اتفاقاً پیدا ہونے واے خلئے کی کہانی اور ارتقا کے جھوٹ اور خدائی نظریہ تخلیق کی تائید
تحریر: ہارون یحیی
تدوین و ترتیب: احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ جاندار خلیہ محض اتفاق سے وجود میں آگیا تو اس کو مندرجہ ذیل کہانی پر یقین لانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک چھوٹے سے شہر کی کہانی ہے۔
ایک دن بنجر زمین پر موجود پتھروں کے بیچ پھنسی ہوئی کچھ مٹی بارش کے پانی سے گیلی ہوگئی۔ یہ گیلی مٹی سورج کے نکلنے کے بعد سوکھ کر سخت ہوگئی اور اس کے اندر قوت مدافعت پیدا ہوگئی۔بعد میں یہ پتھر جنہوں نے سانچے کا کام بھی کیا تھا اس کے کسی طرح ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوگئے اور پھر ایک صاف ستھری شکل کی مضبوط اینٹ کی شکل دھارگئے۔ یہ اینٹ اسی قدرتی ماحول میں سالوں ایک اور اپنی جےسی اینٹ کے بننے کا انتظار کرتی رہی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس جگہ پر ہزاروں اسی طرح کی اینٹیں جمع نہیں ہوگئےں۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اینٹ کسی نقصان کا شکار نہیں ہوئی ۔ باوجود ہزاروں سال کے طوفانوں، بارشوں، ہواﺅں، سورج کی تیز روشنی اور شدید ٹھنڈ کے باوجود کسی بھی اینٹ میں معمولی سی بھی دراڑ نہیں پڑی اور نہ وہ ٹوٹیں یا اپنی جگہ سے ہلیں بلکہ نہایت قطعیت سے ایک ہی جگہ پر دوسری اینٹیں بننے کاانتظار کرتی رہیں۔
جب کافی مقدار میں اینٹیں جمع ہوگئیں تو انہوں نے ماہرانہ طور پر اپنے آپ کو ترتیب دیتے ہوئے ایک بہترین عمارت تعمیر کرلی۔ ان کی ترتیب کسی ہوا، طوفان یا آندھی کا بے ترتیب نقشہ نہیں تھا بلکہ ایک انتہائی منظم تعمیر کاثبو ت تھا۔ ان کو جوڑنے والے سیمنٹ اور مٹی کے مرکبات بھی ان کی طرح قدرتی عوامل کے ذریعے وجود میں آئے اور ان اینٹوں کے درمیان خود ہی گھس کر ان کو چپکانے اور آپس میں جوڑنے کا اہم کام انجام دیتے رہے۔ ان تمام واقعات کے دوران زمین کے نیچے قدرتی حالات کے تحت لوہا بننا شروع ہوگیا جو کہ خاص طور پر اس عمارت کی بنیادوں میں استعمال ہوگا جوکہ ان اینٹوں سے بنے گی۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں ایک مکمل عمارت اپنی تمام تر ضروری لوہے اور لکڑی کے پرزوں اور بجلی کی تاروں سمیت کھڑی ہوگئی۔
ظاہر ہے کہ ایک عمارت صرف بنیادوں، اینٹوں اور سیمنٹ ہی کا مرکب نہیں ہوتی۔ تو پھر باقی دوسری چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ اس کا جواب آسان ہے۔ جس طرح کا سامان اس عمارت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے وہ سب اس زمین کے اندر موجودہے جس کے اوپر وہ عمارت کھڑی ہے مثلاً شیشوں کے لئے سیلیکون، بجلی کی تاروں کے لئے تانبا، بنیادوں کے ستونوں اور پانی کے پائپوں کے لئے لوہا وغیرہ سب زمین کے اندر وافر مقدار میں موجود دھاتیں ہیں۔ صرف قدرتی کیفیات کی ہنرمندی سے یہ دھاتیں ضرورت کے تحت اشکال میں ڈھل کر عمارت کے اندر پہنچ جائیں گی۔ اینٹوں کے اس ڈھانچے میں تمام پائپ، لکڑی کا کام اور دوسری ضروری چیزیں اڑتی ہوا، بارش اور زلزلوں کی مدد سے اپنی صحیح جگہ پر پہنچ جائیں گی۔ہرچیز اتنے منظم اور مکمل طریقے سے تعمیر ہوگی کہ اینٹوں نے صحیح جگہوں پر کھڑکیوں کی جگہ بھی چھوڑدی ہو گی تاکہ قدرتی عوامل بعد میں شیشہ نامی چیز بناکر یہاں پر کھڑکیاں لگادیں۔ اس کے علاوہ اینٹیں، پانی، بجلی اور ایئرکنڈیشنر کے نظام کے لئے مناسب جگہ بھی موجود ہو گی جو کہ بعد میں محض اتفاقاً ہی وجود میں آجائیں گے۔ ہر چیز بہترین طریقے سے وجود میں آتی ہے ۔غرضےکہ اتفاقات اورقدرتی عوامل ایک مکمل عمارت تعمیر کردےں گے۔
اگر کسی کو اب بھی اس کہانی کے سچ ہونے کا یقین ہے تو اس کو اس شہر کی دوسری عمارتوں، سڑکوں، کارخانوں، چھوٹی عمارتوں اور گھروں کا بھی ا سی طرح سے وجود میں آنے پر بھی مکمل یقین آجائے گا۔ اگر کسی کے اندر تکنیکی سمجھ بوجھ ہو اور جو اس موضوع سے تھوڑا آشنا ہو تو اس کو ایک ایسی سائنسی نوعیت کی کتاب لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی جس کے اندر وہ شہر کے نظامِ نکاسی اور دوسری عمارتوں کے ساتھ اس عمارت کی ہم آہنگی کے اوپر اپنا ذاتی ارتقائی سائنسی مقالہ پیش کرے۔ ذہانت کے اس بھرپور مظاہرے پر بہت ممکن ہے کہ ایسے مصنف کو کئی تعلیمی انعامات سے نوازا جائے اور مصنف خود کو ایک غیر معمولی ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا حامل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ نظریہ¿ ارتقاءبھی اسی طرح سے دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آئی اور یہ نظریہ اس کہانی ہی کی طرح واہیات اور نامعقول ہے کیونکہ جسم کی تمام تر ذمہ دارےاں، رابطے، نقل و حمل اور انتظامی نظام تو اےک طرف، ایک واحد خلیہ بھی کسی ایک پورے شہر سے کم پیچیدہ اور اہم نہیں ہے۔
ارتقائی سائنسدان ڈبلیو۔ایچ۔ تھارپ کہتا ہے ”سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا تو دور کی بات، انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔“
ایک خلئے کی ساخت اس قدر پیچیدہ ہے کہ جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی اس کو بنانے سے قاصر ہے۔ خلیہ بنانے کی ہر کوشش ہمیشہ سے ناکام رہی اور اس لئے سائنسدانوں نے اب ایسی کسی کوشش کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا ہے۔ لےکن نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ یہ نظام جس کی نقل انسان اپنی تمام تر عقل، تعلیم اور جدید ترین تکنیکی صلاحیتوں کے باوجود نہیں کرسکا وہ زمین کے قدیم ترین ماحول کے زیر اثر محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ خلئے کے اچانک وجود میں آجانے کی ایک اور مثال ایسی ہے جیسے کہ کتابوں کے طباعت خانے میں دھماکے ہوجانے کی بناءپر ایک بہترین کتاب کا وجود میں آجاناہے۔
