Monday, 26 March 2018

کیا جزیہ کافروں پر ایک ظالمانہ ٹیکس ہے؟



سوال:
جزیہ کیا ہے؟
جواب ؛
یہ ایک فارسی لفظ "گزیہ"کا عربی روپ ہے اور اس کا مطلب ہوتا ہے دفاعی ٹیکس، ہر زمانہ میں فاتح قومیں مفتوح قوموں سے تاوان جنگ جزیہ اور دوسرے ناموں سے لوٹ کھسوٹ کرتی رہی ہیں، اپنے زیر حکومت آباد دوسری قوموں کے لوگوں پر طرح طرح کے ٹیکس عائد کرتی رہی ہیں، اسلام نے ہمیشہ اپنی حکومت کے ذمہ داروں کو ظلم و ستم سے باز رہنے کی ہدایت، تاکید کی ہے اس نے زیر اقتدار علاقوں میں آباد غیر مسلموں پر ان کے دفاع اور ان کی فلاح و بہبود کی خاطر ایک معمولی ٹیکس جزیہ کے نام پر لگایا ہے جو ان کے ماتحتی قبول کر لینے کی محض ایک علامت ہوتا ہے جو غیر مسلم کسی اسلامی حکومت سے لڑ کر شکست کھا جائیں اور پھر اسلامی حکومت کے شہری بننا قبول کر لیں، ان سے یہ ٹیکس لیا جاتا ہے.

سوال:
صرف غیر مسلموں سے ہی کیوں جزیہ لیا جاتا ہے؟
جواب:
کیونکہ ایک اسلامی حکومت میں غیر مسلموں پر فوجی ذمہ داریاں نہیں ڈالی جاتیں، اسلامی حکومت انہیں مجبور نہیں کرتی کہ مختلف نظریات رکھتے ہوئے بھی وہ اسلامی حکومت کے عقیدے اور نظریہ کا بار اٹھائیں. یہ ذمہ داری وہ صرف مسلمانوں پر ڈالتی ہے کہ وہ ریاست کا تحفظ کریں. ریاست کے عوام کا تحفظ کریں، اس ذمہ داری میں غیر مسلموں کے مذہب، عبارت گاہیں، عزت، آبرو، جان اور مال کا تحفظ بھی شامل ہے.
سوال:
کیا مسلمانوں سے بھی کوئی رقم وصول کی جاتی ہے؟
جواب:
ان سے زکوٰۃ وصول کی جاتی ہے جس کی رقم جزیہ سے بہت زیادہ ہوتی ،مسلمانوں کو زکوٰۃ ادا کرنے کے باوجود فوجی خدمات بھی پیش کرنا ہوتی ہیں. اس لئے مسلمانوں پر ٹیکس بھی زیادہ ہوا اور فوجی خدمت سے بھی انہیں مستثنٰی نہیں کیا گیا.

سوال:
کیا جزیہ اسلامی حکومت کے ہر غیر مسلم شہری پر عائد ہوتا ہے؟
جواب:
نہیں! جن غير مسلموں سے معاہدہ ہو گیا ہو، ان پر جزیہ نہیں ہے، جو غیر مسلم جزیہ دینا پسند نہ کرتے ہوں، وہ کوئی اور صورت اپنا سکتے ہیں.
سوال:
اگر اسلامی حکومت غیر مسلموں کا تحفظ کرنے کی اہل نہ رہے تو کیا اسے جزیہ کی یہ رقم واپس کرنی ہوگی؟
11/13/16, 2:28 PM - Soldier of peace: جواب:
یقیناً یہ رقم اس سے واپس لی جا سکے گی.
سوال:
اگر غیر مسلم اسلامی حکومت کی فوجی خدمات میں شامل ہونا چاہیں تو کیا انہیں یہ موقع دیا جائے گا اور ایسی شکل میں کیا جزیہ ختم ہو جائے گا؟
جواب:
انہیں اسلامی حکومت کی فوجی خدمات میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے گا اور ایسی صورت میں ان سے جزیہ کی رقم نہیں لی جائے گی.
سوال:
کیا جزیہ مذہبی بنیاد پر امتیاز ظاہر نہیں کرتا؟ کیا یہ غیر مسلموں سے اسلام قبول کروانے کی کوشش نہیں ہے؟
جواب:
نہیں! کیونکہ جزیہ غیر مسلموں کے مذہبی لوگوں، سادھوؤں، سنتوں اور پادریوں وغیرہ پر سرے سے عائد ہی نہیں ہوتا. وہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں، بیماروں اور معذوروں پر بھی عائد نہیں ہوتا. وہ صرف خدمت کے قابل ان لوگوں پر عائد ہوتا ہے جنہیں اسلامی فوج میں ہونا چاہئے تھا مگر وہ اس میں شریک نہیں ہونا چاہتے.
سوال:
کیا ہر غیر مسلم جوان کو جزیہ دینا ہوتا ہے اور کیا جزیہ کی شرح سب کے لیے یکساں ہوتی ہے؟
جواب:
نہیں! جزیہ کی رقم ہر ایک کی اقتصادی حالت سامنے رکھ کر طے کی جاتی ہے، اور صرف
ضرورت سے زائد آمدنی میں سے جزیہ لیا جا سکتا ہے. بالکل نادار غیر مسلم نوجوانوں کے لئے سرے سے جزیہ معاف ہوتا ہے بلکہ ان کو اسلامی بیت المال سے وظیفہ بھی دیا جاتا ہے.
سوال:
کیا جزیہ دینے والے غیر مسلموں کے دھرم میں کوئی مداخلت نہیں کی جاتی؟
جواب:
قطعاً نہیں.
سوال:
کیا ان کے حقوق اور فرائض اور ان کا شہری درجہ مسلمانوں ہی کے برابر ہوتا ہے؟
جواب:
یقیناً ان کے شہری حقوق اور درجہ مسلمانوں ہی کے برابر ہوتا ہے.
سوال:
تو کیا یہ کوئی عام اسلامی حکم نہیں ہے؟ کہا جاتا ہے کہ جزیہ کا مطلب مذہبی اختلاف کی بنا پر غیر مسلموں کی توہین ہے؟
جواب:
اگر یہ کوئی عام اسلامی حکم ہے تو بتائیے دنیا میں آج کس اسلامی ملک میں کس غیر مسلم سے جزیہ لیا جا رہا ہے؟ اسلام کے خلاف اس طرح کی جو بے سروپا اور جھوٹی باتیں کہی پھیلائی جاتی ہیں، ان کے پیچھے کچھ دوسرے مقاصد کار فرما ہوتے ہیں
مکمل تحریر >>

پاکستان کی گذشتہ معاشی حالت

یاد ماضی

ایوب خان کے دور میں پاکستان پر کوئی قرضہ نہیں تھا ۔ پاکستان قرض لینے کے بجائے دینے والے ممالک میں شامل تھا ۔ اس دور میں پاکستان نے جرمنی جیسے ملک کو 120 ملین کا ترقیاتی قرضہ دیا ۔
ایوب خان نے جب اقتدار سنبھالا تو ڈالر 4 روپے کا تھا اور 11 سال بعد جب وہ چھوڑ کرگیا تب بھی ڈالر 4 روپے کا ہی تھا۔
ایوب خان کے دور میں ایک چینی وفد پاکستان آیا تو حبیب بینک کی عمارت دیکھ کر حیران رہ گیا اور وہ پاکستان سے اسکا ڈیزائن لے کر گئے ۔ اس دور میں کراچی کا مقابلہ لندن اور نیویارک سے کیا جاتا تھا ۔
ایوب خان کے دور میں صنعتی ترقی کی شرح پاکستانی تاریخ کا ریکارڈ 9 فیصد تھی ۔ یہ شرح آج کے دور میں چین کی ہے ۔
بے روزگاری کی شرح 3 فیصد تھی جو پاکستان کی تاریخ میں کم ترین ہے ۔
جب ان کو اقتدار ملا تو قومی بچت جی ڈی پی کا 2.5 تھی ۔ ان کی اقتدار میں آمد کے بعد یہ 10.5 فیصد پر پہنچ گئی ۔ ( ضیاء کے دور میں یہ 16 فیصد کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئی تھی )
ایوب خان کے آمرانہ دور میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا سر پلس بجٹ پیش کیا گیا ۔
اسی دور میں جنوبی کوریا نے تیز رفتار ترقی کے لیے پاکستان سے اسکا پانچ سالہ منصوبہ لے کر اس پر عمل کیا۔
ان کے دور میں ملک بھر میں بینکوں کی تعداد میں 5 گنا جبکہ اکاؤنٹ ہولڈرز کی تعداد میں 11 گنا اضاٖفہ ہوا ۔
اسٹاک ایکسچینج نے 1.7 ارب سے 5.2 ارب کی چھلانگ لگائی ۔
اسٹاک ایکسچیج میں رجسٹر کمپنیوں کی تعداد 81 سے 282 ہوگئی ۔
پاکستان نے پہلی بار آٹو موبائل آئل، ریفائنری اور سیمنٹ کی انڈسٹری میں قدم رکھا۔
پاکستان میں گیس کے میٹر نہیں ہوتے تھے اور نہایت معمولی سا فکس بل آتا تھا۔
پاکستان کے قومی ادارے اپنے ترقی کی معراج پر تھے مثلاً پی آئ اے کا شمار دنیا کی بہترین ائر لائنز میں کیا جاتا تھا اور اس میں امریکن صدور تک سفر کیا کرتے تھے۔ پی آئ اے ایشیاء کی پہلی ائر لائن تھی جس کے پاس جیٹ طیارے تھے۔
پاکستان کی ٹرینیں صاف ستھری ہوتی تھیں ۔ ان میں پنکھے ، لائیٹیں بلکل ٹھیک ہوتے تھے ۔ باتھ روم صاف اور بڑے بڑے اور سب سے بڑھ کر ٹرینیں وقت پر چلتی تھیں۔
پاکستان سٹیل مل کے تمام سرویز، فیزیبلٹیز اور سارا کاغذی کام ایوب خان کے دور میں مکمل کیا گیا جسکے بعد یحی خان نے 1969میں روس کے ساتھ اسکا معاہدہ کر لیا۔
منگلہ اور تربیلہ ڈیم ( تربیلہ کی تعمیر شروع کر دی گئی) سمیت کئی بڑے اور بہت سارے چھوٹے ڈیم بنائے گے ۔ جو آج بھی ملک میں سستی بجلی مہیا کر رہے ہیں ۔
ایوب خان کے دور میں پاکستان کے اہم ترین بیراج ، ہیڈورکس اور نہریں بنائی گئیں ۔نہروں کی کل لمبائی56073کلومیٹر تک پہنچا دی گئی جس کے بعد پاکستان دنیا میں سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والا ملک بن گیا۔
یہ بیراج اور نہریں آج بھی پاکستان کی کل جی ڈی پی میں 23حصہ ڈالتی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات میں انکا حصہ 70فیصد ہے اور یہ ملک کی 54فیصد آبادی کو روزگار فراہم کرتی ہیں ۔
ایوب خان کے دور میں فصلوں پر جہازوں کے ذریعے سپرے کیا جاتا تھا۔
ایوب خان نے چین کے ساتھ سرحدی معاہدہ کیا جس سے پاک چین دیرپا تعلقات کی بنیاد پڑی ۔ جو آج بھی پاکستان کے کام آرہی ہے ۔
اسلام آباد کی صورت میں پاکستان کا نیا دارلخلافہ بنایا گیا۔
ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تو امریکی صدر اپنی تمام کابینہ، تینوں افواج کے سربراہان اور امریکن عوام کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ ان کے استقبال کے لیے ائر پورٹ پر پہنچا ( آج ہمارے وزیر اعظم کو امریکن صدر ملاقات کے لیے صرف چند منٹ کا وقت دیتے ہیں )
ایوب خان کے دور میں 65ء کی جنگ میں پاکستان نے اپنے سے کئی گنا طاقتور انڈیا کے حملے کو ناکام بنایا۔ پاک فوج نے نہ صرف کئی انڈین علاقوں میں پیش قدمی کی بلکہ انڈیا کی ٹینکوں اور جہازوں کی بہت بڑی تعداد کو تباہ کر دیا جس کے بعد انڈیا امریکہ کے پاس سیز فائر کی درخواست لے کر گیا
( اس سلسلے میں نام نہاد "آزاد"ویکیپیڈیا جانبدارانہ رائے رکھتا ہے جس کو ایڈٹ نہیں کیا جا سکتا)
پاکستان ہاکی میں ورلڈ چیمپئن اور ایتھلٹکس میں ایشین چیمپئن تھا۔
ایوب خان کے دور میں مشرقی پاکستان میں کیا کام کیا گیا ۔۔
ڈاکٹر اسرار حسین کے مطابق "ایوب خان سے پہلے مشرقی پاکستان میں کل سرمایہ کاری جی ڈی پی کا صرف 6پرسنٹ تھی ۔ ایوب خان کے دور میں یہ 12.4فیصد تک پہنچ گئی ۔ جبکہ مغربی پاکستان میں 11.5سے 14.3فیصد تک گئی تھی"
ان کے دور میں پہلی بار مشرقی پاکستان میں کئی بہت بڑے اور اہم پراجیکٹ پایہ تکمیل تک پہنچائے گئے ۔ مثلاً
کھلنانیوز پرنٹ پلانٹ ، فنچ گنج فرٹیلائزر فیکٹری ، مشرقی پاکستان کا کپتائی ڈیم ، کرنافلی ریان مل ، چٹا گانگ میں ایک بہت بڑی سٹیل مل ( جبکہ مغربی پاکستان میں ابھی صرف اسکی کاغذی کاروائی جاری تھی )، جوتوں اور کاغذ کی کئی ملیں ، سلہٹ میں پہلی بار گیس کی ایکسپلوریشن نمایاں ہیں ۔
ڈھاکہ میں اسلام آباد کی طرز پر پاکستان کے دوسرے دالخلافہ کے قیام کا آغاز کیا گیا۔
"مشرقی پاکستان کو ایوب خان نے نظر انداز کیا "۔۔ اس بات کی اصلیت اتنی ہی ہے جتنی اس کی کہ "آمریت میں پاکستان تباہ ہوتا ہے اور جمہوریت میں عوام مزے کرتی ہے "۔۔۔
سیاست دانوں کی زبانوں میں جادو ہوتا ہے ۔۔ ان کو سننے کے بعد عوام اپنی آنکھوں سے نظر آنے والی سچائیوں کو جھٹلا دیتے ہیں ۔۔ اسکا تجربہ آپکو بارہا ہوچکا ہوگا ۔۔ 71ء کی جنگ میں ایوب خان نے محاذ پر جا کر لڑنے کی درخواست کی جو مسترد کر دی گئی اس کے بعد ایوب خان گوشہ نشین ہو گئے ۔
"تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد
مکمل تحریر >>

