سورج کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے کی
حدیث پہ اعتراض کا جواب
حدیث مبارکہ :سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنا
"قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں"
غلط فہمی
آج گھر گھر ریڈیو موجود ہے، رات کے نو بجے پہلے ریڈیو کے پاس بیٹھ کر انگلستان لگائیے پھر ٹوکیو، اور اس کے بعد امریکہ، آپ کو معاً یقین ہو جائے گا کہ زمین کا سایہ (رات) نصف دنیا پر ہے، اور نصف دیگر پہ آفتاب پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، اس حقیقت کی وضاحت کے بعد اب ذرا یہ حدیث دیکھئے۔
... آپ نے فرمایا کہ سورج بعد از غروب خدائی تخت (عرش) کے نیچے سجدہ میں گر جاتا ہے، رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے، چنانچہ اسے مشرق سے دوبارہ نکلنے کی اجازت مل جاتی ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اسے اجازت نہیں ملے گی، اور حکم ہوگا کہ لوٹ جاؤ ... چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے نکلنا شروع کردے گا۔ (دو اسلام ص ۳۲۳)
ازالہ
اگر سورج کے چلنے پر اعتراض ہے، تو یہ قرآن سے بھی ثابت ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا } (لیس)
سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا رہتا ہے ۔
اور جدید سائنس نے بھی اب اس زمانہ میں سورج کی حرکت کو تسلیم کرلیا ہے۔
ملاحظہ فرمائے ۔ سورج ساکن نہیں قرآن اور جدید سائنس
لنک : https://www.facebook.com/AntiMunkireHadith/photos/pb.379020948831938.-2207520000.1413285887./491249770942388/?type=3&permPage=1
اب رہا سجدہ کرنا ، تو یہ بھی قرآن سے ثابت ہے، سنیے:
{ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ } (الحج)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، سورج، چاند، تارے، پہاڑ، درخت، جانور اور بہت سے آدمی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔
لہٰذا سجدہ کرنے کا جو اعتراض حدیث پر ہے، وہی قرآن پر ہوگا، نعوذ باللہ منہ
غلط فہمی
اگر ہم رات کے دس بجے پاکستان ریڈیو سے دنیا کو یہ حدیث سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج عرش کے نیچے سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو ساری مغربی دنیا کھلکھلا کر ہنس دے اور وہاں کے تمام مسلمان اسلام چھوڑ دیں۔ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
جناب یہ عبارت اس طرح بھی تبدیل کی جاسکتی ہے اگر ہم دن کے بارہ بجے بھارت ریڈیو سے یہ آیت دنیا کو سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج سجدہ میں پڑا ہوا ہے، اور ہمالیہ پہاڑ بھی سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو مغربی دنیا ہی نہیں ساری دنیا کھل کھلا کر ہنس دے، اور پھر کیا کہے، یہ آپ خود سوچ لیں۔
محترم آپ نے یہ سمجھ لیا کہ جس طرح ہم سجدہ کرتے ہیں، اسی طرح تمام مخلوق سجدہ کرتی ہے، بس یہی اصلی غلط فہمی ہے، ہر ایک مخلوق کی نماز ، تسبیح، سجدہ علیحدہ علیحدہ ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{ قُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ } (نور)
ہر چیز اپنی نماز اور تسبیح کو جانتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَلٰکِنْ لَا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ } (الاسراء)
لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔
اب معلوم ہوا کہ سورج و چاند اور پہاڑ وغیرہ سجدہ تو کرتے ہیں، لیکن ان کے سجدہ کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لہٰذا حدیث اپنی جگہ پر صحیح ہے، لیکن کیفیت کا ہمیں علم نہیں کہ سورج سجدہ کس طرح کرتا ہے عرش کے نیچے جانے کا کیا مطلب ہے؟ اجازت چاہنے کا کیا مطلب ہے؟ وغیرہ وغیرہ
ان باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی کو نہیں اور نہ ان کے پیچھے پڑنا چاہیے، آپ سائنس کی روشنی میں بھی اگر اس حدیث کا مطلب کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے ، آپ نے تو نہیں کیا، لیکن میں کئے دیتا ہوں، ملاحظہ فرمائیے:
انھا تذھب
سورج غروب ہو جاتا ہے۔
حتی تسجد تحت العرش
اور اللہ کے حکم تکوینی اور قوانین حرکت کے ماتحت اپنی حرکت کو جاری رکھتا ہے۔
فتستاذن فیوذن لھا
وہ ہر لمحہ اور ہر آن اذن الٰہی کا منتظر رہتا ہے اور کیونکہ آگے بڑھنے کی ممانعت نہیں ہوتی، لہٰذا اسی کو آگے بڑھنے کی اجازت سمجھ کر وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ویوشک ان تسجد