انگریز ماہرِ ریاضی اور ہیئت دان سرفریڈ ہائل نے رسالہ ”نیچر“ کی 21 نومبر 1891ء کی اشاعت میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں اسی طرح کا ایک موازنہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود ایک ارتقاءپسند ہے ہائل کہتا ہے کہ: ”اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک بوئنگ 747 طیارہ وجود میں آجائے۔“
اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ خلیوں کا محض اتفاق کی بناءپر وجود میں آجانا ممکن ہی نہیں۔ خلئے صرف تخلیق کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔ایک اور بنیادی وجہ جس کی بناءپر نظریہ ارتقاءخلیوں کی ابتداءبیان کرنے سے قاصر ہے وہ اس کے اندر موجود ”ناقابل تخفیف پیچیدگی“ ہے۔ ایک جاندار خلیہ اپنے آپ کو کئی ترکیبی حصوں کے تعاون سے زندہ رکھتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی حصہ ناکارہ ہوجائے تو خلیہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ خلیہ کے پاس کسی انتخابِ طبعی یا جینیاتی بے ترتیبی جیسے غیر شعوری طریقہ عمل کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہوتا جوکہ اس کو ترقی دینے یا زندہ رہنے میں مدد دے سکے۔ اسی لئے زمین پر پہلا خلیہ بے شک اور لازماً ایک مکمل خلیہ تھا جس کے اندر تمام ترکیبی نظام اور کارگزاری کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ اس لئے خلیہ صرف تخلیق ہی کیا جاسکتا ہے، اتفاقاً نہیں بن سکتا۔
حوالہ جات:
W. R. Bird, The Origin of Species Revisited, Nashville: Thomas Nelson Co., 1991, pp. 298-99
Hoyle on Evolution", Nature, Vol 294, November 12, 1981, p. 105
تحریر: ہارون یحیی
تدوین و ترتیب: احید حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر کوئی اس بات پر یقین کرسکتا ہے کہ جاندار خلیہ محض اتفاق سے وجود میں آگیا تو اس کو مندرجہ ذیل کہانی پر یقین لانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک چھوٹے سے شہر کی کہانی ہے۔
ایک دن بنجر زمین پر موجود پتھروں کے بیچ پھنسی ہوئی کچھ مٹی بارش کے پانی سے گیلی ہوگئی۔ یہ گیلی مٹی سورج کے نکلنے کے بعد سوکھ کر سخت ہوگئی اور اس کے اندر قوت مدافعت پیدا ہوگئی۔بعد میں یہ پتھر جنہوں نے سانچے کا کام بھی کیا تھا اس کے کسی طرح ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہوگئے اور پھر ایک صاف ستھری شکل کی مضبوط اینٹ کی شکل دھارگئے۔ یہ اینٹ اسی قدرتی ماحول میں سالوں ایک اور اپنی جےسی اینٹ کے بننے کا انتظار کرتی رہی۔ یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس جگہ پر ہزاروں اسی طرح کی اینٹیں جمع نہیں ہوگئےں۔ یہ بھی محض اتفاق ہے کہ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود ان میں سے کوئی بھی اینٹ کسی نقصان کا شکار نہیں ہوئی ۔ باوجود ہزاروں سال کے طوفانوں، بارشوں، ہواﺅں، سورج کی تیز روشنی اور شدید ٹھنڈ کے باوجود کسی بھی اینٹ میں معمولی سی بھی دراڑ نہیں پڑی اور نہ وہ ٹوٹیں یا اپنی جگہ سے ہلیں بلکہ نہایت قطعیت سے ایک ہی جگہ پر دوسری اینٹیں بننے کاانتظار کرتی رہیں۔
