مشال خان توہین رسالت کے جرم کا مرتکب ہوا تھا
اس دعوے کے پندرہ ثبوت موجود ہیں
سوال: چلیے ہم نے یہ تسلیم کرلیا کہ لبرل میڈیا نے سیکولر لبرل لوگوں نے مشال کو توہین رسالت کا مجرم قرار نہیں دیا لیکن آپ کے پاس کیا ثبوت ہے آپ اسے توہین کا مجرم کیسے کہہ سکتے ہیں؟
جواب: (۱) مشال کی تین سالہ سرگرمیاں اس کا ثبوت ہیں تین سال سے وہ فیس بک پر، یونیورسٹی میں کس طرح کی گفتگو کررہا تھا کیا لکھ رہا تھا___ مردان یونیورسٹی کا ہر طالب علم اس سے واقف تھاAFP اور دیگر بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹیں ۱۵؍اپریل سے ۲۸ اپریل تک___ ایکسپریس ٹریبون،ڈان، نیوز، نیشن، امت،جنگ اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جس میں تمام غیر ملکی صحافیوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ مشال ایک آزاد خیال ،لبرل ،سیکولر ،بے باک ،نڈر ،جری شخص تھاہر مسئلے پر بے لاگ رائے دینا اس کا وطیرہ تھا مذہب پر مولوی پر تنقید کرتا تھا وہ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتا تھا اس کے کمرے میں کارل مارکس، چی گویرا کی تصویریں لٹک رہی تھیں وہ خود کوHumanist کہتا تھا جنگ اخبار نے تو یہ رپورٹ بھی دی کہ وہ بہت غصہ ور شخص تھا فیس بک پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے وہ آپے سے باہر ہوجاتا تھا غصہ سے بے قابو ہوجاتا تھا___اور مخالفین پر سخت حملے کرتا تھا۔یہ رپورٹیں مشال کے قتل کے اگلے روز سے شائع ہو رہی ہیں۔لبرل جو ہمیشہ عالمی اداروں کو مستند سمجھتے ہیں مشال کے معاملے میں ان رپورٹوں کو مستند کیوں نہیں سمجھ رہے۔یہ تو گھر کی گواہی ہے جو گھر سے آئی ہے اور سب سے مستند،موثر،موقر اور معتبر گواہی ہے اس میں بھی کیا آپ کو شک ہے؟
(۲)BBC کو انٹر ویو دیتے ہوئے مردان یونیورسٹی ہاسٹل کے وارڈن عزیز الرحمان نے کہا کہ مشال اکثر مذہب کے حوالے سے متنازع موضوعات چھیڑتا تھا حضرت آدم و حوا ء کی ابتدائی اولاد کی شادی کے حوالے سے پھر وہ اسے موجودہ دور پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مشال کو جو کہنا ہوتا تھا کھل کر کہہ دیتا تھا اسے ماحول کا اندازہ نہ تھا [امت ۱۵ اپریل ۲۰۱۷ء ص ۲] وہ کہتا تھا کہ ’’بھائی بہن کی شادی آپس میں جب پہلے ہوئی تو اب کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘ اسی قسم کے عقلی سوالات کے ذریعے وہ لوگوں کو مشتعل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔اس قسم کے جاہلانہ عقلی سوالات پاکستانی لبرل کثرت سے کرتے ہیں اور بہت خوش ہوتے ہیں مگر اسی خوشی کا جب انجام سامنے آتا ہے تو دکھی ہو جاتے ہیں۔
