Friday 21 December 2018

ملحدین غلبے کی صورت۔ مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے؟مسلمان ملحدین پر ظلم کر رہے ہیں یا ملحد مسلمانوں پر ظلم کر رہے کر رہے ہیں؟اگر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ ،انقلاب آگیا تو کیا ہوگا ؟یہ مضمون پڑھ کر اندازہ لگائیں۔جو لوگ اندھا دھند سوشلسٹ اور سرخ اانقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں ان کے لیے ایک تہلکہ خیز تحریر۔ایک ملحد کے سوال کا جواب اور مسلمانوں کے لیے پیغام فکر

ملحدین غلبے کی صورت۔ مسلمانوں سے کیا سلوک کریں گے؟مسلمان ملحدین پر ظلم کر رہے ہیں یا ملحد مسلمانوں پر ظلم کر رہے کر رہے ہیں؟اگر پاکستان میں سوشلسٹ کمیونسٹ ،انقلاب آگیا تو کیا ہوگا ؟یہ مضمون پڑھ کر اندازہ لگائیں۔جو لوگ اندھا دھند سوشلسٹ اور سرخ اانقلاب کے نعرے لگا رہے ہیں ان کے لیے ایک تہلکہ خیز تحریر۔ایک ملحد کے سوال کا جواب اور مسلمانوں کے لیے پیغام فکر

مسلم ممالک پر ملحد سوویت یونین کی یلغاراور عبرت ناک ظلم اور سفاکی
.....................................
حضرت مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ!
[اسلام کو مٹانے کے لیے ہر دور اور ہر زمانے میں باطل اور شیطانی قوتیں اپنی طاقت اور اپنے حربے آزماتی آئی ہیں۔ ماضی قریب میں سوویت یونین کے نام سے روس نے اسلام کے علمی و فقہی مراکز بخارا و سمرقند وغیرہ پر جس طرح یلغار کی اور وہاں سے اسلام اور شعائر اسلام کا نام و نشان تک مٹا دیا، یہ داستان عبرت ناک بھی ہے اور درد ناک بھی۔حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہ نے اپنی کتاب (یہ تیرے پراسرار بندے)میں تفصیل کے ساتھ یہ لہو رنگ داستان بیان کی ہے اور روسیوں کے طریقہ واردات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ماضی کے پرانے اوراق سے اسے نکال کر سنّی مسلمانوں کی خدمت میں اسے پیش کیا جارہا ہے کہ ہم اپنے ماضی کے آئینے میں اپنے حال کا چہرہ دیکھیں، عبرت و نصیحت حاصل کریں اور اپنی چال کو درست کریں۔ ایک ایسی تحریر جسے ایک بار نہیں، بار بار پڑھنا، اور اس کی ایک ایک سطر پر رک کر اپنی قومی حالت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔]
روسی کمیونسٹ ان تمام علاقوں پر بھیڑیے بن کر ٹوٹ پڑے تھے اور ۱۹۲۰ء میں خیوا اور بخارا پر بھی قابض ہوگئے تھے۔ قرآن کریم کی طباعت و اشاعت اور دینی تعلیم ممنوع قرار دے دی گئی، ان تمام مسلم ممالک کا رسم الخط فارسی؍ عربی تھا، اس پر پابندی لگا کر روسی رسم الخط مسلط کردیا گیا تاکہ مسلمان اپنے ماضی سے اور موجودہ عالم اسلام بھی مکمل طور پر کٹ کر رہ جائیں۔ جن مسلمانوں کو ’’اللہ‘‘ کا نام لیتے دیکھا گیا، انہیں سب سے بڑا مجرم ’’روحانی‘‘ قرار دے کر حکماً حقوق شہریت سے محروم کردیا گیا، حج پر پابندی لگا دی گئی، مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے لیے یہاں بھاری تعداد میں روسیوں کو لا کر آباد کیا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنے کے لیے کمزور ایمان والوں کے ضمیر خریدے گئے، بیشتر مساجد و مدارس کو منہدم، یا کلبوں، گوداموں، اصطبلوں، رہائش گاہوں اور تفریح گاہوں میں بدل دیا گیا۔خال خال جو مسجدیں باقی رہ گئیں، ان میں اذانیں بند کردی گئیں، ان پر بھاری ٹیکس لگادئیے گئے، اور ان میں نماز پڑھنے والوں پر بھی ’’نمازی ٹیکس‘‘ لگایا گیا۔
