Friday, 16 March 2018

غامدیت حقائق کے آئینہ میں

غامدی صاحب کا دعویٰ ہے کہ حدیث کا دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ دین کا حصہ نہیں ، یہ دین سے الگ کوئی غیر اہم شے ہے۔ دین کا کوئی عقیدہ اور عمل اس سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ اگر احادیث کی کچھ اہمیت ہوتی اور یہ بھی دین کا حصہ ہوتیں تو ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے خود رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کوئی اہتمام کیوں نہیں فرمایا؟

چنانچہ جاوید غامدی اپنی کتاب 'میزان' میں 'مبادئ تدبر حدیث' کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کی روایتیں جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پر نقل ہوئی ہیں اور جنہیں اصطلاح میں 'حدیث' کہا جاتاہے، ان کے بارے میں یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔
ایک یہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔(i)
دوسری یہ کہ ان سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے تک نہیں پہنچتا۔
حدیث سے متعلق یہی دو حقائق ہیں جن کی بنا پریہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔'' 1
ایک خطبہ حجة الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی، لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔ اسکے علاوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ۔
ذیل میں ہم سب سے پہلے غامدی صاحب کی اس پُرفریب اور مغالطہ انگیز تحریر کا تجزیہ کریں گے اور پھر اس پرجامع تبصرہ کیاجائے گا۔

مغالطہ انگیزی اور فریب دہی
1 اہل علم جانتے ہیں کہ حدیث کے اصطلاحی مفہوم میں خبر متواتر (اخبارِ متواترہ) بھی شامل ہوتی ہے، لیکن مذکورہ عبارت کے ذریعے غامدی صاحب نے اخبارِ متواترہ کو حدیث کے اصطلاحی مفہوم سے نکالنے اور اسے محض اخبارِ آحاد کے مفہوم میں محدود کردینے کے لئے لکھ دیا ہے کہ اس سے صرف وہی روایتیں مراد ہیں :
''جو زیادہ تر اخبارِ آحاد کے طریقے پرنقل ہوئی ہیں ۔''
اس طرح غامدی صاحب نے اپنے قارئین کو دھوکا اور فریب دینے کے لئے اصطلاح تو محدثین سے لی ہے مگر اُسے اپنے ذاتی معنی پہنا کر پیش کردیا ہے۔
غامدی صاحب اس بات کے عادی ہیں کہ وہ معروف دینی اور شرعی اصطلاحیں تو علماے اسلام سے لیتے ہیں مگر ان اصطلاحوں کے مفاہیم بدل کر اُنہیں اپنے من پسند معنی پہناتے ہیں ۔ یہی حرکت انہوں نے 'سنت' کی دینی اصطلاح کے بارے میں بھی کی ہے اور اس کے اصطلاحی مفہوم کو چھوڑ کر اپنا یہ اختراعی مفہوم مراد لے لیا ہے کہ
''سنت سے ہماری مراد دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید واصلاح کے بعد اوراس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایاہے۔''2
اسی طرح دیگر دینی اصطلاحات کے ساتھ بھی وہ یہی سلوک کرتے ہیں ۔ ایک طرف وہ شرعی اصطلاحوں کے اصلی مفاہیم سے انکاری ہیں مگر انہی اصطلاحات کے استعمال پر مُصر ہیں ۔ ان کا حال یہ ہے کہ منکر ِ مَے بودن وہم رنگ ِ مستان زیستن

2 غامدی صاحب نے مذکورہ عبارت کے ذریعے اپنے قارئین کو دوسرا یہ دھوکا اور مغالطہ دینے کی سعی فرمائی ہے کہ اُنہوں نے شروع ہی میں یہ کہہ دیا ہے کہ وہ آگے چل کر جن باتوں کادعویٰ کریں گے اور جو کچھ اپنے جی سے بیان کریں گے، وہ از خود اتنی واضح اور مبنی برحقیقت ہوں گی کہ کوئی صاحب ِعلم نہ تو اُن سے اختلاف کرسکتا ہے اور نہ اُن کو ماننے سے انکار کی جرا ء ت کرسکتا ہے؟ جبکہ اُن کے کسی دعوے کوتسلیم کرنا کسی صاحب ِعلم پر لازم نہیں اور وہ غامدی صاحب کی کسی بھی بات سے اختلاف کا حق رکھتا ہے، کیونکہ شریعت اسلامیہ میں اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا ہر شخص سے اختلاف کی گنجائش ہے اور اس حوالے سے قرآن و سنت کی نصوص کی تصریحات موجود ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا غامدی صاحب معصوم عن الخطا ہیں کہ اُن کی کسی بات میں غلطی کا کوئی امکان نہیں ؟ یاوہ وحی کی زبان میں گفتگو فرماتے ہیں کہ ان سے دوسرے اہل علم کو اختلاف کی مجال نہیں ؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کس برتے پر اپنے خیالات اور دعاوی کے بارے میں کہتے ہیں کہ
''یہ دو باتیں ایسی واضح ہیں کہ کوئی صاحب ِعلم اُنہیں ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔''
گویاہر صاحب ِعلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ غامدی صاحب کے رطب و یابس پرآمنا وصدقنا کہے، ورنہ اُسے صاحب ِعلم ہونے کے اِعزاز سے محروم ہونا پڑے گا۔

