ہلکے نیلے رنگ کا نقطہ
تحریر: محمد شاہ زیب صدیقی
ہمیں بالآخر ماننا ہوگا کہ کائنات کی لامتناہی وسعتیں ہی اسے پرسرار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انسانوں کو چیلنج کرتی ہیں جس کے باعث انسان ان کو explore کرنے کے لئے بھاگا چلا جاتا ہے ۔ خلاء کی وسعتوں میں پہلا قدم انسان نے آج سے تقریباً 60 سال پہلے اُس وقت رکھا جب وہ خلاء میں پہنچا ، اس کے بعد چاند پر 12 انسانوں کا کامیابی سے اتر کر واپس آجانا ایک ناقابلِ فراموش پل ثابت ہوا۔ اسی جستجو کے باعث 1960ء کی دہائی میں ناسا نےکچھ unmannedمشنز بھیجنے کا اعلان کیا جن کا مقصد انسانوں کو نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کے متعلق اہم معلومات مہیا کرنا تھا۔ اس ضمن میں ناسا نے کئی سیریز لانچ کیں ، جن میں سے وائیجر سیریز بہت اہم ثابت ہوئی اس کے تحت 2 سیٹلائیٹس کو خلاء میں بھیجا گیا ۔ وائیجر ون کو 5 ستمبر 1977ء کو لانچ کیا گیا جس نے 5 مارچ 1979ء کو مشتری جبکہ 12 نومبر 1980ء کو زحل کا چکر لگایا اور زمین پر تصاویر بھیجیں ، یہ پہلی بار تھا جب انسان نے ان دونوں سیاروں اور ان کے چاندوں کو اتنا واضح دیکھا۔ اس سیٹلائیٹ کو بھیجنے کا اصل مقاصد مشتری اور زحل کے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا لیکن آٹھ دن زحل کے گرد چکر لگانے کے بعد وائیجر ون نے وہ رفتار حاصل کرلی جس کے تحت نظامِ شمسی سے باہر نکلا جاسکتا تھا لہذا انجنز آن کرکے اسکا رُخ نظامِ شمسی سے باہر کی جانب کردیا گیا۔وائیجر ون نے 17 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بھاگنا شروع کردیاچونکہ راستے میں نظامِ شمسی کے دیگر سیارے نہیں آرہے تھے لہذا اس کے بعد وائیجر ون کے انجن کو آف کرکے اسے خلاءمیں تیرتا چھوڑ دیا گیا ۔ اس دوران فلکیات دان کارل ساگان نے ناسا سے درخواست کی کہ وائیجر ون کے کیمرے کو کھول کر زمین کی ایک آخری تصویر لی جائے ، اس کا کوئی سائنسی فائدہ تو نہ ہوگا مگر ہم عام لوگوں کو یہ دِکھا سکیں گے کہ ہماری حیثیت کائنات (بلکہ نظامِ شمسی) میں کتنی سی ہے۔ ناسا نے کارل ساگان کے اس آئیڈئیے کو سراہا ۔ ناسا کے ماہرین نے calculations کرکے زمین کی تصویر لینے کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا اور 14 فروری 1990ء کو وائیجر ون کے کیمرے سے زمین کی تصاویر لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ناسا نے اپنے ہیڈکوارٹر میں تمام افراد کو آسمان کی جانب ہاتھ ہلانے کا کہا اور اس دوران وائیجر ون کا کیمرا آن کرکے مختلفexposures میں زمین کی 60 تصاویر لیں گئیں جن میں سے صرف تین تصاویر میں ہماری زمین نظر آئی وہ بھی نقطے جتنی! ان تینوں تصاویرکو ملا کر ناسا نے بعد ازاں ایک detailedتصویر جاری کی جو آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔ کیمرے کے شوقین افراد جانتے ہیں کہ ایک تصویر لاتعداد پکسلز ملا کر وجود میں آتی ہے، وائیجر ون سے کھینچے جانے والی تصویر میں 6 لاکھ چالیس ہزار پکسلز موجود تھے اور ہماری زمین نے اس تصویر میں ایک پکسل سے بھی کم جگہ گھیری (ناسا کے مطابق اس تصویر میں ہماری زمین نے 0.12 پکسلز جگہ گھیری!) بعد ازاں تصویر کو کئی بار modify کرنے پر زمین جیسے نقطے کے پاس چاند بھی بہت ہی ہلکے سے سفید نقطے کی شکل میں ملا۔ زمین پر سمندر موجود ہونے کی وجہ سے اس تصویر میں ہماری زمین ہلکے نیلے نقطے جیسی نظر آئی جس کی بنیاد پر اس تصویر کو Pale Blue Dot نام دیا گیا ، جی ہاں! ان نقطے پر سارا زندگی کا تماشہ ہورہا ہے۔ 28 سال پہلے جب یہ تصویر کھینچی گئی اس وقت وائیجر ون کا زمین سے فاصلہ 6 ارب کلومیٹر تھا اور آج اس کا فاصلہ زمین سے 21 ارب کلومیٹر ہوچکا ہے! تصویر لینے کے بعد وائیجر ون کا سفر جاری رہا اور 17 دسمبر 2004ء کو یہ خلائی گاڑی نظامِ شمسی کے کنارے heliosheath تک پہنچ گئی ،اس نے سائنسدانوں کو اس متعلق مفید ڈیٹا بھیجا۔ بعدازاں 25 اگست 2012ء کو وائیجر ون heliosheath سے نکل کر نظامِ شمسی کے آخری کنارے interstellar space میں داخل ہونے والی پہلی انسانی مشین بن گئی۔ 40 سال گزر جانے کے بعد بھی اس کا سفر 17 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے جاری و ساری ہے اور امریکا، اسپین ،آسٹریلیا میں موجود ناسا کی ٹیلی سکوپس کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس کی جانب سے بھیجے جانے والے سگنلز روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہم تک 19 گھنٹے میں پہنچتے ہیں۔ اس خلائی گاڑی میں ناسا نے 1977ء کا "گولڈن ریکارڈ" بھی رکھا جس کے تحت پاکستان کے شہر راولپنڈی سمیت دنیا کے دیگر شہروں کی تصاویر موجود ہیں، اور اردو سمیت دیگر زبانوں میں آوازیں بھی موجود ہیں (یہ تمام ڈیٹا گوگل سے باآسانی مل سکتا ہے) اس کے علاوہ اس گاڑی میں کائنات کا نقشہ بنا کر زمین کا پتہ بھی بتایا گیا تا کہ اگر یہ خلائی گاڑی کسی خلائی مخلوق کے ہاتھ لگے تو انہیں معلوم ہو کہ ہماری زمین کہاں موجود ہے اور کیسی ہے ۔ بلاشبہ یہ خلائی گاڑی انسان کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک ہے!۔حال ہی میں 28 نومبر 2017ء کو ناسا نے اس کی پوزیشن ٹھیک کرنے کی خاطر اس کے انجن کو آن کرنے کا تجربہ کیا اور 37 سال بعد انجنز آن ہوئے جس کے بعد ناسا نے اس کی پوزیشن ٹھیک کرکے اعلان کیا کہ وائیجر ون اب ہمیں 2025ء تک ڈیٹا بھیجتی رہے گی اس کے بعد یہ بجلی نہ بننے کی وجہ سے سگنل بھیجنا بند کردے گی۔سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ یہ اگلے 300 سال بعد اورٹ کلاؤڈ نامی برفیلی پٹی میں داخل ہوجائے گی جو کہ ہمارے نظامِ شمسی کے گردموجود ہے ۔جس سے نکلنے کے لئے اسے 30 ہزار سال درکار ہونگے ۔ آج سے تقریباً 70 ہزار سال بعد یہ سیٹلائیٹ ہمارے قریب ترین ستارے تک پہنچے گی ۔ 70 ہزار سال بعد زمین کی نا معلوم کیا حالت ہو مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی باقیات کائنات میں چھوڑے جارہا ہے۔ اس موقع پر مرزا غالب کے کہے ہوئے مصرعے یاد آگئے:
؎ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
#زیب_نامہ
وائیجر ون کے متعلق مزید پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے:
https://m.facebook.com/story.php…
اورٹ کلاؤڈ کے متعلق پڑھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے:
https://m.facebook.com/story.php…
#وائیجر_ون #ناسا #NASA #VoyagerOne #GoldenRecord
تحریر: محمد شاہ زیب صدیقی