جو باہمت مسلمان ٹیکس دے کر بھی مسجد آتے رہے انہیں ’’سرمایہ دار‘‘ قرار دے کر طرح طرح کی سزائیں دی گئیں۔پھر وہ یا تو شہید کردئیے گئے، یا سائبیریا کے برفانی جہنم میں، جہاں درجۂ حرارت چالیس منفی سیٹی گریڈ تک گر جاتا ہے، اس طرح جلا وطن کردئیے گئے کہ ان کے اہل خانہ کو کبھی معلوم نہ ہوسکا کہ ان کا کیا ہوا۔۔۔ ان قیامت خیز حالات میں گنی چنی باقی ماندہ مساجد کا حال بھی اس کے سوا کیا ہوتا کہ:
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
جب روسی یلغار ہوئی تو یہاں کے علمائے حق نے یہ طے کرلیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اس حالت میں کہیں چھوڑ کر جانے کے بجائے آخر دم تک یہیں کفر کا مقابلہ کریں گے۔ ہزاروں مجاہدین نے ان اولوالعزم علمائے ربانی کی قیادت میں پہاڑوں میں مورچہ زن ہوکر بارہ سال سے زیادہ عرصہ تک اپنی چھاپہ مار کاروائیوں سے کیمونسٹوں کا ناک میں دم کیے رکھا، ان مجاہدین کا جاسوسی نظام بھی عرصہ دراز تک کام کرتا رہا، جیسے ہی پتہ چلتا کہ آج فلاں شہر یا قصبے میں مسلمانوں پر شب خون مارا جائے گا، یا قیدی علمائے کرام کو برسرِ عام قتل کیا جائے گا، یہ وہاں بجلی بن کر دشمنوں پر ٹوٹ پڑتے، اور بہت سوں کو جہنم رسید کرڈالتے۔
لیکن سوشلسٹ حکومت نے رفتہ رفتہ ہر علاقے میں علمائے سوء کی ایک بڑی کھیپ تیار کرلی تھی، جو کیمونسٹوں کو ’’نجات دہندہ‘‘ ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملاتے، مسلمانوں کو نت نئے فروعی مسائل میں الجھا کر آپس میں لڑواتے، اور علمائے حق کے خلاف دھواں دھار تقریریں کرتے۔
نئی نسل کو طرح طرح کے سبز باغ دکھا کر دین اور علمائے دین سے بیزار کیا گیا، علمائے حق پر لرزہ خیز مطالم ڈھائے گئے، جو علمائے ربانی ان مظالم کا شکار ہوئے، ان کی تعداد ۱۹۴۰ء تک پچاس ہزار کو پہنچ چکی تھی۔ عوام میں سے بے شمار لوگ اپنی جان اور ایمان بچاکر افغانستان، ایران، ہندوستان، اور سعودی عرب وغیرہ کو ہجرت پر مجبور ہوگئے۔ میں نے بھی ایسے کئی مہاجرین اور ان کے بیٹوں اور پوتوں سے ملاقات کی اور خود ان کی زبانی ان کی بپتا سنی ہے۔۔۔ دارالعلوم کراچی میں بھی ان کی بڑی تعداد زیرِ تعلیم ہے۔
ایک مہاجر کی بپتا:
ایک سید زادے جناب اعظم ہاشمی، جو کراچی یونیورسٹی میں غالباً استاد تھے، کبھی کبھی ہمارے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے پاس آیا کرتے تھے، اور ہم سے بھی محبت سے ملتے تھے، میری ان سے آخری ملاقات تقریباً ۱۹۷۲ء میں ہوئی تھی، جبکہ ان کی عمر ساٹھ کےلگ بھگ تھی، یہ اندجان (ازبکستان) کے ایک مشہور علمی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔
۱۹۳۱ء میں جب ان کی عمر صرف سولہ سال تھی، اور خاندان کے مرد تقریباً سب کے سب کیمونسٹوں کے ہاتھوں شہید ہوچکے تھے، انہیں اپنی بیوہ والدہ کے اصرار پر راتوں رات ہجرت کرنی پڑی، کیمونسٹ ان کے خون کے پیاسے تھے، اور والدہ کو بھی ’’روحانی‘‘ قرار دے کر تمام حقوق شہریت سے محروم کیا جاچکا تھا، عالمہ فاضلہ ماں کی مامتا نے مجبور ہوکراس لخت جگر کوئی ہمیشہ کے لیے یہ کہہ کر الوداع کردیا تھا کہ:
