Monday, 26 February 2018

٭ ایک اعتراض کیا یہ عظیم عورت جہنم میں جائے گی؟ کا جائزہ

٭ ایک اعتراض کیا یہ عظیم عورت جہنم میں جائے گی؟ کا جائزہ
کوڑھ اسپیشلسٹ جرمن نژاد ڈاکٹر رتھ فاو کی وفات کے بعد بھی ہمیشہ کی طرح ایک طبقے کو مذہب پر اعتراض کا موقع میسر ہے،وہی لوگ جو سارا سال مذہب، جنت ، آخرت کا انکار کرتے اور مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں، اب اس پر اصرار کررہے ہیں کہ ڈاکٹر صاحبہ کو لازمی جنتی قرار دیا جائے۔۔۔ ایسے نفسیاتیوں کو جواب دینے کا تو فائدہ  نہیں کیونکہ انکو صرف مذہب کو کوسنے کا بہانہ چاہیے ہوتا ہے انہیں علمی دیانت داری، سچ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ عام مسلمان جو اس حوالے سے اٹھائے گئے ایک اعتراض سے کنفیو

ز ہورہے ہیں کہ ایک اچھے کام کرنے والے غیر مسلم کو اللہ جہنم میں کیوں ڈالے گا 'کے جواب میں دو باتیں پیش ہیں:

٭ یہ قرآن میں اللہ نے واضح کیا ہے کہ نجات کے لیے دین محمدی ﷺ کے علاوہ کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا۔ دو آیات پیش ہیں:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الْإِسْلاَمُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ إِلاَّ مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّهِ فَإِنَّ اللّهِ سَرِيعُ الْحِسَابِ
دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے اور اہل کتاب نے جو (اس دین سے) اختلاف کیا تو علم ہونے کے بعد آپس کی ضد سے کیا اور جو شخص اللہ کی آیتوں کو نہ مانے تو اللہ جلد حساب لینے والا (اور سزا دینے والا) ہے۔ (سورۃ آل عمران آیت 19

وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
اور جو اختیار کرنا چاہے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا یہ اس سے، اور وہ (ہوگا) آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے۔(سورۃ آل عمران، آیت 85)

٭ایک دیانت دار، اچھے کام کرنے والے غیر مسلم کو کہاں اور کیسے چھوٹ مل سکتی ہے؟ اس کے جواب میں اپنے ایک اہل علم کی تحریر سے اقتباس پیش ہے۔ ڈاکٹر ذاہد مغل صاحب لکھتے ہیں کہ
"خدا اپنے علم سے جانتا ہے کہ کس شخص کے پاس حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی کس قدر صلاحیتیں و مواقع میسر ہیں، پھر وہ ہر شخص کو روز آخرت اپنا دفاع کرنے کا پورا پورا موقع بھی دے گا۔ پس خدا ہر شخص سے اسکی صلاحیتوں اورمواقع کی مناسبت سے مواخذہ کرے گا۔
ہر شخص کا عذر بھی اسے معلوم ہے یہاں تک کہ اس کے قلب کے احوال، نیت و میلانات تک اسکی نظر میں ہیں، جسکا عذر درست(valid) ہوگا اسی کے مطابق اسکا فیصلہ ہوگا اور کس کا عذر کتنا ویلڈ ہے یہ طے کرنے کی کوئی مکمل بنیاد انسان کے پاس موجود نہیں، یہ صرف خدا اپنے لامحدود علم سے کرے گا۔
لہذا جو خدا کی لامحدود نعمتوں کی ناشکری کے لئے کوئی عذر نہ رکھتا ہوگا اسے ایسی ہی سزا ملے گی اور وہ اسی کا حقدار ہے۔ جس کے پاس عذرہوگا (مثلا اس تک کسی ھادی کا مکمل پیغام نہ پھنچا یا اس میں اسے سمجھنے کی پیدائشی صلاحیت ہی نہ تھی وغیرہ) بفضل الہی اسے رعایت مل جانے کی امید ہے۔"
(حوالہ الحاد ڈاٹ کام)
مکمل تحریر >>

لبرل کہانی

لبرل  کہانی 
لبرل  سڑکوں  پر اسلام اور مولویوں  کے خلاف بھونک بھونک کر ہلکان ہو کر جب شام کو گھر آیا تو اپنے نوکر  سے بولا
بشیر کہاں  ہو میرا لیپ ٹاپ  لے کر آو باہر ٹی وی لاؤنج  میں  پڑا ھے
بشیر بھاگتا ہوا لے کر پہنچا  اور پھر لبرل نے اسے کافی بنانے کو کہا تو وہ کچن کی طرف گیا
لبرل لاگ ان ہوا  فیس  بُک  پر
اور  پہلا ہی سٹیٹس  کڈ مارا
جاہل مسلمانوں  نے اس دنیا  کو سوائے مصیبتوں  کے دیا کیا ھے
کچھ  لبرل آنٹیز نے  کمنٹس  میں  مولوی  اسلام پاکستان  کو برا بھلا کہا اور اتنے  میں  لبرل نے انباکس  جا کر بچیاں  گھیرنا شروع کی
کام سے فارغ  ہو کر بشیر بھی آنلائن  ہوا صاحب  کا سٹیٹس  دیکھا  اور کمنٹ  کیا
سر جب آپ تھک ہار  کر  آئے  تھے تو جو لیپ ٹاپ  آپ نے مجھ  سے  مانگا تھا اگر سوچا جائے  تو سر ان کمپیوٹر  گیجٹس میں  بنیادی  حیثیت  رکھنے والیBios میں  الجبرا استعمال  ہوتا ھے جو کہ "مولوی  موسی الخوارزمی"کی ایجاد ھے سچ تو یہ ھے کہ کیلکولیٹر، موبائل یا کمپیوٹر  غرض ہر ایل خودکار  ایجاد  اس ہی "مولوی"کی وجہ سے ھے
اور سر جس کافی کی چسکی لے کر آپ نے یہ سٹیٹس  لکھا تھا وہ کافی بھی ایک مسلمان  کی ایجاد تھی
اور بیچارے  بشیر نے اسے منشن کر دیا
لبرل کمنٹ دیکھ  کر  آگ بگولہ ہو گیا اور جواب دیا
ان پڑھ  جاہل مُلا دیسی بدو کب تک ان کی ایجادات  کو لے کر ناچتے رہو گے
بشیر نے ریپلائی  کیا سر جب تک آپ لوگ  یہ کہنا بند نہیں  کرو گے کہ مسلمانوں  نے دنیا کو دیا کیا  ھے
لبرل بولا ان سب کے علاوہ  تم مسلمانوں  کی خدمت  "صفر"ھے
بشیر نے جواب دیا سر یہ صفر بھی مولوی موسی  الخوارزمی کی ایجاد ھے
لبرل اس سے پہلے  کچھ  اور دلیل دیتا بولا
جاہل انسان تم سے بحث کرنا ہی فضول  ھے تم لوگ  ہو ہی جاہل میں  بلاک کر رہا ہوں تمہیں  اور کل سے کام پر مت آنا
بشیر بلاکڈ
مگر بشیر  نہیں  جانتا  تھا کہ وہ بلاک ھے
اس نے کمنٹ  لکھا سر میں  لعنت  بیچتا ہوں آپ کی نوکری پر جس ملک کا کھاتے ہو اس ملک پر  ہی بھونکتے  ہو آپ سے اچھا تو میرا کتا ھے جو کھاتا تو میرا ھے اور میری ہی وفاداری  کرتا.. 
کمنٹ  کیا مگر ہو نہ سکا
 😊😊منقول
مکمل تحریر >>

سورج کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے کی حدیث پہ اعتراض کا جواب

