Saturday, 3 March 2018

میڈیااور نام نہاد روشن خیال دانشوروں کا دوہرا معیار

  میڈیااور نام نہاد روشن خیال دانشوروں کا دوہرا معیار

کسی بھی مستند مسلم ادارہ سے جاری فتویٰ کا ملکی و غیر ملکی میڈیا  اور سیکولر ازم کے دلداہ نام نہاد  قومی اور عالمی روشن خیال دانشور کس طرح خوردبینی سے تجزیہ کرکے حسب توفیق برائی اور ملامت کا پہلو نکالتا ہے وہ ہم کئی سالوں سےبارہا مشاہدہ کرتے چلے آئے ہیں۔ کس طرح فتویٰ کی زبان کو بدل کر اپنے مفہوم اس میں ڈال کر اس کو پوچھنے والے کے سیاق وسباق سے ہٹاکر صرف اسلام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی خوردبیں، انسانیت کا حدود خواتین کا غمگسار میڈیا چند برس قبل دو بین الاقوامی غیرمسلم فتوی پر تاحال چپ سادھے ہوئے ہے۔ پہلا فتویٰ توریت کے حوالہ سے اسرائیلی علماء یہود کی جانب سے اپنے پیروکاروں کو جاری کیاگیا ہے۔ اسرائیلی اخبار معاریف میں شائع خبر کے مطابق القدس کی ہریڈیم سوسائٹیکے علماء کی طرف سے تمام یہودی خواتین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے سروں پر بڑی چادریں اوڑھیں اور اپنے جسم کو سرسے پاؤں تک مکمل طور پر ڈھاپنے کی پابندی اختیار کریں۔ فتویٰ میں موجودہ ہر قسم کے جدید لباس اسکرٹ، تنگ شلوار قمیص شامل ہیں پہننے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ صرف سیاہ رنگ کا ایسا لباس اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جو پورے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپ دے۔ بیت المقدس میں جگہ جگہ اس فتویٰ پر عمل درآمد اور اس کی تشہیر کے لئے پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ نیز ریڈی میڈ کپڑوں کے تاجروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تنگ اور چھوٹے تیار شدہ کپڑوں کی فروخت بند کردیں، کیوں کہ یہ لباس تورات کی تعلیم کے منافی اور باعث عذاب ہے۔ اس ہدایت پر عمل نہ کرنے والے تاجروں کو نہ صرف ڈرایا دھمکایا گیا ہے بلکہ ان کی دوکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی گئی ہے۔(روزنامہ صحافت، I.N.S. India) کے حوالہ سے ۳۰/۷/۲۰۱۰/۔

دوسرا مسیحی فتویٰ ویٹکن کے سینٹ پیٹرگرجا کے جانب سے گرجا گھر آنے والے زائرین کے لئے جاری کیاگیا ہے، ان کو کہاگیا ہے کہ آنے والے زائرین بہت چھوٹے اور شرمناک مختصر گرمیوں کے لباس میں اندر نہیں آئیں گے۔ اب آنے والے زائرین کو داخلہ پر روک کر حفاظتی ملازمین ان کو درست لباس میں آنے کی ہدایت کرتے ہیں۔ اس لئے آس پاس کپڑے کی دوکانوں سے لوگ اسکارف، پینٹ، رومال وغیرہ خرید کر ہی اندر جاپاتے ہیں۔ (ٹائمس آف انڈیا، دہلی ۲۹/۷/۲۰۱۰/)

حالانکہ یہ خبریں میڈیا کے ذریعہ ہی آئی ہیں مگر یہ صرف خبر کے طور پر آئی ہیں ان پر تجزیہ، تحریریں، مباحثہ، مرثیہ، حقوق نسواں اور آزادی نسواں، سیکولرزم کی دہائی اور واویلہ نظر نہیں آئے، کیوں؟

اس سوال کا جواب  بطور خاص ہمارے دانشوروں (بالخصوص فیس بکی دانشوروں)اور میڈیا دونوں پر قرض ہے۔ اور خواتین کے لئے لمحہٴ فکریہ بھی ہے کہ ایک طرح کے احکامات پر دو پیمانہ کیوں؟

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