لبرل ڈیموکریسی کا چورن


لبرل ڈیموکریسی کا چورن
::::::::::::::::::::::::::::::::

امریکہ وہ ملک ہے جہاں آج بھی عورت اس نام نہاد جنسی مساوات کی تلاش میں ہے جس کا امریکہ سب سے زیادہ پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر ٹاپ لیول پر دیکھا جائے تو امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں خواتین کی نمائندگی کچھ یوں ہے کہ 435سیٹس والے ہاؤس آف ریپریزینٹیٹیو اور اور 100سیٹس والے سینیٹ میں خواتین کی نمائندگی 20، 20فیصد ہے۔ دونوں ہی ایوانوں میں 20فیصد جیسی فکسڈ تعداد صاف بتا رہی ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس تعداد کو متعین کیا گیا ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ڈائریکٹ الیکشن میں دونوں ایوانوں کی یکساں ایوریج نکلے۔ اس کا مطلب ہے کہ ٹکٹ سے لے کر انتخاب تک ایک پورا سسٹم اس کے پیچھے رو بعمل ہوتا ہے۔ اسی امریکہ میں آج بھی عورت تنخواہ کے معاملے میں جنسی تفریق کے خاتمے کی جنگ لڑ رہی ہے۔ نیویارک میں 2015ء کے دوران جہاں مرد نے اوسط سالانہ 52124ڈالرز تنخواہ لی وہیں عورت نے 46208ڈالرز تنخواہ وصول کی۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے ہر ڈالر کے مقابلے میں عورت 89سینٹ تنخواہ لے رہی تھی اور یہ عورت اور مرد کی تنخواہ میں کسی ریاست کا کم سے کم فرق تھا۔ زیادہ سے زیادہ فرق ریاست ویامنگ کا تھا جہاں مرد نے سالانہ 55965ڈالرز تنخواہ وصول کی جبکہ عورت کے حصے میں 36064ڈالرز تنخواہ آئی جس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کے ہر ڈالر کے مقابلے میں عورت نے 64سینٹ تنخواہ حاصل کی۔ راستے پر چلتے ہوئے عورت کو آگے رکھنا، جب وہ گاڑی میں بیٹھے یا اترے تو اس کے لئے دروازہ کھولنا اور ہر نمائشی موقع پر یہ کہنا کہ "لیڈیز فرسٹ"وہ کل لولی پاپ ہے جو امریکہ یا لبرل ڈیموکریسی اس ماڈرن ورلڈ میں عورت کو دے رہے ہیں۔ جہاں بات اعلیٰ ایوانوں میں نمائندگی یا تنخواہوں میں مساوات کی آئے گی تو عورت جان لے کہ مساوات ہنوز امریکہ میں بھی دوراست۔

امریکی سسٹم کو پوری گہرائی کے ساتھ جاننے والے یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اس کے پورے نظام کو پس منظر میں بیٹھی وال سٹریٹ کی طاقتیں کنٹرول کرتی ہیں اور دو پارٹی سسٹم انہیں کا بنایا ہوا مصنوعی سیاسی سسٹم ہے جس میں دونوں پارٹیوں میں کوئی نظریاتی فرق نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے محلے کے بچے دو ٹیمیں بنا کر روز شام کو کرکٹ کھیلتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ امریکی کانگریس کا ہر رکن، ہر ریاست کا ہر گونر اور امریکہ کا ہر صدارتی امیدوار الیکشن وال سٹریٹ کے سیٹھوں سے ملنے والے چندے کی مدد سے ہی لڑتا ہے اور سیٹھ اسی کو چندہ دیتے ہیں جو نامزد بھی انہی کا ہو۔ اس جعلی نظام نے فیصلہ کیا کہ کیوں نہ ایک عورت کو بھی امریکی صدر بنانے کا تجربہ کر لیا جائے۔ اب معاشرے کی حالت یہ ہے کہ وہ عورت کو مرد جتنی تنخواہ بھی دینے کو تیار نہیں تو خوف یہ لاحق ہوا کہ ووٹر خاتون امیدوار کو مسترد ہی نہ کردے۔ چنانچہ تماشا دیکھئے کہ ریپبلکنز کی جانب سے ایک مضحکہ خیز امیدوار لایا گیا، پھر اس امیدوار سے وہ بیان دلوائے گئے جو انتہا پسندی کے خلاف امریکہ کے قومی موقف سے ہی متصادم تھے اور اب آخری مرحلے میں اس کے سکینڈلز سامنے لا کر خود ریپبلکنز نے ہی اس سے ہاتھ کھینچنے شروع کر دیئے تاکہ اس امیدوار کے جیتنے کے امکانات ہی باقی نہ رہیں اور ہیلری کی فتح یقینی ہو سکے۔ خود ہیلری کا اپنا حال یہ ہے کہ جب وہ سینیٹر تھیں تو ان کے آفس میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں میں جنسی بنیاد پر 28فیصد کا فرق تھا یعنی وہ خود بھی جنسی مساوات پر حقیقی معنیٰ میں یقین نہیں رکھتیں۔ یہ ہے وہ جعلی لبرل ڈیموکریسی جس کا چورن ہمارے لبرل زعفران قرار دے کر ہمیں بیچنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو امریکہ میں ہونے والے اس فکسڈ میچ کو بھی ایک حقیقی مقابلے کے طور پر پیش کر رہے ہیں!
(تحریر: رعایت اللہ فاروقی صاحب)
مکمل تحریر >>

ہود بھائی صاحب کے بارے میں لوگ کیا نہیں جانتے

ہود بھائی صاحب کے بارے میں لوگ کیا نہیں جانتے
:
– فزکس کے ماہرین کے ہودبھائی کی قابلیت پر زیادہ سے زیادہ اچھے کمنٹس یہی ہوتے ہیں، ذہین انسان نے اپنے آپ کو ضائع کر دیا.

– ہود بھائی تعلیم کے فروغ کے لیے کیا کرنا چاہتے ہیں، اس کا اندازہ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ان کی فزکس ڈیپارٹمنٹ کی چیئرمینی کے دور سے لگا لیں، جب آڈیٹوریم میں سیمینار کے وقت ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کی فلمیں لگائی جاتی تھیں، ان کے بقول اسی سے طلبہ کا دماغ کھلے گا.

– آج کل پاکستانی یونیورسٹیز میں پی ایچ ڈی پروگرام ختم کروانے کے لیے زور لگا رہے ہیں.

– پاکستان توڑنے کی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں، مثلا بلوچستان کی علیحدگی کی تحریک کے اکبر بگٹی کے دور سے حامی ہیں، اکبر بگٹی کے چند آخری انٹرویوز میں سے ایک ان کی بیٹی اشا امیر علی نے کیا، دیگر قوم پرست تحریکوں کے بھی وہ حامی ہیں، اور نہ صرف ان علیحدگی کی تحریکوں کے بارے میں بولتے ہیں بلکہ ان سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ڈسکشن فورم کے نام پر برین واشنگ بھی کرتے ہیں، میں خود ایسے ڈسکشن فورمز میں شریک ہوئی ہوں.