’’بیٹا! تم میرے بڑھاپے کا سہارا اور امیدوں کا مرکز ہو، مگر جیسا کہ تم دیکھ رہے ہو، تم وطن عزیز میں رہ کر ایک مسلمان کی حیثیت میں میری خدمت نہیں کرسکتے، میں تمہیں دین و ایمان کی خاطر کسی آزاد ملک میں چلے جانے کا حکم دیتی ہوں‘‘
اس رات لالٹین کی دھیمی روشنی میں انہوں نے اپنے سوئے ہوئے بے خبر چھوٹے بہن بھائیوں کا آخری دیدار کیا، بیوہ ماں انہیں ضروری نصیحتیں کرتی ہوئی گھریلو باغیچے کے کنارے تک آئیں اور آخری بار پیار کرکے رخصت کردیا۔
یہ چند ہی قدم چلے تھے کہ پیچھے سے کچھ گرنے کی آواز آئی، مڑ کر دیکھا تو ماں بے ہوش پڑی تھیں، سخت پریشانی کے عالم میں بیٹے نے پانی کے چھینٹے دے کر ان کو آواز دی ، ہوش میں آتے ہی ماں نے تلملا کر پوچھا: ’’بیٹا! تم واپس کیوں آگئے؟ خدا کے لیے اپنی منزل کھوٹی نہ کرو! فوراً روانہ ہوجاؤ!‘‘
ماں کو چارپائی تک پہنچا کر یہ یتیم بہتی آنکھوں اور بوجھل دل کے ساتھ نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔ مہینوں اسی ’’ماوراء النہر‘‘ کے شہروں، ’’خوقند‘‘ اور ’’بخارا و سمرقند‘‘ وغیرہ میں ڈرے، سہمے دربدر پھرتے رہے، لیکن یہ سرزمین اپنی وسعتوں کے باوجود مسلمانوں پر تنگ ہوچکی تھی، بالآخر کسی نہ کسی طرح دریائے آمو پار کیا اور ہجرت کرکے افغانستان اور وہاں سے ہندوستان آئے، پھر پاکستان بن جانے کے بعد کراچی آکر مقیم ہوگئے۔۔۔ عمر بھر ہزار جتن کیے مگر نہ ماں اور بہن بھائیوں کو دیکھ سکے، نہ یہ معلوم ہوسکا کہ وہ زندہ بھی ہیں یا شہید کردئیے گئے؟ کیونکہ سوویت یونین کے تمام مقبوضہ ممالک اور ریاستوں کو باہر کی دنیا سے کاٹ کر ان پر ایسا دبیز آہنی خول مڑھ دیا گیا تھا کہ اندر کی آواز باہر، اور باہر کی اندر نہیں جاسکتی تھی، ڈاک اور مواصلات کے سارے رابطے مستقل طور پر ختم کردئیے گئے تھے۔
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات
افغانستان پہنچنے سے پہلے اس ہجرت کے سفر میں خود ان پر کیا کیا قیامتیں گذر گئیں، اور وہاں کے شہروں میں دربدر پھرتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں اور علمائے کرام پر کیسے کیسے لرزہ خیز مظالم کا مشاہدہ کیا، یہ سب کچھ انہوں نے اپنی چونکا دینے والی مختصر کتاب ’’سمرقند و بخارا کی خونیں سرگذشت‘‘ میں بیان کردیا ہے۔یہ کتاب ۱۹۷۰ء میں مکتبہ اردو ڈائجسٹ سمن آباد لاہور سے شائع ہوئی تھی، اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔
ان ریاستوں کی ماضی قریب کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں خاص طور پر کرنا چاہئے، اس سے معلوم ہوگا کہ دشمن مسلمانوں کی کن کن کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اور کن کن حیلہ سازیوں سے انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہوااور نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہاں کی فضائیں جو صدیوں سے پانچوں وقت اذان کی دلکش صداؤں سے گونجا کرتی تھیں، ان پر مہیب خاموشی چھا گئی، جو علاقے صدیوں اسلام کے نور سے نہ صرف جگمگاتے رہے، بلکہ ان کی ضیاء پاش کرنیں دنیائے اسلام کو منور کرتی رہیں، ان پر مصائب و آلام کی وہ تاریک رات مسلط ہوگئی جس کی سحر کا انتظار کرتے کرتے وہاں کی کئی نسلیں دنیا سے رخصت ہوچکی ہیں۔