  سورج کے عرش کے نیچے سجدہ کرنے کی حدیث پہ اعتراض کا جواب

حدیث مبارکہ :سورج کا عرش کے نیچے سجدہ کرنا
"قرآن اور جدید سائنس کی روشنی میں"
غلط فہمی
آج گھر گھر ریڈیو موجود ہے، رات کے نو بجے پہلے ریڈیو کے پاس بیٹھ کر انگلستان لگائیے پھر ٹوکیو، اور اس کے بعد امریکہ، آپ کو معاً یقین ہو جائے گا کہ زمین کا سایہ (رات) نصف دنیا پر ہے، اور نصف دیگر پہ آفتاب پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے، اس حقیقت کی وضاحت کے بعد اب ذرا یہ حدیث دیکھئے۔
... آپ نے فرمایا کہ سورج بعد از غروب خدائی تخت (عرش) کے نیچے سجدہ میں گر جاتا ہے، رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے، چنانچہ اسے مشرق سے دوبارہ نکلنے کی اجازت مل جاتی ہے، لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اسے اجازت نہیں ملے گی، اور حکم ہوگا کہ لوٹ جاؤ ... چنانچہ وہ مغرب کی طرف سے نکلنا شروع کردے گا۔ (دو اسلام ص ۳۲۳)
ازالہ
اگر سورج کے چلنے پر اعتراض ہے، تو یہ قرآن سے بھی ثابت ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{ وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرٍّ لَھَا } (لیس)
سورج اپنے مستقر کی طرف چلتا رہتا ہے ۔
اور جدید سائنس نے بھی اب اس زمانہ میں سورج کی حرکت کو تسلیم کرلیا ہے۔
ملاحظہ فرمائے ۔ سورج ساکن نہیں قرآن اور جدید سائنس
لنک : https://www.facebook.com/AntiMunkireHadith/photos/pb.379020948831938.-2207520000.1413285887./491249770942388/?type=3&permPage=1
اب رہا سجدہ کرنا ، تو یہ بھی قرآن سے ثابت ہے، سنیے:
{ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللہَ یَسْجُدُلَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَالدَّ وَآبُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ } (الحج)
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین کی تمام مخلوقات، سورج، چاند، تارے، پہاڑ، درخت، جانور اور بہت سے آدمی اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔
لہٰذا سجدہ کرنے کا جو اعتراض حدیث پر ہے، وہی قرآن پر ہوگا، نعوذ باللہ منہ
غلط فہمی
اگر ہم رات کے دس بجے پاکستان ریڈیو سے دنیا کو یہ حدیث سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج عرش کے نیچے سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو ساری مغربی دنیا کھلکھلا کر ہنس دے اور وہاں کے تمام مسلمان اسلام چھوڑ دیں۔ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
جناب یہ عبارت اس طرح بھی تبدیل کی جاسکتی ہے اگر ہم دن کے بارہ بجے بھارت ریڈیو سے یہ آیت دنیا کو سنائیں اور کہیں کہ اس وقت سورج سجدہ میں پڑا ہوا ہے، اور ہمالیہ پہاڑ بھی سجدہ میں پڑا ہوا ہے، تو مغربی دنیا ہی نہیں ساری دنیا کھل کھلا کر ہنس دے، اور پھر کیا کہے، یہ آپ خود سوچ لیں۔
محترم آپ نے یہ سمجھ لیا کہ جس طرح ہم سجدہ کرتے ہیں، اسی طرح تمام مخلوق سجدہ کرتی ہے، بس یہی اصلی غلط فہمی ہے، ہر ایک مخلوق کی نماز ، تسبیح، سجدہ علیحدہ علیحدہ ہے، اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:
{ قُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہٗ وَتَسْبِیْحَہٗ } (نور)
ہر چیز اپنی نماز اور تسبیح کو جانتی ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَلٰکِنْ لَا تَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ } (الاسراء)
لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے۔
اب معلوم ہوا کہ سورج و چاند اور پہاڑ وغیرہ سجدہ تو کرتے ہیں، لیکن ان کے سجدہ کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لہٰذا حدیث اپنی جگہ پر صحیح ہے، لیکن کیفیت کا ہمیں علم نہیں کہ سورج سجدہ کس طرح کرتا ہے عرش کے نیچے جانے کا کیا مطلب ہے؟ اجازت چاہنے کا کیا مطلب ہے؟ وغیرہ وغیرہ
ان باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی کو نہیں اور نہ ان کے پیچھے پڑنا چاہیے، آپ سائنس کی روشنی میں بھی اگر اس حدیث کا مطلب کرنا چاہتے تو کرسکتے تھے ، آپ نے تو نہیں کیا، لیکن میں کئے دیتا ہوں، ملاحظہ فرمائیے:
انھا تذھب
سورج غروب ہو جاتا ہے۔
حتی تسجد تحت العرش
اور اللہ کے حکم تکوینی اور قوانین حرکت کے ماتحت اپنی حرکت کو جاری رکھتا ہے۔
فتستاذن فیوذن لھا
وہ ہر لمحہ اور ہر آن اذن الٰہی کا منتظر رہتا ہے اور کیونکہ آگے بڑھنے کی ممانعت نہیں ہوتی، لہٰذا اسی کو آگے بڑھنے کی اجازت سمجھ کر وہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔
ویوشک ان تسجد
لیکن قیامت کے قریب ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ وہ انہی قوانین حرکت کے ماتحت آگے بڑھنا چاہے گا۔
فلا یقبل منھا
لیکن اب اس کو آگے بڑھنے کی منظوری نہیں دی جائے گی۔
فیقال لھا ارجعی من حیث جئت
اور اس سے کہا جائے گا کہ اب اس مستقر سے واپس ہو جا، اور اسی طرف چلا جا جس طرف سے تو آرہا ہے (یہ مستقر یا Trring Point وہ جگہ ہے جہاں رک کر وہ فوراً واپس ہوگا)
فتطلع من مغربھا الخ
پس وہ مغرب سے طلوع ہوگا (قرآن کی آیت '' الشمس تجری المستقرلھا'' کی یہی تفسیر ہے)
بتائیے ان معنوں میں کیا اشکال ہے ، بات در حقیقت یہ ہے، کہ کچھ تو آپ سمجھے نہیں، اور کچھ مترجم نے رنگ آمیزی سے ترجمہ کیا، مثلاً ''رات بھر اسی حالت میں پڑا دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت مانگتا رہتا ہے'' حالانکہ متن میں یہ عبارت نہیں ہے پورا متن اوپر نقل کردیا گیا ہے ملاحظہ فرمائیے:
مذکورہ بالا معنی میں نے کر تو دئیے ہیں لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اللہ کے علم میں بھی یہی معنی ہیں، لہٰذا میں تو اس حدیث پر بلا کیف ایمان لاتا ہوں اور اس کی تاویل کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یہ معنی مادی لوگوں کی خاطر کردئیے گئے ہیں تاکہ وہ بجائے مذاق اڑانے کے، ان معنوں کے ماتحت ہی حدیث پر ایمان لے آئیں، تو بھی غنیمت ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ حَتّٰی ۔ٓ اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ } (الکھف)
ذوالقرنین جب وہاں پہنچے، جہاں سورج غروب ہوتا ہے، تو دیکھا کہ وہ کیچڑ کے ایک چشمہ میں غروب ہو رہا ہے۔
اب آپ فرمائیں، اس سائنس کے زمانہ میں ریڈیو پاکستان سے مغرب کے وقت یہ آیت اگر سنا دی جائے تو کیا ہوگا ، اللہ تعالیٰ غلط فہمی سے بچائے۔ آمین
ان گزارشات میں ھم سورج کا سجدہ کرنے کے درست معنی اور سورج کا حرکت کرنا قرآن اور جدید سائنس سے ثابت کر ائے ہے ۔ اب صرف ایک مزید چیز رھ گئی ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں بیان ہوا کہ قیامت کے قریب سورج اپنے راستے سے پلٹ جائے گا الٹی چال چلنا شروع کر دے گا ۔
ازالہ۔
سورج کے الٹی چال چلنے پر اعتراض ہے تو قرآن کی یہ ایت پڑھئے
فَلَآ اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ۝ (سورہ التکویر : 15)
میں پیچھے ہٹ جانے والے ستاروں کی قسم کھاتاہوں۔
یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے بعض ستارے الٹی چال چلنے لگتے ہے ۔ اور حدیث میں یہ بیان ہے کہ قرب قیامت سورج بھی الٹی چال چلنے لگے گا اب آپ قرآن پر کونسا اعتراض کرے گے ؟ ۔
اس خبر کی موجودہ سائنس دانوں نے بھی اثرات دیکھ لئے ہیں ۔آج سائنسدان سیارہ ''مریخ '' پر تحقیق کررہے ہیں اور اس میں پانی وزندگی کے آثار تلاش کئے جارہے ہیں کیونکہ مریخ زمین کا پڑوسی سیارہ ہے اور سورج سے بہت فاصلہ پر ہے اس لئے ممکن ہے کہ اس میں بھی زمین کی طرح زندگی وپانی موجودہو ۔ چناچہ سائنسدانوں کو ان کی فلکی حساب وکتاب میں تحقیق ومہارت کی وجہ سے یہ بھی معلوم تھا کہ مریخ اپنے مدار میں گردش کرتا ہوا ایک طویل عرصے بعد 2003ء میں زمین سے قریب ترین ہوگا اس لئے مریخ کی یہ گردش دنیا کی تمام رصد گاہوں کی توجہ کا مرکز بن گئی اس کی ہر حرکت کو نوٹ کیا جانے لگا اور اسکے قریب ہونے کا انتظار ہونے لگا تاکہ اس کی واضح تصاویر حاصل کی جاسکیں ۔ جب مریخ قریب ترین ہوا تو اس کے متعلق بہت سی معلومات حاصل کیںگئیں۔ ان میں ایک سب سے عجیب بات جو سائنسدانوں کو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ مریخ کی اپنے محور میں مشرقی جانب رفتار کم ہونے لگی یہاں تک کہ 30جولائی کو مریخ کی حرکت بالکل رک گئی اس نے دوبارہ الٹا گھومنا شروع کردیا اور 29ستمبر تک یہی ہوتا رہا ۔ یعنی 30جولائی سے 29ستمبر تک مریخ میں سورج مغرب سے طلوع ہوتا رہا ۔ سائنسدانوں نے اس حیرت انگیز عمل کا نام (Retrograde Motion)رکھا اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نظام شمسی کے ہر سیارے پر یہ عمل ایک نہ ایک دن ضرور رونما ہوگا ۔ چونکہ زمین بھی نظام شمسی کا ایک سیارہ ہے ۔ اس لئے زمین پر بھی سورج ایک دن مغرب سے ضرور طلوع ہوگا ۔(www.space.com)
الحمدللّٰہ !
1400سال قبل ہی نظام شمسی کی اس بہت بڑی تبدیلی کے بارے میں اللہ کے سچے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کو آگاہ فرمادیا تھا جبکہ اس وقت نہ توسائنس نے اتنی ترقی کی تھی اور نہ ہی جدید وسائل اور رصد گاہیں دستیاب تھیں ۔لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ اللہ رب العزت
کے قرآن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث کو تسلیم کریں یہی ایمان بالغیب کا تقاضہ ہے ۔
غلط فہمی
ابن عمر رضی اللہ عنہ حضور سے روایت کرتے ہیں کہ سورج نکلتے اور ڈوبتے وقت نماز نہ پڑھا کرو اس لیے کہ سورج بوقت طلوع شیطان کے دو سینگوں میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔ (بخاری جلد ۲، ص ۱۳۴)
سورج کی موٹائی ساڑھے بتیس ارب میل ہے، اگر اتنی بڑی چیز شیطان کے دو سینگوں میں سما جاتی ہے ... اتنا بڑا شیطان کھڑا کہاں ہوتا ہوگا؟ (دو اسلام ص ۳۲۴)
ازالہ
محترم آپ کو بڑی غلط فہمی ہوئی، آپ نے مادی عینک سے اس حدیث کو دیکھا، ایسی حدیثوں پر بلا کیف و تاویل ایمان لانا چاہیے نہ کہ مادی دنیا کے فاصلے ناپنے لگ جائیں، حدیث کا مطلب اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ ہم یہ فرض کریں کہ شیطان سورج کے سامنے اس طرح کھڑا ہو جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو سورج اس کے دو سینگوں کے درمیان دکھائی دے، اگر ہم اپنی دو انگلیوں کو علیحدہ کرکے آنکھ سے ذرا دو رسورج کی طرف کرلیں، تو سورج دو انگلیوں کے بیچ میں دکھائی دے گا، بس اسی طرح وہ دو سینگوں کے درمیان میں بھی دکھائی دے سکتا ہے، اگرچہ ہماری آنکھیں ان سینگوں کو نہیں دیکھتیں لیکن کیونکہ ہم رسول پر ایمان لاچکے ہیں، لہٰذا مخبر صادق کی اس بات پر بھی ہمارا ایمان بالغیب ہے، اگر ہم ہر بات پر مشاہدہ اور عقل کی رٹ لگائیں، تو پھر '' یومنون بالغیب'' (قرآن) کا مقصد ہی فوت ہو جائے، ہمارے لیے اتنا کافی ہے کہ ہم یہ یقین کرلیں کہ یہ شیطانی اوقات ہیں، ان ہی اوقات میں شیطان کے اولیاء شیطان کی عبادت کرتے ہیں، حدیث کے الفاظ ہیں:
وحینئذ یسجد لھا الکفار (مسلم)
اس وقت کفار سورج کو سجدہ کرتے ہیں۔
کیونکہ یہ وقت سورج پرستوں کی عبادت کا ہے، اور ان سے مشابہت نازیبا ہے، لہٰذا اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اوقات میں نماز پڑھنے سے ممانعت فرما دی ہے، یہ ہے عمل کی چیز اور اسی سے ہم کو کام ہے، باقی رہا اس حدیث کی تاویل تو وہ اللہ ہی کو معلوم ہے ہمیں اس سے کیا بحث شیطان کے طول و عرض سے ہمارے عمل کا کوئی تعلق نہیں۔
جدید سائنس کے مطابق خلا کے فاصلے لا محدود ہیں، ایک ایک تارا سورج سے کئی گنا بڑا ہے، اور وہ ایک سیکنڈ میں کروڑوں روشنی کے سال چلتا ہے اور روشنی کے سال کا ایک ایک سکینڈ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کے برابر ہے، لہٰذا خلا کی پہنائیوں کا اندازہ لگانا بالکل ناممکن ہے، اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ شیطان کے کھڑے ہونے کی جگہ اس فضا میں موجود ہے یا نہیں۔
جناب سے اگر کوئی یہ پوچھ بیٹھے کہ اس چشمہ کا طول و عرض کیا ہے جس میں از روئے قرآن سورج غائب ہو جاتا ہے، تو ہمارے پاس اس کا کیا جواب ہے؟ کیا سورج کا چشمہ میں غائب ہو جانا آج کل کی سائنس کے مطابق ہے؟ جب اس مشاہدہ کی چیز اور مادی دنیا کے حوادثات کے متعلق قرآن کا یہ بیان ہو، اور بغیر تاویل کے اس کا صحیح مطلب سمجھا نہ جاسکتا ہو، تو پھر جو حدیث روحانیات سے تعلق رکھتی ہو، جس کا مشاہدہ اور مادیت سے کوئی تعلق نہ ہو، اس کو بغیر تاویل اس طرح ظاہر ترجمہ سے کس طرح سمجھا جاسکتا ہے، انصاف کیجئے۔
غلط فہمی
حدیث کا علم الافلاک آپ پڑھ چکے۔ (دو اسلام ص ۳۲۵)
ازالہ
اب قرآن کا علم الافلاک پڑھیے، قرآن کہتا ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ بالکل سچ کہتا ہے:
{ اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَالدُّنْیَا بِزِیْنَۃِ نِ الْکَوَاکِبِ۔ وَحِفْظًا مِّنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ مَّارِدٍ } (الصافات)
آسمان دنیا کو ہم نے ستاروں سے زینت دی ہے اور ان ستاروں کو سرکش شیطان سے حفاظت کا سبب بنایا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
{ وَجَعَلْنَاھَا رُجُوْمًا لِلشَّیَاطِیْنَ } (الملک)
اور ان ستاروں کو ہم نے شیاطین کے مارنے کے لیے پتھر بنایا ہے۔
کہیے کیا سائنس بھی یہی کہتی ہے۔
جواب از کتب
تفہیم السلام
اسلام کے مجرم کون
مکمل تحریر >>

شراب حرام کیوں جبکہ اسکے اجزاء حلال ہیں

"جناب! مجھے بتائیں کہ اگر میں کھجوریں کھاؤں تو آپ کو کوئی اعتراض ہے...؟

عالم:
"بالکل کوئی اعتراض نہیں"...

