﷽
غامدی فتنہ
سفر معراج کا انکار
تحریر : فیصل کنگ
غامدی کے عقیدے کےمطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معراج کا سفر کیا وہ صرف ایک خواب تھا
سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو یہ کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا روحانی سفر کیا تھا جبکہ جسمانی لحاظ سے آپ اپنے گھر پر ہی آرام فرما تھے
آج ہم غامدی کے اس باطل عقیدے کا ٹھوس دلیل کے ساتھ رد کریں گے
اور میری غامدیت کے پیروکاروں سے گزارش ہے کہ
خدارا خدارا دین کو سمجھا جائے علماء کی صحبت اختیار کی جائے
تا کہ غامدیت جیسے فتنوں سے بچا جا سکے.
غامدی نے جو سفر معراج کو خواب سے مشابہت دی ہے
اس کی دلیل یہ صاحب قرآن کی اس آیت سے دیتے ہیں
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 60
وَ اِذۡ قُلۡنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ نُخَوِّفُہُمۡ ۙ فَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا طُغۡیَانًا کَبِیۡرًا ﴿٪۶۰﴾
یاد کرو اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا ۔ 73 ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں ، مگر ہر تنبیہ ان کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے ۔
اب اس آیت میں جو لفظ (الرُّءۡیَا) استعمال ہوا ہے
اس لفظ کو بنیاد بنا کر غامدی فرماتے ہیں کہ
(الرُّءۡیَا) کا مطلب ہے خواب دیکھنا
تو جناب غامدی سے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کو گرامر کی اشد ضرورت ہے کیونکہ،
(الرُّءۡیَا) کا لغوی معنی خواب دیکھنا نہیں ہے
(الرُّءۡیَا) کا لغوی معنی ہے (دیکھنا)
جس طرح چاند دیکھنے والی کمیٹی کو کہا جاتا ہے
(روئیت حلال کمیٹی)
چاند کو دیکھنے والی کمیٹی
چاند کو دیکھنے والے افراد
اسی طرح لفظ (الرُّءۡیَا) کا لغوی معنی (دیکھنا) کے ہیں
اور اسی آیت میں ہی اللہ پاک فرماتا ہے کہ ہم نے اس واقعے کو فتنہ (آزمائش) بنا دیا
مطلب کہ،
کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس واقعے کا انکار کر دینگے
اللہ پاک نے 1439 سال پہلے اس واقعے کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا اور آج وہ فتنہ (آزمائش) غامدیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے
جناب غامدی فتنہ سے میرا سوال ہے کہ،
کیا خواب بھی کبھی فتنہ بنا ہے ؟
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح لوگوں کو بتاتے کہ مجھے خواب آیا تھا کہ
میں نے معراج کا سفر کیا
تو لوگ سیدھا جواب دیتے کہ
خواب تو کسی کو بھی آسکتا ہے.
اس میں فتنے (آزمائش) والی تو کوئی بات ہی نہیں تھی
تو پھر اگر خواب فتنہ (آزمائش) نہیں ہوتا تو اللہ پاک نے اس معراج کے سفر کو کچھ لوگوں کے لیے قرآن میں فتنہ (آزمائش) کیوں کہا
اس لیے کہا کیونکہ یہ حقیقی سفر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج پہ
یہ کوئی خواب نہیں تھا
(الرُّءۡیَا) کا اصل مطلب ہے صرف (دیکھنا)
اب یہ خواب کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے
اور حقیقی زندگی میں بھی (جاگتے ہوئے پورے ہوش و حواس میں) ہوسکتا ہے
کیونکہ دیکھنے کے لیے خواب کا آنا ضروری نہیں
اور یہ معراج کا سفر خواب تھا یا حقیقت
اس کا جواب بھی ہم قرآن سے ہی دیتے ہیں
تاکہ غامدیت کے لیے انکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہے
آئیں دیکھتے ہیں کہ قرآن اس واقعے کو خواب کہتا ہے یا حقیقت
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 01
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
وہ ذات ( ہر نقص اور کمزوری سے ) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے ( محبوب اور مقرّب ) بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس ( بندۂ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
اس آیت پہ اگر آپ غور کریں تو اس میں لفظ (لَیۡلًا) کا استعمال ہوا ہے
اس کا مطلب ہے (رات کا تھوڑا سا حصہ)
یہاں پر (الَّیۡل)ِ نہیں ہے
اگر یہاں پر (الَّیۡل) ہوتا تو اس کا مطلب تھا (پوری رات)
یہاں پر اللہ پاک نے (لَیۡلًا) (رات کا تھوڑا ساحصہ)
کا زکر کر کے اپنی طاقت اور قدرت کا اظہار کیا ہے کہ،
"تیرا رب وہ ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے حبیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا"