ایک مذہبی معاشرے میں لوگوں کے نازک جذبات سے کھیلنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔تمام لبرل اسلام ،عقائد ،احکامات ،شخصیات کے بارے میں سوچ سمجھ کر زبان ہلائیں،زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر یہ ہڈی تڑوا دیتی ہے ،تلوار کا زخم بھر جاتا ہے ،زبان کا زخم نہیں بھرتا۔مذہبی معاشرہ اپنے خیر پر سودا نہیں کرتا۔مغرب اور لبرل ازم جو باطل عقیدے ہیں وہ بھی اپنے مذہب،عقیدے،آزادی،ترقی،جمہوریت پر کوئی حملہ برداشت نہیں کرتے۔جان رالس(John Rawls) اور ڈربن(Derben) لکھتے ہیں جو لبرل ازم کی آزادی کی قدر پر حملہ کرے اسے جراثیم کی طرح ختم کر دو،اسے قتل کر دو،گولی ماردو کوئی دلیل نہ دو۔آزادی پر اعتراض کرنے والا اس قابل ہی نہیں کہ اس سے بات کی جائے۔
مردان کے بچوں نے لبرل ازم کے فلسفی جان رالس کی تقلید کرتے ہوئے بندگی کے مخالف کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا تو اس پر لبرل میڈیا اور لبرل ،سیکولر لوگوں کو کیا اعتراض ہے وہ جب اپنے دشمن کو برداشت نہیں کرتے جبکہ وہ آزادی کی بات کرتے ہیں تو مسلمان اسے کیسے برداشت کرلے۔مسلمان تو آزادی کے مغربی ،کافرانہ عقیدے کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔علماء نے کبھی توہین رسالت کے مجرم کو مارنے کا حکم نہیں دیا ۔ایک فتویٰ ایسا نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جیسے ہی کوئی توہین کرے اسے فوراً قتل کر دو___مگر کوئی مار دے تو اسے مطعون بھی نہیں کیا___اسے سزا بھی نہیں دی___اسے معاف کر دیا ،یہی اسلامی علمیت ہے جو سنت رسول ﷺ سے صحابہ سے اجماع سے ثابت ہے۔اس اصول کا دہشت گردی سے کیا تعلق
(۳)BBC کو عزیز الرحمان نے بتایا کہ اس نے ایک پولیس افسر کو یہ کہتے سنا ’’اچھا وہ اس کافر کو جہنم رسید کررہے ہیں‘‘(امت ۱۵ اپریل ۲۰۱۷ء ص ۲)۔پولیس والا بھی جانتا تھا کہ مشال ____مذہب دشمن ہے ،اسکی شہرت چاردانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی مگر صرفJITکو اس شہرت کا علم نہیں ہوا۔
(۴)طلباء اتنے مشتعل تھے کہ وہ اس کی لاش جلانے کی کوشش کررہے تھے وہ اس کی لاش ڈھونڈرہے تھے تمام گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے کسی شخص کو مارنے کے بعد بھی لوگوں کا غصہ کم نہ ہو یہ کوئی سازش نہیں ہوسکتی___یونیورسٹی انتظامیہ کی سازش پر اتنا اشتعال پیدا ہونا محال ہے جب تک اس اشتعال کی تاریخی، فطری،مذہبی، حقیقی بنیادیں موجود نہ ہوں پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہر شخص مشال کی زندگی سے واقف ہے وہ دین مذہب کے ساتھ جو کچھ کررہا تھا___ ہر شخص اس سے آگاہ تھا۔ یہ وہ غصہ،وہ جذبہ تھا جو مشال کے مذہب دشمن خیالات، افکار، حرکات کی وجہ سے طلباء میں تین سالوں سے آتش فشاں بن کر جمع تھا جو ۱۳؍اپریل کو پھٹ کر بہہ گیا۔
مشال توہین کا مجرم ثابت ہوتا تو کوئی اس کی حمایت نہ کرتا
JIT رپورٹ نے اس کا یہ داغ اچھی طرح دھو دیا
