عورت اور قدیم انگلستانی تہذیب
حصہ ( سوئم)
انگلستان جو آج تہذیب و تمدن کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور اپنے تئیں آزادی نسواں کا علمبردار بتاتا ہے چھٹی صدی عیسوی میں جہالت اور ظلم کا مرکز تھا وہاں عورت کی حثئیت نہائیت ہی زلیل تھی عموما کمزور اور بد صورت لڑکیاں مار دی جاتی تھیں
چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں انگلستان کے ہر گوشے میں عورت کو نوکروں کے زمرے میں داخل کیا جاتا تھا اور ان کو سوسائیٹی کے لیے ایک بد نما داغ سمجھا جاتا تھا عورت کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنے شوہر ، سرپرست اور پادری کی غلامی کرے
اکثر عیسائی پیشواوں کا یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو صلیب پر چڑھے تو محض حضرت حوا کے گندم کھانے کی وجہ سے۔۔۔۔ اس خیال نے عیسائیوں کے دل و دماغ پر ایسا قبضہ کر لیا تھا کہ ان کے معقول اور سمجھدار اشخاص بھی عورت کو زہریلا بچھو اور روحوں کو تباہ کرنے کا شیطانی آلہ سمجھتے تھے
چھٹی صدی کے مشہور فلاسفر تھامس ہارڈنگ کا قول ہے کہ عورت ایک خوفناک اژدھے کی مانند ہے جس کا مقابلہ آسان نہیں ہے ہم۔اگر دس برس تک غور کرتے رہیں تب بھی وہ عیاریاں ہمارے زہن میں نہیں آسکتیں جو عورت ایک لمحہ میں سوچ سکتی ہے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عورت ایک شیطانی جادو ہے جس کے اثر سے محفوظ رہنا بہت دشوار ہے وہ ایک ایسی غذا ہے جس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن اسکا ہضم کرنا محال ہے وہ ایک ایسے پھول کی مانند ہے جو بظاہر دیکھنے میں خوشنما ہے لیکن اس میں بے شمار کانٹے پنہاں ہیں
ہسٹری آف دی ورلڈ صفہ 221
ڈاکٹر سپرنگز اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ زمانہ گذشتہ میں انگلستان میں عورت کی حثئیت نہائیت زلیل تر تھی وہ ایک ایسی مخلوق تھی جس کے لیے کوئی احترام نہیں تھا میں یہ الفاظ انگلستان کی توہین کے لیے نہیں لکھ رہا بلکہ حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں
الیگزینڈر جیسے سنگدل نے جس بے دردی سے عورتوں کو سزائیں دیں اس سے تاریخ یورپ کے صفحات رنگین ہیں ملکہ الزبتھ اور جیمس اول کے زمانے میں ہزاروں عورتوں کا جلایا جانا اور پر اسرار طریقے سے ہلاک کرنا تاریخ کے کھلے واقعات ہیں اور میں سمجھتا ہوں انگلستان کی پیشانی سے یہ بد نما داغ کبھی نہیں مٹ سکتے
میں نہائیت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج بھی جو آزادی یورپ اور امریکہ میں عورت کو حاصل ہے وہ کسی مزہبی یا اصلاحی جزبہ کے ما تحت نہی ہے بلکہ نفس کی شوق آفرینیوں کا حیاء سوز مظاہرہ ہے
میں دیکھتا ہوں جو مذہب کو ماننے والے عیسائی ہیں وہ اب بھی عورت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے کیونکہ عیسائی مذہب کے قانون میں عورت کی حمائیت نہیں ہے
کتاب مسلمان بیوی کے حقوق و فرائض صفہ 8،9
(جاری ہے۔۔۔۔)
از سالار سکندر
حصہ ( سوئم)
انگلستان جو آج تہذیب و تمدن کا مرکز سمجھا جاتا ہے اور اپنے تئیں آزادی نسواں کا علمبردار بتاتا ہے چھٹی صدی عیسوی میں جہالت اور ظلم کا مرکز تھا وہاں عورت کی حثئیت نہائیت ہی زلیل تھی عموما کمزور اور بد صورت لڑکیاں مار دی جاتی تھیں
چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں انگلستان کے ہر گوشے میں عورت کو نوکروں کے زمرے میں داخل کیا جاتا تھا اور ان کو سوسائیٹی کے لیے ایک بد نما داغ سمجھا جاتا تھا عورت کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنے شوہر ، سرپرست اور پادری کی غلامی کرے
اکثر عیسائی پیشواوں کا یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو صلیب پر چڑھے تو محض حضرت حوا کے گندم کھانے کی وجہ سے۔۔۔۔ اس خیال نے عیسائیوں کے دل و دماغ پر ایسا قبضہ کر لیا تھا کہ ان کے معقول اور سمجھدار اشخاص بھی عورت کو زہریلا بچھو اور روحوں کو تباہ کرنے کا شیطانی آلہ سمجھتے تھے
چھٹی صدی کے مشہور فلاسفر تھامس ہارڈنگ کا قول ہے کہ عورت ایک خوفناک اژدھے کی مانند ہے جس کا مقابلہ آسان نہیں ہے ہم۔اگر دس برس تک غور کرتے رہیں تب بھی وہ عیاریاں ہمارے زہن میں نہیں آسکتیں جو عورت ایک لمحہ میں سوچ سکتی ہے میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ عورت ایک شیطانی جادو ہے جس کے اثر سے محفوظ رہنا بہت دشوار ہے وہ ایک ایسی غذا ہے جس کا ذائقہ اچھا ہے لیکن اسکا ہضم کرنا محال ہے وہ ایک ایسے پھول کی مانند ہے جو بظاہر دیکھنے میں خوشنما ہے لیکن اس میں بے شمار کانٹے پنہاں ہیں
ہسٹری آف دی ورلڈ صفہ 221
ڈاکٹر سپرنگز اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ زمانہ گذشتہ میں انگلستان میں عورت کی حثئیت نہائیت زلیل تر تھی وہ ایک ایسی مخلوق تھی جس کے لیے کوئی احترام نہیں تھا میں یہ الفاظ انگلستان کی توہین کے لیے نہیں لکھ رہا بلکہ حقیقت کا اظہار کر رہا ہوں
الیگزینڈر جیسے سنگدل نے جس بے دردی سے عورتوں کو سزائیں دیں اس سے تاریخ یورپ کے صفحات رنگین ہیں ملکہ الزبتھ اور جیمس اول کے زمانے میں ہزاروں عورتوں کا جلایا جانا اور پر اسرار طریقے سے ہلاک کرنا تاریخ کے کھلے واقعات ہیں اور میں سمجھتا ہوں انگلستان کی پیشانی سے یہ بد نما داغ کبھی نہیں مٹ سکتے
میں نہائیت صاف لفظوں میں کہنا چاہتا ہوں کہ آج بھی جو آزادی یورپ اور امریکہ میں عورت کو حاصل ہے وہ کسی مزہبی یا اصلاحی جزبہ کے ما تحت نہی ہے بلکہ نفس کی شوق آفرینیوں کا حیاء سوز مظاہرہ ہے
میں دیکھتا ہوں جو مذہب کو ماننے والے عیسائی ہیں وہ اب بھی عورت کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے کیونکہ عیسائی مذہب کے قانون میں عورت کی حمائیت نہیں ہے
کتاب مسلمان بیوی کے حقوق و فرائض صفہ 8،9
(جاری ہے۔۔۔۔)
از سالار سکندر
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