شرابی:
"اگر اس کے ساتھ کچھ جڑی بوٹیاں کھا لوں؟

عالم:
"کوئی رکاوٹ نہیں"....

شرابی:
"اور اگر میں ان میں پانی شامل کر لوں؟

عالم:
"بڑے شوق سے پیو"....

شرابی:
"جب یہ ساری چیزیں جائز اور حلال ہیں تو پھر آپ شراب کو کیوں حرام کہتے ہیں....
حالانکہ اس میں یہی چیزیں تو ہیں جن کے کھانے اور پینے کی اجازت آپ دے رہے ہیں. یعنی کھجوریں, پانی اور جڑی بوٹیاں....!

عالمِ دین شرابی سے:
"اگر تمہارے اوپر پانی پھینکا جائے تو اس پر تمہیں کوئی اعتراض ہو گا...؟

شرابی:
"ہرگز نہیں, پانی سے کیا فرق پڑتا ہے...!

عالم:
"اچھا, اگر اس پانی میں مٹی گھول دی جائے تو تم اس سے مر جاؤ گے....؟

شرابی:
"جناب..!
مٹی سے میں نے کسی کو مرتے ہوئے نہیں دیکھا...

عالم:
"اگر میں مٹی اور پانی لوں اور ان کو گوندھ کر ایک اینٹ بنا لوں اور اسے خشک کر کے تمہیں دے ماروں تو کیا ایسا کرنے پر تمہیں کوئی اعتراض ہے....؟

شرابی:
"جناب...!
اس سے تو آپ مجھے قتل کر دیں گے....

عالم نے کہا:
"شراب کا بھی یہی حال ہے...
اللہ پاک نے ہم کو جس بات سے بھی روکا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہے....

ہم کو اپنی طرف سے تاویلیں نہیں گھڑنی چاہیے بلکہ اللہ کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے
مکمل تحریر >>

اس حمام میں سب ننگے ہیں



 اس  حمام میں سب ننگے ہیں
.
شراب  ، شباب  اور کباب  ان کی زندگی کا لازمہ ہے - گو یہ ہمارے  نمائندگان ہیں لیکن اخلاقی طور پر قطعا ہماری نمائندگی نہیں کرتے - مدت گزری اخبارات میں ایک خبر چھپی تھی کہ جب قومی اسمبلی کا اجلاس ہوتا ہے تو ان دنوں اسلام آباد میں شراب کے نرخ بڑھ جاتے ہیں - لڑکیاں تو اس بازار میں جنس  عام ہوئیں- 
میرے ایک واقف حال دوست کہ جو ایک  اسلام آباد کے ایک بڑے اخبار میں بہت ہی اہم پوسٹ پر ہیں بتاتے ہیں کہ ایک  اعلی عہدے دار بتاتے ہیں کہ وہ کو لاہور سے آئے ہووے کچھ خاص مہمانوں  کی مہمانی کرنے کی ضرورت آن پڑی سو اس کے لیے لڑکیوں کی  تلاش ہوئی - "میڈم "سے رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ سب لڑکیاں ایک "سیاسی ہنگامے "پر موجود ہیں اور اچھل کود میں مشغول ہیں - بصد مشکل ان کو بلایا گیا-
میرا ایک عزیز دوست اس داستان کو جب مزے لے لے کر سناتا ہے کہ جب بےنظیر کی حکومت چلی گئی اور رات گئے خبریں آئیں تو چنبہ ہاؤس لاہور میں وزیر صاحب  ہڑبڑتتے ہووے کمرے سے  باہر نکلے ننگی ٹانگوں کو ڈھانپنے کے لیے بیڈ شیٹ کو اپنے گرد لپیٹے ہووے ..آوازیں دے رہے ہیں "او جلدی آؤ ، بوتلیں سمیٹو "جی ہاں  شراب کی بوتلیں ...اور موصوف کا محکمہ اوقاف کا تھا جس میں مذھب سے گہرا تعلق ہوتا ہے-
زنا کاری ہمارے اس  معاشرے میں ایسے پھیل چکی ہے کہ شریف بندے کو جب حقائق کا دسواں حصہ بھی بتایا جائے تو اس کا منہ کھل جاتا ہے اور سر انکار میں حرکت کرنے لگتا ہے-
اور رہی ہماری یہ الیٹ کلاس اس میں شراب اور زنا کاری فیشن ہے محض ، کوئی برائی نہیں جناب --- برائی  یہ تب شمار ہوتی ہے کہ جب کھل جائے یا اخبارات میں آ جائے - اور اس کا بھی نقصان  صرف یہ ہے کہ ان کو مذہبی  ووٹوں  کی ضرورت ہوتی ہے - ورنہ تو ہماری عوام بھی خاصی لبرل ہوتی جا رہی ہے کہ جس معاشرے میں یہ محاورہ ہو کہ:
"مرد نہایا دھویا گھوڑا ہوتا ہے"
سو جو بھی جی چاہے کرے اس کو فرق نہیں پڑتا ، ہاں عورت کی عزت کا مسلہ ہے - تف ہے ایسے معاشرے پر اور ایسی سوچ پر-
لوگ بھول جاتے ہیں لیکن  مجھے یاد ہے کہ کس طرح دو سال پہلے  فیصل آباد کے ایک  خاندان  کی چھوٹی عمر کی کنیا  حاملہ ہو گئی ...خاندان بھی پاکستان کا امیر ترین  شمار کیا جاتا ہے  اور کارنامہ بھی  پاکستان کے ٹاپ  فائیو کے سیاست دان کا تھا ..پاکستانی میڈیا  تو اس معاملے  میں خاموش رہا تھا لیکن بین الاقوامی میڈیا اس چٹ پٹی کہانی کو خوب مزے لے کر بیان کرتا رہا - خود میں نے یہ قصہ انڈیا کے ایک انگریزی اخبار میں دیکھا تو حیران ہو گیا کہ ہمارا میڈیا کیسے اس سیاستدان  کو پاک پوتر اور کرپشن سے پاک بنا کے پیش کرتا ہے-
اور لاہور کی سڑکوں پر چار سال پہلے ایک بچی کو اٹھائے احتجاج کناں  عورت کس کو بھول گئی ہو گی کہ جس نے اپنی بچی کی  شناخت مانگی - اس بے چاری کا تو دعوی بھی یہ تھا کہ بچی شادی کا نتیجہ ہے گناہ کا نہیں -لیکن اس کے ساتھ کیا ہوئی ، سب جانتے ہیں ...اور موصوف  بھی ہمارے چھوٹے موٹے بادشاہ ہی تو تھے-
کوئی ایک قصہ ہو تو بیان کیجئے - نام لینا میرا مزاج نہیں کہ شریعت کے تقاضے بہت الگ ہیں - ورنہ ہمارے یہ حکمران ، اپوزیشن کے رہنماء ، اعلی درجے کی بیوروکریسی اس   گناہ میں گلے گلے تک دھنسی ہوئی ہے-
ایران فتح ہوا مسجد نبوی میں سیم و جواہر کے ڈھیر لگے ہوے تھے - سیدنا عمر تشریف لائے - دولت کے انبار دیکھے آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے ..لوگوں نے کہا "امیر آج تو خوشی کا دن ہے یہ آنسو  کس لیے ؟"
فراست کے بادشاہ نے کہا:
"تم دولت کے انبار دیکھ رہے ہو ، میں ان کے ساتھ در آنے والے گناہ دیکھ رہا ہوں"
ہمارے ہاں عدلیہ ، مقننہ ، انتظامیہ  سب ہی اس خیال میں مست ہیں
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
مجھے یاد ہے ایک صحافی دوست نے ایک  مشھور  و معروف  منصف  صاحب کا قصہ سنایا تب میں بہت ہنسا اور مگر آج  رونے کو جی چاہتا ہے - ایس ایچ او نے لاہور کے  نہر کنارے ہوٹل پر چھاپہ  مارا - ممکن ہے تھانے دار کو منتھلی نہ ملی ہو اور ناراض ہو - اندر سے  منصف  صاحب حسب معمول "بیڈ شیٹ "لپیٹے نکلے ...اور تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
"میں یہیں  عدالت قرار دے کر  تم کو برخاست کر دوں گے چلے جاؤ"
ننگی عدالت ، حہھہ میں یہی کہہ کے رہ گیا-
سو دوستو:
ان "گندے اور غلیظ "سیاست دانوں کے لیے جذباتی نہ ہوا کریں ان میں سے ایک آدھ کو چھوڑ کر ...اس  حمام میں سب ننگے ہیں-
..ابوبکر قدوسی

ميرے ملک كى سياست كا حال مت پوچھ،
گرى هوئ هے طوائف تماش بينوں ميں
مکمل تحریر >>

جب سوچ غلام ھوجاۓ

جب سوچ غلام ھوجاۓ-------------------- --------------------------------
السلام علیکم!
کسی جسم کا غلام ھونا اگرچہ انتہائی تکلیف دہ ھے لیکن اسمیں اک فکر اور کڑھن پائی جاتی ھے جذبات اور تدابیر باقی ھوتی ھیں اور غلامی سے نکلنے کی راھیں ڈھونڈی جاتی ، ھموار کی جاتی اور اختیار کی جاتی ھیں

سوچ کا فقدان ابتر حالات کی بقا کا ذمہ دار ھے اور اسکا دوسرا نام غفلت ھے
اسکی زندہ مثال خصوصاً آجکا ھمارا قریباً سارا دینی طبقہ اور قریباً ساری مذھبی قیادت ھے

سوچ کا محدود ھونا انتہائی مہلک اور فسادات کی پیدائش کا ضامن ھے
اسکی عکاسی ھم میں سے ھر اک کر رھا ھے

سوچ کا فقدان اور سوچ کا محدود ھونا سوچ کے غلام ھونے کی وجہ بنتا ھے جو کہ جسم کے غلام ھونے سے کئی گنا زیادہ وجہِ تکلیف اور باعثِ ھلاکت ھے کیونکہ ۔۔۔