JIT نے ان تمام حقائق کو جان بوجھ کر فراموش کیا ہے ___اس نے لبرل ایجنڈے کی تکمیل کی اگر رپورٹ میں ثابت کردیا جاتا کہ مشال نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تو پاکستان کا ہر شہری کہتا کہ اس کا قتل ٹھیک تھا۔عاصمہ جہانگیر بھی مشال کی حمایت نہ کر سکتی تھی وہ حمایت کرنا چاہتی ہیں کیونکہ منشور انسانی حقوق کے تحت یہ اسکا حق تھا ۔صدر اوباما نے اپنی تقریر میں یہی کہا تھا کہ توہین کرنا حق ہے ،اسکا حل ہے کہ توہین کی اور آزادی دو مگر عاصمہ جہانگیر پاکستان میں یہ نہیں کہہ سکتی یہ مذہب کا جبر ہے۔عاصمہ جہانگیر کو آزادی کا جبر قبول ہے مگر مذہب کا جبر قبول نہیں ۔ہر عقیدہ کی ایک قیمت ہوتی ہے عاصمہ جہانگیر اور لبرل آزادی کے عقیدے کی قیمت(Tyrarany of Freedom)ادا کرنا چاہتے ہیں مذہب کے عقیدے کی قیمت ادا کرنا نہیں چاہتے۔اگر مشال کو توہین کا مجرمJIT میں ثابت کر دیا جاتا تو پاکستانی لبرل بھی مشال کا دفاع نہ کرسکتے تھے،عاصمہ جہانگیر کو بھی خاموش ہونا پڑتا___ لیکن ریاست عالمی سطح پر اس کا کیا جواب دیتی ___ ریاست کی جرات نہیں ہے کہ وہ کہہ سکے کہ مشال کو آزادئ اظہار رائے کے تحت توہین کرنے کا حق تھا لہٰذا ریاست اس بنیاد پر مشال کا دفاع نہیں کرسکتی تھی اور اس کے قتل کے مذہبی جواز کا دفاع بھی اس کے لئے ممکن نہیں تھا لہٰذا اس عالمی مصیبت سے بچنے کے لیے سب سے آسان طریقہ کار ریاست کے پاس صرف اور صرف یہی تھا کہ اصل حقیقت کا انکار کردیا جائے___ مشال کے قتل کو مذہب اور توہین رسالت سے الگ کرکے صرف کرپشن کے مسئلے سے جوڑ دیا جائے اور مذہب کے ذریعے___ کرپشن کے اس مجاہد کے قتل کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈال دی جائے تاکہ عالمی ادارو ں کو بتایا جاسکے مشال کا قتل صرف بد عنوانی کے تحت ہوا اور بدعنوان عناصر نے بدعنوانی کو چھپانے کے لئے مذہب کو استعمال کیا___لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بد عنوانی کے کسی ایک کردار، ایک پروفیسر، کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی میڈیا پر مردان یونیورسٹی کی بد عنوانی کی کوئی کہانی دو مہینے میں پیش کی گئی ہے وہ میڈیا جو خود خبریں گھڑ لیتا[invent]ہے وہ میڈیا جو جھوٹی خبریں تخلیق(Create) کرتا ہے وہ میڈیا جو خبریں سونگھتا پھرتا ہےBBC کے وسعت اللہ خان جو ہر ادارے میں گھس جاتے ہیں___ ان تمام لبرل صحافیوں کو دو مہینے میں مردان یونیورسٹی کے کرپشن کی ایک کہانی بھی نہیں مل سکی آج تک میڈیا نے کسی یونیورسٹی پروفیسر، ہاسٹل وارڈن ،رجسٹرار، سیکوریٹی آفیسر کا انٹر ویو تک نشر نہیں کیا مشال پر حملہ کرنے والے تین یا پانچ ہزار طلباء کی رائے پیش نہیں کی قتل کے الزام میں پکڑے گئے ۵۲ طلباء کی رپورٹیں بیانات تک پیش نہیں کیے اس لیے کہ سب کی مشترکہ شہادت یہی تھی کہ مشال توہین رسالت کا مجرم تھا ___ اس کو صرف انتظامیہ کے کرپشن کا مجرم ثابت کرناJIT کا کمال ہے۔
(۵) ۱۳؍اپریل کے بعد پولیس نے جتنے طلباء کو گرفتار کیا سب نے اپنے بیانات میں یہی اعتراف کیا کہ مشال اکثر مذہب پر تنقید کرتا بحث کرتا جھگڑے کرتا وہ رسالت مآب کی توہین کرتا پولیس نے میڈیا نے ___ ان بیانات کو آج تک جاری نہیں کیا کیوں کہ اس سے میڈیا کا آزادی کا مقدمہ خراب ہوجاتا ہے ۔
