Saturday 3 March 2018

خدا کی موجودگی پر مباحثہ

 خدا کی موجودگی پر مباحثہ

پروفیسر اور طالب علم کے درمیان خدا کی موجودگی پر مباحثہ
فلسفے کے ایک ملحد پروفیسر نے کمرہ جماعت میں ایک طالب علم سے سوال کیا
پروفیسر: تم خدا پر ایمان رکھتے ہو؟
۔ طالب علم: بالکل جناب
پروفیسر: کیا خدا اچھا ہے؟
طالب علم: یقیناً۔
پروفیسر:کیا خدا طاقتور ہے؟
طالب علم: جی ہاں۔
پروفیسر:میرا بھائی کینسر سے مرگیا اس کے باوجود کہ وہ خدا سے اپنی صحت کی دعائیں کیاکرتا تھا۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ بیماروں کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر خدا نے ایسا نہیں کیا، پھر خدا اچھا کیسے ہوسکتاہے؟
طالب علم: (خاموش رہتا ہے۔)
پروفیسر:تمہارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں، کیا ہے؟ اچھا! اپنی بات پھر سے شروع کرتے ہیں نوجوان۔ کیا خدا اچھا ہے؟
طالب علم: جی ہاں۔
پروفیسر: کیا شیطان اچھا ہے؟
طالب علم: نہیں۔
پروفیسر:شیطان کہاں سے آیا ہے؟
طالب علم: خدا کی طرف سے۔
پروفیسر: ہاں ٹھیک کہا۔ یہ بتاؤ بیٹا کہ کیا دنیا میں برائی ہے؟
طالب علم: جی ہاں۔
پروفیسر: برائی ہرجگہ موجود ہے، کیا نہیں ہے؟ اور خدا نے ہرچیز بنائی ہے، ٹھیک ہے؟
طالب علم: جی ہاں۔
پروفیسر: تو برائی کو کس نے پیدا کیا؟
طالب علم: (کوئی جواب نہیں دیتا)
پروفیسر: کیا بیماری، بداخلاقی، نفرت اور بدصورتی کا وجود ہے؟ دنیا میں یہ بھیانک چیزیں پائی جاتی ہیں؟
طالب علم: جی ہاں جناب۔
پروفیسر: تو پھر انہیں کس نے بنایا ہے؟
طالب علم: (خاموش رہتا ہے)
پروفیسر: سائنس کہتی ہے کہ ہم حواس خمسہ کے ذریعے اپنے اردگرد پائی جانے والی دنیا کو جانتے اور پہچانتے ہیں۔ تو تم مجھے بتاؤ کہ کیا تم نے کبھی خدا کو دیکھا ہے؟
طالب علم: نہیں جناب
پروفیسر: اچھا یہ بتاؤ کبھی خدا کو سنا ہے؟
طالب علم: جی نہیں
پروفیسر: کیا تم نے کبھی اپنے خدا کو محسوس کیا ہے؟چکھا ہے؟ سونگھا ہے؟ کبھی خدا کا کوئی حسیاتی احساس اس معاملے میں ہوا ہے؟
طالب علم: نہیں جناب، میں خوفزدہ ہوں، میں نے ایسا نہیں کیا۔
پروفیسر: اس کے باوجود تم خدا پر یقین رکھتے ہو؟
طالب علم: جی ہاں جناب۔
پروفیسر: تجزیاتی اورتجرباتی حساب سےتو سائنس کہتی ہے کہ تمہارا خدا موجود نہیں ہے، تم کیا کہتے ہو بیٹا؟
طالب علم: کچھ نہیں، بس میرا ایمان ہے۔
پروفیسر: ایمان! اور یہی تو مسئلہ ہے سائنس کا۔