لیکن قیامت کے قریب ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ انہی قوانین حرکت کے ماتحت آگے بڑھنا چاہے گا۔
فلا یقبل منھا
لیکن اب اس کو آگے بڑھنے کی منظوری نہیں دی جائے گی۔
فیقال لھا ارجعی من حیث جئت
اور اس سے کہا جائے گا کہ اب اس مستقر سے واپس ہو جا، اور اسی طرف چلا جا جس طرف سے تو آرہا ہے (یہ مستقر یا Trring Point وہ جگہ ہے جہاں رک کر وہ فوراً واپس ہوگا)
فتطلع من مغربھا الخ
پس وہ مغرب سے طلوع ہوگا (قرآن کی آیت '' الشمس تجری المستقرلھا'' کی یہی تفسیر ہے)
بتائیے ان معنوں میں کیا اشکال ہے ، بات در حقیقت یہ ہے، کہ کچھ تو آپ سمجھے نہیں، اور کچھ مترجم نے رنگ آمیزی سے ترجمہ کیا، مثلاً ''رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے'' حالانکہ متن میں یہ عبارت نہیں ہے پورا متن اوپر نقل کردیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
مذکورہ بالا معنی میں نے کر تو دئیے ہیں لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے علم میں بھی یہی معنی ہیں، لہٰذا میں تو اس حدیث پر بلا کیف ایمان لاتا ہوں اور اس کی تاویل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یہ معنی مادی لوگوں کی خاطر کردئیے گئے ہیں تاکہ وہ بجائے مذاق اڑانے کے، ان معنوں کے ماتحت ہی حدیث پر ایمان لے آئیں، تو بھی غنیمت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ حَتّٰی ۔ٓ اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)
ذوالقرنین جب وہاں پہنچے، جہاں سورج غروب ہوتا ہے، تو دیکھا کہ وہ کیچڑ کے ایک چشمہ میں غروب ہو رہا ہے۔
اب آپ فرمائیں، اس سائنس کے زمانہ میں ریڈیو پاکستان سے مغرب کے وقت یہ آیت اگر سنا دی جائے تو کیا ہوگا ، اللہ تعالیٰ غلط فہمی سے بچائے۔ آمین
ان گزارشات میں ھم سورج کا سجدہ کرنے کے درست معنی اور سورج کا حرکت کرنا قرآن اور جدید سائنس سے ثابت کر ائے ہے ۔ اب صرف ایک مزید چیز رھ گئی ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں بیان ہوا کہ قیامت کے قریب سورج اپنے راستے سے پلٹ جائے گا الٹی چال چلنا شروع کر دے گا ۔
ازالہ۔
سورج کے الٹی چال چلنے پر اعتراض ہے تو قرآن کی یہ ایت پڑھئے
فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ (سورہ التکویر : 15)
میں پیچھے ہٹ جانے والے ستاروں کی قسم کھاتاہوں۔
یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے بعض ستارے الٹی چال چلنے لگتے ہے ۔ اور حدیث میں یہ بیان ہے کہ قرب قیامت سورج بھی الٹی چال چلنے لگے گا اب آپ قرآن پر کونسا اعتراض کرے گے ؟ ۔
اس خبر کی موجودہ سائنس دانوں نے بھی اثرات دیکھ لئے ہیں ۔آج سائنسدان سیارہ ''مریخ '' پر تحقیق کررہے ہیں اور اس میں پانی وزندگی کے آثار تلاش کئے جارہے ہیں کیونکہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور سورج سے بہت فاصلہ پر ہے اس لئے ممکن ہے کہ اس میں بھی زمین کی طرح زندگی وپانی موجودہو ۔ چناچہ سائنسدانوں کو ان کی فلکی حساب وکتاب میں تحقیق ومہارت کی وجہ سے یہ بھی معلوم تھا کہ مریخ اپنے مدار میں گردش کرتا ہوا ایک طویل عرصے بعد 2003ء میں زمین سے قریب ترین ہوگا اس لئے مریخ کی یہ گردش دنیا کی تمام رصد گاہوں کی توجہ کا مرکز بن گئی اس کی ہر حرکت کو نوٹ کیا جانے لگا اور اسکے قریب ہونے کا انتظار ہونے لگا تاکہ اس کی واضح تصاویر حاصل کی جاسکیں ۔ جب مریخ قریب ترین ہوا تو اس کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیںگئیں۔ ان میں ایک سب سے عجیب بات جو سائنسدانوں کو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ مریخ کی اپنے محور میں مشرقی جانب رفتار کم ہونے لگی یہاں تک کہ 30جولائی کو مریخ کی حرکت بالکل رک گئی اس نے دوبارہ الٹا گھومنا شروع کردیا اور 29ستمبر تک یہی ہوتا رہا ۔ یعنی 30جولائی سے 29ستمبر تک مریخ میں سورج مغرب سے طلوع ہوتا رہا ۔ سائنسدانوں نے اس حیرت انگیز عمل کا نام (Retrograde Motion)رکھا اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نظام شمسی کے ہر سیارے پر یہ عمل ایک نہ ایک دن ضرور رونما ہوگا ۔ چونکہ زمین بھی نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے ۔ اس لئے زمین پر بھی سورج ایک دن مغرب سے ضرور طلوع ہوگا ۔(www.space.com)
الحمدللّٰہ !