میڈیا نے مشال کی توہین رسالت کی شہادتوں کا بائیکاٹ کیوں کیا؟
مشال کے خلاف مظاہروں کی کوئی تصویر کیوں نہیں دی گئی
(۶)میڈیا کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ مشال کے قتل پر ہونے والی گرفتاریوں کے خلاف مردان یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اس کی کوئی خبر ،تصویر میڈیا نے جاری نہیں کی ۔مولانا گوہر رحمان کے بیٹے نے مشال واقعے پر کمیشن بنا کر رپورٹ تیار کی وہ نشر نہیں ہونے دی گئی ۔مردان میں حب رسول ریلی نکال کر علماء نے مردان یونیورسٹی کو مشال کے قاتلوں سے منسوب کرنے کا مطالبہ کیا اس کی خبر میڈیا نے نہیں دی ۔
صوبہ پختونخواہ کے تمام علماء ،دینی جماعتوں نے مشال کے خلاف بیان دیا ،پریس کانفرنس کی اسکی خبر نہیں دی گئی ،تحریک لبیک یا رسول اللہ کا موقف علامہ خادم رضوی کا کوئی بیان میڈیا نے کبھی نشر نہیں کیا آخر کیوں؟میڈیا نے ان سب خبروں کا بائیکاٹ اس لئے کیا کہ مشال کو توہین کے جرم سے بری الذمہ کرکے بچا لیا جائے۔میڈیا نے مشال کے حق میں ہونے والے دس لوگوں کے مظاہرے کی بھی خبر دی مگر مشال کے خلاف نکلنے والے بڑے بڑے جلوسوں ،جلسوں کی خبر کیوں نہیں دی؟ میڈیا کا لبرل ایجنڈہ ہے،جلسے ،جلوس لبرل ایجنڈے کے خلاف تھے اس لئے ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔لبرل ازم خود مذہب ہے جو کسی مذہبی رویے ،عنصر کو برداشت نہیں کرتا اور احمد جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ لبرل ازم کا یہ مسئلہ ہی نہیں اسکا کسی خیر و شر سے کوئی تعلق ہی نہیں،تعلق تو بالکل واضح ہے ،لبرل میڈیا کیا کر رہا ہے ،کیا احمد جاوید صاحب کو نظر نہیں آرہا ؟۔
اس دعوے کے پندرہ ثبوت موجود ہیں
سوال: چلیے ہم نے یہ تسلیم کرلیا کہ لبرل میڈیا نے سیکولر لبرل لوگوں نے مشال کو توہین رسالت کا مجرم قرار نہیں دیا لیکن آپ کے پاس کیا ثبوت ہے آپ اسے توہین کا مجرم کیسے کہہ سکتے ہیں؟
جواب: (۱) مشال کی تین سالہ سرگرمیاں اس کا ثبوت ہیں تین سال سے وہ فیس بک پر، یونیورسٹی میں کس طرح کی گفتگو کررہا تھا کیا لکھ رہا تھا___ مردان یونیورسٹی کا ہر طالب علم اس سے واقف تھاAFP اور دیگر بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹیں ۱۵؍اپریل سے ۲۸ اپریل تک___ ایکسپریس ٹریبون،ڈان، نیوز، نیشن، امت،جنگ اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئی ہیں جس میں تمام غیر ملکی صحافیوں نے اس بات کی شہادت دی ہے کہ مشال ایک آزاد خیال ،لبرل ،سیکولر ،بے باک ،نڈر ،جری شخص تھاہر مسئلے پر بے لاگ رائے دینا اس کا وطیرہ تھا مذہب پر مولوی پر تنقید کرتا تھا وہ جمعہ کی نماز بھی نہیں پڑھتا تھا اس کے کمرے میں کارل مارکس، چی گویرا کی تصویریں لٹک رہی تھیں وہ خود کوHumanist کہتا تھا جنگ اخبار نے تو یہ رپورٹ بھی دی کہ وہ بہت غصہ ور شخص تھا فیس بک پر بحث و مباحثہ کرتے ہوئے وہ آپے سے باہر ہوجاتا تھا غصہ سے بے قابو ہوجاتا تھا___اور مخالفین پر سخت حملے کرتا تھا۔یہ رپورٹیں مشال کے قتل کے اگلے روز سے شائع ہو رہی ہیں۔لبرل جو ہمیشہ عالمی اداروں کو مستند سمجھتے ہیں مشال کے معاملے میں ان رپورٹوں کو مستند کیوں نہیں سمجھ رہے۔یہ تو گھر کی گواہی ہے جو گھر سے آئی ہے اور سب سے مستند،موثر،موقر اور معتبر گواہی ہے اس میں بھی کیا آپ کو شک ہے؟