>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب عقل پہ تالے پڑ جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ فکر ، کڑھن ، جذبات اور تدابیر کا نام و نشاں نہیں رھتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ انسان خود کو آزاد ، اھلِ علم و صلاح اور بلا کا عقلمند سمجھتے ھوۓ نفسیاتی مریض ھو جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ جسم آزاد ھوتے ھوۓ بھی اک بھیانک اور غافل انداز میں کسی اور کی حاکمیت اور اپنی غلامی قبول کر چکا ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنے اور پراۓ ، حق اور باطل کی شناخت نھیں رھتی
>جب سوچ غلام ھو جاۓinsight یعنی عقل کی آنکھ کی دور بینی اور دور اندیشی ختم ھو جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ جسم زندہ لیکن دل مردہ رھتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ایمان اپنی آخری سانسیں گن رھا ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ دل میں محبتِ حق کا اختیار چھِن جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ کانوں کی آزادانہ شنوائی نہیں رھتی بلکہ صرف وھی سنائی دیتا ھے جو سوچ کے حاکم یعنی ظالم کے مفاد میں ھو
>جب سوچ غلام ھو جاۓ آنکھوں کی بصارت ماتحت ھو جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ سچ پہ زباں بندی اور جھوٹ پہ زباں درازی ھوتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ھاتھ آزاد ھوتے ھوۓ بھی بندھ جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ آزادی کے باوجود قدم قید اور بے اختیار ھو جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اصلاح قریباً بے اثر رھتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تنقید براۓ اصلاح کو تنقید براۓ تنقید سمجھا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اھلِ علم و صلاح اور درد و فکر رکھنے والوں پہ بے جا تنقید کی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ علم کی وسعت کے باوجود سمجھ و شعور کا فقدان اور تنگ نظری ھوتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اسلام کے مکمل ضابطہِ حیات کو اھم نھیں جانا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اسلام کو ذاتی و گروھی مفادات کی خاطر لیا جاتا ھے اور صرف وھی پوائنٹس لیے جاتے ھیں جو اپنے مفاد میں ھوں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنے حقیقی خالق و مالک اللہ تعالیٰ سے تعلق کمزور پڑ جاتا ھے جو کہ بعض اوقات کفر تک لے جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنی ذات کو مکمل سمجھا جاتا ھے اور اسکی تبدیلی و اصلاح کی کاوش نھیں کی جاتی
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ھم اپنے حقوق و فرائض سے لا علم ھو جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ بچوں کی تربیت بہت ھی بھیانک یا اک غافل انداز میں کی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ نیک مائیں ناپید ھو جاتی ھیں جو کہ موجودہ اور آنے والی نسل کیلیے تباہ کن ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنا ھی ماحول وبالِ جاں بن جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ زلزلہ ، آندھی ، آسمانی بجلی اور طغیانی و سونامی کو اللہ کا عذاب اور تنبیہ نھیں سمجھا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ فرقہ بندی ھوتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ غیروں سے نمٹنے کی بجاۓ آپسمیں لڑائیاں ھوتی ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ معاشرہ غیروں کی عکاسی کر رھا ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ دوسروں کی پیروی کو فخر سمجھا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ نصر من اللہ اور فرشتوں کا نزول نھیں ھوا کرتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنی تہذیب کا جنازہ اٹھ جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ غیروں کی حمایت میں اپنوں پہ تنقید بلکہ ظلم کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسلم ھیروٶں کی بجاۓ اپنا جسم بیچنے والیاں اور گانے والے ھمارے لیے آئیڈیل اور ماڈل ھوتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اسلامی تعلیمات کو بوجھ سمجھتے ھوۓ دور رہ کے ذلت کو اپنے نام کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ عقائد ، عبادات ، اخلاقیات ، معاملات اور احساسِ انسانیت و مخلوق اوروں کے تابع ھو جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اچھے اور صالح اعمال کی بجاۓ نعروٶں اور دعوٶں پہ اکتفا کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنے سچے ائمہ اور آئیڈیل راھنماٶں کو بھلا کے گھٹیا لوگوں کا انتخاب کیا جاتا اور قائد مانا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ الحاد و لا دینیت اور روشن خیالی کے دعویدار تاریک ذھن لوگ جنم لیتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ انکارِ حدیث بھی کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اختراع ، متبادل بیانیہ اور ڈرامہ جدید دین رچایا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ غیروں کو یا انکے ایجنٹس کو اپنا ھیرو مانا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسجد کے سپیکر پہ پابندی اور اونچی آواز میں کھلے عام گانے کی آزادی دے کے رب تعالیٰ کے حکم سے منہ موڑا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ بے حیائی کی روک تھام کی بجاۓ فحش چینلز اور میٹیریلز کی فراھمی کے بعد غیرت کے نام پہ قتل کا رونا رویا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ نبوت کے جھوٹے دعویدار کے پیروکاروں اور مقدس شخصیات کے گستاخوں کو محفوظ انداز میں دفاع بخشا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اسلام کو حالات کے تقاضوں کے مطابق سمجھ کے کوئی حکمتِ عملی تیار نھیں کی جاتی
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب صحابہ کرام و اھلبیت کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے دشمنوں اور سپاھیوں میں فرق نھیں کیا جا سکتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو آئیڈیل بنانے کی بجاۓ ذلیل لوگوں کی پیروی کی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مجاھد اور دھشت گرد کی پہچان نہیں ھو پاتی
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مظلوم کا احساس دل میں جگہ نہیں لے پاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسلم کو اک عمارت یا جسم کی مانند نہیں سمجھا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ صحابہؓ و اھلبیتؓ کے دشمنوں اور منافقین کو سچا کہا جاتا ھے اور انکے مسلم کی جان و مال و آبرو پہ حملے کے باوجود انکو مسلم اتحاد کا حصہ سمجھا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ محافظین بے بس ھو جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ عدلیہ کسی اور کے ماتحت ھو کے انصاف کی حقیقی و یقینی فراھمی سے محروم رھتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ میڈیا بک جاتا ھے اور اپنے ھی ملک اور لوگوں کو پوری دنیا کے سامنے برا ظاھر کر کے غیروں کے ایجنڈے پہ کام کر رھا ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ قانون بنانے اور نافذ کرنے والے ادارے اختیارات کا غیر مناسب استعمال کر کے فسادات کی وجہ بنتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ کمینے ، گھٹیا اور ذلیل لوگ حکمراں اور سیاستدان ھوتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ سکول کو مدرسہ سے یعنی دنیاوی تعلیم کو دینی تعلیم سے دور کر کے ترقی کا خون کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ سیاست اور سائنس کو اسلام سے الگ کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اچھے لوگوں کا انتخاب نہ کرنا آتا ھے اور نہ ھی مقدر ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ممتاز قادریؒ کو پھانسی دے کے غیروں کو خوش کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنے ھی لوگ اور عزت بیچی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ جرمنی کو قرض دینے والا پاکستان ترقی میں جرمنی سے کہیں پیچھے ھو جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ جمھوریت کے نام پہ چند خاندان بادشاھت کرتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ خلافت کی اھمیت کو نہیں سمجھا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اچھی بات یا کام کی بجاۓ شخصیت پرستی اختیار کی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ چند ھی لوگ ملکی خزانے کے مالک ھوتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ملکی ذخائر و ذرائع کو استعمال میں لا کے ملک کو خوشحال نہیں کیا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تعلیم اور سیاست کے نام پہ بے حیائی پھیلائی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اسلام میں عورت کی تعلیم اور مقام کو نھیں سمجھا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ محبت کی غلط تشریح کر کے اور غلط انداز و اعمال سے محبت کو اسلامی تعلیمات کا اک پہلو نہیں جانا جاتا
>جب سوچ غلام ھو جاۓ امیروں غریبوں سب کی حیا ، عقل ، انا ، غیرت اور خودی کا جنازہ اٹھ جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ملکی پیسہ بیرونی ممالک میں ھوتا ھے اور قرض کے بہانے مزید بنک بیلنس بنا کے عوام کو ترقی کے نام پہ بدھو بنایا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ حکمران خود غیروں کے غلام اور ایجنٹس ھو جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ حکمران چند آیات و احادیث کا حوالہ دیتے ھوۓ اپنی تشریحات کر کے عوام کو اسلام کے نام پہ دھوکہ دینے کے بعد عمل سے خالی اور غیروں کے ایجنڈے پہ کام کر رھے ھوتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ قائد کا فرمان بھلا دیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ نظریہِ اسلام و نظریہِ پاکستان صرف لکھنے اور پڑھنے کی حد تک رہ جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مرے مرشد اقبالؒ کی توھین کر کے اور انکے فلسفہ سے دوری اختیار کر کے اپنے گھٹیا پن کا اظھار کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ملک و ملت پر احسان پہ جزا کی بجاۓ سزا دی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ کشمیریوں سے یکجہتی کا جھوٹا اظھار کر کے انھیں کئی عشروں تک دھوکہ دیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسجدِ اقصیٰ کی آزادی اور بابری مسجد کی شھادت بھول جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ امتِ مسلمہ کا تڑپنا ناچ گانوں سے محظوظ ھو کے نظر انداز کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسلم ھونے کے دعوے پہ کافروں سے بد تر کام کیے جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ اپنے اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے دوستی کی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسلم کا خون رنگِ حنا سمجھا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مسلم بزرگوں کی توھین ، جوانان کی بے بسی ، بچوں کی تڑپ اور عزت کے لٹ جانے کو معمولِ زندگی گردانا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ نظامِ تعلیم غیروں کا ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ قاتل اور جاسوس کو حفاظت کے ساتھ با عزت آزاد کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ رعایا اور حاکم اک دوسرے کیلیے پیامِ مصیبت بن جاتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ڈنڈے والی سرکار کی ضرورت ھوتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب صلاحیتیں ضائع ، بے کار اور غیر مٶثر ھوا کرتی ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ جھوٹے لوگوں کو بھی ولی اللہ اور انکے جادو اور فریب کو کمال اور معجزہ کہا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب تعلیماتِ اسلامی سے دوری اختیار کر کے انکو ناقص اور غیر اھم سمجھا جاتا ھےاور غیروں کا رویہ اپنانے میں ھی فخر محسوس کیا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب کمتر  سیاستدانوں کی اندھی تقلید کی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ انصاف اور احتساب چند لوگوں تک محدود ھوتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب حساس اداروں کی پالیسیز بھی کچھ مختلف اور مٶثر ھوا کرتی ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب عوام اور فوج میں نفرت کا بیج بآسانی بویا جاتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب ایرانی ، انڈین اور افغان ایجنٹس علیحدگی اور غداری کی دھمکیاں دینے کی جراءت کر جایا کرتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ تب نیوروسائنٹسٹ ، ایجوکیشنسٹ ، حافظہ ، عالمہ ، کئی ایوارڈز کی حامل اور اصلاحِ نظامِ تعلیم و حقوقِ نسواں کی علمبردار ڈاکٹر عافیہ پہ دھشت گردی کا الزام اور ملالہ کا ڈرامہ رچا کے ھماری آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ ڈاکٹر عافیہ کا چھ ماہ کا بچہ سلیمان لاپتہ رھتا ھے
>جب سوچ غلام ھو جاۓ مرا فخر ، اعلیٰ دینی و دنیاوی تعلیم کی مالک ، پیکرِ فکر و احساس اور مری بے گناہ بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بیچ دیا جاتا ھے الزام لگاۓ جاتے ھیں امریکی عدالت ثبوت سے محروم رھتی ھے پھر بھی 86سال کی ظالمانہ قید سنائی جاتی ھے بیچنے والے ڈکٹیٹر کو آزادی بخشی جاتی ھے حکمران اپنے کیے وعدے توڑ ڈالتے ھیں صرف اک خط پہ آزادی مل سکتی ھے لیکن حکمران کے ھاتھ ٹوٹ جاتے ھیں  مذھبی راھنماغیرت کا سودا کر ڈالتے ھیں سیاستدان صرف اپنے اقتدار کی جنگ لڑتے ھیں عدلیہ بے چاری ھو جاتی ھے میڈیا بیرونی چورن بیچتا ھے محافظین امن پسند ھو جاتے ھیں میں اور آپ دنیا کے گھٹیا ترین انسان ھونے کا ثبوت دیتے ھیں پھر عافیہ کو بھلا دیا جاتا ھے غیرت کا جنازہ اٹھ جاتا ھے ، انا دفن ھو جاتی ھے ، احساس پاس تک نہیں بھٹکتا ، خودی خیالوں تک میں نہیں رھتی اور ھم آزاد ھوتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ فرد و گروہ اور ملک غلام ھوا کرتے ھیں
>جب سوچ غلام ھو جاۓ دنیاو آخرت تباہ ھو جاتی ھے

اور یاد رھے کہ یہ سوچ انتہائی پیچیدہ پالیسیز کے تحت کنٹرول کی گئی ھے تو پھر کیوں نہ ھم
سوچ   بدلیں  ،  ذات   بدلیں
چہرے چھوڑیں ، نظام بدلیں
#FreeAafia
#FreeKashmir
#FindOutSuleman
#EducationSystemReforms
#HonourForDrAQKhan

مکمل تحریر >>

جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تها تو اس نے سب سے پہلے یہاں کا نصاب تعلیم ختم کرتے ہوئے ایک نیا نصاب تعلیم لایا

 جب انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کیا تها تو اس نے سب سے پہلے یہاں کا  نصاب تعلیم ختم کرتے ہوئے ایک نیا نصاب تعلیم لایا جس کے عوض لوگ صرف فوجی، سپاہی، کلرک اور دیگر چهوٹے درجے کی نوکریاں ملا کرتی تهیں. اور افسران ہمیشہ انگریز یا برطانیہ کے پڑهے لکھے ہوتے تهے. تاکہ عام ہندوستانی ترقی نہ کرسکے اور ہمارا اقتدار محفوظ رہے . اس وقت بھی نصاب تعلیم غیر سیاسی اور تفریق کا شکار تها یعنی دینی اور دنیاوی وغیرہ. ......
دنیاوی بهی آج کی طرح غریب کیلئے الگ اور انگریز کے پالتو جاگیر داروں کے بچوں کیلئے الگ ہوتا تھا.

