Monday 15 January 2018

کروڑوں لوگوں کا قاتل لیوپولڈ دوئم (Leopold 2) ہے, جو بلجیم کا بادشاہ تھا۔

اس تصویر کو اچھی طرح دیکھیے۔ کیا آپ اسے پہچانتے ہیں؟
اکثریت اسے پہچانتی ہے اور نہ ہی اس کے بارے میں کبھی کچھ سنا ہے۔
باوجود اس کے کہ یہ شخص ایک کروڑ سے زیادہ انسانوں کا قاتل ہے ۔ دنیا میں اس کے لیے ویسے نفرت انگیر جذبات نہیں ،جیسے ہٹلر اور موسولینی کے بارے میں ہیں ۔ نہ ہی اس کے مظالم نام نہاد ہولو کاسٹ کی طرح دنیا میں زبان زد عام ہیں۔
اس کا نام لیوپولڈ دوئم (Leopold 2) ہے, جو بلجیم کا بادشاہ تھا۔
اس نے مملکت بلجیم پر 1885 سے 1909 کے دوران حکومت کی۔ برعظم ایشیا اور افریقہ میں کئی علاقوں میں انسانوں کو غلام بنانے کی ناکام کوششوں کے بعد بلآخر افریقی ملک کانگو (Congo) کے باشندوں کو غلام بنانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ اس وقت اس علاقے کا رقبہ بلجیم کے رقبہ سے 72 گنا زیادہ تھا۔
انیسویں صدی کا آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں صنعتی ترقی کے باعث ربر کی ڈیمانڈ بہت بڑھ چکی تھی۔ خصوصا اس گاڑیوں کی تعداد میں اضافے اور ان میں ہوا بھرے ٹائروں کے رجحان کے باعث ربڑ کی طلب میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا تھا۔
اس لحاظ سے کانگو کی سرزمین ایک مثالی چناؤ تھا کیونکہ وہاں پر بارش بھرے جنگلات اور ربڑ کے خودرَو درختوں کی بہتات تھی۔
یہاں ربڑ سے دولت اکٹھی کرنے کےلیے لیوپولڈ بہت وحشیانہ طریقہ استعمال کیا۔ اس کے فوجی مقامی افریقیوں کی بستیوں میں جا گھستے۔وہ وہاں کی عورتوں اور بچوں کو آتشیں اسلحے کے زور پر یرغمال بنا لیتے تھے۔ پھر مردوں کو انہیں آزاد کرانے کے لیے مجبوراکیا جاتا کہ وہ جنگلوں میں جاکر ربڑ کا رس نکال نکال کر لائیں۔ جب وہ ایک جگہ کے درخت کو فارغ کر لیتے تو ان کو جنگل میں آگے سے آگے جانے پر مجبور کرتے۔ کام میں سستی سے کام لینے کی بڑی سخت سزا تھی۔ جو شخص مقررہ مقدار میں ربر کے پودے کا رس نہ لا پاتا، اسے کوڑوں سے مارا جاتا۔ کبھی کبھی اسقدر مارا جاتا کہ موت کے منہ میں پہنچا دیتے یا ان کے ہاتھ کاٹ دیتے۔ کچھ تشدد سے مرتے لیکن زیادہ تعداد لمبے دورانیہ تک بغیر کھائے پئے کام کرنے کے باعث مر جاتی۔
مردوں سے کہیں زیادہ بُرا حال یرغمالی عورتوں اور بچوں کا ہوتا تھا ۔ مردوں کو زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ان کے پیاروں کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں، جن میں کوڑوں سے مارنا،،زنا بالجبر،بھوکا رکھنا وغیرہ عام تھا۔ غرض ہر وہ کوشش کی جاتی کہ یہ موت کے دھانے پر پہنچ جائیں ۔
یوں مردوں کو زبردستی پُر مشقت بیگار ، اور بستیوں کے یرغمالی عورتوں،بوڑھوں ،بچوں اور بیمار مردوں دونوں پر مسلط مسلسل بھوک اور فاقوں کی وجہ سے کئی وبائیں اور امراض پھوٹ پڑے ۔ خصوصا یورپ میں وبائی صورت اختیار کرنے والی بیماریوں مثلا چیچک اور ٹی بی بھی اس خظے میں پھیل گئیں۔ اب یورپ کے مہذب سفید چمڑی والوں کو وہاں کے لوگوں سے صرف بیگار لینی تھی ، اُن کے علاج پر پیسہ خرچ کرنے میں کسے دلچسبی ہو سکتی ہے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ صرف لیوپڈ دوئم کے زیر قبضہ علاقے میں ڈیڑھ عشرے کے دوران 10 ملین سے زیادہ انسان لقمہ اجل بن گئے ۔
مشہور امریکی مصنف مارک ٹوین نے لیوپڈ کی ذات اور کی خونی سرگرمیوں کا تعارف ان الفاظ میں کرایا ۔
"جس وقت وہ لوگ بھوک،بیماری،مایوسی اور کسی وقفے اور آرام کے بغیر مشقت اور بیگار کرنے کی وجہ سے اپنی ڈیوٹیاں پوری کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنگلوں میں چلے جاتے ہیں تاکہ میری سزا سے بچ سکیں۔تب میری فوج ان کا پیچھا کرتی اور ان کو ذبح کرتی ہے،ان کی عورتوں کو رہن رکھنے کے بعد بستیوں کو آگ لگا دیتی ہے۔وہ ہر چیز پر کہتے ’میں کیسے ایک پوری قوم کو کوڑوں سے مار سکتا ہوں ؛ایک قوم جواس کائنات میں دوستوں سے محروم ہے تو میں ان کی زندگی کا وجود ختم کر دیتا ہوں محض اپنی تسکین کے لئے ہر طریقے سے ان لوگوں کو قتل کرتا ہوں۔"
مغرب کی مرتب کردہ جدید تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ اگر کوئی شخص دس ملین سے زیادہ کالے افریقی انسانوں کا قتل کر دے ، تو بھی اُسے کوئی ہٹلر کے مشابہہ نہیں قرار دے گا ۔نہ ہی اُس کا نام برائی اور شر کے سمبل کے طور پر لیا جائے گا۔ کسی کو اُس کی شکل دیکھنے سے لوگوں کو دہشت یا کراہت کا احساس تک نہ ہو گا، میڈیا سے لے کر نصاب تک کہیں بھی اس کے ہاتھوں ذبح ہونے والوں کے بارے میں بات کی جائے گی، بلکہ اگر قاتل سفید چمڑی والا ہوا تو پھر تاریخ میں اُس شخص کو اُس کے مظالم کے بجائے کسی اور عنوان سے یاد کیا جائے گا۔ خواہ نام واسکوڈے گاما ہو یا شہزادہ ہنری ملاح، یا پھر رابرٹ کلائیو۔
ماخوذ از ‘‘ایقاظ’’

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