3 مذکورہ تحریر کے ذریعے غامدی صاحب یہ مغالطٰہ اور دھوکا بھی دینا چاہتے ہیں کہ پہلے تو وہ جوش میں آکر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔''
لیکن پھر اُن کو جلد یہ خیال آجاتا ہے کہ اتنا بڑا جھوٹ تو کسی عام پڑھے لکھے آدمی کو بھی ہضم نہیں ہوگا، اس لئے وہ اس عبارت کے نیچے فٹ نوٹ میں دبے لفظوں کے ساتھ لکھ دیتے ہیں کہ
''ایک خطبہ حجة الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (حدیث کو) دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی۔''
پھر چونکہ اس حوالے سے بھی اُن کے اپنے مذکورہ بیان کی تردیدکا پہلو نکلتا تھا، اس لئے پھر پینترا بدل کرآگے عبارت میں یہ اضافہ کردیا کہ
''لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔''
غامدی صاحب نے ان الفاظ کا اضافہ کرکے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم الشان خطبہ حجة الوداع کی تعلیمات اور اَحکام کی اہمیت گھٹانے کی سعی ٔ نامراد فرمائی ہے۔ وہ خطبہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں صحابہ کرام ؓ کے مجمع کے سامنے دیا جو انسانی حقوق کا سب سے بڑا منشور (Charter) ہے اور جو دین اسلام کامکمل پیغام ہے۔ غامدی صاحب اُسے یہ کہہ کر ٹھکرا رہے ہیں کہ
''لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں ۔''
آخر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اورفرامین و احکام کی یہی حیثیت ہے کہ ان کو مذکورہ گستاخانہ الفاظ میں بیان کیا جائے؟

4 مذکورہ حوالے کے ذریعے غامدی صاحب نے دوسروں کو چوتھا یہ مغالطٰہ اور فریب دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ آگے اسی فٹ نوٹ میں فرماتے ہیں کہ
''اس کے علاوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں ۔''
ان الفاظ سے غامدی صاحب دوسروں کو یہ باور کراتے ہیں کہ وہ کسی بھی بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں جو تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور ہو۔
لیکن سوال یہ ہے کہ جو شخص بخاری اور مسلم کی متفق علیہ اور صحیح احادیث کو کچھ اہمیت نہ دیتا ہو اور اُن کو ماننے کے لئے ہرگز آمادہ نہ ہو، وہ 'تاریخ کے کسی مستند ماخذ' کو کیسے مان کر دے گا؟ جس آدمی کا نظریہ یہ ہو کہ''کسی چیز کو بھی خواہ وہ حدیث کی اُمہاتِ کتب بخاری و مسلم اور مؤطا امام مالک رحمة اللہ علیہ ہی میں کیوں نہ بیان ہوئی ہو، آپ کی نسبت سے ہرگز کوئی اہمیت نہ دی جائے۔''3
تو کیا جو آدمی بخاری اور مسلم کی روایات کونہیں مانتا، وہ ابن خلدون اور طبری کی کتب تاریخکو مان لے گا؟ جو شخص اِجماعِ قطعی سے ثابت شرعی احکام کو تسلیم نہیں کرتا ، وہ طبقاتِ ابن سعد اور تاریخ مسعودی کو کیسے تسلیم کرلے گا؟

