#مغربی_جنت
میرے سامنے ریپ کے حوالے سے ٹاپ 10ملکوں کی فہرست موجود ہے
جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑا اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوئی
یاد رہے کہ یہ کوئی مسلمان ملک نہیں بلکہ ایک عیسائی ملک ہے
ریپ کے حوالے سے ہی نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے ... یہ بھی مسلم ملک نہیں
خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کے حوالے سے فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ ماننا کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں...
یاد رہے کینیڈا بھی مسلم ملک نہیں بلکہ ایک لبرل اور آزادی پسند ملک ہے
ساتواں نمبر فحاشی و عریانی جسے یار لوگ آزادی اور حقوق بھی کہتے ہیں میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے ... کیا آپ جانتے ہیں کہ 1980سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم سمجھ ہی نہیں جاتا تھا .. اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے ہی موجود نہیں تھا ... عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992کے بعد گیا
فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں..
چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ... ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے
پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں ہر 16سے 56سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے
سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں
چوتھے نمبر پر مشہور ملک ریپستان مطلب ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے ... یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج نہیں کرواتیں
تیسرے نمبر پہ سویڈن آتا ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت سیکسوئیل ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے
دوسرے نمبر پہ ساؤتھ افریقہ آتا ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ... ساؤتھ افریقہ بیبی اینڈ چائلڈ ریپ اور ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی دنیا میں بدنام ترین ملک جانا جاتا ہے
اور آخر میں پہلے نمبر پہ ہے مہذب ترین ملک امریکہ
مہذب اور روشن خیال ملک ہونے کی وجہ سے یہاں کے کیسز بھی کافی عجیب و غریب واقع ہوے ہیں ... یہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوئی ہے پر ہر 33میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوا ہے ... 19.3% عورتیں اور 3.8% فیصد امریکی مرد زندگی میں کم ازکم ایک دفعہ ریپ کا لازمی شکار ہوے
اوپر موجود تمام اعداد و شمار ایک ویبسائیٹ سے لئے گئے باقی ویبسائیٹ بھی دیکھیں ان میں بھی ٹاپ ٹین کنٹریز یہی ہیں بس ترتیب آگے پیچھے ہے ... ان سب ملکوں میں آپکو کسی مسلم ملک کا نام نظر نہیں آئے گا ... اگر آپ تیزاب گردی کے حوالے سے سرچ کریں تو بھی یہی ملک آپ کو سب سے زیادہ متاثرہ نظر آئیں گے .. جی یہی وہ ممالک جنہیں ہمارا میڈیا جنت بریں ثابت کرنا چاہتا ہے ... جن کی ہمارے ہاں موجود لبرل باندر مثالیں دیتے ہیں ... افسوس کہ ہزاروں مختاراں مائیوں اور ملالاؤں پہ مشتعمل امریکہ اور دوسرے ان ممالک میں کوئی این جی اوز نہیں یہاں کسی شرمین عبید چنائی کو گھاس نہیں ڈالی جاتی .. یہاں کی کوئی این جی او اس بدترین کام پہ اپنے سسٹم پہ نوحہ کناں نظر نہیں آتی ... اور مزے کی بات یہ کہ ان ممالک میں کسی ملا مدرسے کا ہولڈ نہیں ... عورتوں کے حقوق نہیں دبائے جاتے ہاں عورتوں کے ریپ وہ بخوشی کر دیتے ہیں ... چند سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ آزادی نسواں درحقیقت عورت تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے ... ابھی جب اعداد شمار دیکھے تو اس بات پہ یقین ہوا کہ واقعی ہی آزادی کے نام پہ اس مہذب معاشرے نے عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا .. اس سے گھر چھینا , تقدس چھینا , عزت چھینی , برابری کے نام پر مشقت کرائی گئی , برینڈ بنا کر بیچا گیا ... بازاروں میں نیلام کیا گیا ... عورت کی آزادی کے نام پر جنس و پیسے کے ان پیاسوں نے اسے خوب بیوقوف بنایا , بارہ سے تیرہ سال کی بچیاں بھی ان ہوس کے پجاریوں سے محفوظ نا رہ سکیں ... سال میں ایک کیس پاکستان سے لیکر رونا پیٹنا کرنے والی یہ منحوس مائیاں کیا بارہ بارہ سال کی ان امریکی بچیوں کے بارے میں جانتی بھی ہیں جو کہ کم عمری میں ہی مائیں بن گئیں ؟
میرے خیال میں
عورت کی آزادی کے نام پر جنس کا کاروبار چلانے والے صحافیوں , اور کوٹھے چلانے والی ان سو کالڈ لبرل نائیکاؤں کو ڈرموں میں ڈال کر امریکہ و یورپ کی ان جعلی جنتوں میں بھیج دینا چاہئے ... کہ حقوق تو فی الحال وہاں کی مظلوم عورتوں کو چاہئے...
