Saturday 8 December 2018

عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی حکمت عملیاں....!

عالمِ اسلام کے خلاف مغرب کی حکمت عملیاں....!
............................................................................
۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد سے مغرب اسلام کو بہت سنجیدگی کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور مغربی مفکرین اسلام کے خلاف زبردست محاذ تیار کر کے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش کر رہے ہیں،  مغربی تھنک ٹینک صرف ریسرچ نہیں کرتے بلکہ وہ کسی خطرے کو سپرد خاک کر نے کے لئے عملی تجاویز بھی دیتے ہیں جو ان گوروں کا امتیازی وصف ہے - امریکہ کا ایک مشہور اور سب سے طاقتور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن RAND کا اپنی تحقیقی رپورٹوں کے ذریعے امریکی پالیسی کی تشکیل میں بہت بڑا کردار ہے، 2003 میں اس کی ایک مشہور سکالر ’’شیریل بنارڈ ( Cheryal Benard)‘‘ نے ایک تحقیقی مقالہ سوِل اور جمہوری اسلام،:شرکاء کار، وسائل اور حکمت عملی Civil democratic - Partners, Recources & strategies کے نام سے  پیش کیا جو اب بھی رینڈ کارپوریشن کے ویب سائٹ پر موجود ہے اور اب ایک کتاب کی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مقالہ نگار امریکہ کے سابق سفیر اور موجودہ پاک افغان امور کا نمائندہ خصوصی افغان نژاد "زلمے خلیل زاد" کی آسٹریلین یہودی بیوی ہے جو کہ امریکہ کے صیہونی تنظیم "رینڈ کارپوریشن" سے وابستہ ہے موصوفہ کی گزشتہ سال ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں انہوں نے کہا ہے کہ" سعودیہ کے معاشرہ کو مغرب کے رنگ میں رنگنے کا منصوبہ اس کو یہودی یا عیسائی بنانے کی کوشش سے ممکن نہیں کیونکہ لوگ قبول نہیں کریں گے بلکہ اس کو اسلامی جمہوریت اور سول سوسائیٹی کے نام سے مغرب کے رنگ میں رنگنا ممکن ہے"۔
یہ رپورٹ "رینڈ کارپوریشن" نے شائع کی ہے۔ اس کے علاوہ موصوفہ نے اپنے تھنک ٹینک کے ذریعے افریقہ میں قرآن پاک چھاپ کر تقسیم کیا، جس میں سے سورہ انفال حذف کر دیا گیا تھا -
زلمے خلیل زاد نے اعتراف کیا ہے کہ اسکی بیوی نے امریکی پالیسی سازوں کی ڈیمانڈپر" صوفی اسلام" کی اصطلاح گھڑی تھی۔
اب آتے ہیں مقالے کی طرف جس میں اس نے اسلام کو پڑھا اور بڑے غور سے پڑھ کر مسلمانوں کو چار حصوں میں تقسیم کیا اور پھر حکومت امریکہ کو مشورہ دیا کہ اب ان میں کون کون سی قسم کے مسلمان امریکہ اور مغرب کے لیے نقصان دہ اور کون اس کے لیے فائدہ مند ہے۔
وہ اپنےمقالہ(مضمون)کاآغاز اس سوال سے کرتی ہے کہ مسلمان آخر امریکہ کے خلاف کیوں بر سر ِپیکار ہیں، اس کی کیا وجوہ ہیں ؟ اوراس کے جواب پرپورے مقالہ اور مضمون کا دارومدار ہے۔ وہ تحریر کرتی ہے کہ مسلمان کو چونکہ بہت عرصے سے سیاست سےدور رکھا گیا، اسلیے اب اس میں بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے، لہٰذا مسلمان اپنے غلبے کے لیے مختلف طریقۂ کاراپنارہاہےاوروہ مختلف  رویوں میں بٹا ہوا ہے اور وہ گروہ چار طرح کے ہیں :
(۱) بنیاد پرست( Fundamentalist)
(۲) قدامت پسند (Traditionalism)
(۳) سیکولرسٹ (Secularist)
(۴) موڈرسٹ (Mederist)
اب ان چاروں گروہ کی نشاندہی کرنے کے بعد ان کے افکار نظریات کا مطالعہ کرے گی اور اس مطالعہ کی روشنی میں دیکھیں گی کہ کون گروہ اسلامی نظریات کا مکمل علم بردار ہے اور کون گروہ مغربی افکار کو پسند کرتا ہے۔

