Saturday 8 December 2018

تعلیم سب کے لیے [ایجوکیشن فار آل]:

تعلیم سب کے لیے [ایجوکیشن فار آل]:
-----------------------------------------------------
بھئی دنیا میں کوئی کام ایسا ہے جو سب لوگ کر سکتے ہوں؟ نہیں، تو پھر تعلیم و تعلم ہی رہ گیا تھا کہ سب کو اس کام پر لگا دیا گیا ،؟؟
یونیورسٹی کے بچوں اور بچیوں کے رویے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سب تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوئے تھے، تو پھر ان سب کو تعلیم حاصل کرنے پر کیوں لگا دیا گیا؟
بس معاشرے کی بھیڑ چال ۔۔۔۔۔ ہمارے معاشرے واقعی میں بھیڑ بکریوں کا ایک گلہ ہیں کہ جنہیں چرواہے کی ایک ہانک ایک طرف لگا دیتی ہے اور دوسری دوسری طرف۔

پہلے وہی لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے کہ جن میں تعلیم و تعلم کا شوق تھا لہذا پڑھے لکھے لوگ کم تھے لیکن جو تھے واقعی میں پڑھے لکھے نظر بھی آتے تھے۔ اب ڈگریوں کی بھرمار ہے، رہی سہی کسر پرائیوٹ یونیورسٹیوں نے پوری کر دی ہے۔ ڈگریوں کے اعتبار سے پڑھے لکھے لوگوں کی شرح بہت بڑھ چکی ہے لیکن حقیقت کے اعتبار سے معاشرہ اتنا ہی تعلیم یافتہ ہے جتنا کہ پہلے تھا۔ اصل غلطی اس نعرے کی ہے کہ سب کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ تو سب تعلیم تو حاصل نہ کر پائے لیکن ڈگریاں ضرور حاصل کر لیں۔

بھئی کچھ بچے ڈھور ڈنگر چرانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں لہذا یونیورسٹی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور وہ یونیورسٹی میں اپنی نوجوانی کے بہترین سال اور والدین کے لاکھوں روپے ضائع کرنے کے بعد بھی مزدوری ہی کریں گے۔
اور کچھ بچے شروع ہی سے بزنس مائنڈ ہوتے ہیں لہذا انہیں ہائر ایجوکیشن میں کھپا دینا بھی وقت اور پیسے کا ضیاع ہے۔ بس ایک واجبی سی تعلیم میٹرک یا او۔لیول سب بچوں کی ہونی چاہیے، اس کے بعد صرف اسی کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے کہ جس کا مقصد زندگی تعلیم وتعلم ہے۔

ایک بھائی جو کہ ایک مدرسہ کے منتظم بھی ہیں، انہوں نے پنجاب یونیورسٹی میں پبلک ایڈمنسٹریشن میں ایڈمشن لے لیا۔ لیکن کچھ عرصہ کلاسز اٹینڈ کرنے کے بعد احساس ہوا کہ جو کام ہم عملی طور کر رہے ہیں، یہ لوگ ابھی اس پر تھیوریز ڈسکس کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

تو اگر آپ کا مستقبل میں کپڑے کے کاروبار کا ارادہ ہے تو ٹیکسٹائیل انجینئرنگ کر لینے سے آپ کے کپڑے کا روبار کوئی بہت اچھا نہیں چل جائے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ مارکیٹ میں آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا میٹرک پاس آپ سے اچھا کاروبار چلا رہا ہو کیونکہ وہ آپ سے پہلے مارکیٹ میں بیٹھا ہے۔

ہم سب لوگ ایک بھیڑ چال کی طرح بچوں کو ڈگری ہولڈر بنانے میں لگے ہیں حالانکہ عین ممکن ہے کہ میرا ایک بچہ پندرہ لاکھ میں چار سال انجینیئرنگ کرنے کے بعد مہینے کے چالیس ہزار بمشکل کما سکے اور دوسری طرف وہی بچہ چار سال میں اپنا کاروبار اتنا اسٹیبلش کر لے کہ ایک مہینے میں چار لاکھ کما لے۔

تو ایجوکیشن فار آل کے حوالے سے ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی رائے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔

اپنے بچے میں ٹیلنٹ دیکھیں، اگر کاروبار کا زیادہ ہے تو اسے اس میں لگائیں،
یہ کیا بات ہوئی کہ جس کا کروڑوں کا کاروبار ہے، اس نے بھی اپنے بچوں کو ہائر ایجوکیشن پر لگایا ہوا ہے۔

پھر فخر اس پر ہے کہ میرے بچے نے پی۔ایچ۔ڈی کر لی ہے، بھئی آپ کے بچے جیسے بیسیوں پی۔ایچ۔ڈی ایک میٹرک پاس کاروباری شخص نے اپنے ہاں ملازم رکھے ہوتے ہیں تو کیا فائدہ آپ کی ہائر ایجوکیشن کا جو آپ نے انڈر میٹرک کا ملازم بھرتی ہونا ہے۔ ؟
ملک ریاض میٹرک پاس ہے اور کاروبار 1.2 بلین ڈالر کا ہے۔
سیاستدان ، حکمران طبقہ سارا انٹر پاس سے زیادہ نہیں ہوتا ، پورا سسٹم و اسٹرکچر ایسا ہے کہ پڑھے لکھے جاہلوں و اَن پڑھوں کے نیچے جاب کرتے ہیں ،

تعلیم کا مقصد آپ کو کام، پیشہ یا کاروبار سکھانا نہیں تھا ، یہ سب عملی زندگی انسان کو خود سکھاتی ہے ، اور بہتر سکھاتی ہے ،
تعلیم کا مقصد تو فرد اور معاشرے کی اصلاح تھی ،
کام، پیشہ یا کاروبار ڈگری سے نہیں ،،، کام کرنے سے آئے گا !

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