یہاں طالب علم پروفیسر پرالفاظ کا حملہ کرتا ہے

طالب علم : پروفیسر! کیا حرارت نام کی کوئی جیز ہوتی ہے؟
پروفیسر:ہاں
طالب علم:اور کیا ٹھنڈک جیسی کوئی چیز بھی ہوتی ہے؟
پروفیسر: ہاں
طالب علم: نہیں، ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
(لیکچر ہال میں اس مرحلہ پرگہری خاموشی چھاجاتی ہے۔)
طالب علم: جناب آپ کے پاس حرارت ہوسکتی ہے، زیادہ حرارت بھی حتیٰ کہ بہت زیادہ حرارت بھی، کم حرارت بھی یا حرارت نہیں بھی ہوسکتی لیکن ٹھنڈک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ ہم صفر سے نیچے منفی 458ڈگری تک بھی جاسکتے ہیں جہاں حرارت کا وجود نہیں ہوتا لیکن ہم اس سے آگے نہیں جا سکتے۔ وہاں بھی ٹھنڈک نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ دراصل ٹھنڈک ایک لفظ ہے جو ہم حرارت کی غیر موجودگی کو بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ہم ٹھنڈک کو ماپ نہیں سکتے۔ حرارت توانائی ہے جبکہ ٹھنڈک حرارت کا متضاد نہیں ہے محض اس کی غیرموجودگی کا نام ہے۔
(لیکچر ہال میں گہرا سکوت چھا جاتا ہے)
طالب علم:پروفیسر اندھیرے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا اندھیرا نام کی کوئی چیز ہوتی ہے؟
پروفیسر: ہاں! رات کیا ہے؟ اندھیرا ہی تو ہے۔
طالب علم: آپ پھر غلطی پر ہیں جناب۔ اندھیرا کسی چیز کی غیر موجودگی ہے، آپ کے پاس کم روشنی ہوسکتی ہے، عام روشنی ہوسکتی ہے، تیز روشنی ہوسکتی ہے، بہت تیز روشنی ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر جب آپ کے پاس متواتر روشنی نہیں ہوتی تو آپ اُسے اندھیرا کہتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ حقیقت میں اندھیرا ہوتا ہی نہیں ہے اور اگر ہوتا تو آپ اندھیرے کو مزید گہرا کرنے کے قابل ہوتے۔کیا ایسا نہیں ہے؟
پروفیسر: تو تم ثابت کیا کرنا چاہتے ہو نوجوان؟

طالب علم: جناب میرا مطلب ہے کہ آپ کے فلسفیانہ خیال کی بنیاد غلط ہے۔
پروفیسر: غلط ہے؟ کیا تم اس کی وضاحت کرسکتے ہو؟
طالب علم: جناب آپ کی فلسفے کی بنیاد ڈوئلٹی یعنی’’ دو‘‘ پر ہے، آپ کہتے ہیں کہ زندگی ہے تو موت ہے، ایک اچھا خدا ور ایک برا خدا(معاذ اللہ)، آپ خدا کے تصور کو محدود کررہے ہیں جیسے ایک ایسی چیز جس کی ہم پیمائش کرسکتے ہوں۔ جناب سائنس تو محض ایک خیال کی وضاحت نہیں کرسکتی۔ یہ بجلی اور مقناطیسیت کو استعمال کرتی ہے جو نظر نہیں آتے حتیٰ کہ آج تک اُن میں سے کسی ایک کو پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکی۔ موت کو زندگی کا متضاد تصور کرنا حقیقت کے برعکس ہے۔ موت زندگی کا متضاد نہیں ہے، بلکہ محض زندگی کی عدم موجودگی کا نام ہے۔ پرفسیر! اب آپ مجھے یہ بتایے کہ کیا آپ اپنے شاگردوں کو یہ پڑھاتے ہیںکہ وہ بندرسے ترقی کرتے ہوئے بنے ہیں؟
پروفیسر: اگر تم قدرتی ارتقائی عمل (نیچرل ایولیوٹری پراسس) کی بات کررہے ہو تو ہاں، بے شک میں پڑھاتا ہوں۔
طالب علم: کیا آپ نے کبھی وہ ارتقائی عمل اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟
(پروفیسر سر ہلا کر مسکراتا ہے اور محسوس کرنا شروع کرتا ہے کہ بحث کدھر جارہی ہے)
طالب علم:اُس ارتقائی عمل کو کسی نے اب تک دیکھا ہے نہ ثابت کیا ہے پھر بھی آپ وہی پڑھاتے ہیں، کیا آپ ایک سائس دان کی بجائے مبلغ نہیں ہے جناب؟
(لیکچر ہال میں اک شور سا بلند ہوتا ہے)
طالب علم: (سب کو مخاطب کرتے ہوئے) کیا آپ میں سے کسی نے کبھی پروفیسر صاحب کا دماغ دیکھا ہے؟
(قہقہے)

طالب علم: کیا کبھی کسی نے پروفیسرصاحب کے دماغ کوسُنا ہے، محسوس کیا ہے، چھوا ہے یا سونگھا ہے؟ پس، مقررہ معینہ قوانین اور اصول وضوابط کی بنا کر سائنس کہتی ہے جناب کہ آپ کے پاس دماغ ہے ہی نہیں۔ گستاخی معاف جناب، پھر ہم آپ کے لیکچرز پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں؟
(کمرہ میں گہری خاموشی چھاجاتی ہے اور پروفیسر گہری نظروں سے طالب علم کے چہرے کو دیکھتا ہے)
پروفیسر: میرا خیال ہے کہ تم یہ سب ایمان کے تناظر میں دیکھ رہے ہو۔
طالب علم: جناب۔ بالکل ایسا ہی ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان تعلق یہی ایمان ہے اور اسی کا نام زندگی ہے۔

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