– سائنس کے فروغ کے دعوے کے ساتھ مشعل نامی این جی او چلاتے ہیں جو الحادی ادب کا اردو زبان میں سائنس کے فروغ کے نام پر ترجمہ کرتی ہے.

– بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ قرآنی آیات یا انڈیا کے خلاف مواد نصاب سے نکالنے کی رپورٹس ہود بھائی کیNGO نے بنائی تھیں.

– اکبر بگٹی کے قتل کے بعد ہود بھائی بھی تشدد کا نشانہ بنے اور کئی مہینے بینائی سے محروم رہے جو بعد میں امریکا میں علاج کے بعد واپس آئی.

– ان کی بیٹی اشا ڈان نیوز انگلش پر میزبان رہی ہیں جبکہ دوسری بیٹی الیہ امیر علیNSF پنجاب کی صدر رہی ہیں.

– نئی سیاسی جماعت عوامی ورکرز پارٹی کومنظم کر نے کے پیچھے پرویز ہود بھائی، اس کی بیٹی، اور ان کی یونیورسٹی کے رفقا خورشید حسنین، فرزانہ باری اور عبدالحمید نیّر شامل ہیں – بنیادی طور پر یہ پارٹیNSF کی ایکسٹینشن ہے جو الیہ امیر علی نے منظم کی تھی.

– کچھ عرصہ پہلے تک ہود بھائی فار پریذیڈنٹ کی تحریک چلتی رہی ہے جو ہودبھائی کیNGO نے چلائی تھی – NGO میں کام کرنے والوں کے بقول اگر یہ عوامی طور پر کچھ مقبول ہو جائیں تو عبوری حکومت میں منسٹر کی سیٹ مل جائے گی-

– پرویز ہود بھائی سیاسی طور پرMQM اورPPP کے حامی رہے ہیں.

– اسلام آباد میں قائمKhaldunia High School ان کی سابقہ بیوی ہاجرہ احمد کا ہے، اس اسکول کے لیے ہودبھائی نے اسلام آباد میںCDA سے انتہائی سستی زمین کوڑیوں کے بھاؤ قسطوں پر حاصل کی.

– قائداعظم یونیورسٹی کی رہائشی سکیم کی انھوں نے کھل کر مخالفت کی، اس تحریک کو وہ اپنے حالیہ انٹرویو میں اپنی زندگی کی واحد کامیابی بتاتے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ ہودبھائی اپنی قسطیں بھی جمع کروا رہے تھے، قسطیں دینے کے بعد یہ سکیمG ١٤ منتقل ہوگئی، آج اس سکیم کی زمین پر پرویز ہود بھائی کا ایک کنال کا گھر ہے.

– LUMS یونیورسٹی سے ہود بھائی کو نکال دیا گیا تھا کیوں کہ وہ یونیورسٹی میں وقت نہیں دے رہے تھے. اس وجہ سےLUMS کے خلاف میڈیا پر ایک تحریک چلائی گئی. VC عادل نجم کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایک فوجی کے بیٹے اور دیوبندی مسلک کے ہیں، اس وجہ سے انھوں نے ہود بھائی کو نکالا ہے.

– یہ عادل نجم کا آخری کنٹریکٹ تھا، اس کے بعد پرویز ہود بھائی کے دست راست سید خورشید حسنین کے کزن سہیل نقوی کوVC بنوا دیا گیا.

میری پرویز ہود بھائی صاحب سے پہلی ملاقات 4،5سال کی عمر میں ہوئی، ہمارے ان کے ساتھ خاندانی تعلقات تھے. بعد میں یونیورسٹی میں ان کی شاگرد بھی رہی

مکمل تحریر >>

کیا آسیہ مسیح بے گناہ ہے؟؟؟


 کیا آسیہ مسیح بے گناہ ہے؟؟؟

_________________________________________________________________________________

کچھ سال پہلے جب سیشن عدالت نے ملعونہ آسیہ مسیح کو تعزیرات پاکستان زیر دفع 295 سی کے تحت مجرمہ قرار دیتے ہوئے موت کی سزا سنائی تو مسلمانوں کے بھیس میں چھپے بہت سے قادیانی اور ملحد تمام احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھتے ہوئے آسیہ مسیح کو مظلوم ثابت کرنے میدان میں اتر آئے۔ ہر کوئی یہ تاثر عام کرنے میں کوشاں تھا کہ مانو معزز عدالت نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور گواہ کے صرف تعصب کی بناء پر یہ فیصلہ سنا دیا ہے۔ اس قانون پر بھی کھل کے تنقید کی گئی اور قانون کو بدلنے کا مطالبہ بھی زور و شور سے کیا جانے لگا۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے ایک پمفلٹ کی شکل میں 295c کے تحت اس وقت تک درج ہونے والے تمام مقدمات کی تفصیلات چھاپ کر ان سب کے منہ کالے کردیئے۔ تفصلات کچھ یوں ہیں:

1986 سے لیکر 2009 تک اس قانون کے حوالہ سے پاکستان میں کل 964 مقدمات زیرِ سماعت آئے جن میں  479  کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔  340 کا تعلق قادیانیوں سے، 119کا تعلق عیسائیوں سے، 14کا تعلق ہندوؤں سے اور 12کا تعلق دیگر مذاہب و مسالک کے پیروکاروں سے ہے۔ ان تمام مقدمات میں اس قانون کے تحت عملا کسی کو بھی سزائے موت نہیں ہوئی۔ سوائے ایک آسیہ مسیح کے۔

کیونکہ آسیہ مسیح سے ہی تو سیشن کورٹ کی ذاتی دشمنی تھی۔ اور صرف سیشن ہی نہیں ہائی کورٹ کی بھی، کیونکہ اس سزا کو عدالت عالیہ نے بھی برقرار ہی رکھا۔

اسے غیر مسلموں کے خلاف استعمال ہونے والا قانون کہنے والو دیکھو 964میں سے 479مقدمات تو مسلمانوں کے خلاف ہی درج ہوئے۔

آسیہ مسیح کے ارتکاب و اقبال جرم کی تفصیلات ملاحظہ ہوں:

آسیہ نامی مذکورہ عیسائی عورت نے 14جون 2009ء بروز اتوار شانِ رسالت مآبﷺ میں گستاخی کی تھی۔ مذکورہ ملعونہ ننکانہ صاحب کے نواحی گائوں اٹانوالی چک نمبر 3گ ب تھانہ صدر ننکانہ صاحب کی رہائشی تھی۔ اس کا کردار پورے گائوں میں قابل اعتراض مشہور تھا۔ مادر پدر آزادی کی دلدادہ، سرعام قابل اعتراض گفتگو کرنے والی تھی۔ اس کی بڑی بہن کی شادی اس کے نام نہاد خاوند عاشق کے ساتھ ہوئی تھی۔ جس سے اس کے خاوند کے تین بچے موجود ہیں۔ جب اس کی بڑی بہن کو بچے کی امیدواری ہوئی اور زچگی کے دن قریب آئے تو آسیہ اپنی بہن کے گھر کا کام کاج کرنے اس کے گھر آگئی۔ اپنی بہن کے گھر چند دن رہائش کے دوران اس کے خاوند (جوکہ اب آسیہ کا بھی خاوند بن چکا ہے) سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے اور حاملہ ہوگئی۔ والدین نے حمل چھپانے کی غرض سے شادی کرنا چاہی تو اس نے اپنی بہن کے خاوند عاشق مسیح کے سوا کسی اور سے شادی کروانے سے انکار کردیا بلکہ بغاوت کرکے زبردستی عاشق کے گھر رہنے لگی اور عاشق اپنی بیوی کے گھر موجود ہونے کے باوجود راتیں آسیہ کے ساتھ بسر کرنے لگا۔ اس پر بیوی نے سخت احتجاج کیا تو عاشق نے مار پیٹ کر اسے گھر سے نکال دیا۔ اب اصل بیوی، بے گھر اور سالی گھر والی بن کر زندگی گزارنے لگی۔ عیسائی مذہب میں ایک بیوی کے ہوتے ہوئے دوسری شادی کرنے کی اجازت نہیں، لیکن آسیہ نے اہل دیہات اور برادری والوں کے اصرار کے باوجود عاشق کے گھر سے جانے سے انکار کردیا۔ آسیہ اور عاشق کے اس خلاف مذہب اقدام پر عیسائی برادری نے بھی سخت احتجاج کیا اور ان کا معاشرتی بائیکاٹ کرنے کی دھمکیاں دیں لیکن عاشق مسیح نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور مذہبی روایات کے برعکس نام نہاد شادی کرلی اور دونوں بہنوں کو اکھٹا اپنے گھر آباد کرلیا۔ آسیہ قدرے پڑھی لکھی اور ’’روشن خیال‘‘ عورت تھی۔ اسی روشن خیالی کی وجہ سے این جی اوز کی آنکھ کا تارا بن گئی اور علاقے میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کرنے لگی۔ دیہات میں چونکہ عورتیں کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں، لہٰذا آسیہ نے خواتین کے اس اجتماع سے فائدہ اٹھانے کے لیے یہ طریقہ اپنایا کہ عورتوں کے ساتھ مزدوری کے بہانے چلی جاتی اور اپنے ساتھ کام کرتی عورتوں کو باتوں باتوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کرتی۔

اسی معمول کے مطابق 2009- 6- 14کو گائوں کی عورتیں ادریس نامی زمیندار کے کھیتوں میں کام کرنے گئیں تو آسیہ بھی ان عورتوں میں موجود تھی۔ عورتیں عام طور پر دوپہر کا کھانا ساتھ ہی کھیتوں میں لے جاتی تھیں۔ جب عورتیں دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھیں تو آسیہ نے مافیہ بی بی اور آسیہ بی بی دختران عبدالستار کے گلاس میں پانی پی لیا۔ انہوں نے اس کے جھوٹے گلاس میں پانی پینے کی بجائے اپنا سالن والا برتن خالی کرکے اس میں پانی پی لیا۔ اس بات کو آسیہ نے اپنی توہین سمجھ کر دونوں بچیوں کے ساتھ تُو تکار کرکے مذہبی گفتگو شروع کردی۔ دوران گفتگو آسیہ نے نبی اکرمﷺ اور قرآن مجید کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ بعد میں مشنری پشت پناہی کے زعم میں مسلمان و عیسائی پنچائیت، پولیس اور سیشن عدالت کے سامنے اپنے کہے ہوئے الفاظ کا اعتراف کیا۔ اور جب فاضل عدالت نے کسی بھی بیرونی طاقت کے رعب میں نہ آتے ہوئے موت کی سزا سنا دی تو موصوفہ کے چودہ طبق روشن ہوئے اور لگیں اپنے بیان سے مکرنے۔