لیکن آفریں ہے وہاں کے مظلوم و مقہور مسلمانوں کے ایمانِ راسخ پر، کہ کفر و ظلم کے ان اندھیاروں میں بھی انہوں نے ایمان کی شمع ایک لمحے کے لیے بجھنے نہیں دی، وہ نمازیں چھپ چھپ کر پابندی سے گھروں میں پڑھتے اور بچوں کو سکھلاتے رہے، قرآن کریم کے جو نسخے انہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر کسی طرح بچا لیے تھے، وہ عمر بھر ان کا سب سے بڑا قیمتی سرمایہ رہے، ستر سال کے اس طویل عرصے میں ان کے اوراق کتنے ہی بوسیدہ کیوں نہ ہوگئے، مگر ان کی تلاوت اور تعلیم کا سلسلہ گھروں میں چھپ چھپ کر جاری رہا۔ حدیث و فقہ اور اسلامی علوم و فنون کی جو کتابیں انہوں نے کسی طرح بچا لی تھیں، ان کی بھی اپنی جان کی طرح حفاظت کی۔۔۔جو علمائے کرام کسی طرح زندہ بچ گئے تھے، انہوں نے دینی علوم کی تدریس کا سلسلہ راتوں کو خفیہ طور پر جاری رکھا۔ غرض دین و ایمان کی اس بیش بہا پونجی کو، رخصت ہونے والی ہر نسل، آنے والی نسل کے ہاتھوں میں تھماتی، اور دلوں میں اتارتی رہی۔۔۔ نتیجہ یہ ہے کہ الحمد للہ وہاں مسلمانوں کی آج بھی بھاری اکثریت ہے، علمائے کرام بھی موجود ہیں، مسلمانوں کی بڑی تعداد نماز، روزہ، اور اسلامی شعائر کی پابند ہے۔۔۔
حیرت میں ڈال دینے والے یہ ایمان افروز حالات مجھے ازبکستان، تاجکستان اور قرغیزیہ کے ائمہ مساجد کے اس وفد سے معلوم ہوئے جو حال ہی میں دارالعلوم کراچی آیا تھا۔ جن آلام و مصائب کا سامنا وسط ایشیاء کے مسلمانوں کو کرنا پڑا، اور جس طرح کی قربانیاں دے کر یہاں کے مسلمانوں نے اپنے دین کی حفاظت کی، روس کے دیگر مقبوضہ ممالک کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی مسلمان آج تک ان حالات کا مقابلہ کررہے ہیں، اور دنیا کو اپنے عزم راسخ سے بتا رہے ہیں کہ:
مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سرّ کلیم و خلیل
روسی کیمونسٹوں کا طریقۂ واردات:
وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں اور افغانستان میں روسیوں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ انہوں نے اپنی ’’فاتحانہ‘‘ کاروائیوں کو عموماً تین مرحلوں میں ترتیب وار انجام دیا:
۱۔۔۔پہلے مرحلے میں انہوں نے غریب اور مفلوک الحال عوام کی حقیقی مشکلات و مصائب کا رونا رو کر سوشلزم اور کمیونزم کی ’’غریب پروری‘‘ کا سبز باغ دکھایا اور باور کرایا کہ ہم کارخانوں کا مالک مزدوروں کو، اور زمینوں کا مالک کاشتکاروں کو بنانا چاہتے ہیں، ہمارا مقصد یہ ہے کہ مفلس عوام کے مصائب دور کیے جائیں، تعلیم عام کی جائے، عورتوں کے ’’حقوق کی حفاظت‘‘ اور قوموں کی ’’خود مختاری کی حفاظت‘‘ کی جائے۔ ہمیں دین و مذہب سے کوئی دشمنی نہیں، صرف سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کو مٹانا چاہتے ہیں۔ اس مرحلے میں انہوں نے مارکسی سوشلزم کو اسلامی عدل و انساف اور خلافت راشدہ سے مشابہت کے رنگ میں پیش کیا، اور یہ دھوکہ دینے کی منظم کوشش کی کہ سوشلزم اسلام کے عین مطابق ہے۔ اس منافقانہ مسلسل کاروائی سے انہوں نے سادہ لوح غریب عوام کی ہمدردیاں حاصل کرکے معاشرے اور سیاست میں اپنی طاقت بنائی اور کسی حد تک دیندار اور تعلیم یافتہ طبقہ کو بھی دام فریب میں پھانس لیا۔ اس مرحلے میں وہ لینن کے بتائے ہوئے اس گر پر عمل کرتے رہے کہ ’’مشرق میں مذہب کے دروازے سے آؤ‘‘