جب کافی مقدار میں اینٹیں جمع ہوگئیں تو انہوں نے ماہرانہ طور پر اپنے آپ کو ترتیب دیتے ہوئے ایک بہترین عمارت تعمیر کرلی۔ ان کی ترتیب کسی ہوا، طوفان یا آندھی کا بے ترتیب نقشہ نہیں تھا بلکہ ایک انتہائی منظم تعمیر کاثبو ت تھا۔ ان کو جوڑنے والے سیمنٹ اور مٹی کے مرکبات بھی ان کی طرح قدرتی عوامل کے ذریعے وجود میں آئے اور ان اینٹوں کے درمیان خود ہی گھس کر ان کو چپکانے اور آپس میں جوڑنے کا اہم کام انجام دیتے رہے۔ ان تمام واقعات کے دوران زمین کے نیچے قدرتی حالات کے تحت لوہا بننا شروع ہوگیا جو کہ خاص طور پر اس عمارت کی بنیادوں میں استعمال ہوگا جوکہ ان اینٹوں سے بنے گی۔ اس تمام عمل کے نتیجے میں ایک مکمل عمارت اپنی تمام تر ضروری لوہے اور لکڑی کے پرزوں اور بجلی کی تاروں سمیت کھڑی ہوگئی۔
ظاہر ہے کہ ایک عمارت صرف بنیادوں، اینٹوں اور سیمنٹ ہی کا مرکب نہیں ہوتی۔ تو پھر باقی دوسری چیزیں کہاں سے آئیں گی؟ اس کا جواب آسان ہے۔ جس طرح کا سامان اس عمارت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے وہ سب اس زمین کے اندر موجودہے جس کے اوپر وہ عمارت کھڑی ہے مثلاً شیشوں کے لئے سیلیکون، بجلی کی تاروں کے لئے تانبا، بنیادوں کے ستونوں اور پانی کے پائپوں کے لئے لوہا وغیرہ سب زمین کے اندر وافر مقدار میں موجود دھاتیں ہیں۔ صرف قدرتی کیفیات کی ہنرمندی سے یہ دھاتیں ضرورت کے تحت اشکال میں ڈھل کر عمارت کے اندر پہنچ جائیں گی۔ اینٹوں کے اس ڈھانچے میں تمام پائپ، لکڑی کا کام اور دوسری ضروری چیزیں اڑتی ہوا، بارش اور زلزلوں کی مدد سے اپنی صحیح جگہ پر پہنچ جائیں گی۔ہرچیز اتنے منظم اور مکمل طریقے سے تعمیر ہوگی کہ اینٹوں نے صحیح جگہوں پر کھڑکیوں کی جگہ بھی چھوڑدی ہو گی تاکہ قدرتی عوامل بعد میں شیشہ نامی چیز بناکر یہاں پر کھڑکیاں لگادیں۔ اس کے علاوہ اینٹیں، پانی، بجلی اور ایئرکنڈیشنر کے نظام کے لئے مناسب جگہ بھی موجود ہو گی جو کہ بعد میں محض اتفاقاً ہی وجود میں آجائیں گے۔ ہر چیز بہترین طریقے سے وجود میں آتی ہے ۔غرضےکہ اتفاقات اورقدرتی عوامل ایک مکمل عمارت تعمیر کردےں گے۔
اگر کسی کو اب بھی اس کہانی کے سچ ہونے کا یقین ہے تو اس کو اس شہر کی دوسری عمارتوں، سڑکوں، کارخانوں، چھوٹی عمارتوں اور گھروں کا بھی ا سی طرح سے وجود میں آنے پر بھی مکمل یقین آجائے گا۔ اگر کسی کے اندر تکنیکی سمجھ بوجھ ہو اور جو اس موضوع سے تھوڑا آشنا ہو تو اس کو ایک ایسی سائنسی نوعیت کی کتاب لکھنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی جس کے اندر وہ شہر کے نظامِ نکاسی اور دوسری عمارتوں کے ساتھ اس عمارت کی ہم آہنگی کے اوپر اپنا ذاتی ارتقائی سائنسی مقالہ پیش کرے۔ ذہانت کے اس بھرپور مظاہرے پر بہت ممکن ہے کہ ایسے مصنف کو کئی تعلیمی انعامات سے نوازا جائے اور مصنف خود کو ایک غیر معمولی ذہنی اور تخلیقی صلاحیت کا حامل سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہ کرے۔ نظریہ¿ ارتقاءبھی اسی طرح سے دعویٰ کرتا ہے کہ زندگی اتفاقاً وجود میں آئی اور یہ نظریہ اس کہانی ہی کی طرح واہیات اور نامعقول ہے کیونکہ جسم کی تمام تر ذمہ دارےاں، رابطے، نقل و حمل اور انتظامی نظام تو اےک طرف، ایک واحد خلیہ بھی کسی ایک پورے شہر سے کم پیچیدہ اور اہم نہیں ہے۔