فاضل عدالت نے تو غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا فیصلہ  سنا دیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے پر عمل درآمد کروانے جتنی غیرت ہم میں ہے یا سارےچوڑیاں پہن کر بیٹھے ہیں۔

آخر میں اس کیس اور قانون سے جڑے دو اعتراضات کی دوائی بھی نوٹ فرما لیں۔ کہا جاتا ہے کہ جب کسی کو بھی اس قانون کے تحت سزا نہیں ہوئی تو یقیناً آج تک درج کیے جانے والے تمام مقدمات ہی جھوٹے تھے۔ اب ایسے میں مقدمے کی کارروائی کے دوران جتنا عرصہ ان بے گناہوں کو جیل میں رہنا پڑا، اس کا کون ذمے دار ہے؟ لہٰذا اس قانون میں ترمیم لانی چاہیے۔ اور جب تک جرم پوری طرح ثابت نہ ہو جائے، کسی کو گرفتار نہیں کرنا چاہیے۔

تو عرض یہ ہے کہ مقدمہ چاہے جو بھی ہو، ملزم کو اس کی کارروائی کے دوران قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی ہی پڑتی ہیں۔ لہٰذا اس بناء پر اگر تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہو تو پھر ہر قانون میں اسی تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہوگا۔ اور صرف پاکستان ہی نہیں، پوری دنیا کے ہر قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کرنا ہوگا، کیونکہ حال ہی میں ایک کالا انگریز غالباً بیس سال قید رہنے کے بعد امریکی عدالت سے بے گناہ ثابت ہوا ہے۔

اور رہی بات گستاخ رسول ایکٹ کے تحت درج ہونے والے مقدمات میں تمام لوگوں کے بے گناہ ثابت ہونے کی تو بے گناہ ثابت ہونے کا مطلب صرف یہی نہیں ہوتا کہ ملزم نے جرم کیا ہی نہیں۔ گواہ دبائو میں آجاتے ہیں۔ ثبوت بدل دیئے جاتے ہیں۔ مجسٹریٹ بک جاتے ہیں۔ کیا ہے جو ہماری عدالتوں میں نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں مذکورہ قانون میں درکار گواہان اور ثبوتوں کا معیار اتنا بلند ہے کہ عام طور پر اس درجے کے ثبوت اور گواہ پیش کر پانا ہی ممکن نہیں ہوتا۔ آسیہ ملعونہ تو یورپ اور پوپ کی پشت پناہی کے بھرم میں اعتراف گناہ کرکے ماری گئی۔ اور ان شاء اللہ یہی حال ملحدوں کا بھی ہوگا۔

اور اب سب سے آخری اعتراض کہ گستاخ نبی کی سزا موت ہے بھی کہ نہیں۔ تو جواب پیش خدمت ہے حدیث مبارکہ سے:

عن علی بن ابی طالب قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم من سب نبیا قتل و من سب اصحابہ جلد(الصارم المسلول صفحہ۹۲،۲۹۹)

ترجمہ:
حضرت علی سے روایت ہے کہ نبی صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کسی نبی کو برا کہے اسے قتل کیا جائے اور جو صحابہ کو برا کہے اسکو کوڑے لگادئے جائیں۔

اسے کہتے ہیں رحمت اللعالمین۔ صرف زندوں کے لیے نہیں، پردہ فرما چکے انبیاء علیہم السلام کے لیے بھی رحمت تھے میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم۔ انبیاء کی عصمتوں و عظمتوں کی تعلیم ہی نہیں دی، پاسبانی بھی فرض فرما دی سب مسلمانوں پہ۔ اگر 295c میں تمام انبیاء علیہم السلام کی شان میں گستاخی کی سزا موت نہیں تو یہ قانون ہرگز اسلامی نہیں ہے۔ میں تو کہتی ہوں انبیاء علیہم السلام کے غلاموں کی بے ادبی کی سزا بھی عبرت ناک موت ہونی چاہیے۔ کوئی ہوتا کون ہے ان مقدس ہستیوں پر بھونکنے والا، جنہوں نے انسانیت کی نجات کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈالیں، طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائیں، جنگیں لڑیں، فاقے کیے اور اپنے جان و مال سب کچھ لٹائے۔ تمہاری کم علمی کی سزا ہم اپنے پیارے انبیاء علیہم السلام کو اذیت دے کر کیوں دیں بھئی؟ تمہیں ہی واصل جہنم کیوں نا کر دیں بے دلیل بھونکنے پر؟

میرا عنوان تھا "کیا آسیہ ملعونہ بے گناہ ہے؟؟"تو صرف عیسائی، ملحد بھائی بھائی گروپس میں ایک بار جھانک کے دیکھ   لیں، سینکڑوں آسیائیں آپ کو آسے پاسے نظر آئیں گے اور گی۔burn quran لکھ کر یوٹیوب پہ سرچ کروا لیں، ہزاروں عیسائی، ملحد دنیا کے ہر کونے میں قرآن جلاتے مل جائیں گے۔ یہ غیر مسلموں کا عام وطیرہ ہے۔ یہ سب کے سب نہ سہی، لیکن ان کی اکثریت گستاخانہ حرکات کرتی ہی ہے۔ اور آسیہ ملعونہ انہی میں سے ایک گستاخ ہے۔

و آخر دعونا ان الحمد اللہ رب العالمین

مکمل تحریر >>

Thursday, 22 March 2018

منکرین حدیث کے لئے لمحہ فکریہ

منکرین حدیث کے لئے لمحہ فکریہ
حدیثِ موسی علیہ السلام کا انکار فرعونیت (کفر) ہے، تو حدیثِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا عین اسلام ہو گا؟

یاد رہے کہ قرآن کے مطابق سیدنا موسی علیہ السلام کو کتاب چالیس راتوں کی میقات میں دی گئی۔ (الاعراف 103تا 166)۔ اور فرعون اس سے پہلے ہی غرق ہو چکا تھا۔ اس نے کسی منزل من اللہ کتاب یا وحیِ متلو کا انکار نہیں کیا تھا،بلکہ وحیِ غیر متلو یعنی حدیثِ موسی علیہ السلام کا انکار کیا تھا اور دنیا کا سب سے بڑا ملعون ٹھہرا، تو کیا حدیثِ محمد رسول اللہ ﷺ کا انکار کرنے والے، بلکہ استہزاء و تحقیر کا نشانہ بنانے والے بدستور مسلم رہیں گے؟ امام بخاریؒ کی فقاہت پر قربان جائیے کہ اپنی صحیح کا آغاز ہی انہیوں نے وحیِ غیر متلو کے قرآنی اثبات سے کیا ہے۔ کتاب بدء الوحی کا پہلا
باب باب كيف كان بدء الوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہی یہ آیت ذکر فرما دی؛
وقول الله عز و جل ذكره { إنا أوحينا إليك كما أوحينا إلى نوح والنبيين من بعده } / النساء 163 /
اور اللہ جل و جلالہ کا یہ فرمان کہ ہم نے آپ ﷺ کی طرف (بھی ایسے ہی) وحی کی،جیسے سیدنا نوح علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف کی تھی۔ (النساء 163)۔"
اب بتایا جائے کہ سیدنا نوح علیہ السلام نے کونسی کتاب اپنی قوم پر پیش کی تھی، جس کے انکار پر عذاب نازل ہوا؟ اسی طرح سیدنا لوط، سیدنا ہود، سیدنا صالح اور سیدنا  شعیب علیہم السلام پر کونسی کتب نازل ہوئی تھیں۔ یہ اقوالِ انبیاء ہی تھے، جن کا انکار کفر ٹھہرا اور اس کفر کے سبب عذاب کا نزول ہوا۔
مکمل تحریر >>

