سائنس کے بانیوں کا وجود خدا پہ ایمان اور ارتقاءکی وسیع آموزش،نظریہ ارتقاء غلط ہونے کے بعد بھی اس حد تک مقبول کیوں ہے؟ دنیا میں ارتقائی پروپیگنڈے اور عوامی برین واشنگ کی کہانی
اقتباس:کتاب ارتقا ایک دھوکہ
مصنف:ہارون یحییٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظر یے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔ اس صورتحال کا مشاہدہ دوسری مثالوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو تنویم یعنی نیند کے زیر اثر کردیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ وہ جس بستر پر لیٹا ہوا ہے وہ ایک بستر نہیں بلکہ موٹر کار ہے تو وہ شخص عمل تنویم کے بعد بستر کو موٹر کار ہی تصور کرے گا۔ اس کے حساب سے اس کا یہ تجزیہ نہایت منطقی اور مناسب ہے کیونکہ اس کا ذہن اس کو یہی بتاتا ہے اور اس کا ذہن اس معاملے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہیں۔ یہ تمام مثالیں آموزش کے عمل کی حسنِ کارکردگی، نظام اور طاقت کو بیان کرتی ہیں۔ آموزش ایک باقاعدہ سائنسی حقیقت ہے جو کہ لاتعداد تجربوں سے ثابت کی جاچکی ہے۔ اس کا ذکر سائنسی جریدوں اور نصابی کتابوں میں موجود ہے اور اس کا استعمال نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے عام ہے۔
نظریہ ارتقاءاور عالمی مادی نظریہ لاکھوں لوگوں کے اوپر ایسی ہی آموزش کے ذریعے مسلط کئے گئے ہیں ۔جو لوگ مسلسل مختلف نشریاتی ذریعوں، تعلیمی ذرائع اور سائنسی اعلانات سے اس ارتقائی آموزش کے زیر اثر رہتے ہیں وہ اس نظریئے کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نظریہ دراصل منطق کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ آموزش سائنسدانوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سائنس کے شعبے میں آنے والے نئے نام اس مادی نقطہ نظر کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اپنانے لگتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہی سیکھا اور سنا ہوتا ہے۔ اس سحر کے زیر اثر کئی ارتقائی سائنسدان انیسویں صدی کے ان غیر منطقی اور فرسودہ ارتقائی دعوﺅں کی سائنسی تصدیق اپنی زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اور بھی ایسے اضافی نظام ہیں جو کہ سائنسدانوں کو ارتقاءپسند اور مادہ پرست ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کسی سائنسدان کے نامور ہونے کے لئے اور اپنے شعبے میں تعلیمی اعزاز حاصل کرنے کے لئے اس کا ایک مخصوص معیار کی سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ان معیارات میں سرِ فہرست اس کا ارتقاءپر یقین ہے۔ سائنس کے جس نظام سے یہ سائندان منسلک ہوتے ہیں وہ ان کو ان کی تمام پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی کٹر عقیدے کی تلقین اور یقین میں سرگرداں رکھتا ہے۔ امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی 2000ء میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ نظر کے خلاف ثبوت بھی اےسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“
یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ بقیہ کتاب میں جدید سائنس کا ارتقاءکے خلاف ثبوت کا معائنہ کیا جائے گا ۔ ان میں کئی ثبوت ارتقاءپسند سرے سے ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں اور کئی کو ’خاص قسم کے‘ جریدوں میں ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ثبوت اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ہونے کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ پڑھنے والے اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ نظریہ ارتقاءایک ایسا دھوکہ ہے جس کو سائنس نے محض تخلیق کی حیثیت سے انحراف کرنے کے لئے ہر قدم پر سہارا دیا ہے۔ پڑھنے والوں سے صرف یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سحر سے اپنے دماغ کو آزاد کرلیں جس نے ان کیحقیقت کو جانچنے کی صلاحیت کو جکڑ رکھاہے اور اس کتاب میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس کتاب پر غور کرےں تو وہ شفاف سچ کو پالےں گے۔ لازم الوقواع سچ جو کہ جدید سائنس نے ہر پہلو سے ثابت کردیا ہے کہ وہ یہ ہے جاندار نسلیں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے وجود میں آئی ہیں۔ اگر انسان صرف اپنی ہی ذات کی گہرائی اور پیچیدگی پر غور کرے تو وہ با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس ذات نے اس کو پانی کے ایک قطرے سے جیتا جاگتا انسان بنادیا وہی ذات ہر جاندار کی تخلیق کے پیچھے ہے۔
زیادہ تر لوگ جو کہ جدید سائنس کے بانی تصور کئے جاتے ہیں وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے تھے۔ سائنس کو پڑھنے کے دوران وہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات اس میں موجود جاندار اور اس کے اصولوں کو پرکھنے کی مستقل سعی کرتے رہے۔ کوپرنیکس، کپلر اور گیلیلیو جیسے نجومی، علمِ معدوم حیوانات و نباتات کے بانی کوویر، علمِ نباتات اور علمِ حیوانات کے بانی لیناےس اور نےوٹن جس کو سب سے عظیم ترین سائنسدان کہا جاتا ہے، سب نے سائنس کا مطالعہ خدا پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے کیا۔ ان کے نقطہ نظر میں اس نظریئے کا بھی دخل تھا کہ تمام کائنات خدا کی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے . 2
ہمارے دور کا ایک اور عظیم سائنسدان آلبرٹ آئنسٹائن ایک اور خدا کا عقیدہ مند سائنسدان تھا۔ اس کے الفاظ میں:
”میں گہرے ایمان سے عاری کسی سچے سائنسدان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ دین کے بغیر سائنس معذور ہے۔“ 3
جدید طبیعات کے ایک بانی جرمن سائنسدان میکس پلانک کا کہنا ہے کہ ”کسی بھی سنجیدہ نوعیت کے سائنسی کام میں ملوث ہونے والے سائنسداں کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی عبادتگاہ کے داخلی دروازے کے اوپر یہ الفاظ آویزاں ہیں ”تمہارے اندر ایمان بالغیب لازمی ہے“۔ یہ وہ وصف ہے جس کے بغیر سائنسدان کا سائنسدان ہونا ناممکن ہے۔“ 4
حوالہ جات:
1:Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, pp. 235-236
4 / total 21
2: Dan Graves, Science of Faith: Forty-Eight Biographies of Historic Scientists and Their Christian Faith, Grand Rapids, MI, Kregel Resources.
3:Science, Philosophy, And Religion: A Symposium, 1941, CH.13.
4: Max Planck, Where is Science Going?, www.websophia.com/aphorisms/science.html
اقتباس:کتاب ارتقا ایک دھوکہ
مصنف:ہارون یحییٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں کی تخلیق کے بارے میں بند ذہنی کی ایک وجہ وہ سحر ہے جو کہ ان کی منطق اور عقل پر طاری ہے۔ یہ وہی سحر ہے جو کہ دنیا بھر میں ارتقائی نظریوں کی قبولیت کی وجہ ہے۔ سحر سے مراد عام ارتقائی تعلیم کے ہاتھوں ہونے والی دماغ شوئی ہے۔ لوگوں کو نظریہ ارتقاءکی درستگی کے بارے میں اتنی کٹر تعلیم دے دی جاتی ہے کہ ان کا ذہن اس نظر یے کے ناقص ہونے کے کسی امکان کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ یہ کٹر تعلیم دماغ اور سوچ پر منفی اثرات ڈالتے ہوئے فیصلے اور سمجھ کی صلاحیت کو مفلوج کردیتی ہے۔ دماغ آخر کار اس کٹر عقیدے کی تعلیم کے مستقل زیر اثر رہنے کی وجہ سے حقیقت کو اسی زاویہ سے پرکھنا شروع کردیتا ہے جس کی اس کو مشق کروائی گئی ہو۔ اس صورتحال کا مشاہدہ دوسری مثالوں سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر کسی کو تنویم یعنی نیند کے زیر اثر کردیا جائے اور اس کو بتایا جائے کہ وہ جس بستر پر لیٹا ہوا ہے وہ ایک بستر نہیں بلکہ موٹر کار ہے تو وہ شخص عمل تنویم کے بعد بستر کو موٹر کار ہی تصور کرے گا۔ اس کے حساب سے اس کا یہ تجزیہ نہایت منطقی اور مناسب ہے کیونکہ اس کا ذہن اس کو یہی بتاتا ہے اور اس کا ذہن اس معاملے میں کسی شک و شبہ کا شکار نہیں۔ یہ تمام مثالیں آموزش کے عمل کی حسنِ کارکردگی، نظام اور طاقت کو بیان کرتی ہیں۔ آموزش ایک باقاعدہ سائنسی حقیقت ہے جو کہ لاتعداد تجربوں سے ثابت کی جاچکی ہے۔ اس کا ذکر سائنسی جریدوں اور نصابی کتابوں میں موجود ہے اور اس کا استعمال نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے عام ہے۔
نظریہ ارتقاءاور عالمی مادی نظریہ لاکھوں لوگوں کے اوپر ایسی ہی آموزش کے ذریعے مسلط کئے گئے ہیں ۔جو لوگ مسلسل مختلف نشریاتی ذریعوں، تعلیمی ذرائع اور سائنسی اعلانات سے اس ارتقائی آموزش کے زیر اثر رہتے ہیں وہ اس نظریئے کی اصل حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ نظریہ دراصل منطق کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔ یہ آموزش سائنسدانوں کو بھی اپنی طرف کھینچتی ہے۔ سائنس کے شعبے میں آنے والے نئے نام اس مادی نقطہ نظر کو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ اپنانے لگتے ہیں کیونکہ انہوں نے یہی سیکھا اور سنا ہوتا ہے۔ اس سحر کے زیر اثر کئی ارتقائی سائنسدان انیسویں صدی کے ان غیر منطقی اور فرسودہ ارتقائی دعوﺅں کی سائنسی تصدیق اپنی زندگی کا مقصد بنالیتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ اور بھی ایسے اضافی نظام ہیں جو کہ سائنسدانوں کو ارتقاءپسند اور مادہ پرست ہونے پر مجبور کردیتے ہیں۔ مغربی ممالک میں کسی سائنسدان کے نامور ہونے کے لئے اور اپنے شعبے میں تعلیمی اعزاز حاصل کرنے کے لئے اس کا ایک مخصوص معیار کی سوچ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ان معیارات میں سرِ فہرست اس کا ارتقاءپر یقین ہے۔ سائنس کے جس نظام سے یہ سائندان منسلک ہوتے ہیں وہ ان کو ان کی تمام پیشہ ورانہ زندگی کے دوران اسی کٹر عقیدے کی تلقین اور یقین میں سرگرداں رکھتا ہے۔ امریکہ کا ماہرِ لحمیاتی حیاتیات جاناتھن ویلز اس عمل کے دباﺅ کا ذکر اپنی 2000ء میں چھپنے والی کتاب ”آئیکانز آف ایوولوشن“ میں ان الفاظ میں کرتا ہے۔
”کٹر ارتقاءپسند ثبوت کو تنگ نظری سے پرکھنے کی عادت ڈالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ سائنس پر عمل کرنے کا یہی واحد طریقہ ہے۔ اس طریقہ کار کے مخالفوں کو غیر سائنسی قراردے دیا جاتا ہے۔ ان کے مضمون معیاری جریدے چھاپنے سے انکار کردیتے ہیں کیونکہ ان کے اداریے کٹر سوچ رکھنے والے ارتقاءپسند ہوتے ہیں۔ مخالف گروہ کے لوگوں کو حکومت بھی مالی امداد دینے سے انکار کردیتی ہے۔ یہی حکومت کٹر سوچ رکھنے والوں کو بنفس نفیس آگے آنے کی دعوت دیتی ہے۔بالآخر اس نظریئے کے مخالفین سائنسی حلقوں سے مکمل طور پر خارج کردیئے جاتے ہیں۔اس پورے عمل کے دوران ڈارون کے نقطہ نظر کے خلاف ثبوت بھی اےسے ہی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں جیسے ڈاکوﺅں کے خلاف شہادت دینے والوں کا وجود۔ دوسری صورت میں یہ ثبوت صرف ان خاص الخاص رسائل میں چھاپا جاتا ہے جہاں تک صرف ایک ماہر تحقیق کار کی ہی پہنچ ہوتی ہے ، عام عوام کی نہیں۔ جب مخالفین کو چپ کرواکر تمام ثبوت کو دفن کردیا جاتا ہے تو یہ کٹر عقیدہ مند دنیا کے آگے اعلان کرتے ہیں کہ ان کے نظریئے میں مزید سائنسی بحث کی گنجائش موجود ہے اور اس کے خلاف فی الحال کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔“
