Saturday 17 March 2018

تمام مخلوق کو اللہ تبارک و تعالی نے پیدا کیا ہے اسمیں کوئی شک نہیں وہ اسکا مالک ہے ستر ماوں سے بڑھ کر اپنے ایک بندے سے محبت کرتا ہے پھر اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کو تکلیف کیوں دیتا ہے یہ زلزلہ طوفان کیوں نازل کر کے اپنے بندوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے..؟؟؟

تمام مخلوق کو اللہ تبارک و تعالی نے پیدا کیا ہے اسمیں کوئی شک نہیں وہ اسکا مالک ہے ستر ماوں سے بڑھ کر اپنے ایک بندے سے محبت کرتا ہے پھر اللہ تبارک وتعالی اپنے بندوں کو تکلیف کیوں دیتا ہے یہ زلزلہ طوفان کیوں نازل کر کے اپنے بندوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے..؟؟؟
جواب۔۔۔۔۔۔۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
کہ "مومن کے معاملہ پر تعجب ہے بے شک اس کا سارے کا سارا معاملہ بھلائی پر مشتمل ہے
اور یہ مومن کے علاوہ کسی کے لۓ نھیں ہے اگر اسے خوشی حاصل ہو تو وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے تو یہ اس کے لۓ بہتر ہے
اور اگر اسے کوئی تکلیف پھنچتی ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے لۓ بہتر ہے"۔
مسلم )2999(
تو اس سے ظاہر ہوا کہ ہماری نظر میں جن بے گناہوں پر مصا‏ئب آتے ہیں بلکہ سب لوگوں پر تو یہ ضروری نھیں کہ وہ بطور سزا ہی ہوں بلکہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے رحمت بھی ہو سکتے ہیں
لیکن ہماری عقلیں قاصر ہیں اور بعض اوقات تو ہم اس میں اللہ تعالی کی حکمت کو سمجھنے سے ہی عاجز آجاتے ہیں – یا تو ہم اس پر ایمان لائیں کہ بیشک اللہ عزوجل ہم سے زیادہ عادل اور عالم اور اپنی مخلوق پر ‎زیادہ رحم کرنے والا ہے اور ہم اس کے سامنے سر خم تسلیم کر دیں
اور اس پر راضی ہو جائیں اور اپنے عاجز ہونے کا اقرارکریں کہ ہم اپنے آپ کی حقیقت کا بھی علم نھیں رکھتے اور یا پھر اپنی قاصر عقلوں کے ساتھ بڑا بنیں اور فخر کریں
اور اپنی کمزور جانوں کے ساتھ دھوکہ کھاتے پھریں اور انکار کریں اور اللہ تعالی کامحاسبہ اور اس پر اعتراض کریں اور ایسی بات کسی مومن کے دل میں نھیں آ سکتی جو کہ اس پر ایمان رکھتا ہے
کہ اللہ تعالی موجود ہے اور وہ رب اور خالق اور مالک اور ہر لحاظ سے مکمل حکمت والا ہے اور اگر ہم نے ایساکام کیا تو ہم نے اپنے آپ پر اللہ تعالی کے غیض غضب کو دعوت دی اور اللہ تعالی کو کوئی نقصان نھیں دے سکتے
تو اسی لۓ اللہ تعالی نے اس پر تنبیہ کرتے ہوۓ فرمایا ہے:"وہ اپنے کاموں کے لۓ )کسی کے آگے( جواب دہ نھیں اور سب )اس کے آگے( جواب دہ ہیں" –الانبیاء
اگر کوئی ایسا انسان ہو جس کے بہت احسانات ہوں لیکن بعض اوقات وہ احسان نہ کرے تو اس کے احسان کوبھلانا انکار اور غیر پسندیدہ فعل شمار کیا جاتا ہے تو اللہ تعالی کے متعلق کیا خیال ہے
اور اس کے لۓ اچھی اچھی مثالیں ہیں تو اس کے اس جہاں میں سب کے سب تصرفات خیر اور بھلائی پر مشتمل ہیں
اور کسی عمل کا کسی بھی وجہ سے شر پر مبنی ہونا ممکن نھیں
-اور یہ بھی کہ
انبیاء اور رسول اس کی مخلوق میں سے سب سے زیادہ آزمائش اور مصائب کا شکار ہوتے ہیں تو یہ کیوں ؟
تو یہ انھیں بطور سزا اور اپنے رب کے ہاں ان کی قدر وقیمت کم ہونے کے سبب سے