قارئین کرام ! میں اصل موضوع پر بحث کرنے سے پہلے تمہید کے طور پر غامدی صاحب کے اندازِبیان کے دجل وفریب کاپردہ چاک کررہا ہوں تو اس سے میرا مقصود صرف یہ ہے کہ میں آپ کو اس شخص کے 'طریق واردات' سے آگاہ کردوں جو ''زخرف القول غرورًا'' کے مصداق اپنے مخاطب کو فریب دینے کا عادی ہے۔
اب ہم اصل بحث کی طرف آتے ہیں ۔ غامدی صاحب کادعویٰ ہے کہ
''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (احادیث) کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔''
ہمارا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو احادیث سننے، ان کو حفظ کرنے اور ان کی کتابت و تحریر کرنے کی تاکیدفرمائی اورایسا کرنے والوں کے حق میں دعا فرمائی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفظ اور کتابت دونوں ذرائع سے کام لیتے ہوئے احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ و اشاعت کا اہتمام فرمایا۔
پھر چونکہ احادیث کا زیادہ حصہ عمل سے متعلق تھا۔اس لئے {اَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ} ''رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کروـ۔'' کے قرآنی حکم کے مطابق صحابہ کرامؓ نے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی کام کرتے دیکھا، اُسے ویسے ہی کرنا شروع کردیا اور یہ سلسلہ نسل در نسل آگے چلتا گیا۔ اس طرح فعلی احادیث کاکثیر ذخیرہ عملی طور پر اُمت کو منتقل ہوگیا جو آج تک اُمت ِمسلمہ میں جاری وساری ہے۔ حدیث کی حفاظت اور اس کی نشرواشاعت کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات درج ذیل ہیں :
1.سنن ابو داؤد (کتاب العلم) میں حضرت زید بن ثابتؓ سے مرفوع روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ
سمعت رسول اﷲ! یقول: (نَضَّر اﷲ امرء سمع منا حدیثًا فحفظه حتی یبلغه...)4
''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ''اللہ اُس شخص کو تروتازہ رکھے جو ہم سے حدیث سنے، پھر اُسے یاد اور محفوظ رکھے اور پھر اُسے دوسروں تک پہنچا دے...''
گویا اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہر شخص کے حق میں دعا فرمائی ہے جو آپ سے حدیث سن کر اُسے یاد رکھے اور پھر دوسرے لوگوں تک پہنچائے۔
.2 اُسی طرح جامع ترمذی میں بھی حضرت زید بن ثابت انصاریؓ سے مرفوعاً مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ
(نَضَّر اﷲ امرأً سمع منا حدیثًا فحفظه حتی یبلغه غیرہ...)5
''اللہ اُس آدمی کو تروتازہ اور شاداب رکھے جس نے ہم سے کوئی حدیث سن کر یادکرلی اور اُسے دوسرے تک پہنچا دیا...''
3 جامع ترمذی ہی میں ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ
(نضر اﷲ امرأً سمع منا شیئًا فبلَّغه کما سمعه، فرُبَّ مبلغ أوعٰی من سامع) 6
''اللہ تعالیٰ اجس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے مجھ سے کچھ سنا۔ پھر جیسے اُس نے سنا تھا ویسے ہی دوسروں تک اسے پہنچا دیا۔ ممکن ہے جسے بات پہنچائی جائے وہ پہلے سننے والے سے بھی زیادہ اُسے یاد رکھنے والاہو۔''
4 جامع ترمذی میں ایک اورروایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(نضراﷲ امرأً سمع مقالتي فوعاھا وحفظھا وبلغھا...) 7
''اللہ تعالیٰ اُس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری کوئی بات سنی، پھر اُسے یاد رکھ کر محفوظ کرلیا اوراُسے کسی اور تک پہنچا دیا۔''
اس کے علاوہ اسی مضمون کی احادیث حضرت معاذ بن جبل ، حضرت جبیربن مطعم اور حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں ۔
5 صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ابوشریح عدویؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے روز ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں یہ بھی فرمایا کہ
(ولیبلِّغ الشاھد الغائب) 8
''اور ضروری ہے کہ جو یہاں حاضر ہے، وہ اُس تک (میری باتیں )پہنچا دے جو یہاں حاضر نہیں ہے۔''
6 اسی طرح صحیح بخاری میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: (فلیبلغ الشاھد الغائب)9
''پس لازم ہے کہ جو یہاں پر حاضر ہے، وہ اُس تک جو یہاں حاضر نہیں ہے، (میری باتیں ) پہنچا دے۔''
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ ارشادات سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو احادیث کی حفاظت اور ان کی تبلیغ و اشاعت کی تاکید فرمائی اور ایساکرنے والوں کے حق میں باربار دُعابھی فرمائی۔