پاکستان آزاد ہوگیا مگر اس بدقسمت قوم کی قسمت نہ بدلی بلکہ وہی نصاب تعلیم اور تهیوری پاکستانیوں کا مقدر ٹهہری. کسان مزدور اور عام آدمی کا بچہ سرکاری سکولوں اور اداروں میں وہی مقام رکهتا ہے جو انگریز دور میں رکها کرتا تها.
فرق بس اتنا ہے کہ پہلے انگریز حاکم ہوتا تھا اب اس وقت کے انگریز کے وفادار ہم پر حاکم ہیں یعنی جاگیردار اور وڈیرے اور ہم بس ان کی غلامی کیلئے ہیں.


مستنصر کامران
مکمل تحریر >>

الحاد کے پس منظر، اسلام پر اعتراضات کا جواب اور فتنہ انکار حدیث ، پرویزیت، غامدیت، جدیدیت اور مستشرقین کے اعتراضات کے جواب کے لیئے ہمارا منطق گروپ جوائن کیجئے۔ لنک دج ذیل ہے


٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
الحاد کے پس منظر، اسلام پر اعتراضات کا جواب اور فتنہ انکار حدیث ، پرویزیت، غامدیت، جدیدیت اور مستشرقین کے اعتراضات کے جواب کے لیئے ہمارا منطق گروپ جوائن کیجئے۔ لنک دج ذیل ہے :۔
https://www.facebook.com/groups/mantiqgroup/
منطق پیج :۔
https://www.facebook.com/reasonmantiq/
مکمل تحریر >>

اگر مستشرقین نہ ہوتے تو آج کل کے ملحدین کا کیا بنتا

میں اکثر یہ بات سوچتا ہوں کہ اگر مستشرقین نہ ہوتے تو آج کل کے ملحدین کا کیا بنتا ۔ موسمی ملحدین جن کی اپنی کوئی علمی حثیت نہیں وہ تو یتیم ہو کر رہ جاتے ۔ یہ انہی مستشرقین کی دین ہے کہ موسمی ملحدین صدیوں قبل ان کے کیئے گئے اعتراضات بار بار دہراتے رہتے ہیں اور ہر بار عزت افزائی کے ساتھ جواب دیا جاتا ہے ۔ لیکن چین ان کو پھر بھی نہیں آتا ۔حال ہی میں ملحدین کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے نسب مبارک پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ آپ ﷺ نسل اسماعیل میں سے نہیں تھے نعوذو باللہ!
یہ وہ اعتراض ہے جو مستشرقین نے اٹھایا اور اس کا تسلی بخش جواب دے کر ان کا تو منہ بند کر دیا گیا لیکن علمی یتیم اور عقل سے بے بہرہ ملحدین کا حال بندر کے ہاتھ میں ماچس کی ڈبیا جیسا ہو گیا  اور انہیں اس پر اپنی دکانداری چلانے کا موقع مل گیا ۔اپنی دانست میں موسمی ملحدین نے یہ اعتراض دہرا کر بہت بڑا کارنامہ کیا ہے جسے بڑے فخر سے وہ بطور چیلنج دہراتے پھر رہے ہیں!
مستشرقین کے اس اعتراض کے سارق ملحدین کی خارشی طبع کی تسلی کے لیئے مستشرقین کے اس اعتراض کا جواب مستشرقین کی اپنی ہی زبانی پیش خدمت ہے :۔
٭ انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگا رجیمز ہیسٹنگز لکھتا ہے کہ :۔
"حضرت محمد ﷺ ایک اسماعیلی تھے۔جنہوں نے اپنے ہم وطنوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ دین ابراہیمی کی طرف رجوع کریں  اور ان خدائی وعدوں سے بہرہ یاب ہوں جو نسل اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ کیئے گئے ہیں۔"
(انسائیکلوپیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس  جلد 8)
٭ گبن وہ مشہور مؤرخ ہے جس کو پورا مغرب قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کی حثیت اہل مغرب کے ہاں مسلم ہے ۔ وہ بھی اسلام کے خلاف معاندانہ جذبات رکھتا ہے۔ لیکن مستشرقین نے جس طرح حضور اکرم ﷺ کے نسب نامہ کو  جس طرح مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے اس پر شدید تنقید کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ :۔
"حضرت محمد ﷺ کی اصل کو حقیر اور عامیانہ ثابت کرنے کی کوشش عیسائیوں کی ایک غیر دانشمندانہ تہمت ہے ۔ جس سے ان کے مخالف کا  مقام گھٹنے کے بجائے بڑھا ہے ۔"
اس کے علاوہ گبن اپنی اسی کتاب کے فٹ نوٹ پر لکھتا ہے کہ :۔ "تھیوفینز جو کہ پرانے زمانے کے یونانیوں میں سے ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نسل اسماعیل علیہ السلام میں سے تھے ۔"
اس کے علاوہ مزید لکھتا ہے کہ :۔ "ابولفداء  اور گیگنیئر نے اپنی اپنی کتابوں میں حضرت محمد ﷺ کا جو نسب نامہ لکھا ہے وہی مستند ہے۔"
یاد رہے کہ یہ وہی نسب نامہ ہے جو حضور اکرم ﷺ کے نسل اسماعیل میں سے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔
(ایڈورڈ گبن: دی ڈیکلائین اینڈ فال آف رومن ایمپائر جلد 5)
٭ مسٹر فاسٹر بھی اس بات کی گواہی دیتا نظر آتا ہے ۔ چنانچہ لکھتا ہے کہ :۔
"----خاص عرب کے لوگوں کی یہ قدیمی روایت ہے کہ قیدار اور اس کی اولاد ابتداء میں حجاز میں آباد ہوئی تھی ۔چنانچہ قوم قریش اور خصوصاََ مکہ کے بادشاہ اور کعبہ کے متولی ہمیشہ اس بزرگ کی نسل سے ہونے کا دعوی کرتے تھے۔ اور خاص کر حضرت محمد ﷺ نے اسی بنیاد پر کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام اور قیدار کی اولاد میں سے ہیں ، اپنی قوم کی دینی و دنیوی عظمتوں کے استحقاق کی تائید کی ہے۔"
(بحوالہ : سیرت محمدی ﷺ  از سرسید احمد خان)
حقیقت یہ ہے کہ مستشرقین اور ان کے سارق ملحدین چاہے جتنی مرضی کوششیں کر لیں جتنا مرضی پروپیگنڈہ کر لیں  اپنی پوری طاقت صرف کر لیں لیکن حضور اکرم ﷺ کے اس فرمان عالیشان کو جھٹلانا ان کے بس سے باہر ہے :۔
"حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:۔ اللہ عزوجل نے اولاد ابراہیم میں سے اسماعیل کو چنا، اولاد اسماعیل سے کنانہ کو چنا، بنی کنانہ سے قریش کو چنا ، قریش سے بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم سے مجھے چنا۔"
(سنن الترمذی)
عربوں میں بے شمار خامیاں تھیں  وہ لوگ جہالت، بربریت، بدکاری  اور نخوت و تکبر کی دلدل میں سرتاپا ڈوبے ہوئے تھے لیکن اس کے باوجود ان میں کچھ خوبیاں بھی تھیں جو انہیں دیگر اقوام عالم سے ممتاز بناتی ہیں ۔یہ قوم جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھی۔ ان کی قوت حافظہ بھی مثالی تھی ۔ اس کے علاوہ اپنے خیالات کے اظہارانہیں جو قدرت حاصل تھی وہ صرف انہی کا خاصہ ہے ۔اپنی اس قوت حافظہ کو انہوں نے اپنے نسب نامے حفظ کرنے کے لیئے دل کھول کر استعمال کیا تھا ۔ہر کوئی نہ صرف اپنا نسب نامہ یاد رکھتا بلکہ دیگر قبائل کے نسب ناموں کو بھی اپنی یادداشت میں محفوظ کر لیتا ۔ تاکہ وقت آنے پر وہ دیگر قبائل کے نسب ناموں کی کمزوریوں کو واضح کر کے اپنی نسبی برتری ثابت کر سکے ۔
اس کے علاوہ عرب جھوٹ بولنے سے بھی سخت نفرت کرتے تھے اور انہیں یہ بات بلکل بھی گوارا نہ تھی کہ ان کی شہرت ایک جھوٹے کی حثیت سے ہو۔اسی لیئے ہرقل کے دربار میں ابوسفیان خواہش کے باوجود حضور اکرم ﷺ کے خلاف کوئی جھوٹی بات نہ کر سکے ۔ عربوں کی یہ روایتیں کسی بھی تاریخی روایت کے مقابل مستند قرار دی جا سکتی ہیں اور ان روایات کے مطابق خانہ کعبہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اور عربوں کی ایک قسم جو "عرب مستعربہ"کہلاتی تھی وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے تھی ۔قریش اسی عربی النسل کا ایک قبیلہ تھا جس ایک معزز ترین شاخ بنو ہاشم تھی ۔اس دور میں تمام عرب قریش کا نسل اسماعیل میں سے ہونے کی وجہ سے احترام کرتا تھا اور کسی کو بھی ان کے اسماعیل علیہ السلام کی نسل مین سے ہونے میں کوئی شبہہ نہ تھا۔
(ضیاء النبی ﷺ جلد7)
علاوہ ازیں اگر حضور اکرم ﷺ نسل اسماعیل علیہ السلام سے نہ ہوتے تو یہود مدینہ آپ ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لاتے ۔ یہود مدینہ کا آپ ﷺ پر ایمان نہ لانا صرف اور صرف اسی وجہ سے تھا کہ آپ ﷺ نسل اسماعیل میں سے تھے ۔ اور نبوت یہود سے چھن کر نسل اسماعیل میں منتقل ہو چکی تھی ۔ جو کہ یہود کی سیاسی و مذہبی برتری پر ایک کاری ضرب تھی ۔
الغرض
حضور اکرم ﷺ کا نسل اسماعیل میں سے ہونے کی حقیقت کو مشکوک قرار دینے کی کوشش کرنا نہ صرف روایات عرب کے برخلاف ہے بلکہ خود مستشرقین کی تحقیق بھی اس کے منافی ہے ۔ اس لیئے ملحدین سے گزارش ہے کہ دوسروں کا تھوکا چاٹنے کے بجائے  کچھ اپنی عقل کا استعمال کریں تاکہ ان کی علمی حثیت اور اوقات بھی واضح ہو سکے!!!  
مکمل تحریر >>

کائنات قوانینِ فطرت کے نتیجے معرضِ وجود میں آئی اور انھی کے تحت چل رھی ھے

کائنات قوانینِ فطرت کے نتیجے معرضِ وجود میں آئی اور انھی کے تحت چل رھی ھے..
درج بالا بیان کا اطلاق ہر اس کائناتی وجود پر ضرور ہوتا ھے جو دو عوامل سے عاری ھوں.
1 حیات
2 شعور
وجودِ کائنات کی کیسٹ کو ریوائنڈ کرکے اگر ابتدائےکائنات کے مرحلے تک لیجانےکے بعد پھر سے اس عمل کو دھرایا جائے تو آج کی تاریخ میں واپسی پر موجودہ حیات و شعور کی کیفیت و ماھیت یکسر اس سے مختلف ھوگی جو آج ھے.. اور یہ عین اسٹیبلشڈ سائنسی موقف بھی ھے.