یہاں تو عورتیں محفوظ ہیں الحمدللہ
سالار عبداللہ
میرے سامنے ریپ کے حوالے سے ٹاپ 10ملکوں کی فہرست موجود ہے
جس میں دسویں نمبر پر ملک ایتھوپیا ہے جہاں کی ساٹھ فیصد خواتین کو سیکسوئیل وائلنس کا سامنا کرنا پڑا اور ہر سترہ میں سے ایک خاتون ریپ کا شکار ہوئی
یاد رہے کہ یہ کوئی مسلمان ملک نہیں بلکہ ایک عیسائی ملک ہے
ریپ کے حوالے سے ہی نوواں بڑا ملک سری لنکا ہے ... یہ بھی مسلم ملک نہیں
خواتین سے بدسلوکی اور بے حرمتی کے حوالے سے فہرست میں آٹھواں بڑا ملک کینیڈا ہے جہاں 2,516,918ریپ کیسز دو ہزار ایک سے اب تک رجسٹرڈ ہوے ہیں اور مزے کی بات یہ کہ وہاں کے سرکاری محکموں کا یہ ماننا کہ یہ رجسٹرڈ کیسز ٹوٹل کا چھ فیصد بھی نہیں...
یاد رہے کینیڈا بھی مسلم ملک نہیں بلکہ ایک لبرل اور آزادی پسند ملک ہے
ساتواں نمبر فحاشی و عریانی جسے یار لوگ آزادی اور حقوق بھی کہتے ہیں میں سرفہرست ملک فرانس کا ہے ... کیا آپ جانتے ہیں کہ 1980سے پہلے تک تو یہاں ریپ کوئی جرم سمجھ ہی نہیں جاتا تھا .. اس کے سدباب کا کوئی قانون سرے سے ہی موجود نہیں تھا ... عورت پر جنسی اور جسمانی تشدد پہ قانون بنایا ہی 1992کے بعد گیا
فرانس جیسے لبرل ملک میں سالانہ 75000ریپ کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں..
چھٹے پر ٹیکنالوجی کے بادشاہ جرمنی کا نمبر آتا ہے جہاں اب تک 6505468کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں یاد رہے ان میں سے 240000سے زیادہ متاثرہ خواتین خودکشی و تشدد سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھی ہیں ... ٹیکنالوجی میں تیزی سے ترقی کرتے اس ملک میں انسانیت اتنی ہی تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے
پانچواں نمبر انگلینڈ کا ہے جہاں ہر 16سے 56سال کی عمر کی ہر پانچ میں سے ایک عورت کو جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے
سالانہ چار لاکھ خواتین انگلینڈ میں اپنا وقار کھو بیٹھتی ہیں
چوتھے نمبر پر مشہور ملک ریپستان مطلب ہندوستان آتا ہے , جہاں ہر بائیس منٹ بعد ریپ کا ایک کیس رجسٹرڈ کیا جاتا ہے ... یاد رہے اعداد و شمار کے ماہرین کے نزدیک یہ تعداد اصل تعداد کا دس فیصد بھی نہیں کیوں کہ پسماندگی کی وجہ سے نوے فیصد خواتین رپورٹ درج نہیں کرواتیں
تیسرے نمبر پہ سویڈن آتا ہے جہاں ہر چار میں سے ایک عورت ریپ اور ہر دو میں سے ایک عورت سیکسوئیل ہراسمنٹ کا شکار ہوتی ہے
دوسرے نمبر پہ ساؤتھ افریقہ آتا ہے جہاں بلحاظ آبادی سالانہ 65000سے زائد کیسز رجسٹرڈ کئے جاتے ہیں ... ساؤتھ افریقہ بیبی اینڈ چائلڈ ریپ اور ہراسمنٹ کے حوالے سے بھی دنیا میں بدنام ترین ملک جانا جاتا ہے