1400سال قبل ہی نظام شمسی کی اس بہت بڑی تبدیلی کے بارے میں اللہ کے سچے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو آگاہ فرمادیا تھا جبکہ اس وقت نہ توسائنس نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ ہی جدید وسائل اور رصد گاہیں دستیاب تھیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ رب العزت
کے قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کو تسلیم کریں یہی ایمان بالغیب کا تقاضہ ہے ۔
غلط فہمی
ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھا کرو اس لیے کہ سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۳۴)
سورج کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے، اگر اتنی بڑی چیز شیطان کے دو سینگوں میں سما جاتی ہے ... اتنا بڑا شیطان کھڑا کہاں ہوتا ہوگا؟ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
محترم آپ کو بڑی غلط فہمی ہوئی، آپ نے مادی عینک سے اس حدیث کو دیکھا، ایسی حدیثوں پر بلا کیف و تاویل ایمان لانا چاہیے نہ کہ مادی دنیا کے فاصلے ناپنے لگ جائیں، حدیث کا مطلب اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ شیطان سورج کے سامنے اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان دکھائی دے، اگر ہم اپنی دو انگلیوں کو علیحدہ کرکے آنکھ سے ذرا دو رسورج کی طرف کرلیں، تو سورج دو انگلیوں کے بیچ میں دکھائی دے گا، بس اسی طرح وہ دو سینگوں کے درمیان میں بھی دکھائی دے سکتا ہے، اگرچہ ہماری آنکھیں ان سینگوں کو نہیں دیکھتیں لیکن کیونکہ ہم رسول پر ایمان لاچکے ہیں، لہٰذا مخبر صادق کی اس بات پر بھی ہمارا ایمان بالغیب ہے، اگر ہم ہر بات پر مشاہدہ اور عقل کی رٹ لگائیں، تو پھر '' یومنون بالغیب'' (قرآن) کا مقصد ہی فوت ہو جائے، ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم یہ یقین کرلیں کہ یہ شیطانی اوقات ہیں، ان ہی اوقات میں شیطان کے اولیاء شیطان کی عبادت کرتے ہیں، حدیث کے الفاظ ہیں:
وحینئذ یسجد لھا الکفار (مسلم)
اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔
کیونکہ یہ وقت سورج پرستوں کی عبادت کا ہے، اور ان سے مشابہت نازیبا ہے، لہٰذا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ہے، یہ ہے عمل کی چیز اور اسی سے ہم کو کام ہے، باقی رہا اس حدیث کی تاویل تو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے ہمیں اس سے کیا بحث شیطان کے طول و عرض سے ہمارے عمل کا کوئی تعلق نہیں۔
جدید سائنس کے مطابق خلا کے فاصلے لا محدود ہیں، ایک ایک تارا سورج سے کئی گنا بڑا ہے، اور وہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں روشنی کے سال چلتا ہے اور روشنی کے سال کا ایک ایک سکینڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے برابر ہے، لہٰذا خلا کی پہنائیوں کا اندازہ لگانا بالکل ناممکن ہے، اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیطان کے کھڑے ہونے کی جگہ اس فضا میں موجود ہے یا نہیں۔
جناب سے اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ اس چشمہ کا طول و عرض کیا ہے جس میں از روئے قرآن سورج غائب ہو جاتا ہے، تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا سورج کا چشمہ میں غائب ہو جانا آج کل کی سائنس کے مطابق ہے؟ جب اس مشاہدہ کی چیز اور مادی دنیا کے حوادثات کے متعلق قرآن کا یہ بیان ہو، اور بغیر تاویل کے اس کا صحیح مطلب سمجھا نہ جاسکتا ہو، تو پھر جو حدیث روحانیات سے تعلق رکھتی ہو، جس کا مشاہدہ اور مادیت سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کو بغیر تاویل اس طرح ظاہر ترجمہ سے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے، انصاف کیجئے۔
غلط فہمی
حدیث کا علم الافلاک آپ پڑھ چکے۔ (دو اسلام ص ۳۲۵)
ازالہ
اب قرآن کا علم الافلاک پڑھیے، قرآن کہتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ بالکل سچ کہتا ہے:
{ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَالدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ } (الصافات)
آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں سے زینت دی ہے اور ان ستاروں کو سرکش شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَجَعَلْنَاھَا رُجُوْمًا لِلشَّیَاطِیْنَ } (الملک)
اور ان ستاروں کو ہم نے شیاطین کے مارنے کے لیے پتھر بنایا ہے۔
کہیے کیا سائنس بھی یہی کہتی ہے۔
جواب از کتب
تفہیم السلام
اسلام کے مجرم کون