Thursday, 27 December 2018

اسلام اور ریاست غامدی فلسفہ کا محاسبہ

اسلام اور ریاست غامدی فلسفہ کا محاسبہ

اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے ۔ایک چھوٹے رکن سے لے کر ایک بڑے رکن تک سب کی اصولی بحث اسلام نے بیان کی ہے ۔وضو غسل ، مباشرت سے لیکر تجہیز و تدفین میں استعمال کیے جانے والے کفن کے کپڑوں تک سب کچھ بیان کیا ہے ۔بھلا ایسا دین ایک حکومت کے لئے کیوں کوئی لائحہ عمل نہ دے سکا یہ سوچنے کی بات ہے ۔اسلامی حکومت ایک اصولی حکومت کی عکاسی کرتی ہے جس میں جم غفیر کو جمع کرنا مقصود نہیں بلکہ اللہ کے قانون کی پاسداری کرنے والے ایک خلیفہ کی ضرورت ہے ۔غامدی صاحب جمہوریت کو اسلام بنانے پہ تلے ہیں جب کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ریاست کو کوئی مذہب نہیں ہوتا لیکن ایک جمہوری ریاست کا مذہب کیسے اسلام ہو سکتا ہے؟؟ اس کو مسلمان بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو محترم جمہوریت کو مسلمان بنانے کی تگ و دو کیوں کی جارہی ہے ۔حالیہ دنوں میں غامدی صاحب نے اسلام اور ریاست کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں دلائل تو نہ دئے لیکن صرف اپنا نقطہ نظر الفاظ کے ہیر پھیر میں بیان کیا ۔چند پہلو بہت ہی اچھے تھے لیکن جو اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں یہ کالم ان کا محاسبہ ہے ۔غامدی صاحب جمہوریت پہ فداء ہیں اور چاہتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو اپنا حاکم چننے کا حق حاصل ہے یہاں جس قوم یا امت جس کا نام مسلمان ہے وہ ہر قسم کے نیک وبدلوگوں سے بھری ہوئی ہے ۔کردارکے اعتبار سے جتنی قسمیں کافر قوموں میں پائی جاتی ہیں ، اتنے ہی اس قوم میں بھی موجود ہیں۔ عدالتوں میں جھوٹی گواہیاں دینے والوں سے لیکر رشوت، چوری، زنا، جھوٹ اور دوسری تمام اخلاقی برائیوں میں یہ کفار سے کچھ کم نہیں ہیں۔ پیٹ بھرنے اور دولت کمانے کےلئے جو تدبیریں کفار کرتے ہیں وہی اس قوم کے لوگ بھی کرتے ہیں۔ مسلمان امراءدولت پاکر، یا ایک مسلمان عہدہ دار حکومت پاکر وہی سب کچھ کرتا ہے جو غیر مسلم کرتا ہےبلکہ اس سے بھی بدتر ۔ یہ اخلاقی حالت جس قوم کی ہو اس کی تمام کالی اور سفید بھیڑوں کو جمع کرکے ایک منظم گلہ (جمہوریت ) بنا دینا اور سیاسی تربیت سے ان کو لومڑی کی ہشیاری سکھانا، یا فوجی تربیت سے ان میں بھیڑیئے کی درندگی پیدا کردینا جنگل کی فرما ں روائی حاصل کرنے کےلئے تو مفید ہوسکتا ہے ، مگر میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اعلآء کلمہ اللہ کس طرح ہوسکتا ہے۔
یہ غامدی صاحب کی وہ جمہوریت ہے جس پہ وہ فداء ہیں ۔بھلا غامدی صاحب کا کردار حکومت میں ایک گلی میں کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنے والے کے برابر کرنا جہالت ہی ہوگی. لیکن ان سب کے حقوق یکساں ہیں اور یہی اسلام کی تعلیمات ہیں ۔یہ اسلامی نظام ایک ایسی دعوت تھی جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بحیثیت لیڈر کے ایسا لائحہ عمل دیا جس میں قبیلوں سے رنگ و نسل سے بڑھ کر انصاف کا بول بالا ہو اور یہی وجہ تھی کہ یہ دعوت حبشہ کے بلال رضی اللہ عنہ ، روم کے صہیب رضی اللہ عنہ ،فارس کے سلمان کو اپنی طرف کھینچ لائی اور یہی اسلامی حکومت کا نظریہ ہے ۔اس میں اسلامی نظام اور منظم گلہ یعنی جمہوریت کا فرق واضح کرنا مقصود تھا ۔اسلام میں حاکمیت اللہ کی اور قانون بھی اللہ کا ہے جب کہ جمہوریت میں حاکمیت بھی عوام کی قانون بھی عوام کا۔اور غامدی صاحب نے برملا کہا ہے کہ اسلام کی کسی قانون کی واجب الاطاعت حیثیت اس وقت ہوگی جب عوام کے نمائندوں کی اکثریت اس قبول کرے گی ۔بھلا اگر عوام کے نمائندوں کی اکثریت اللہ کے قانون کو بھی منسوخ کر سکتی ہے ایک مسلمان کے لئے یہ بات واضح ہونی چاہئے کہ اسلام اور جمہوریت کا کوئی واسطہ نہیں ۔اب غامدی صاحب کے چند اعتراضات کا جواب یہ ہے ۔
غامدی صاحب کے بقول آج کی انتہا پسندی اور جرم کی ذمہ دار مدارس کے لوگ ہیں ۔ محترم ہم یہ نہیں کہتے مدارس مقدس گائے ہیں ہمارے لئے یقینا کچھ لوگ اس میں مجرم ضرور ہین لیکن تمام مدارس اس کے ذمہ دار نہیں ہیں ۔کیا آج یہ بات واضح نہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنانے کے لئے میں چارلی ہوں مہم کا حصہ بننے والے ممالک کی وجہ سے ہم عیسائیت پہ الزام دے سکتے ہیں ہرگز نہیں اسی طرح کس بھی شعبہ ہائے زندگی کے چند افراد کی غلطیوں کی وجہ سے تمام کو ایک جیسا کہنا بددیانتی اور تعصب ہوگا.