صحابہ کرامؓ اور حفاظت ِ حدیث
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالاارشادات کی روشنی میں اور ان کے احکام کی تعمیل میں صحابہ کرامؓ نے احادیث کا بہت بڑا ذخیرہ یاد کرلیا، اُسے لکھ کر محفوظ کیا، اس پر خود عمل کیا اور اسے دوسروں لوگوں تک پہنچا دیا۔
ذیل میں ہم چندمُکثِرین (بکثرت روایت کرنے والے) صحابہ کرامؓ کے بارے میں بیان کریں گے کہ اُنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہزاروں احادیث سن کر یاد کرلیں اور پھر ان کو دوسروں تک پہنچایا :
حضرت ابوہریرہؓ نے 5374 حدیثیں حفظ کرکے اُمت تک منتقل کیں ۔
1.    حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے2630 حدیثیں یاد کیں اور پھر ان کو اُمت تک پہنچایا۔
2.    حضرت انس بن مالک ؓنے 2286 حدیثیں زبانی یاد کرکے محفوظ کیں اور پھر ان کو اُمت کے حوالے کیا۔
3.    اُم المؤمنین حضرت عائشہ ؓ نے 2210حدیثیں یاد کرنے کے بعد دوسرے لوگوں تک پہنچائیں ۔
4.    حضر ت عبداللہ بن عباسؓ نے 1660 حدیثیں حفظ کرنے کے بعداپنے شاگردوں تک منتقل کیں ۔
5.    حضرت جابر بن عبداللہ انصاریؓ نے1540 حدیثیں یاد کیں اور دوسروں تک پہنچائیں ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایک مجموعہ بھی مرتب کیا۔
6.    حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے 848 حدیثیں حفظ کیں اور ان کو دوسرے لوگوں تک پہنچایا۔
جن صحابہ کرامؓ نے حدیثیں لکھیں اور ان کے مجموعے (صحیفے) مرتب کئے یا اِملا کرائے اُن کی تعداد پچاس کے قریب ہے، ان میں سے چند ایک یہ ہیں حضرت جابر بن عبداللہؓ انصاری کا صحیفہ جسے 'صحیفہ ابوزبیر' بھی کہا جاتاہے۔
i.    صحیفہ علی بن ابی طالبؓ
ii.    صحیفہ سعد بن عبادہؓ
iii.    صحیفہ عبداللہ بن عمرؓ
iv.    صحیفہ جابر بن سمرہؓ
v.    صحیفہ زید بن ثابتؓ
vi.    صحیفہ حضرت سمرہ بن جندبؓ
vii.    صحیفہ سہل بن سعد انصاری ؓ
viii.    صحیفہ براء بن عازبؓ
ix.    صحیفہ ابو ہریرہؓ ، جو صحیفہ ہمام بن منبہ رحمة اللہ علیہ کے نام سے مشہور ہے۔
یہ تفصیل جان لینے کے بعد بھی کیا کوئی معقول شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (احادیث) کی حفاظت اور تبلیغ و اشاعت کے لئے کبھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔''

کیا اخبارِ آحاد دین کا حصہ نہیں ؟
غامدی صاحب پہلے تو یہ دعویٰ فرماتے ہیں کہ
''اس (حدیث) سے جو علم حاصل ہوتا ہے، وہ کبھی علم یقین کے درجے کو نہیں پہنچتا۔''
اور پھر اس دعویٰ کی بنا پر خود ہی یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ
''اس کی بنا پر یہ ماننا تو ناگزیر ہے کہ اس سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا اضافہ نہیں ہوتا۔''
اب ہم پہلے ان کے دعوے پرگفتگو کریں گے اور آخر میں ان کے نکالے ہوئے نتیجے پرتبصرہ کریں گے۔