نھیں لیکن اللہ تعالی انسے محبت کرتا ہے تو اس نے ان کے لۓ ان کا مکمل طور پر اجر جمع کیا ہوا ہو تاکہ وہ اسے جنت میں حاصل کر سکیں اور ان پر یہ مصائب اس لۓ لکھے ہیں تا کہ ان کے درجات کو بلند کرے تو اللہ سبحانہ و تعالی جوچاہے اور جب چاہے کرے اس کے حکم کو رد کرنے والا کوئی نھیں ہے
اور وہ حکمت والا اور علم والا ہے اور اللہ تعالی زیادہ علم اور بلند اور حکمتوں والا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک دنیا کی تکلیفوں کی بات ہے تو یہ تین وجوہات میں آتی ہیں۔آزمائش،تنبیہ،عذاب۔کائنات کی بنیاد کچھ اصولوں پہ رکھی گئ ہے۔دنیامیں کچھ مصائب آزمائش کے لیے آتے ہیں۔اس سے مراد اہل ایمان کے ایمان کو پختہ کرنا اور ان کے مراتب کی بلندی ہوتا ہے جیسا کہ اللٰہ تعالٰی  کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ جب قیامت کے دن دنیا میں تکلیفوں کے جھیلنے والوں کو ان کی تکلیفوں کا اجر دیا جائے گا تو لوگ کہیں گے کہ کاش یہ اجر ہمیں بھی ملتا چاہے ہمارے جسموں کو دنیا میں قینچی سے ادھیڑ ا جاتا۔ترمذی شریف
دوسری بات یہ ہے کہ جب کوئ بچہ بگڑنے لگتا ہے تو اسے اس کے والدین اور اساتذہ راہ راست پہ لانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں،اسے کبھی زبانی طور پہ اور کبھی ہلکی سزا دے کے اسے تنبیہ کرتے ہیں کہ یہ کام اچھا نہیں،اس طرح جب انسان کے اعمال اس کے خالق کے فرمان کے خلاف ہوتے ہیں تو اس کا خالق اسے مختلف مصائب میں مبتلا کر کے تنبیہ کرتا ہے تا کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو۔
تیسری بات یہ ہے کہ جب جسم کا کوئ حصہ سرطان زدہ ہوجاتا ہے یا جسم کے کسی حصے پہ پھوڑا نکل آئے تو بچہ یا مریض جتنا چیخے چلائے وہ پھوڑا کاٹنا پڑتا ہے۔اس دوران وہ بچہ خواہ ڈاکٹر اور والدین کو گالیاں دے،برا بھلا کہے،پھر بھی یہ عمل جاری رکھا جاتا ہے،اس طرح جب معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے تو قدرت کی طرف سے اس کی صفائی کا عمل کبھی کبھی عذاب کی صورت میں وارد ہوتا ہے،جس کو عقل مند عذاب اور بے عقل لوگ خدا کا ظلم کہتے ہیں نعوذ بااللہ۔لہذا اگر یہ عذاب نہ آتے تو دنیا خود کو فرعون کہلوانے والے لوگوں سے بھری پڑی ہوتی جس سے ان کی وجہ سے نا صرف امن پسند لوگ بلکہ دوسرے چھوٹے گنہگار بھی متاثر ہوتے۔لہذا دنیاوی مصائب جن کو ملحدین خدا کا ظلم کہتے ہیں نعوذ بااللہ،وہ انسان کی آزمائش،برے کاموں پہ تنبیہ اور برائ سے معاشرے کی صفائی کے سوا اور کچھ نہیں ہے جیسے سرطان یا کینسر کی جراحی یا آپریشن میں جسم کا ایک حصہ کاٹ ڈالنے سے کوئ ڈاکٹر کو ظالم نہیں کہتا،اسی طرح انسان کے گناہوں سے معاشرے کی صفائی کے عمل کو بھی خدا کا ظلم نہیں کیا جا سکتا۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا گیا کہ ہمیں کیسے پتہ چلے گا کہ یہ مصیبت ہمارے لیے آزمائش تھی یا عذاب تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ مصیبت جو تمہیں اللٰہ تعالٰی کی طرف متوجہ کر دے وہ آزمائش ہے اور جو تمہیں اس سے دور کر دے وہ عذاب ہے۔اب ملحدین کو چاہیے کہ وہ دیکھیں کہ کونسا ان کا ظلم یا گناہ تھا جس کی سزا میں اللٰہ تعالٰی نے انہیں خود سے دور کر دیا اور اپنے در سے دھتکار دیا کیونکہ دنیا کا بھی یہی اصول ہے کہ جب نوکر فرمانبردار نہ رہے تو بابو صاحب اس نوکر کی چھٹی کرا کے گھر کو چلتا کع دیتے ہیں۔خود ملحدین بھی ایسا ہی کرتے ہیں جب تو خدا کی ذات پہ ظلم کا الزام کیوں

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