۔۔دوسرے مرحلے میں انہوں نے مسلم ریاستوں کے تعلیمی اداروں، سیاسی و نیم سیاسی تنظیموں، اخبارات و رسائل، فلموں، ادبی انجمنوں، اور شاعروں میں اپنے تربیت یافتہ مبلغین کو گھسا کر اہم عہدوں پر فائز کرادیا، یہ تعلیمی اداروں سے طلبہ کو، اور ذرائع ابلاغ سے عوام کو کبھی سوشلزم اور کمیونزم کا نام لے کر، اور کبھی نام لیے بغیر اس کی تبلیغ کرتے رہے، اور نوجوانوں کی خاصی تعداد کو ذہنی طور پر کیمونسٹ بناتے رہے۔
ڈراموں نظموں، افسانوں، اخباری کالموں اور تقریروں کے ذریعے پوری قوم کی ذہن سازی کی گئی، اس مقصد کے لئے مقامی حکمرانوں سے راہ و رسم بڑھا کر اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے گئے، ثقافتی پروگراموں کے نام پر نئی نسل کو فحاشی اور عریانی پر لگایا، جمہوریت کے نام پر عوام کو بے راہ روی، بے لگام آزادی، اور قانون شکنی پر مائل کیا، روسی رقاصائیں آنے لگیں، اخلاقی قدروں اور تہذیبی روایات کا مذاق اڑایا جانے لگا، اور انہیں ’’رجعت پسندی‘‘ کانام دے دیا گیا۔
’’اقتصادی امداد‘‘ کے نام پر مقامی حکمرانوں اور پالیسی ساز افسروں کو اللے تللے کرائے گئے اور ’’دفاعی معاہدوں‘‘ کے نام پر ان حکمرانوں کو بے وقوف بنا کر اپنا تابع فرمان بنا لیا، جب وہ اقتصادی اور دفاعی میدانوں اور سائینس و ٹیکنالوجی میں خود کفالت کی راہ پر گامزن ہونے کے بجائے اس غیر ملکی امداد پر انحصار کے عادی ہوگئے، تو ان سے قومی مقاصد، عوامی امنگوں، اور ملکی ضرورتوں کے خلاف فیصلے کرائے گئے اور دوسری طرف سے ردّ عمل کے طور پر سیاسی لیڈروں اور عوام کو حکومت کے خلاف اکسایا گیا، حکمران اپنی عوام سے کٹتے اور اتنے ہی کمزور ہوتے چلے گئے۔
ساتھ ساتھ اسلامی عقائد اور دینی شعائر پر رکیک زبان درازیاں ہونے لگیں، علمائے حق کا کھل کر مذاق اڑایا جانے لگا، علمائے سوء کو ان کے مقابلے میں شہ دی گئی، اور طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا۔
ماضی کے مسلم حکمرانوں کی رنگ رلیوں کے بعض سچے، اور بہت سے من گھڑت قصے سنا سنا کر عوام کو ان کے ماضی اور دینی راہنماؤں سے بے زار کیا گیا، اور انہیں آپس میں کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر، اور کہیں لسانی، علاقائی یا نسلی عصبیتوں کی بنایاد پر طرح طرح سے لڑوا کر ملک کو بری طرح کمزور کردیا گیا۔
۳۔۔۔تیسرے مرحلے میں جب دیکھا کہ اندر کا میدان ان کی فوجوں کے لیے ہموار ہوگیا ہے، اور کسی بڑی مزاحمت کا خطرہ نہیں تو ان کے ٹینک اور لاؤ لشکر سارے وعدوں ،معاہدوں اور سبز باغوں کو روندتے ہوئے اس ملک میں داخل ہوگئے اور سب سے پہلے ان نااہل حکمرانوں کا خاتمہ کیا جنہیں بے وقوف بنا کروہ یہاں تک پہنچے تھے۔ملک پر انتہائی جابر وقاہر ڈکٹیٹر شب مسلط کردی گئی۔
یہ ڈکٹیٹر عموماً اسی ملک کے وہ ضمیر فروش سیاسی لیڈر ہوتے تھے جنہیں اس مقصد کے لیے پہلے سے تیار کیا جاتا تھا، ان کے نام تو وہی مسلمانوں کے سے تھے جو ان کے مسلم آباء و اجداد نے رکھے تھے، لیکن عقیدے کے اعتبار سے جب تک انہوں نے اپنا کٹر کیمونسٹ اور خدا کامنکر ہونا ثابت نہ کردیاانہیں یہ عہدہ نہیں دیا گیا۔ کارخانوں، دوکانوں اور زمینوں پر سوشلسٹ بیوروکریسی قابض ہوگئی اور اور مفلس عوام اور مزدور و کاشتکار جنہیں سبز باغ دکھا کر یہ خونی ناٹک رچایا گیا تھا، منہ تکتے رہ گئے، ان کا افلاس بڑھتا گیا، اب بسا اوقات سوکھی روٹیوں کو بھی ترسنے لگے۔مذہبی آزادی، تنظیم سازی، سیاسی آزادی، اور پیشے کی آزادی کا خاتمہ کردیا گیا۔