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت تو اصلاً فرد کے لیے ہے لہذا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے .یا اس کو کسی قرار داد کے ذریعے مسلمان بنانے کی ضرورت ہوتی ہے. لیکن اسی کالم میں جہاد کے جیسے اہم موضوع پہ محترم نے کہا کہ اس کے احکام دراصل ریاست کے لیے ہی ہیں یعنی اجتماعیت کے لیے اس کا فردا حکم نہیں ہے تو غامدی صاحب یہاں تضاد کیوں؟ ؟؟ .جبکہ اسلام کی تعلیم ہے "کنتم خیرامہ "مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہاگیا ہے کہ تمام امتوں میں سے تم بہترین امت ہو اور تمہارا کام نیکی حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے یہاں پر اجتماعیت ہی مراد ہے نہ کہ فرد.
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ خلافت کوئی دینی اصطلاح نہیں ہے جبکہ آگے چل کر وہ خود ہی کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کی حدیث بیان کی جس کا مفہوم ہے کہ خروج بدترین جرم ہے اس کے مرتکبین جاہلیت کی موت مریں گے۔غامدی صاحب سے سوال ہے کہ اگر اسلام میں اجتماعی نظام کو کوئی تصور نہیں ہے اور خلافت بھی کوئی دینی اصطلاح نہیں ہےتو پھر خروج جس کو غامدی صاحب بدترین جرم کہہ رہے ہیں وہ کیا ہے؟خروج کسے کہتے ہیں؟اور خروج کیا کس کے خلاف جاتا ہے؟افراد کے خلاف یا پھر اجتماعی نظام ِ سیاست یعنی خلافت یا اسلامی حکومت کے خلاف؟یا پھر کفار کے سرداروں کے خلاف؟جن کے خلاف اللہ نے سب سے پہلے قتال کرنے کا حکم دیا ہے،"فقاتلو آئمۃ الکفر"جس حدیث کا سہارا لے کر غامدی صاحب خروج کو بدترین جرم قرار دے رہے ہیں اس حدیث سے تو بالکل واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں اجتماعیت کا تصور اور انتشار سے منع کیا ہے۔اس حدیث کو بیان کرے غامدی صاحب خود ہی اپنے الفاظ کی زد میں آگئے ہیں
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اسلام کو قومیت نہ سمجھا جائے. یعنی یہ نہ کہا جائے کہ ہم سب مسلمان ایک قوم ہیں. غامدی صاحب سے ہم پوچھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سورت التوبہ کی آیت 14 میں فرمایا ہے کہ ویشفِ صدورا قوم مومنین یعنی یہاں مومنین کی اللہ تعالیٰ نے ایک قوم بیان کی ہے،اس کے علاوہ قوم موسیٰ،قوم نوح،قوم ہود یہ سب اسی قرآن مقدس میں مذکور ہیں جس قرآن میں غامدی صاحب کو اسلام کی بنیاد پر قومیت نظر ہی نہیں آئی۔ قرآن میں مسلمانوں کو "امہ"کہاگیا ہے جس کا ایک معنی قوم بھی بنتا ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں جو اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کرتے ہیں اگر وہ کوئی ایسا عقیدہ اختیار کرتے ہیں جسے عالم یا علماء صحیح نہیں سمجھتے اس کو گمراہی قراردیاجاسکتا ہے غیر مسلم یا کافر نہیں قراردیاجاسکتا،کیونکہ اس کے حاملین بھی قرآن سے استدلال کررہے ہیں۔غامدی صاحب عالم یا علماء کا غلط کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا،اصل قرآن وحدیث ہی ہے ۔