جب بھی، کبھی بھی، کہیں بھی اگر اللہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھائے تو ہماری زبان سے بے اختیار نکلتا ہے (سبحان اللہ)
اور اگر آپ رات کو خواب میں چاند پہ بھی پہنچ جائیں اور صبح اٹھ کے کسی کو اپنا خواب بیان کریں
تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ،
(سبحان اللہ)
بلکہ سب یہی کہیں گے کہ،
خواب میں تو بندا کہیں بھی جا سکتا ہے
اس میں کونسی بڑی بات ہے ؟
اور اللہ پاک سورہ بنی اسرائیل کی ابتدا ہی کس سے کر رہے ہیں ؟
( سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ )
( ہر عیب سے پاک ہے وہ زات )
اور اگر یہ خواب ہوتا تو خواب چاہے رات کے تھوڑے سے حصے میں ہو یا پوری رات خواب میں گزر جائے
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اور پھر نہ ہی اس میں اللہ (لَیۡلًا) کا زکر فرماتے
لیکن اللہ نے یہاں (لَیۡلًا) کا زکر فرما کے بتایا کہ یہ خواب نہیں تھا
بلکہ حقیقت تھی
ممکن ہے کہ یہاں غامدیت یہ سوال کرے (وہ کیا ہے نہ کہ عقل کام نہیں کرتی تو عجیب عجیب سوال تو کرے گی بے چاری غامدیت) کہ،
چلو مان لیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جانا جسمانی وجود سے قرآن سے ثابت ہوگیا
مگر مسجد اقصی سے آسمان پہ جانا قرآن سے ثابت نہیں ہے.
یہ تو وہی بات ہوگئی کہ،
اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آدھا سفر جسم کے ساتھ کروایا اور آدھا سفر اس وقت کروایا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے
اور یہ سب کچھ ایک ہی رات کے (لَیۡلًا) تھوڑے سے حصے میں ہوا
بندا ان غیرحاضر دماغ والوں سے پوچھے کہ،
جو اللہ رات کے چھوٹے سے حصے میں اپنے حبیب کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے جاسکتا ہے
تو کیا وہ اس بات پہ قادر نہیں کہ
اپنے حبیب کو مسجد اقصی سے اپنے پاس آسمان پہ بلائے جسمانی وجود کے ساتھ ؟
کیونکہ مسجد حرام سے مسجد اقصی کا سفر جسمانی لحاظ سے ثابت ہوگیا ہے قرآن مجید میں،
اس بات پہ مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے
جو غامدیت پہ بلکل فٹ آتا ہے
فرض کریں کہ
غامدی کے گھر کچھ مہمان آجاتے ہیں
اب غامدی صاحب ان کی ہر طرح سے خاطر داری کرتے ہیں
(سوائے ایک چیز کے)
اب مہمان کھانے سے فارغ ہوکر کہتے ہیں کہ،
سب کچھ تو کھا لیا ہے اب کچھ میٹھا ہوجائے ؟
تو غامدی جواب میں کہے کہ،
اب آپ آرام کریں
میٹھا آپ کو ہم خواب میں پیش کریں گے 😂
قرآن کی کسی آیت، کسی سورہ بلکہ پورے قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ
"خواب میں معراج کا سفر ہوا"
بلکہ اللہ پاک قرآن میں صاف الفاظ میں فرما رہا ہے کہ،
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ
وہ ذات ( ہر نقص اور کمزوری سے ) پاک ہے
اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا
جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے ( محبوب اور مقرّب ) بندے کو
مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا
مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک لے گئی.
الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ
جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس ( بندۂ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں،
اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے.
اس سے زیادہ کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کچھ صاف اور واضع الفاظ میں قرآن مجید معراج کے سفر کو بیان کر رہا ہے
اللہ پاک غامدیت کے پیروکاروں کو ہدایت دے
میرا کام تھا سمجھا دینا
عمل کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی.
غامدی فتنہ
سفر معراج کا انکار
تحریر : فیصل کنگ
غامدی کے عقیدے کےمطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معراج کا سفر کیا وہ صرف ایک خواب تھا
سادہ الفاظ میں اگر کہا جائے تو یہ کہ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کا روحانی سفر کیا تھا جبکہ جسمانی لحاظ سے آپ اپنے گھر پر ہی آرام فرما تھے
آج ہم غامدی کے اس باطل عقیدے کا ٹھوس دلیل کے ساتھ رد کریں گے
اور میری غامدیت کے پیروکاروں سے گزارش ہے کہ
خدارا خدارا دین کو سمجھا جائے علماء کی صحبت اختیار کی جائے
تا کہ غامدیت جیسے فتنوں سے بچا جا سکے.