جس مسجد یا مدرسے سے سوشلزم یا اس کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف آواز اٹھنے کا اندیشہ ہوا، اس پر بلڈوزر چلادئیے گئے، جو ذرا بولااسے ہمیشہ کے لیے غائب کردیا گیااور ساری وہ داستانیں دہرائی گئیں جن کی دہشت آج بھی ترمذ، فرغانہ، بخارا اور سمرقند کے کوچے کوچے پر چھائی ہوئی ہے۔
اس کے آبِ لالہ گوں کی خونِ دہقاں سے کشید
تیرے میرے کھیت کی مٹی ہے اس کی کیمیا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے؟ مردِ غریب و بے نوا
افغانستان میں تیسرے مرحلے کا حشر:
روسیوں نے وسط ایشیاء کی مسلم ریاستوں کو تاراج کرنے کے فوراً بعد ہی افغانستان میں بھی اپنی واردات کا پہلا مرحلہ شروع کردیا تھا، پھر دوسرے مرحلے کا بہت بڑا کام ظاہر شاہ کے دورِ حکومت (تا ۱۹۷۲) میں ہوا۔اور اس کی تکمیل داؤد خان کے دور (تا۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء) میں ہوئی، اس وقت مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کو، جو علم دین سے نابلد تھی، کیمونسٹ بنایا جاچکا تھااور وہی سرکاری تعلیمی اِداروں پر چھائے ہوئے تھے، اعلیٰ تعلیم و’’ تربیت‘‘ کے لیے چھانٹ کر ایسے نوجوانوں کو روس بھیجا جاتا تھا جو پہلے سے کیمونسٹ ہوں یا ان کے بارے میں یہ اطمینان ہو کہ وہ کٹر کیمونسٹ بن کر وپس آئیں گے، ملک کے کلیدی عہدوں، سیاست اور فوج پر کیمونسٹ قابض ہوچکے تھے، اور وہ تمام کاروئیاں مکمل ہوچکی تھیں جو روسی ’’دوسرے مرحلے‘‘ میں انجام دیتے رہے ۔
تیسرے مرحلے کا آغاز ’’انقلابِ ثور‘‘ کے نام سے کیا گیا، جس کا مقصد افغانستان کو مکمل طور پر ’’بخارا اور سمرقند‘‘ بنادینا تھا، یہ انقلاب ۲۷ اپریل ۱۹۷۸ء کو یہاں کی کیمونسٹ جماعت، ’’خلق پارٹی ‘‘ کے مشہور کیمونسٹ لیڈر ’’نورمحمد ترکئی‘‘ نے صدر داؤد خان کو قتل کرکے اور کرسئ صدارت پر قبضہ کرکے برپا کیا تھا۔۔۔
روس کا خیال تھا کہ افغانستان کو مکمل طور پر کیمونسٹ ملک کی حیثیت سے روسی’’ سوویت یونین‘‘ کا ’’اٹوٹ انگ‘‘ بنا دینے کے لیے نور محمد ترہ کئی، اس کی خلق پارٹی، اور ان کے روسی مشیرو’’ماہرین‘‘ کافی ہوجائیں گے، اس لیے اس نے اپنی فوجیں اس موقع پر نہیں بھیجی تھیں۔۔۔ چنانچہ ترہ کئی نے افغانستان میں کیمونسٹ انقلاب برپا کرتے ہی جو کارنامے فوری طور پر انجام دئیے، وہ یہ تھے:
۱۔۔۔ملکی جھنڈے کا رنگ سرخ کردیا۔۔۔ سرخ جھنڈا لہرانے کی ایک پروقار تقریب منعقد کی گئی۔۔۔
۲۔۔۔پندرہ ہزار مسلمانوں کو اپنے ابتدائی دنوں میں ہی شہید کرڈالا، جن میں بہت سے علمائے دین بھی شامل تھے۔
۳۔۔۔ اسلام کی مخالفت میں کئی قوانین نافذ کیے۔
۴۔۔۔ مقابلے میں بولنے والے بہت سے مسلمانوں کی املاک ضبط کرلی گئیں۔۔۔
۵۔۔۔ ریڈیو سے دینی پروگرام یکلخت بند کردئیے گئے۔
۶۔۔۔ سرکاری تعلیمی اداروں سے اسلام، اور اس کے متعلق مضامین کو خارج کرکے سوشلزم اور کیمیونزم کی تعلیم لازمی قرار دے دی گئی۔
