوئی نہ کوئی بات ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ میں مذہب کے بارے میں شکوک و شبہات میں پڑنے لگا۔لیکن دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ دوسری طرف کی بات پہلے معلوم کی جائے۔اس کے لیے میں نے جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کے ایک عالم سے رابطہ کیا جن سے کافی طویل عرصے سے اچھی سلام دعا تھی۔وہ عالم اس اندھیرے میں میرے لیے روشنی بن کر آئے اور مجھے اپنے پروفیسر صاحب کے سارے اعتراضات کے جوابات دینے شروع کر دیے۔میں ان سے جواب لیتا کبھی مل کر کبھی کال کر کے اور اپنے پروفیسر صاحب کو وارڈ راؤنڈ کے بعد دیتا۔پروفیسر صاحب اور ان کے حامی ساتھی مل کر مجھ سے بحث کرتے اور میں اکیلا ہوتا۔کبھی دل میں خیال آتا کہ یہ سارے بندے غلط ہیں اور ایک مولوی ٹھیک ہے لیکن بنوری ٹاون کے اس عالم کے جوابات اور باتوں میں بہت وزن تھا۔اس طرح میں ایک طرف شکوک و شبہات میں مبتلا ہورہا تھا اور دوسری طرف ان کو جواب بھی دے رہا تھا۔ایک دن ایسا آیا کہ میں نے اسلام چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔لیکن اس رات اتفاقا اس عالم کی خود بخود کال آگئی اور انہوں نے مجھے اپنے گھر دعوت پہ بلایا۔اب ایک طرف اسلام تھا اور ایک طرف کمیونزم سوشلزم اور الحاد۔لیکن اس عالم کی شفقت اور رہنمائی نے مجھے اپنی الحاد کی طرف جانے والی سوچ پہ نظر ثانی کرنے پہ مجبور کردیا۔یہی وہ عالم تھے جن کے کہنے پہ میں نے دینی تعلیم کے مقابلے میں میڈیکل کا انتخاب کیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ دنیاوی تعلیم گناہ نہیں اوردینی ذہن رکھنے والے ذہین افراد کوہر شعبے میں ہونا چاہئے۔دوسری طرف پروفیسر صاحب جنہوں نے اپنا ہاسپٹل میں سوشلسٹ کمیونسٹ کا ایک نیٹ ورک بنا رکھا تھا مجھے اپنے چنگل میں پھنسانے میں پوری طرح مصروف تھے۔انہوں نے مجھے ملحد بنانے کی کوشش اور تیزکر دی۔مجھے ملحدین جیسا کہ ارشد محمود،سبط حسن،علی عباس جلالپوری کی کتابیں پڑھنے کے لیے دی گئی جن سے میرا ذہن اور بگڑا لیکن ان عالم کی رہنمائی مجھے الحاد سے روکے ہوئی تھی۔اگر وہ نہ ہوتے تو میں ملحد ہوچکا تھا۔
ملحدین کی کتابوں کے مقابلے میں ان عالم نے مجھے مولانا وحید الدین خان اور ہارون یحیی کی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دی اور میں نے دونوں طرف کی کتابین پڑھنے کے بعد اسلام پر سختی سے قائم رہنے کا فیصلہ کیا الحمداللہ۔اب میں نے سوچ لیا کہ اس پروفیسر کو بھرپور جواب دوں گا۔میں نے ان کے ساتھ فری وقت میں الحاد پر بحث و مباحثہ شروع کر دیا جس میں وہ اور ان کے ساتھی میرے جواب دینے میں ناکام رہتے تھے۔اس پر میرے پروسفسر صاحب اور دوسرے افراد کی میرے خلاف ذاتی دشمنی تیزسے تیز ہوتی گئی اور انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ اگر تم بازنہ آئے تو تم کو وارڈ سے نکال دوں گا۔میں نے بھی کہ دیا سر جو کرنا ہے کر لیں۔میں اپنا دین کبھی نہیں چھوڑوں گا ان شاء اللہ۔آخرکار انہوں نے مجھے ایڈمنسٹریشن کا بہانہ بنا کر وارڈ سے نکال دیا لیکن تب تک میں ہاسپٹل میں اپنے چالیس مسلم دوستوں پر مشتمل رد الحاد کا ایک گروپ تشکیل دے چکا تھا۔
میں روزانہ سائنسی سائٹس اور دینی کتابوں کا فری وقت میں مطالعہ کرتا اور وہاں کے ملحدین سے بحث جاری رکھتا۔اس دوران ایک دن انٹرنیٹ پر میری نظر کے سامنے مذہب،سائنس اور فلسفہ فیس بک پیج کی سائٹ گزری جو کہ مجھے رد الحاد کے لیے بہت پسند آئی۔میں نے سائٹ سے ان کے فیس بک پیج کا لنک نکالا اور فوری وہ گروپ جوائن کر لیا اور ساتھ ہی ان کو مسیج کر دیا کہ میری رہنمائی کریں۔اسکے لئے انہوں نے مجھے آپریشن ارتقائے فہم و دانش گروپ میں شامل ہونے کا کیا جو کہ میں نے فوری اسی دن جوائن کر لیا۔
وارڈ سے نکالے جانے کے بعد میں واپس اپنے ہاسپٹل چلا گیا اور انگلینڈ کے امتحان دے کر پاکستان سے چلا گیا لیکن پروفیسر کی زیادتی اور وہاں موجود ملحدین کی مقدس شخصیات پر اعتراض اور میرے خلاف انتقامی کاروائی نے میرے دل میں سوشلسٹ کمیونسٹ نظام اور الحاد کے خلاف نفرت،بغاوت اور انتقام کی ایک ایسی آگ بھڑکائی جو آج تک میرے دل میں اسی شدت سے جل رہی ہے اور ان شاء اللہ یہ آگ میری زندگی کے آخری سانس تک جلتی رہے گی۔
دعا ہے کہ اللٰہ تعالٰی ہم سب کو ہمیشہ اسلام پہ رکھے اور ہمارا خاتمہ ایمان پہ فرمائے۔آمین
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