جبکہ قوانینِ فطرت غیر متبدل اور اٹل ہیں. یکساں حالات میں ہر بار دھرائےجانے کی صورت میں یکساں نتائج کے حامل.
حالانکہ باقی تمام کائناتی تشکیل عین اول تشکیل کے مطابق ھوگی
جو کے دلیل ھے اس بات کی. کے حیات و شعور کے پسِ منظر میں ایک بیرونی شعور کار فرما ھے اور وھی شعور کارفرما ھے غیر حیاتیاتی اور غیر شعوری کائنات کے پسِ پردہ بھی.. مگر ان دو کی تخلیق میں اس نے ایک ھی قسم کے قوانین کو بروئےکار نہیں لایا
مکمل تحریر >>

انکارِ حدیث کیوں؟

انکارِ حدیث کیوں؟

از: مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ .
اما بعد!

مذہب اسلام کیلئے موجودہ دور میں جو سوالات خاص اہمیت کے حامل ہیں، ان میں حدیث نبوی (علی صاحبہا الف الف سلام) کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات بالخصوص توجہ طلب ہیں۔

۱- حدیث کا مرتبہ اسلام میں کیا ہے؟

۲- حدیث سے شریعت اسلامیہ کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟

۳- حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے تواس سے دین کو کیا نقصان ہوگا، دور حاضر میں انکار حدیث کی جو وباء پھوٹ پڑی ہے، یہ کن جراثیم کا نتیجہ ہے؟

سطور ذیل میں ہم ان سوالات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔

واللّٰہ الموفق والمعین.

لیکن اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند اصولی امور ناظرین کی خدمت میں پیش کردیں جن سے نظر وفکر کی مزید راہیں کھل سکیں۔

۱- نبی امت کی عدالت میں

انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔

اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟

تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرمملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لیا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکان اسمبلی صدر مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا، ﴿بئسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہِ ایمانکم انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْن﴾۔

بہرحال مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو (غلبہ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)

۲- فتنہ کی شدت

فتنہ کی کجی ملاحظہ کیجئے۔ دین قیم کے وہ صاف، واضح، روشن اور قطعی مسائل جن میں کل تک شک وتردد کا ادنیٰ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا؛ کل تک ملت اسلامیہ جن کو یقینی مانتی چلی آئی تھی، شکی مزاج طبیعتیں آج ان ہی مسائل کو غلط اور ناقابل قبول ٹھہراتی ہیں۔

ایک رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات اب تک محفوظ تھی، تمام امت کا مرجع تھی، ہر امتی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتا تھا۔ امت میں کوئی اختلاف رونما ہو، اس کے فیصلہ کے لئے آپ کی ذات آخری عدالت تھی اور آپ کا ہر فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن افسوس! آج کس کے پاس یہ شکایت لے جائیں کہ فتنہ کے سیلاب کی موجیں علماء، صلحاء، صوفیاء، متکلمین، محدثین، مجتہدین، تابعین اور صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) ان سب کو روندتی ہوئی دین وشریعت کی آخری فیصل ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم سے ٹکرارہی ہیں اور چاہا جاتا ہے کہ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے آخری عدالت کو بھی مجروح کردیا جائے فالی اللہ المشتکی.

اف! مبتلائے فتنہ امت میں یہ بحث موضوع سخن ہے کہ کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث حجت ہے یا نہیں، دینی حیثیت سے قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا یہ صاف اور موٹی بات بھی کسی کی عقل میں نہیں آسکتی کہ کسی ذات کو نبی اور رسول ماننا یا نہ ماننا تو ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جس ذات کو رسول مان لیا جائے، ماننے والے کے ذمہ اس کی ہر بات کا مان لینا بھی ضروری ہے، جس کام کا وہ حکم کرے اس کی تعمیل بھی ماننے والے کے لیے لازم ہے اور جس فعل سے وہ منع کرے اس سے رک جانا ضروری ہے۔

رسول کو رسول مان کر اس کے احکام میں تفتیش کرنا کہ یہ ”حکم آپ اپنی طرف سے دے رہے ہیں یا خدا کی طرف سے؟ اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو اس کی تعمیل سے معاف رکھا جائے“ نری حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ کتنی صاف اور سیدھی بات تھی لیکن نہیں معلوم لوگ عقل کو کہاں استعمال کیا کرتے ہیں کہ ایسے بدیہی امور میں بھی شک اور تردد کا مرض ان کو ایمان ویقین سے محروم کئے رکھتا ہے۔

شرح تحریر میں ہے۔

”حجیة السنة سواءٌ کانت مفیدة للفرض او الواجب أو غیرہما (ضرورةٌ دینیةٌ) کل من لہ عقل وتمیز حتی النساء والصبیان یعرف أن من ثبت نبوتہ صادق فیما یخبر عن اللّٰہ تعالی ویجب اتباعہ“ (تیسیر التحریر ص:۲۲ ج۳)

ترجمہ: سنت خواہ مفید فرض ہو یا واجب یا ان کے علاوہ کے لئے مفید ہو، اس کا حجت ہونا دین کا ایسا واضح مسئلہ ہے جس میں طلب دلیل کی ضرور نہیں، جس کو ذرا بھی عقل وتمیز ہو، عورتوں اور بچوں تک بھی، وہ جانتا ہے کہ جس کی نبوت ثابت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتلائے گا اس میں قطعاً سچا ہوگا اور اس کی بات کی پیروی واجب ہوگی۔“

منکرین حدیث کی کورچشمی ملاحظہ کرو۔ اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رسول برحق ہیں اس پر بھی اتفاق ہے کہ علم و عرفان کے سرچشمہ ہوتے ہیں الغرض آفتاب طلوع ہوچکنے کے بعد، بحث اس پر ہورہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد دن ہوتا ہے، یا رات ہوتی ہے۔ زبان وقلم، عقل وفہم اور دل ودماغ کی قوتیں اس پر صرف کی جارہی ہیں کہ رسول کو رسول ماننے کے بعد اس کی کسی بات (حدیث) پراعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو خیرہ چشم طلوع آفتاب کا اقرار کرنے کے باوجود ”دن نہیں رات“ کی رٹ لگارہا ہو اور چاہتا ہو کہ تمام دنیا اسی کی طرح آنکھیں موندلے، بتلایا جائے کہ آپ ایسے سوفسطائی کو کس دلیل سے سمجھاسکتے ہیں۔

اسی طرح محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا زبانی اقرار کرنے والوں سے جب سنا جاتا ہے کہ جس ذات کو ہم رسول مانتے ہیں اسی کا کوئی قول اور فعل ہمارے لئے حجت نہیں تو بتلائیے ایسے محرومان بصیرت کے لئے کونسا سامان ہدایت سود مند ہوسکتا ہے؟ کاش ان کو چشم بصیرت نصیب ہوجاتی۔ ﴿فَانَّہَا لا تَعْمَی الأبْصَارُ وَلکِنْ تَعْمَی الْقُلُوب الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾ ”کیونکہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوچکے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں۔“

۳- منکرین حدیث کی بے اصولی

حدیث کا جو ذخیرہ اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے اس کے دو جز ہیں۔

(۱) متن (۲) سند۔ یعنی ایک تو حدیث کے وہ جملے ہیں جو قولاً یا فعلاً یا تقریراً صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب ہیں کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا یا آپ نے فلاں عمل کرکے دکھایا یا آپ نے فلاں کام کی ... جو آپ کے سامنے کیاگیا، تصویب فرمائی۔ دوم اساتذہ حدیث کا وہ سلسلہ ہے جو امت اورامت کے نبی صلى الله عليه وسلم کے درمیان واسطہ ہیں۔ مثلاً امام بخاری جس حدیث کو روایت کریں گے وہ ساتھ ہی یہ بھی بتلاتے جائیں گے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے یہ حدیث کن کن واسطوں سے ہم تک پہنچی۔

پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی حدیث جن لوگوں نے خود آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سنی وہ سننے والوں کے حق میں اسی طرح قطعی تھی جس طرح قرآن کریم قطعی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک سے جو حکم بھی صادر ہوا بالمشافہ سننے والوں کے لئے اس کا درجہ وحی خداوندی کا ہے اگر آپ نے اس کو قرآن میں لکھنے کا حکم دیا تو وہ وحی جلی کہلائے گا ورنہ وحی خفی۔

قسم اوّل (وحی جلی) کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ تھے۔

قسم دوم (وحی خفی) کا مضمون منجانب اللہ ہوتا تھا، الفاظ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ہوتے تھے، بہرحال وحی کی یہ دونوں قسمیں چونکہ منجانب اللہ ہیں اس لئے دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کا قبول کرنا اہل ایمان کے ذمہ ضروری ہوا۔ البتہ روایت حدیث کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں ہوجاتی ہیں جن کی تفصیل کو مع ان کے احکام کے اپنی جگہ بیان کیاگیا ہے۔

اب منکرین حدیث کی بے اصولی دیکھئے کہ وہ ان دونوں اجزاء (متن حدیث اور سند حدیث) کے متعلق مخلوط بحث کریں گے۔ حالانکہ بے اعتمادی کا زہر پھیلانے سے پہلے انصاف ودیانت کا تقاضا یہ تھا کہ محل بحث کو طے کرلیا جاتا کہ کیا ان کو نفس حدیث ہی پر اعتماد نہیں خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو؟ یا نفس حدیث پر ان کو اعتماد ہے اور وہ اسے دینی سند بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن موجودہ ذخیرہ حدیث کے متعلق ان کی بے اعتمادی کا سبب یہ ہے کہ پوری امت میں ان کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی یہ امانت امت تک صحیح پہنچادی ہو اس لئے اس کو موجودہ ذخیرہ حدیث سے ضد ہے۔ مثلاً امام مالک کی وہ روایت جو مالک، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے مروی ہیں، جو شخص ان روایات پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے، کیا اس کا فرض نہ ہوگا کہ وہ اپنی بداعتمادی کی وجہ بتلائے کہ آیا اسے حدیث کے ان تین ناقلین، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہم پر ہی اعتماد نہیں۔ معاذ اللہ۔ یا خود ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر اعتماد نہیں۔ استغفراللہ۔

بہرحال جب تک موضوع کی تنقیح اور تعین نہ کرلی جائے، اس وقت تک کسی بھی مسئلہ پر بحث لغو اور لایعنی مشغلہ ہے۔ لیکن آپ منکرین حدیث کو پائیں گے کہ وہ کبھی نفس حدیث پر بحث کریں گے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور کبھی بے چارے ناقلین حدیث پر تبرا شروع کردیں گے کہ ان لوگوں نے اُمت کی یہ امانت بعد میں آنے والی امت تک کیوں پہنچائی۔ لیکن انکار حدیث کا منشاء متعین کرنے سے وہ گریز کریں گے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ حدیث پر سے اعتماد اٹھانے کا اصل حل تلاش کرو اور محل بحث تلاش کرنے کے بعد افہام و تفہیم کریں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ قصور وار ناقلین روایت ہوں اور فرد جرم خود حدیث پر عائد کردی جائے۔ یا اعتماد نفس حدیث پر نہ ہو،اور اس کی سزا حدیث روایت کرنے والی پوری امت کو دی جانے لگے۔