سوشل ازم اور کمیونزم کی خرابیاں



1.پہلی برائی سوشلزم اور کمیونزم کے پرچارک مارکسسٹ ‛خود نہیں جانتے کے سوشلزم کیاہوتا ہے۔ حتی کہ ستر سال تک سوشلزم کہ نام جس نظام کی پوجا کرتے رہے جونہی وہ نظام اپنی موت مرا کہنے لگے کہ یہ تو سوشلزم تھا ہی نہیں۔ جس نظام کو قائم کرنے کے لیے کروڑوں انسانوں کو قتل کیا گیا جب وہ نظام نافذ ہو کر موت سے دو چار ہو گیا تو کہنے لگے ‛ ہم نے سوشلزم کی جگہ کوئی اور نظام غلطی سے نافذ کر دیا تھا۔ معذرت چاہتے ہیں اب ہمیں دوبارہ موقع دیا جائے ہم صحیح نظام نافذ کریں گے۔
جب تک یونائیٹڈ سوویت سوشلسٹ ریپلکن موجودتھی کسی ایک بھی سرخ سویرے کے حامی نے نہیں کہا کہ یہ نظام سوشلزم نہیں ہے۔ جس نظام کو ستر سال تک پوجنے کہ بعد آدمی کو پتہ نہ چلے کہ یہ وہی نظام تھا یا کوئی اور اس نظام کے بارے میں اب کیسے معلوم ہو سکے گا کہ یہ وہی ہے۔ اب جو تخیلاتی پروازیں کی جارہی ہیں اگر یہ کہیں حقیقت کا روپ دھار لیں اور اگلی صدی گزرنے پر یہ غیر فطری نظام بھی اپنی موت آپ مر جائے پھر کیا ضمانت ہوگی کہ آپ پھر سے یہ کہنا شروع کر دیں کہ یہ سوشلزم نہیں تھا غلطی سے کچھ اور نافذ ہو گی تھا
2. سوشلزم انتہائی غیر فطری اور نا قابل عمل نظام ہے۔ کہتے ایک وقت آئے گا کہ سارے سرمایہ دار خود ہی سر مائے سے تنگ آکر سرمایہ داری چھوڑ دیں گے اور پھر ایک نئی صبح طلوع ہو گی جس میں سب انسان پرانے سرمایہ اور مزدور مل کر محنت کش بن جائیں گے اور بغیر کسی لالچ کہ پیداواری عمل کا حصہ بن جائیں گے۔
3. ڈاکٹر‛ انجنئر ‛مزدور ‛ مکینک‛ سیاستدان‛ وکیل ‛جج‛پارلیمنٹرین سب برابر معاشی مراعات لیں گے۔ یہ بات جس قدر کم مراعات یافتہ طبقے کے لیے پر کشش ہے اتنی ہی غیر فطری اور ناقابل عمل ہے۔ ہر شخص زندگی میں آسائشیں حاصل کرنے کے لیے محنت کرتا ہے۔ اگر اسے معلوم ہو کہ محنت سے راتوں کو جاگ کر پڑھنے کہ باوجود مجھے اتنی ہی آسائشیں حاصل ہوں گی جو مزدور کو حاصل ہیں تو وہ کیوں کر محنت کرے گا۔ ایک دکاندار صبح سے شام تک اس لیے محنت کر رہا ہوتا ہے کہ اس محنت سے اس کا مال زیادہ فروخت ہو گا‛ اسے زیادہ منافع ہو گا۔ اگر کاروبار کو نیشنلائز کردیا جائے تو یہ دکاندار کم چور ہو جائے گا چونکہ اسے معلوم ہے کہ جتنی بھی محنت کر لوں مجھے اتنی ہی آسائشیں حاصل ہوں گی جو کم محنت کرنے والے کو حاصل ہیں۔
3. انسان کے درمیان مطلق مساوات کا نظریہ از خود نا انصافی پر مبنی ہے۔ کیونکہ تمام انسان پیدائشی اعتبار سے صلاحیتوں میں برابر نہیں ہیں بلکہ کوئی ذہین ہے تو کوئی کندذہن کوئی مضبوط ہوتا تو کوئی کمزور‛ کوئی چاق وچوبند اور کوئی سست رو‛ آپ معاشی طور پر ان کو برابر کریں گے تو ان صلاحیتوں میں آپ پھر بھی ان کو برابر نہیں کر پائیں گے ۔ اس نا برابری کو کیسے دور کر پائیں گے لہذا مطلق مساوات کا نظریہ نا قابل عمل ہے ۔ جب تک آپ قادر مطلق بن جائیں آپ مطلق مساوات قائم نہیں کر سکتے۔
4. تمام سوشلسٹ ذہن رکھنے والے لوگ مذہب بیزار ہیں ۔ کیونکہ جب تک مذہب موجود ہے سوشلزم نافذ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اسلام نجی ملکیت کا حق دیتا ہے ۔ چنانچہ زکوۃ و عشر اور مرنے والے کی وراثت کی تقسیم کے قوانین مرتب کرتا ہے جو نجی ملکیت کے بغیر ممکن نہیں. اس لیے تمام سوشلسٹ مذاہب خصوصاً اسلام کے شدید مخالف ہیں . اسلامی اقدار میں ماں, بہن بیٹی, خالہ , پھوپھی کی تمیز سکھاتا ہے جب کمیونسٹ مذہب کا خاتمہ کریں گے تو یہ تمیز مٹ جائے گی.
5. جن ملکوں میں مذہبی روایات کو کمزور کیا گیا وہاں بزرگ والدین کو اولڈ ہاوسز میں رکھا جاتا ہے اور کتوں کو بستروں پر ساتھ سلایا جاتا ہے . کیا یہ برائی نہیں ہے؟
مذہب کو کمزور کرنے کےبعد کونسی قوت ہو گی جو ہمیں بوڑھے ماں باپ کی خدمت پر مجبور کرے گی۔
مذہب سے بیزار لوگوں کے مطابق انسان اور بندر مشترکہ آباء واجداد سے "موزوں ترین کی بقاء(survival of the fittest) کے نظریے کہ مطابق معرض وجود میں آئے اور یہی نظریہ انسان میں بھی عمل پذیر ہے۔ پھر انسانوں میںsurvival Of fittest کے مطابق اگر طاقت ور کمزور پر ظلم کرتا ہے اور اسکو نیست و نابود کرتا ہے تو پھر تو یہ ایک فطری امر ہے جس کے مطابق سارے حیوانات معرض وجود میں آئے۔ پھر انسان کو انسان پر ظلم کرنے سے روکنے کے لیے آپ کے پاس کیا جواز ہے؟ کوئی جوازباقی نہیں ۔ یہ ہیں برائیاں جو سوشلزم اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔
حقیقت میں سوشلزم ایک بڑا جیل خانہ ہے جہاں انسان کو جانوروں کی طرح قید کر کے انھیں روٹی کپڑے اور مکان کی سہولیات دے کر ان سے بیگار لی جاتی ہے

مکمل تحریر >>

Monday, 19 March 2018

تاریخِ پاک و ہند اور تاریخِ اسلام

سول سروس کے امتحان میں تاریخِ پاک و ہند اور تاریخِ اسلام میرے اختیاری مضامین میں شامل تھے۔ یہ دونوں تاریخیں ایسی ہیں جن میں گذشتہ دو تین سو سالوں میں انگریز نے ایک خاص مقصد سے اسقدر جھوٹ کا اضافہ کیا ہے کہ اگر آج کوئی سچ بولنا بھی چاہیے اور تاریخ کے اصل مآخذ سامنے لا کر بتائے کہ انگریز کس قدر بددیانت اور جھوٹا ہے تو اکثریت یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے گی کہ ہم نے جو کورس کی کتابوں میں پڑھا ہے اور جو اپنے بزرگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں، کیا یہ سب جھوٹ ہے۔
تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص کرمفرمائی کی ہے اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی۔ یوں بھی ہندوستان مسلمانوں سے پہلے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا علاقہ تھا، اس لیے اس کی تاریخ کی گہرائی میں اترنے کے لیے آپ کو ایک ایسی عمر چاہیے جو صرف کتابوں میں ہی بسر ہو۔سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران میں ایک ایسی مورٔخ سے روشناس ہوا جس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔
اس کی کتاب(A History of India) میرے لیے ایک حیران کن تجربہ تھی۔ پینگوئن والوں نے اسے 1966میں چھاپا تھا۔ اس کی مولف اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر تھی۔1931میں پیدا ہونے والی رو میلا تھاپر(Romila Thaper)نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں وہ پڑھاتی رہی۔
اسے2005ء میں پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے علمی کام پر سرکاری سرپرستی نہیں چاہتی۔ رومیلا تھاپر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں گورے کی بددیانتی کی ایک بہت بڑی مثال اپنی کتاب سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں(Somantha: the many voices of history) میں پیش کی ہے۔
اس کتاب میں اس نے قدیم سنسکرت اور فارسی کے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ محمود غزنوی کی سومنات کے عظیم مندر کی تباہی، اس کے بہت بڑے بت کو توڑنا، اس کے اندر سے سونا اور دولت کا نکالنا اور اس دولت کو لوٹ کر غزنی لے جانا، یہ ساری کہانی انگریز دور میں تراشی گئی۔ انگریز دور میں ہی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر مسلمانوں کے ہاں اس کے کردار کی عظمت اور ہندوؤں کے ہاں کردار کشی کی گئی۔اس تاریخی بددیانتی کا آغاز برطانوی پارلیمنٹ کی1843کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
یہ بحث گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی،جس میں اس نے کہا تھا کہ محمود غزنوی کے سومنات کے عظیم مندر سے صندل کی لکڑی کے تاریخی دروازے اکھاڑ کر غزنی میں نصب کیئے گئے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں واپس لایا جائے۔پارلیمنٹ کی بحث کے دوران یہ ثابت کیا گیا کہ سومنات کے مندر کی تباہی دراصل ہندو قوم کی بہت بڑی توہین ہے، اس لیے دروازوں کو واپس لاکر ان کی عزت بحال کی جائے۔
انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی۔ اس کا سرغنہ کے ایم منشی تھا، جس نے گجرات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے سومنات کو پورے برصغیر کے ہندو مذہب کی عظیم علامت اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھارت کی جدوجہد کا استھان قرار دیا۔
تمام ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس کا دوبارہ تعمیر کیا جانا، محمود غزنوی کے حملوں کا منہ توڑ تاریخی جواب ہوگا۔ انگریز کی تحریر کردہ اسی تاریخ کی بنیاد پر جذباتی مسلمانوں نے بھی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر ایک اس واقعے کے دفاع پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جس کی حیثیت بہت ہی معمولی تھی۔
رومیلا تھاپر کہتی ہے کہ جب میں نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی مآخذ کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ وہاں سومنات نام کا شہر تو ملتا ہے لیکن وہاں کسی بڑے مندر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جب کہ محمود غزنوی کے ہندوستان آنے سے بہت پہلے جین مت کے تاریخی مواد سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے سومنات پر حملہ کیا اور ایک مندرکو تباہ کیا۔
اس مندر کی تباہی کو وہ مہاویرکی شیو کے اوپر فتح کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ رومیلا تھا پر حیرانی کے ساتھ تحریر کرتی ہے کہ میں نے جین تاریخ اور سنسکرت کے تاریخی مواد کو بہت تفصیل سے جانچا اور پرکھا اور ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کہیں محمود غزنوی کے مندر پر حملے اور اس کی لوٹ مار کا تذکرہ ملے، لیکن مجھے اس کا بالکل ذکر تک نہ ملا۔
جب کہ آج کے ہندو اس واقعہ کو اس قدر شدید درد اور کرب سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تاریخ کی بدترین کہانی ہو۔ محمود غزنوی کی آمد اور لڑائی کو جین اور سنسکرت کے تاریخی مآخذ ایک چھوٹے سے واقعہ کے طور پر لیتے ہیں جب کہ اس واقعہ کے سو سال بعد وہ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ تھا۔ جب کہ اس مندر کی آرائش اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر کے بارے میں جین اور سنسکرت کے مورخین بہت کچھ تحریر کرتے ہیں۔
سومنات کا شہر ہندو آبادی اور مسلمان تاجروں کا شہر تھا، جہاں ہندو راجہ نے عرب کے تاجروں کو مسجد بنانے کے لیے زمین بھی دی تھی۔ رومیلا تھا پر کہتی ہے کہ سومنات کے ایک بوہرہ مسلمان تاجر کے بارے میں ایک کتبہ اسے ملا ،جو سومنات شہر کے دفاع میں مارا گیا۔
یہ تاریخی بددیانتی کب شرو ع ہوئی۔1872میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں دو مورخیںH.M.ElliotاورEd.John Dowsonنے ایک تاریخ مرتب کی جس کا نام تھا(History of India as told by its own historians)اِس کتاب کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان ایک منقسم ملک ہے، یہ لوگ ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔
مسلمان حملہ آور خونخوار ہیں، مذہبی شدت پسند ہیں اور ہندوستان صرف انگریز ہی پر امن اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے ہر نصاب تعلیم کی کتابوں میں، دانشوروں کی گفتگو میں اور عام لوگوں کی کہانیوں میں اسی کتاب کی جھوٹی داستانیں آج بھی گونجتی رہتی ہیں۔ محمود غزنوی لٹیرا تھا، اورنگ زیب ظالم تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا، ان کے مندر تباہ کیئے، انار کلی ایک جیتا جاگتا کردار تھی، اکبر بہت روادار تھا، ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو اس برصغیر میں گردش کر رہی ہیں۔
لیکن برصغیر کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں پڑھاتا کہ مندروں کو تباہ کرنا اور ان کو لوٹنا ہندوستان کے راجاؤں کا صدیوں سے دستور رہا ہے۔’’ چھولا ‘‘اور’’ چالوکا‘‘ کا خاندان جو برصغیر کے مختلف علاقوں پر حکمران تھے، ان کی تاریخی روایات(Epigraphic account) بتاتی ہیں کہ وہ حملہ کرتے اور مندروں کو لوٹتے اور تباہ کرتے تا کہ اپنی دھاک قائم کر سکیں۔642عیسوی میں نرسمہاومِن جو ’’پالوا‘‘ بادشاہ تھا اس نے ’’چالو کا‘‘ کے دارالحکومت واپتی کو فتح کیا تو گنیش کے مندر کو تباہ کر کے مورتی وہاں سے لے گیا۔
اس کے پچاس سال بعد’’ چالو کا‘‘ کا بادشاہ ونادتیا نے مختلف علاقوں کو فتح کیا، گنیش کی مورتی بھی واپس لے کر آیا اور دیگر مندروں کو تباہ کر کے گنگا اور جمنا کی بھی کئی مورتیاںدکن لے کر آیا۔ اسی طرح کی تباہی راشترا کوتا کے بادشاہ گوندا نے پھیلائی جس نے نویں صدی عیسوی میں کنچی پورم فتح کیا اور سری لنکا سے تمام مندروں کے بت اٹھا کر شیو کے مندر میں رکھ دیے۔ اجنتا اور الورا کی بدھ عبادت گاہوں کو ختم کیا گیا اور اس میں شیو اور گنگا کی مورتیاں رکھ کر انھیں مندر بنا دیا گیا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ تاریخ میں دوسروں کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کا آغاز سکندر اعظم نے ایران میں پرسی پولس کی عبادت گاہ تباہ کر کے کیا تھا۔
سومنات کی تباہی کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے انگریز مورخین نے تاریخ میں یہ بددیانتی کی اور تحریر کیا کہ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے قدیم لا ئبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جلایا گیا۔ حالانکہ یہ لائبریری ان کی آمد سے چھ سو سال قبل مسیح میں جلا دی گئی تھی او ر اسے روم کے بادشاہ کے حکم پر جلایا گیا تھا۔
انگریز مورخین نے یہ جھوٹ تحریر کیا اور پھر جس کسی کو بھی حضرت عمر سے بغض تھا اس نے اس واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح جس کسی کو اسلام سے بغض تھا اس نے محمود غزنوی اور سومنات کے قصے کو ایسا لکھا کہ جھوٹ بھی سچ محسوس ہو۔
بحوالہ ایکسپریس اردو 17اپریل 2015،اوریا مقبول جان
11/11/16, 1:28 AM - Soldier of peace: اس تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ محمود غزنوی کا سومنات پر حملہ کرنا تو ثابت ہے مگر وہاں کے بت کو توڑنا،دولت کا لوٹنا بذات خود منصف ہندو ذرائع کے مطابق بھی ثابت نہیں ہے بلکہ خود ہندو حکمران ایک دوسرے کے علاقوں پہ حملے کر کے مندر تباہ کرتے اور دولت لوٹتے رہے۔ کچھ ترک ااور فارسی نسل کے جذباتی مسلمانوں نے مغلیہ دور میں اس کہانی کو بڑھایا چڑھایا اور محمود کو بت شکن کا لقب دے ڈالا جب کہ حقیقت یہ نہیں تھی دوسری طرف ہندؤوں نے مسلم دشمنی میں غزنوی کو لٹیرا،ظالم بنا دیا جب کہ تاریخی ذرائع اس کی تصدیق نہیں کرتے۔اب حال یہ ہے کہ خود دوسرے ہندؤوں کے مندر تباہ کرنے اور دولت لوٹنے والے ہندو بادشاہوں کو کبھی ظالم نہیں لکھا جاتا جب کہ غزنوی کو قاتل و لٹیرا بنا کے پیش کیا جاتا ہے جب کہ تاریخ یہ بات مانتی ہی نہیں۔رومیلا تھاپر کی کتاب آپ کو پی ڈی ایف فارمیٹ میں بھیج دیتا ہوں۔آپ حضرات اسے پڑھ سکتے ہیں اور دیکھیں کہ تاریخ نے کیسے غزنوی کی شخصیت کو مسخ کیا۔