۷۔۔۔کاشتکاروں، مزدوروں اور خواتین پر ’’اشتراکی ثقافت‘‘ کے تربیتی پروگراموں میں شرکت لازم کردی گئی۔
۸۔۔۔اللہ تعالیٰ کے وجود کا علی الاعلان انکار کیا جانے لگا(نعوذ باللہ) کیمونسٹ لیڈر بھرے مجمع میں اپنا ہاتھ بلند کرکے مسلمانوں کو للکارتے کہ ’’اگر تمہارا خدا موجود ہے تو میرا یہ ہاتھ نیچے کرکے دکھائے۔‘‘
افغانستان میں مکمل طور پر کیمونسٹ حکومت مسلط ہو ہی گئی تھی، لیکن کیمونزم کو یہاں اسلام پر مرمٹنے والی اس غیور قوم سے واسطہ پڑا جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں حلقہ بگوش اسلام ہونے کے بعد سے آج تک ایک دن کے لیے بھی اپنے اوپر غیر مسلموں کی محکومی کا داغ نہیں آنے دیا۔۔۔ پھر یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی پڑوسی مسلم ریاستوں میں کیمونزم کے مظالم کا مشاہدہ پچھلی کئی دہائیوں سے کررہے تھے۔۔۔ انہیں دھوکہ دینا ممکن نہ تھا۔۔۔
یہاں کے بیدار مغز علمائے ربانی سوشلزم اور کیمونزم کو شروع ہی سے مسلم افغانستان کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے چلے آرہے تھے، اور جب ظاہر شاہ کے دور میں ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کے نام پر اسلام کی بیخ کنی کے لئے منظم کاروئیاں شروع ہوئیں تو انہوں نے آنے والے طوفان کو بھانپتے ہی اس کے خلاف جد و جہد شروع کردی تھی۔۔۔
نور محمد ترہ کئی کے اس ’’سرخ انقلاب‘‘ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور چند ہی دنوں بعد یہاں کے علمائے حق کو اس کافر حکومت کے خلاف اعلان جہاد کرنا پڑا۔۔۔ترہ کئی کی نام نہاد حکومت نے اس مقدس جہاد کو کچلنے کے لیے بھرپور جنگی طاقت استعمال کی، کابل کی مشہور عالم بدنام ترین جیل ’’پل چرخی‘‘ کے بلڈوزر رات دن اجتماعی قبریں کھودنے میں مصروف رہتے، جن میں بے گناہوں کو بغیر کفن کے دھکیل دیا جاتاتھا۔۔۔
مسلمانوں کا جذبۂ جہاد ان مظالم سے اور بھڑک اٹھا، انہوں نے اپنی تابڑ توڑ گوریلا کاروائیوں سے تھوڑے ہی دنوں میں فوج کی یہ حالت کردی کہ وہ ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں سے باہر نہیں نکلتی تھی، روس نے ترہ کئی حکومت کو نہتے مجاہدین کے ہاتھوں اس طرح سے بے بس ہوتے دیکھ کر ’’خلق پارٹی‘‘ ہی کے ایک اور کیمونسٹ لیڈر حفیظ اللہ امین کو آگے بڑھایاجو اس وقت وزیرِ اعظم تھا، اس نے ترہ کئی کو قتل کرکے کرسی پر قبضہ کرلیا، مگر چند ہی روز میں روسی حکام کو اندازہ ہوگیا کہ امین ان کا وافادار نہیں ہے، اس نے مجاہدین کے خلاف کاروئیاں کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔۔۔
چنانچہ روس نے ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء کو ٹڈی دل افواج افغانستان میں گھسادیں، جنہوں نے سب سے پہلے حفیظ اللہ امین کا خاتمہ کیااور اس کی جگہ ’’پرچم پارٹی‘‘ کے مشہور کیمونسٹ لیڈر’’ببرک کارمل‘‘ کو چیکوسلواکیہ سے لا کر کٹھ پتلی صدر بنا دیا۔
جب ببرک کارمل کئی سال تک روسی فوج کی بھرپور طاقت اور جدید ترین اسلحہ سے بھی جہاد کو نہ دبا سکا تو روس نے اسے بھی معزول کرکے اپنے چھٹے مہرے ’’ڈاکٹر نجیب اللہ‘‘ کو داؤ پر لگا دیا ۔۔۔ اور اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جو دنیا دیکھ رہی ہے۔