آپ نے قرآن سے استدلال کی بنیاد پر ان کو مسلم ہی سمجھا جبکہ قادیانی بھی قرآن میں لفظی ومعانی تحریف کرکے مرزا قادیانی کو نبی ثابت کرتے ہیں،کیا ان کو بھی کافر نہیں کہاجائے گا؟شاید اسی وجہ سے آپ کو مسلمانوں کی اجتماعیت سے اتنا اختلاف ہے۔غامدی صاحب آگے کہتے ہیں کہ شرکیہ اور کفریہ کام کرنے والوں کو صرف تنبہ کی جاسکتی ہے،وہ اس تنبہ سے باز آئیں یا نہ آئیں ان کی تکفیر یعنی ان کو کافر نہیں قراردیاجاسکتا۔ہم غامدی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ حکومت پاکستان نے قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کردیا ہے آپ کو تو یقیناً اس پر بھی اختلاف ہوگا؟پھر قادیانیوں کو مسلمان ثابت کرنے پر بھی کچھ لکھیں،تاکہ لوگوں پر آپ کی حقیقت بالکل واضح ہوسکے۔اگر کفر اور شرک کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرنا جائز ہی نہیں ہے تو پھر جس حدیث کو آپ نے بیان کرکے خوارج کی موت کو جاہلیت کی موت کہا ہے،انہیں جاہلیت کی موت مرنے والے خوارج کے بارے نبیﷺ نے فرمایا ہے کہ خوارج دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے ،اور یہی وجہ ان کی جاہلیت کی موت پرمرنے کی ہے کہ وہ ملت سے خارج ہوجائیں گے۔اس کی وہ اجتماعیت سے دوری ہے۔
غامدی صاحب کہتے ہیں کہ" شرک کفر اور ارتداد یقیناً سنگین جرائم ہیں،لیکن ان کی سزا اللہ دے گا انسان نہیں، سزا اس وقت تک نہیں دی جاسکتی جب تک وحی آئے یا اللہ کا رسول آئے،اور ہرشخص جانتا ہے کہ رسول اللہﷺ کے بعد اس کا دروازہ ہمیشہ کےلیے بندہوچکا ہے"
۔غامدی صاحب نبی ﷺ نے مسلمان کے قتل کو کفرکہا ہے اس کفر کی سزا دنیا میں کیوں ہے؟اور آپ خود قتل کی سزا قتل کہتے ہیں۔یہ بھی کفر ہے تو اس کی سزا دنیاو آخرت میں اللہ ہی دے گا جیسا کہ آپ کا موقف ہے۔اگر کفر کرنے والے کےلیے یہ سزا ہوسکتی ہے تو ارتداد کرنے والے کےلیے کیوں نہیں؟ غامدی صاحب کفر اور ارتداد دو الگ الگ چیزیں ہیں۔اور اسلام نے ان کے بارے الگ الگ احکام بیان کئے ہیں۔لیکن آپ ان کو اکھٹا کررہے ہیں،جو کہ آپ کی "علمی قابلیت"کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ویسے اگر اسلام کی بیان کردہ ارتداد کی سزا کا آپ انکار کرتے ہیں تو پھر وہ تمام احکام جن پر اسلام میں سزائیں مقررکی گئی ہیں،مثلاً چوری،زنا،قتل،بغاوت وغیرہ جن پر اسلامی نہ سہی خود ساختہ سزائیں تو دنیا کا ہرمعاشرہ دیتا ہے،اگر ارتداد جیسے بڑے جرم کی سزا اللہ تعالیٰ آخرت میں ہی دے دنیامیں کسی کو دینے کا حق نہیں ہے تو پھر اس سے چھوٹے جرائم کی سزائیں دینا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟غامدی صاحب فلسفوں کی دنیا سے نکل کردیکھے. نبی ﷺ نے فرمایا:جو دین بدل دے اس کو قتل کردو(بخاری)ابو بکر صدیق کا منکرین ِزکواۃ کے خلاف قتال اس کو کیا کہیں گے.
غامدی صاحب کے مضمون کے جواب میں اہل علم مولانا ابتسام الہی ظہیر اور مفتی تقی عثمانی صاحب نے دے دیا ہے. میں نے یہ کچھ چیدہ چیدہ نکات کا جواب لکھا تھا. لیکن اب علمی شخصیات کی طرف سے جواب پر خوشی ہوئی. اسی لیے مختصر رد پیش خدمت ہے
آپ کا مسلمان بھائی
سوئے مقتل

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