غامدی نے جو سفر معراج کو خواب سے مشابہت دی ہے
اس کی دلیل یہ صاحب قرآن کی اس آیت سے دیتے ہیں
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 60
وَ اِذۡ قُلۡنَا لَکَ اِنَّ رَبَّکَ اَحَاطَ بِالنَّاسِ ؕ وَ مَا جَعَلۡنَا الرُّءۡیَا الَّتِیۡۤ اَرَیۡنٰکَ اِلَّا فِتۡنَۃً لِّلنَّاسِ وَ الشَّجَرَۃَ الۡمَلۡعُوۡنَۃَ فِی الۡقُرۡاٰنِ ؕ وَ نُخَوِّفُہُمۡ ۙ فَمَا یَزِیۡدُہُمۡ اِلَّا طُغۡیَانًا کَبِیۡرًا ﴿٪۶۰﴾
یاد کرو اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ، ہم نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تیرے رب نے ان لوگوں کو گھیر رکھا ہے اور یہ جو کچھ ابھی ہم نے تمہیں دکھایا ہے اس کو اور اس درخت کو جس پر قرآن میں لعنت کی گئی ہے ہم نے ان لوگوں کے لیے بس ایک فتنہ بنا کر رکھ دیا ۔ 73 ہم انہیں تنبیہ پر تنبیہ کیے جا رہے ہیں ، مگر ہر تنبیہ ان کی سرکشی ہی میں اضافہ کیے جاتی ہے ۔
اب اس آیت میں جو لفظ (الرُّءۡیَا) استعمال ہوا ہے
اس لفظ کو بنیاد بنا کر غامدی فرماتے ہیں کہ
(الرُّءۡیَا) کا مطلب ہے خواب دیکھنا
تو جناب غامدی سے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ آپ کو گرامر کی اشد ضرورت ہے کیونکہ،
(الرُّءۡیَا) کا لغوی معنی خواب دیکھنا نہیں ہے
(الرُّءۡیَا) کا لغوی معنی ہے (دیکھنا)
جس طرح چاند دیکھنے والی کمیٹی کو کہا جاتا ہے
(روئیت حلال کمیٹی)
چاند کو دیکھنے والی کمیٹی
چاند کو دیکھنے والے افراد
اسی طرح لفظ (الرُّءۡیَا) کا لغوی معنی (دیکھنا) کے ہیں
اور اسی آیت میں ہی اللہ پاک فرماتا ہے کہ ہم نے اس واقعے کو فتنہ (آزمائش) بنا دیا
مطلب کہ،
کچھ لوگ ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ اپنی کم عقلی کی وجہ سے اس واقعے کا انکار کر دینگے
اللہ پاک نے 1439 سال پہلے اس واقعے کو فتنہ (آزمائش) قرار دیا اور آج وہ فتنہ (آزمائش) غامدیت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے
جناب غامدی فتنہ سے میرا سوال ہے کہ،
کیا خواب بھی کبھی فتنہ بنا ہے ؟
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح لوگوں کو بتاتے کہ مجھے خواب آیا تھا کہ
میں نے معراج کا سفر کیا
تو لوگ سیدھا جواب دیتے کہ
خواب تو کسی کو بھی آسکتا ہے.
اس میں فتنے (آزمائش) والی تو کوئی بات ہی نہیں تھی
تو پھر اگر خواب فتنہ (آزمائش) نہیں ہوتا تو اللہ پاک نے اس معراج کے سفر کو کچھ لوگوں کے لیے قرآن میں فتنہ (آزمائش) کیوں کہا
اس لیے کہا کیونکہ یہ حقیقی سفر تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج پہ
یہ کوئی خواب نہیں تھا
(الرُّءۡیَا) کا اصل مطلب ہے صرف (دیکھنا)
اب یہ خواب کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے
اور حقیقی زندگی میں بھی (جاگتے ہوئے پورے ہوش و حواس میں) ہوسکتا ہے
کیونکہ دیکھنے کے لیے خواب کا آنا ضروری نہیں
اور یہ معراج کا سفر خواب تھا یا حقیقت
اس کا جواب بھی ہم قرآن سے ہی دیتے ہیں
تاکہ غامدیت کے لیے انکار کی گنجائش ہی باقی نہ رہے
آئیں دیکھتے ہیں کہ قرآن اس واقعے کو خواب کہتا ہے یا حقیقت
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 01
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
وہ ذات ( ہر نقص اور کمزوری سے ) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے ( محبوب اور مقرّب ) بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس ( بندۂ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں ، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے
اس آیت پہ اگر آپ غور کریں تو اس میں لفظ (لَیۡلًا) کا استعمال ہوا ہے
اس کا مطلب ہے (رات کا تھوڑا سا حصہ)
یہاں پر (الَّیۡل)ِ نہیں ہے
اگر یہاں پر (الَّیۡل) ہوتا تو اس کا مطلب تھا (پوری رات)
یہاں پر اللہ پاک نے (لَیۡلًا) (رات کا تھوڑا ساحصہ)
کا زکر کر کے اپنی طاقت اور قدرت کا اظہار کیا ہے کہ،