مکمل تحریر >>

تاریخ ایران اور خورس اعظم یا سائرس اعظم


قبل مسیح میں جب وہ ریاست کے ایک امیر کے گھر پیدا ہوا تو فارس ایک چھوٹی سی ریاست تھی، لیکن اُس نے اپنی غیر معمولی شجاعت ، قوت اور تدبر کے باعث ایک امیر سے ترقی کرکے اپنے لیے شہنشاہوں کی صف میں جگہ پیدا کرلی۔ اُس کی قیادت میں فارس نے جنوب مغربی ایشیا ، وسطی ایشیا، یورپ کے بعض علاقے اور کوہ قاف تک فتح کرکے’’ ہخامنشی‘‘سلطنت کی بنیاد رکھی، جس کے بعد وہ آگے بڑھا اور مغرب میں بحیرہ روم اور درہ دانیال سے لے کر مشرق میں ہندوکش تک کا علاقہ فتح کرلیا۔ اس طرح اُس نے اپنے وقت کی تاریخ کی سب سے عظیم سلطنت قائم کی۔
صرف یہی نہیں بلکہ اُس نے دوسری دو بڑی سلطنتوں میڈیا اور لیڈیا کو زیر کرکے فارس کی چھوٹی سی ریاست کو ایک عظیم الشان سلطنت میں بدل دیا۔یہودی اُس دور میں سلطنت بابل کے غلام تھے، اُس نے بابل پر حملہ کیا اور یہودیوں کو بابل کی غلامی سے آزاد کراکر فارس میں لاکر تہران بالا میں آباد کیا، جس کے بعد یہودی ہمیشہ اہل فارس کے ممنون احسان رہے۔ اُس کا دوسرا بڑا کارنامہ مذہبی رواداری بھی تھا، بابل کی فتح کے بعد اس نے اسرائیلیوں کو فلسطین جانے کی اجازت دے دی اور بیت المقدس کی تعمیر ثانی کا حکم صادر کیا اوراس سلسلے میں ہر طرح کی مدد بھی فرہم کی اور وہ تمام طلائی اورنقرئی ظروف جو مذہبی طور پر مقدس سمجھے جاتے تھے اُس نے یہودیوں کے حوالے کردیے۔
بابل کے دیوتا مروخ کی قدر و منزلت کی اوراُن تمام بتوں کو جو دوسرے مقامات سے لائے گئے تھے ، اُن کی اصل جگہ پہنچادیا۔ اِنہی کارناموں اور خوبیوں کی وجہ سے تاریخ میں اُسے ’’نجات دہندہ ‘‘ اور ’’بابائے قوم‘‘ کے خطاب سے بھی پکارا گیا۔ بابائے قوم اور قوم کا یہ نجات دہندہ کوئی اور نہیں بلکہ کورش بزرگ(قورش بزرگ) تھا، جسے دنیا خورس اعظم اور سائرس اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے۔ معلوم تاریخ میں خورس یا کورش یا قورش یا سائرس کا شمار دنیا کے بڑے فاتحین میں ہوتا ہے۔
سائرس اعظم کے بعد ایران نے کئی صدیوں تک کبھی اکلوتی اور کبھی مخالف سپر پاور کے طور پر دنیا پر راج کیا،چھ صدی قبل مسیح میں بابل دنیا کی واحد سپر پاور تھا تو ایران اس کے مقابلے میں اُٹھا اور بابل کو تہس نہس کرکے تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا، مصر طاقت کے طور پر ابھرا تو اس کا مقابلہ بھی ایران کی سپر پاور سے تھا،اسکندر اعظم کی صورت میں یونان نے سپر پاور کی حیثیت حاصل کی تواُس کے سامنے بھی کوئی بڑی طاقت تھی تووہ ایران ہی تھا، اسکندر اعظم سے شکست کھانے کے باوجود ایران کی سپر پاور کی حیثیت ختم نہ ہوئی، یونان کے بعد رومی سلطنت نے طاقت پکڑی تواُس وقت بھی دنیا میں دو ہی طاقتیں تھیں، ایک روم اور دوسرا ایران تھا۔ یوں سائرس اعظم سے لے کر ظہور اسلام کے درمیانی بارہ سو سال کی تاریخ میں دوسری عالمی طاقتیں تو بدلتی رہیں لیکن ایران بطور سپر پاور اپنی جگہ پر موجود رہا۔
ساتویں صدی عیسوی میں عربوں نے اُٹھ کر کسریٰ کے محلات کو روند ڈالا تو ایران کی حیثیت بطور عالمی طاقت کا خاتمہ ہوگیا ، جس کے بعد ایران کو دوبارہ پورے قد پر کھڑے ہونے کا موقع نہ مل سکا۔عربوں نے بنو امیہ اور بنو عباس کی شکل میں آٹھ سو سال تک ایران سمیت دنیا کے بڑے حصے پربطور سپر پاور حکومت کی۔ تیرہویں صدی میں عرب کمزور پڑنا شروع ہوئے اور سولہویں صدی کے آغاز میں خلافت بنو عباس کا بھی خاتمہ ہوگیالیکن پھر بھی ایران کو اُبھرنے کا موقع نہ ملا، بلکہ ایرانیوں کے بجائے یہ ترک تھے جن کے سامنے اگلی چھ صدیوں تک دنیا سرنگوں رہی۔ لیکن حقیقت میں ایران کو جو زخم خطہ عرب سے لگے وہ ایرانی کبھی نہ بھول سکے۔ یہی وجہ ہے اسلام قبول کرلینے کے باوجودایرانیوں کے اندر سے بطور قومی عصبیت گئی اور نہ ہی کبھی ایران یہ بھولا کہ وہ ایک عالمی طاقت تھا جسے عربوں نے ختم کیا تھا۔
نو سو سال تک تو ایران کی ایک نہ چل سکی۔ ایرانیوں نے بطور ملک و قوم دوبارہ عروج سولہویں صدی عیسوی میں صفوی حکمران شاہ طہماسپ کے دور میں حاصل کرنا شروع کیا۔ صفوی حکمران اِس دوران دنیا کی واحد عالمی طاقت سلطنت عثمانیہ کے خلاف چھیڑ چھاڑ کرکے عثمانی سلاطین کو ناصرف یورپ کی جانب بڑھنے سے روکتے رہے بلکہ ایران کے روس کے ساتھ فوجی اور معاشی تعلقات بھی اس کے کچھ عرصہ بعد فروغ پانا شروع ہوگئے۔
عربوں کے ساتھ ایران کی مخاصمت کی دو وجوہات ہیں، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ایرانیوں کو ہمیشہ سے دُکھ رہا کہ عربوں کے ہاتھوں اُن کی عالمی سپر پاور کی حیثیت کا خاتمہ ہوا، دوم عربوں کی اپنی سپر پاور کی حیثیت کا خاتمہ ہونے کے باوجود عرب علاقے چار صدیوں تک اُس عثمانی سلطنت کا حصہ رہے جس کے خلاف ایران فرانس جیسے یورپی ممالک کا اتحادی رہا تھا ۔یورپ اور روس کے ساتھ اس اتحاد کا ایران کو فائدہ بھی بہت ہوا۔مثال کے طور پر عثمانی سلطنت کمزور ہونا شروع ہوئی اور روس کے ساتھ ساتھ یورپ میں استعماری قوتوں نے عالمی طاروس کے ساتھ ساتھ یورپ میں استعماری قوتوں نے عالمی طاقت کا روپ دھارکر دنیا کے مختلف ممالک کو اپنی کالونی بنانا شروع کیا تو پرتگال سے لے کر فرانس تک اور برطانیہ سے لے کر اٹلی تک کسی ملک نے ایران کی طرف منہ نہ کیا۔ ایران پہلی جنگ عظیم کی دستبرد اور دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں سے بھی اسی لیے مکمل طور پر محفوظ رہا۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو قطبوں میں بٹ گئی، اس دوران ایران اپنی کامیاب عالمی حکمت عملی کی وجہ سے کبھی امریکہ کا صف اول کا اتحادی رہا تو کبھی روس کے انتہائی قریب چلا گیا، خطے کے دوسرے ممالک کے برعکس اُس وقت کی عالمی طاقتوں نے ایران کو اپنا باجگزار بنانے یا اس پر قبضہ کرنے کا بھی نہیں سوچا۔ اسی عرصے میں ایران نے عرب علاقوں میں اپنا اثر و نفوذ بڑھانا شروع کیا تو عرب خطے میں خطرے کی گھنٹی بج گئی۔
دس سال تک لڑی جانے والی ایران عراق جنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی،اُدھر ایک جانب عرب خطے پر پانچ سو سال تک اپنے جھنڈے لہرانے والے ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط قائم ہوگئے تو دوسری جانب اردن اور مصر سمیت عرب خطہ کے بعض دیگر ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی راہ پر گامزن ہوئے تو ایران اسرائیل کے خلاف خم ٹھونک کر اور اسرائیل مخالف جذبات کا داعی بن کر میدان میں آگیا اور عرب خطے میں اپنے سیاسی اور اسٹریٹیجک عزائم واضح کردیے ۔
ایران نے خطے میں پی ایل او کے متوازی ’’حزب اللہ‘‘ کو کھڑا کیا اور یوں لبنان میں اپنے حمایتیوں کی پوزیشن مستحکم کرلی۔ایران آج بھی بحرین سے لے کر سعودی عرب تک اور عراق سے لے کر غرب اردن تک کے علاقے کو اپنی ڈھائی ہزار سال پرانی ’’ ہخامنشی سلطنت‘‘ کا حصہ سمجھتا ہے۔ اگرچہ ایران پر ایک مسلک کی چھاپ کی وجہ سے اِسے ایک مذہبی ریاست بھی قرار دیا جاتا ہے لیکن کسی خاص مسلک کو فروغ دینے کے بجائے خطے میں ایران کے مضبوط سیاسی عزائم ضرور ہیں، اپنے اِن سیاسی عزائم کو پورا کرنے کیلئے ایران مختلف ’’ٹولز‘‘ استعمال کرتا رہتا ہے، ایران کے یہ سیاسی عزائم بھی محض اپنی چودہ سو سال پرانی عظمت رفتہ بحال کرنے کا خواب پورا کرنے کیلئے ہے۔’’بحرین میں احتجاج، شام میں خانہ جنگی، عراق میں لڑائی اور یمن میں بغاوت‘‘ دراصل اسی خواب کو پورا کرنے کی کڑیاں ہیں۔
قارئین کرام!!خورس اعظم بابل پر حملہ کرنے کیلئے آگے بڑھا تو اُس کے جرنیلوں نے عرب علاقوں کے مختصر راستے سے گزرنے کا مشور دیا لیکن ڈھائی ہزار سال پہلے خورس اعظم نے اپنے جرنیلوں کو جواب دیا تھا’’عرب خطہ آگ کا صحرا ہے، آگے بڑھنا ہے تو جتنا ممکن ہوسکے، اس سے بچ کر چلو، اس کی پٹیوں پر چلو لیکن اس کے قلب سے نہ گزرنا‘‘۔بعد ازاں اپنی اس ہدایت پر خود خورس عمل نہ کرسکا اور بابل کی مہم کے کئی سال بعد خورس اعظم عرب خطے سے گزرتے ہوئے ایک مہم کے دوران میدان جنگ میں مارا گیا۔
قوموں اور ملکوں کا اپنی عظمت رفتہ کا خواب دیکھنا کوئی غلط یا بری بات بھی نہیں ، ایران کو بھی یقینا اپنی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کا خواب دیکھنے کا پورا پورا حق ہے،مگر اُس کا یہ خواب آگ کا صحرا(خطہ عرب) عبور کیے بغیر پورا نہیں ہوسکتا لیکن کیا کیا جائے کہ آگ تو آگ ہے، پھیلتی ہے تو اپنے پرائے کی تمیز اور پہچان بھول جاتی ہے۔ اہل فارس دوسروں کی تاریخ کو چھوڑیں اپنی تاریخ ہی پڑھ لیں، جب تک عربوں کی کڑوی کسیلی سن کر اہل فارس گونگے(عجمی) بنے رہے تو عظمت اُن پر برستی رہی۔
لیکن جیسے ہی ایرانی زبان کھول کر اور کوڑا لے کر عربوں پر لپکے تو آگ کے صحرا نے اُن کی عظمت کو جلاکر بھسم کردیا۔
اپنی عظمت رفتہ کے خواب ضرور دیکھیں لیکن تھوڑی سی اپنے عظیم بادشاہ خورس اعظم کی بھی سن لیں!
منقول منجانب حرف ناز،مصنف نازیہ مصطفٰی

