Thursday 11 January 2018

تعلیمی ادارے یا فحاشی کے اڈے؟

 پڑھتا جا شرماتا جا ۔  طوالت کے لیے معزرت
ڈرائیور اچانک بولا ’’سر! معذرت چاہتا ہوں لیکن کچھ دن پہلے رات کے ڈیڑھ بجے پنجاب یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل سے مجھے کال آئی اور میں اُن لڑکیوں کو پی سی ہوٹل چھوڑنے گیا‘‘۔
میں اور میری کمپنی کے مارکیٹنگ ہیڈ ابوبکر لاہور کی ایک یونیورسٹی میں منعقدہ ’’ایگزی بیشن‘‘ میں شرکت کے لیے جا رہے تھے جہاں دو دن قبل ہی مجھے مدعو کیا گیا تھا۔ راستے میں کچھ موضوعات پر گفتگوکے دوران ہی ہاسٹل لائف اور گرلز ہاسٹل پر بات چھڑی تو گاڑی کے ڈرائیور نے اچانک ہمیں اپنی جانب متوجہ کیا۔ وہ بتا رہا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی کی یہ سٹوڈنٹس مجھے انتظار کا کہہ کر ہوٹل میں داخل ہوئیں اور 2گھنٹے بعد جب باہر آئیں تو شراب کے نشے میں دھت تھیں۔ ڈرائیور بتانے لگا:
سر! وہ جیسے ہی گاڑی میں بیٹھیں تو میں نے سوال کیا:
’’بیٹا آپ کو کہاں اُتاروں؟‘‘
وہ غصے میں کہنے لگیں:
’’رشتے داریاں نہ بنائیں، بس برکت مارکیٹ اُتار دیں‘‘۔
سارا راستہ ان لڑکیوں نے اونچی آواز میں گانے چلائے اور ’’ونڈو‘‘ سے نکل کر شور مچاتی رہیں۔ برکت مارکیٹ جا کر گاڑی روکی تو ایک لڑکی نے کہا:
’’آپ بہت اچھے ہیں، ہمارے ساتھ آ جائیں‘‘
تو میں نے پریشانی سے جواب دیا:
’’میری بیٹی سولہ سال کی ہے اور آپ کی عمر بھی شاید 18سال سے زائد نہ ہو، بس اللہ آپ کو ہدایت عطاء فرمائے‘‘۔ مزدوری کمانے نکلے اُس ڈرائیور کی باتیں حیران کردینے والی تھیںلیکن یہ کوئی نئی بات تو نہ تھی۔

یونیورسٹیز سے باہر ایسی پارٹیز الگ معاملہ ہے لیکن یہاں تو یونیورسٹی نائٹ، نائٹ پارٹیز اور نائٹ کنسرٹس میں کتنے ہی واقعات ہوتے ہیں جنھیں میڈیا کی زینت نہیں بننے دیا جاتا۔ کتنے ہی لڑکوں کو ان نائٹس میں شراب میں مدہوش ہم نے اپنی گریجویشن کے دور میں دیکھا۔ پھر شراب میں بدمست ان نوجوانوں کے ساتھ گاڑی میں روانہ ہونے والی ان کی کلاس فیلوز یا یونیورسٹی فیلوز اتنی رات گئے کیا گُل کھلاتے ہوں گے، کون جانتا ہے۔ کتنے ہی ایسے واقعات میڈیا پر آنے سے اس لیے روک دیے جاتے ہیں کہ اس سے یونیورسٹی انتظامیہ کا پول کھلے گا اور غیرت مند والدین کی غیرت کا جنازہ نکلے گا۔ لاہور کی معروف یونیورسٹیز میں ایسی ہی نائٹ پارٹیز کے بعد کئی لڑکوں کی زیادتی کا نشانہ بننے کے بعد قتل ہونے والی لڑکیوں کو انصاف کہاں سے ملتا؟

کتنی ہی یونیورسٹیز کے لڑکے لڑکیاں مل کر نشہ کرتے ہیں، ناچتے ہیں،گاتے ہیں اور یہ تھرکتے بدن جہاں تعلیمی نظام کو گالی دیتے ہیں وہیں والدین کے منہ پر طمانچوں کا کام کرتے ہیں۔ یونیورسٹیز کے درمیان مقابلے کا رجحان تعلیمی میدان میں ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے نت نئے فحش پرگرامات اور لباس متعارف کروائے جاتے ہیں۔

پی سی جیسے ہوٹلز میں ہونے والے یہ پرگرامات کوئی مدرسے کا طالب علم تو نہیں کرواتا؟
انھی تعلیمی اداروں سے نکل کر آنے والا پولس آفیسر قاتل اور رشوت خور کیوں بنتا ہے؟
یونیورسٹیز کے ڈگری ہولڈر ججز اور وکلاء کیسے کیسے ظالم کھیل کھیلتے ہیں؟
جدید تعلیمی اداروں کے سند یافتہ سیاست دان کرپشن میں سر سے پاؤں تک کیسے غرق ہوتے ہیں؟
گریجویشن، ماسٹرز، ایم فل اور پی ایچ ڈیز کیے ہوئے لوگ ملازمتوں میں بے ایمانی، کاروبار میں دھوکے بازی اور پراڈکٹس میں ملاوٹ کیوں کرتے ہیں؟
ملاوٹ شدہ دودھ بیچنے والی کمپنیاں اور مردہ مرغیاں کھلانے والے بڑے ریسٹورنٹ چلانے والے کون لوگ ہیں؟
جرنلزم اور ماس کام پڑھ کر میڈیا انڈسٹری میں آ کر جھوٹ بولنے اور حکمرانوں کے تلوے چاٹنے والے ایسا کیوں کرتے ہیں؟
کیا یونیورسٹیز میں صرف ڈگری بیچی جاتی ہے؟ کیا تربیت کا کوئی امکان نہیں؟ اگر امکان ہے تو اس پر کام کیوں نہیں ہوتا؟
ان سب باتوں پر سوچنے کے بجائے ہمارے ہاں ایک طبقے کا نزلہ آئے روز دینی مدارس ہی پر کیوں گرتا ہے؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