🍢بنیاد پرست (Fundamentalist)
یہ وہ گروہ ہے جو جہاد کو اور قتال کو اسلام کے غلبہ کی حکمت عملی کے طور پر اپنائے ہوئے ہیں یہ گروہ جمہوریت اور تمام مغربی افکارکا منکر ہے اور جہاد اور انقلاب کی تمام نظاموں پر ترجیح دیتا ہے اس کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک اسپریچوَل بنیاد  پرست  (Scriptural Fundamentalist) یہ گروہ اسی طریقہ کو اختیار کرتا ہے جو اسلامی مآخذ کے مطابق ہےاورجوخودکش حملہ کو صحیح نہیں قرار دیتا۔
اور دوسرا گروہ ریڈیکل بنیاد پرست (Radical Fundamentalist) یہ گروہ سب سے خطرناک گروہ ہے جو خودکش حملوں کو جائز سمجھتا ہےاس گروہ میں اس نے طالبان، القاعدۃ، حماس کو شامل کیا۔

🍢قدامت پسند (Traditionalist)
یہ گروہ اسلامی ثقافت رسم و رواج کی بڑی شدومد سے پاسداری کرتا ہے یہ گروہ مسلمانوں میں سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور بڑا گروہ ہے۔ یہ علمائے کرام ، مدارس اور دیندار لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ جہادیوں کی مدد کرتا ہے بقول اس کے۔

🍢سیکولرسٹ (Secularist)
یہ نجی طور پر اسلام پر عمل پیرا ہوتا ہے، مگر  دیگر معاملات زندگی میں مزہب کی مداخلت کا قائل نہیں لیکن اکثر معاملات میں قوم پرستی کو ترجیح دیتا ہے۔

🍢موڈرسٹ (Modereist)
یہ گروہ اسلام کی جدید تعبیر پیش کرتا ہے اور اسلام کو ایک لبرل مذہب تصور کرتا ہے مگر یہ کہتا ہے کہ اسلام  14 سو سال پہلے کی تہذیب ہے، لہٰذا اب ایسا جدید اسلام پیش کرنا ہو گا۔ جو موجودہ زمانہ سے ہم آہنگ ہو (اور ایسا اسلام آجکل جاوید غامدی پیش کر رہا ہے.)
.............................................................................
#مقالے میں امریکی حکومت کے لئے سفارشات :-
"سیکولرز اور جديديت پسندوں كى امداد كرنا امريكہ كو مسلم دنيا كے متعلق اپنی خارجہ پاليسى كا اہم جز بنانا چاہیے- انکی تعلیمى اور ثقافتى سرگرميوں كے متعلق امداد فراہم كرنا ہمارى ترجيح ہونى چاہيے، انہيں وسائل كى ضرورت ہو تو فراہم كئے جائيں- جبكہ انتہا پسندوں كے لئے وسائل كا حصول ناممكن بنا ديا جائے. ان گروہوں كو توڑ پهوڑ كر ان كى جگہ اعتدال پسندوں كو كنٹرول دياجائے- مدارس اور مساجد كى اصلاحات پر خصوصى توجہ دى جائے- مدارس كے نصابِ تعليم كو جديد تقاضوں كے مطابق ڈهالا جائے- اعلىٰ تعليم كے ايسے بورڈ قائم كئے جائيں جو سركارى اور غير سركارى تعلیمى اداروں كے نصاب كى مانيٹرنگ كريں اور ضرورى ہو تو اس پر نظرثانى كريں- “
............................................
#حکمت عملی، تجاویز اور لائحہ عمل:-
رپورٹ میں جديديت پسند اور سيكولر مسلمانوں کو مغرب كى اقدار اور پاليسيوں كےلئے ذہنى طور پر بے حد قريب قرار دیا گیا اور جو حكمت ِعملى تجويز كى گئى ہے، اس كا اوّلين نقطہ ہے:
"Support the modernist first."
يعنى ”سب سے پہلے جديديت پسندوں كى امداد كرو-“
اور امداد كے درج ذیل طریقے بتائے گئے :
* اسلام کی جدید تعبیر کرنے والے modernist علماء کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تک بھرپور رسائی دی جائے۔
* جديد ذہن كے مالك مسلمان سكالرز كى نشاندہى كريں وہ ويب سائٹ پر روزمرہ زندگى كے مسائل كے حل بيان كريں اور اسلامى قانون كى جديد تشريحات پيش كريں-“
*”ان كے تصنيفى كاموں كو شائع كركے سستے داموں فروخت كريں-
* ان كى حوصلہ افزائى كريں كہ عوام اور بالخصوصى نوجوانوں كے لئے لكھیں-
* ان كے نظريات كو اسلامى ممالك كے تعليمى نصاب ميں شامل كرائيں-
* ان كوپبلك پليٹ فارم مہيا كريں-
* بنيادى مذہبى معاملات كے متعلق ان كى تعبيرات كو بنياد پرستوں كے مقابلے ميں عوام ميں متعارف كروائيں-
* مسلمان نوجوانوں كے سامنے ’سيكولر ازم‘ اور ’ماڈرن ازم‘ كو اسلام كے مقابلے ميں ايك متبادل ثقافت اور نظريہ كے طور پر پيش كريں-
* مسلمان ممالك كے ذرائع ابلاغ اور نصاب ميں اسلام سے پہلے كى غيرمسلم تاريخ كے متعلق زيادہ سے زيادہ آگاہى اور رغبت پيدا كريں-
* غير سركارى اداروں NGOs كو آگے لانے ميں بهرپور تعاون كريں-“
*” سيكولر ثقافتى اداروں اور پروگراموں كى بهرپور حوصلہ افزائى كريں-