اور آخر میں پہلے نمبر پہ ہے مہذب ترین ملک امریکہ
مہذب اور روشن خیال ملک ہونے کی وجہ سے یہاں کے کیسز بھی کافی عجیب و غریب واقع ہوے ہیں ... یہاں ہر چھ میں سے ایک عورت تو ریپ کا لازمی شکار ہوئی ہے پر ہر 33میں سے ایک مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوا ہے ... 19.3% عورتیں اور 3.8% فیصد امریکی مرد زندگی میں کم ازکم ایک دفعہ ریپ کا لازمی شکار ہوے
اوپر موجود تمام اعداد و شمار ایک ویبسائیٹ سے لئے گئے باقی ویبسائیٹ بھی دیکھیں ان میں بھی ٹاپ ٹین کنٹریز یہی ہیں بس ترتیب آگے پیچھے ہے ... ان سب ملکوں میں آپکو کسی مسلم ملک کا نام نظر نہیں آئے گا ... اگر آپ تیزاب گردی کے حوالے سے سرچ کریں تو بھی یہی ملک آپ کو سب سے زیادہ متاثرہ نظر آئیں گے .. جی یہی وہ ممالک جنہیں ہمارا میڈیا جنت بریں ثابت کرنا چاہتا ہے ... جن کی ہمارے ہاں موجود لبرل باندر مثالیں دیتے ہیں ... افسوس کہ ہزاروں مختاراں مائیوں اور ملالاؤں پہ مشتعمل امریکہ اور دوسرے ان ممالک میں کوئی این جی اوز نہیں یہاں کسی شرمین عبید چنائی کو گھاس نہیں ڈالی جاتی .. یہاں کی کوئی این جی او اس بدترین کام پہ اپنے سسٹم پہ نوحہ کناں نظر نہیں آتی ... اور مزے کی بات یہ کہ ان ممالک میں کسی ملا مدرسے کا ہولڈ نہیں ... عورتوں کے حقوق نہیں دبائے جاتے ہاں عورتوں کے ریپ وہ بخوشی کر دیتے ہیں ... چند سال پہلے کہیں پڑھا تھا کہ آزادی نسواں درحقیقت عورت تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے ... ابھی جب اعداد شمار دیکھے تو اس بات پہ یقین ہوا کہ واقعی ہی آزادی کے نام پہ اس مہذب معاشرے نے عورت کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کیا .. اس سے گھر چھینا , تقدس چھینا , عزت چھینی , برابری کے نام پر مشقت کرائی گئی , برینڈ بنا کر بیچا گیا ... بازاروں میں نیلام کیا گیا ... عورت کی آزادی کے نام پر جنس و پیسے کے ان پیاسوں نے اسے خوب بیوقوف بنایا , بارہ سے تیرہ سال کی بچیاں بھی ان ہوس کے پجاریوں سے محفوظ نا رہ سکیں ... سال میں ایک کیس پاکستان سے لیکر رونا پیٹنا کرنے والی یہ منحوس مائیاں کیا بارہ بارہ سال کی ان امریکی بچیوں کے بارے میں جانتی بھی ہیں جو کہ کم عمری میں ہی مائیں بن گئیں ؟
میرے خیال میں
عورت کی آزادی کے نام پر جنس کا کاروبار چلانے والے صحافیوں , اور کوٹھے چلانے والی ان سو کالڈ لبرل نائیکاؤں کو ڈرموں میں ڈال کر امریکہ و یورپ کی ان جعلی جنتوں میں بھیج دینا چاہئے ... کہ حقوق تو فی الحال وہاں کی مظلوم عورتوں کو چاہئے...
یہاں تو عورتیں محفوظ ہیں الحمدللہ
سالار عبداللہ
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