"تیرا رب وہ ہے جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے حبیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا"
جب بھی، کبھی بھی، کہیں بھی اگر اللہ اپنی قدرت کا نمونہ دکھائے تو ہماری زبان سے بے اختیار نکلتا ہے (سبحان اللہ)
اور اگر آپ رات کو خواب میں چاند پہ بھی پہنچ جائیں اور صبح اٹھ کے کسی کو اپنا خواب بیان کریں
تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ،
(سبحان اللہ)
بلکہ سب یہی کہیں گے کہ،
خواب میں تو بندا کہیں بھی جا سکتا ہے
اس میں کونسی بڑی بات ہے ؟
اور اللہ پاک سورہ بنی اسرائیل کی ابتدا ہی کس سے کر رہے ہیں ؟
( سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ )
( ہر عیب سے پاک ہے وہ زات )
اور اگر یہ خواب ہوتا تو خواب چاہے رات کے تھوڑے سے حصے میں ہو یا پوری رات خواب میں گزر جائے
اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا
اور پھر نہ ہی اس میں اللہ (لَیۡلًا) کا زکر فرماتے
لیکن اللہ نے یہاں (لَیۡلًا) کا زکر فرما کے بتایا کہ یہ خواب نہیں تھا
بلکہ حقیقت تھی
ممکن ہے کہ یہاں غامدیت یہ سوال کرے (وہ کیا ہے نہ کہ عقل کام نہیں کرتی تو عجیب عجیب سوال تو کرے گی بے چاری غامدیت) کہ،
چلو مان لیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد حرام سے مسجد اقصی تک جانا جسمانی وجود سے قرآن سے ثابت ہوگیا
مگر مسجد اقصی سے آسمان پہ جانا قرآن سے ثابت نہیں ہے.
یہ تو وہی بات ہوگئی کہ،
اللہ پاک نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آدھا سفر جسم کے ساتھ کروایا اور آدھا سفر اس وقت کروایا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے
اور یہ سب کچھ ایک ہی رات کے (لَیۡلًا) تھوڑے سے حصے میں ہوا
بندا ان غیرحاضر دماغ والوں سے پوچھے کہ،
جو اللہ رات کے چھوٹے سے حصے میں اپنے حبیب کو مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے جاسکتا ہے
تو کیا وہ اس بات پہ قادر نہیں کہ
اپنے حبیب کو مسجد اقصی سے اپنے پاس آسمان پہ بلائے جسمانی وجود کے ساتھ ؟
کیونکہ مسجد حرام سے مسجد اقصی کا سفر جسمانی لحاظ سے ثابت ہوگیا ہے قرآن مجید میں،
اس بات پہ مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے
جو غامدیت پہ بلکل فٹ آتا ہے
فرض کریں کہ
غامدی کے گھر کچھ مہمان آجاتے ہیں
اب غامدی صاحب ان کی ہر طرح سے خاطر داری کرتے ہیں
(سوائے ایک چیز کے)
اب مہمان کھانے سے فارغ ہوکر کہتے ہیں کہ،
سب کچھ تو کھا لیا ہے اب کچھ میٹھا ہوجائے ؟
تو غامدی جواب میں کہے کہ،
اب آپ آرام کریں
میٹھا آپ کو ہم خواب میں پیش کریں گے 😂
قرآن کی کسی آیت، کسی سورہ بلکہ پورے قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ
"خواب میں معراج کا سفر ہوا"
بلکہ اللہ پاک قرآن میں صاف الفاظ میں فرما رہا ہے کہ،
سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ
وہ ذات ( ہر نقص اور کمزوری سے ) پاک ہے
اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا
جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے ( محبوب اور مقرّب ) بندے کو
مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا
مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصٰی تک لے گئی.
الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ
جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس ( بندۂ کامل ) کو اپنی نشانیاں دکھائیں،
اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ ﴿۱﴾
بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے.
اس سے زیادہ کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ سب کچھ صاف اور واضع الفاظ میں قرآن مجید معراج کے سفر کو بیان کر رہا ہے
اللہ پاک غامدیت کے پیروکاروں کو ہدایت دے
میرا کام تھا سمجھا دینا
عمل کرنا نہ کرنا آپ کی مرضی.
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