دوسرى اہم حكمت ِعملى :-
"Support the traditionalists agaist the fundamentalists."
يعنى: ”بنياد پرستوں كے خلاف روايت پسندوں (مساجد مدارس سے منسلک علماء و عام دیندار طبقہ) كى پيٹھ ٹهونكيں-“ ، روايت پسندوں اور بنياد پرستوں كے درميان اتحاد كى حوصلہ شكنى كريں- یہ کبھی بھی بنیاد پرستوں کے ساتھ مل کر ہمارے لیے خطرے کا مؤجب بن سکتے ہیں اس لیے بنياد پرستوں كے متشددانہ طرزِ عمل كے خلاف روايت پسندوں كى تنقيد كو بڑها چڑها كر بيان كريں اور روايت پسندوں اور بنياد پرستوں كے درميان اختلافات كو ہوا ديں-
بنياد پرستوں پر پورى قوت سے ضرب لگائيں،(جیسے مولانا سمیع الحق کو شہید کیا گیا) ان كى اسلامى اور نظرياتى بنيادوں كے كمزور پہلووٴں كو شدت سے نشانہ بنائيں، ان كے نظريات كو اس طرح بيان كريں كہ نہ تو وہ نوجوان طبقہ، نہ ہى روايتى عوام الناس كے لئے باعث ِكشش يا باعث ِتسكین ہوں- ان كى بدعنوانى، بربريت، جہالت، تعصب، عدم روادارى اور اسلام كے اُصولوں كے انطباق ميں غلطیوں كى نشاندہى بار بار كريں اور يہ باور كرائيں كہ وہ حكومت اور قيادت كے اہل نہيں ہيں- (جیسے طالبان کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا)
مزید امریکی حکومت کو اپنے وسائل کے ذریعہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا جیسے ٹی وی چینلز ، انٹرنیٹ، سیڈیز، ویڈیو، ویسی آر وغیرہ کو موڈریسٹ گروہ کےابھارنے میں لگانے چاہیے، ان ہی کے اسلام کو صحیح تصور کرنا چاہیے اور موڈریسٹ کو قدامت پسندوں کی جگہ بٹھاناہوگااسکےلیے علما کی علمی حیثیت کو ختم کرنا ہو گا تب ہی مغربیت کا فروغ ممکن ہے،اور اس کام میں تھوڑا بہت سہاراسیکولرسٹ حضرات سے بھی  لینا چاہیے۔
اور پھر آخر میں تحریر کرتی ہے کہ ہمیں یہ محنت کرنی ہے کہ کس طرح مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ موڈرسٹ ہو جائے یا وہ نہیں تو کم سے کم سیکولرسٹ ہو جائے تو ہماری حکومت بغیر کسی مدمقابل اور خطرے کی لمبی مدت باقی رہ سکتی ہے، ورنہ پہلے دو گروہ تو ایسی ہے کہ یہ کبھی بھی ہمارے ہم خیال نہیں ہو سکتے -

رپورٹ کا لنک ⬇
http://www.rand.org/content/dam/rand/pubs/monograph_reports/2005/MR1716.pdf

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