۴- انکار حدیث کا عبرتناک انجام

حدیث پر اعتماد نہ کرنے والوں کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ذات نبوی صلى الله عليه وسلم یا پوری امت میں سے ایک کو ناقابل اعتماد قرار دینا ہوگا استغفراللہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ زیدکا کلام عمرو نقل کرے، سننے والے کو زید کے صدق کا یقین ہو اور عمرو پر اعتماد ہو کہ وہ نقل میں جھوٹا نہیں لیکن اس کے باوجود کہے، کہ یہ کلام جھوٹا ہے۔ بہرحال یہاں یہ سوال کسی خاص حدیث کا نہیں بلکہ مطلق حدیث کا ہے۔ جب اس کا انکار کیا جائے گا اور اسے ناقابل اعتماد قرار دیا جائے گا تو اس صورت میں یا خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی ذات سے اعتماد اٹھانا ہوگا یا پوری امت کو غلط کار اور دروغ گو کہنا ہوگا۔ انکار حدیث کی تیسری کوئی صورت نہیں۔ اور ان دونوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاذ اللہ خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم یا چودہ سو سالہ امت سے اعتماد اٹھالیا جائے تواس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں، کہ اسلام اور قرآن پر بھی ان کا اعتماد نہیں۔ اور دین وایمان کے ساتھ بھی ان کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کے متعلق بے اعتمادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال دل میں نہ لانا چاہئے کہ اس تمام تر سعی مذموم کے باوجود وہ اسلام اور قرآن کو بے اعتمادی کے جھگڑے سے محفوظ رکھ سکیں گے۔

* * *
۵- تنقیح بحث

اب تمام تر بحث جو آپ کے سامنے آئے گی، وہ نفس حدیث سے متعلق ہوگی، سند حدیث اور رجال سند کی بحث کو ہمارے موضوع سے خارج سمجھنا چاہئے۔

ان ابتدائی اشارات کے بعد ہم پہلے سوال پر غور کرتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ۲۳ سالہ دور نبوت کے ارشادات، کلمات طیبات، قضایا اور فیصلے، افعال واحوال، سیرواخلاق، الغرض اس طویل مدت میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے امت کو جو زبانی حکم دیا یا جوکچھ عملاً کردکھلایا، یا کسی عمل کی تصویب قولاً یا سکوتاً فرمائی (ان ہی امور کے مجموعہ کا نام حدیث ہے)

* ان سب کو قرآن مجید کیا مرتبہ دیتا ہے؟

* خود آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ان کی حیثیت کیا تھی؟

* صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے تقریبا صد سالہ دور میں ان کے ساتھ کیا تعلق رکھا؟

* صحابہ کرام کے بعد کی امت کی نظر میں ان کا کیا مرتبہ رہا؟

* عقل صحیح کی روشنی میں ان کا کیا مقام ہے؟

یہ پانچ نکات ہیں، جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایک مجلاتی مضمون میں جس قدر شرح وبسط کی گنجائش ہوسکتی ہے حتی الوسع اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حق تعالیٰ سوء فہم اور قصور تعبیر سے حفاظت فرمائیں (آمین)

۱- فرمودہ رسول صلى الله عليه وسلم کو بلا چون وچرا قبول کرو

قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف سے جو کچھ دیا جائے۔ اس کو بلا چون وچرا قبول کرلیں اور آپ کے منع کردہ امور سے باز رہیں۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا،تو ان کے حق میں شدید عذاب کا اندیشہ ہے۔ارشاد خداوندی ہے:

﴿وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ فخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾ (الحشر:۷)

(ترجمہ) اورر سول تمہیں جو کچھ بھی دے دیں۔ اس کو لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ
سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہیں۔

۲- حکم نبوی سے روگردانی باعث فتنہ وعذاب ہے

آپ صلى الله عليه وسلم کے امر کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو ڈرایاگیا ہے کہ ان کی یہ روش بدترین فتنہ اور دردناک عذاب میں انہیں دھکیل کر رہے گی۔

﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أمْرِہ أن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ أوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ ألِیْمٌ﴾ (النور:۶۳)

(ترجمہ) اور جو لوگ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔انہیں ڈرنا چاہئے، کہ کہیں ان کو کوئی عظیم فتنہ پیش نہ آجائے یا کہیں ان کو عذاب الیم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

چنانچہ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کے ذیل میں رقمطراز ہیں:

یعنی اللہ اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر ونفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لئے جڑ پکڑ نہ جائے۔اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں،العیاذ باللہ۔ (تفسیر عثمانی ص۴۶۶)

۳- اطاعت نبوی باعث رحمت خداوندی ہے

رحمت خداوندی کے نزول کو آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کاملہ کے ساتھ وابستہ کیاگیا ہے۔ فرمان باری ہے۔

﴿وَأقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ وآتُوْ الزَّکَوةَ وَأطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (النور۵۶)

”اور اے مسلمانوں نماز کی پابندی رکھو، اور زکوٰة دیا کرو، اور باقی احکام میں بھی رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کیاکرو۔ تاکہ تم پر کامل رحم کیاجائے۔ (ترجمہ حکیم الامت رحمہ اللہ)

۴- فوز وفلاح کا راز

ہر قسم کی فوز وفلاح، رشدوہدایت، اور بہبودیٴ دنیا وآخرت کو آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت میں منحصر قرار دیاگیا۔

﴿وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِیْنَ وَالصِدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیْقًا، ذلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا﴾ (النساء۶۹)

(ترجمہ) ”اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا۔ تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یعنی انبیاء اور صدیقین، اور شہدا اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ کافی جاننے والے ہیں۔“

۵- اتباع رسول صلى الله عليه وسلم محبت ومحبوبیت الٰہی کا معیار ہے

دعوائے محبت خداوندی کے صدق وکذب کا امتحان کرنے کے لئے اتباعِ محبوبِ خدا صلى الله عليه وسلم کو معیار قرار دیاگیا۔ اسی کے ساتھ آپ کی ہر ادا کی نقل اتارنے والوں کو مقام محبوبیت پر فائز ہونے کی بشارت اور مغفرت سے ہمکنار ہونے کی خوشخبری سے نوازا گیا ہے۔

﴿قُلْ انْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (آل عمران:۳۰)

(ترجمہ) آپ صلى الله عليه وسلم فرمادیجئے۔ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے۔ تمہارے گناہ بخش دیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بہت رحم والے ہیں۔

علامہ شبیر احمد عثمانی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:

”دشمنان خدا کی موالات ومحبت سے منع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا معیار بتلاتے ہیں۔ یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو، تو لازم ہے کہ اس کو اتباع محمد صلى الله عليه وسلم کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا جو شخص جس قدر حبیب خدا محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی راہ چلتا،اور آپ کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے،اسی قدر سمجھنا چاہئے کہ خدا کی محبت کے دعوے میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعوے میں سچا ہوگا،اتنا ہی حضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا۔جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا۔اور اللہ کی محبت اور حضور صلى الله عليه وسلم کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری باطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی۔ مختصراً ان آیات میں پیغمبر آخر الزماں کی اطاعت کی پرزور طریقے سے دعوت دی گئی ہے۔ (تفسیر عثمانی ص۶۹)

۶- آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی تصفیہ طلب امور میں بحیثیت آخری عدالت!

اعلان کیاگیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو جب تک شعار زندگی نہ بنایا جائے گا اور ہر قسم کے تصفیہ طلب امور کے لئے آپ کی ذات پاک کو آخری عدالت کی حیثیت نہیں دی جائے گی اہل ایمان کو نہ ذرہ خیروبرکت میسر آسکتا ہے نہ اس کے بغیر کسی اچھے انجام کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔

﴿یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وأولِی الأمْرِ مِنْکُمْ، فَانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوْہ الی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ انْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَّ أحْسَنُ تأوِیْلاً﴾ (النساء:۵۹)

(ترجمہ) اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو، اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں سے جو لوگ اہل حکومت ہیں، ان کا بھی۔ پھر اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور رسول کے حوالے کردیا کرو۔ اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ امور سب بہتر ہیں۔اور انجام کار خوش تر ہیں۔

مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اختلافات کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق حل کریں اوراگر کوئی اپنے اختلافات ختم کرنے کے لئے قرآن وسنت سے پہلو تہی کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور ہوگا۔

علما نے لکھا ہے کہ اگر دو مسلمان آپس میں جھگڑیں۔ ایک نے کہا کہ چلو شرع کی طرف رجوع کریں۔ دوسرے نے کہا کہ میں شرع کو نہیں سمجھتا یا مجھ کو شرع سے کیاہے۔ تو اس کے یہ کلمات دائرئہ اسلام سے خارج کرنے والے ہیں۔ (تفسیر عثمانی)

۷- رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا حکم واجب العمل ہے

آگاہ کیاگیا ہے کہ نہ صرف دینی امور بلکہ خالص دنیوی امور میں بھی کسی مومن مرد اور عورت کو آپ کے فیصلے کے بعد کسی قسم کی گنجائش نہیں کہ فیصلہ نبوت کے بعد وہ اپنے لئے ادنیٰ اختیار کا تصور بھی ذہن میں لائے۔

﴿وَمَا کَانَ لِمُوٴمِنٍ ولاَ مُوٴْمِنَةٍ اذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أمْرًا أنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أمْرِہِمْ﴾ (الاحزاب:۳۶)

(ترجمہ) اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا وجوباً حکم دے دیں کہ (پھر) ان مومنین کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں۔ بلکہ عمل کرنا ہی واجب ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

۸- فیصلہٴ نبوی سے انحراف باعث ہلاکت ہے

بات یہیں پوری نہیں ہوجاتی، بلکہ پُرجلال انداز میں ہر سننے والے کے کان کھول دئیے گئے کہ فیصلہ نبوی کے بعد جن لوگوں کو اپنے لئے کسی قسم کی اختیاری گنجائش پیداکرنے کی فکر رہتی ہے، ایسے نافرمان صریح بھٹکے ہوئے ہیں۔

﴿وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِیْنًا﴾ (الاحزاب:۳۶)

(ترجمہ) اور جو شخص اللہ کا اور اسکے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا۔

۹- ہدایت صرف اطاعت نبوی میں منحصر ہے

یہ بھی واضح کردیاگیا، کہ ہدایت صرف اطاعت نبوی میں منحصر ہے۔ اوریہ کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی پیروی کے علاوہ ہدایت کے تمام راستے بند ہیں۔ اس کے ساتھ بتلادیاگیا۔ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اوامر سے سرتابی کرنے والے کوتاہ اندیش لوگوں کو اس کے ہولناک نتائج کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

﴿قُلْ أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ فَانْ تَوَلَّوْ فَانَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلتُمْ وَانْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوا وَمَا عَلی الرَّسُوْلِ الا الْبَلاغُ الْمُبِیْنَ﴾ (النور:۵۴)

(ترجمہ) آپ کہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو۔ اور رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم (اطاعت سے) روگردانی کروگے، تو سمجھ رکھو کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ذمہ وہی (تبلیغ) ہے جس کا ان پر بار رکھا گیا۔اور تمہارے ذمہ وہ ہے جس کا تم پر بار رکھا گیا ہے اور اگر تم نے ان کی اطاعت کرلی، تو راہ پر جالگو اور بہر حال رسول کے ذمہ صاف صاف طور پر پہنچادینا ہے۔