ہمیں بالآخر ماننا ہوگا کہ کائنات کی لامتناہی وسعتیں ہی اسے پرسرار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں اور انسانوں کو چیلنج کرتی ہیں جس کے باعث انسان ان کو explore کرنے کے لئے بھاگا چلا جاتا ہے ۔ خلاء کی وسعتوں میں پہلا قدم انسان نے آج سے تقریباً 60 سال پہلے اُس وقت رکھا جب وہ خلاء میں پہنچا ، اس کے بعد چاند پر 12 انسانوں کا کامیابی سے اتر کر واپس آجانا ایک ناقابلِ فراموش پل ثابت ہوا۔ اسی جستجو کے باعث 1960ء کی دہائی میں ناسا نےکچھ unmannedمشنز بھیجنے کا اعلان کیا جن کا مقصد انسانوں کو نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کے متعلق اہم معلومات مہیا کرنا تھا۔ اس ضمن میں ناسا نے کئی سیریز لانچ کیں ، جن میں سے وائیجر سیریز بہت اہم ثابت ہوئی اس کے تحت 2 سیٹلائیٹس کو خلاء میں بھیجا گیا ۔ وائیجر ون کو 5 ستمبر 1977ء کو لانچ کیا گیا جس نے 5 مارچ 1979ء کو مشتری جبکہ 12 نومبر 1980ء کو زحل کا چکر لگایا اور زمین پر تصاویر بھیجیں ، یہ پہلی بار تھا جب انسان نے ان دونوں سیاروں اور ان کے چاندوں کو اتنا واضح دیکھا۔ اس سیٹلائیٹ کو بھیجنے کا اصل مقاصد مشتری اور زحل کے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا لیکن آٹھ دن زحل کے گرد چکر لگانے کے بعد وائیجر ون نے وہ رفتار حاصل کرلی جس کے تحت نظامِ شمسی سے باہر نکلا جاسکتا تھا لہذا انجنز آن کرکے اسکا رُخ نظامِ شمسی سے باہر کی جانب کردیا گیا۔وائیجر ون نے 17 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے بھاگنا شروع کردیاچونکہ راستے میں نظامِ شمسی کے دیگر سیارے نہیں آرہے تھے لہذا اس کے بعد وائیجر ون کے انجن کو آف کرکے اسے خلاءمیں تیرتا چھوڑ دیا گیا ۔ اس دوران فلکیات دان کارل ساگان نے ناسا سے درخواست کی کہ وائیجر ون کے کیمرے کو کھول کر زمین کی ایک آخری تصویر لی جائے ، اس کا کوئی سائنسی فائدہ تو نہ ہوگا مگر ہم عام لوگوں کو یہ دِکھا سکیں گے کہ ہماری حیثیت کائنات (بلکہ نظامِ شمسی) میں کتنی سی ہے۔ ناسا نے کارل ساگان کے اس آئیڈئیے کو سراہا ۔ ناسا کے ماہرین نے calculations کرکے زمین کی تصویر لینے کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا اور 14 فروری 1990ء کو وائیجر ون کے کیمرے سے زمین کی تصاویر لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ناسا نے اپنے ہیڈکوارٹر میں تمام افراد کو آسمان کی جانب ہاتھ ہلانے کا کہا اور اس دوران وائیجر ون کا کیمرا آن کرکے مختلفexposures میں زمین کی 60 تصاویر لیں گئیں جن میں سے صرف تین تصاویر میں ہماری زمین نظر آئی وہ بھی نقطے جتنی! ان تینوں تصاویرکو ملا کر ناسا نے بعد ازاں ایک detailedتصویر جاری کی جو آپ نیچے دیکھ سکتے ہیں۔ کیمرے کے شوقین افراد جانتے ہیں کہ ایک تصویر لاتعداد پکسلز ملا کر وجود میں آتی ہے، وائیجر ون سے کھینچے جانے والی تصویر میں 6 لاکھ چالیس ہزار پکسلز موجود تھے اور ہماری زمین نے اس تصویر میں ایک پکسل سے بھی کم جگہ گھیری (ناسا کے مطابق اس تصویر میں ہماری زمین نے 0.12 پکسلز جگہ گھیری!) بعد ازاں تصویر کو کئی بار modify کرنے پر زمین جیسے نقطے کے پاس چاند بھی بہت ہی ہلکے سے سفید نقطے کی شکل میں ملا۔ زمین پر سمندر موجود ہونے کی وجہ سے اس تصویر میں ہماری زمین ہلکے نیلے نقطے جیسی نظر آئی جس کی بنیاد پر اس تصویر کو Pale Blue Dot نام دیا گیا ، جی ہاں! ان نقطے پر سارا زندگی کا تماشہ ہورہا ہے۔ 28 سال پہلے جب یہ تصویر کھینچی گئی اس وقت وائیجر ون کا زمین سے فاصلہ 6 ارب کلومیٹر تھا اور آج اس کا فاصلہ زمین سے 21 ارب کلومیٹر ہوچکا ہے! تصویر لینے کے بعد وائیجر ون کا سفر جاری رہا اور 17 دسمبر 2004ء کو یہ خلائی گاڑی نظامِ شمسی کے کنارے heliosheath تک پہنچ گئی ،اس نے سائنسدانوں کو اس متعلق مفید ڈیٹا بھیجا۔ بعدازاں 25 اگست 2012ء کو وائیجر ون heliosheath سے نکل کر نظامِ شمسی کے آخری کنارے interstellar space میں داخل ہونے والی پہلی انسانی مشین بن گئی۔ 40 سال گزر جانے کے بعد بھی اس کا سفر 17 کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے جاری و ساری ہے اور امریکا، اسپین ،آسٹریلیا میں موجود ناسا کی ٹیلی سکوپس کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس کی جانب سے بھیجے جانے والے سگنلز روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ہم تک 19 گھنٹے میں پہنچتے ہیں۔ اس خلائی گاڑی میں ناسا نے 1977ء کا "گولڈن ریکارڈ" بھی رکھا جس کے تحت پاکستان کے شہر راولپنڈی سمیت دنیا کے دیگر شہروں کی تصاویر موجود ہیں، اور اردو سمیت دیگر زبانوں میں آوازیں بھی موجود ہیں (یہ تمام ڈیٹا گوگل سے باآسانی مل سکتا ہے) اس کے علاوہ اس گاڑی میں کائنات کا نقشہ بنا کر زمین کا پتہ بھی بتایا گیا تا کہ اگر یہ خلائی گاڑی کسی خلائی مخلوق کے ہاتھ لگے تو انہیں معلوم ہو کہ ہماری زمین کہاں موجود ہے اور کیسی ہے ۔ بلاشبہ یہ خلائی گاڑی انسان کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک ہے!۔حال ہی میں 28 نومبر 2017ء کو ناسا نے اس کی پوزیشن ٹھیک کرنے کی خاطر اس کے انجن کو آن کرنے کا تجربہ کیا اور 37 سال بعد انجنز آن ہوئے جس کے بعد ناسا نے اس کی پوزیشن ٹھیک کرکے اعلان کیا کہ وائیجر ون اب ہمیں 2025ء تک ڈیٹا بھیجتی رہے گی اس کے بعد یہ بجلی نہ بننے کی وجہ سے سگنل بھیجنا بند کردے گی۔سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ یہ اگلے 300 سال بعد اورٹ کلاؤڈ نامی برفیلی پٹی میں داخل ہوجائے گی جو کہ ہمارے نظامِ شمسی کے گردموجود ہے ۔جس سے نکلنے کے لئے اسے 30 ہزار سال درکار ہونگے ۔ آج سے تقریباً 70 ہزار سال بعد یہ سیٹلائیٹ ہمارے قریب ترین ستارے تک پہنچے گی ۔ 70 ہزار سال بعد زمین کی نا معلوم کیا حالت ہو مگر اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی باقیات کائنات میں چھوڑے جارہا ہے۔ اس موقع پر مرزا غالب کے کہے ہوئے مصرعے یاد آگئے:
؎ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
#زیب_نامہ
وائیجر ون کے متعلق مزید پڑھنے کے لئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے:
https://m.facebook.com/story.php…
اورٹ کلاؤڈ کے متعلق پڑھنے کےلئے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجئے:
https://m.facebook.com/story.php…
#وائیجر_ون #ناسا #NASA #VoyagerOne #GoldenRecord
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