مکمل تحریر >>

کرسٹوفر کولمبس اور تاریخی حقائق

عام طور پر لوگ کرسٹوفر کولمبس کو ایک سیاح کے طور پر جانتے ہیں۔ ہم نے بھی ساتویں یا آٹھویں کی معاشرتی علوم میں کولمبس کے بارے میں یہی پڑھا تھا۔ انکا مشہور کارنامہ امریکہ کی دریافت ہے اور یہی انکی اصل وجہ شہرت ہے ۔ بعد میں بھی ہمیشہ اخبارات اور رسائل میں کولمبس کی تعریف ہی پڑھی۔ کچھ عرصہ قبل موصوف کے بارے میں کچھ ایسے چشم کشا انکشافات پڑھنے کو ملے جس سے سخت حیرانی ہوئی، پھر اسکی تحقیق میں جت گئے۔ کافی جدو جہد کے بعدایسا معلوماتی مواد میسر آیا جس سے حقائق واضح ہوئے۔ کولمبس تیس اکتوبر 1451میں ریپبلک آف جنوا( اٹلی) میں پیدا ہوا۔ سلطنت ہسپانیہ کا تنخواہ دار ملازم رہا۔ وہ ایک تجربہ کار سپاہی اور مہم جو جہاز ران تھا۔ مگر ایک سیاح کے طور پر زیادہ معروف ہوا۔ وہ اختیارات،دولت اور دربار تک رسائی کا ہمیشہ متمنی رہا۔اس مقصد کے لئے وہ نت نئے منصوبے سوچتا رہتا تھا۔ یہی چیز اسے نئے ممالک کی کھوج اور دریافت پر اکساتی تھی۔
کولمبس ان جزائر میں سب سے پہلے ''گوانا ہانی''موجودہ ڈومنیکن ری پبلک اور ہیٹی کے علاقے میں اترا۔اسی نے ''گوانا ہانی''اور اس کے قرب جوار کے جزائر کو ہسپانوی نام ''سان سالو یڈور''دیا۔ جیسے جیسے اس کا جہاز زمین کے قریب آ رہا تھا اسکی حیرت بڑھتی جا رہی تھی ، ایک نئی، خوبصورت اور سر سبز دنیا اسکے سامنے تھی۔یہاں اتر کر کولمبس کو جو پہلی منفرد چیز نظر آئی وہ وہاں کے مقامی باشندے آرواک قبائل کے ریڈ انڈین یعنی سرخ ہندی باشندے تھے۔

جن کے بارے میں کولمبس خود اپنے روزنامچے میں لکھتا ہے:۔

''وہ ہمارے لئے رنگ برنگے پرندے، روئی کے گٹھے، کمانیں اور دوسری اشیا لے کر آئے اور بدلے میں ہم سے بیلوں کی گردن میں ڈالنے کی گھنٹیاں اور شیشے کی لڑیاں لے گئے۔ یہ لوگ اشیا کے بدلے اشیا کے تبادلے پر ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ان کے جسم مضبوط اور صحت مند ہیں۔ یہ لوگ سادہ اور جفا کش اور بے ضرر نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ تو ہتھیاروں کے استعمال کا علم ہے نہ ہی کسی ہتھیار سے مسلح ہوتے ہیں۔ جب میں نے انہیں اپنی تلوار دکھائی تو بیشتر نے اپنی انگلیوں اور ہاتھوں کو تیز دھار تلوار سے زخمی کر لیا۔ یہاں ابھی تک لوہے کا استعمال شروع نہیں ہوا ہے۔ ان کے تیر اور کمان لکڑی، گنے اور بانس سے بنے ہوئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ بہترین خدمت گار اور اچھے غلام ثابت ہونگے۔ ہم صرف پچاس لوگوں کی مدد سے تمام آبادی پر غلبہ پا سکتے ہیں۔''