(۲)BBC کو انٹر ویو دیتے ہوئے مردان یونیورسٹی ہاسٹل کے وارڈن عزیز الرحمان نے کہا کہ مشال اکثر مذہب کے حوالے سے متنازع موضوعات چھیڑتا تھا حضرت آدم و حوا ء کی ابتدائی اولاد کی شادی کے حوالے سے پھر وہ اسے موجودہ دور پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ مشال کو جو کہنا ہوتا تھا کھل کر کہہ دیتا تھا اسے ماحول کا اندازہ نہ تھا [امت ۱۵ اپریل ۲۰۱۷ء ص ۲] وہ کہتا تھا کہ ’’بھائی بہن کی شادی آپس میں جب پہلے ہوئی تو اب کیوں نہیں ہوسکتی؟‘‘ اسی قسم کے عقلی سوالات کے ذریعے وہ لوگوں کو مشتعل کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔اس قسم کے جاہلانہ عقلی سوالات پاکستانی لبرل کثرت سے کرتے ہیں اور بہت خوش ہوتے ہیں مگر اسی خوشی کا جب انجام سامنے آتا ہے تو دکھی ہو جاتے ہیں۔
ایک مذہبی معاشرے میں لوگوں کے نازک جذبات سے کھیلنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔تمام لبرل اسلام ،عقائد ،احکامات ،شخصیات کے بارے میں سوچ سمجھ کر زبان ہلائیں،زبان میں ہڈی نہیں ہوتی مگر یہ ہڈی تڑوا دیتی ہے ،تلوار کا زخم بھر جاتا ہے ،زبان کا زخم نہیں بھرتا۔مذہبی معاشرہ اپنے خیر پر سودا نہیں کرتا۔مغرب اور لبرل ازم جو باطل عقیدے ہیں وہ بھی اپنے مذہب،عقیدے،آزادی،ترقی،جمہوریت پر کوئی حملہ برداشت نہیں کرتے۔جان رالس(John Rawls) اور ڈربن(Derben) لکھتے ہیں جو لبرل ازم کی آزادی کی قدر پر حملہ کرے اسے جراثیم کی طرح ختم کر دو،اسے قتل کر دو،گولی ماردو کوئی دلیل نہ دو۔آزادی پر اعتراض کرنے والا اس قابل ہی نہیں کہ اس سے بات کی جائے۔
مردان کے بچوں نے لبرل ازم کے فلسفی جان رالس کی تقلید کرتے ہوئے بندگی کے مخالف کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا تو اس پر لبرل میڈیا اور لبرل ،سیکولر لوگوں کو کیا اعتراض ہے وہ جب اپنے دشمن کو برداشت نہیں کرتے جبکہ وہ آزادی کی بات کرتے ہیں تو مسلمان اسے کیسے برداشت کرلے۔مسلمان تو آزادی کے مغربی ،کافرانہ عقیدے کو تسلیم ہی نہیں کرتا۔علماء نے کبھی توہین رسالت کے مجرم کو مارنے کا حکم نہیں دیا ۔ایک فتویٰ ایسا نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ جیسے ہی کوئی توہین کرے اسے فوراً قتل کر دو___مگر کوئی مار دے تو اسے مطعون بھی نہیں کیا___اسے سزا بھی نہیں دی___اسے معاف کر دیا ،یہی اسلامی علمیت ہے جو سنت رسول ﷺ سے صحابہ سے اجماع سے ثابت ہے۔اس اصول کا دہشت گردی سے کیا تعلق
(۳)BBC کو عزیز الرحمان نے بتایا کہ اس نے ایک پولیس افسر کو یہ کہتے سنا ’’اچھا وہ اس کافر کو جہنم رسید کررہے ہیں‘‘(امت ۱۵ اپریل ۲۰۱۷ء ص ۲)۔پولیس والا بھی جانتا تھا کہ مشال ____مذہب دشمن ہے ،اسکی شہرت چاردانگ عالم میں پھیلی ہوئی تھی مگر صرفJITکو اس شہرت کا علم نہیں ہوا۔