۱۰- مومن اور جذبہٴ سمع وطاعت

واضح کردیاگیا کہ ایمان کا سب سے بڑا نشان آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی دعوت پر لبیک کہنا، آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر حکم پر سمع وطاعت بجالانا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کردینا ہے۔ اور یہ کہ کامرانی اور کامیابی انہیں لوگوں کے قدم چومے گی، جو اپنے اندر یہ ایمانی صفات رکھتے ہوں گے۔
﴿انَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اذَا دُعُوآ الَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أنْ یَقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا وَأوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (النور:۵۱)

(ترجمہ) مسلمانوں کا قول تو جبکہ ان کو (کسی مقدمہ میں) اللہ اوراس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردیں یہ ہے کہ وہ (بطیب خاطر) کہتے ہیں۔ کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور ایسے لوگ آخرت میں فلاح پائیں گے۔

مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یعنی ایک سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی معاملے میں ان کو خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے۔ خواہ ان میں بظاہر ان کا نفع ہو، یا نقصان ایک منٹ کا توقف نہ کریں۔ فی الفور سمعًا وطاعةً کہہ کر حکم ماننے کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاح کا راز مضمر ہے۔ (تفسیر عثمانی)

۱۱- گفت او گفتہٴ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

بتلایاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وعمل وحی الٰہی کا تابع اور منشائے خداوندی کا ترجمان ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ اپنی ذاتی خواہش سے نہیں، بلکہ وحی الٰہی سے فرماتے ہیں۔

﴿وَالنَّجْمِ اذَا ہَوَیٰ، مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَیٰ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ انْ ہُوَ الاَّ وَحْیٌ یُوْحَیٰ﴾ (النجم من أولی الی الأربع آیات)

(ترجمہ) ”قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے۔ یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نہ راہ سے بھٹکے، اور نہ غلط رستے ہوئے اور نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اپنی نفسانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں اور ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

پس جس ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ غلط روی کا احتمال ہے اور نہ وحی الٰہی کے خلاف کسی لفظ کے زبان مبارک پر آنے کا اندیشہ ہے، ایسی ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے ہر قول وفعل پرہمہ دم وحی الٰہی کا پہرا رہتا ہو انصاف کیا جائے...

حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دلائل وبراہین سے محقق کرنے کے بعد خدا تعالیٰ آپ کے متعلق یہ حکم سناتا ہے کہ جو ہمارے رسول صلى الله عليه وسلم کی فرمانبرداری کرے گا وہ بے شک ہمارا تابعدار ہے۔ اور جو اس سے روگردانی کرے گا تو ہم نے تجھ کو اے رسول ان لوگوں پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا کہ ان کو گناہ نہ کرنے دے ہم ان کو دیکھ لیں گے تیرا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ آگے ثواب یا عتاب یہ ہمارا کام ہے۔“

۱۲- اطاعت نبوی کی حقیقت

یہ بھی اعلان کردیاگیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، اور جو لوگ آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی نہیں سمجھتے وہ اپنی بدفہمی کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں۔

﴿مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أرْسَلْنَاکَ عَلَیہِمْ حَفِیْظاً﴾ (النساء:۸۰)

ترجمہ: جس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے روگردانی کرے سو آپ کچھ غم نہ کیجئے کیونکہ ہم نے آپ کو نگراں کرکے نہیں بھیجا کہ آپ ان کو کفر نہ کرنے دیں۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

۱۳- ایک مثالی نمونہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول، علم وعمل، گفتار وکردار، نشست وبرخاست غرضیکہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات سے صادر ہونے والی ہر چیز سراپا ہدایت ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی کو امت کیلئے بہترین مثالی نمونہ قرار دیاگیا۔

﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب:۲۱)

ترجمہ: تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔“

اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہر ایسے شخص کے لئے معیاری نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور جس کا دل ذکر الٰہی کی کثرت سے منور ہو، برعکس اس کے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالی نمونہ نہیں سمجھتا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اقوال و افعال کو واجب الاطاعت اور لائق اقتدا نہیں سمجھتا اسے نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ نہ آخرت پر۔ اس کا دل ذکر الٰہی کے نور سے محروم ہونے کی وجہ سے ظلمت کدہ ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھو۔ سختیوں اور جانگداز حالات میں کیا استقلال رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب سے زیادہ اندیشہ اور فکر ان ہی پر ہے مگر مجال ہے کہ پائے استقامت ذرا جنبش کھاجائے۔ جو لوگ اللہ سے ملنے اور آخرت کا ثواب حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں ان کیلئے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے۔ چاہئے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون، اور نشست وبرخاست میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ہمت واستقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔

۱۴- ایک نکتہ

آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت سے اعتقاداً پہلو تہی کرنے والوں پر صاف صاف کفر کا فتویٰ صادر کیاگیا۔

﴿قُلْ أطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَانْ تَوَلَّوْا فَانَّ اللّٰہَ لا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (آل عمران:۳۲)

(ترجمہ) آپ فرمادیجئے کہ تم اطاعت کیا کرو۔ اللہ اوراس کے رسول کی۔ پھراگر وہ لوگ اعراض کریں تو سن رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتے۔“

۱۵- فیصلہ نبوی سے منحرف ظالم ہے

آپ صلى الله عليه وسلم کے فیصلوں سے اعراض کرنے والوں کو شک و تردد اور نفاق کے مریض، غلط اندیش اور ظالم قرار دیاگیا۔

وَاِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ o وَاِنْ یَّکُن لَّہُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْآ اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ o اَفِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْا اَمْ یَخَافُوْنَ اَن یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَرَسُوْلُہُ بَلْ اُولٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ. (النور ع۶، آیت ۵۱)

(ترجمہ) ”اور یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف اس غرض کے لئے بلائے جاتے ہیں کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو ان میں ایک گروہ پہلو تہی کرتا ہے۔ اور اگر ان کا حق ہو تو سر تسلیم خم کئے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں۔ آیا ان کے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں پڑے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم نہ کرنے لگیں، نہیں! بلکہ یہ لوگ سراسر ظالم ہیں۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)

۱۶- اتباع رسول صلى الله عليه وسلم سے پہلو تہی منافقانہ عمل ہے

آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع سے انحراف کرنے والوں کو صاف صاف منافق اور ایمان سے عاری قرار دیاگیا۔

﴿وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا الَی مَا أنْزَلَ اللّٰہُ وَالی الرَّسُولِ رأیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾ (النساء:۶۱)

(ترجمہ) اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، تو آپ منافقین کی یہ حالت دیکھیں گے کہ آپ سے پہلو تہی کرتے ہیں۔“

مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ یعنی جب کسی جھگڑے میں منافقوں سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم نازل فرمایا ہے اس کی طرف آؤ۔ ظاہر میں چونکہ مدعی اسلام ہیں، اس لئے صاف طور پر تو انکار نہیں کرسکتے مگر آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آنے سے اور حکم الٰہی پر چلنے سے بچتے ہیں اور رکتے ہیں کہ کسی ترکیب سے جان بچ جائے۔اور رسول صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر جہاں ہمارا جی چاہے اپنا جھگڑا لے جائیں۔ (ص۱۱۳)

۱۷- ارشادات نبوی سے بے اعتنائی برتنے والے کا حکم

آپ کے پاک ارشادات کے ساتھ بے اعتنائی برتنے والوں اور آپ کے اقوال شریفہ کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کے متعلق اعلان کیاگیا کہ ان کے قلوب پر خدائی مہر لگ چکی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایمان ویقین اور رشد وہدایات کی استعداد گم کرچکے ہیں اور ان لوگوں کی ساری تگ ودو خواہش نفس کی پیروی تک محدود ہے۔

﴿وَمِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعْ الَیْکَ حَتّٰی اذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ أوْتُوْا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا. أوْلئک الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْا أہْوَائَہُمْ﴾ (محمد:۱۶)

(ترجمہ) اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تحقیر کے طور پر) کہتے ہیں کہ حضرت نے ابھی کیا بات فرمائی تھی؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی، اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانوی بتصرف یسیر)

۱۸- اسلامی دستور کا دوسرا مآخذ احادیث نبوی ہیں

قرآن کریم نے صاف صاف یہ اعلان بھی کردیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو صرف اسی مقصد کیلئے بھیجا جاتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انکار اور آپ کے ارشادات سے سرتابی کرنا گویا انکار رسالت کے ہم معنی ہے۔ اس طرح آپ کی اطاعت کے منکرین انکار رسالت کے مرتکب ہیں۔

﴿وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ﴾ (النساء:۶۴)

(ترجمہ) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جائے۔“

قرآن کریم کی وہ آیات جن میںآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اہل ایمان کے لئے لازم قرار دیاگیا ہے، بے شمار ہیں۔ ان میں سے یہ چند آیات آپ کے سامنے ہیں۔ کتاب اللہ کے ان واضح اعلانات کی روشنی میں یہ فیصلہ بالکل آسان ہے، کہ اسلام میں ذات اقدس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مرتبہ کیا ہے؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی اطاعت اور پیروی کا حکم خود قرآن ہی میں موجود ہے اور جب قرآن کریم ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی قرار دیتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جب قرآن ہی وحی خداوندی بتلاتا ہے (وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ انْ ہُوَ الاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی اور آپ صلى الله عليه وسلم کے کلمات طیبات کو جب قرآن ہی ”گفتہ او گفتہ اللہ بود“ کا مرتبہ دیتا ہے تو بتلایا جائے کہ حدیث نبوی کے حجت دینیہ ہونے میں کیا کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ اور کیا حدیث نبوی کا انکار کرنے سے کیا خود قرآن ہی کا انکار لازم نہیں آئے گا؟ اور کیا فیصلہ نبوت میں تبدیلی کے معنی خود قرآن کو بدل ڈالنا نہیں ہوں گے۔ اور اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم بھی تو امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان مبارک سے سنا، اور سن کر اس پر ایمان لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”یہ قرآن ہے“ یہ ارشاد بھی تو حدیث نبوی ہے۔ اگر حدیث نبوی حجت نہیں تو قرآن کریم کا قرآن ہونا کس طرح ثابت ہوگا۔ آخر یہ کونسی عقل ودانش کی بات ہے کہ اس مقدس ومعصوم زبان سے صادر ہونے والی ایک بات تو واجب التسلیم ہو اور دوسری نہ ہو؟

امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه نے ایک موقع پر فرمایاتھا:

”یہ تو میرے میاں (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کمال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور یہ میراکلام ہے، ورنہ ہم نے تو دونوں کو ایک ہی زبان سے صادر ہوتے ہوئے سنا تھا۔“

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن تو حجت ہے مگر حدیث حجت نہیں ہے ان ظالموں کو کون بتلائے کہ جس طرح ایمان کے معاملہ میں خدا اور سول کے درمیان تفریق نہیں ہوسکتی کہ ایک کومانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ایک کو تسلیم کرلیجئے تو دوسرے کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا اور ان میں سے ایک کا انکار کردینے سے دوسرے کا انکار آپ سے آپ ہوجائے گا۔ خدائی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کے کلام کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کیا جائے اوراس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ٹھکرایا جائے۔ وہ ایسے ظالموں کے خلاف صاف اعلان کرتا ہے۔

فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہ یَجْحَدُوْنَ.

(ترجمہ) ”پس اے نبی ! یہ لوگ آپ کے کلام کو نہیں ٹھکراتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں۔“

لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے اور کلام اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں لامحالہ رسول اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ ورنہ ان کا دعویٰ ایمان حرف باطل ہے۔
مکمل تحریر >>