کیاحدیث سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا؟
حقیقت یہ ہے کہ اس بات پر تمام محدثین اور فقہاے اسلام کا اجماع اور اِتفاق ہے کہ خبر متواتر ،جو حدیث ہی کی ایک قسم ہے، اس سے علم یقین حاصل ہوتا ہے۔
غامدی صاحب جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ حدیث سے علم یقین حاصل نہیں ہوتا تو وہ ایک ایسی بات کرتے ہیں جس کا اہل علم میں سے کوئی بھی قائل نہیں ۔ باقی اب اجماعِ اُمت کے مقابلے میں تنہا غامدی صاحب کی رائے کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے؟
پھر اس بات پر تمام محدثین عظام اور فقہاے کرام کا اجماع اور اتفاق ہے کہ اخبارِ آحاد کا درجہ اگرچہ اخبار متواترہ سے کچھ کم ہے، تاہم جب وہ صحیح ہوں تو وہ بھی دین میں حجت اوردلیل ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہر طرح کے شرعی احکام اَخذہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر کوئی مسلمان اپنے وارث کے حق میں مالی وصیت نہیں کرسکتا اور نہ وہ ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرسکتا ہے۔ یہ دونوں مسلمہ اجماعی شرعی احکام ہیں مگر یہ صرف اور صرف اخبارِ آحاد سے ثابت ہیں ۔ اگر اخبارِ آحاد کو دین سے نکال دیا جائے تو پھر دین اسلام کے ۹۰ فیصد حصے کو بھی دین سے خارج کرنا پڑے گا اور اسلامی احکام و تعلیمات کوچھوڑنا پڑے گا۔
اور ہم یہ بات پورے حزم و احتیاط سے بیان کررہے ہیں ، ورنہ اصل حقیقت یہ ہے کہ اخبارِ آحاد ترک کرنے سے ہمیں پورا دین ترک کرنا پڑے گا اور اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے، کیونکہ ہمارا کلمہ اسلام (کلمہ طیبہ اور شہادتین) لا الہ اِلا اﷲ محمّد رسول اﷲ صرف اور صرف اخبارِ آحاد ہی سے ثابت ہے، ان کے سوا اس کلمے کا اثبات کسی اور ذریعے سے ممکن نہیں ۔ یہ کلمہ نہ توقرآن سے ثابت ہوتا ہے اور نہ غامدی صاحب کی بتائی ہوئی 'سنت' سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ جب کہ حال یہ ہے کہ اس کلمے کے اِقرار ہی سے کوئی شخص دین کے دائرے میں داخل ہوتا اور اس کے انکار سے وہ دین کے دائرے سے باہر نکل جاتاہے۔یہی کلمہ اسلام اور کفر میں امتیاز اور حد فاصل ہے۔اسی کو پڑھنے سے آدمی مسلمان ہوتا اور اسے چھوڑنے سے وہ کافر اور مرتد ہوجاتا ہے۔ یہ کلمہ ہمارے دین کی اساس ہے مگر اس کی بنا بھی صرف اخبارِ آحاد پر قائم ہے۔

خود قرآنِ مجید ہمیں اخبارِ آحاد کی بنیاد پر شرعی فیصلے کرنے کا مجاز قرار دیتاہے۔ وہ ہمیں ایک، دو یا چار معتبر اور عادل (ذَوَا عَدْلٍ) مسلمانوں کی خبر پر یقین کرنے کا پابند کرتا ہے اور ان کی گواہی پر حدود جاری کرنے کا حکم دیتا ہے جس کے نتیجے میں شرعی طو رپر کسی مجرم کا ہاتھ کاٹا جاسکتا ہے ۔ کسی کو پھانسی پرچڑھا کر قتل کیا جاسکتا اور کسی کی پیٹھ پرکوڑے برسائے جاسکتے ہیں ۔ پھر جب قرآنِ مجید نے اپنے نظامِ عدل و انصاف کی بنیاد غیرمتواتر شہادتوں اور اخبارِ آحاد پررکھی ہے تو قرآن کے مقابلے میں کوئی مسلمان یہ کہنے کی جسارت کیسے کرسکتا ہے کہ کسی حدیث کو حدیث ِرسولؐ یا حکم رسولؐ ماننے کے لئے تواتر کی شرط ضروری ہے اور یہ کہ ایک، دو یا چار معتبر اور عادل راویوں کی روایت پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ ان سے اُسے 'علم یقین' حاصل نہیں ہوپاتا۔ جب کہ اسلام میں صرف ایک معتبر اور عادل شخص (خواہ وہ مرد ہو یا عورت)کی شہادت پر رؤیت ہلال ثابت ہوجاتی ہے جس کے بعد شرعی طور پر مسلمانوں کے لئے دوسرے دن روزہ رکھنا یا نہ رکھنا لازم ہوجاتا ہے۔
اخبارِ آحاد میں سے ایک متفق علیہ غریب حدیث ہے کہ ( اِنما الأعمال بالنیات...) '' اعما ل کا دار ومدار نیت پر ہے۔''10