یہ وہ اصلیت ہے جو ارتقاءپسندوں کے اس اصرار کے پیچھے ہے کہ ’نظریہ ارتقاءابھی بھی سائنسی دنیا میں قبول کیا جاتا ہے‘۔ اس نظریئے کے زندہ رہنے کی وجہ یہ نہیں کہ اس کے اندر کسی قسم کا سائنسی وزن موجود ہے بلکہ اس کی وجہ اس کا ایک فکریاتی ذمہ داری ہونا ہے۔ بہت سے سائنسدان حقیقت کا علم رکھتے ہوئے بھی حق کے لئے آواز بلند کرکے اپنی سائنسی حلقوں میں بنی ہوئی ساکھ کو مٹی میں ملانا نہیں چاہتے۔ بقیہ کتاب میں جدید سائنس کا ارتقاءکے خلاف ثبوت کا معائنہ کیا جائے گا ۔ ان میں کئی ثبوت ارتقاءپسند سرے سے ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں اور کئی کو ’خاص قسم کے‘ جریدوں میں ہمیشہ کے لئے دفن کردیا گیا ہے۔ یہ تمام ثبوت اﷲ تعالیٰ کی ذات کے ہونے کا کھلا اعتراف کرتے ہیں۔ پڑھنے والے اس بات پر متفق ہوجائیں گے کہ نظریہ ارتقاءایک ایسا دھوکہ ہے جس کو سائنس نے محض تخلیق کی حیثیت سے انحراف کرنے کے لئے ہر قدم پر سہارا دیا ہے۔ پڑھنے والوں سے صرف یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اس سحر سے اپنے دماغ کو آزاد کرلیں جس نے ان کیحقیقت کو جانچنے کی صلاحیت کو جکڑ رکھاہے اور اس کتاب میں موجود مواد پر کھلے دماغ اور سنجیدگی سے غور و فکر کریں۔ اگر وہ اس سحر سے آزاد ہوکر آزادی سوچ اور تعصب کے بغیر اس کتاب پر غور کرےں تو وہ شفاف سچ کو پالےں گے۔ لازم الوقواع سچ جو کہ جدید سائنس نے ہر پہلو سے ثابت کردیا ہے کہ وہ یہ ہے جاندار نسلیں کسی اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ تخلیق کے عمل سے وجود میں آئی ہیں۔ اگر انسان صرف اپنی ہی ذات کی گہرائی اور پیچیدگی پر غور کرے تو وہ با آسانی سمجھ سکتا ہے کہ جس ذات نے اس کو پانی کے ایک قطرے سے جیتا جاگتا انسان بنادیا وہی ذات ہر جاندار کی تخلیق کے پیچھے ہے۔
زیادہ تر لوگ جو کہ جدید سائنس کے بانی تصور کئے جاتے ہیں وہ خدا کی ذات پر یقین رکھتے تھے۔ سائنس کو پڑھنے کے دوران وہ خدا کی بنائی ہوئی کائنات اس میں موجود جاندار اور اس کے اصولوں کو پرکھنے کی مستقل سعی کرتے رہے۔ کوپرنیکس، کپلر اور گیلیلیو جیسے نجومی، علمِ معدوم حیوانات و نباتات کے بانی کوویر، علمِ نباتات اور علمِ حیوانات کے بانی لیناےس اور نےوٹن جس کو سب سے عظیم ترین سائنسدان کہا جاتا ہے، سب نے سائنس کا مطالعہ خدا پر یقین اور ایمان رکھتے ہوئے کیا۔ ان کے نقطہ نظر میں اس نظریئے کا بھی دخل تھا کہ تمام کائنات خدا کی تخلیق کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے . 2
ہمارے دور کا ایک اور عظیم سائنسدان آلبرٹ آئنسٹائن ایک اور خدا کا عقیدہ مند سائنسدان تھا۔ اس کے الفاظ میں:
”میں گہرے ایمان سے عاری کسی سچے سائنسدان کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ دین کے بغیر سائنس معذور ہے۔“ 3
جدید طبیعات کے ایک بانی جرمن سائنسدان میکس پلانک کا کہنا ہے کہ ”کسی بھی سنجیدہ نوعیت کے سائنسی کام میں ملوث ہونے والے سائنسداں کو اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ سائنس کی عبادتگاہ کے داخلی دروازے کے اوپر یہ الفاظ آویزاں ہیں ”تمہارے اندر ایمان بالغیب لازمی ہے“۔ یہ وہ وصف ہے جس کے بغیر سائنسدان کا سائنسدان ہونا ناممکن ہے۔“ 4
حوالہ جات:
1:Jonathan Wells, Icons of Evolution: Science or Myth? Why Much of What We Teach About Evolution is Wrong, Regnery Publishing, 2000, pp. 235-236
4 / total 21
2: Dan Graves, Science of Faith: Forty-Eight Biographies of Historic Scientists and Their Christian Faith, Grand Rapids, MI, Kregel Resources.
3:Science, Philosophy, And Religion: A Symposium, 1941, CH.13.
4: Max Planck, Where is Science Going?, www.websophia.com/aphorisms/science.html