ارتقائی سائنسدان ڈبلیو۔ایچ۔ تھارپ کہتا ہے ”سب سے سادے خلئے کے اندر بھی ایک ایسا نظام موجود ہے جس کو بنانا تو دور کی بات، انسان نے تصور بھی نہیں کیا ہے۔“
ایک خلئے کی ساخت اس قدر پیچیدہ ہے کہ جدید ترین تکنیکی صلاحیت بھی اس کو بنانے سے قاصر ہے۔ خلیہ بنانے کی ہر کوشش ہمیشہ سے ناکام رہی اور اس لئے سائنسدانوں نے اب ایسی کسی کوشش کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑدیا ہے۔ لےکن نظریہ ارتقاءکا دعویٰ ہے کہ یہ نظام جس کی نقل انسان اپنی تمام تر عقل، تعلیم اور جدید ترین تکنیکی صلاحیتوں کے باوجود نہیں کرسکا وہ زمین کے قدیم ترین ماحول کے زیر اثر محض اتفاق سے وجود میں آگیا۔ خلئے کے اچانک وجود میں آجانے کی ایک اور مثال ایسی ہے جیسے کہ کتابوں کے طباعت خانے میں دھماکے ہوجانے کی بناءپر ایک بہترین کتاب کا وجود میں آجاناہے۔
انگریز ماہرِ ریاضی اور ہیئت دان سرفریڈ ہائل نے رسالہ ”نیچر“ کی 21 نومبر 1891ء کی اشاعت میں چھپنے والے ایک انٹرویو میں اسی طرح کا ایک موازنہ کیا ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ خود ایک ارتقاءپسند ہے ہائل کہتا ہے کہ: ”اعلیٰ زندگی کی اقسام کا اس طرح اتفاق سے وجود میں آنا اسی طرح کی بات ہے کہ گویا ایک آندھی کا کباڑ خانے سے گزرنے پر اس میں موجود ٹین ٹبار کے ساتھ ایک بوئنگ 747 طیارہ وجود میں آجائے۔“
اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ خلیوں کا محض اتفاق کی بناءپر وجود میں آجانا ممکن ہی نہیں۔ خلئے صرف تخلیق کے ذریعے وجود میں آئے ہیں۔ایک اور بنیادی وجہ جس کی بناءپر نظریہ ارتقاءخلیوں کی ابتداءبیان کرنے سے قاصر ہے وہ اس کے اندر موجود ”ناقابل تخفیف پیچیدگی“ ہے۔ ایک جاندار خلیہ اپنے آپ کو کئی ترکیبی حصوں کے تعاون سے زندہ رکھتا ہے۔ اگر ان میں سے ایک بھی حصہ ناکارہ ہوجائے تو خلیہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ خلیہ کے پاس کسی انتخابِ طبعی یا جینیاتی بے ترتیبی جیسے غیر شعوری طریقہ عمل کا انتظار کرنے کا وقت نہیں ہوتا جوکہ اس کو ترقی دینے یا زندہ رہنے میں مدد دے سکے۔ اسی لئے زمین پر پہلا خلیہ بے شک اور لازماً ایک مکمل خلیہ تھا جس کے اندر تمام ترکیبی نظام اور کارگزاری کی صلاحیتیں موجود تھیں۔ اس لئے خلیہ صرف تخلیق ہی کیا جاسکتا ہے، اتفاقاً نہیں بن سکتا۔
حوالہ جات:
W. R. Bird, The Origin of Species Revisited, Nashville: Thomas Nelson Co., 1991, pp. 298-99
Hoyle on Evolution", Nature, Vol 294, November 12, 1981, p. 105
0 comments:
اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