یہ سطریں اس روزنامچے کا حصہ ہیں جو کولمبس اپنے اس سفر کےاہم واقعات کی یادداشت اور ملکہ کو رپورٹ دینے کی خاطر لکھتا تھا۔ان چند الفاظ نے اس داستان خونچکاں کی بنیاد رکھی جو پانچ صدیوں پر محیط ہے۔ اس تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ریڈ انڈین پر امن لوگ ، بے ضرر اور کشادہ دل لوگ تھے۔ بظاہر یہ انکی تعریف ہی تھی مگر ا ن الفاظ نے انکی قسمت پر بد نصیبی کی مہر لگا دی ۔اس تحریر نے ریڈ انڈین کے ساتھ جو کچھ کیا با لکل ویسا ہی نوم چومسکی کے تعریفی کالم کے بعد عافیہ صدیقی کے ساتھ ہوا کیونکہ ماضی اور حال کے غارت گر ان دونوں تحریروں کا مطلب خوب سمجھتے تھے۔
کچھ ماہ وہاں رہنے کے بعد 15مارچ 1493ء کو کولمبس واپس اسپین پہنچا تو اس کا رائل ایڈمرل کے طور پر استقبال کیا گیا۔ وہ سونے اور چاندی کی ڈلیاں، مکئی، طرح طرح کے پرندے،تمباکو اور دس بد نصیب ریڈ انڈین غلام ساتھ لایا ۔ کل تک جو شخص ملکہ کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا آج ملکہ اور بادشاہ کے ساتھ شاہی محل میں بیٹھا انواع و اقسام کے کھانے کھا رہا تھا اور اسے مصا حب خاص کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس موقع پر کولمبس نے ایک تحریری رپورٹ ملکہ کی خدمت میں پیش کی جسے سرکاری دستاویز کی حیثیت حاصل ہے۔ کولمبس اپنی رپورٹ میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ:۔

''ریڈ انڈین اپنے دفاع کے قابل نہیں، انکے رسم و رواج میں ذاتی ملکیت کا تصور نا پید ہے۔ ان سے کچھ بھی طلب کیا جائے وہ دینے سے انکار نہیں کر سکتے زمین اور وسائل کسی کی ملکیت نہیں بلکہ مشترکہ استعمال اور ملکیت کا قانون رائج ہے جبکہ استعمال کرنے والے بدلتے رہتے ہیں۔ موت اور نقل مکانی کی صورت میں نئے استعمال کرنے والے آ جاتے ہیں لیکن متعلقہ لواحقین کسی اثاثے پر خاندانی ملکیت کا دعویٰ نہیں کرتے۔ اگر بادشاہ اور ملکہ میری مدد کریں تو اتنا سونا لا دوں کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو اور اتنے غلام لا دوں کہ جتنے کا حکم دیا جائے گا''۔۔

اپنی چکنی چوپڑی باتوں ،سفر کے انوکھے واقعات ، اور ریڈ انڈین اور انکے علاقےسے متعلق معلومات سے لبریز گفتگو نے اپنا اثر دکھایا اور اس نے ملکہ کو راضی کر لیا کہ وہ دوبارہ اس سفر پر جانا چاہتا ہے لہٰذا اگر ملکہ اور بادشاہ اس مہم کے اخراجات کا ذمہ لے لیں تو کئی گنا دولت لا کر انکے قدموں میں ڈھیر کر دےگا۔ یوں 25دسمبر 1493کو کولمبس شمالی امریکہ کی طرف اپنے دوسرے سفر پر روانہ ہوا تو یہ اس کی زندگی کا نقطہ عروج تھا۔ بحیثیت رائل ایڈمرل اس کی کمان میں سترہ جہاز دئے گئے جن میں بارہ سو افراد بھرے ہوئے تھے جن میں ایک سےبڑھ کر ایک جہاں دیدہ جنگجو، ماہر تلوار باز، تجربہ کار تیر انداز گھوڑے، مال مویشی، بکریاں، کتے، سور، مرغیاں، اناج، بیج، عمارتی سامان، اور اسلحہ بھرا ہوا تھا۔ اگر اس قافلے اور اسکے ساتھ جانے والے سامان کا جائزہ لیا جائے تو آسانی سے سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ قبضے ، لوٹ مار اور مستقل رہائش کے مقصدسے جا رہے تھے ۔ ان جانے والوں لوگوں میں اکثریت خطر ناک جرائم پیشہ افراد کی تھی ۔ اس طرح اس مہم سے ملکہ ازابیلا نے دوہرا فائدا اٹھایا ایک تو جرائم پیشہ لوگوں سے جان چھوٹ گئی دوسرا ریڈ انڈینز کے علاقوں پر قبضہ بھی ہو گیا۔

جب کولمبس اس جگہ پہنچا تو اسے مقامی لاگ نظر نہ آئے۔ ریڈ انڈینز کے رہائشی جھونپڑے جلے ہوئے تھے اورانکی کٹی پھٹی لاشیں جا بہ جا بکھری ہوئی تھی۔ ان لوگوں کی اکثریت اس کے آدمیوں کے ہاتھوں ماری جا چکی تھی جن کو کولمبس آبادکاری کے غرض سے وہاں چھوڑ گیا تھا۔ پھر یہ سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ صدیوں تک چلتا رہا۔جہاں جہاں یہ پہنچے ظلم و بربریت کی نئی نئی داستانیں رقم کرتے گئے۔ 1494ء سے 1508ء تک یعنی پندرہ سال کے عرصے میں صرف جزائر غرب الہند میں چالیس لاکھ سے زیادہ ریڈ انڈینز قتل کئے گئے اور باقی مقبوضہ علاقوں کا حال بھی کچھ مختلف نہ تھا۔۔

مشہور مورخ ہاورڈزین لکھتا ہے:۔

''بہاماس کے ساحل پر جب کولمبس کا جہاز لنگر انداز ہوا تو اس ساحلی علاقے میں تیانو اور آرواک قبائل آباد سے۔ جو ریڈ انڈینز کے بڑے قبیلے شمار ہوتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ان قبائل کے افراد نا پید ہو گئے۔وہ پا بہ زنجیر ہوئے اور غلام بنا کر اسپین کی طرف روانہ کر دئے گئے یا قتل ہو گئے۔ ہسپانوی آبادکاروں کے ہاتھوں بہاماس اور ہیٹی کے جزائر کے ایک لاکھ سے زیادہ آرواک انڈینز تہہ تیغ کئے گئے۔ کولمبس کے لشکری ایک کے بعد ایک جزیرے میں تلواریں لہراتے ہوئے جاتے ، عورتوں کی آبروریزی کرتے ،بچوں اور بوڑھوں کو کو قتل کرتے اور جوانوں کو زنجیر یریں پہنا کر ساتھ لے جاتے، جو مزاہمت کرتا قتل ہو جاتا۔
چونکہ ہسپانوی حملہ آور لٹیروں کی قتل و غارت اور ریڈ انڈینز کی مدافعت کا آپس میں کوئی جوڑ ، کوئی مقابلہ تھا ہی نہیں اس لئے نہتے ریڈ انڈین قتل ہوتے گئے ۔سالوں تک انہیں یہ ہی سمجھ نہ آیا کہ اس ناگہانی مصیبت سے کیسے بچا جائے۔صدیوں تک امن و امان ،سکون اور مل جل کرساتھ رہنے والے لوگوں کے لئے یہ صورتحال غیر متوقع تھی۔ جن لوگوں کے جانوروں کا شکار کرنے کے لئے ڈھنگ کے ہتھیار نہ ہوں وہ بھلا جلاد صفت انسانوں سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں۔انہیں نہ تلوار، تیر اور بھالے کے بنانے اور استعمال کا پتہ تھا نہ گھڑ سواری سے آ گاہی تھی حتیٰ کہ حملہ آوروں کی زبان سے بھی ناآشناتھے۔ کریں تو کیا کریں کہیں تو کس سے کہیں؟

کولمبس کے ساتھ جانے والا عیسائی مبلغ لاکس کیسس لکھتا ہے کہ :۔

''ہسپانوی آبادکاروں نے اجتما عی پھانسیوں کا طریقہ کار جاری کیا جبکہ بچوں کو قتل کر کے ان کی لاشوں کو اپنے کتوں کے سامنے بطور خوراک ڈال دیا جاتا تھا۔ نوجوان عورتوں کی اکثریت اس وقت تک جنسی تشدد کا شکار رہتی جب تک مر نہ جاتی۔گھروں کو آگ لگا دی جاتی اور ریوڑ کی صورت میں بھاگتے غیر مسلح اور نا قابل دفاع لوگوں کا تیز رفتار گھوڑون سے تعاقب کیا جاتا اور انہیں تیر اندازی کی مشق کے لئے استعمال کیا جاتا۔ یوں چند ہی گھنٹوں میں شہر کا شہر زندگی سے عاری ہو جاتا اور ہسپانوی انکی وسیع زمینوں پر قبضہ کرتے چلے گئے۔

کیا خوب ہے کہ جمہوریت آزادی، برابری، انصاف، انسانی حقوق کےعلم بردار اسی امریکہ میں جسے کولمبس نے دریافت کیا تھا 1965تک ریڈ انڈینز اور کالے امریکیوں کو ان حقوق سے محروم رکھا گیا۔ تقریباً یہی حال آسٹریلیا میں مقامی لوگوں کا کیا گیا۔یہی طریقہ کار افریقہ میں اپنایا گیا۔اگرچہ حملہ آور مختلف قومیں تھی مگر ظلم، وحشت اور بربریت کی داستانیں ایک ہی جیسی ہیں۔ ملکہ ازابیلا ، کولمبس اور ہسپانوی درندوں کی خون آشام روحیں آج بھی استعمار کی صورت میں ساری دنیا میں دندناتی پھر رہی ہیں۔ آج امریکہ کے طول عرض میں کولمبس کی یاد میں ایک سو پانچ مجسمے، ایک سو چالیس سے زائد کتبے اور پانچ سو سے زائد ستائشی سلیں آویزاں ہیں۔ صرف یہی نہیں اسکی یادگاروں کا یہ سلسلہ اسپین ، اٹلی، جزائر غرب الہند، لاطینی امریکہ، یورپ اور شمالی امریکہ تک پھیلا ہوا ہے۔ کئی جگہوں پر ملکہ ازابیلا کے مجسمے بھی نصب ہیں جس کے ہاتھ لاکھوں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں۔ جس کی بد عہدی شکلیں بدل بدل کر مظلوموں کا پیچھا کرتی ہوئی غرناطہ سے دشت لیلیٰ تک آ گئی ہے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ آج کااستعمار اپنے محسنوں کو بھولا ہے نہ انکے کارناموں کو۔ چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک یہ مشق ستم جاری ہے۔
مسلمان فاتحین کو قاتل کہنے والے سیکولر ،ملحد،بے دین نام نہاد دانشوروں،دہریوں ،کالم نگاروں کو یہ ظلم کیوں نظر نہیں آتے۔جن کو مولوی اور مسلم دہشت گرد نظر آتے ہیں،ان سے پوچھیں کہ وہ ان دہشت گرد یورپی ہسپانوی،پرتگالی،برطانوی،ولندیزی،فرانسیسی اور روسی غاصبوں کے بارے میں کیا کہیں گے جنہوں نے پورے براعظم امریکا پہ قابض ہو کر وہاں کی ساڑھے سات کروڑ ریڈ انڈین آبادی کی نسل مٹا دی اور خود قابض ہو گئے۔یہ ظلم کیوں نہیں بیان کیے جاتے؟کیا وہ انسان نہیں تھے؟یاد رکھئے ظلم کو ظلم نہ ماننے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔
منقول

مکمل تحریر >>