(۴)طلباء اتنے مشتعل تھے کہ وہ اس کی لاش جلانے کی کوشش کررہے تھے وہ اس کی لاش ڈھونڈرہے تھے تمام گاڑیوں کی تلاشی لے رہے تھے کسی شخص کو مارنے کے بعد بھی لوگوں کا غصہ کم نہ ہو یہ کوئی سازش نہیں ہوسکتی___یونیورسٹی انتظامیہ کی سازش پر اتنا اشتعال پیدا ہونا محال ہے جب تک اس اشتعال کی تاریخی، فطری،مذہبی، حقیقی بنیادیں موجود نہ ہوں پورے صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہر شخص مشال کی زندگی سے واقف ہے وہ دین مذہب کے ساتھ جو کچھ کررہا تھا___ ہر شخص اس سے آگاہ تھا۔ یہ وہ غصہ،وہ جذبہ تھا جو مشال کے مذہب دشمن خیالات، افکار، حرکات کی وجہ سے طلباء میں تین سالوں سے آتش فشاں بن کر جمع تھا جو ۱۳؍اپریل کو پھٹ کر بہہ گیا۔
مشال توہین کا مجرم ثابت ہوتا تو کوئی اس کی حمایت نہ کرتا
JIT رپورٹ نے اس کا یہ داغ اچھی طرح دھو دیا
JIT نے ان تمام حقائق کو جان بوجھ کر فراموش کیا ہے ___اس نے لبرل ایجنڈے کی تکمیل کی اگر رپورٹ میں ثابت کردیا جاتا کہ مشال نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا تو پاکستان کا ہر شہری کہتا کہ اس کا قتل ٹھیک تھا۔عاصمہ جہانگیر بھی مشال کی حمایت نہ کر سکتی تھی وہ حمایت کرنا چاہتی ہیں کیونکہ منشور انسانی حقوق کے تحت یہ اسکا حق تھا ۔صدر اوباما نے اپنی تقریر میں یہی کہا تھا کہ توہین کرنا حق ہے ،اسکا حل ہے کہ توہین کی اور آزادی دو مگر عاصمہ جہانگیر پاکستان میں یہ نہیں کہہ سکتی یہ مذہب کا جبر ہے۔عاصمہ جہانگیر کو آزادی کا جبر قبول ہے مگر مذہب کا جبر قبول نہیں ۔ہر عقیدہ کی ایک قیمت ہوتی ہے عاصمہ جہانگیر اور لبرل آزادی کے عقیدے کی قیمت(Tyrarany of Freedom)ادا کرنا چاہتے ہیں مذہب کے عقیدے کی قیمت ادا کرنا نہیں چاہتے۔اگر مشال کو توہین کا مجرمJIT میں ثابت کر دیا جاتا تو پاکستانی لبرل بھی مشال کا دفاع نہ کرسکتے تھے،عاصمہ جہانگیر کو بھی خاموش ہونا پڑتا___ لیکن ریاست عالمی سطح پر اس کا کیا جواب دیتی ___ ریاست کی جرات نہیں ہے کہ وہ کہہ سکے کہ مشال کو آزادئ اظہار رائے کے تحت توہین کرنے کا حق تھا لہٰذا ریاست اس بنیاد پر مشال کا دفاع نہیں کرسکتی تھی اور اس کے قتل کے مذہبی جواز کا دفاع بھی اس کے لئے ممکن نہیں تھا لہٰذا اس عالمی مصیبت سے بچنے کے لیے سب سے آسان طریقہ کار ریاست کے پاس صرف اور صرف یہی تھا کہ اصل حقیقت کا انکار کردیا جائے___ مشال کے قتل کو مذہب اور توہین رسالت سے الگ کرکے صرف کرپشن کے مسئلے سے جوڑ دیا جائے اور مذہب کے ذریعے___ کرپشن کے اس مجاہد کے قتل کی ذمہ داری یونیورسٹی انتظامیہ پر ڈال دی جائے تاکہ عالمی ادارو ں کو بتایا جاسکے مشال کا قتل صرف بد عنوانی کے تحت ہوا اور بدعنوان عناصر نے بدعنوانی کو چھپانے کے لئے مذہب کو استعمال کیا___لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ بد