خلاصہ یہ کہ ’’روسی واردات‘‘ کا یہ تیسرا مرحلہ ہی تھا جو جہادِ افغانستان کا سبب بنا اور بالآخر روسی سامراج کے لیے پیغام موت ثابت ہوا۔افغانستان کے غیور مجاہدین نے اپنے پندرہ لاکھ شہیدوں کا خون دے کر نہ صرف خود کو کیمونزم کی غلامی سے بچایا بلکہ وہ روس کی مقبوضہ مسلم ریاستوں میں بھی خفیہ طور پر اپنی جانوں پر کھیل کر پہنچے، انہیں اسلامی لٹریچر اور قرآن کریم کے نسخے پہنچائے، اور جہاد افغانستان کے منظر و پس منظر سے آگاہ کرکے ان میں آزادی کی بے تاب لہر دوڑا دی، بلکہ یہ کام ان فوجیوں نے بھی بڑے پیمانے پر انجام دیا جنہیں روس نے مقبوضہ ریاستوں سے یہ سمجھ کر بھرتی کیا تھا کہ یہ اپنے آبائی دین کو بھول چکے، اور کیمیونزم کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں۔۔۔ ان میں کچھ ایسے ضرور تھے جنہیں صرف اتنا یاد رہ گیا تھا کہ ان کے والدین مسلمان تھی، لیکن بڑی تعداد ان فوجیوں کی تھی جو درپردہ اب بھی اپنے دین پر قائم تھے۔۔۔
ان فوجیوں نے جب افغانستان آکر مسلمانوں کے حالات ، ان کی مظلومیت، ان کی نمازوں اور ایمان افروز جہاد کا مشاہدہ کیا تو ان کا بھی ایمان جاگ اٹھا، ان فوجیوں کی ہمدردیاں مجاہدین کے ساتھ ہوگئیں، بعض مواقع میں تو انہوں نے اپنا اسلحہ تک مجاہدین کی نذر کردیا۔
روس نے یہ صورتحال دیکھتے ہی انہیں تو واپس بلا لیا تھا، لیکن جاگے ہوئے ایمان نے آزادی کی جو تازہ روح ان میں پھونک دی ہے، اس کا توڑ اب کسی کے پاس نہیں۔
افغانستان کی دلدل میں پھنس کر روس جس عبرت ناک معاشی بدحالی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ہے، اور اس کی مقبوضہ ریاستوں میں صورتحال جس تیزی سے بدل رہی ہے،  اس سے تو اب یہی مژدہ سنائی دیتا ہے کہ:
عام حریت کا جو دیکھا تھا خواب اسلام نے
اے مسلماں! آج تو اس خواب کی تعبیر دیکھ
اور ملحد چین جو ظلم مسلمانوں پر کر رہا ہے اس کے جاننے کے لیے یہ پڑھیں۔چین کے صوبہ زنجیانگ میں طویل عرصہ سے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم کا سلسلہ جاری ہے جس پر ساری دنیا خصوصاً عالم اسلام خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے‘ حتیٰ کہ دنیا میں انسانی حقوق کی بات کرنے والے ادارے اور افراد بھی اس تعلق سے چپ سادھے ہوئے ہیں۔اس سے پہلے سابق کمیونسٹ سوویت یونین کی ریاستوں میں بھی مسلمانو ں پر ایسے ہی مظالم ڈھائے گئے تھے حتیٰ کہ ان کو اپنے ایمان اور عقیدہ پر عمل کرنے کا اختیار نہیں تھا اور ان کو اسلامی عبادتیں ادا کرنے سے بھی روک دیا گیا تھا‘ جبر و تشدد کی انتہا ہوگئی تھی اور ان مظالم کی خبروں پر سخت سنسر شپ عائد تھی۔ یہی رویہ چین میں بھی اختیار کیا گیا ہے اور وہاں بھی مسلمانوں پر سخت پابندیاں عائد ہیں‘ چونکہ سرخ چین کئی پردوں کے پیچھے چھپا ہوا تھا اس لئے ان مظالم کی اطلاع دنیا تک نہیں پہنچ سکی تھی ‘ جیسی کہ روس کے مظالم کی اطلاع باہر نہیں آئی تھی۔ لیکن اب ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ہی چین کی خبریں باہر آنے لگی ہیں جن میں صوبہ زنجیانگ کے الغور مسلمانوں پر مظالم اور ان پر پابندیوں کی خبریں بھی شامل ہیں۔
 https://m.facebook.com/groups/891915894248140?view=permalink&id=1038094082963653

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