ہرمسلمان اس فرمانِ نبویؐ سے واقف ہے۔ اس حدیث کے صرف ایک ہی راوی حضرت عمر بن خطابؓ ہیں ، لیکن ساری اُمت اسے صحیح اوردرست مانتی ہے اور فقہاے اسلام اس سے مسائل کا استنباط کرتے اور استدلال میں پیش کرتے ہیں ۔
افسوس کہ غامدی صاحب ایک طرف تو حدیث کی اخبار آحاد کے بارے میں تواتر کی شرط لگاتے ہیں اور اس کے پورا نہ ہونے کی صورت میں صحیح احادیث کو 'ناقابل اعتماد' اور 'غیریقینی' ٹھہرانے لگتے ہںا اور دوسری طرف اگر اُن کو کوئی ضعیف بلکہ موضوع اور من گھڑت روایت بھی مل جائے جو اُن کی خواہش اور ہوائے نفسانی کے مطابق ہو تو اُسے وہ بلا تامل مان لیتے اور اسے دلیل کے طور پر پیش کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ چنانچہ درج ذیل حدیث بالاتفاق موضوع ہے کہ
''نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک سے واپسی کے موقع پر فرمایاتھا:
(رجعنا من الجھاد الأصغر إلی الجھاد الأکبر) 11
''ہم جہادِ اصغر (قتال فی سبیل اللہ) سے جہادِ اکبر (جہاد بالنفس) کی طرف واپس لوٹے ہیں ۔''
تو دیکھئے ایسی بے اصل اور موضوع روایت کو غامدی صاحب کس طرح مانتے ہیں ، اس سے اُن کو 'علم یقین' بھی حاصل ہوجاتاہے اور پھر اس سے استدلال بھی فرماتے ہیں ۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ
''اس امر میں کوئی شک نہیں کہ قرآن اور حدیث دونوں میں جہاد کا لفظ اپنے لغوی مفہوم میں بھی بکثرت استعمال ہوا ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دین کی دعوت و تبلیغ کا آغازکیا تو اُسے بھی جہاد کہا گیا۔ آپؐ نے مدینہ میں سربراہِ ریاست کی حیثیت سے یہود ونصاریٰ اور دوسرے مشرکینِ عرب کو دین کی دعوت پیش کی تو اسے بھی جہادکا عنوان دیا۔ ایک غزوہ سے واپسی پر اپنے ساتھیوں کو عام زندگی میں تقویٰ اور راست روی کی روش اختیار کرنے کی نصیحت کی تو اسے 'قتال فی سبیل اللہ' کے مقابلے میں 'جہادِ اکبر' قرار دیا۔ چنانچہ ان معنوں میں دین کی سربلندی کے لئے کئے گئے کسی بھی کام کو 'جہاد' کہا گیا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔''12

یہ ہے غامدی صاحب کی احادیث کے بارے میں 'تحقیقِ انیق' اور ان پر تدبر کرنے کی اصل حقیقت، جس کاوہ ڈھنڈورا پیٹتے پھر رہے ہیں ۔
اس مقام پر فارسی کا ایک قدیم شعر بہ ادنیٰ تصرف پیش کرنے کو جی چاہتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے باکمال ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو وہ گائے (کے بچھڑے) کو خدا مان لیتے ہیں مگر دوسری جانب نوح علیہ السلام کو نبی تسلیم نہیں کرتے۔ ؎
گاؤ را داری تو باور در خدائی، غامدی!
نوحؑ را باور نداری از پئے پیغمبری!
............ (جاری ہے)
________________________________________

حوالہ جات
1. میزان: ص68، طبع اپریل 2002ئ، لاہور
2. میزان: ص10، طبع اپریل 2002ئ، لاہور
3. ملاحظہ ہو غامدی صاحب کی کتاب 'میزان': ص 69، طبع اپریل2002ئ، لاہور
4. سنن ابو داؤد : 3660
5. جامع ترمذی:2656
6. رقم الحدیث:2657
7. رقم:2658
8. صحیح بخاری:104؛ صحیح مسلم:3304
9. صحیح بخاری:1741
10. صحیح بخاری:1
11. السلسلة الضعیفة للألباني:2460
12. ملاحظہ ہو:ماہنامہ 'اشراق' شمارہ دسمبر 1993ئ، ص 18

________________________________________

i. ایک خطبہ حجة الوداع کے متعلق البتہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوسروں تک پہنچانے کی ہدایت فرمائی تھی، لیکن اس کے بھی چند جملے ہی روایتوں میں نقل ہوئے ہیں۔ اسکے علاوہ کسی چیز کے بارے میں اس نوعیت کی کوئی چیز تاریخ کے کسی مستند ماخذ میں مذکور نہیں۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