عنوانی کے کسی ایک کردار، ایک پروفیسر، کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی میڈیا پر مردان یونیورسٹی کی بد عنوانی کی کوئی کہانی دو مہینے میں پیش کی گئی ہے وہ میڈیا جو خود خبریں گھڑ لیتا[invent]ہے وہ میڈیا جو جھوٹی خبریں تخلیق(Create) کرتا ہے وہ میڈیا جو خبریں سونگھتا پھرتا ہےBBC کے وسعت اللہ خان جو ہر ادارے میں گھس جاتے ہیں___ ان تمام لبرل صحافیوں کو دو مہینے میں مردان یونیورسٹی کے کرپشن کی ایک کہانی بھی نہیں مل سکی آج تک میڈیا نے کسی یونیورسٹی پروفیسر، ہاسٹل وارڈن ،رجسٹرار، سیکوریٹی آفیسر کا انٹر ویو تک نشر نہیں کیا مشال پر حملہ کرنے والے تین یا پانچ ہزار طلباء کی رائے پیش نہیں کی قتل کے الزام میں پکڑے گئے ۵۲ طلباء کی رپورٹیں بیانات تک پیش نہیں کیے اس لیے کہ سب کی مشترکہ شہادت یہی تھی کہ مشال توہین رسالت کا مجرم تھا ___ اس کو صرف انتظامیہ کے کرپشن کا مجرم ثابت کرناJIT کا کمال ہے۔
(۵) ۱۳؍اپریل کے بعد پولیس نے جتنے طلباء کو گرفتار کیا سب نے اپنے بیانات میں یہی اعتراف کیا کہ مشال اکثر مذہب پر تنقید کرتا بحث کرتا جھگڑے کرتا وہ رسالت مآب کی توہین کرتا پولیس نے میڈیا نے ___ ان بیانات کو آج تک جاری نہیں کیا کیوں کہ اس سے میڈیا کا آزادی کا مقدمہ خراب ہوجاتا ہے ۔
میڈیا نے مشال کی توہین رسالت کی شہادتوں کا بائیکاٹ کیوں کیا؟
مشال کے خلاف مظاہروں کی کوئی تصویر کیوں نہیں دی گئی
(۶)میڈیا کی حالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جائے کہ مشال کے قتل پر ہونے والی گرفتاریوں کے خلاف مردان یونیورسٹی میں احتجاجی مظاہرے ہوئے اس کی کوئی خبر ،تصویر میڈیا نے جاری نہیں کی ۔مولانا گوہر رحمان کے بیٹے نے مشال واقعے پر کمیشن بنا کر رپورٹ تیار کی وہ نشر نہیں ہونے دی گئی ۔مردان میں حب رسول ریلی نکال کر علماء نے مردان یونیورسٹی کو مشال کے قاتلوں سے منسوب کرنے کا مطالبہ کیا اس کی خبر میڈیا نے نہیں دی ۔
صوبہ پختونخواہ کے تمام علماء ،دینی جماعتوں نے مشال کے خلاف بیان دیا ،پریس کانفرنس کی اسکی خبر نہیں دی گئی ،تحریک لبیک یا رسول اللہ کا موقف علامہ خادم رضوی کا کوئی بیان میڈیا نے کبھی نشر نہیں کیا آخر کیوں؟میڈیا نے ان سب خبروں کا بائیکاٹ اس لئے کیا کہ مشال کو توہین کے جرم سے بری الذمہ کرکے بچا لیا جائے۔میڈیا نے مشال کے حق میں ہونے والے دس لوگوں کے مظاہرے کی بھی خبر دی مگر مشال کے خلاف نکلنے والے بڑے بڑے جلوسوں ،جلسوں کی خبر کیوں نہیں دی؟ میڈیا کا لبرل ایجنڈہ ہے،جلسے ،جلوس لبرل ایجنڈے کے خلاف تھے اس لئے ان کا بائیکاٹ کیا گیا۔لبرل ازم خود مذہب ہے جو کسی مذہبی رویے ،عنصر کو برداشت نہیں کرتا اور احمد جاوید صاحب فرماتے ہیں کہ لبرل ازم کا یہ مسئلہ ہی نہیں اسکا کسی خیر و شر سے کوئی تعلق ہی نہیں،تعلق تو بالکل واضح ہے ،لبرل میڈیا کیا کر رہا ہے ،کیا احمد جاوید صاحب کو نظر نہیں آرہا ؟۔
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